منہاج یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام ورلڈ ریلجنز کانفرنس

تحریر: نوراللہ صدیقی

منہاج یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام 29 اور 30 اکتوبر کو دو روزہ ’’ورلڈ ریلجنز انٹرنیشنل کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی۔ ہر سال کی طرح امسال بھی آسٹریلیا، سکاٹ لینڈ، سری لنکا، انڈیا، برطانیہ، امریکہ، یورپ سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تدریسی و تحقیقی فرائض انجام دینے والے سکالرز پاکستان آئے اور انہوں نے بین المذاہب رواداری اور اس کی ضرورت و اہمیت پر ریسرچ پیپر پیش کئے۔

اس کانفرنس میں ریسرچ پیپرز پیش کرنے والوں میں اٹلی کے سکالرز امام یحییٰ سرجیو یاہی، سری لنکا سے پروفیسر میر سوات ویملگانا تھیرو، انڈیا سے ڈاکٹر سردار گیانی ہرپریت سنگھ، آسٹریلیا سے پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ سعید اور ڈاکٹر جان، آسٹریلیا ہی سے مسز ایلزبتھ، برطانیہ سے ریونڈ فلپ ڈنکن پیٹرز، ریونڈ روبن قمر، آرچ بشپ سبسٹین فرانسس، سردار درشن سنگھ شامل ہیں۔ اِن سکالرز نے اپنے ریسرچ پیپرز میں علمی مکالمہ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

کانفرنس کے روح رواں منہاج یونیورسٹی لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری تھے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نوجوان معاشی ماہر ہیں۔ وہ منہاج یونیورسٹی کے ڈپٹی چیئرمین کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ میلبورن یونیورسٹی آسٹریلیا کے ریسرچ فیلو بھی ہیں۔ اس کے علاوہ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے صدر بھی ہیں۔ وہ بیک وقت ماہر تعلیم بھی ہیں، ماہر معیشت بھی ہیں اور منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے تعلیمی،  تربیتی، فلاحی، سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری میلبورن یونیورسٹی آسٹریلیا سے معیشت پر پی ایچ ڈی ہیں۔

یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے منہاج یونیورسٹی لاہور کو بین المذاہب رواداری کے فروغ، تہذیبوں کے درمیان مکالمہ کا مرکز بنا دیا ہے اور منہاج یونیورسٹی لاہور، پاکستان کا وہ ممتاز اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہے جہاں تقابلِ ادیان کو ایک ڈگری پروگرام کے طور پر پڑھایا جارہا ہے۔ سکول آف پیس منہاج یونیورسٹی لاہور کو دیگر سے ممتاز کرتا ہے۔ یہاں سکھ، ہندو، عیسائی مذاہب کے طلبہ بھی زیور علم سے آراستہ ہورہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ منہاج یونیورسٹی لاہور میں ہندو طلبہ کو ہندوازم، ہندو اساتذہ پڑھاتے ہیں، سکھ ازم، سکھ اساتذہ اور مسیحی طلبہ کو مسیحی مذہب، مسیحی اساتذہ پڑھاتے ہیں اور تمام مذاہب کے طلبہ ایک چھت تلے علم حاصل کررہے ہیں۔ منہاج یونیورسٹی کے اس ڈگری پروگرام کا نیوکلیس اور مرکز و محور فروغِ امن، تہذیب و شائستگی کا پرچار اور علمی مکالمہ کے ذریعے ایک باشعور اور ذمہ دار نسل پروان چڑھانا ہے۔

یہاں تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ذکر بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے اندر بین المذاہب مکالمہ اور تہذیبوں کے مابین تصادم کو روکنے کے لئے انہوں نے قومی و بین الاقوامی سطح پر بہت کام کیا۔ انہوں نے دنیا بھر کا سفر کیا اور اسلام کی پُرامن تعلیمات کو قابلِ قبول طرز تکلم اور عقلی دلیل و براہین کے ساتھ دیگر مذاہب کے سامنے پیش کیا اور مکالمہ کی بنیاد رکھی۔ منہاج القرآن کی علم و امن پر مبنی یہی فکر منہاج یونیورسٹی لاہور کے تعلیمی ماحول میں بھی نمایاں نظر آتی ہے۔

اس کانفرنس میں پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا مقالہ بین الاقوامی سکالرز کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ انہوں نے اپنے مقالہ میں کہا کہ: اسلام انصاف، اعتدال، انسانی جان کی حرمت و وقار کا محافظ اور بین المذاہب رواداری کی تعلیمات کا محرک ہے۔ اسلام کو سمجھنے کے لئے قرآنِ مجید کو سمجھنا ناگزیر ہے۔ انتہا پسند اسلام کی جو تصویر پیش کرتے ہیں اُن کا پیغمبرِ اسلام ﷺ  کی سیرت اور تعلیمات سے تعلق نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام امن سے محبت کرنے والے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی جو تصویر پیش کی جاتی ہے، پاکستان ویسا نہیں ہے۔ ان کے اس دعوے کی تصدیق اور توثیق مہمان سکالرز نے بھی کی۔ مہمانوں کا یہ اعتراف تھا کہ پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے اور اس کے عوام علم اور امن سے محبت کرنے والے ہیں۔

اس کانفرنس کی سب سے زیادہ خوبصورت بات اس کانفرنس میں شریک منہاج یونیورسٹی لاہور سمیت دیگر یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات کی طرف سے امن کے موضوع پر اور بین المذاہب رواداری کے بارے میں بین الاقوامی سکالرز کے ساتھ کھل کر سوال و جواب کرنا ہے۔ طلبہ و طالبات نے انتہائی شائستگی کے ساتھ اپنا نکتہ نظر بین الاقوامی سکالرز کے سامنے رکھا اور پھر ان کے علمی جوابات سے مستفید ہوئے۔ شعور کی آبیاری کا بہترین طریقہ اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھنا اور ادب و شائستگی کے ساتھ انہیں سننا ہے۔ آج ہمارا سب سے بڑا انسانی المیہ ایک دوسرے سے بات نہ کرنا اور ایک دوسرے کو نہ سننا ہے، یہیں سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں جو انتہا پسندی اور متشدد رویوں کے راستے سے ہوتی ہوئیں دہشت گردی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

حضور نبی اکرم ﷺ  نے ہجرتِ مدینہ کے بعد جو سب سے پہلا کام کیا وہ بین المذاہب مکالمہ کی بنیاد رکھنا تھا۔ آپ ﷺ  نے میثاقِ مدینہ کی صورت میں مکالمہ کی برکات سے دنیا کو بہرہ مند کیا۔ آپ ﷺ  نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے قبائل کوسنا۔ ان کی مذہبی ثقافتی روایات کو تحریری شکل میں تحفظ دیا اور پھر مدینہ کی سرزمین پر سیاسی اعتبار سے ایک اُمتِ واحدہ کی داغ بیل ڈالی۔ کرۂ ارض کی اس اُمتِ واحدہ کی داغ بیل مکالمہ سے پڑی۔

منہاج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر ساجد محمود شہزاد بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے مختصر وقت میں ایک شاندار بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد یقینی بنایا۔ ڈاکٹر ساجد محمود شہزاد کو ایک یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے منہاج یونیورسٹی لاہور میں میری ٹائم افیئرز کا ایک نیا ڈیپارٹمنٹ قائم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان طویل ترین سمندری حدود رکھتا ہے اور آنے والے زمانوں کی خوشحالی اور مضبوط معیشت کا میدان سمندر ہوں گے۔ اس نایاب وافر معدنی خزانے کے باوجود پاکستان کا غریب ملک ہونا ان کے نزدیک ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ڈاکٹر ساجد محمود شہزاد کا یہ اٹل یقین ہے کہ پاکستان کی مضبوط معیشت کے لئے نئی نسل کو سمندری افیئرز کے بارے میں ٹرینڈ اور ایجوکیٹ کرنا ہوگا۔

5 ویں ورلڈ ریلجنز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں بین المذاہب مکالمہ کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا گیا اوراعلیٰ تعلیمی اداروں کو اس نوع کی کانفرنسز کو تسلسل کے ساتھ منعقد کرنے کی تحریک دی۔