ڈاکٹرابوثمرالازھری (قاہرہ، مصر)
تاریخِ انسانی کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے تخلیق آدم سے ہی انسانیت کی رشد وہدایت اور راہنمائی کیلئے انبیاء و رسل کا سلسلہ جاری فرمایا۔ ہر نبی نے اپنے اپنے زمانے میں اپنی قوم کو پیغام حق پہنچایا، اور انکے عقائد و اعمال کی اصلاح کی کوشش کی اور اعمالِ بد پر عذاب کی وعیدیں سناکر انہیں ان کے انجام کار سے آگاہ بھی کیا۔ چنانچہ دعوتِ حق قبول کرنے والے کامیاب ہوئے اور اسے جھٹلانے والے عذابِ الہی کی نظر ہوگئے۔
فریضہ دعوت ِحق کی ادائیگی کے دوران، جب کبھی باطل طبقات کے مفادات کو زد پہنچتی تو انبیاء کرام سے تصادم بھی ہوجاتا تھا،لیکن حضرت موسی علیہ السلام سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کرام کی اقوام میں چونکہ برائی نے کسی طاغوتی اور باطل نظام کی شکل اختیار نہیں کی تھی، اس لئے ان انبیاء کرام کی دعوت میں نظام کی تبدیلی نہیں، بلکہ اصلاحی فریضہ سرفہرست ہوتا تھا۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر انبیاء کرام جیسے ،حضرت نوح، حضرت ھود، حضرت صالح، حضرت ابراھیم، حضرت لوط، حضرت شعیب علیہم السّلام کی بعثت مبارکہ کے مقاصد میں سے اہم ترین دومقصد تھے:
1۔ عقیدے کی اصلاح
یعنی توحید کا فروغ اورشرک کا خاتمہ۔
2۔ عمل کی اصلاح
یعنی نافرمانیوں ، گناہوں اوراخلاقی برائیوں کا خاتمہ۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے باطل عقیدے کے خلاف آوازِحق بلند کی تو باطل عقائد کے تمام پیروکار اورحامی آپ کے خلاف برسرپیکار ہوگئے ،مگر آپ نے توحید الہی اور معبود ِحق کی پہچان کروانے کیلئے ، بڑے عزم وہمت اور جرات سے ان کے معبودانِ باطلہ کو پاش پاش کردیا،تاکہ انہیں یہ باور کرائیں کہ تمہارے یہ پتھر کے بت خود اپنی مدد اور حفاظت نہیں کرسکتے تو معبود کیسے ہوسکتے ہیں؟چنانچہ ان مشرکوں نے اپنے باطل معبودوں کی مدد کیلئے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو نظرِآتش کردیا،مگر اللہ تعالی نے اپنی مدد ونصرت سے آپ کو بچا کران پریہ ثابت کردیا کہ آپ ہی حق پرہیں۔ آپ کا مخالف دعوی خدائی کرنے والا نمرود ایک موذی مرض میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوگیا اور بالآخردشمنِ توحید ونبوت اپنے بھیانک اور برے انجام کو پہنچا اور حق ظاہرہوگیا۔
اکثر اقوام نے اپنے انبیاء کرام پرایمان لانے کی بجائے انکی دعوت اور پیغام حق کوچیلنج کیا ،جس کے نتیجے میں تباہی وبربادی اورہلاکت کی صورت میں عذاب الہی انکا مقدر بنا جبکہ حضرت موسی علیہ السّلام کی بعثت تک بدی اور برائی ایک نظام کا روپ دھار چکی تھی اور اس نے قانوناً ایک باطل ، طاغوتی ،استبدادی اور ظالمانہ فرعونی نظام کی شکل اختیار کر کے پورے معاشرے کو ظلم وبربریت کے شکنجے میں جکڑ لیا تھا۔ ان حالات میں برائی کو روکنے کیلئے صرف عقیدہ وعمل کی اصلاح کافی نہیں تھی، کیونکہ اب فرعون ایک فرد نہ تھا بلکہ فرعونیت کی صورت میں بدی کا ایک طاقتور نظام جڑ پکڑ چکا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اس وقت اصلاح کے ساتھ ساتھ استبدادی نظام کے خاتمے کیلئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو انفرادی سطح پر دعوت، اصلاحِ عقیدہ وعمل اور اجتماعی وقومی سطح پر جہاد وانقلاب کے مقاصد کے ساتھ مبعوث فرماکر،نظام کو تبدیل کرنے کیلئے حکم فرمایا :
"اِذْهَبْ اِلیٰ فِرْعَوْنَ اِنَّهُ طَغٰی"
(طه 20: 24)
’’(اے موسی) تم (میری نشانیاں لیکر ) فرعون کے پاس جاؤ وہ حد سے نکل گیا ہے "۔
چنانچہ امرِ الہی اور مشیتِ ایزدی سے حضرت موسی علیہ السلام نے بدی کے نظام کے خلاف علم ِجہاد بلند کیا توآغاز میں ہی اس نظام کے سرغنوں ،محافظوں اور اجارہ داروں کی شدید مخالفتوں کی وجہ سے شدید مصائب ومشکلات رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا مگر بالآخر آپ نے نصرت الہی سے اپنے عظیم مقصد میں کامیابی حاصل کی اور طاغوتی و فرعونی نظام کو پاش پاش کرکے بنی اسرائیل کو آزاد کرالیا۔
تاریخِ انسانیت میں جب ایک بارپھرسے پوری دنیا پرجہالت و تاریکی اور ظلم بربریت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھا گئے ، لوگ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے گئے اور انسانیت سسک سسک کردم توڑنے لگی ، جنگ وجدل ، ظلم وستم اور بدی نے ایک منظم صورت اختیار کی تو اللہ تعالی نے انسانیت کواس نظام باطل سے آزاد کرانے کیلئے سلسلہء انبیاء کی آخری اور سب سے خوبصورت کڑی، ہمارے آقا ومولی ، خاتم النبیین ، سید المرسلین ، افضل الاولین والآخرین ، رحمۃ للعلمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اصلاحِ عقیدہ واعمال، دعوت وانذارجیسے تمام مقاصد سمیت "لیظھرہ علی الدین کلہ"کے مقصد عظیم کے ساتھ طاغوتی بتوں کو پاش پاش کرنے کیلئے مسیحائِ انسانیت بناکر مبعوث فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ محض دعوت وتبلیغ، انذار وتبشیر اور اصلاح ِاعمال واحوال کیلئے ہی نہیں تھی بلکہ دین حق کو تمام ادیان پر غالب کرنے اور دنیا کو امن کا گہورہ بنانے کیلئے تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تائید الہی اور مشیت ایزدی سے 23 برس کے مختصر عرصے میں اپنی بعثت کے اہداف حاصل کرکے دین حق کے غلبے کے تمام ابتدائی مراحل طے فرمالئے تھے جنہیں بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام نے مکمل کرتے ہوئے اوج ثریا تک پہنچادیا،اور دینِ حق پوری دنیا پر غالب آگیا۔
بدقسمتی سے 30 سال بعد دور ملوکیت کا آغاز ہوگیا جو طویل مدت تک جاری رہا۔ جس کی وجہ سے امت مسلمہ کے احوال واعمال میں خرابیاں پیدا ہوگئیں جن کے بارے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے ہی آگاہ فرمادیا تھا۔ چنانچہ مرورِ زمانے کے ساتھ ساتھ جب بھی امت مسلمہ میں جزوی یا کبھی کلی بگاڑ پیدا ہوا تو اس کی تجدید و اصلاح کیلئے مصلح اور مجدّد آئے اور آتے رہیں گے ، ارشاد نبوی ہے :
إِنَّ اﷲَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْاُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُّجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.
(السنن، ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب مایذکر فی قرن المائة، 4/109،الرقم:4291)
’’اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص (یا اشخاص) کو پیدا فرمائے گا جو اس (امت) کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔‘‘
آغازِ تجدیدِ دین
اب چونکہ سلسلہ نبوت ختم ہوچکا اور امت محمدی آخری امت ہے اس لئے امت مسلمہ میں پہلی صدی سے ہی مجدّدین ومصلحین آکر اپنے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق تجدیدی واصلاحی فریضہ انجام دیتے رہے اور آج تک دے رہے ہیں۔ تجدید دین کے بارے بیان کردہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق پہلی صدی ہجری کے آخر میں چونکہ خلافت اسلامیہ مکمل طور پر فساد وبگاڑ کا شکار ہوچکی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے اس کی اصلاح اور تطہیر کا فریضہ، علی منھاج النبوّۃ اس قدر احسن اور عمدہ انداز میں انجام دیا کہ آپ کو پانچواں خلیفہ راشد تسلیم کیاجاتا ہے اور اکثر علماء ومؤرخین کے نزدیک آپ پہلی صدی کے مجدّد بھی ہیں۔ آپ اپنی اوائل عمری سے ہی اپنا اصلاحی فریضہ انجام دے رہے تھے اور خلفاء میں جوخامیاں کوتاہیاں دیکھتے، انہیں ان سے آگاہ کرتے تھے ، مگر وہ آپ کی نصیحت پر کان نہ دھرتے اور سمجھتے کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کوسیاست کے امور کا ادراک وشعور نہیں، وہ صرف دینی امور کیلئے ٹھیک ہیں۔ لہذا اموی خلفاء ان کی تعلیمات اور باتوں کو اہمیت دینے کے بجائے اپنے خوشامدیوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔آپ نے ولید بن عبد الملک کے عہد خلافت میں حجاج بن یوسف کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی مگر ولید نے اس کو نظر انداز کردیا۔
سلمان بن عبد الملک جو ولید بن عبدالملک کا ولی عہد تھا وہ آپ کی نصیحت پر عمل کرتا اور آپ کی رائے کا احترام بھی کرتا تھا۔ چنانچہ جب سلمان بن عبد الملک خلیفہ بنا تو اس نے حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو اپنا ولی عہد مقرر کردیا۔ آپ نے اس دور میں اپنا اصلاحی کام جاری رکھا۔ سلمان کے بعد جب آپ کو منصبِ خلافت سونپا گیا، توآپ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالتے ہی احتساب کا آغاز اپنی ذات اور اپنے اہلِ خانہ سے کیا۔ آپ کا زمانہ خلافت فقط دوسال اور پانچ ماہ ہے اور آپکی اس مختصر سی مدتِ خلافت میں پوری ملت اسلامیہ حتی کہ افریقی ریاستوں میں بھی کوئی فقیر اور زکوٰۃ کا مستحق نہیں ملتا تھا یعنی عدل انصاف پرمبنی نظام معیشت کی وجہ سے تمام مسلمانوں کا معیار زندگی اس قدر بلند ہوگیا تھا کہ کوئی شخص غریب اور فقیر نہیں تھا اور بیت المال میں مال ودولت رکھنے کی جگہ کم پڑ گئی تھی۔ علاوہ ازیں آپ نے نظام ِخلافت ، تعلیم و تربیت ، مالیاتی و انتظامی اداروں کی تمام خامیوں وخرابیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کرکے خلافتِ راشدہ کے نظام کو بحال کردیا تھا،اسی وجہ سے آپ کو پانچویں خلیفہ راشد کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
آپ کے بعد بھی عظیم خلفاء وحکمران آئے جنہوں نے امت مسلمہ کی عظیم خدمت کی مگر کسی کو بھی خلفاء راشدین میں شامل نہیں کیاگیا اور آپ کے بعد بھی ہر زمانے میں مصلحین اور مجددین پیدا ہوئے جو بقدر استطاعت جزوی بگاڑ کی اصلاح کا کام بھی کرتے رہے۔ لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ یہ کنیسائی فکر ونظریہ عام ہونے لگا کہ دین و سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مذہبی راہنماؤں کو سیاست واقتدارسے بالکل دور رہنا چاہئے گویا کہ یہ ان کے لئے شجرِ ممنوعہ ہے اور یہ فکر اور سوچ آج تک موجود ہے اور عصرِحاضر کے مسلم حکمران بھی اسی فکر پر عمل پیرا ہیں اور بعض ملاّوں نے بھی اسی سوچ کو قبول کرلیا ہے اور وہ اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر فساد انگیزحکمرانوں کے خوشہ چین بن کر ان سے سمجھوتہ کرچکے ہیں. علامہ اقبال نے کہا تھا:
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہودین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اربابِ اقتدار کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ کوئی اسلامی مفکر ومذہبی راہنمائ، سیاست اور حکمرانی کی طرف قدم نہ بڑھائے اور جو مذہبی قائد اور راہنمائ، دین کے منافی اس نظریے کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے احیائے اسلام کی خاطر دین وسیاست کو یکجا کرنے کیلئے میدانِ سیاست میں داخل ہوتا ہے، اس کے خلاف مخالفتوں اور سازشوں کے پہاڑ کھڑے کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اب امت مسلمہ کے اکثر حکمرانوں کا یہی اندازِحکمرانی ہے ، اسی لئے آج پوری امتِ مسلمہ زبوں حالی، انحطاط وزوال، سیاسی و سماجی، اور اخلاقی ومعاشرتی پستیوں کا شکار ہے یعنی وہ کلّی زوال وانحطاط کی انتہاء تک پہنچ چکی ہے۔ ایسے حالات میں پھر سے کسی عمر فاروق رضی اللہ عنہ یا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ جیسے صاحب علم وبصیرت، حکیم ودانا قائد وراہنماء کی اشد ضرورت ہے ، جو ایک بار پھر پیدا شدہ کلّی بگاڑ کی جدید انداز اور عصر حاضر کے چیلنجز اورتقاضوں کے مطابق اصلاح کرکے امت کے زوال وانحطاط کو عروج کی طرف گامزن کرتے ہوئے اسے بام عروج تک پہنچا دے۔
ہمارا ایمان ہے کہ ان شاء اللہ ایسا ضرور ہوگا کیونکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے بعد پوری اسلامی تاریخ میں تمام صدیوں میں مصلحین ومجدّدین آتے رہے اور وہ پیدا شدہ جزوی بگاڑ کی اصلاح کرتے رہے، اگرچہ بعض علاقوں میں کلی اصلاح بھی ہوئی جیسے صلاح الدین ایوبی نے اپنے دور میں یہ فریضہ انجام دیا۔ اس کے بعد چونکہ مجموعی طور پر اسلام کاغلبہ تھا لہذا جزوی اصلاح ہی کافی تھی مگر گذشتہ چند صدیوں سے سیاسی زوال کے بعد امتِ مسلمہ پر جس زوال کا آغاز ہوا وہ اب اپنی انتہاء کو پہنچ چکا ہے۔ تمام اسلامی ممالک غیروں کے دست نگرہیں، اگرچہ بظاہر مسلمان ہی حکمران ہیں لیکن وہ دراصل بے دست وپا ہیں۔ ان کی باگ ڈور اغیار کے ہاتھ میں ہے ،اور انہیں اپنی اقوام کی ترقی وبہتری کے فیصلے کرنے کااختیار ہی نہیں حتی کہ انہیں اپنے ذاتی فیصلے کرنے کا بھی اختیار نہیں ہے۔ وہ اپنی قوم کی خوشحالی وترقی کے جویا ومتمنی بھی نہیں بلکہ وہ اقتدار کی بقاء کیلئے اغیار کی رضا وخوشنودی کے متلاشی رہتے ہیں اور یہی زبوں حالی اور انحطاط کی انتہاء ہے۔
یہ قاعدہ و اصول ہے کہ جب زوال اپنی انتہاء کو پہنچ جائے تو پھر عروج کا آغاز ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی مد نظر رکھیں کہ نہ زوال خود آتا ہے اور نہ ہی عروج بلکہ دونوں کے کچھ نہ کچھ اسباب ہوتے ہیں۔ زوال خواہ کتنا ہی طویل ہو وہ خود بخود ختم نہیں ہوتا۔ جب تک زوال کا شکار اور منتشرقوم کو کوئی مخلص و پارسا، باصلاحیت وباوفا ، دوراندیش ودانا اور جرات مند عظیم قیادت میسر نہ آئے جو اسے متحد ویکجا کرکے اور یقین ِمحکم دلاکر منزل تک رسائی کیلئے لمحہ بہ لمحہ اور قدم بقدم قیادت وراہنمائی نہ کرے تو عروج و کمال ایک خواب ہی رہتا ہے۔ آج پوری ملت اسلامیہ کے سیاسی اور مذہبی قائدین میں مطلوبہ قائدانہ صلاحیتیں نہیں ہیں۔ گویا امت مسلمہ کا زوال وانحطاط اپنی انتہاء کو پہنچ چکا ہے اور اب اسے ایک ایسے مصلح مجدّد اور مخلص، دوراندیش اور بے باک قائد کی ضرورت ہے جو اپنی خداداد قائدانہ صلاحیتوں سے اس کلی بگاڑ کی اصلاح کی صلاحیت رکھتا ہو۔
مجدد کی اقسام
مجدد دوقسم کے ہوتے ہیں:
- جو امت میں جزوی بگاڑکی اصلاح کا فریضہ انجام دیتا ہے جیسے عقیدہ، اخلاقیات اور معاملات میں سے کسی میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو وہ آکراسکی اصلاح کردیتا ہے ایسے مجددین کی تعداد زیادہ ہے اور یہ کام ایک پوری جماعت بھی انجام دیتی ہے۔
- دوسرا مجدد وہ ہوتا ہے جوامت مسلمہ میں پیدا شدہ کلی بگاڑاور نظام کی اصلاح کا فریضہ انجام دیتا ہے خواہ وہ عقائد واعمال ہوں یا اخلاقیات و معاملات ہوں، خواہ وہ امور معاشی ومعاشرتی ہوں یا اقتصادی اور سیاسی ہوں، سب کی اصلاح وتجدید کی ذمہ داری ادا کرتا ہے۔
ہمہ جہت قیادت
اگر ہم امت مسلمہ کے حالات کا سرسری جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہر شعبہِ زندگی اس قدر فساد وبگاڑ کا شکار ہے کہ اسکی اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ایسے دگر گوں حالات اور کسمپرسی میں ،کیا کوئی ایسی قیادت وسیادت اور عظیم شخصیت موجود نہیں جو امت کے اس زوال اور کلی بگاڑ کی اصلاح کا فریضہ انجام دے کر امت مسلمہ کو ترقی وعروج کی منزل پر پہنچا دے ؟
جواب یہ ہے کہ ایسی قیادت یقینا موجود ہے کیونکہ اللہ تعالی کی سنت ہے کہ وہ انسانیت کی راہنمائی کیلئے اپنے مقرب وبرگزیدہ انبیاء کو بھیجتا رہا ہے اور وہی امت مسلمہ میں ہر صدی کے آخرمیں ایک مصلح اور مجدد کو پیدا کرتا ہے کیونکہ یہی اس کی سنت وطریقہ ہے :
فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اﷲِ تَبْدِيْـلًا.
(فاطر35: 43 )
’’سو آپ اﷲ کی سُنّت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے ‘‘۔
ارشاد نبوی ہے :
’’ان العلماء ورثة الانبياء "
(ترمذی، السنن، باب ماجاء فی فضل الفقه، 5، رقم:2682)
’’بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں‘‘۔
اس دور میں دنیا کے مختلف ممالک اور گوشوں میں وارثانِ انبیاء ، علمائ، اسلامی جماعتیں اور تنظیمیں اپنی اپنی طاقت واستطاعت اور صلاحیت کے مطابق مختلف پہلوؤں سے دین متین کی خدمت سرانجام دے رہی ہیں۔ میں نے ایسے اکثر علماء ، ایسی تنظیموں اور جماعتوں کے بارے میں پڑھا اور ان کے کام کا جائزہ لیا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا اپنا مخصوص ہدف ، جہت اور میدان ہے جس میں وہ دینِ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں جیسے عقیدے کی اصلاح ، اعمال کی اصلاح ، جہاد۔ ان میں سے بعض اقتدارتک نہ رسائی چاہتے ہیں اور نہ ہی وہ اسکی کوشش کررہے ہیں، جبکہ بعض کا ہدف اقتدار کا حصول تھا اور اب وہ بعض ممالک میں مقتدر بھی ہیں، مگر ان میں سے کسی کے پاس،امت مسلمہ کو درپیش مشکلات ومسائل اور دگر گوں حالات سے نکالنے کیلئے قیادت، واضح نقطہ نظر اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق لائحہ عمل ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب انہیں ناکامی کا سامنا ہے۔
اگرچہ یہ سب اپنے طور پر جزوی اصلاح کیلئے کوشاں ہیں اور اس پر ماجور ہیں، مگر میرے نزدیک یہ سب مل کر بھی عصرِ حاضر میں امت مسلمہ کے کلی انحطاط ، بگاڑ کی اصلاح اور احیائے اسلام کا فریضہ انجام نہیں دے سکتے۔ کیونکہ وہ الا ماشاء اللہ اسلام کیلئے نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف فقط اپنے مفادات کیلئے برسر پیکار ہیں اور ان میں سے بعض صرف اپنے آپ کو ہی حق پرسمجھتے ہیں جبکہ دوسروں کو حق سے دور حتی کہ اسلام سے خارج تصوّر کرتے ہیں۔ ان حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کونسی تنظیم، جماعت، شخصیت یا ایسی عظیم قیادت ہے جو تمام طبقاتِ اسلامیہ کو صرف اس نظر سے دیکھے کہ سب ہی اہل قبلہ اور مسلمان ہیں اور اس وقت امت مسلمہ کوبالعموم اور پاکستان کو بالخصوص درپیش مشکلات وخطرات اورگھمبیرمسائل کے منجدھار سے نکال کر ساحل مراد تک پہنچا سکتی ہے ؟
میں نے اسی سوال کے جواب کیلئے پوری دنیا کی بہت سی اسلامی جماعتوں ، تنظیموں اور نامورعلماء کے بارے میں پڑھا ہے۔ اسی دوران میں نے تحریک منھاج القرآن اور اسکے بانی کی طرف سے عالمی سطح پر اسلام، مسلمانوں اور انسانیت کیلئے، دینی ،تعلیمی ، اقتصادی، سیاسی، سماجی ،معاشرتی ، فلاحی اور قیام امن کیلئے پیش کی جانے والی مساعی وخدمات جلیلہ کا دور وقریب سے تنقیدی جائزہ بھی لیا،تو مجھے دینی اوردنیاوی ہر دو اعتبار سے ایساکوئی پہلواور شعبہ نہیں ملا جس میں ان کے کارہائے نمایاں اور قابلِ تحسین کام نہ ہوں۔ ایک طرف وہ دنیا کے 90 سے زائد ممالک میں دعوتی میدان میں علمی وتحقیقی انداز میں اسلام کے دفاع اور دہشت گردی وانتہاء پسندی کے خاتمے کیلئے کوشاں ہیں اور ان میں عدیم المثال تنظیمی نیٹ ورک بھی قائم ہے اور دوسری طرف دینی ودنیاوی علم کے تمام شعبوں میں اردو ، انگریزی اور عربی زبان میں ہزار کے قریب کتابیں لکھی ہیں۔۔۔ 6ہزار موضوعات پر دینی ، فقہی ، تفسیری، اصلاحی، تربیتی، اخلاقی، روحانی، نظریاتی اور سائنسی موضوعات پر اردو ،انگریزی اور عربی زبان میں خطابات ولیکچرز موجود ہیں۔۔۔ دنیا کا سب سے بڑا غیرسرکاری تعلیمی نیٹ ورک اور پوری دنیا میں محبین ، ممبران اور رفقاء کا ایک سمندر ہے۔۔۔ جبکہ انکے علاوہ مجھے کوئی دوسرا نظرنہیں آیا جس نے ان تمام پہلوؤں اور شعبوں میں کام کیا ہو اور اسکا پوری دنیا میں ایک مربوط نیٹ ورک بھی ہو۔ کیا عالمی سطح پرکوئی تنظیم یا جماعت منھاج القرآن جیساکام کر رہی ہے۔۔۔ ؟ یقینا نہیں، بلکہ سب کا کام مختلف شعبوں میں جزوی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ، میں بڑے وثوق اور یقین سے کہہ رہا ہوں کہ اس دور میں صرف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہی وہ مصلح اور صاحب بصیرت قائد وراہنما ہیں جو پہلے پاکستان اور پھر امت مسلمہ کو موجودہ مشکل ترین صورت حال سے نکال سکتے ہیں۔۔۔کیوں؟
کیونکہ شیخ الاسلام ، انبیاء کرام ، مصلحین اور مجددین کی سنت پرعمل کرتے ہوئے گذشتہ تین دہائیوں سے پاکستانی قوم کو بیدار کرنے اور پاکستان میں ظلم وستم پرمبنی کرپٹ ظالمانہ نظام کو بدلنے کیلئے صدائے حق بلند کررہے ہیں مگر افسوس کہ پاکستانی قوم کو بنی اسرائیل کی طرح ابھی تک احساس وشعور نہیں ہورہا کہ انکے دست و بازو بن کر فرسودہ واستحصالی نظام کی بساط لپیٹ کرفساد اور مفسدین کو نشانہ عبرت بنادیں۔ اگریہی حال رہا تو خاکم بدہن پاکستان دن بدن کمزور اور پسماندہ ہوتا رہے گا۔
بیداریِ شعور کی ضرورت
بے شک پاکستان اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمت ہے جو ہمیں اپنے بزرگوں کی جدوجہد اور قربانیوں سے ملی ہے اور اگر نعمت کی ناقدری کی جائے اور اسکی حفاظت کے تقاضے پورے نہ کئے جائیں تو معاذاللہ وہ چھن بھی سکتی ہے۔ خواہ اللہ تعالی نے ہی اسے مقدر کیا ہو، جیسے اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے بنی اسرائیل کو بشارت دی کہ میں نے وادیِ مقدس تمہارے لئے لکھ دی یعنی مقدر کردی ہے لہذا جاؤ۔ موسی علیہ السلام کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے وہاں موجود قوم سے لڑو یعنی اسکے حصول کی بھرپور محنت کرو گے تو وہ تمہیں مل جائے گی مگر بنی اسرائیل نے لڑنے سے انکار کردیا یعنی نعمت کا ادراک اور شعور نہ کرسکی اور موسی علیہ السلام سے کہا:
فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ.
’’پس تم اور تمہارا رب (ایک ساتھ) جاؤ اور جنگ کرو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں‘‘۔
(المائدة 5: 24)
یعنی جب وہ قوم وہاں سے نکل جائے گی تو پھر ہم داخل ہونگے۔ انہوں نے کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کیلئے مقدر کی ہوئی نعمت سے اسے محروم کردیا اور وہ چالیس سال تک وہیں بھٹکتی رہی۔ کیونکہ اس نے موسی علیہ السلام کے ساتھ ملکر اس کے حصول کی محنت وکوشش نہیں کی تھی اوریہ وہی قوم ہے جسے موسی علیہ السلام نے فرعونی ظالم نظام کے خلاف بغاوت کرکے آزاد کرایا تھا مگر یہاں انہوں نے کمزوری کا مظاہرہ کیا۔
ہمیں بھی بنی اسرائیل کی طرح آزادی تو ملی مگر 65 برس میں عمل تطہیر نہیں ہوسکا، جس کی اشد ضروت ہے تاکہ آزادی کے مقاصد اور ثمرات بھی حاصل ہوں۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ پہلے سے موجود فساد انگیزوں، بدکرداروں کو نکالنے ، اور نظام کی تطہیر کیلئے لوگوں کاگھروں سے باہر نکل کر کوشش کرنا ایک لازمی امرہے ، کیونکہ گھر بیٹھے صرف خواہش سے کوئی چیزحاصل نہیں ہوسکتی اور نہ ہی نظام تبدیل ہوسکا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالی اپنے وعدے کے مطابق موسی علیہ السلام کے صدقے ہی بنی اسرائیل کو وادیِ مقدس کی نعمت عطا کردیتا لیکن یہ اللہ تعالی کی سنت ہی نہیں، لہذا اس کے حصول کیلئے قوم کاخود اٹھنا اور محنت کرنا بقول اقبال شرط ہے۔
موت ہے وہ زندگی جس میں نہ ہو انقلاب
روحِ امم کی حیات ہے کشمکشِ انقلاب
پاکستان کی موجودہ صورتِ حال میں دجل و فریب ،کرپشن وفساد ، دھوکہ دہی وحرام خوری ،چوربازاری و رشوت خوری، اقربا پروری ، سفارش، طاغوتی واستبدادی، استحصالی واستعماری ، جاگیردارانہ وسرمایہ دارانہ ظلم وستم اور ناانصافی پرمبنی فرسودہ وباطل نظام کی موجودگی میں صرف عقائد واعمال اوراخلاق کی اصلاح پر اکتفاء کرنا کافی نہیں کیونکہ ہمارا نظام سیاست بدی کا پروردہ اور منافقت وبرائی اور بدی کی علامت ہی نہیں بلکہ خود یہ نظام ہی عوام اور پاکستان کا اصل دشمن بن چکا ہے۔ پاکستان اور عوام کی حفاظت وبقاء کیلئے اسے تبدیل کرنا، ہمارا قومی فریضہ ہے۔ لہذا اس ناسور کو کاٹنے اور اسے ختم کرکے دریا برد کرنے ، اپنے اور اپنی آئندہ نسلوں کے تابناک اور روشن مستقبل کیلئے ہمیں خود ہی اس غریب کش نظام کے خلاف بغاوت سے اسکا تختہ الٹ کر،عدل وانصاف پر مبنی ایک نیا فلاحی نظام لانا ہوگا۔
میرے علم اور مشاہدے کے مطابق گذشتہ دہائیوں سے اس کرپٹ نظام کے خلاف جو صدائے موسوی اور آذان محمدی بلند ہورہی ہے وہ صرف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی آواز اور آذانِ انقلاب ہے ، اور یہ کوئی عام اور معمولی آواز نہیں بلکہ ایسی جراتمند اور بے خوف آواز بلند کرنے والی ہستیوں کے بارے میں ہی علامہ نے کہا:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
جو قوم ایسی ہستیوں کی آواز پرلبیک نہ کہے اور حصول مقصد کی کوشش نہ کرے تو پھر اللہ تعالی اسے اپنی نعمت سے محروم کردیتا ہے اور وہ صدیوں تک کسی اورمسیحا کا انتظار کرتی رہتی ہے۔
چنانچہ اے پاکستانی قوم ابھی بھی وقت ہے!
وہ آواز ابھی بھی بلند ہورہی ہے اور اللہ تعالی نے پاکستان اور امت مسلمہ کی کشتی کو بھنور سے نکال کر ساحل مراد تک پہنچانے کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری کی صورت میں مسیحا اور ناخدا عطا کردیا ہے۔ لہذا مملکت خداداد پاکستان کو بچانے ، اسکے مقاصد کی تکمیل کیلئے موجودہ فرسودہ نظام سیاست کی بساط لپیٹنے اور شیخ الاسلام کے دست وبازو بن کر ،انکی سحر انگیز، دوراندیش اور حکیمانہ قیادت میں متحد ہوکر عَلم بغاوت بلند کرکے اس ظالمانہ نظام کو پاش پاش کردیں کیونکہ اب اس نظام کوبدلنے کا راستہ صرف اس نظام سے بغاوت ہی ہے۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
کھول آنکھ زمیں دیکھ ، فضا دیکھ ،فلک دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ