حج بیت اللہ کے حوالے سے خصوصی تحریر
اہل مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مسلمانوں نے سر زمین کعبہ کو چھوڑا اور مدینہ منورہ آ کر آباد ہوگئے۔ کعبہ سے یہ جدائی انہیں بہت شاق گزری۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کعبہ کی جدائی کو کچھ زیادہ ہی محسوس کیا وہ مدینہ شریف آ کر بیمار ہوگئے۔ جب بھی ہوش آتا تو یہ شعر پڑھنے لگ جاتے۔
الا لیت شعری ہل ابیتن لیلۃ
بواد و حولی اذخر وجلیل
وہل اردن یوما میاہ مجنۃ
وہل یبدون لی شامۃ وطفیل
’’اے کاش! مجھے پتہ چل جاتا کہ میں کبھی اس مقدس وادی میں اب رات گزار سکوں گا یا نہیں، جس میں میرے اردگرد گھاس ہوتی تھی‘‘۔
’’اور کیا میں کسی روز ’’مجنۃ ‘‘ کے چشمے پر بھی جاسکوں گا (جو مکہ میں ہے) اور کیا میں اب ’’شامہ اور طفیل‘‘ کو بھی دیکھ سکوں گا، (جو مکہ کے پہاڑ ہیں)‘‘۔
پھر مکہ کے سرداروں کو بد دعائیں دیتے۔
اللهم العن شيبه بن ربيعه وعتبه بن ربيعه وامية بن خلف کما اخرجونا من ارضنا.
(بخاری شریف، 1 : 253)
’’اے اللہ! شیبہ اور عتبہ اور امیہ پر لعنت فرما کیونکہ انہوں نے ہمیں، ہماری پیاری سرزمین سے نکالا ہے‘‘۔
شرح و تفصیل
صرف کعبہ ہی ایک ایسا محبوب ہے جس کی محبوبیت اور دلربائی کا یہ عالم ہے کہ زمین کے ہر خطے پر رہنے والا صالح مسلمان اس کا نادیدہ عاشق ہے، اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی وجہ سے اس کی زیارت کے لئے بے قرار رہتا ہے۔ جو شخص جتنا زیادہ اطاعت گزار، صاحب بصیرت، تقوی شعار اور دین کا پیروکار ہو، وہ اتنا ہی زیادہ اس کا شائق و شیدا ہوتا ہے اور دل و جان سے اس کا احترام کرتا ہے اور اس کے انوار سمیٹنا چاہتا ہے۔
چنانچہ جنہیں اس کی پہچان ہوگئی تھی وہ اس کی دید کے لئے تڑپتے رہتے تھے اور چاہتے تھے اسے ایک نظر دیکھ لیں اور دل کو تسکین دیں۔ آج بھی جنہیں نگاہ خاص اور نورانی بصیرت حاصل ہے، وہ اس کی زیارت کے لئے بے قرار رہتے ہیں اور جب قرب نصیب ہوجائے تو اسے زیادہ سے زیادہ طول دینا چاہتے ہیں تاکہ فیض کا تسلسل قائم رہے چنانچہ کوئی حطیم میں اور کوئی کعبے کے سائے میں بیٹھنا پسند کرتا ہے۔ ۔ ۔ کوئی دیوار کے ساتھ چمٹ کر روتا ہے اور کوئی اپنی ہی دنیا میں گم اسے محبت اور پیار سے دیکھتا رہتا ہے۔ دور اول سے لے کر آج تک عشق کرنے کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
جب اللہ پاک کے پیارے خلیل جناب ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے خانہ کعبہ تعمیر کردیا تو حکم ہوا، اب اعلان عام کرو اور لوگوں کو دعوت دو کہ وہ اس کا حج کرنے کے لئے آئیں۔ انہیں بتادیا گیا : گھر ہمارا ہے، تعمیر تم نے کیا ہے، تم اس کے حج کے لئے اعلان کرو گے تو قیامت تک اس کے چاہنے والے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ، والہانہ انداز میں اس کی زیارت کے لئے آتے رہیں گے۔
يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ.
(الحج، 22 : 27)
ان کی وارفتگی اور چاہت کا یہ عالم ہوگا کہ کعبہ کی حاضری کے لئے وہ راستے کی دشواری اور صعوبت کو بھی خاطر میں نہیں لائیں گے اور جیسے بھی بن پڑا پیادہ یا اونٹنیوں پر حج کے لئے آئیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ روز اول ہی کعبہ کی محبت اہل معرفت کے دل میں ڈال دی گئی تھی جو ان کے خمیر میں رچ بس گئی اور وہ اس کے دیدار کے لئے زندگی بھر بے قرار رہے اور ہر قسم کی تکالیف اور رکاوٹوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بار بار حاضر ہوتے رہے۔
جب محبت نقطۂ عروج پر پہنچ جائے تو یہی کیفیت طاری ہوتی ہے ہم ’’محبت کے نقطہ عروج‘‘ پر ذرا تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔ اس سے کعبہ کی حقیقت اور اہل معرفت کی اس کے ساتھ عشق کی وجہ بھی سمجھ میں آجائے گی۔
محبت کا نقطۂ عروج
محبت ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو انسان کو محبوب کا دیوانہ بنا دیتی ہے وہ ہر وقت اسی کے تصور میں گم رہنے لگ جاتا ہے اور ایک لمحے کے لئے بھی اس کے تصور کو اپنے ذہن سے اوجھل نہیں ہونے دیتا، گویا محبوب کی تصویر دل کے آئینے میں اتر جاتی ہے اور وہ اسے ہر وقت دیکھتا رہتا ہے۔
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
حسن وجمال اور کسی فن میں کمال، دو ایسی چیزیں ہیں جو قدر دانوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں چنانچہ جب جمال و کمال کو قدر دان مل جاتا ہے تو محبت کا آغاز ہوجاتا ہے۔ یہ محبت کسی ان دیکھی ہستی سے بھی ہوسکتی ہے، شرط صرف یہ ہے کہ پتہ چل جائے اس ہستی میں جمال یاکمال اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے پھر یہ محبت بڑھتی ہی رہتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بے قراری کی حدوں کو چھو لیتی ہے۔ اس منزل پر عاشق کا صبر و قرار لٹ جاتا ہے اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ ہزار کوشش کے باوجود بھی وہ دل پر قابو نہیں رکھ سکتا اور محبوب کے دیدار کے لئے تڑپنے لگ جاتا ہے۔ ایک ہی آروز اس کی زندگی کا مقصد بن کر رہ جاتی ہے کہ کسی طرح محبوب کا دیدار ہوجائے، اس کے لئے وہ ہر ستم سہنے اور ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔
اہل محبت کی عاشقانہ زندگی کی تین مثالیں ہم قرآن و حدیث سے بیان کرتے ہیں جن سے محبت کے نقطہ عروج کا پتہ چلتا ہے۔
1۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست
حضرت موسیٰ علیہ السلام جب محبت کی اس اعلیٰ منزل پر پہنچے تو دل پر قابو رکھنا مشکل ہوگیا، وہ کیفیت طاری ہوگئی جو ایک عاشق صادق کو حرف تمنا زبان پر لانے پر مجبور کر دیتی ہے چنانچہ آپ بھی نہ رہ سکے اور ادب کے دائرے میں رہ کر وارفتگی کے عالم میں بے ساختہ یہ درخواست پیش کردی۔
رَبِّ اَرِنِیْ اَنْظُرْ اِلَيکَ.
(الاعراف : 143)
’’اے میرے رب! مجھے اپنا دیدار کرا میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
یہ انہوں نے اس لئے کہا کیونکہ انہوں نے عشق کی انتہائی حدوں کو چھولیا تھا اور اس منزل پر پہنچ چکے تھے جہاں محبوب کی دید کے بغیر قرار نہیں آتا۔
2۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی محبت
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں فنا ہوچکے تھے یعنی فنافی الرسول کے لازوال مرتبے پر فائز تھے۔ ہر وقت تصور جاناں ہی میں منہمک رہتے اور ایک لحظہ کے لئے بھی ان کی یاد سے غافل نہ ہوتے، یہی شاداب محبت ان کی کل کائنات تھی اور اسی سے ان کے من کی دنیا آباد تھی، پیار کی خوشبو سے آباد و معطر اپنی اس دنیا سے ایک لحظہ کے لئے باہر آنا بھی انہیں گوارا نہ تھا۔ ایک روز بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے،
وَقَدْ تَغَيرَ لَوْنُه.
ان کے چہرے کی رنگت اڑی ہوئی تھی۔
فَقَالَ لَه رَسُوْلُ اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم مَاغَيَّرَ لَوْنَکَ.
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ تیرا رنگ کیوں فق ہے؟
فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اللّٰهِ مَا بِیْ مَرَضً وَلَا وَجْعٌ غَيْرَ اَنِّیْ اِذَا لَمْ اَرَکَ اِسْتَوْ حَشْتُ وَحْشَةً شَدِيْدَةً حَتّٰی اَلْقَاکَ.
’’انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ! مجھے کوئی درد یا کوئی عارضہ لاحق نہیں۔ نہ کوئی جسمانی بیماری ہے البتہ ایک بات ہے اور وہ یہ کہ کاروبار زندگی میں مصروفیت کے باعث جب آپ کی بارگاہ سے دور ہوتا ہوں اور دیدار نہیں کرسکتا تو بے قرار ہوجاتا ہوں اور تسکین حاصل کرنے کے لئے فوراً آپ کے دربار میں پہنچ جاتا ہوں اس طرح دل ناصبور کو قرار آجاتا ہے‘‘۔
ثم ذکرت الاخرة فاخاف ان لا اراک بعدک ترفع مع النبيين وانی ان دخلت الجنه فانا ادنی منزلة من منزلتک وان لم ادخل الجنه لا اراک ابدا فالامر اهم و اعظم.
’’اب ایک تصور نے میرا قرار لوٹ لیا ہے اور وہ آخرت کا تصور ہے، اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ میں آپ کو کبھی بھی نہیں دیکھ سکوں گا، وہ اس طرح کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام کے ساتھ اونچے مقامات پر فائز ہوں گے۔ اور میرا معاملہ یہ ہے کہ اگر جنت میں چلا بھی گیا تو آپ سے مرتبہ میں کم ہوں گا، اس صورت میں بھی دیدار نہیں کرسکوں گا اور اگر جنت میں داخل نہ ہوسکا تو پھر تو دیدار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پس اس تصور نے بے حال اور نڈھال کردیا ہے‘‘۔
جب اس عاشق صادق نے دل کی کیفیت بیان کی تو اس کی تسلی کے لئے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اسے خوشخبری سنائی گئی کہ وہ باصفا عاشق لوگ جنہیں محبوب کی دید کے بغیر چین نہیں آتا وہ آخرت میں بھی ان کی دید و زیارت سے محروم نہیں رہیں گے بلکہ انہیں یہ موقع عطا کیا جائے گا کہ وہ اپنے محبوب لوگوں کی زیارت کرسکیں۔
وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ.
(النسآء : 69)
’’اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں پس وہ انبیاء کرام، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے‘‘۔
3۔ اہل محبت اور ان کا عشق
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ حاضرین مجلس کو، آئندہ امت میں پیدا ہونے والے عاشقوں کے پیار بھرے جذبات، ایثار و قربانی اور محبت کی شدت سے آگاہ کرنے کے لئے فرمایا :
اِنَّ مِنْ اَشَدِّ اُمَّتِیْ لِیْ نَاسٌ يکُوْنُوْنَ بَعْدِیْ يَوَدُّ اَحَدُهُمْ لور انِیْ بِاَهْلِه وَمَالِه.
(مشکوۃ شریف : 583)
’’ہماری امت میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو ہم سے شدید محبت کریں گے، ان کی خواہش ہوگی، خواہ ان کے اہل و عیال قربان ہوجائیں، مال و اسباب اور جائیدادیں لے لی جائیں مگر انہیں ہماری زیارت نصیب ہوجائے‘‘۔
گویا وہ محبت کی اس منزل تک پہنچ چکے ہوں گے جہاں محبوب کے لئے سب کچھ قربان کرنا آسان ہوجاتا ہے اور عاشق یہ سمجھتا ہے کہ محبوب کی ایک جھلک کے لئے جائیداد مال و اسباب اور عزیز ترین چیز کی قربانی کوئی مہنگا سودا نہیں۔
ان تمام حقائق و واقعات اور انسانی جذبات محبت کے مطالعہ سے یہ ثابت ہوا کہ جب عشق اپنی انتہاء کو پہنچ جائے اور عاشق کی رگ رگ میں سما جائے تو پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب عاشق کے دل میں صبر و قرار نہیں رہتا اور وہ چاہتا ہے کہ جس سے عشق کررہا ہے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ ۔ ۔ اس کے حسن وجمال پر نثار ہو۔ ۔ ۔ اس کی اداؤں سے من کو آباد اور مسکراہٹوں سے دل کو شاد کرے۔ ۔ ۔ اس کے پاؤں پر گرے، ہاتھ چومے۔ ۔ ۔ گلے سے لگائے اور سامنے بٹھا کر ٹکٹکی باندھ کر دیکھے۔ ۔ ۔ اور پلک جھپکے بغیر اس کے حسن کے جلوے سمیٹے۔
تم سامنے بیٹھے رہو، پلکیں میری جم جائیں
حسرت ہے کہ یہ گھڑیاں جب آئیں تو تھم جائیں
کعبہ محبوب حقیقی کے حسن وجمال کا مظہر ہے
محبوب کے لئے یہ انسان کے جذبات ہیں وہ اسے دیکھنا، چومنا گلے سے لگانا اور اس کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرنا چاہتا ہے، اس ثابت شدہ حقیقت اور گذشتہ تین مثالوں سے یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے کہ کعبہ کیوں بنایا گیا؟ وہ اس طرح کہ فانی محبوب کے برعکس اللہ تعالیٰ محبوب حقیقی ہے، اہل ایمان اس سے زبردست اور بہت زیادہ محبت کرتے ہیں قرآن پاک نے بھی ان کی محبت کی لازوال کیفیت اور شدید ترین صورت کو بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری ہے۔
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّا حُبًّا لِلّٰهِ.
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے وہ اللہ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں‘‘۔
جب ثابت ہوگیا کہ وہ محبت کرتے ہیں تو پھر محبت کے تقاضوں کا پیدا ہونا بھی ضروری ہے۔ ممکن ہی نہیں کہ محبت ہو اور اس کے اظہار کے لئے عاشق کے دل میں وہ جذبات پیدا نہ ہوں جو اس کی بے قرار محبت کا نشان اور نمائندہ ہوتے ہیں اور دیکھنے والوں پر اس حقیقت کو واضح کردیتے ہیں کہ اسے اپنے محبوب سے والہانہ محبت ہے۔
اللہ کے ساتھ شدید محبت کے نتیجے میں اہل ایمان کے اندر بھی یہ جذبات پیدا ہوسکتے تھے کہ وہ اپنے محبوب حقیقی کا دیدار کریں۔ ۔ ۔ اسے چومیں۔ ۔ ۔ اس کے ساتھ چمٹیں۔ ۔ ۔ اس کے آگے لوٹ پوٹ ہوں اور بے قرار محبت کا اظہار کریں۔ ۔ ۔ لیکن یہ تقاضے وہاں پورے ہوسکتے ہیں جہاں محبوب مادی گوشت پوست کا بنا ہوا ہو۔ ۔ ۔ اس کے سڈول اعضاء اور حسین ہاتھ پاؤں ہوں۔ ۔ ۔ اور وہ نظر آنے والا ایک محسوس پیکر ہو۔ ۔ ۔ جسے چھوا جاسکے، جس کے ہاتھ پاؤں کو چوما جاسکے۔ ۔ ۔ تسکین جسم و جان کے لئے گلے لگایا جاسکے۔ ۔ ۔ مگر محبوب حقیقی تو ان تمام چیزوں سے پاک ہے، مادی جسم نہیں کہ عاشق اسے چھولے۔ ۔ ۔ اس کے ہاتھ پاؤں نہیں کہ انہیں آگے بڑھ کر وارفتگی کے عالم میں چوم لے۔ ۔ ۔ مجسم نہیں کہ ٹکٹکی باندھ کر اسے پیارو محبت سے دیکھ لے۔
اس لئے عاشقوں کے جذبات محبت کی تسکین کے لئے محبوب حقیقی نے کعبہ معظمہ کا محسوس پیکر عطا کردیا اور اپنی محبت کا نمائندہ بنا کر کھڑا کر دیا کہ جو کچھ محبوب حقیقی کے ساتھ کرنا چاہتے ہو، جو راز و نیاز اور پیار و محبت کی باتیں اس کے ساتھ کرنے کے متمنی ہو وہ اس کے ساتھ کرلو۔ ۔ ۔ ہاتھ چومنا چاہتے ہو تو حجر اسود کو بوسہ دے لو۔ ۔ ۔ گلے سے لگنا چاہتے ہو تو ملتزم کے ساتھ چمٹ جاؤ۔ ۔ ۔ دیدار کرنا چاہتے ہو تو کعبہ کے سامنے بیٹھ جاؤ اور اسے محبت سے دیکھ لو۔ ۔ ۔ تمہیں تسکین نصیب ہوگی اور وہی قرار ملے گا جو محبوب کو دیکھ کر حاصل ہوتا ہے۔
گویا کعبہ معظمہ محبوب حقیقی کے حسن و جمال، غلبہ و اقتدار اور رعب و جلال کا مظہر کامل ہے، تاکہ وہ جسم و اعضاء سے پاک محبوب کی نمائندگی کرے اور عاشقوں کو سکون و قرار بخشے اور ان جذبات کی تسکین کا سامان کرے جو سچے عاشقوں کے دل میں محبوب کے لئے پیدا ہوتے ہیں۔ کعبہ شریف کی اسی نمائندہ حیثیت کی وجہ سے اس کی تکریم ضروری قرار دی گئی ہے اور عزت و تکریم کے آداب دوسرے مقامات سے مختلف اور بہت زیادہ رکھے گئے ہیں تاکہ واضح ہو کہ کعبہ محبوب حقیقی کے جمال و کمال کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے بڑے عزو شرف والا ہے، عام مادی عمارات کی طرح نہیں۔
حقیقتِ کعبہ کیا ہے؟
کعبہ ایک بلند و بالا سیاہ غلاف میں ملبوس پرشکوہ چوکور کوٹھے کا نام ہے جس کے درودیوار اور چار کونے ہیں اور وہ حرم شریف کے صحن کے درمیان بنا ہوا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اصل کعبہ وہ نہیں ہے جو ظاہر بین آنکھوں کو نظر آتا ہے بلکہ اصل کعبہ وہ ہے جسے اہل حقیقت دیکھتے ہیں۔ اصل کعبہ اس مقام یا جگہ کا نام ہے جہاں یہ کعبہ کھڑا ہے یہ جگہ شروع ہی سے مرکز انوار ہے۔ اگر یہاں موجودہ عمارت یا اس کوٹھے کے درودیوار نہ ہوتے تو بھی یہ جگہ کعبہ ہوتی اور لوگوں کوحکم ہوتا کہ وہ اس کاحج کریں۔
یہی وجہ ہے کہ جب طوفان نوح کے بعد یہ جگہ ریت میں دب گئی تھی اور اس جگہ صرف ایک سرخ ٹیلہ رہ گیا تھا اور لوگوں کے لئے جگہ کا تعین مشکل تھا، تو وہ اس وقت بھی یہاں کا حج کرنے کے لئے آتے تھے۔ انبیاء کرام کو یہ حکم تھا کہ وہ خصوصی طور پر یہاں پہنچیں اور حج کے مناسک ادا کریں۔ ۔ ۔ مظلوم فریاد لے کر یہاں پہنچتے اور دعا کرتے تو وہ قبول ہوتی تھی۔ ۔ ۔ خواص کو یہاں کعبہ کی خوشبو آجاتی تھی۔ ۔ ۔ اسلئے درودیوار اور عمارت نہ ہونے کے باوجود کعبہ یہاں موجود تھا۔ جو لوگ نور ولایت سے سرفراز ہیں اور عرف عام میں انہیں اولیاء اللہ کہتے ہیں، وہ اصل کعبہ ہی کی زیارت کے لئے آتے ہیں، اگر وہ اسے نہ دیکھ سکیں تو سراپا فریاد بن جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اس کا دیدار کرایا جائے۔
حضرت ابراہیم اور رابعہ بصری رحمہما اللہ
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے اصل کعبہ ہی کی زیارت کے لئے حج کا سفر اختیار کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بے مثل طلب تھی، چنانچہ انہوں نے اس کے حصول کے لئے ضروری سمجھا کہ ایسا انداز اختیار کریں جس سے عبودیت اور بندگی کی اعلیٰ شان ٹپکتی ہو اور انتہائی عاجزی اور خاکساری کا اظہار ہوتا ہو، تاکہ معبود حقیقی کی رضا حاصل ہو اور وہ راضی ہوکر اپنے بندے کو یہ نعمت عظمیٰ عطا فرمادے اور جب وہ صحن کعبہ میں داخل ہوں تو انہیں اصل کعبہ کی زیارت ہوجائے اور وہ اس لازوال نور کو دیکھ لیں جو محبت کو تسکین اور روح عشق کو قرار بخشتا ہے۔
چنانچہ انہوں نے اپنے وطن سے پیدل حج کا سفر اختیار کیا اور قدم قدم پر نوافل ادا کرنا شروع کردیئے، دو نفل ادا کرتے اور کعبہ معظمہ کی طرف ایک قدم بڑھالیتے، اس شان ریاضت و مجاہدہ کے ساتھ آپ تقریباً بارہ سال میں سر زمین کعبہ میں داخل ہوئے۔ ۔ ۔ بے انتہا خوش تھے کہ اب غنچۂ مراد کھلے گا اور وہ نور سرمدی نظر آئے گا، جسے حقیقت کعبہ کہتے ہیں۔ ۔ ۔ مگر آپ کے ارمانوں پر بجلی گر پڑی اور مایوسی کی انتہا نہ رہی جب آپ کو صحن کعبہ میں وہ نور کعبہ نظر نہ آیا جس کے آپ آرزو مند تھے اور جس کے لئے قدم قدم پر سجدہ دیتے یہاں تک پہنچے تھے۔ آبدیدہ ہوگئے اور نہایت غمگین لہجے میں بارگاہ خداوندی میں عرض کی :
’’مولیٰ! میں جس کی دید کے لئے اتنے اہتمام سے آیا تھا وہ تو نظر نہیں آرہا‘‘۔
دل میں القاء ہوا : اے ہمارے بندے! ہماری ایک بندی رابعہ بصری سرزمین حرم میں داخل ہوئی ہے کعبہ اس کے استقبال کے لئے گیا ہوا ہے۔
جناب ابراہیم علیہ الرحمہ دنگ رہ گئے کہ ایسے لوگ بھی ہیں کہ خود کعبہ جن کے استقبال کے لئے جاتا ہے۔
انہوں نے سوچا اس ہستی کے پاس چلنا چاہئے جن کے استقبال کے لئے کعبہ گیا ہوا ہے۔ چنانچہ ان کے پاس پہنچے اور حضرت رابعہ بصری سے کہا :
اس راہ میں ناز نہیں بلکہ نیاز کا انداز اختیار کرنا چاہئے۔ میں وفورِ شوق کے عالم میں جس مقصد کے حصول کے لئے عرصہ دراز کے بعد یہاں پہنچا ہوں، آپ کی وجہ سے وہ پورا نہیں ہوسکا۔
یہ تو اہل حقیقت اور اہل نظر کی آپس کی باتیں تھیں لیکن یہاں جو قابل غور بات ہے وہ یہ ہے کہ جب جناب ابراہیم صحن حرم میں داخل ہوئے تو کعبہ کے درو دیوار وہاں موجود تھے، لوگ طواف کررہے تھے اور وہ انہیں نظر بھی آرہا تھا، مگر حضرت ابراہیم جس نور کعبہ کو دیکھنا چاہتے تھے وہ وہاں نہیں تھا بلکہ حضرت رابعہ بصری کے استقبال کے لئے گیا ہوا تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اصل کعبہ اور ہے جسے جناب ابراہیم دیکھنا چاہتے تھے اورجو حضرت رابعہ بصری کے استقبال کے لئے گیا ہوا تھا۔
یہ اہل معرفت کے اسرار و واردات ہیں، جن کو وہی سمجھ سکتے ہیں۔ اس حقیقت سرمدی کے ادراک کے لئے عشق و اخلاص کی اتنی مقدار مطلوب ہے، جو اخص الخواص ہی کو نصیب ہوتی ہے۔
یہاں فقط سرشاہیں کے واسطے ہے کلاہ