ملک کے نامور دانشور حضرات اور کالم نگاران کی آراء
گذشتہ سال تاریخی لانگ مارچ کا اختتام حکومت وقت کے جن وعدوں پر ہوا تھا ان میں سے ایک الیکشن کمیشن کی تشکیل جدید تھی تاکہ ملک میں نظام انتخاب میں مطلوبہ تبدیلی ممکن بنائی جاسکے۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ حکومت سمیت عدلیہ نے بھی اس جائز مطالبے پر کان نہ دھرے۔ چنانچہ پاکستان عوامی تحریک نے نہ صرف فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات کو غیر آئینی قرار دیا بلکہ ا س نظام کو بھی حقیقی جمہوری نظام سے بدلنے کا مطالبہ کیا۔ تاریخ اور حالات نے ثابت کیا کہ شیخ الاسلام کا اس کرپٹ سیاسی و انتخابی نظام کے خلاف اعلانِ بغاوت فیصلہ صحیح تھا۔ علاوہ ازیں شیخ الاسلام کے ان انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونے والی حکومت، کرپشن اور اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کو تحفظ دینے کے لئے حکومت و اپوزیشن کا مک مکا اور اس طرح کی دیگر کہی ہوئی باتیں درست ثابت ہوئیں۔ متعدد سیاستدانوں، دانشور حضرات، غیر جانبدار تجزیہ نگاران نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ ذیل میں اسی ضمن میں چند سینئر کالم نگاروں کی نگارشات قارئین کی نذر کی جارہی ہیں:
1۔ ایاز امیر (روزنامہ جنگ)
1۔ (5-10-13): ہمارے ہاں جو جتنا بڑا لٹیرا ہوگا، اتنا ہی وہ اپنی بے گناہی کے دعوے کرے گا۔ کچھ لوگ شاید ٹھیک کہتے تھے کہ جب تک امیدوار جانچ پڑتال کے مراحل سے نہیں گزریں گے، انتخابی عمل بے معنی ثابت ہوگا۔ اگر بنکوں کے نادہندگان کو انتخابی عمل سے باہر کردیا جاتا تو اس وقت موجودہ رہنماؤں میں سے نصف کے قریب باہر بیٹھے ہوتے۔ بنک قرضہ جات کے نادہندگان ہونے کا الزام گلی محلے کی سیاست کا نعرہ نہیں ہوتا ہے، اس کے ثبوت بنک کے پاس محفوظ ہوتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب احتساب کون کرے گا؟ ڈاکٹر طاہرالقادری نے امیدواروں کی جانچ پڑتال کا پرزور مطالبہ کیا تھا اور وہ اس مقصد کے لئے احتجاجی جلوس لے کر اسلام آباد بھی گئے تھے لیکن اس وقت میڈیا اور سیاسی طبقے نے انہیں مذاق کا نشانہ بنایا۔
علامہ صاحب نے عمران خان کو بھی اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی۔ کیا وہ یہ سوچ رہے تھے کہ پی ٹی آئی میں انقلاب کی چنگاری موجود ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام کارکنان لانگ مارچ میں شریک ہونے کے لئے تیار تھے لیکن پارٹی کے بڑوں، جو کج فہم روایتی سیاست دان ہیں، نے اس خیال کی سختی سے مخالفت کی۔ چنانچہ وہ موقع ضائع ہوگیا اور قوم انتخابات کی طرف بڑھ گئی۔ اس کے بعد پھر وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا انتخابات کے ذریعے پرامن انتقال اقتدار کا مرحلہ طے ہوگیا اور سیاسی ناقدین نے اسے قومی زندگی کا اہم ترین واقعہ قرار دیا، مگر اب قوم ’’اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘۔۔۔ کی عملی تصویر بنی ہوئی ہے۔
2۔ ( 12-10-13): اگرچہ پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے نظریات مختلف ہیں لیکن احتساب کے معاملے میں وہ یک جان دو قالب ہیں ان کا خیال ہے کہ ماضی کو کریدنا مناسب عمل نہیں ہے چنانچہ ایسے معاملات پر مٹی پاؤ ہی بہترین حکمت عملی ہے۔ ملکی دولت لوٹنے والوں کو گھسیٹنے اور رقم واپس لے کر لوگوں کو لوٹانے کے دعوؤں کو شاید ہی کسی نے سنجیدگی سے لیا ہو۔ انتخابات سے پہلے ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا تھا کہ جمہوری عمل کی آڑ میں بڑی جماعتوں کا مک مکا ہونے جارہا ہے لیکن ہم سب نے ا نکا مذاق اڑایا۔ یہ کہا گیا کہ وہ دفاعی اداروں کا کھیل کھیل رہے ہیں، کبھی کہا گیا کہ ان کو پاشا صاحب سے ہدایات ملتی ہیں۔ کچھ کو خدشہ حقیقت کا روپ دھارتا ہوا محسوس ہوا کہ احتجاجی لانگ مارچ دراصل 111 بریگیڈ کا ہراول دستہ ہے۔
ہم بار بار انہی سیاستدانوں اور جماعتوں کے وعدوں کا اعتبار کرلیتے ہیں جن کے وعدوں کی حقیقت کو ہم اچھی طرح جانتے ہوتے ہیں۔
2۔ افتخار احمد (روزنامہ جنگ)
1۔ ( 13-10-13): ہم نے ڈاکٹر طاہرالقادری پر بڑی تنقید کی۔ جو ملک میں عدلیہ کی آزادی کا نعرہ بلند کرتے رہے افسوس کہ ان کے تمام اندازے جن کو ہم غلط سمجھتے تھے، درست نکلے۔ واقعتا اس نظام کے ہوتے ہوئے منصفانہ اور شفاف انتخابات منعقد ہوہی نہیں سکتے۔
عمران خان نے مئی 2013ء کے عام قومی انتخابات سے پہلے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ متوقع اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ آج وہ وقفے وقفے سے ڈاکٹر صاحب کے موقف کی تائید میں آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ موجودہ انتخابی نظام کے معاملے میں گویا پاکستانی میڈیا نے اس وقت شیخ الاسلام کو آڑے ہاتھوں لیا تھا لیکن وہ جو کچھ کہتے رہے وقت نے اس کی تصدیق کی۔ موجودہ الیکشن کمیشن پر ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی تحریک کے اٹھائے گئے اعتراضات کی بنیادی جھلکیوں پر ایک بار پھر نظر ڈالتے چلے جانے میں کوئی حرج نہیں! موجودہ الیکشن کمیشن پر عوامی تحریک کے اعتراضات پر مبنی اجمالی خاکے میں ان تقریباً 27 ہزار کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کو ہدف بنایا گیا تھا جن میں ٹیکس چوری، قرض نادہندگی، اثاثوں کے غلط اعلان یا جھوٹ کا ایک واقعہ بھی پکڑا گیا نہ منظر عام پر آیابلکہ اس قسم کے سوالات کئے گئے جو مضحکہ خیز تھے اور جن کی بنا پر پورے ملک میں یہ تاثر پایا گیا کہ ریٹرننگ افسروں کا رویہ غیر سنجیدہ ہے۔ کیا الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل کا مقصد ہی اپنے سرپرستوں کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا یا کیا ضعیف العمر چیف الیکشن کمشنر، غیر آئینی الیکشن کمیشن اور مک مکا نگران حکومت کے پاس اقتدار کے سٹیک ہولڈرز کو چیلنج کرنے کے اختیارات اور حوصلہ ہی عنقا تھا۔
عوامی تحریک نے اس اجمالی خاکے میں خاص طور پر سوال اٹھایا تھا ’’اسٹیٹ بنک کی تیار کردہ ڈیفالٹرز لسٹیں کدھر گئیں؟ یہ لسٹیں بکسوں میں بھر کر کمیشن کو پہنچائی گئی تھیں۔ نیب کا تیار کردہ چوروں کا ڈیٹا کدھر گیا؟ ایف بی آر کی تیار کردہ ٹیکس چوروں کی لسٹ کو زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا؟ گزشتہ 3 سال کے ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والا الیکشن نہیں لڑسکے گا، کا اصول کہاں دفن کردیا گیا؟ جعلی ڈگریوں والے اسمبلیوں میں نہیں جاسکیں گے۔ یہ دعویٰ کس حشر سے دوچار ہوا؟ اربوں کھربوں ہڑپ کرنے والوں کی اہلیت کو آئین کی 62اور 63 شق کے آئینے میں جانچنے کے بجائے کلمے اور دعائیں سنی گئیں۔ شادیوں کی تعداد اور بے مقصد سوالات پوچھے گئے‘‘۔
2013ء کے ان عام قومی انتخابات کے بارے میں عوامی تحریک کی پیش گوئی تو میں بھول ہی نہیں سکتا۔۔۔ ’’ان انتخابات کے نتیجے میں یاد رکھ لیں! دودھ کے دریا ہرگز نہیں بہیں گے بلکہ کشت و خون کا ایک بازار گرم رہے گا۔ اراکین اسمبلی اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے مشترکہ جدوجہد کرتے نظر آئیں گے۔ حسب سابق ملک میں کوئی اپوزیشن نہیں ہوگی بلکہ ہر جماعت مرکز اور چاروں صوبوں میں کسی نہ کسی جگہ برسر اقتدار ہوگی‘‘۔ کیا عوامی تحریک کے اس اجمالی خاکے اور پیش گوئی کی تردید کی جاسکتی ہے؟
3۔ محمد سعید اظہر(روزنامہ جنگ)
1۔ (4-9-13): ’’میں ایسے علمی اور دینی کام کررہا ہوں جن کے لئے وقت اور ارتکاز توجہ کی ضرورت ہے۔ وہ کام مجھ پر امت مسلمہ کا قرض ہے۔ میں نے اسے ادا کرنے کی نیت باندھ رکھی ہے۔ پاکستان میں میری متنوع اور متعدد ناگزیرمصروفیات کے شب و روز شروع ہوجاتے ہیں۔ ان کے دوران میں یہ کام نہ کبھی ہوا نہ ہوسکتا ہے۔ میرے اس معمول میں کسی راز کی تلاش کار بے کار اور بدگمانی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کی یہ گفتگو دس بارہ روز پہلے ایک شام سننے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر صاحب کے نعرے ’’نظام بدلو‘‘ کی روشنی میں اسے ایک ’’انقلابی شام‘‘ میں شرکت سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اس انقلابی شام کا اہتمام تحریک کے سیکرٹری اطلاعات قاضی فیض صاحب کی متحرک کوششوں کا نتیجہ تھا۔ خاکسار نے اس میں اہتمام سے شرکت کی۔ میرے منتشر معمولات حیات میں ایسی مجالس یا اجلاسوں میں حاضری ہمیشہ زیادہ تر آرزو تک ہی محدود رہتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ملاقات کی اس خصوصی ضرورت نے خصوصی پس منظر سے جنم لیا تھا۔ پاکستان کے ماحول میں مجھے ایسی صدائیں بدیہاً سنائی دے رہی ہیں، پاکستان کے ماحول میں مجھے ایسے اشکال صریحاً دکھائی دے رہے ہیں اور پاکستان کے ماحول میں مجھے ایسے عوامی طوفان کے آثار نظر آرہے ہیں جس میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت کا سحر ملک کے اس متوقع تاریخی جبر کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ جو لوگ انہیں Easy لے رہے ہیں وہ غلطی پر ہیں، جن لوگوں نے ان کے بارے میں ’’پلے نہیں دھیلا کردی پھرے میلہ میلہ‘‘ سے وقت گزارا وہ تو بالکل ہی غلطی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
1958ء سے 2013ء تک 55 برس ہوئے ہیں۔ پچپن برسوں کی اس طویل مدت میں میں نے پاکستان کے حالات و واقعات کا سیاہ و سفید دیکھا۔ احتجاجی سیاست اور جدوجہد کی ہوشربا داستانوں نے میرے سامنے جنم لیا، میرے سامنے ایسی ان ہونیاں ہوئیں جن کے وقوعے نے آج تک ذہن و عقل کو شل کرکے رکھا ہوا ہے۔
میں اپنے وطن کے ان پچپن برسوں کے زیر زمین آتش فشانوں کے دہکتے اور پھنکارتے لاوؤں کی ہلاکت خیزیوں سے صرف نظر کرنے کو تیار نہیں ہوں، فصل تیار کھڑی ہے، کوئی بھی ڈاکٹر طاہرالقادری اسے کاشت کرنے کا عزم لے کر میدان میں اتر گیا تب اسے کسی منطقی انجام سے پہلے روکنا ممکن نہیں رہے گا۔ آپ اسے ’’سیلابِ بلا‘‘ کہہ سکتے ہیں جبکہ ان کے پیروکار اسے انقلاب کے مقدس ترین مشن کا نام دے رہے ہوں گے۔ کون سی فصل تیار کھڑی ہے؟ حالات کی وہی فصل جس کی ایک جھلک ڈاکٹر طاہرالقادری کا وہ چار روزہ دھرنا تھا جس میں ان کے ہزاروں نظریاتی فدائی مرد اور عورتیں جان لیوا سردی اور سکوت مرگ میں مبتلا کردینے والی بارش کے ٹھٹھرتے لمحوں میں اپنے لیڈر کے ایک اشارے کے منتظر رہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کسی کے اشارے پر ایسا کررہے تھے یا نہیں؟ اس سوال کا کوئی تعلق ان نظریاتی فدائیوں سے نہیں۔ سیاستدان اور دانشور اس کا جواب ڈاکٹر صاحب سے طلب کرتے رہیں۔ میں تو آپ کو صرف ایک سچائی یاد کرانے کا متمنی ہوں۔ کم از کم میری پچاس پچپن برس کی صحافتی زندگی میں ایسے کسی دھرنے کا وجود نہیں ملتا۔ جس میں شریک مردو زن چار روز تک کھلے آسمان کے نیچے شدید سردی اور بارش میں اپنے لیڈر کے اشارہ ابرو کے منتظر رہے ہوں، اسے 500 ٹن انقلاب کہنا زیادتی تھی، وقت نے الارم بجایا تھا، اسے سنجیدہ فیکٹر کے طور پر لیا جانا چاہئے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے یہ الفاظ فراموش نہ کئے جائیں ’’وہ اذان تھی، اب نماز، اقامت اور جماعت ہوگی اور تکمیل انقلاب تک پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘۔ جو شخص عملاً یہ ناقابل یقین منظر بپا کرسکتا ہے اسے ایک آدھ سال کے دوران میں مزید ایسے ایک لاکھ جان نثار تیار کرنے میں کوئی خاص مشکل نہیں آسکتی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری حالات کی اس تیار کھڑی فصل کو کاشت کریں گے پاکستانی عوام کے غربت اور بے عزتی میں گندھے ہوئے دن رات، طالبان کی عفریت سے پیدا شدہ انارکی، کراچی اور بلوچستان کے بارے میں پاکستانیوں کو ’’حالات ٹھیک ہوجائیں گے‘‘ کی مستقل دھوکہ دہی، محصولات کے پوشیدہ انبار تلے عوام کی موت آسا سسکا ہٹیں، ن لیگ کے ایک مشکوک اور متنازعہ قومی انتخابات میں برسر اقتدار آجانے کا عمل، الیکشن کمیشن کی زیر و اخلاقی پوزیشن، ڈاکٹر طاہرالقادری کی 11 مئی کے قومی انتخابات سے پہلے ایک پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے تناظر میں یہ پیش گوئی کہ 12 مئی کو تبدیلی کے علمبردار رو رہے ہونگے جس کا سو فیصد درست نکلنا، ان تمام قرائن و اسباب کا تصدیقی سرٹیفیکیٹ ہے جسے ڈاکٹر طاہرالقادری کا نعرہ انقلاب ’’سٹیٹس کو‘‘ اور ’’پروسیس کے ذریعہ اصلاح‘‘ جیسی جماعتوں اور تھیوریوں کو اپنے شکنجے میں لے کر بھینچ سکتا ہے، ان کی ساختیاتی اور نظریاتی ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی۔ واضح کرتا ہوں، میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے فلسفہ انقلاب اور طریق انقلاب کے حسن و قبح پر بات نہیں کررہا، ان کے اس بے پناہ Potential سے خبردار کرنے لگا ہوں جس کی بنیاد عقیدے پر استوار ہے۔ عقیدہ جس کی خاطر لوگ ایک عالم سرشاری میں جانیں قربان کردیا کرتے ہیں۔ میرے ادارتی ساتھی برادر شفیق مرزا کے بقول سرمایہ دار، جابر، استحصالی قوتیں اور انارکسٹ، جاگیردار غریب عوام پر اپنی گرفت ڈھیلی کرنے کو تیار نہیں، دولت و قوت پہ سانپ کی طرح بیٹھے ہوئے ان طبقات کو طالبان جیسی منفی یا ڈاکٹر طاہرالقادری جیسی جذباتی تحریکیں ہی ختم کریں گی، موت کا یہ رستہ ان طبقوں نے اپنے لئے خود چن لیا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ اس ’’انقلابی شام‘‘ کو میں اس وقت کے نام کرتا ہوں جب وہ نماز، اقامت اور جماعت کے مراحل کا اعلان کریں گے۔
2۔ (6-11-13): 11 مئی 2013ء کے عام قومی انتخابات منعقد ہونے سے پہلے عوامی تحریک کے بانی ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا تھا ’’موجودہ نظام انتخاب صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی عیاشیوں کا ذریعہ ہے۔ غریب عوام کو اپنے مسائل میں الجھا کر مایوسی کے گڑھوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ موجودہ نظام انتخاب کے ذریعے گذشتہ 63 سالوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور آئندہ 100 سالوں میں بھی اس نظام کے تحت ہونے والے انتخابات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی‘‘۔ اس موقف کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے اپنے معتقدین، مریدین اور عوام کو اسلام آباد تک لانگ مارچ کی کال دی جس میں شامل ہونے والوں نے اسلام آباد میں تین دن تک دھرنا دیا۔ یخ بستہ سردی کے ان تین دنوں اور راتوں نے پاکستان کے عام آدمی کو ششدر کردیا جس نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیروکار بوڑھوں، نوجوانوں، بچوں، عورتوں اور بچیوں کو اس ٹھٹھرتے موسم میں پورے یقین کے ساتھ قیام کرتے دیکھا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی لانگ مارچ کے مظہر ایسے دھرنے کی کوئی دوسری مثال نہیں دی جاسکتی۔ 11 مئی 2013ء کے عام قومی انتخابات سے پہلے ڈاکٹر صاحب کے اس دھرنے اور ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے نعرے نے قومی سطح کے دانشوروں، صحافیوں، مبصروں اور قلمکاروں کی اکثریت کو شدید شک و شبہ میں مبتلا کردیا تھا۔ میرا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے۔ میں نے اپنے کالموں میں ڈاکٹر صاحب کے نقطہ نظر کی ڈٹ کر مخالفت کی جس کی بنیاد جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھے جانے کے نظریے پر تھی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب آئینی حکومت اپنا دورانیہ مکمل کررہی تھی۔ آس کے بجھتے دیئے روشن ہونے لگے تھے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان میں آمد اور آئینی تسلسل کی تکمیل کی چند گام کے فاصلے پر موجودگی میں سیاست نہیں، ریاست بچاؤ کا سلوگن قومی تباہی کی اعلانیہ مداخلت دکھائی دیا، دکھائی کیا دیا، ڈاکٹر طاہرالقادری کے ایسے مرحلے پر طرز فکر اور طرز عمل کے مخالفین نہایت اخلاص سے اپنے اختلافات کو برحق جانتے تھے۔ انتخابات کے انعقاد سے چند روز قبل عمران خان نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اپنی متوقع یقینی شمولیت یہ کہہ کر ملتو ی کردی اب جبکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار آئینی تسلسل کے تحت اقتدار کی منتقلی عمل میں آرہی ہے، ہم اس میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈال کر تاریخی شرمندگی سے دو چار نہیں ہونا چاہتے۔ ادھر ڈاکٹر طاہرالقادری نے 11 مئی 2013ء کی انتخابی تاریخ سے دو یا تین روز پہلے اپنی منعقدہ پریس کانفرنس میں یہ کہہ کر اپنے نظریاتی نقارے پر فیصلہ کن نوبت بجادی، ’’دیکھ لینا، تبدیلی کے پیامبر 11 مئی کے بعد اپنے سروں پر ہاتھ رکھ کر روئیں گے‘‘۔ اشارہ عمران خان اور تحریک انصاف کی جانب ہی تھا کہ ’’تبدیلی کا نعرہ‘‘ اس کی طے شدہ سیاسی علامت بن چکا تھا۔
سوال یہ ہے کہ تاریخی شرمندگی سے ڈاکٹر طاہرالقادری کو دو چار ہونا پڑا یا ان کے میرے جیسے مخالفوں سمیت عمران خان اور تحریک انصاف کو، اندرون ملک کے ان پاکستانیوں کو جو پہلی بار اپنے پوش علاقوں سے ووٹ کے بیلٹ باکس تک پہنچے کی ناگوار مشقت برداشت کرنے پر تیار ہوئے اور ان پاکستانیوں کو جو امید کی شمعیں جلائے بیرونی ممالک سے وطن کے ان قومی انتخابات کو فرض کی پکار پر لبیک کہنے پولنگ بوتھوں کی قطاروں میں لگے رہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے نظریئے میں سرخرو ہوئے، عمران خان اور ہم سب کے حصے میں ندامت کے سوا کچھ نہ آیا۔ عوامی تحریک کے سیکرٹری اطلاعات قاضی فیض الاسلام کے ہمراہ میری اور چند دوستوں کی تحریک کے مرکزی صدر شیخ زاہد فیاض سے ملاقات ہوئی، کم از کم زاہد فیاض کی اس دلیل کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا جب انہوں نے کہا ’’کرپشن لوٹ مار، عدم انصاف اور بیروزگاری، چند خاندانوں کے راج، نااہل کرپٹ حکمرانوں، دہشت گردی، حد درجہ مکمل لاقانونیت اور انارکی، خودکشیوں، بھوک و افلاس، ظلم و زیادتی، مہنگائی کے جان لیوا سمندری بھنور سے ایسے ہی انتخابی منظر نے ابھرنا تھا‘‘۔
’’ن‘‘ لیگ کی موجودہ منتخب جمہوری حکومت کا پاکستانی رائے دہندگان کے حق انتخاب کے حوالے سے بے پناہ متنازعہ اور سوالیہ نشان ہونا ہی کافی شافی ہے۔ وقت دبے قدموں ن لیگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا لانگ مارچ کے بعد فیصلہ یہ ہے ’’پرامن انقلاب کے لئے تیاریاں آدھے راستے میں ہیں، اچانک کال دیں گے ہر سیاسی جماعت اور مکتبہ فکر کو شرکت کی دعوت دوں گا کہ ہمیں دہشت گردی، انتہا پسندی، ملا ازم، غنڈہ ازم، جنگجو ازم اور فوجی حکومت نہیں چاہئے۔ ہمیں سو فیصد جمہوری حکومت چاہئے۔ میرے سابق لانگ مارچ کی طرح اب ٹی وی پر دیکھ کر دعائیں دینے کا وقت نہیں ملکی سالمیت و بقاء کے لئے ہمارے ساتھ نکلیں، اس مرتبہ اسلام آباد سے واپس نہیں آئیں گے۔ فتح کی صبح یا شہادت تک جنگ لڑیں گے‘‘۔
میرے نزدیک ڈاکٹر طاہرالقادری کے انقلابی پروگرام کا دوسرا حصہ، ایک ایسا آتش فشاں بھی ہوسکتا ہے جس کے آتشیں مادے کے شعلے عوام کی 62,60 برسوں کی آگ نے بھڑکائے ہوں جس نظام یا اسٹیٹس کو کے ہم سب عادی ہوچکے ہیں، وہ اس آگ کی لپک میں آجائے، یہ نظام جل کر راکھ نہیں ہوتا تب بھی بری طرح جھلس کر ناکارہ ہوجائے۔ میرے خیال میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا مسلسل رجوع قابل غور ہے، اس کا جواز ہے، آپ کا انہیں محض دل پسند مشغلے کے طور پر Take up کرنا، آپ کی زندگی کا سب سے غلط اندازہ بھی ہوسکتا ہے۔
پاکستان کے تاریخی افق کی بیلنس شیٹ پر موجود حقائق کی فصل شاید اب ڈاکٹر طاہرالقادری یا ان کے فلسفہ انقلاب سے متفق دیگر قوتوں کی امامت میں انقلابی نماز کے لئے لہلہارہی ہے۔ 2013ء کے قومی انتخابات نے جمہوری آئینی تسلسل کے بارے میں ان لوگوں کے دلوں میں پوشیدہ سوالات نے ضمیر کا بحران پیدا کردیا ہے جنہوں نے پوری دیانتداری کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کو نظریاتی طور پر آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ ’’آئینی مدت مکمل ہونی چاہئے‘‘ کے اصول نے موجودہ ریاستی اور انتخابی نظام میں اپنے خلاء اور نقص کو تسلیم ہی نہیں کیا ننگا کردیا ہے۔ ان جماعتوں، گروہوں اور افراد نے ہی عنان اقتدار سنبھالی ہے جن کی زندگی پاکستان میں آئین اور عوامی حکمرانی کی موت ہے، جن کا وجود جاگیرداری، سرمایہ دارانہ استحصال، اقرباء پروری اور انفرادی کروفر کے محلات کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ برسر اقتدار گروہ جو پاکستان میں انتہا پسندی، ملا ازم، غنڈہ ازم اور جنگجو ازم کے مافیاؤں کا سب سے بڑا سیاسی ادارہ ہے اس کے بعض وزراء نے ان پانچ مہینوں میں عوام کو بے حد توہین اور تذلیل سے مخاطب کیا ہے۔ خود جنت جیسی زندگیاں گزارتے اور عوام کے جہنم کو ملکی بقاء کے لئے ناگزیر مجبوری قرار دیتے ہیں جسے وہ عنقریب بدل دیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانیوں کو احساس عدم تحفظ اور احساس بے عزتی سے شعوراً کافی حد تک نجات تو دلادی۔ ان کی جماعت پاکستانی عوام کی زندگیوں کو کسی حد تک محفوظ بنانے کی قانون سازی کی واحد علمبردار جماعت بھی کہی جاسکتی ہے مگر اصول و اخلاق کے ریاستی قواعد کی روشنی میں یہ جماعت بھی وفاق اور چاروں صوبوں میں عوام کے لئے ایک واجب الاحترام زندگی مہیا نہ کرسکی۔ گزرے پانچ برسوں کے حکومتی دورانیے میں اس کے وزراء اور کارکنوں نے مواقع دستیاب ہونے پر اپنی ذاتی زندگیوں کی اقتصادی اور سماجی محرومیاں دور کرنے میں ہوش و حواس سے بیگانہ ہوکر ہاتھ رنگے۔
ابھی میں بلاول کی تقریر پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا جسے پاکستانی عوام کے شعور کے مرتبے سے ایک عجیب ترین لاپرواہی کہنا چاہئے، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نظام ریاست و انتخاب گل سڑ چکا ہے۔ حکیم اللہ محسود شہید تھا یا نہیں؟ یہ بحث بہت پیچھے جاچکی، اس سارے سسٹم پر ضرب شدید کے سوا کوئی چارہ کار نہیں، ڈاکٹر طاہرالقادری تاریخ کے اس لمحے کو غالباً پہچان چکے ہیں۔ ٹائمنگ میں غلطی نہ ہوجائے، موجودہ نظام کے حامیوں اورمذہبی جنونیوں کے درمیان ان کا اترنا ضرب شدید ہوگی۔ پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی صدر شیخ زاہد فیاض کی زبان میں ’’کشتیاں جلاکر نکلیں گے، دانشور دیکھتے رہ جائیں گے اور جھنگ کا فرزند انقلابی نماز کی امامت کررہا ہوگا‘‘۔
شاید ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں‘‘۔
4۔ مظہر برلاس (روزنامہ جنگ)
1۔ (18-7-13): یورپی جائزہ مشن کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے یہ رپورٹ مشن کے سربراہ مائیکل گاہلہ نے پیش کی۔ اس رپورٹ میں خفیہ اداروں کی مداخلت کو بالکل رد کردیا گیا ہے، واقعی ایسا ہی ہوا مگر پھر دھاندلی کہاں اور کیسے ہوئی یورپی مبصرین تو کہتے ہیں کہ نوے فیصد دھاندلی ہوئی۔ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا نہیں کرسکا، کہیں ریٹرنگ آفیسرز، کہیں پریذائیڈنگ آفیسر شامل رہے، کہیں جعلی بیلٹ پیپرز تو کہیں جعلی شناختی کارڈز استعمال ہوئے۔ کہیں دھاندلی ہوئی، کہیں دھونس، جنگ کے یہ صفحات گواہ ہیں کہ یہ خاکسار بار بار لکھتا رہا کہ ریٹرننگ آفیسرز کے علاوہ نچلے درجے کے ملازمین نے دھاندلی میں پورا ساتھ دیا ہے۔ رہے فخرو بھائی تو انہوں نے سوائے ندامت کے کچھ نہیں کمایا۔ اب صدر زرداری کہتے ہیں کہ میں ملک کی خاطر چپ رہا ورنہ دھاندلی کی خبر تو تھی۔ بس یہ الیکشن طاہرالقادری کے اقوال زریں کے مطابق ہی ہوا، انہوں نے جو کہا وہ سچ ثابت ہوا۔ دور سے آنے والوں کو بھی خبر ہوئی کہ اس الیکشن میں ووٹ کسی کو پڑا، جیت کوئی گیا اور یاد رہے کہ دھاندلی زدہ الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی کا انجام کبھی بخیر نہیں ہوا۔ ڈاکٹر غزالہ خاکوانی کا شعر برمحل ہے کہ
کچی دیوار پہ بارش کے نشاں ہوں جیسے
داغ دل ایسے ہی چہرے سے نمایاں ہوں گے
2۔ (8-8-13): ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطاب سے ایک بات عیاں تھی کہ وہ مستقبل میں ایک بڑے لانگ مارچ کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اب بہت سے وہ لوگ ان کا ساتھ دیں گے جنہوں نے پہلے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا بلکہ بعد پچھتاوے کے ساتھ کہتے رہے کہ۔۔۔ ’’قادری صاحب سچ کہتے تھے ان کا ساتھ نہ دے کر غلطی کی‘‘۔
3۔ (10-10-13): دھاندلی کے بعد سوائے ایک جماعت کے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اس الیکشن پر عدم اعتماد کیا گویا گیارہ مئی کے الیکشن قوم کی اکثریت کا اعتماد کھوچکے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے تو اس ڈرامے کا پول بہت پہلے کھول دیا تھا، اب عمران خان، ڈاکٹر قادری کا ساتھ نہ دے کر پشیمان ہیں۔ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر سب سے زیادہ شور بھی عمران خان کی پارٹی نے مچایا، دھرنے بھی دیئے مگر ایکسر سائز کا فائدہ نہ ہوا۔
5۔ اسداللہ غالب (روزنامہ نوائے وقت)
1۔ (2-8-13): فخرو بھائی تاریخ میں ہیرو کے طور پر یاد رکھے جائیں گے یا بقول ڈاکٹر طاہرالقادری ایک ولن کے طور پر لیکن ان کے استعفے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر شخص کی برداشت کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے۔ فخرو بھائی کو ایک اہم موقعے پر تاریخ ساز کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ وہ چاہتے تو آئین کی بالادستی کے لئے ہر کوشش کرسکتے تھے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ذات پر بہت کیچڑ اچھالا گیا، ان کی نیت پر بھی شک کیا گیا حالانکہ اللہ کا فرمان ہے کہ نیتوں کا حال وہی جانتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے اطلاق پر زور دینے میں کیا بدنیتی ہوسکتی تھی۔ انتخابی عمل کے شروع میں ایسا نظر بھی آیا کہ آئین کی ان دو شقوں کی فرمانروائی ملحوظ رکھی جائے گی مگر پھر اچانک پانسہ پلٹ گیا اور ہر ہماشا الیکشن کے لئے اہل قرار دے دیا گیا۔ آئین منہ دیکھتے رہ گیا۔
2۔ (10-12-13): جناب چیف الیکشن کمشنر کی نظر کا معیار یہ تھا کہ وہ ملک کے آرمی چیف جنرل کیانی کو نہ پہچان سکے جو شخص اپنے ملک کے جرنیل کو پہچاننے سے قاصر تھا، وہ اصلی اور جعلی ووٹر کی شناخت کیسے کرسکتا تھا، بہتر یہ ہے کہ فخرو بھائی جان کو اس کے عہدے پر واپس بٹھایا جائے اور الیکشن پر اٹھنے والے سوالوں کے لئے جوابدہ بنایا جائے۔ مجھے یہاں ایک بار پھر شیخ الاسلام یاد آتے ہیں جنہوں نے الیکشن کمیشن کی تشکیل پر اعتراض کیا تھا اور پورے انتخابی عمل کی تطہیر کا مطالبہ کیا تھا۔ قوم نے ان کی ایک نہیں سنی اور آج ایک اندھے موڑ سے سر ٹکرا رہی ہے۔ شیخ الاسلام اس مرحلے پر ایک بار پھر وارد ہونے والے ہیں اور وزیر داخلہ کو صرف پارلیمانی جماعتوں کو ہی نہیں، سڑکوں پر ابلنے والے ایک کروڑ انسانوں کے ہجوم کو بھی مطمئن کرنا ہوگا۔
6۔ منصور آفاق (روزنامہ جنگ)
1۔ (3-9-13): یہ یکم فروری 1979ء کا دن تھا جب امام خمینی 14 سال کی جلاوطنی کے بعد واپس ایران گئے تھے۔ اس دن ایک نئے ایران کا آغاز ہوا تھا انقلاب مکمل ہوگیا تھا۔ اس انقلاب کی عمر اب 34 سال کے قریب ہے اسی تبدیلی کے سبب آج تک ایران اپنے پورے وقار کے ساتھ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے والے واحد اسلامی ملک کی حیثیت سے پہچانا جارہا ہے۔ کیا کوئی ایسی پاکستانی شخصیت بھی ہے جو پاکستان کو اسی طرح کے کسی انقلاب سے آشنا کردے۔ میں نے اس سوال پر کافی دیر غور کیا اور بار بار میری آنکھیں ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف اٹھیں۔
اعتماد ذات کے کسی غیر فانی لمحے میں جنم لینے والے ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے لئے امام خمینی بن سکتے ہیں۔ مگر اس کے لئے انہیں دو فیصلے بہت بڑی سطح پر کرنے ہونگے۔ ایک تو غریبوں کی فلاح و بہبود کے لئے اسلام کے اس معاشی نظام کو سامنے لانا ہوگا جس میں زمین اور زمین سے نکلنے والے تمام خزانے اللہ کے ہیں اور تمام مخلوق کے لئے برابر ہیں۔ اس پر جاگیردار اپنی مرضی کی لکیریں نہیں کھینچ سکتے۔ زمین کا مالک وہ ہے جو اس میں ہل چلاتا ہے۔ یہ وہ معاشی نظام ہے جس کی بنیاد انفاق فی سبیل اللہ پر رکھی گئی ہے۔ جس کے تحت اپنی اوسط ضروریات سے زائد جو کچھ ہے وہ دوسروں کا ہے شاید انہی بنیادوں پر اسلام میں جاگیرداری فاسد اور سرمایہ داری حرام قرار پائی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اپنی کتاب اسلامی فلسفہ زندگی میں اس کے ابتدائی خدوخال واضح کرچکے ہیں۔ مگر اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ لوگوں کے عبادات کی طرف مائل کرنے کی بجائے حقوق العباد کی طرف راغب کریں۔
دوسرا فیصلہ انہیں یہ کرنا ہے کہ سب سے پہلے نمونے کے طور پر دنیا کے سامنے سب سے پہلے اپنے، اپنی اولاد کے اور اپنے ساتھیوں کے اثاثے رکھنے چاہئیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر خود بھی عمل کررہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ دونوں فیصلے ڈاکٹر طاہرالقادری کے لئے قطعاً مشکل نہیں ہیں کیونکہ نہ تو ان کے پاس ذاتی طور پر اوسط ضروریات سے زائد دولت ہے اور نہ وہ اس عقیدہ پر یقین رکھتے ہیں جس کے تحت اسلام میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کو جائز قرار دے دیا گیا ہے مگر راستے کی رکاوٹ وہ مشائخ عظام ہیں جن کے عشرت کدے قارون کی خزانوں کی مثال ہیں، ان کے اردگرد صرف مذہبی لوگوں کا اجتماع ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مدرسوں میں تعلیم حاصل کی ہے مسجدوں میں پروان چڑھے ہیں یا جنہیں عبادات سے بہت رغبت ہے۔ مجھے ان کی پاکیزگی اور طہارت سے کوئی انکار نہیں مگر ان لوگوں کا عوام کے ساتھ تعلق صرف مذہبی معاملات تک محدود ہے۔ یہ لوگ نہ تو زندگی سلگتے ہوئے مسائل کو جانتے ہیں اور نہ ہی کبھی انہوںنے ان مسائل میں شریک ہونے کی کوشش کی ہے۔ انہیں نواز شریف کی زر اگلتی آنکھ میں مقبول ہونے کے لئے ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف تقریر کرنی ہے۔ بہر حال ایک واحد ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت ایسی ہے کہ عوام ان کے ساتھ کھڑی ہوسکتی ہے مگر ان کی شخصیت کو عوام سے دور کرنے کے لئے انقلاب دشمن قوتوں نے جو کچھ ذرائع ابلاغ کی وساطت سے کیا ہے۔ اس کے تدارک کے لئے تحریک منہاج القرآن کچھ نہیں کرسکی۔ اس طرف بھرپور توجہ کی ضرورت ہے اور میرا ذاتی مشورہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے لئے یہی ہے کہ انہیں حقیقی انقلاب کی تیاری شروع کرنی چاہئے۔ اب انہیں اپنی باقی زندگی صرف انقلاب کی راہ پر گزارنی چاہئے کیونکہ یہی اسلام کا بنیاد مقصد ہے کہ انسان زمین پہ انسان بن کر رہ سکے۔
2۔ (31-12-13): ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد کے حوالے سے عطاء الحق قاسمی نے اپنے کالم میں ان کے ہم مسلک ماننے والوں کا بھی ذکر خیر فرمایا ہے۔ معاملہ مسلک تک پہنچ ہی گیا ہے تو تھوڑی سی گفتگو اس بے ادب کی بھی سن لیجئے۔ دنیا میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی طاقت کے دو سرچشمہ ہیں۔ طاقت کا ایک چشمہ انہوں نے خود بنایا ہے وہ ان کے اپنے ماننے والے ہیں جس میں دوسرے مسالک کے لوگ بھی شامل ہیں۔ ابھی تک انہوں نے جہاں بھی اپنی افرادی قوت کا مظاہرہ کیا ہے وہ انہی لوگوں پر مشتمل تھا مگر ڈاکٹر طاہرالقادری کی افرادی قوت کا ایک بہت بڑا سرچشمہ ایسا موجود ہے جسے ابھی انہوں نے ہاتھ نہیں لگایا۔ یہ سرچشمہ ان کے ہم مسلک لوگوں کا ہے جو پاکستان کی آبادی میں 70 فیصد سے زیادہ ہیں۔ اگر ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے اصل سرچشمے کی طرف رجوع کرلیا یعنی اپنے ہم مسلک لوگوں کو بھی ساتھ ملالیا تو پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
اس مرتبہ عمران خان سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ پھر وہی غلطی دھرائیں گے جو پچھلی مرتبہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے احتجاج میں شریک نہ ہوکر کی تھی۔ عمران خان اس بات کا کئی بار اظہار بھی کرچکے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے۔ وہی کچھ ہوا ہے جو انہوں نے کہا تھا۔ چونکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہم مسلک لوگ ہی طالبان کا بنیادی ٹارگٹ ہیں۔ دہشت گردوں نے زیادہ تر انہی کی مساجد میں خودکش دھماکے کئے ہیں۔ اللہ کے برگزیدہ لوگوں کے مزارات کو بموں سے اڑایا ہے۔ مشائخ عظام کی گردنیں کاٹی ہیں۔ ان کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر ان کی بے حرمتی کی ہے۔ یااہل تشیع کے لوگوں کو قتل کیا ہے۔ طالبان نے اپنے ہم مسلک لوگوں میں کبھی دہشت گردی کی کوئی واردات نہیں کی۔ رائے ونڈ جہاں تبلیغی جماعت کا ایک بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ وہاں سیکورٹی کے انتظامات تک بھی نہیں کئے جاتے۔ کیونکہ وہ طالبان کے ہم مسلک لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ اس لئے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہم مسلک اس وقت سنجیدگی سے اس بات پر غور کررہے ہیں کہ وہ کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں تاکہ حکومتی بے حسی کے سبب ہونے والی دہشت گردی کے سیل بلا خون ریز کا سد باب کیا جاسکے۔ ان ہم مسلک لوگوں کا اجتماع ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت کے اردگرد آسانی سے ہوسکتا ہے۔ سو میرے خیال میں ڈاکٹر طاہرالقادری مستقبل قریب میں بہت زیادہ اہمیت حاصل کرنے والے ہیں۔ اگر چند بڑے مشائخ ان کے ساتھ چلے گئے تو پاکستان ایک نئی طرح کی صورتحال سے دوچار ہوجائے گا۔ کچھ لوگوں کو ڈر ہے کہ یہ سلسلہ کہیں پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف نہ لے جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا کیونکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہم مسلک قانون ہاتھ میں لینے والے لوگ نہیں۔
7۔ قیوم نظامی (روزنامہ نوائے وقت)
1۔ (26-10-13): انتخابات سے پہلے آپ نے تبدیلی اور انقلاب کا جو خواب دیکھا تھا وہ چار ماہ گزر جانے کے بعد بھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ انتخابات کے بعد بھی کسی حوالے سے کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی بلکہ عوام کے دکھ درد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انتخابات سٹیٹس کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ جب تک ریاستی نظام کو مکمل طور پر تبدیل نہ کردیا جائے انتخابات استحصال، ظلم، نا انصافی اور کرپشن کو ختم نہیں کرسکتے۔ عمران خان نیک نیت اور دیانتدار سیاستدان ہیں انہوں نے کھلے دل کیساتھ کئی بار اعتراف کیا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی سوچ درست تھی کہ انتخابی نظام تبدیل کیے بغیر پاکستان میں جو انتخابات ہوں گے وہ فراڈ اور دھوکہ ہونگے اور ان سے کبھی عوام کا مقدر تبدیل نہیں ہوگا۔ پاکستان کے پرانے سیاسی لٹیرے دوبارہ اقتدار پر قابض ہوکر عوام کیلئے جینا حرام کردینگے۔ تحریک انصاف کے کارکن ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے میں شریک ہونے کیلئے بے تاب تھے مگر عمران خان نے تاریخ کا سنہری موقع ضائع کردیا۔
آج کل مظلوم عوام کا خون بہہ رہا ہے۔ انقلاب میں اگر ظالم ، کرپٹ لٹیروں اور قاتلوں کا خون بہنے لگا تو وہ پاکستان کیلئے بابرکت ثابت ہوگا۔ چند ہزار لٹیروں نے پاکستان کو یرغمال بنارکھا ہے وہ عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ عوامی انقلاب سے ہی ان لٹیروں کو عاجز اور بے بس کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو بچانے کیلئے انقلاب کے بغیر کوئی آپشن باقی نہیں بچا۔ تاریخ نے یہ ذمے داری تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر ڈال دی ہے۔ 2014ء کا سال عوامی انقلاب کا سال بن سکتا ہے۔ قومی اور عوامی مسائل کا واحد حل منظم عوامی انقلاب ہے۔
8۔ حفیظ اللہ نیازی (روزنامہ جنگ)
1۔ (11-7-13): چیئرمین تحریک انصاف کیا فرماگئے؟ ڈاکٹر طاہرالقادری صحیح تھے۔ سیاسی سفر میں ہم ہی غلط تھے ہم سے بہت خطائیں سرزد ہوئیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے فرمایا کیا تھا؟ فخرو بھائی کی عمر دیانتداری کو پچھاڑ دے گی باقی ممبر متنازعہ۔ 62/63 پر عملدرآمد نہ کرایا گیا تو دھاندلی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے 11 مئی کی رات کو سر پکڑ کر بیٹھے ہوں گے۔
9۔ پروفیسر سید اسرار بخاری (روزنامہ جنگ)
1۔ (1-8-13): ملک بھر میں لاکھوں افراد مساجد میں اعتکاف بیٹھ گئے، لاہور میں منہاج القرآن کی جانب سے جامع منہاج ٹاؤن شپ میں قائم کئے گئے شہر اعتکاف میں تقریباً 33 ہزار مردو زن کے اعتکاف بیٹھنے کا بندوبست کیا گیا۔ اعتکاف کا مطلب ہے اللہ کے در پر فروکش ہوجانا اور دنیا و مافیہا سے بے خبر اس کی عبادت میں مشغول ہوکر رمضان المبارک کا آخری عشرہ اس طرح سے گزارنا کہ بندگی کا حق ادا ہوجائے، اعتکاف رسول اللہ(A) کی سنت ہے اور عہد نبوی سے تابہ امروز جاری ہے، یوں تو دیگر کئی دینی تنظیموں نے مختلف مساجد میں اعتکاف کے لئے وسیع پیمانے پر انتظامات کئے ہیں مگر منہاج القرآن انٹرنیشنل نے تو اس سلسلے میں ایسی سبقت حاصل کرلی ہے کہ جس کا اجر اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی دے گا، ڈاکٹر طاہرالقادری کو اللہ نے دینی و سیاسی علوم اور بصیرت میں سے وافر حصہ عطا فرمایا ہے، دنیا بھر میں مساجد و مدارس کے قیام کے ساتھ منہاج کے انداز عمل سے تبلیغ دین کا ایک خاموش سلسلہ شروع کررکھا ہے کہ جس کی پکار طائر سدرہ بھی سن کر سبحان اللہ پکار اٹھتا ہے۔ منہاج القرآن نے وطن عزیز میں دینی و دنیوی علوم کی ترویج اور پاکیزہ سیاست کی بنیاد رکھ دی ہے، ایک روز یہ ادارہ ہر لحاظ سے سر برآوردہ ہوگا لوگ اس کا جائزہ لیتے ہیں اور علی وجہ البصیرت اس کی طرف دنیا بھر سے جوق در جوق بڑھ رہے ہیں، ہمیں اس ملک میں اعتدال برداشت اور علم نافع کے لئے ایسے ہی اداروں کی ضرورت ہے۔ شہر اعتکاف کے روح پرور مناظر دیکھ کر وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون (اور میں نے جن و انسان کو فقط اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے) کی تعبیر بھی سمجھ آجاتی ہے اور تفسیر بھی نظر آجاتی ہے، منہاج القرآن کا قیام ڈاکٹر طاہرالقادری کا صدقہ جاریہ ہے اللہ اسے جاری رکھے۔
2۔ (8-8-13): چند روز ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا: یہ تو اذان تھی ابھی جماعت ہونا باقی ہے۔ جس نظام کو چلتا کرنے کے لئے قادری صاحب نے دسمبر کی یخ بستہ چھ راتیں تپسیاکی اور خلق خدا جوق در جوق ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہی، وہ واقعتا اذان تھی، اب درمیانی مدت گزرنے کو ہے اور جماعت کا وقت قریب آچکا ہے، حافظ شیراز کا بھی یہی موقف تھا۔
ہر آں کسے کہ درین حلقہ زندہ نیست بہ عشق
برو چوں مردہ بفتوائے من نماز کنید
(اس محفل میں جو عشق کی گرمی سے زندہ نہیں وہ مردہ ہے جاؤ میرے فتوے کے مطابق اس کی نماز پڑھا دو)
ہماری سیاست منہج قرآنی سے ابھرتی ہے، کیونکہ ہمارے ہاں معاملات اور عبادات دو جداگانہ چیزیں نہیں، ہر کام جو جائز طریق سے کیا جائے عبادت ہے، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بے ایمانی، ہمارا معاملہ ہے اور نماز ادا کرنا عبادت۔ ہمارے تمام اچھے کام عبادت ہیں، یوں معاملات و عبادات کو الگ الگ کیا تو اقبال ضرور پکاریں گے۔
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہوں دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
آج وہ باتیں جو اسلام آباد میں شیخ الاسلام نے کہیں تھیں وہ بقول ہر باشعور سچ ثابت ہورہی ہیں، وقت گزرتا رہا، لوگ بدلتے رہے، حکمران نئے آگئے مگر کچھ نہیں بدلا صرف بوتل بدلی، عندلیب شیراز نے کہا تھا
ساقیا! مایہ شبابِ بیار
یک دو ساغر شراب بیار
وما کفتیم ساقیا زندہ رود انقلاب بیار
ساقی سرمایہ جوانی لے کر آ، ایک دو جام شراب کے لے کے آ اور میں نے کہا ہے (ساقی انقلاب لے کے آ)
3۔ (22-8-2013): گذشتہ رات صحافیوں سے گفتگو کی ایک محفل میں ڈاکٹر طاہرالقادری پہلی بار منہاج القرآن کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کے روپ میں بھی جلوہ گر دکھائی دیئے۔ انہوں نے نہایت دوستانہ ماحول میں حقیقت پسندانہ اور لگی لپٹی بغیر صورت حالات سے کالم نگاروں کو آگاہ کیا، وہ اب سوالوں کے جواب دینے میں اتنے تجربہ کار ہوگئے ہیں کہ جیسے ان کو سائل کے سوال سے پہلے ہی جواب سوجھ جاتا ہے، وہ جس انداز میں بعض حلقوں کی جانب سے دکھائے جاتے ہیں شاید وہ ہلکے ہوگئے ہیں ساری محفل اور جو حق کا ساتھ نہیں دیتے وہ پھلکے ہوگئے ہیں۔ ان کے پرخلوص لہجے اور حق گوئی سے بے حد متاثر دکھائی دی، وہ اس کھانے سے کہیں بڑھ کر لذیذ تھے جس سے انہوں نے کالم نویسوں کی میزبانی کی، ایک منقش ٹوپی اور ’’توپ‘‘ میں وہ ملا لگتے تھے نہ مسٹر، عشق رسولؐ کا پہناوا زیب تن تھا جس کی کریز کو وہ بار بار درست کرتے تو دل و دماغ کی سلوٹیں دور ہوجاتیں، وہ بس اتنی سی سیاست کرنا چاہتے ہیں جو سیاست سے چنگیزی منفی کردے اور جمہوریت کے نام پر ایک جبر مسلسل سے عوام کو نجات دینے کے لئے اپنے اخلاقی قانونی استحقاق کو بروئے کار لائیں، ان کی بے تکلفانہ باتوں سے پتہ چلا کہ کبھی کسی آئی ایم ایف ٹائپ فرد، گروہ یا حکمران سے کچھ مانگا اور نہ ان کی آفر قبول کی، پوری دنیا سے لوگ ان کی انسانی اسلامی خدمات کو دیکھتے ہوئے ان کے مشن کو جی بھر کر سیراب کررہے ہیں، اپنے لئے اپنے بچوں کے لئے کوئی کاروباری ایمپائر کھڑی نہیں کی، انہوں نے عشق عوام میں عشق رسول(A) چھپا رکھا ہے استغناء کا یہ عالم ہے کہ ہم کیا کہیں، عندلیب شیراز کی زبانی سن لیں
گدائے میکدہ ام و لیک وقت مستی
کہ ناز بر فلک و حکم برستارہ کنم
(میکدے کا گداگر ہوں لیکن جب مستی میں دیکھو تو فلک پر ناز اور ستاروں پر حکمرانی کرتا ہوں) ان کے دل کی دھڑکن تکلم بن کر صرف اتنا چاہتی ہے کہ اس ملک کا قبلہ راست ہو، انہوں نے کسی کو نہیں برائی کو برا کہا، ظلم کے سامنے ہاں نہیں کی اور ناحق کا سواگت نہیں کیا، ایک ہی دھن ہے کہ یہاں تبدیلی کے دعویداروں کو تبدیلی لاکر دکھائیں اور قوم کو کہا اپنے رب کے حضور یہ ثابت کریں کہ قوم اپنے حالات خود بدلے گی اور اللہ ان کی مدد کرے گا۔ ایسی شخصیت سے ٹکرانا اپنے ہی سر سے ٹکرانا ہے۔ (فاعتبروا یا اولی الابصار)
4۔ (15-9-13): عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے جماعت ضرور ہوگی کارکن صفیں بچھانے کی تیاری تیز کردیں۔ لگتا ہے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی تحریک کا وقت قیام قریب آگیا اور نادانوں کے سجدے میں گرنے کی گھڑی آپہنچی۔ انہوں نے اپنی جماعت کے کارکنوں کو ہدایت جاری کردی ہے کہ صفیں بچھادیں، شاید کہ ان کی مراد صفیں درست کرنا ہے۔ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی گزشتہ برس کی وہ چھ یخ بستہ راتیں ایک تلمیح تھی کہ اللہ نے بھی اس کائنات کو 6 روز میں پیدا فرمایا، جب کسی خیر کی آمد ہو تو سرخ آندھی نہیں چلتی بس علامات ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس طرح کنٹینر میں بیٹھ کر انہوں نے جو باتیں کی تھیں ان کے سچ ثابت ہونے کی بعد میں کئی سنجیدہ فکر شخصیات نے تائید کی جو انہوں نے کہا تھا وہ تو بعینہ ہورہا ہے لیکن اب عوام میں تحریک پیدا کرنے کا مشن عوامی تحریک کب اور کس انداز میں شروع کرے گی اب وقت ہے ٹی وی کے شیشے سے نکل کر عوامی آئینے کے سامنے کھڑے ہونے کا
یہ لسان العصر کا پیغام ہے
اِنَّ وَعْدَ اللّٰه حَقٌّ،
یاد رکھ
جماعت ہمیشہ کھڑی ہوتی ہے، حضرت علامہ بھی اپنی جماعت کو ایستادہ کریں، عوام سے رہ و رسم بڑھائیں، ان کا علم لوگوں تک پہنچ چکا اب ان کے خود پہنچنے کی باری ہے۔ کنٹینر میں انہوں نے ایک ہجوم کے ساتھ مل کر جس طرح کامیاب احتجاج کیا اور 6 راتوں میں ان کا لب بام سے قریب تر ہوجانا وصل کی نوید ہے، فصل کی بری خبر نہیں۔ وہ جان سے گزرنے کا عزم لے کر چلے تھے، ایسے جذبے کا حامل لیڈر ناقابل تسخیر ہوتا ہے۔ انہوں نے جماعت کھڑی ہونے کا جو مژدہ جانفزا سنادیا ہے اس کے ساتھ ہی لوگوں کا انتظار بھی شروع ہوگیا ہے، وہ میدان سیاست میں کب کے اتر چکے ہیں، دل بیدار اور جرات گفتار رکھتے ہیں۔ انتخابات کے آئندہ موسم تک وہ کہہ سکیں گے۔
قیاس کن ز گلستان من بہارِ مرا
5۔ (19-10-13): تحریک انصاف نے خیبر پختونخواہ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی کتابیں نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ان دنوں تحریک انصاف کی تمام تر توجہ تعلیم عام کرنے پر مرکوز ہے اور یہ عالم شناسی اور علم پروری کی بڑی عمدہ مثال ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی کتابیں خیبر پختونخواہ کی حکومت نے نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب قوم کا علمی سرمایہ ہیں، انہوں نے کل جو باتیں کی تھیں وہ آج سچ ثابت ہوئیں اور اس کی تصدیق کئی اصحاب خبر ونظر نے بھی کی، اسلام کو عصری تقاضوں کے آئینے میں دیکھنے اور پیش کرنے کا دلنشین انداز ہمارے علمی ورثے میں کارآمد اضافہ ہے، ایک وقت تھا کہ یار لوگوں نے ان کی باتوں کا مذاق اڑایا اور جب وقت نے اپنا فیصلہ دیا تو ان کا کہا سچ نکلا، انہوں نے اسلام سے متعلق جو فکر پیش کیا وہ بقول فراز
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کے نصابوں میں ملے
ہم بدنصیب ہیں کہ بڑا آدمی بڑا سکالر، بڑا شاعر بڑا خطیب و ادیب بڑا سائنس دان پیدا ہو تو اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کردیتے ہیں، یا موت کے بعد اس کا عرس مناتے ہیں، علامہ اقبال تک کے ساتھ ان کی زندگی میں یہی کچھ کیا گیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی زبان اور قلم میں فرق نہیں، وہ بولیں تو کتاب، وہ لکھیں تو کتاب، ہم علی وجہ البصیرت ان کی کتابیں پڑھ کر کہتے ہیں کہ وہ قومی علمی ورثہ ہیں، اگر تحریک انصاف کو اس قدر علمی پروری کا ملکہ حاصل ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی کتابیں نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ ایک سیاسی علمی پارٹی ہی سے متوقع ہے، ہم عمران خان کو یہ بہترین قدم اٹھانے پر تحسین پیش کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی کہتے ہیں کہ
سالہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تاز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں
زندگی کبھی کعبے میں کبھی بت خانے میں روتی ہے تب جاکر دنیائے عشق و حقیقت سے ایک دانائے راز اٹھتا ہے) منہاج القرآن کے بانی و داعی کی دانش اور کاوش کو ضائع نہ کیا جائے۔
6۔ (23-12-13): پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہرالقادری نے کہا ہے 29 دسمبر کو فائنل راؤنڈ ہوگا سب کو ناک آؤٹ کردیں گے۔ اس ملک کو ایک عدد انقلاب کی ضرورت ہے پھر دسمبر کی کسی برفانی دن یا رات کا یہ آتا ہوا انقلاب اپنی جھلک دکھائے گا اور کہی ہوئی باتیں پھر سے بعد میں درست ثابت ہوں گی، قبلہ قادری صاحب نے پختہ عزم کیا ہوا ہے کہ وہ آپریشن کلین اپ کرکے رہیں گے، ظالمو! علامہ قادری آرہے ہیں، اسے محض ایک بڑ نہ جاننا ایک دن شیر نرکچھار سے نکل کر ساری کالی بھیڑیں کھاجائے گا، عمران خان کی ریلی کے بعد یہ ریلہ آئے گا اور ناک آؤٹ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی کہ یہاں کسی کا ناک ہی نہیں، اس لئے پس ٹاک شاک چلے گی، ناک شاک کا کوئی رولا ہی نہیں۔ پاکستان میں خرابی نقطہ مختتم تک پہنچ چکی ہے اور عوام کی بدقسمتی دیکھئے کہ ان کا انتخابات سے بھی بھلا نہ ہوا، اب سچ بات ہے کہ لوگ تنگ نہیں بجنگ ہیں انقلاب کے ٹینک کے لئے کافی فیول گزشتہ سے پیوستہ حکمرانوں نے پہلے ہی فراہم کردیا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے انقلاب لانے کا پختہ ارادہ کررکھا ہے، وہ فرماچکے ہیں کہ وہ پاکستان ہی میں جئیں گے یہیں مریں گے کہیں نہیں جائیں گے اور اگر اپنے پاکیزہ مشن کے لئے جان دینا پڑی تو دیں گے، وہ ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ ان سے مزید پاکستان کی تباہی نہیں دیکھی جاتی اور مہنگائی، بدامنی سے بلکتے عوام کو بے یارومددگار نہیں چھوڑ سکتے، اب یہاں کرپشن اور برائی اس قدر عام ہوچکی ہے کہ انتخاب بھی کریں تو برائی ہی ہاتھ آئے گی، اس لئے صفائی ضروری ہے اور اس کے لئے عموم بلوی شرعاً انقلاب برپا کرنا جائز ہے۔ فاعتبروا وتعاونوا علی التحریر من السوئ۔
7۔ (4-1-14): ڈاکٹر طاہرالقادری نے کینیڈا کی یخ بستہ فضاؤں سے قوم کو مطلع کیا ہے، سیاسی بصیرت سے محروم لوگوں کو اقتدار کا حق نہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ثابت ہے کہ اس دور سے ڈرو جب تم پر نااہل افراد حکومت کریں گے۔ داعی انقلاب شیخ الاسلام نے ہزاروں میل کے فاصلے پر شدید سردی میں بھی ملک و قوم کا درد پال رکھا ہے، یہ مقام بھی کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے، الطاف حسین کے بعد اب اس کار ثواب میںڈاکٹر طاہرالقادری کی شمولیت نیک شگون ہے۔ انقلاب ہمیشہ پلتا مغرب میں ہے برپا پاکستان میں ہوتا ہے، منی انقلاب تو کئی آچکے ہیں مگر اب پاکستان عوامی تحریک کے قائد یکبارگی وطن کی ناگفتہ بہ فضاؤں میں داخل ہوں گے اور انقلاب کا فائنل راؤنڈ منظر عام پر لائیں گے، وہ چاہتے ہیں کہ آج کے بحرانوں اور مسائل کا واحد حل ایک ایسا انقلاب ہے جو موجودہ نظام بلکہ سارے نظام سقہ حضرات کا پتہ بھی صاف کردے اور انقلاب کے بعد دیکھا جائے گا کہ کون سا نظام لانا ہے، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ بھارت کا بھی دورہ فرمائیں گے کیونکہ وہاں بھی انقلاب کی شدید ضرورت ہے، تحریک انصاف کی سونامی بھی آئی چلی گئی اور اب کے پی کے میں آسودہ ہے، ایک ریلی تو منہاج القرآن کے انقلابیوں نے نکال دی، اب ریلیوں کا سیریل چلے گا اور پھر اس کا آخری ایپی سوڈ ہوگا جس میں ہر انقلاب دشمن قوت کا بھی آخری منظر ہوگا، اس ممکنہ انقلاب کے بعد وطن عزیز کا کیا منظر ہوگا وہی جو انقلاب فرانس، انقلاب ایران، انقلاب مصر کا ہے، سب اچھا ہوگا، شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے، عوامی تحریک کے قائد کی سیاسی بصیرت بجلی سے نہیں چلتی، موجودہ حکمرانوں کی بصیرت بجلی سے چلتی ہے، اس لئے بیچارے نااہل ہوگئے، کینیڈا میں تو بجلی جاتی ہی نہیں، اس لئے یہ کوئی ناممکن نہیں کہ ڈاکٹر صاحب برقی انقلاب لائیں اور برقی بصیرت کا مظاہرہ فرمائیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی نذر غالب کا یہ شعر
آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
ہے گریباں ننگ پیراہن جو دامن میں نہیں
10۔ کنور دلشاد (روزنامہ نئی بات)
1۔ (12-12-13): ملک صدارتی نظام حکومت کی طرف رواں دواں ہے۔ کسی وقت بھی اس کی رفتار تیز ہوسکتی ہے۔ پاکستان کا ایک انتہائی سنجیدہ دانشور گروپ ملک میں صدارتی نظام حکومت کے بارے میں گہری سوچ بچار کررہے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا بھی ایک غیر مطبوعہ نوٹ بھی ان حلقوں میں زیر بحث ہے۔ پاکستان کا ایک بااثر حلقہ بھی سوچ رہا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس نے اچھا نہیں کیا تھا۔ یہ دونوں فریقین کے لئے فراموش کرنے والا واقعہ نہیں ہے۔ اب چونکہ فیصلہ کرنے والی شخصیت منظر سے غائب ہوگئی ہے لہذا ان کے فیصلہ کے روشنی میں نئے عزم اور نئے دلائل کے ساتھ سپریم کورٹ میں اس طرز کی آئینی درخواست دائر کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن صدارتی انتخابات کو چیلنج کرنے کا اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہیں۔ غالباً وہ مسٹر آصف علی زرداری کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان نے اپنی غلطی تسلیم کرلی تھی اور کشادہ ظرفی سے کہہ دیا تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے۔ ظاہراً تو اگلا سال ڈاکٹر طاہرالقادری کا سال ہے اور آئندہ انتخاب صدارتی ہوگا۔ ایک نئی پارٹی وجود میں آنے والی ہے اور نئے اتحاد بھی معرض وجود میں آئیں گے اور مہنگائی کا عفریت ڈاکٹر طاہرالقادری کی طاقت بن جائے گا۔
11۔ذوالفقار راحت (روزنامہ اوصاف)
1۔ (31-7-13): عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے کہ موجودہ نظام کے تحت کوئی بڑی واضح تبدیلی یا انقلاب نہیں آسکتا۔ بلکہ اس نظام کے تحت کرپٹ لوگ ہی واپس اقتدار میں آئیں گے۔ عمران خان کے اعتراف کے بعد جہاں پر مجھے اپنے ماضی پر شرمسار وہ عیسائی پوپ یاد آیا جس نے گلیلیو کی عظمت کو نہ سمجھا اور اس کے مرنے کے بعد اس کی عظمت اور اس کی بات کی حقانیت کا اعتراف کیا۔ وہاں پر مجھے پارلیمنٹ کے سامنے اسلام آباد کی سڑک پر ہزاروں جاں نثار ساتھیوں میں کھڑا اکیلا ڈاکٹر طاہرالقادری یاد آرہا ہے جو پکار پکار کر عمران خان سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو دعوت دیتا رہا کہ آؤ میری آواز کے ساتھ آواز ملاؤ ورنہ یہ ظلم کا نظام آپ کو اور آپ کی آنے والی نسلوں کو نگل جائے گا۔ حکمران جماعتوں کے تو اپنے مسائل اور ایجنڈے تھے اس لئے ان کو ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے ساتھیوں کی آواز سنائی نہ دی مگر پاکستان میں انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والے عمران خان بھی سٹیٹس کو کے نظام کے رکھوالوں کی سازش کا شکار ہوگئے اور عمران خان نے تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے اپنی زندگی کا قیمتی ترین وقت اور تبدیلی کے حالات اور لمحات کو بے دردی کے ساتھ ضائع کردیا۔ مجھے اس وقت بھی عمران خان کے طاہرالقادری کی نظام کو تبدیل کرنے کی تحریک کا حصہ نہ بننے کا دکھ تھا اور مجھے آج بھی عمران خان کے اعتراف پر افسوس ہے کہ کیونکہ سیاست کی گاڑی اپنے مسافروں کا کسی بھی اسٹیشن پر زیادہ دیر تک کھڑے رہنے کا انتظار نہیں کیا کرتی۔ سیاست کے کھلاڑیوں کو دوڑ کر ہی اس پر سوار ہونا پڑتا ہے۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ عمران خان کرپٹ نظام کے ہاتھوں رسوا ہوکر ایک دن یہ کہتے ہوئے پائے جائیں گے کہ طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اس بار خاصے ہوم ورک کے ساتھ میدان میں اترے اور انہوں نے پوری جرات اور ہمت کے ساتھ کرپٹ اور ظالمانہ نظام اور اس کے سٹیک ہولڈرز کو للکارا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور اس کے جاں نثاروں نے ایک نئی تاریخ رقم کی اور آج بھی اس سٹیٹس کو کے نظام کے مجاوروں کو میرے خیال میں سب سے زیادہ خطرہ طاہرالقادری کے نظام کی تبدیلی کے نعرے سے ہے۔ کاش! عمران خان انضمام الحق کی طرح آؤٹ ہونے کے بعد نہ سوچتے اور نظام کی تبدیلی کے حوالے سے طاہرالقادری کی آواز میں اپنی آواز ملاتے اور اس طرح سے واقعی پاکستان میں تبدیلی لائی جاسکتی تھی۔
2۔ (23-8-13): 66 برس گزر گئے، عوام آج بھی انقلاب کی منتظر ہے۔ انقلاب تو دور دور تک نظر نہیں آرہا البتہ قوم نے 66 برسوں میں کئی جعلی قسم کے انقلابیوں کو ضرور بھگتا ہے۔ عمران خان نے موجودہ پارلیمانی نظام میں رہ کر اور الیکشن لڑ کر اس نظام کو تبدیل کرنے کا خواب دیکھا مگر استحصال پر مبنی اس نظام کے ایک ہی تھپڑ سے توبہ کرگئے اور اب وہ نجی محفلوں میں کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اس سیاسی اور انتخابی نظام کے ذریعے ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز، ق لیگ اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی بیشتر جماعتوں سے تو پہلے ہی تبدیلی کی کوئی امید نہ تھی مگر تحریک انصاف نے تبدیلی کے نام پر عوام کو کچھ امید دلائی تھی اور عوام یہ سمجھنے لگے کہ تحریک انصاف ہوسکتا ہے کوئی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوجائے۔ مگر عمران خان کی کچن کیبنٹ نے ان کو تبدیلی کا نشان بنانے کی بجائے سٹیٹس کو کے روایتی نظام کا حصہ بنادیا۔ ہمارا خیال تھا کہ عمران خان نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی آواز پر لبیک کہنے کے بجائے سیاسی مصلحت کا راستہ اختیار کرکے قوم کے مزید پانچ سال ضائع کردیئے اور سٹیٹس کو کے اس استحصالی نظام کو دوام بخشا لیکن دو روز قبل ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ سینئر صحافیوں کی ایک نشست ہوئی جس میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے نظام کی تبدیلی اور اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے کھل کر اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہرالقادری کی نظام کی تبدیلی کے حوالے سے کمٹمنٹ دیکھ کر حوصلہ ہوا کہ نظام کی تبدیلی کی امید ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے انتخاب سے پہلے نظام کی تبدیلی کے ادھورے مشن نے ڈاکٹر صاحب اور ان کی پوری ٹیم میں تبدیلی اور انقلاب کا ایک نیا ولولہ اور روح پھونک دی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے انتخاب سے پہلے لانگ مارچ جسے عوام ناکام سمجھتی ہے، منہاج القرآن اسے اپنی نظام کی تبدیلی اور انقلاب کے لئے شروع کی گئی تحریک کا نقطہ آغاز سمجھتی ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری ایک مذہبی اور دینی سکالر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی سیاست اور انقلاب کی عالمی تاریخ کا بھی یقینا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں۔ وہ جس نظام کو تبدیل کرنے کی تیاری کررہے ہیں، اس سٹیٹس کو کے نظام کے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ ان کو کس طرح نمٹنا ہے یقینا انہوں نے اس کی بھی تیاری کررکھی ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب کے علم میں ہونا چاہئے کہ پاکستان کی روایتی جماعتیں جب نعرہ لگاتی ہیں کہ ہم جمہوریت کو اور موجودہ نظام کو بچائیں گے۔ اس نعرے کا مقصد دراصل ان کا اپنی سیاست کو بچانے کا ہوتا ہے کیونکہ پاکستان کی روایتی سیاست کے لیڈر اور جماعتیں موجودہ نظام کو بچاتی ہیں اور جواباً نظام ان سٹیٹس کو کے سیاستدانوں اور جماعتوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اس لئے ڈاکٹر طاہرالقادری کو صرف موجودہ استحصالی نظام ہی سے نہیں بلکہ نظام کے جاں نشین اور وارثوں سے بھی لڑنے کی تیاری کرنی چاہئے۔
12۔ فاران شاہد جٹ(روزنامہ نوائے وقت)
1۔ ( 5-11-13): اب نوجوان ڈاکٹر طاہرالقادری کو اپنی اصل منزل سمجھنے لگے ہیں۔ اور تیزی کے ساتھ ان کی جماعت پاکستان عوامی تحریک میں شمولیت اختیار کرنے لگے ہیں۔ لیکن یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ طاہرالقادری کا رخ ہی کیوں؟ میرے نزدیک صرف اس لئے کہ وہ Multidimensional (کثیر الجہات) شخصیت ہیں۔ جو ہر میدان میں عبوریت میں اپنی اساس قائم کئے ہوئے ہیں۔ وہ بیک وقت زندگی کے بیشتر امور پر مہارت رکھتے ہیں اور فکر کے اعتبار سے ہر معاملے اور مسئلہ پر گرفت رکھتے ہیں۔ ان کے گراف کی بلندی کی یہی بنیادی وجہ ہے کہ وہ اس وقت پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں مقبول ترین قائد اور لیڈر مانے جاتے ہیں۔ ان کا تصور جو آج سے تیس سال قبل تھا آج بھی وہی نظریہ ان کی پہچان ہے۔ اسلامی تعلیمات، مذہبی روایات، فکری اختلافات، ملکی سیاسیات اور روزمرہ کے مسائل پر ان کا انحراف نہ برتنا ہی ان کے مصطفوی انقلاب کے نعرے کے پرچار اور کامیابی کے لئے کافی ہے۔ لیکن اہم بات یہ کہ ان کا مصطفوی انقلاب ہے کیا؟؟ دراصل مصطفوی انقلاب تین بنیادی وجوہات کے گرد گھومتا ہے۔ جس سے وہ ایک انقلاب کا تصور اخذ کرتے ہیں۔ مصطفوی انقلاب کی اخلاقی بنیاد، جب قوت نافذہ باطل سے چھن کر اہل حق کے پاس آجائے گی جب اہل حق کا سیاسی غلبہ ہوگا قوت اقتدار اور قوت نافذہ دین دار، صالح اور خدا رسیدہ افراد کے ہاتھوں میں ہوگی۔ اس طرح پورا معاشرہ صالحیت، صداقت اور شرافت و نجات کا آئینہ دار ہوگا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس مصطفوی انقلاب کی ہی اس قوم و ملت کو ضرورت ہے۔ یقینا لفظِ انقلاب ویسے ہی لفظ تبدیلی پر فوقیت رکھتا ہے۔
2۔ (10-11-13): ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی انقلابی جدوجہد بہت آگے بڑھ چکی ہے اگرچہ ان کا سفر انقلاب تین چار دہائیوں پر محیط ہے لیکن لانگ مارچ کے بعد اب ان کا سفر آخری مراحل میں شمار کیا جاتا ہے ان کی اس سفر میں کامیابی ان کی فکری و نظریاتی کامیابی ہوگی۔ چونکہ وہ تیس سال کے عرصہ سے اپنے کارکنوں اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں کی Mind Making کررہے ہیں اور بوسیدہ تصورات کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ تیس سال میں ان کے کارکن اس سوچ میں سبقت لے گئے ہیں کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت علم و فکر کے برعکس اٹھے گی تو حق اس کا خاتمہ کردے گا اور ہر عوام دشمن خرابیوں سے نمٹنے کے لئے یک جاں ہوکر ایک مضبوط طاقت بن جائے گی اور ایسا ہی وہ کررہے ہیں۔
گزشتہ روز ایک انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے انقلاب کے آخری مراحل میں بڑھتے ہوئے ایک نعرہ دیا کہ ہم جنگ کریں گے انقلاب کی صبح تک یا شہادت تک اس نعرے سے ایک سادہ لوح بھی یہ ٹھان لیتا ہے اور پہچان سکتا ہے کہ وہ اب کامیابی اور فتح کے بنا دم نہیں لیں گے۔ میری ایک ناقص رائے کے مطابق اگرچہ وہ ایک کروڑ نمازیوں کا ہدف رکھتے ہیں لیکن ممکن ہے کہ ان کے دس لاکھ کے شاہین صفت نوجوان ایک کروڑ لوگوں کی طاقت کے برابر ہوں گے۔ یوں ایک کروڑ کی طاقت دو کروڑ لوگوں کی طاقت سے لیس ہوگی۔ پھر وہ شہادت کا عزم تو ویسے ہی رکھتے ہیں۔
13۔ناصف اعوان خان (روزنامہ الشرق)
(23-10-13): تمام سرکاری ادارے ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت عوام پر ستم ڈھارہے ہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ حکومت نے انہیں ضرورت سے زیادہ اختیار دے رکھے ہیں تاکہ عوام کو بے بس بنایا جاسکے یہاں تک کہ وہ پرامن احتجاج بھی نہ کرسکیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واقعی یہ حکومت جھرلو کے ذریعے قائم ہوئی ہے جسے عوام سے بھی دلچسپی اسی بناء پر نہیں۔ اب اگر ایسی اذیت ناک و خوفناک صورتحال کے پیش نظر ڈاکٹر طاہرالقادری عوام کو جگانے کے لئے دوبارہ متحرک ہورہے ہیں تو یہ غلط نہیں ہے۔ وہ تو پہلے بھی کہتے تھے کہ سمجھ جاؤ لوگو! یہ تمہارے ساتھ ہاتھ کرنے والے ہیں ان کی لائی ہوئی جمہوریت دھوکا ہے یہ مامے چاچے تائے ماموں اور بھانجے مل کر عوام کی گردنوں پر سوار ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں مگر انہیں غیر ملکی ایجنٹ کہا گیا اور یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ ان کو ملنے والے بڑے ریلیف سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خلاف بعض ٹی وی چینلوں پر ویڈیو فلمیں بھی چلائیں یہ سب مبینہ طور سے بھاری رقوم کے عوض کیا گیا کہ کہیں عوام ان کے لانگ مارچ میں بھرپور شرکت نہ کریں مگر لانگ مارچ ہوا اور ملک کی تاریخ کا واحد لانگ مارچ تھا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایک بار پھر عوام کو اس نظام سے نجات حاصل کرنے کی دعوت دی ہے جسے بہر حال نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اب عوام کو ایک دوسرے نظام کے جانب لے جایا جارہا ہے جسے چند ہزار لوگ پیچھے بیٹھ کر چلائیں گے لہذا عوام کو ڈاکٹر طاہرالقادری کے باتوں پر توجہ دینا ہوگی۔
سچ کہتے ہیں ڈاکٹر طاہرالقادری کہ اصلاحات سے کچھ نہیں ہوگا اس سے یہ نظام اور مضبوط ہوگا عوام کے گرد ضابطوں کا شکنجہ کس دیا جائے گا۔ ہر برس آئی ایم ایف کی شرائط میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ لہذا عوام اٹھ کھڑے ہوں اور انقلاب لاکر اس چیرنے پھاڑنے والے مکروہ نظام کا بستر گول کردیں۔ ان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے اندرون خانہ عوام پر مسلط رہنے کا منصوبہ بنالیا ہے کبھی حزب اختلاف اور کبھی حکمران بن کر۔ حرف آخر یہ کہ اب عوام کے لئے ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ ملک میں انقلاب لے کر آئیں جس میں ہر چیز پر ریاست اور عوام کا یکساں حق ہو۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس کے لئے دوبارہ صدا بلند کی ہے جو اس کی طرف متوجہ ہوگا وہ یقینا فائدے میں رہے گا۔
14۔ شہباز انور (روزنامہ ایکسپریس)
(1-1-14): پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ملک میں ہوشربا مہنگائی، حکومت کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں اور بری طرز حکمرانی کے خلاف نکالی جانے والی احتجاجی ریلی کے اثرات ابھی سیاسی فضا میں موجود تھے کہ پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہرالقادری نے بھی مہنگائی کے خلاف تاریخی ریلی کا اعلان کردیا اور پھر مقررہ تاریخ کو ان کی اپیل پر شہر کا شہر مال روڈ پر امڈ آیا۔ یہ ریلی بلاشبہ تاریخی ریلی ہی کا درجہ رکھتی تھی کہ حکومت کی طرف سے تمام تر رکاوٹوں، حربوں اور کوششوں کے باوجود، موسم کی شدت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہر عمر کے خواتین و حضرات نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ناصر باغ سے اسمبلی ہال تک نکالی جانے والی اس ریلی کے لئے حکومت نے اہلکار اور وارڈنز تعینات کررکھے تھے جبکہ سیکورٹی کا انتظام پولیس کے علاوہ عوامی تحریک کے رضا کاروں نے سنبھال رکھا تھا۔ شرکاء کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ شہر میں ٹریفک کا نظام مکمل طور پر درہم برہم ہوکر رہ گیا۔ ریلی کی قیادت ڈاکٹر طاہرالقادری کے صاحبزادے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کررہے تھے جبکہ اس کے مرکزی، صوبائی اور ضلعی سطح کے عہدیدار بھی پوری طرح مستعدی کے ساتھ مصروف عمل تھے۔ اس ریلی کی نمایاں بات یہ تھی کہ بہت بڑی تعداد کے باوجود یہ مکمل طور پر پرامن رہی جس طرح تحریک انصاف کے کارکنوں نے پورے نظم کا مظاہرہ کیا اسی طرح عوامی تحریک، تحریک منہاج القرآن اور اس سے وابستہ ذیلی تنظیموں کے کارکنوں نے بھی پوری ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اسی طرح پرامن اور منظم رکھا جس طرح ایک سال قبل گزشتہ دور حکومت میں انتخابی نظام اور کرپشن کے خلاف نکالی جانے والی ریلی اور لانگ مارچ کے موقع پر رکھا گیا تھا۔ ایک اور نمایاں بات یہ تھی کہ اس ریلی میں عوامی تحریک کے قائد خود تو موجود نہیں تھے لیکن ان کی ہدایات اور مانیٹرنگ کینیڈا سے مسلسل جاری تھی جہاں سے انہوں نے ریلی کے شرکاء سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے حکمرانوں کی سات ماہ کی کارکردگی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے انہیں انتباہ کیا کہ اگر انہوں نے عوام کو ان کے حقوق نہ دیئے تو وہ خود چھین لیں گے۔ اپنے خطاب میں ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری نے حکومت کی جن غیر قانونی پالیسیوں، آئین سے متصادم اقدامات اور عوام دشمن فیصلوں کو موضوع بنایا اور ان کے اخلاقی، قانونی، آئینی اور انسانی جواز کو چیلنج کیا وہ اہل اقتدار کی نااہلیت ثابت کرنے کے لئے کافی تھے۔ حکومت کی طرف سے گزشتہ سات ماہ کے عرصہ کے دوران دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کئے جانے والے فیصلوں پر عمل درآمد سے گریز، نجکاری عمل کی غیر شفافیت، سود کے فروغ کے لئے بیروزگار نوجوانوں کو قرضہ دینے کی سکیم کا اجرائ، اختیارات کا ارتکاز، وزراء کا بلا استحقاق ہیلی کاپٹر اور دوسرے ذرائع سے سرکاری خزانے پر عیاشی کرنا اور مہنگائی، گرانی، افراط زر، امن و امان اور لاقانونیت کی بگڑتی ہوئی صورت حال ایسے ایشوز تھے کہ جنہوں نے حکمرانوں کے عوامی خدمت کے تمام دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، گڈ گورننس کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا ہے اور نام نہاد جمہوریت کے نام پر شخصی آمریت کو بے نقاب کردیا ہے۔ یہ اسی ریلی ہی کا مثبت رد عمل ہی تھا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف بیروزگار نوجوانوں کے لئے قرضہ کی اس سکیم کی شرائط پر نظر ثانی کرنے اور انہیں نرم کرنے پر مجبور ہوگئے جس کی تعریفوں میں وہ خود اور ان کے وزراء تک زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے تھے۔
عوامی تحریک کی کامیاب ریلی اور اس کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطاب کے مقابلے میں اگرچہ حکومتی ترجمانوں اور بعض وزراء نے ’’جواب آں غزل‘‘ کے طور پر بیانات داغے ہیں لیکن ان کی حقیقت کھسیانی بلی کھمبا نوچے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری بھلے ملک سے باہر ہیں اور پارلیمنٹ میں ان کی جماعت کا کوئی حصہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے حکمرانوں کی کمزوری (مہنگائی اور کرپشن) کو اپنے احتجاج کا عنوان دے کر عوامی تائید و حمایت حاصل کرلی ہے۔ عوام کی دکھتی رگ کو چھیڑ کر ان کے دلوں میں حکمرانوں کے خلاف دہکتے الاؤ اور نفرت کو مزید ہوا دے دی ہے۔ 22 دسمبر کو تحریک انصاف کی احتجاجی ریلی (جس میں دو دوسری جماعتیں جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ بھی شامل تھیں) کے مقابلے میں کسی دوسری جماعت کی بیساکھیوں کا سہارا لئے بغیر عوامی تحریک نے اس سے کہیں بڑی ریلی نکال کر یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری اب بھی عوام کے ایک طبقے میں اثرو رسوخ رکھتے اور اپنی ایک کال پر ہزاروں کی تعداد میں مردوں اور خواتین کو سڑکوں پر لاسکتے ہیں اور اس ہجوم بے کراں سے شہر کا نظم و نسق تہہ و بالا کرسکتے ہیں۔
15۔ ڈاکٹر علی اکبر الازہری (روزنامہ نوائے وقت)
(1-1-14): لاہور میں مہنگائی کیخلاف PTI اور PAT کی طرف سے یکے بعد دیگرے دو بڑے احتجاج عوامی غیض و غضب کے اظہار کی خطرناک علامت ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے اتوار 29 دسمبر مال روڈ لاہور پر ہونے والا احتجاج بلاشبہ غیر معمولی تھا۔ ویسے بھی عوامی تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر القادری اب ’’کروڑ نمازیوں کی جماعت‘‘ کا اعلان کر چکے ہیں۔ جسے وہ ملک میں موجود سیاسی نظام میں تبدیلی کی بنیاد قرار دے رہے ہیں۔ دوسرے معنوں میں وہ اب انقلاب کے سفر پر روانہ ہو چکے ہیں۔ اسکے اثرات کیا ہونگے؟ یہ تحریک کس حد تک مؤثر ہوگی ان سوالوں کا جواب وقت خود بتائے گا۔ لیکن عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ یہ احتجاج گذشتہ سال 23 دسمبر کو مینار پاکستان پر ہونیوالے بہت بڑے اجتماع کی طرح کافی موثر اور منظم تھا اسکی تعداد چاہے جتنی بھی ہو مگر یہ بات طے ہے کہ کوئی بھی حکومتی پارٹی لاہور جیسے شہر میں اتنا بڑا اجتماع کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
ملک میں نظام انتخاب کی جن خرابیوں کی طرف ڈاکٹر صاحب نے گذشتہ سال قوم اور بالخصوص عمران خان کو متوجہ کیا تھا ان کا عملی تجربہ کرنے کے بعد عمران خان نے بارہا ڈاکٹر صاحب کی بات پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔
دونوں جماعتوں اور قیادتوں کے درمیان اگرچہ مشترکات بھی ہیں مگر انکے اجزائے ترکیبی میں خاصا فرق ہے، مثلا PTI میں متحرک لوگوں کی اکثریت مختلف سیاسی جماعتوں سے ہو کر اپنی قسمت آزمانے عمران خان کی سونامی میںشامل ہوئی ہے مگر ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکن شروع سے مذہبی اور ملکی فریضہ سمجھتے ہوئے ان کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ عمران الیکشن کمیشن کی دھاندلی کا دکھ سمیٹ کر بھی اسی نظام سے جمہوریت کے پودے پر پھل کی امید لگائے بیٹھے ہیں جبکہ ڈاکٹر صاحب نے علمی اور عملی دلائل اور شواہد کی بنیاد پر اس نظام کو ختم کرکے نئے ڈھانچے کی بات کی ہے۔ اس سے قبل وہ متناسب نمائندگی کے نظام انتخاب کی بات بھی کر چکے ہیں مگر کل کے خطاب میں انہوں نے ایک خالص انقلابی لیڈر کے لہجے میں مقتدر سیاسی خاندانوں اور قوتوں کو سخت پیغام دیا ہے۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اگر وہ عوام کو اسی طرح انقلابی تبدیلیوں کی طرف آمادہ کرتے رہے تو موجودہ مہنگائی اور تباہ کن مسائل انکے کام کو آسان کر دینگے اور حکومت تمام وعدوں اور دعووں کے باوجود عوام کو آئندہ الیکشن تک گھروں میں نہیں روک سکے گی۔ آئندہ سال کے سیاسی موسم میں حکومت کی کارکردگی بنیادی رول ادا کریگی، اگر لوگ کسی ٹھوس تبدیلی کا مشاہدہ کریں گے اور انہیں زندگی کی تلخیوں میں کسی قدر اطمینان کا احساس ہو گیا تو انقلاب کی ہوا خود سرد پڑ جائے گی لیکن بدبودار نظام پر پروان چڑھنے والے درختوں سے میٹھے پھل کی امید کم ہی نظر آتی ہے۔ ان احوال اور امکانات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ نیا سال سیاسی گہما گہمی کا سال ہوگا۔ اگر ڈاکٹر طاہر القادری کروڑ نمازیوں کی ’’جماعت‘‘ لے کر اسلام آباد میں پھر جلوہ افروز ہونے میں کامیاب ہو گئے تو یہ پہلے مارچ سے مختلف منظر ہوگا۔
16۔مقصود اعوان (روزنامہ جنگ)
(1-2-14): اتوار کے روز لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام مہنگائی کے خلاف احتجاجی ریلی ایک بڑا سیاسی شو تھا۔ لاہور کی مال روڈ پر ایک طویل عرصے کے بعد اتنی بڑی تعداد میں لوگ نظر آئے۔ یہ ایک متاثر کن سیاسی اجتماع تھا جس کے ذریعے ڈاکٹر طاہرالقادری نے پاکستانی سیاست میں تقریباً ایک سال بعد ایک نئی انٹری ڈالی۔ مہنگائی کے ایشو پر گزشتہ پندرہ روز میں یہ دوسرا احتجاجی مظاہرہ تھا۔ لیکن بہت واضح طور پر طاہرالقادری، عمران خان سے بازی لے گئے۔ فیصل چوک سے ہائی کورٹ تک ہزاروں لوگ گھنٹوں طاہرالقادری کے منتظر رہے جنہوں نے کینیڈا سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔ طاہرالقادری کی ریلی سے حکومتی حلقوں میں تشویش بھی پائی جاتی ہے کیونکہ وہ جب بھی متحرک ہوتے ہیں اس کے ملکی سیاست پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں میں انہوں نے جو لانگ مارچ کیا اس کا پلیٹ فارم ان کا مذہبی ونگ منہاج القرآن تھا لیکن حالیہ نئی تحریک کے لئے انہوں نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو نئے سرے سے فعال کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ آئندہ ملکی سیاست میں بھی بھرپور عملی کردار ادا کرنے جارہے ہیں۔
17۔ فرخ سعید خواجہ (روزنامہ نوائے وقت)
(2-1-14): رواں ہفتے لاہور میں پاکستان عوامی تحریک نے ایک مرتبہ پھر ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کا نعرہ لگا کر شہر کے تاریخی مرکز ناصر باغ سے فیصل چوک اسمبلی ہال تک ریلی نکالی لیکن اس ریلی کی قیادت شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کی بجائے ان کے صاحبزادے ڈاکٹر حسین محیّ الدین نے کی۔ شیخ الاسلام نے ریلی کے شرکا سے ویڈیو لنک کے ذریعے کینیڈا سے خطاب کیا۔ ریلی میں ہزاروں لوگ شریک تھے اور ان کا جوش و جذبہ قابل دید تھا۔ بلاشبہ یہ ریلی پچھلے ہفتے لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کی ناصر باغ سے ہائیکورٹ تک نکالی جانے والی ریلی سے بڑھ کر تھی جو تعداد میں بھی اور جذبات میں بھی اپنے جوبن پر تھی۔ ڈاکٹر طاہر القادری ہمیشہ سے ہی انقلاب کے داعی رہے ہیں اور اس ریلی سے خطاب میں انہوں نے اپنے خیالات کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے آئین کی آرٹیکل 38 کے تحت انہوں نے پرامن انقلاب کے لئے تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ شیخ الاسلام نے حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں اور اس ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنا کر دم لیں گے جس کے 35 صوبے ہوں گے۔ ان کی بعض باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن مجموعی طور پر ان کی تقریر عوام کے حقوق اور بہتری کی خواہشات پر مبنی تھی۔ پاکستان عوامی تحریک کی اس ریلی سے یہ ثابت ہو گیا کہ شیخ الاسلام کے پیروکار ان پر فدا ہیں جس نے پاکستان عوامی تحریک کو ایک جاندار تنظیم میں تبدیل کر دیا ہے۔
18۔اقبال احمد۔ آکسفورڈ (روزنامہ جنگ۔ لندن)
(26-12-13): پاکستانی انتخاب کو مکمل ہوئے تقریباً سات ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے اور میں اب بھی ان وعدوں کی تکمیل کا منتظر ہوں۔ میں اب بھی ان سنہری خوابوں کی تعبیر دیکھنے کی امید لگائے بیٹھا ہوں جن کے حصول کے لئے ابھی تک مجھے کوئی سمت کا تعین بھی نظر نہیں آرہا سب کچھ ایک دائرے کے اندر گھومتا پھرتا دکھائی بھی دے رہا ہے اور محسوس بھی ہورہا ہے۔ ہر دوسرے روز صرف اتنی خبر ملتی ہے کہ وزیراعظم پاکستان یا وزیراعلیٰ پنجاب بمع اہل و عیال کسی نہ کسی غیر ملکی دورے پر روانہ ہورہے ہیں، میں ان لوگوں کو دھونڈ رہا ہوں جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران مجھ جیسے کروڑوں لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ وطن عزیز کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے، توانائی کے بحران کو فوری طور پر حل کریں گے، معیشت کا پہیہ دوبارہ چلادیں گے، امن و امان کو عام کریں گے، بیروزگاری کو جلاوطن کردیں گے اور سب سے بڑھ کر فلاں کو چوراہے میں لٹکادیں گے اگر کچھ ایسا نہ کرسکے تو خود کا نام بدل دیں گے۔ پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہرالقادری نے بار بار متنبہ کیا، دہائی دی، جلسے کئے، لانگ مارچ کئے، لیکن ہم نے ان لیڈروں کے وعدوں اور میڈیا کے ایک خاص حصے کے نقطہ نظر کو زیادہ با وزن جانا بالکل اسی اصول کے تحت جیسے جمہوریت میں اکثریت ووٹوں کو ہمیشہ فتح ملتی ہے۔ لیکن اب جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے میرے تبدیلی والے رہنما عمران خان کے تبدیل شدہ نقطہ نظر کی طرح میری سوچ بھی تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ میں اور مجھ جیسے لاکھوں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے چاہتے ہوئے بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ میں محض اس لئے شرکت نہیں کی کہ ہمارا لیڈر تبدیلی لانے کے لئے منزل کے دروازے پر کھڑا تھا اور میڈیا سمیت تمام سیاست دان بھی بتارہے تھے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اقتدار کے لئے بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں، وہ غیر ملکی بے وفا پاکستانی ہے، وہ حالات و واقعات کے ساتھ موقف اور نقطہ نظر بدلتا ہے، آج سات ماہ کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری کا ایک ایک لفظ پھر زبان عام ہورہا ہے۔ نہ صرف پاکستان کے مخصوص دانشور، قلم کار اور اینکر بلکہ ہمارے ہر دلعزیز عمران خان سمیت کم و بیش سب نہ صرف ڈاکٹر طاہرالقادری کی تمام پیش گوئیوں کو سچ کہہ رہے ہیں بلکہ موجودہ حکمرانوں کو سدھارنے کے لئے یہ نعرہ دھمکی کے طور پر استعمال کررہے ہیں کہ اس سے پہلے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری جماعت کھڑی ہونے کے لئے امامت کا اعلان کردیں اپنا قبلہ درست کرلو کیونکہ عوام اب کی بار موجودہ انتخابی نظام کو دوبارہ آزمانے کے لئے تیار دکھائی نہیں دے رہے۔ گزشتہ حکومت کو توڑتے جوڑتے پانچ سال کا عرصہ مل گیا لیکن موجودہ حکمرانوں کو شاید یہ عوامی صبر میسر نہ آسکے۔ اگر ڈاکٹر قادری کے مطالبہ کے مطابق آئین کی شق 63/62 کو عملاً اور حقیقتاً نافذ کیا جاتا اور اس کی روح کے مطابق امیدواروں کو اس چھلنی سے گزار دیا جاتا تو اب تک کم از کم کرپشن کے مسائل حل ہونے کی جانب اپنی سمت کا تعین کرچکے ہوتے۔
19۔عرفان صدیقی (ٹوکیو) (روزنامہ جنگ)
(23-10-13): نماز کے بعد ایک بار پھر اپنے جاپانی دوست کے قریب پہنچا اور ان سے صحافت کے حوالے سے اپنا تعارف کرانے کے بعد دین اسلام میں ان کے داخلے کی وجہ دریافت کرتے ہوئے عرض کیا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ اردو، انگریزی اور عربی سے عدم واقفیت کے باوجود دین اسلام میں داخل ہوئے؟ میرا یہ نومسلم جاپانی دوست مجھے دیکھ کر مسکرایا اور پاس ہی موجود کرسی پر بیٹھے ہوئے گویا ہوا، جس مسجد میں ہم نے نماز جمعہ ادا کی ہے اس کا نام مرکز منہاج القرآن ہے، میرا اس مسجد اور اس کے منتظمین سے بہت گہرا تعلق ہے، کچھ عرصہ قبل گھر والوں سے اختلافات کے بعد مجھے گھر چھوڑنا پڑا، بہت کچھ ہونے کے باوجود خالی ہاتھ گھر سے نکلا تھا کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے اسی پریشانی کی حالت میں چلتے ہوئے میں مسجد کے قریب پہنچ چکا تھا اسی دوران اس مسجد کے منتظمین میں شامل ایک پاکستانی بھائی نے مسجد کے قریب دیکھ کر مجھ سے دریافت کیا حضور آپ کچھ پریشان لگتے ہیں اگر میں آپ کی کچھ مدد کرسکوں تو حاضر ہوں۔ تاہم شرم اور انا کے باعث میں ان سے اپنی پریشانی بھی بیان نہ کرسکا اس کے باوجود وہ مجھے مسجد میں لے گئے، کھانے اور کپڑوں کا بندوبست کیا اور کئی روز تک مجھے مہمان خانے میں رکھا اور کبھی مجھ سے کسی طرح کا کوئی تقاضا کیا اور نہ ہی اپنے مذہب میں داخل ہونے پر زور دیا تاہم میں ضرور جاننا چاہتا تھا کہ ایسا کون سا مذہب ہے جو غیروں کے ساتھ ایسی ہمدردی کا سبق دیتا ہے، کون سے مذہب کی ایسی تعلیمات ہیں جو غیر مسلم کو مسلمان ہونے پر مجبور کئے بغیر اس کی مشکلات میں مدد کرنے کی تلقین کرتی ہیں انہی سوچوں کے ساتھ میں نے مرکز منہاج القرآن جانا شروع کیا تو دیکھا وہ مسلمان جن کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ دولت سے نوازا ہے وہ مسجد کے باہر نمازیوں کے چپلیں سیدھی کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں، ہر ہفتے درس قرآن کے بعد سینکڑوں لوگوں کے کھانے کے انتظامات میں ہر آدمی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اور کئی لوگ باری نہ آنے کے باعث مایوس نظر آتے ہیں۔ اللہ کے نام پر خرچ کرکے لوگ خوشی محسوس کرتے ہیں، یہ سب میرے لئے حیران کن تھا میں دین اسلام کے بارے میں مزید کچھ جاننا چاہتا تھا جس کے لئے میں نے اپنے محسن انعام الحق صاحب سے درخواست کی جنہوں نے مجھے منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا جاپانی زبان میں ترجمہ کیا ہوا دین اسلام کے متعلق لٹریچر فراہم کیا جس نے میری زندگی میں واضح تبدیلی پیدا کی اور میں دین اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام میں داخل ہوا ہوں۔ میرا یہ نو مسلم جاپانی دوست خاموش ہوچکا تھا صورتحال میری سمجھ میں آچکی تھی جو بلاشبہ میرے لئے جذبہ ہمدردی اور ایثار کے ذریعے دین اسلام کے فروغ کی یہ بہترین مثال تھی۔ دوسری جانب منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے حوالے سے کئی واقعات میرے ذہن میں تازہ ہوگئے تھے جس میں سے چھ سال قبل دورہ لندن کے دوران پیش آنے والا واقعہ اپنی مثال آپ ہے، چھ سال قبل میں لندن میں عزیز سے ملاقات کے لئے ایشیائی کمیونٹی کے حوالے سے معروف ایک لندن کے متوسط علاقے میں پہنچا مجھے بتایا گیا تھا کہ اسٹیشن سے پانچ منٹ کی پیدل مسافت پر نماز ادا کرکے گھر چلیں گے لیکن میرے لئے حیرانی کی بات یہ تھی کی اسٹیشن سے پانچ منٹ کے مسافت کے دوران مجھے پانچ مساجد نظر آئیں اور ہر مسجد ایک مختلف فرقے کے افراد کی تعمیر کردہ تھی تاہم اس سے زیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ پانچ منٹ کے بعد جس مسجد کے اندر میں داخل ہوا اس میں پانچوں فرقوں کے نمازی موجود تھے اور وہ مسجد منہاج القرآن کے زیر انتظام تھی جہاں تمام اہل مسلم چاہے ان کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو کو عبادت کرنے کی اجازت تھی، اسی طرح کی صورتحال کا سامنا مجھے کینیڈا اور ملائیشیا کے سفر کے دوران بھی ہوچکا ہے، دنیا بھر میں غیر ملکی اور غیر مسلم افراد اسلام کو صرف مذہب اسلام ہی سمجھتے ہیں ان کی نظر میں تمام کلمہ گو لوگ مسلمان ہیں تاہم یہ مسلمان ہی ہیں جو آپس میں فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر فرقہ اپنے آپ کو دوسرے فرقے کے مسلمان سے بہتر مسلمان ہونے پر یقین رکھتا ہے تاہم ڈاکٹر طاہرالقادری کی سربراہی میں چلنے والی تنظیم تحریک منہاج القرآن فرقہ واریت سے گریز کا سبق دیتی ہے اور دنیا بھر میں مساجد اور کمیونٹی سینٹر کا بہترین انفراسٹرکچر تیار کرچکی ہے اور تعلیم یافتہ علمائے کرام جن کا عمل اور کردار دین اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہے کی بہت بڑی تعداد دنیا بھر میں منہاج القرآن کے زیر انتظام مساجد اور کمیونٹی سینٹر میں خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری اپنی دین اسلام کے لئے دی جانے والی خدمات کے باعث پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے چاہنے والوں کا بہت بڑا حلقہ پیدا کرچکے ہیں جس کی مثالیں ان کے گزشتہ دورہ بھارت میں مل چکی ہے جہاں کئی مرتبہ بیس لاکھ یا اس سے بھی زائد افراد ان کے خطبات سننے کے لئے موجود رہتے ہیں جبکہ گزشتہ اتوار لاہور میں ہونے والے جلسے نے پاکستان میں بھی کئی طاقتوں کو نیند سے بیدار کردیا ہے تاہم ڈاکٹر طاہرالقادری سے ایک درخواست ہر چاہنے والا کرتا ہے کہ سیاست کرنے والوں پر سیاست نہیں ریاست بچانے کے لئے دباؤ ضرور ڈالیں لیکن سیاست میں خود داخل ہونے سے ضرور گریز کریں تاکہ دنیا بھر میں ان کی عزت اور احترام اسی طرح برقرار رہے۔
20۔خوشنود علی خان (روزنامہ جناح)
(6-8-13): جہاں کسی نیک عمل کے نتیجے میں آپ کو زمین و آسمان کے درمیان کوئی رشتہ، رابطہ قائم ہوتا نظر آئے، سمجھ لیں۔ زمین کے اس حصے یا ٹکڑے پر کوئی ایسا عمل ضرور ہورہا ہے جو رب کو بہت پسند ہے۔ آپ میں سے وہ لوگ جنہیں عموماً بیت اللہ کا دیدار نصیب ہوتا ہے، رات کو یہ منظر اس وقت نظر آتا ہے جب آپ مغرب یا عشاء پڑھ کر بیت اللہ میں بیٹھتے ہیں۔ ابابیل آتے ہیں اور تیزی سے بیت اللہ کے اردگرد سے گزر جاتے ہیں۔ لیکن وہ تو بیت اللہ ہے مگر ذکر رسولA خصوصاً تسلسل سے جہاں درود پاک پڑھا جارہا ہو۔ وہاں آپ کو یہ منظر ضرور دیکھنے کو ملے گا۔ کل رات تقریبا11 بجے میں اپنی ٹیم کے ارکان اور اپنے بڑے صاحبزادہ بیرسٹر عمار خوشنود کے ساتھ بغداد ٹاؤن پہنچا جہاں سجائے جانے والے شہر اعتکاف میں 30 ہزار لوگ موجود تھے۔ جب میں شہر اعتکاف میں داخل ہوا تو ذکر رسولA جاری تھا۔ یعنی فضا درود پاک سے معطر تھی اور لگتا تھا کہ ہر طرف رحمتوں کا نزول ہے۔ تعداد کے اعتبار سے پوری دنیا میں بیت اللہ کے بعد اس شہر اعتکاف میں سب سے زیادہ لوگ شرکت کرتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اصولاً تین چار ماہ تو اتنے بڑے اجتماع کے لئے چاہئے ہوتے ہیں کہ اس کی تیاری کی جائے۔ بہر حال میں نے جو وہاں دیکھا وہ حیران کن ہے۔ انتظامات، ماحول ہر حوالے سے لاجواب۔ مجھے بھی 40 ہزار کے اس اجتماع سے خطاب کا موقع ملا۔ چاہوں تو اس اجتماع پر کئی دن لکھتا رہوں۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ ابھی دو تین دن کا اعتکاف باقی ہے۔ شہر اعتکاف جاکر دیکھئے تو سہی!
21۔ محمد اویس خوشنود (روزنامہ جناح)
(5-8-13): آج تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطاب کی خبر میں ایک بہت بڑی خبر پوشیدہ ہے۔۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں۔ دسمبر میں جلسہ اورجنوری میں لانگ مارچ کرکے اذان دی تھی، جماعت ہونا ابھی باقی ہے۔ جماعت سے ان کی مراد۔۔۔ کوئی نعرہِ مستانہ ہے اور پھر جس ضرب کی وہ بات کررہے ہیں اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی حتمی کال دینے والے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر یہ بحث ہورہی ہے کہ تحریک منہاج القرآن کے دھرنے کے وقت عمران خان سے جو غلطی ہوئی تھی وہ اب نہیں ہوگی۔ لہذا خبر اس میں یہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کسی بڑے معاملے کے لئے تیار ہے۔ تحریک منہاج القرآن کا ذکر ہے تو عرض کردوں کہ جناب طاہرالقادری نے ٹاؤن شپ کے ایریا میں 30 ہزار لوگوں کا جو شہر اعتکاف آباد کیا ہے۔ پاکستان میں تو شاید کسی دوسری جماعت کی یہ استعداد ہی نہیں (سوائے تبلیغی جماعت کے) جو اتنا بڑا اجتماع کرسکے۔ لہذا وہ لوگ جو یہ تبصرہ کررہے تھے کہ تحریک منہاج القرآن کے کارکن اسلام آباد کے دھرنے سے مایوس ہوئے۔ انہیں ٹاؤن شپ جاکر دیکھنا چاہئے کہ منظر کیا ہے۔ برسبیل تذکرہ یہ عرض کرتا چلوں کہ حضرت علامہ طاہرالقادری اگر بھارت کے کسی حصے میں یہ شہر اعتکاف قائم کریں تو ممکن ہے وہاں تعداد لاکھوں میں ہو اور وہ یہی کیفیت ایران میں بھی برپا کرسکتے ہیں۔ سری لنکا، نیپال، مالدیپ، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا۔ ان سارے ملکوں کی کیفیات سے تو آپ سارے آگاہ ہیں۔ میرا مدعا یہ ہے کہ ایک انقلاب تیار ہے جسے آپ مصطفوی انقلاب کہہ سکتے ہیں۔
22۔ مولانا بوستان القادری (روزنامہ جنگ۔ لندن)
(29-8-13): حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی اصلاحی، احیائی اور تجدیدی تحریک منہاج القرآن کے ذریعے ملت اسلامیہ کی تعمیر ترقی اور مذہبی، سماجی، سیاسی ، علمی، فکری روحانی اور اعتقادی زندگی کے احوال و کوائف کا گہرا تجزیہ کررہے ہیں اور انسانیت اور مسلمانوں کے انفرادی و اجتماعی زندگی کے امراض کی نشاندہی کرکے ان کا کامیاب علاج تجویز کررہے ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کسی خاص طبقہ کو اپنی توجہ کا مرکز نہیں بتاتے بلکہ تمام مکاتب فکر کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کررہے ہیں اور تمام مکاتب فکر کے عقائد و نظریات کو قرآن و سنت کے ترازو میں تول کر توازن و اعتدال کے لئے ہموار کررہے ہیں۔ دفاع شان صدیق و فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں شیعہ، سنی کے مابین صدیوں پرانے اختلافات کو توازن و اعتدال کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی مصلحانہ ومجددانہ کاوش کی ہے۔ یہ تاریخی خطابات امت مسلمہ کے لئے ایک عظیم سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان خطابات کی چند نمایاں خصوصیات میری نظر میں یہ ہیں کہ ان خطابات کا انداز مناظرانہ اور مجادلانہ کی بجائے مصلحانہ اور خیر خواہانہ ہے۔ امت مسلمہ کے دونوں دھڑوں شیعہ و سنی میں تصفیہ کروانے کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے یہ خطابات امت مسلمہ کی ہمدردی، درد مندی اور عالمی سطح پر فرقہ وارانہ چپقلش سے بچانے کے لئے اور پوری دنیا میں مسلمانوں کو متحد کرنے کے لئے اور تاریخ اسلام کو پروقار بنانے کے لئے اور عالمی سطح پر مسلمانوں کو جگ ہنسائی سے بچانے کے لئے ریسرچ و تحقیق سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں، مسئلہ خلافت پر ہونے والے اختلافات کو مسئلہ خلافت آدم اور مسئلہ ملائکہ مقربین اور شیطان رجیم کے تناظر میں حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس حقیقت کو سمجھانے اور سلجھانے کی بصیرت افروز کوشش کی ہے۔ یہ طرز استدلال اچھوتا بھی ہے اور منفرد بھی ہے۔ باغ فدک کی حقیقت کو قرآن و حدیث اور عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں شیخ الاسلام نے بیان کیا ہے اور مختلف روایات پر جرح و تعدیل کی ہے اور روایات میں جو تطبیق کی ہے وہ محدثانہ اور محققانہ ہے۔ حدیث قرطاس کی مختلف روایات پر جرح و تعدیل محدثانہ اور محققانہ ہے اور ہر اعتراض کا جواب تسلی بخش دیا ہے اور ہر طرح کے شکوک و شبہات کا کامیاب ازالہ کیا ہے۔ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر ہونے والے اعتراض کا جس انداز میں محاکمہ کیا ہے اور من گھڑت روایات کا رد کیا ہے یہ شاندار خطابات حضرت شیخ الاسلام کی مجددانہ اور مصلحانہ کاوش قرار پاتے ہیں۔ صحابہ و اہلبیت کے باہمی تعلقات اور رشتہ داریوں کے حوالے سے حضرت شیخ الاسلام کے خطابات اپنی مثال آپ ہیں۔ الغرض شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری شان اہل بیت، شان صحابہ اور پھر ان مقدس شخصیات پر ہونے والے منفی سوالوں اور اعتراضات کے جوابات جس انداز میں دیتے ہیں یہ تمام لوگوں کے لئے ایک رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اہلسنت کے عقائد و نظریات کا جس محققانہ مصلحانہ اور مجددانہ شان کے ساتھ دفاع کیا ہے اس پر ہم تمام سنی علماء و مشائخ انہیں سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تمام علماء اہلسنت کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔