تحریکی سفر کو کامیابی کے ساتھ منزل تک پہچانے کے لئے تین عناصر بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لئے ہم اسے تحریکی زندگی میں کامیابی کی تکون کا نام دے رہے ہیں۔
- کارکن
- قائد
- وسائل
ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں کبھی کارکن اہمیت اختیار کر جاتے ہیں کبھی قیادت فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور کبھی وسائل کامیابی کی ضمانت بن جاتے ہیں۔ کسی ایک عنصر کے اہمیت اختیار کرجانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ دوسرے عناصر کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔ تینوں ناگزیر ہیں۔ حالات و واقعات کے تناظر میں کوئی ایک عنصر فیصلہ کن بن جاتا ہے اس میں کمزوری واقع ہوجائے تو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔
1۔ کارکنوں کا کردار
اس بات پر ہمارا پختہ یقین ہے کہ جو اللہ چاہے وہی ہوتا ہے، ہمارا کام کوشش کرنا ہے، کام اور محنت کی بنا پر کوئی کامیابی کا دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے کامیابی کو کوشش کے ساتھ مشروط کیا ہے لہذا ہم پر امید ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں کرتا اس لئے مطلوبہ نتائج حاصل ہوکر رہیں گے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ کے وعدے سچے ہوتے ہیں لیکن شرائط پوری نہ ہونے کے باعث حسب وعدہ نتیجہ برآمد نہ ہو تو الزام اپنے آپ کو دینا چاہئے۔ اس کی واضح مثال قوم بنی اسرائیل کا وہ واقعہ ہے کہ من و سلوی کھا کھا کر تنگ آگئے تو ذائقہ کی تبدیلی کے لئے کمتر چیزوں کا مطالبہ کر بیٹھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی گئی کہ قوم کو لے کر فلسطین کی طرف جائیں اور حملہ کردیں، ہم فتح کی ضمانت دیتے ہیں۔ جب شہر کے قریب پہنچے تو قوم نے کہا: ہمارے دشمن بڑے طاقتور ہیں، ہم تو یہاں انتظار کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ان سے مقابلہ ہمارے بس میں نہیں، آپ جانیں اور آپ کا رب۔ ۔ ۔ جب فتح ہوجائے ہمیں آواز دے دینا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسی جلیل القدر ہستی قیادت کر رہی ہے۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ بذات خود فتح و کامرانی کی گارنٹی فراہم کر رہا ہے اس کے باوجود شہر فتح نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہوئی کہ قوم نے بزدلی کا مظاہرہ کیا۔ ۔ ۔ امتی اچھے کارکن ثابت نہ ہوسکے تو مطلوبہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں کوئی نقص تھا لہذا ناکامی ہوئی۔ اصل میں کارکنوں کی ایک خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک مشروط عملی تدبیر تھی جس پر مطالبہ کرنے والے پورے نہ اتر سکے۔
یہ دنیا اسباب کی دنیا ہے، اسباب کو مکمل طور پر اختیار کرتے ہوئے نتائج کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرنا ہی کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس کے برعکس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ کی جانثاری کو ملاحظہ کریں تو تین سو تیرہ نے دنیا کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور دوسری طرف غزوہ احد میں کارکنوں کی ذرا سی غلطی نے فتح کو شکست میں بدل دیا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اب قیامت تک نہ کوئی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی بے مثال قیادت میسر آسکتی ہے اور نہ کسی کو صحابہ جیسے جانثار کارکن میسر آسکتے ہیں، جب اس مثالی دور میں کارکنوں کی ایک چھوٹی سی غلطی سے جنگ کا پورے کا پورا نقشہ بدل سکتا ہے تو آج بدرجہ اولیٰ اس بات کا اطلاق ہوگا اور کارکنوں کی کمزوری اور سستی کی بناء پر جیت، شکست میں بدل سکتی ہے۔ یہ کمزوری ایمان میں، اخلاق میں، اعمال میں، معاملات میں، کردار میں، اطاعت میں، کہیں بھی اور کسی بھی سطح پر ہوسکتی ہے۔ پس کارکنان ایمان، اخلاق حسنہ، اعمالِ صالحہ، حسنِ کردار اور اطاعت و پیروی میں استحکام کا مظاہرہ کرتے ہوئے کامیابی کے لئے راستے ہموار کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھیں قیادت کی طرف سے ملنے والے جملہ احکامات و ہدایات پر عمل کرنا ہوگا اور ہمیشہ مرکز کی راہنمائی میں آگے بڑھنا ہوگا۔ بعض اوقات جذباتی کارکنوں کا حد درجہ خلوص اور معروضی حالات کو مدنظر نہ رکھنا تحریک کو وقتی طور پر مشکلات سے دوچار کر دیتا ہے۔ سفر انقلاب کے مسافروں کو کچھ بنیادی تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ جن پر اطاعت کے جذبے سے عمل ہی کامیابی کی نوید ثابت ہوتا ہے۔
2۔ قیادت پر غیر متزلزل اعتماد اور غیر مشروط وفاداری
یہ بہت اہم نکتہ ہے کیونکہ اس بارے میں مفکرین اور اہل علم نے اکثر ٹھوکر کھائی ہے اور کارکنان کا اپنی قیادت پر غیر متزلزل یقین اور غیر مشروط وفاداری پر شخصیت پرستی کا ہوا کھڑا کرکے شخصیات کی اہمیت کو کم کردیا۔ اس طرح قیادت پر اعتماد کی وہ کیفیات پیدا نہ ہوسکیں جو تحریک کا باعث بنتی ہیں حالانکہ قیادت کے حوالے سے یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اس کی دو قسمیں ہیں۔
- بانی قیادت
- عام قیادت
بانی قیادت منبع جوش ( Source of inspiration) ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اس سے فکر ملتا ہے۔ ۔ ۔ وہ فکری واضحیت (Conceptual clarity) دیتی ہے۔ ۔ ۔ اور قوت متحرکہ (Motivation) کا ذریعہ بنتی ہے۔ سنت الہیہٰ ہے کہ قیادت کے بغیر کسی مشن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بانی قیادت میں کچھ خصوصی استعداد رکھی جاتی ہے جسے بروئے کار لاکر وہ تجدید و اصلاح کا کام کرتی ہے۔ ہر مشن کی ایک طبعی عمر ہوتی اور اس کے بعد ایک نئے دور اور نئے مشن کا آغاز ہوتا ہے، مشن سے وابستہ دوسرے قائدین کا مرتبہ بانی قیادت کی زندگی یا اس کی وفات کے بعد بھی اس جیسا نہیں ہوسکتا۔ دیگر قائدین کی اطاعت ہوگی لیکن فکری راہنمائی کا منبع بانی قائد ہی ہوگا، اسی فکر کو آگے بڑھایا جائے تاآنکہ کوئی قائد ایک نئے انداز سے فکر پیش کرے۔ پہلے قیادت کی ذات پر اعتماد ہوتا ہے۔ ۔ ۔ پھر مشن کی حقانیت پر یقین ہوتا ہے۔ ۔ ۔ قیادت پر اعتماد نہ ہو تو مشن سے تعلق بھی قائم نہیں ہوتا اور اگر کہیں یقین میں دراڑ آجائے یا شکوک و شبہات پیدا ہوجائیں تو وابستگی کمزور ہوتے ہوتے معدوم بھی ہوسکتی ہے۔
بانی قیادت ایک قدرتی طریق (Natural process) سے ابھر کر سامنے آتی ہے لہذا اس کا عزل اورنصب (ہٹانا اور مقرر کرنا) وابستگان کے اختیار میں نہیں ہوتا کیونکہ اسے منصب سے ہٹائیں تو مشن بھی ختم ہوجائے گا۔ ۔ ۔ اور لوگ بکھر جائیں گے۔ ۔ ۔ مشن اور قیادت لازم و ملزوم ہیں۔ ۔ ۔ یوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں کہ کوئی حد فاصل (Line Parting) قائم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ غزوہ احد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر صحابہ کرام کا تلواریں پھینک کر بیٹھ جانا کہ اب لڑنے کا کیا فائدہ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تلوار لہرا کر یہ کہنا کہ جس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پاگئے گردن اڑادوں گا یہ عمل دراصل قیادت اور مشن کو ایک ہی سمجھنے کا نتیجہ تھا۔ اگرچہ نظری اعتبار سے مشن اور قیادت دو الگ الگ حقیقتیں ہیں لیکن ہمارے پیش نظر اس کا عملی پہلو ہے۔ معلوم ہوا کہ اس راہ میں کارکنوں کو قائد پر اندھا اعتماد (Blind Faith) کرنے کی ضرورت ہے کیفیت یہ ہو کہ
سپردم بتو مائیہ خویش را
تو دانی حساب کم و بیش را
خود سپردگی کے بغیر کامل یکسوئی اور اطمینان حاصل نہیں ہوسکتا۔ ۔ ۔ ۔ تشکیک کے کانٹے چبھے رہیں تو سفر میں درماندگی مقدر بن جائے گی۔ ۔ ۔ اگر کوئی دیکھنا چاہے کہ واقعتا یہ اعتماد کی فضاء قائم ہے بھی کہ نہیں تو اس کے لئے ایک آسان طریقہ ہے کہ ایک عظیم المرتبت ہستی کو دو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے دیکھنے کے باعث زمین و آسمان کا فرق پیدا ہوگیا ایک نے محبت کی نگاہ سے دیکھا تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بن گیا۔ ۔ ۔ دوسرے نے تنقیدی نگاہ ڈالی تو ابوجہل کہلایا۔
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
چشم تصور میں لے آیئے وہ واقعہ جب ابوجہل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اعتماد کو متزلزل کرنے کے لئے واقعہ معراج کا تذکرہ بڑے ڈرامائی انداز میں کرتا ہے۔ ۔ ۔ اسے گمان تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا زیرک شخص اس کی صحت سے انکار کردے گا۔ ۔ ۔ انہوں نے پوچھا یہ کس نے دعویٰ کیا ہے؟۔ ۔ ۔ وہ بدبخت سمجھا شاید میرا وار کار گر ثابت ہوگا، جھٹ بولا۔ ۔ ۔ آپ ہی کے دوست حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعویٰ کیا ہے۔ ۔ ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پکار اٹھے تو پھر میں تصدیق کرتا ہوں کہ یہ سچ ہے۔ اسے کہتے ہیں اندھا اعتماد (Blind Faith)۔ ۔ ۔ یہی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک کے موقعہ پر اپنے گھر کا سارا سامان لاکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نچھاور کردیتے ہیں۔
عقل والوں کے نصیبوں میں کہاں ذوق جنوں
عشق والے ہیں جو ہر چیز لٹا دیتے ہیں
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک میں بوجوہ شریک نہ ہوسکے۔ ۔ ۔ انہوں نے کوئی عذر پیش نہ کیا۔ ۔ ۔ اپنی غفلت کا اقرار کرلینے کے باوجود سرزنش کے طور پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے سوشل بائیکاٹ کا حکم جاری فرمایا۔ ۔ ۔ یہ سلسلہ چالیس روز تک جاری رہا، اس دوران احساس ندامت کے باعث وہ روتے رہے۔ ۔ ۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کی توبہ قبول فرمانے کا اعلان قرآن مجید میں کیا۔ ۔ ۔ اس بائیکاٹ کے دوران شاہ غسان کا ایک ایلچی رقعہ لے کر آیا کہ آپ بڑے معزز آدمی ہیں۔ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے آپ ہمارے پاس آجائیں ہم آپ کو اپنا وزیر بنالیں گے انہوں نے رقعہ پڑھ کر پھاڑ دیا اور سفیر سے مخاطب ہوکر کہا اپنے بادشاہ سے کہہ دو۔
ہر چہ ساقی ماریخت عین الطاف است
مجھے میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی بھی آپ کی وزارت سے زیادہ عزیز ہے۔
قیادت کی اہمیت
تحریکی و انقلابی جدوجہد میں قیادت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کا کوئی مشن قائد کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اگر متبادل قیادت تیار نہ ہو تو بانی قائد کی آنکھیں بند ہوتے ہی تحریک انتشار کا شکار ہوجائے گی۔ یہ بات بلاخوف تردد کہی جاسکتی ہے کہ اصل چیز مشن اور اس کے مقاصد ہوتے ہیں قیادت فی نفسہ مطلوب نہیں لیکن مقاصد کا حصول اس کے بغیر ممکن بھی نہیں۔ ۔ ۔ لوگ کسی متحرک اور مقناطیسی شخصیت کے گرد ہی جمع ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ کیونکہ انہیں قائد کی ذات میں مشن کی تکمیل کا یقین نظرآتا ہے۔ قائد کا وجود عمل پر آمادگی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ جاں نثاری، وفاداری سے آتی ہے جس کی نوعیت شخصی ہوتی ہے۔ مجرد نظریات پر عوام کی کثیر تعداد سر کٹانے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ نظریاتی لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ لوگوں کی اکثریت جذباتی ہوتی ہے جو کسی خاص مسئلے پر قائد کا اشارہ پاکر جانوں کا نذرانہ پیش کردیتے ہیں۔ مشن کے ساتھ وابستگی مطلوب و مقصود ہے۔ ۔ ۔ جبکہ قائد مشن کی تکمیل کا ذریعہ اور سبب ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اس واسطے کے ناطے قیادت پر غیر متزلزل یقین اور اندھا اعتماد (Blind Faith) درکار ہوتا ہے۔ جس طرح قوال سامعین کو اپنی مدھر سروں اور جاندار کلام سے وجد میں لے آتا ہے اسی طرح ایک محرک (Motivator) کی حیثیت سے وہ عوام کو حرکت میں لاکر انقلاب بپا کردیتا ہے۔
جذباتی وابستگی میں دیوانگی اور جنون کی کیفیات جہاں تحریکی سفر کو تیز کرنے کا باعث ہوتی ہیں وہاں کبھی کبھی انتہائی نازک صورتحال سے بھی دو چار کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ شدت جذبات کے باعث حقیقت حال کا ادراک نہ کرسکے اور تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے کہ جس نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہوگئے ہیں اس کا سر قلم کردوں گا۔ ۔ ۔ ان کی یہ کیفیت دیکھ کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے صورتحال سنبھالنے کے لئے خطبہ ارشاد فرمایا کہ جس کا معبود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات تھی وہ فوت ہوگئے لیکن جس نے اللہ کو معبود بنایا وہ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا۔ پھر ان آیات کی تلاوت کی۔
’’محمد تو اللہ کے رسول ہیں اس سے قبل بھی انبیاء فوت ہوتے رہے ہیں اگر وہ وفات پاجائیں تو کیا تم ایڑیوں کے بل پلٹ جاؤ گے‘‘۔
یعنی کیا دین اسلام کو چھوڑ دو گے تب بات ان کی سمجھ میں آئی اور اپنے آپ کو سنبھالا۔
فرق بڑا نازک ہے مشن اور قیادت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ۔ ۔ خط امتیاز کھینچنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ۔ ۔ ۔ قیادت کہاں سے شروع ہوتی ہے اور مشن کہاں پر ختم ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ایک دوسرے میں اس طرح سے پیوست ہوتے ہیں کہ جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ۔ ۔ جسم و جان کا رشتہ ہوتا ہے۔ اسی لئے تحریکی زندگی میں کبھی کبھی تنہا قیادت فیصلہ کن ہوجاتی ہے اور دوسرے دو عوامل دب جاتے ہیں۔ ۔ ۔ دوسری جنگ عظیم میں تنہا چرچل نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر قوم کو تباہی سے بچالیا۔ ۔ ۔ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت موجود نہ ہوتی تو شاید پاکستان نقشہ عالم پر نہ ابھر سکتا۔ ۔ ۔ غزوہ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت میں کی خبر سن کر صحابہ کرام بھاگ کھڑے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی زخمی تھے۔ ۔ ۔ غزوہ حنین میں بھی مسلمانوں کی فوج تیر اندازوں کا مقابلہ نہ کرسکی اور پاؤں اکھڑ گئے بھگدڑ مچ گئی۔ ۔ ۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سواری کا منہ دشمن کی طرف کرلیا آگے بڑھتے ہوئے جارہے تھے اور زبان اقدس پر یہ الفاظ جاری تھے۔
’’میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اور اللہ کا رسول ہوں‘‘۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے با آواز بلند بھاگنے والوں کو بلایا وہ لوٹ آئے۔ ۔ ۔ پھر مقابلہ ہوا اور جنگ جیت لی۔ تاریخ عالم میں ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ کارکن حوصلہ ہار بیٹھے۔ ۔ ۔ وسائل موجود نہ تھے۔ ۔ ۔ لیکن قیادت کی فہم و فراست نے صورتحال کا تجزیہ کرکے حالات پر قابو پالیا۔ ۔ ۔ کارکنوں کے حوصلے بڑھائے اور بازی جیت لی۔
نبوت ختم ہوئی تو سلسلہ تجدید کا اجراء بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے کیونکہ ہر دور میں تقاضے بدلنے سے مشن میں جدت پیدا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ مشن کی اصل حالت کے برقرار رہنے کی بھی ایک طبعی عمر ہوتی ہے پھر ایک مجدد اٹھتا ہے اور اس میں نئی روح پھونک دیتا ہے اور مشن ایک نئی آن بان سے رواں دواں ہوجاتا ہے۔ قائد کی ذات سے گزر کر ہی مشن تک رسائی حاصل ہوتی ہے اس حقیقت کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا۔
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باو نرسیدی تمام بولہبی است
ناظم کے بغیر جس طرح کسی نظم کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ۔ ۔ کیسے ممکن ہے قائد کے بغیر ہی کوئی تحریک بپا ہوجائے۔ انبیاء علیہم السلام کی آمد کا سلسلہ الذہب اس حقیقت پر شاہد ہے کہ ہر دور میں انسانیت کو قیادت اور راہنمائی کی ضرورت رہی ہے اور انبیاء غیر مشروط اطاعت کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
ایک مثال
ریاضی کی ایک مثال کے ذریعے اس تصور کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ قیادت ایک مکمل عدد کی مانند ہوتی ہے جبکہ کارکن صفر ہیں۔ صفر کی اپنی کوئی قدو قیمت نہیں ہوتی لیکن عدد کے ساتھ لگ کر نہ صرف عدد کی قیمت میں اضافہ کر دیتی ہے بلکہ خود بھی قابل قدر بن جاتی ہے۔ ۔ ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ قیمت ساتھ لگنے سے بنتی ہے، تھوڑے فاصلے پر رکھیں تو صفر صفر ہوجائے گا جبکہ عدد اپنی اصلی قیمت پر لوٹ آئے گا۔ صفر ساتھ لگنے سے بظاہر صرف ایک ہندسے کا اضافہ ہوا یعنی پہلے قائد تنہا تھا ایک کارکن ملا تو دو ہوگئے لیکن قوت میں دس گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ۔ ۔ جیسے ایک کے ساتھ صفر لگنے سے قیمت دس بن جاتی ہے ایک اور صفر لگائیں تو ہندسے تو تین ہوئے لیکن قیمت مزید دس گنا بڑھ کر سو ہوگئی۔ ۔ ۔ اس طرح چند سو کارکنوں سے قوت کئی ہزار گنا بڑھ جاتی ہے۔ ۔ ۔ کوئی کہہ سکتا ہے سب کارکن صفر کی مانند نہیں ہوتے، کچھ کی عدد کی مانند اپنی (Value) حیثیت بھی ہوتی ہے، مان لیا یہ بات درست ہے لیکن پھر بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ محاورہ ہے کہ ایک ایک اور دو، گیارہ ہوتے ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار رہے گی گیارہ تو تب ہی بنیں گے جب دوسرے ایک کو پہلے ایک کے ساتھ لگائیں گے ورنہ اس کی قیمت ایک ہی رہے گی۔ ۔ ۔ چونکہ قیادت بائیں طرف والے ہندسے کے قائم مقام ہوتی ہے اس لئے 11 کے ہندسے میں اگرچہ عدد ’’1‘‘ کے دو ہندسے نظر آتے ہیں اور بظاہر ان میں کوئی فرق نہیں لیکن درحقیقت بائیں ہندسے کی قیمت 10 ہے جبکہ دائیں جانب والے ’’1‘‘ کی قیمت ایک ہی ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ایک اور ’’1‘‘ کا اضافہ کریں تو رقم ’’111‘‘ بن جائے گی۔ ۔ ۔ اب غور کریں تو بائیں جانب ’’1‘‘ کی قیمت 100 ہوجائے گی۔ اب دائیں طرف پانچ کا ہندسہ لگا کر دیکھیں تو عدد ’’15‘‘ بن جائے گا دیکھنے میں پانچ بڑا نظر آتا ہے اور ایک چھوٹا۔ ۔ ۔ اس سے بعض لوگوں کو اپنی حیثیت کے بارے میں شبہ پیدا ہوجاتا ہے، اپنی بڑائی کا تصور ذہن میں جاگزیں ہوکر نظم میں خرابی کا باعث بنتا ہے حالانکہ درحقیقت بائیں طرف والا ’’1‘‘ پانچ سے بڑا ہوتا ہے کیونکہ اس کی قیمت دس کے برابر ہوتی ہے۔
اب اسی مثال پر ایک اور رخ سے غور کریں اگر صفر کو بائیں طرف لگایا جائے تو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ ہزار صفریں بھی لگادی جائیں تو قیمت ذرہ بھر بھی نہ بڑھے گی گویا صرف ساتھ لگنا کافی نہیں۔ ۔ ۔ دل و دماغ کا صاف ہونا بھی ضروری ہے۔ ۔ ۔ قیادت پر اعتماد اور مشن کی کامیابی کا پختہ یقین ہونا چاہئے۔ ۔ ۔ بائیں طرف لگنے سے مراد الٹی ذہنیت اور تنقیدی سوچ ہے۔ ایسے لوگ مشن پر بوجھ اور رفتار کار میں کمی کا باعث بن جاتے ہیں۔
3۔ وسائل کی ضرورت
تحریکی اور تنظیمی سفر میں تیسرا اہم عنصر وسائل ہیں۔ اگرچہ کارکنوں کی ایمانی قوت، انتھک محنت اور قیادت کی صلاحیت اس کمی کو کافی حد تک پورا کرتی ہے لیکن کلیتاً نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کبھی وسائل کی قلت آڑے آ کر منزل کو دور کر دیتی ہے۔ ۔ ۔ کبھی ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ وسائل کی شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی وسائل پر بھروسہ کیا نہ انہیں اہمیت دی لیکن بایں ہمہ غزوہ تبوک کے موقع پر ایک تو جہاد میں شرکت کو لازمی قرار دیا دوسرے وسائل کی بھرپور فراہمی کا اعلان عام کردیا کہ جو کچھ کسی کے پاس ہے لے آئے۔ یہی وہ موقع ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنا سب کچھ لاکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نچھاور کردیا اور گھر میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کچھ نہ بچا۔ اگرچہ لشکر کی ضروریات تو پوری نہ ہوسکیں لیکن اس سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ کبھی کبھی وسائل کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے دور میں وسائل فیصلہ کن اہمیت کے حامل ہوچکے ہیں۔ یہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے لہذا مشن کے فروغ کے لئے ہر ممکن دستیاب ذرائع و وسائل سے مستفید ہونا اشد ضروری ہے اور ان ذرائع کو بروئے کار لانے کے لئے کارکنوں کو خود آگے بڑھنا ہوگا۔
ایمان، توکل اور محنت اپنی جگہ بجا لیکن وسائل کی عدم دستیابی مطلوبہ نتائج کے حصول اور منزل تک رسائی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ وسائل کارکنوں کی بصیرت، دور اندیشی اور قربانی ہی سے میسر آئیں گے اور اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے خود ہی راستے تلاش کرنا ہوں گے، مضبوط قدم رکھنے کے لئے خود ہی پتھر تراشنے ہوں گے۔
ہم خود تراشتے ہیں منازل کی سنگِ راہ
ہم وہ نہیں کہ جنہیں زمانہ بناگیا