حمد باری تعالیٰ جل جلالہ
میں ہوں کیا، میری اوقات کیا، حرفِ نامعتبر
تیرا فضل و کرم، شاملِ حال ہے، قصہ مختصر
یا خدا! تیرے در پر کھڑا ہوں، کروں کیا طلب
میری محرومیوں، میری مجبوریوں کی تجھے ہے خبر
تیرا دَر چھوڑنا، میرے بس میں نہیں، اے خدائے ازل
تیرا سائل ہوں، منگتا ہوں تیرا، میں جائوں کدھر
میرا کاسہ بھی، دامن بھی، خالی ہوا، یا خدا!
یا خدا! اپنی رحمت کے دینا ہزاروں مجھے بحرو بر
تیرے لطف و کرم کا میں محتاج تھا اور محتاج ہوں
میرے آنگن کے پیڑوں کو دے یا خدا آج برگ و ثمر
میری بنجر زمینیں پکاریں تجھے ہر گھڑی، یا خدا!
ابرِ رحمت کو دے ان زمینوں کی جانب بھی اذنِ سفر
میرا دامن تو پہلے سے ہی تنگ ہے، میرے اچھے خدا
ایک تیرا ہی در ہے کھلا، ہر گھڑی، اے خدائے سحر
تیری رحمت برستی رہے، یا خدا! یا خدا، ہر گھڑی
منتظر ہوں کھڑا، تیرے در پر بچھا کر، میں دامانِ تر
مشکلیں آج آسان کردے مری، مہرباں اے خدا
بعدِ محشر بھی مجھ پر کھلا ہی رہے، تیری رحمت کا در
میں ریاض آج ہوں، تیرے گھر کے مصلّے پہ نوحہ کناں
میرے بچوں کا اپنا کوئی گھر نہیں، دے انہیں ایک گھر
(ریاض حسین چودھری)
نعت بحضور سرورِ کونین (ص)
چلے ہوائے مدینہ بہار آجائے
نظر کی عید ہو، دل کو قرار آجائے
جلو میں ہوں مرے شمس و قمر مدینے کے
کچھ ایسی گردش لیل و نہار آجائے
وہ نام سن کے مری روح میں دھنک اترے
قلم رواں ہو، سخن میں نکھار آجائے
میں اُن کی بات کروں تو دہن میں شہد اترے
میں اُن کی نعت سنوں تو خمار آجائے
میں دیکھتا ہی رہوں اور میرا جی نہ بھرے
مقامِ قرب نظر ایک بار آجائے
میں جب سے کوچہ جاناں سے ہوکے آیا ہوں
تڑپ رہا ہوں کہ پھر سے بہار آجائے
میں اپنی پلکوں سے چوموں نقوش پا اُن کے
کبھی نصیب میں وہ رہگذار آجائے
درود پڑھنا شرابِ طہور پینا ہے
پڑھو کہ نشہ موجِ قرار آجائے
وفورِ کربِ ندامت، غمِ رضائے نبی
جو کر کے جائے مجھے اشکبار آجائے
یقین ہے کہ بلالیں گے اب حضور مجھے
جو آئے آخرِ شبِ اضطرار، آجائے
سحر قریب ہے، سوئے حرم چلیں گے عزیز
اُفق سے رحمتِ پروردگار آجائے
(شیخ عبدالعزیز دباغ)