سوال: موجودہ دور میں نوجوان نسل پر ہونے والے حملے کون سے ہیں اور ان کا تدارک کس طرح ممکن ہے؟
جواب: آج نوجوان نسل بالعموم دو قسم کے حملوں کی زد میں ہے:
1۔ ثقافتی حملہ
2۔ نظریاتی حملہ
ان دونوں طرح کے حملوں کے تدارک اور سدِّباب کے ذریعے ہی نوجوان نسل کے ایمان کی حفاظت ممکن بنائی جاسکتی ہے۔
1۔ ثقافتی حملہ اور اس کا تدارک
مغربی تہذیب و ثقافت کی صورت میں ہونے والے حملے سے مراد ثقافتی حملہ ہے، جس کے زیر اثر نوجوان نسل کے معاشی اور سماجی تصوراتِ زندگی بدل رہے ہیں۔ اخلاقی، عائلی، سماجی اور معاشرتی قدریں کمزور پڑتی جا رہی ہیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ فحاشی، عریانی اور بے راہروی کے سیلاب نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کے نتیجے میں معاملہ اس حد تک بگاڑ کا شکار ہو گیا ہے کہ بیٹیاں اپنے باپ، دادا اور بزرگوں کے سامنے سر ڈھانپنا تو درکنار بے حجاب گھومنے پھرنے میں ذرہ بھر شرم محسوس نہیں کرتیں۔ مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار نے تمام معاشرتی قدروں کو خطرناک اور نام نہاد جدت پسندی کا رخ دے دیا ہے۔ نتیجتاً شریعت کی گرفت کمزور پڑنے کے باعث ہماری زندگی سے اسلامیت یوں رخصت ہوئی کہ ہم محض نام کے مسلمان رہ گئے اور ہمارا اسلامی تشخص ہماری مسلمانی پر بقول اقبال یوں آہ و زاری کر رہا ہے
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
ثقافتی حملہ سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے قدم کے طور پر امتِ مسلمہ کے اندر بالعموم اور نوجوان نسل کے اندر بالخصوص حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مطہرہ اور سنت طیبہ سے محبت اور قلبی وابستگی پیدا کی جائے اور عملی اسلام کا وہ چہرہ ان کے سامنے پیش کیا جائے جو ان کے لئے کشش کا باعث ہو اور جس سے یہ واضح ہو کہ پیغمبر انسانیت اور ہادی برحق ﷺ نے اعلیٰ، بامقصد زندگی اور تہذیب و ثقافت کے بہترین نمونے اور اخلاقی قدروں کا جو نظام عطا کیا وہ عملی سطح پر دنیا سے افضل ہے۔ آج وقت کی اہم ترین ضرورت نئی نسل کو اسلام کے اصولوں اور تہذیبی و ثقافتی اقدار سے روشناس کرانا ہے۔
اسلامی اقدار کو کمزور کرنے میں جہاں اسلام دشمن طاقتیں بر سر عمل ہیں وہاں بعض والدین بھی منفی کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کی بچپن سے ہی ذہنی تربیت غیر اسلامی تہذیبی سانچوں میں ڈھال کر کرتے ہیں۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے، جب لوہا گرم ہو تو اسے جس طرح چاہیں پگھلا کر موڑ سکتے ہیں لیکن اگر ہماری غفلت کی وجہ سے لوہا ٹھنڈا ہو کر جم گیا تو پھر اس میں کسی طرح کی تبدیلی ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ سب سے اہم ذمہ داری ہمارے علماء، ائمہ مساجد، ادیب، شعراء اور اہلِ قلم پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قیمتی اثاثہ کی حفاظت کریں جو اسلام کی نایاب ترین اقدار اور ثقافت میں پایا جاتا ہے۔ ان پر لازم آتا ہے کہ وہ اپنے کلام، وعظ اور اپنے دیوان میں اسلام کی روایات و اقدار کو قرآن و سنت کی روشنی میں پروان چڑھائیں۔ جیسا کہ ارشاد گرامی ہے:
کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْؤْلٌ عَنْ رَعْیتِہ.
(بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، 5: 1988، رقم: 4892)
تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
ہر شخص اپنے دائرہ کار کے اندر جوابدہ ہے۔ کوئی گھر کا سربراہ ہے تو اس سے گھر کے معاملات کے بارے میں اور اگر کسی شخص کا اختیار محلے، قصبے، شہر، صوبے اور ملکی سطح تک ہے تو اس کی جواب طلبی کا دائرہ ان تمام سطحوں تک پھیلا ہوا ہوگا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے عملی نظام کو گھر کی سطح سے لے کر اجتماعی اور ملکی سطح پر نافذ کر دیا جائے تاکہ دور جدید کی تہذیب و ثقافت کی تند و تیز آندھیوں سے نوجوان نسل کے ایمان کی بجھتی ہوئی شمع کو محفوظ کیا جا سکے۔
2۔ نظریاتی حملہ اور اس کا تدارک
نظریاتی حملہ عام مسلمانوں کو بالعموم اور نوجوان نسل کو بالخصوص ذہنی اور فکری طور پر اسلام سے دور کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ حملہ جھوٹے افکار و نظریات کی مدد سے کیا جا رہا ہے۔ دینی تربیت سے بے بہرہ نوجوان جب کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پہنچ کر مغربی فلسفوں اور نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ دینی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر مادہ پرستانہ نظریات کی بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان بالغیب، آخرت، نبوت اور رسالت کے بارے میں ان کے عقائد کمزور پڑنے لگتے ہے۔ اس طرح نا پختہ ذہن رکھنے والے نوجوان نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات پر کان نہیں دھرتے بلکہ وہ اسلام کے تمام تصورات کو بھی نا قابلِ عمل سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس نظریاتی حملہ کے نتیجے میں رونما ہو رہا ہے جو اسلام دشمن قوتیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اہل اسلام کے قلب و باطن پر کر رہی ہیں۔
نظریاتی حملے کا واحد تدارک یہ ہے کہ اسلام کو روایتی انداز کی بجائے سائنسی انداز اور مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کر کے نوجوان نسل کو یہ یقین دلایا جائے کہ فکری، نظریاتی اور استدلالی اعتبار سے اسلام سے بہتر دنیا کا کوئی نظام نہیں ہے۔ انہیں یہ باور کرایا جائے کہ جدید فکر اور نظریے مادیت سے جنم لیتے ہیں جبکہ اسلامی نظریے اور فکر کا سر چشمہ محمد مصطفی ﷺ کی ذاتِ مقدسہ اور قرآنِ حکیم کی بنیادی و اساسی تعلیمات ہیں۔ لہٰذا موجودہ نسل کو محض فتوؤں کے زور پر دوزخ کی آگ کے خوف سے اسلام کی طرف بلانے کی بجائے ان کے سامنے ایمان اور اسلام کو اس انداز سے پیش کیا جائے کہ وہ جان لیں کہ تمام مسائل کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو پھر نوجوانوں کے عقائد کی بنیادیں متزلزل ہونے کی بجائے مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائیں گی۔ کیونکہ بقول اقبال:
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اسلام کا حقیقت پسندانہ مطالعہ اور تعلیماتِ اسلام پر عمل ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے اس حملے کے منفی اثرات کی روک تھام میں مدد ملتی ہے جو انسانی شعور کے راستے سے امت مسلمہ کے ایمان پر وارد ہوتے ہیں۔
سوال: ضروریاتِ دین میں کون سے امور شامل ہیں اور ان کا اثبات کن دلائل سے ہوتا ہے؟
جواب: ضروریاتِ دین؛ دین کے ان بنیادی اعتقادات کو کہا جاتا ہے جن کا ثبوت قطعی، متواتر اور بدیہی طور پر ہو۔ ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک ضرورتِ دینی کا انکار کرنے والا بھی مسلمان نہیں ہے۔ ضروریاتِ دین کے بارے میں جاننے کیلئے کسی خاص اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ عام طور پر یہ امور مسلمانوں کو وراثتاً معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً: توحید، رسالت، آخرت، ملائکہ، آسمانی کتابوں، جنت، دوزخ وغیرہ پر ایمان۔۔۔ نماز، روزہ، حج، زکوۃ کی فرضیت۔۔۔ زنا ، قتل، چوری، شراب خوری وغیرہ کی حرمت وغیرہ ضروریاتِ دین میں شامل ہیں۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کا خاتم الأنبیاء ہونا، حشر و نشر، جزاء سزا، میزان وغیرہ جیسے تمام امور بھی قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہیں۔ ان میں سے کسی ایک شے کا انکار بھی کفر ہے۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی دوسروں پر کافر اور مشرک ہونے کا فتویٰ لگادیتے ہیں۔
احکامِ قطعیہ کو ضروریات دین کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان میں سب سے اولین ضرورت یہ ہے کہ:
تصدیق ما جاء به النبی ﷺ.
جو کچھ نبی علیہ السلام لائے ہیں اس کی دل سے تصدیق کرنا
یعنی رسولِ خدا ﷺ اور آپ کی لائی ہوئی کتاب سمیت آپ کی عنائت کردہ تمام تعلیمات کو بلاشک و شبہ دل سے تصدیق کرنا اور یقین رکھنا ضروریاتِ دین میں سے ہے اور یہی ضروریات اہلِ سنت ہیں۔ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے جو قرآن مجید نے بالفاظ ذیل بتلائی ہے:
فَـلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.
(النساء، 4: 65)
’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔‘‘
تفسیر روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام شہاب الدین محمود آلوسی فرماتے ہیں:
فقد روی عن الصادق انه قال لو ان قوما یعبدوا الله تعالیٰ و اقاموا الصلوٰة و آتوا الزّکوٰۃ و صاموا رمضان وحجوا البیت ثم قالوا لشئی صنعه رسول الله الاّصنع خلاف ماصنع او وجدوا فی انفسهم حرجاً لکانوا مشرکین.
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اگر کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، نماز کی پابندی کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ شریف کا حج کرے مگر پھر کسی ایسے فعل کو جس کا ذکر حضور ﷺ سے ثابت ہو، اس کے بارے میں یوں کہے کہ آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے خلاف کیوں نہ کیا؟ اور اس کے ماننے سے اپنے دل میں تنگی محسوس کرے تو یہ قوم مشرکین میں سے ہے۔
(آلوسی، روح المعانی، 5: 65)
آیت مذکورہ اور اس کی تفسیر سے واضح ہوگیا کہ رسالت پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تمام احکام کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے۔
ثبوت کے اعتبار سے احکام اسلامیہ کی مختلف قسمیں اور تمام اقسام کا حکم بھی مختلف ہے۔ کفر کا حکم صرف ان احکام کے انکار سے عائد ہوتا ہے جو قطعی الثبوت بھی ہوں اورقطعی الدلالت بھی۔ اگر کوئی شخص قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ احکام کو تسلیم کرنے سے انکار اور گردن کشی کرے اور ان کے واجب التعمیل ہونے کا عقیدہ نہ رکھے تو وہ ضروریاتِ دین کا منکر ہونے کی وجہ سے اہلِ قبلہ میں شامل نہیں رہتا۔ لیکن اگر کوئی شخص حکم کو تو واجب التعمیل سمجھتا ہے مگر غفلت کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتا تو وہ فاسق اور گمراہ توہے مگر اہلِ اسلام میں شامل ہے۔
احکام کے قطعی الثبوت ہونے کا مطلب تو یہ ہے کہ ان کا ثبوت قرآن مجید یا احادیثِ متواترہ سے ہو، اور قطعی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو عبارت قرآن مجید یا حدیث متواتر میں اس حکم کے متعلق وارد ہوئی ہے، وہ اپنے مفہوم و مراد کو صاف صاف بیان کرتی ہو، اور اس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہ ہو۔