آج ملک پاکستان ایک معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس بحران سے کیسے نکلا جا سکتا ہے اور اس مملکتِ خداداد کی معیشت کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے؟ اس موضوع پر مطالعہ سے قبل یہ امر ذہن نشین رہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ناممکن ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات کی ابتری میں اس کے سیاسی عدم استحکام کا نمایاں کردار ہے۔ اس اصولی بات کو سمجھ لینے کے بعدآئیے اب پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں:
پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال
اکنامک پلاننگ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 1960ء میں پاکستان کی برآمدات تقریباً دو سو ملین ڈالرز تھی جبکہ اس وقت جنوبی کوریا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ، ان تینوں ممالک کی مجموعی برآمدات بھی تقریباً دو سو ملین تھی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ صرف جنوبی کوریا کی برآمدات 600 ارب ڈالرز، ملائشیا کی برآمدات 300 ارب ڈالرز، تھائی لینڈ کی برآمدات 267 ارب ڈالرز، ترکی کی برآمدات 288 ارب ڈالرز جبکہ پاکستان کی برآمدات فقط30 ارب ڈالرز ہے۔
ہمارا آغاز تو بہت اچھا ہوا تھا، سنہرا اور روشن تھا لیکن نہ جانے 75 سال کے سفر میں ترقی کے وہ خواب اور وہ حسین منازل کہاں کھوگئیں۔ ہمارے ساتھ چلنے والے ممالک ترقی کا سفر طے کرتے کرتے کہاں پہنچ گئے اور پاکستان آج اپنے بنیادی حقوق کے حصول کی جنگ لڑ رہا ہے۔
کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی اور اس کے معاشی احوال میں اس کی موسمی اور جغرافیائی صورتحال کا بہت عمل دخل ہوا کرتا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملکہے اور کم و بیش ساڑھے تین کروڑ پاکستانی بلا واسطہ یا بلواسطہ اسی شعبے سے وابستہ ہیں لیکن افسوس کہ یہ شعبہ بھی آج جس طرح بدحالی کا شکار ہے، کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسی طرح آج دیگر شعبہ جات کے حقائق کو اعداد و شمار کی روشنی میں جانتے چلے جائیں تو ایک عام پاکستانی اس کا ادراک حاصل کرکے پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا اور ہم اس دوراہے پر آکر کیوں کھڑے ہوگئے ہیں۔ اس پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان میں قومی ادارے زوال کا شکار کیوں؟
ایک معروف معیشت دان(Economist) نے ایک تحقیق پیش کی ہے جس میںانہوں نے نہایت دلچسپ حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کے بیان کردہ امور کی طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور colonial master برطانیہ کو دیکھتے ہیں جس نے دنیا کے اتنے حصے پر حکومت کی کہ کہا جاتا ہے کہ اس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ ان کے ہاں دو طرح کے ماڈلز تھے۔ کچھ ممالک کے اندر انہوں نے جو انسٹی ٹیوشنز(ادارے) develope کیے وہ inclusive انسٹی ٹیوشنز کہلائے اور کچھ ممالک میں ایسے انسٹی ٹیوشنز بنائے جو اپنی شکل اور ہیئت کی وجہ سے instructive انسٹی ٹیوشنز کہلائے۔
inclusive انسٹی ٹیوشن وہ ہوتا ہے جہاں پر انسان کسی principle (اصول) کے تحت roles and regulations کوfollow (پیروی) کرتا ہے۔ وہاں justice (انصاف)، human rights (بنیادی انسانی حقوق) موجود ہوتے ہیں۔ ان میں elite (اشرافیہ)اور Common man (عام آدمی )کے درمیان فرق نہیں ہوتا اور یہاں انصاف سب کے لیے برابرہوتا ہے۔
Instructive انسٹی ٹیوشنز وہ ہوتے ہیں جہاں پر elite (اشرافیہ) اور commmon man(عام آدمی) کے لیے قانون، انصاف اوربنیادی حقوق کی صورتحال مختلف ہوا کرتی ہے۔ جن ممالک کے اندر ان حکمرانوں کو زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، ان ممالک میں instructive انسٹی ٹیوشنز قائم کیے گئے اور جن ممالک کے اندر مزاحمت کا سامنا نہ ہوا وہاں پر inclusive انسٹی ٹیوشنزقائم کیے گئے۔
٭ اس economist نے ان ممالک کی فہرست بھی بیان کی ہے جہاں instructive انسٹی ٹیوشنز قائم کیے گئے۔ ان میں کانگو، برصغیر پاک و ہند اور میکسیکو جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک میں جان بوجھ کر elite اور non eliteکے درمیان تفریق قائم کی گئی۔ یعنی ان ممالک کے نظام میں یہ گنجائش رکھی گئی کہ وہ نظام ایک ہی ملک میں رہنے والے لوگوں کو دو طرح کے الگ قانون دے سکے۔ اس کے برعکس وہ ممالک جیسا کہ آسٹریلیا، امریکہ، برطانیہ اور جنھیں آج ہم فرسٹ ورلڈ نیشنز شمار کرتے ہیں۔ ان ممالک کے اندر inclusive انسٹی ٹیوشنز قائم کئے گئے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ یہ بنیاد کیسے پڑی؟ اس کا سبب یہ ہے کہ جب تقسیم ہوئی اور ملک آزاد ہوئے تو ان کے اندر جومختلف نظام، انسٹی ٹیوشنز اور بیورو کریسز تھیں، وہ اسی پرانے نظام کی trained ( تربیت یافتہ) تھیں اور جب اوپر سے نگرانی کا عمل(supervision) کمزور ہوا تو elite سسٹم پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگیا۔
اس economist کے نزدیک جن ممالک کے اندر Instructive انسٹی ٹیوشنز کا قیام عمل میں آیا، اب ان کے لیے امید کی کوئی کرن نہیں ہے کہ ان ممالک کے سسٹم میں کوئی تبدیلی رونما ہوسکے گی کیونکہ ساٹھ ستر سال بیت جانے پر وہ elite class اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ اب اسے بآسانی ختم کرنا مشکل کام ہے۔
اسی طرح اگر instructive انسٹی ٹیوشنز اور Inclusive انسٹی ٹیوشنز کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ وہ ممالک جو same region (ایک ہی علاقے) میں ہیں مگر ان میں سے کچھ ممالک کے اندر Inclusive انسٹی ٹیوشنزقائم ہیں اور کچھ ممالک میں Instructive انسٹی ٹیوشنز موجود ہیں، ان میں سے ان ممالک نے ترقی کر لی جن میں Inclusive انسٹی ٹیوشنزقائم ہیں۔
اس تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان دونوں طرح کے ممالک میں ترقی کی شرح میں کتنا فرق ہے۔ بہت سے ممالک ہمسائے ہیں اورترقی کا سفر بھی انہوں نے ساتھ ساتھ شروع کیا لیکن ایک ملک ترقی کرگیا اور دوسرا ملک اتنا ہی تباہ حال ہو گیا۔ مثلاً: ایک طرف امریکہ ہے تو دوسری طرف اس کا ہمسایہ ملک میکسیکو ہے۔ ایک طرف سائوتھ کوریا ہے تو دوسری طرف نارتھ کوریا ہے کہ ایک ملک ترقی کے عروج پر ہے تو دوسرا ملک ہمسایہ ہونے کے باوجود تنزلی اور زوال کا شکار ہے۔
آئیے اسی تناظر میں پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان کے اندر انسٹی ٹیوشنل تقسیم کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ آج پاکستان کو جس بھی پہلو سے دیکھیں تو یہ زوال کا شکار نظر آتاہے ۔ قانون کی حکمرانی کی صورتحال ہو یا انسانی بنیادی حقوق کی ادائیگی کا معاملہ، صورتحال ابتر نظر آتی ہے۔ہم جتنی بھی حکومتیں تبدیل کرتے رہیں، اقتدار بدلتا رہے لیکن اس کے باوجود سسٹم تبدیل نہیں ہوتا۔ اس کی مثال پچھلے کئی سالوں سے ہمارے سامنے ہے۔ حکومتیں تبدیل ہوئیں، پارٹیاں تبدیل ہوئیں لیکن سسٹم جوں کا توں ہے، اس کے اندر خاطر خواہ تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ ان سسٹمز نے ملک کو جکڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام نے فرمایا کہ ایک ہزار انتخابات بھی کرالیے جائیں تو جب تک یہ نظام تبدیل نہیں ہوگا، تب تک ملک میں خوشحالی نہیں آسکتی کیونکہ یہ نظام عوام کو کچھ نہیں دے سکتا۔
پاکستان کی معیشت پر بین الاقوامی سروے رپورٹس
- world justice project ایک انٹرنیشنل رپورٹ ہے جو بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے اندر درج ذیل 8 پیرامیٹرز ، سٹینڈرز اورfactors کی روشنی میں جائزہ لیتی ہے کہ کون سا ملک کن حالات سے گزر رہا ہے اور ان عوامل کی روشنی میں ممالک کی کارکردگی کو جانچا جاتاہے:
1۔ Consantraints on government power
2۔Absence of corruption
3۔ Open government
4۔Fundamental rights
5۔ Order and security
6۔ Regulatory enforcement
7۔ Civil justice
8۔ Criminal justice
وہ انسٹی ٹیوشنز جوcolonial master برطانیہ نے دیئے، ان کا جائزہ بین الاقوامی رپورٹ کی روشنی میں لیتے ہیں۔ اس رپورٹ کا بین الاقوامی سائز عموماً138 ہزار گھرانوں پر محیط ہوتا ہے اور تقریباً چار ہزار دو سو ماہرین اس سروے کی تیاری میں حصہ لیتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق کل 139ممالک میں سے مذکورہ تمام انسٹی ٹیوشنل سٹینڈرز پر پورا اترنے کے اعتبار سے پاکستان 130 ویں نمبر پر ہے اور سائوتھ ایشیاء کے چھ بنیادی ممالک جن میں نیپال، بھوٹان اور مالدیپ جیسے چھوٹے ممالک بھی ہیں، ان میں پاکستان کا 5 واں نمبرہے۔
اسی رپورٹ کے مطابق مذکورہ standards پر پورا اترنے کے اعتبار سے ان ممالک میں سب سے lowest لیول پر تین ممالک؛ بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان ہیں۔ پھر ایک اور المیہ یہ ہے کہ یہ تینوں مسلمان ممالک ہیں۔
پچھلے75 سال میں پاکستان میں موجود انسٹی ٹیوشنز develope نہیں ہوسکے۔ جب تک مضبوط انسٹی ٹیوشنز نہیں ہوں گے، اس وقت تک اقتدار اور ایوان میں افراد بدلنے کے باوجود عوام بنیادی ضروریات سے محروم رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے پونے چار سال PTI کا دور حکومت بے انتہا نیک خواہشات، جذبات، ایمانداری، دیانتداری کے جذبے سے بھرپور اچھے افراد کی موجودگی کے باوجود اس سسٹم نے یوںجکڑے رکھا کہ ان کو اپنا کام نہیں کرنے دیا گیا۔ اگر پہلے کام نہیں کرنے دیا گیا تو یہ سسٹم آئندہ بھی کام نہیں کرنے دے گا۔ اس کا کوئی اور حل ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں ایک space create ہو اور اس space کے تحت انسٹی ٹیوشنز کی restructuring اور redevelopment ہو۔
- اسی طرح gender discriminations (صنفی امتیاز، خواتین سے سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی)کے بارے میں ایک انٹرنیشنل رپورٹ ورلڈ اکنامک فورم نے 2022ء میں جاری کی ہے۔ انہوں نے پاکستان کو 146 ممالک میں سے 145 ویں نمبر پر رکھاہے۔
معاشی بحران سے نجات کا حل
یہ وہ صورتحال ہے جو ہمارے معاشی بحرانوں کا سبب بنتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان معاشی بحرانوں سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔ یاد رکھیں! اس کاshort cut بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اللہ دین کا چراغ ہے کہ کوئی دوچارمہینے کے اندر قوم کی تقدیر بدل دے۔ ایسا ممکن نہیں کیونکہ پاکستان کو قرضوں پر جینا پڑ رہا ہے۔ ہمیں بعض اوقات یہ بات سننے میں بری لگتی ہے کہ ہم مانگ کر جی رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ مانگ کر جی رہیں ہیں مگراس پر بات بھی نہ کر رہے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کی طرف سنجیدگی سے متوجہ بھی نہیں ہو رہے۔ بس ہمیں کوئی یہ بات نہ کہے کہ تم قرضے پر جیتے ہو اورمانگ کر جیتے ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حالات یہ ہیں کہ آج زر مبادلہ کے ذخائر سات بلین یا اس سے بھی کم ہیں۔ کراچی پورٹ پر آج بھی اتناسامان رکا ہوا ہے اگر اس کی ادئیگی پاکستان سٹیٹ بنک کردے تو یہ سات بلین ڈالر بھی ریاست پاکستان کے پاس نہ بچیں۔ اگر IMF قرضہ نہیں دیتا تو پاکستان کے پاس جینے کے لیے چند مہینے بھی نہیں بچتے۔
short term پلاننگ
ان حالات میںlong term منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ short term plans پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے ایسے ایریاز ہیں جن پر آج فوری توجہ دی جائے تو پاکستان کو کچھ معاشی مہلت میسر آجائے۔جن ممالک نے ترقی کی ہے، ان کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر سامنے آتا ہے کہ جرمنی نے کھلونوں کی انڈسٹری develope کی اور اس کو بڑھا کر آج اس نے آٹو موٹر کی اتنی بڑی انڈسٹری قائم کردی کہ پوری دنیا میں 34 فیصد آٹو سپلائی جرمنی کررہا ہے۔ اسی طرح سائوتھ کوریا،چائنہ، جاپان اور دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک اسی پیٹرن پر چلے اور آج وہ پوری دنیا میں ٹیکنالوجی کے بڑے ایکسپورٹرز ہیں۔
کوئی وجہ نہیں ہے کہ پاکستان یہ سب کچھ نہ کر پائے لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس will (ارادہ)، focus(توجہ) اورvision (اعلیٰ سوچ) نہیں ہے۔اگر درج ذیل تین سیکٹرز پر فی الفور ترجیح بنیادوں پر توجہ دی جائے جو کہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے اور ریاست کی حفاظت اور مستقبل کے لیے ضروری ہے تو یقینی طور پر ہماری معیشت کو space میسر آ سکتا ہے اور ہم بطور قوم اور ملک survive رجائیں گے:
1۔ زراعت
2۔ آئی ٹی/ سوفٹ ویئر
3۔ مائننگ (کان کنی)
1۔ IT /سوفٹ ویئر ٹیکنالوجی
معیشت میں مختصر وقت میں کچھ نہ کچھ مثبت تبدیلی جن سیکٹرز سے میسر آسکتی ہے، ان سیکٹرزمیں سرفہرست IT اور سوفٹ ویئر ایکسپورٹ کا شعبہ ہے۔ آج IT ایکسپورٹ ناگزیر ہے جس کی طرف ہمیں فوری متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک انڈیا اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 267 بلین ڈالرزکی IT ایکسپورٹ کررہا ہے جبکہ پاکستان صرف 2 بلین ڈالرز کیIT ایکسپورٹ کرتاہے۔ یہ ایک ایسا سیکٹر ہے جہاں پر انفراسٹرکچر کی فوری ضرورت نہیں ہے۔ صرف افرادی قوت کو تربیت دینے کی ضرورت ہے اور منظم طریقے سے صرف 6 مہینوں کے اندر اپنی ایکسپورٹ کو بڑھا سکتے ہیں اور ملک کے لیےrevenue پیدا کرسکتے ہیں۔ بڑی انڈسٹری سےrevenue حاصل کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں لیکن IT اس وقت ایسا سیکٹر ہے جو فی الفور کیا جاسکتا ہے اور جو human resource (افرادی قوت) پاکستان کے پاس ہے، اسے باقاعدہ تربیت دے کر ہم اس میدان میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ صرف ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کے لیے جدید اور مفید ITکورسز اور skills متعارف کروائی جائیں اور انھیں ملک بھر میں عام کیا جائے۔ اگر صرف یہ ہی قدم اٹھا لیا جائے تو ہم صرف 6 ماہ میںاپنے مقصد کو حاصلکرسکتے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انڈیا میں سافٹ ویئر اور سافٹ ویئر developmentکی32 ہزار کمپنیز ہیںجو لاکھوں لوگوں کو ملازمتیں دیتی ہیں۔ امریکہ میں 5 لاکھ 85 ہزارIT کمپنیز کام کررہی ہیں۔ چائنہ میں 40 ہزار کمپنیز کام کررہی ہیں جبکہ پاکستان میں صرف 2 ہزار IT کمپنیز ہیں اور ان میں سے بھی 80 فیصد چھوٹی کمپنیز ہیں۔لہذا ہمیں فی الفور اس پہلو کی طرف متوجہ ہونے اور اس سیکٹر کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔
2۔ معدنیات
پوری دنیا کی تقریباً چار سو ایک بلین ڈالرز کی ایکسپورٹ کا تعلق mining(معدنیات نکالنے) سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان کے پاس معدنیات(لوہا، تانبا، سونا، کوئلہ وغیرہ) کا ایک عظیم ذخیرہ موجود ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان معدنیات سے متعلقہ پوری دنیا کی کل ایکسپورٹ میں 0.01 فیصد بھی contribute نہیں کرتا۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان اپنے مائننگ سیکٹر سے صحیح انداز سے کیوں فائدہ نہیں اٹھا رہا۔ جس طرح ITسیکٹر سے پاکستان کو revenue میسر آسکتا ہے، اسی طرح اگر فی الفور مائننگ سیکٹرز پر توجہ دی جائے اور اس کی ایکسپورٹ کو بڑھایا جائے تو پاکستان معاشی طور پر ایک مضبوط ملک بن سکتاہے۔ آج جب ہم معاشی ایمرجینسی کی بات کرتے ہیں تو نہ جانے اس شعبہ کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ہم برازیل کے ماڈل پر چل کر پاکستان کو کیوں مضبوط نہیں کرسکتے۔2000ء میں برازیل سالانہ 10 بلین ڈالرز کی معدنیات ایکسپورٹ کرتا تھا۔2020ء میں 50 بلین ڈالرز کی سالانہ ایکسپورٹ کررہا ہے جبکہ پاکستان اس حوالے سے بہت دور دکھائی دیتا ہے حالانکہ انٹر نیشنل سروے کے مطابق پاکستان میں کم و بیش 6 لاکھ مربع کلومیٹر رقبہ پر یہ وسائل موجود ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں مائننگ سیکٹر کے لیے باقاعدہ قانون سازی موجود ہی نہیں ہے۔ آج اگر کوئی بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں معدنیات کو نکالنے کا خواہشمند نظر آتا ہے تو ہم نے یہ تک طے نہیں کر رکھا کہ اگر وہ مائننگ کرنا چاہتا ہے تو مائننگ کرنے والی اس پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ کتنے فیصد پر معاملہ طے کرنا ہے۔ آج اگر سرکاری دفاتر میں حکومتی دستاویز اور معاہدوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جو کمپنیز ہمارے ملک سے معدنیات نکال رہی ہیں اور باہر جا کر فروخت کر رہی ہیں تو اس کے عوض ان میں سے کوئی پاکستان کو پانچ فیصد رائلٹی دے رہا ہے، کوئی آٹھ فیصد دے رہا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ آج تک یہ طے ہی نہیں ہوا کہ بلوچستان سے اگرکوئی معدنیات نکالے گا تو پاکستان کا حصہ کیا ہوگا۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر اس شعبہ پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور عملی اقدامات کئے جائیں تو یہ شعبہ مستقبل میں پاکستان کی life line اور backbone بن سکتا ہے۔
محفوظ مستقبل کی ضمانت معاشی خود انحصاری پر ہے
آج پوری دنیا گلوبلائزیشن سے shift ہوکر نیشنل سیکیورٹی کے ماڈل پر جارہی ہے اور گلابلائزیشن کی بحث پرانی ہوگئی ہے۔ آج بین الاقوامی محققین یہ کہہ رہے ہیں کہ مستقبل میں اب اس ملک کا survival ہے اور مستقبل محفوظ ہے جس کی جتنی زیادہ independence ہے اور انٹرنیشنل ریلیشنز اور ریسورسز کے اوپر جتنی کم dependence ہے۔ آج کی نئی دنیا independence کا تقاضا کرتی ہے اور independence کا تقاضا اس وقت مکمل ہوگا جب فوڈ سیکیورٹی کے ایریا کی طرف پاکستان سنجیدگی سے متوجہ ہو گا اور کم از کم ضرورت فوڈ پروڈکٹس پاکستان سے بننا یا پیدا ہونا شروع ہوجائے گی۔ گویا جس کی فوڈ سیکیورٹی جتنی زیادہ ہے، اس کی نیشنل سیکیورٹی اسی قدر ہے۔ ہمارا انحصار امپورٹ(در آمدات ) پر جتنا کم ہو گا اسی قدر ہم محفوظ ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم اس حوالے سے پالیسیز بنائیں گے اور اسی پر کام کریں گے۔
معاشی پالیسیز کا تسلسل یقینی بنانے کی ضرورت
ایک بین الاقوامی سروے ہے جو consistency of policies کے حوالے سے ممالک کی لسٹ تیار کرتا ہے کہ کون سا ملک اپنی پالیسی کے اعتبار سے کتنا consistence ہے۔ پھر یہ سروے فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا ملک اس consistency کے نتیجے میں کتنی ترقی کر پایا ہے اور کتنی ترقی نہیں کر پایا؟ بدقسمتی سے اس سروے میں بھی پاکستان سب سے lowest rank میںہے یعنی پاکستان میں بدترین consistency of policies ہے۔اس مسئلہ نے پاکستان کو بننے نہیں دیا اورہمارے ہر مسئلے کی بنیاد consistency of policy ہے۔
ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انسٹی ٹیوشنز نہیں ہوتے۔دنیا میںان ہی اقوام نے ترقی کی ہے اور دنیا کے نقشے پر ابھری ہیں جنہوں نے اپنی پالیسیز کو تسلسل سے جاری رکھا ہے۔ یہ ممالک ایک دو سال یا پانچ دس سال کے لیے نہیں بلکہ بیس بیس سال کے لیے ایک پالیسی کو لے کر چلے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے اندر یہ تسلسل برقرار نہیں رہا۔ سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ اگر ہر سال ایک سکول کا پرنسپل ہی بدل دیں تو سکول کبھی معیاری سکول نہیں بنے گا۔
اسی طرح ایسا ملک جہاں پر سیاسی رسہ کشی کی حالت یہ ہو کہ دو اڑھائی سال کے بعد ایک حکومت ختم ہو جائے اور دوسری جماعت اقتدار میں آجائے پھر کچھ عرصہ بعد پہلے والے حکمران اس حکومت کو گرانے کے درپے ہوجائیں اور ان کی حکومت کے بعد خود اقتدار سنبھال لیں۔ اب دوسری جماعت انھیں گرانے کے درپے ہوجائے اور اس طرح یہ تماشا چلتا رہے۔کسی بھی ملک میں کبھیconsistency of policy کے بغیر ترقی نہیں آسکتی۔ آج کی سیاسی جماعتوں سے قطع نظر پاکستان کو consistency چاہیے اور پاکستان کے ہر مسئلے کا حل consistency of policy کے اندر ہے کہ دس پندرہ سال ملک کی معاشی اور خارجہ پالیسی اور اس طرح کی دیگر پالیسیز تسلسل سے جاری رہیں اور اس سفر میں کوئی رکاوٹ نہ آئے تو پھر شاید امکان ہے کہ survival ہوجائے۔ بصورت دیگر بے جا اور ناجائز امیدیں رکھنا بھی ناجائز عمل ہے۔
- اس حوالے سے ہم دنیا کے کئی ممالک کی مثالیں پیش کر سکتے ہیں۔ مثلاً:امریکہ میں حکومتیں بدلتی ہیں مگر ہزارہا اختلافات کے باوجود پچھلی حکومت کے بہت سے فیصلے اگلی حکومت جاری رکھتی ہے بلکہ انہیں تبدیل کرنے کا خیال بھی نہیں آتا۔ کیونکہ وہاں سیاست جدا ہے اور ریاست جدا ہے اور ہر کوئی ریاست کے بارے میں سوچتا ہے مگر پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ یہاں پر سیاست کو ریاست پر مقدم جانا جاتا ہے۔پاکستان میں جب نئی حکومتی آتی ہے تو وہ اپنا فرضِ عین سمجھتی ہے کہ پچھلے دور حکومت کے تمام منصوبے اور policies کو تبدیل کردیا جائے۔ جتنے نئے پروگرام شروع کیے گئے ہوتے ہیں، ان پر بندش لگادی جاتی ہے۔کبھی منصوبوں کے نام بدلتے ہیں اور کبھی منصوبوں کو بدل دیتے ہیں۔ کوئی روڈ انفراسڑکچر بن رہا ہے تو نئی حکومت وہ بند کردے گی اور دوسری جگہ پر شروع کردے گی تاکہ وہاں پر اس کے نام کی تختی لگ جائے۔ ایسی صورتحال میں ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے۔
پاکستان میں کوئی ایسی سپریم اتھارٹی بھی نہیں ہے جو اس چیز کو مانیٹر کرسکے کہ consistency of policy ہو۔ اقتدار بھلے تبدیل ہوجائے لیکن پاکستان کے مفاد میں لیے گئے فیصلہ جات تسلسل کے ساتھ جاری رہیں۔ افسوس کہ اس طرح کی نگرانی کرنے والے کوئی بھی ادارہ نہیں ،نتیجتاً پاکستان کے موجودہ حالات ہمارے سامنے ہیں۔
- چائنہ میں ایک سپریم فورم پولوٹو بیورو کے نام سے موجود ہے جو ملکی مفادات کے تحفظ کے لئے پالیسیز کے تسلسل کی نگرانی کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی سیاست اور انتخابی نظام کو کو اس فورم سے جدا رکھا ہوا ہے۔یہ فورم چائنہ کے معیشت، امور خارجہ اور دیگر اہم امور کی پالیسیز کے تسلسل سے قائم رہنے کو یقنی بناتا ہے۔ بھلے اقتدار تبدیل ہوتے رہیں، جتنے مرضی حکمران بدل جائیں، باراک اوبامہ آجائے یا کوئی اور آجائے، consistency of policy رہتی ہے۔ جیسے باراک اوبامہ کے آنے سے مسلم دنیا کو ایک امید جاگی کہ اس کے ننھیال سے کوئی مسلمان تھا تو یہ مسلم دنیا کے بارے میں اچھا سوچیں گے اور خیرخواہی کریں گے لیکن بش ایڈمنسٹریشن ہو یا باراک اوبامہ ایڈمنسٹریشن، کسی پالیسی کا تسلسل ختم نہیں ہوتاکیونکہ وہاں کی پالیسیز کوئی اور دیکھتا ہے اور سیاست عوام دیکھتی ہے لیکن پاکستان کے اندر ہم نے یہ سب خلط ملط کررکھا ہے۔
- 13 مئی 1969ء ملائیشیا کی تاریخ کا ایک عظیم دن ہے۔ اس دن انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ملائیشیا پسماندہ نہیں رہے گا۔ پس انھوں نے 1971ء کے اندر نیشنل آپریشن کونسل کے نام سے ایک نیو اکنامک پالیسی کا اجراء کیا اور ایک نئی کونسل تشکیل دے دی جس کا وہاں کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انتخابی سیاست اپنی جگہ چلتی رہی، الیکشن ہوتے رہے، سیاسی اور جمہوری مراحل جاری رہے لیکن ایک کونسل جدا ہوگئی جس کے اندر تمام طاقتور انسٹی ٹیوشنز اور طبقات جمع ہوگئے جو ملائیشیا کی اکنامک پالیسی اور مستقبل کا تعین کرتے رہے۔ اس کونسل کی دی گئی پالیسی بیس سال بغیر انقطاع کے جاری رہی جس کا نتیجہ آج کا ملائیشیا ہے۔ بیس سال سے وہ کونسل اس بات کو یقینی بنا رہی تھی کہ development اور economic policy میں کوئی انقطاع نہ آئے ۔ جو policy اختیار کی گئی ہے، چاہے وہ زرعی ہو یا صنعتی ، تسلسل سے جاری رہے۔ سیاست اپنی جگہ چلتی رہے مگر ان policies کو کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔پھر بیس سال بعد1991ء میں دوبارہ national develope policy کے نام سے ایک نئی پالیسی کا اجراء کیا گیا جو اگلے بیس سال تک جاری رہی۔ مہاتیر محمد22 سال اقتدار میں رہے اور ایک پالیسی کے ساتھ انھوں نے ملائیشیا کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا۔ ہر developed nation کی مثال اسی طرح کی ہے کہ انہوں نے اسی انداز اور طریقے کے ساتھ چلتے ہوئے نتائج حاصل کیے۔
ملکی پالیسیزکے تسلسل کے لیے نگران کونسل کی تشکیل
پاکستان کو درپیش حالات کے تناظر میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ موجودہ صورتحال میں پاکستان بھی فی الفور اپنی ایک کونسل تشکیل دے۔ اس کونسل کو pakistan economic prosperity and security یا کوئی اور نام دیا جائے۔ یہ کونسل سیاست سے جدا ہو۔ سیاسی اور جمہوری نظام عوام کی رائے پر مبنی اقدامات کرتا رہے لیکن پاکستان کی اکانومی کو اس سے الگ کردیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اگلے75 سال میں بھی پاکستان ترقی نہیں کرسکے گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اگر آج اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو تبدیل کرکے نئی حکومت لے آئیں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ان کو دو سال بعد نہیں گرایا جائے گا اور اگر دوسروں کو بٹھا دیں تو ان کی کیا گارنٹی ہے کہ پچھلے حکمران ان کو نہیں گرائیں گے ۔ اس لیے ان سیاسی و جمہوری مراحل کو الگ کردیں، عوام اور سیاستدان اسے جیسے مرضی چلائیں مگر پاکستان کی اکانومی کو تحفظ دینے کے لیے فوری ایک کونسل بنادی جائے۔
- اس کونسل میں سب لوگوں کو برابر کا حصہ دار اور شریک بنایا جائے۔اعلیٰ عدلیہ، افواج پاکستان،سیاستدان،حکومتی اور اپوزیشن کے نمائندے، ٹیکنوکریٹس، مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین، الغرض تمام سٹیک ہولڈرز جو سسٹم کو چلاتے ہیں، اس کونسل کے ممبر ہوںتاکہ کسی کو اس پر اعتراض نہ ہو۔
- اس کونسل کو دس، پندرہ، بیس سال تک جاری رہنا چاہیے اوریہ سیاسی نظام سے مکمل طور پر جدا ہوں۔ اس کونسل کا تعلق صرف اور صرف پاکستان کی development اور اکانومی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کونسل کی قانونی حیثیت ہونی چاہیے۔ یہ آئینی طور پر کسی آرٹیکل کے تحت قائم ہو۔ اس کو بنانے کے لیے کیا کیا درکار ہے؟ یہ سب ماہرینِ قانون طے کریں گے لیکن اس کونسل کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔
- اس کونسل کے تحت درج ذیل شعبہ جات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے:
1۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ
2۔ مائننگ
3۔IT/سوفٹ وئیر ٹیکنالوجی
4۔ زراعت
5۔ نیشنل فوڈ سیکیورٹی
6۔ انرجی سیکٹر
7۔ consistancy of policy کی نگرانی
سو بار کان اور آنکھیں بند کرلیں لیکن ہم حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ یہ سیاسی بیان نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں پاکستان کے مسائل کے حل کی بات ہے کہ ایسا پلیٹ فارم بنادیا جائے جس کی کوئی اپوزیشن نہ ہو اور وہ دس پندرہ بیس سال تک پاکستان کی development کو تحفظ دے اور مذکورہ شعبہ جات میں ایمرجینسی کا نفاذ کرکے ان پر توجہ مرکوز کرے۔
اگر ان سفارشات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو پاکستان نہ صرف موجودہ معاشی بحران سے نجات پا لے گا بلکہ ان شاء اللہ بہت جلد معاشی حوالے سے ایک ترقی یافتہ اور خودمختار ملک بن کر اقوام عالم میں ایک اہم ملک کے طور پر سامنے آئے گا۔