مملکت خداداد پاکستان کو فی الواقع اپنی سلامتی کے لئے اب تک کا سنگین ترین چیلنج درپیش ہے۔ یہ چیلنج اسے محض بھارت کے خطرناک جنگی عزائم کی وجہ سے نہیں کیونکہ تنہا بھارت کے ساتھ ہمارا مقابلہ تو کئی مرتبہ پہلے بھی ہو چکا ہے اور اب تو پاکستان پہلے کی طرح رہا بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان بلاشبہ ایک مضبوط عسکری قوت کا حامل ایٹمی اسلامی ملک ہے جس کی طرف بھارت میلی آنکھ دیکھنے سے پہلے سو مرتبہ سوچے گا۔ اصل مسئلہ یہ پیدا ہو چکا ہے کہ اس دہشت گردی کے ایجنڈے پر دنیا کے بیشتر ممالک جھوٹے پروپیگنڈے پر بھارت کے حمایتی بن چکے ہیں۔ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی اہم ملاقاتیں اور اجلاس تواتر کے ساتھ جاری ہیں۔ دوسری طرف پاکستان تیزی سے عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ ہمارے اپنے دیرینہ ایران اور چین جیسے دوست ممالک بھی اس معاملے میں ہمارا ساتھ دینے کو تیار نہیں کیونکہ ہماری سیاسی قیادت اور موجودہ حکمران خود آنکھیں، زبان اور دماغ بند کر کے عالمی استعماری قوتوں کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں ان حالات کا بھرپور فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہیں اور پاکستان پر ہر طرف سے دباؤ بڑھا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل اور پاکستان کو کمزور تر کرنے کی خواہاں ہیں۔
قبائلی علاقوں میں مقامی آبادی کے ساتھ پاک فوج کی حالیہ کاروائی بھی اسی خطرناک منصوبے کا حصہ ہے۔ ابھی پاکستان دشمنوں کی بچھائی ہوئی اس بساط کے خطرناک مہروں کے خلاف کاروائی میں الجھا ہوا ہے کہ اس کی مشرقی سرحدوں پر بھارتی حملے کے سائے منڈلانے شروع ہوگئے ہیں۔ بمبئی کے انسانیت سوز واقعات واقعی دہشت گردی کے قابل مذمت اور قابل افسوس واقعات ہیں۔ ابھی ان کی تحقیقات کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچیں اور نہ ان واقعات کے اہم کرداروں کا مرکز معلوم ہو سکا ہے مگر بھارتی حکومت اور میڈیا پہلے روز سے پاکستان کو ہی اس کا مجرم گردان رہا ہے۔ بھارتی شورو غوغا اتنا زیادہ اور منظم طریقے سے ہو رہا ہے کہ اس نے پوری دنیا کی رائے کو اپنی ہمدردی میں ہموار کر لیا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت متعدد اسلامی ممالک بھی اس کی رام کہانی سے متاثر ہو چکے ہیں۔ بمبئی واقعات میں لگی ہوئی آگ بھی نہ بجھی تھی کہ بھارتی سفارتکار تیزی سے پوری دنیا میں پھیل گئے۔ ان کے سیکرٹری خارجہ ایک وفد کے ہمراہ اقوام متحدہ میں پیش ہوگئے اور امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کی آشیر باد حاصل کرنے کے بعد سلامتی کونسل سے اپنی مرضی کے فیصلے کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ جہاں تک پاکستان کے بیرون ملک سفارتی فرائض کے ذمہ دار سفراء اور سیکرٹری حضرات کا معاملہ ہے تو الا ماشاء اللہ پوری دنیا میں ان سے غافل، تساہل پسند اور روائتی طور پر محض تنخواہ لینے کے لئے وقت گزاری کرنے والے لوگ شاید ہی کسی ملک کے ہوں گے۔ ان لوگوں کی تعیناتی اور ان کی روزمرہ کارکردگی کی ذمہ دار وزارت خارجہ کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت بھی ہوتی ہے۔ حال ہی میں امریکہ، UNO اور برطانیہ جیسے اہم ترین مقامات پر جو لوگ متعین کئے گئے ہیں ان کی قابلیت میں تعلیم اور تجربہ کی بجائے سیاسی وابستگی اور ذاتی تعلقات ہیں۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ بمبئی واقعات کے مضمرات اور بھارتی دھمکیوں اور بے جا الزام تراشیوں کے جواب میں مستقل اور ٹھوس حکمت عملی وضع کرنے کے لئے ہم اپنے بیرون ملک سفیر حضرات کو اعتماد میں لیتے یا بیرون ممالک کے سفیروں کو بلاکر انہیں حقیقت حال سے آگاہ کرتے الٹا بھارت نے اپنے سفارتی نمائندوں کو دنیا بھر سے طلب کر لیا ہے اور ہمارے خلاف انہیں ذہنی اور عملی طور پر تیار کر رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے اعلیٰ عہدیدار آئے دن بھارت اور پاکستان کے دورے کرتے ہیں۔ انہیں جو بھارت بریف کرتا ہے وہی کچھ یہاں مزید دھمکیوں کے ساتھ سنا کر چلے جاتے ہیں۔
تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ سمیت بہت سے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے وزیراعظم کی طرف سے بلائی گئی APC میں جنگی بنیادوں پر سفارتی سرگرمیاں تیز کرنے، ملکی قائدین پر مشتمل وفود بیرون ملک بھیجنے اور دوست و مسلم ممالک کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے فوری اقدامات کرنے پر زور دیا تھا مگر اس اہم ترین معاملے کی طرف قابل ذکر پیش رفت اب تک نہیں کی جاسکی۔ ہماری اعلیٰ سیاسی قیادت اور وزارت امور خارجہ سفارتی سطح پر اپنا موقف منوانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔ سلامتی کونسل کے کہنے پر چند تنظیموں اور افراد پر پابندی لگانے اور دہشت گردی کا شکار ہزاروں لوگوں کی اموات کے باوجود ہماری حکومت عالمی سطح پر بھارت کے مقابلے میں ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ملک کی ’’مقبول ترین‘‘ سیاسی قیادت نے ایسے حالات میں پارلیمنٹ کی بالادستی کی جنگ شروع کر دی ہے جب کہ پاکستان کی سا لمیت خطرے میں ہے۔ دہشت گردوں کا پاکستان سے تعلق ثابت کرکے دشمنوں کو خوش کرنے کے لئے الٹا پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
اس موقع پر سیاسی قیادت نے جس دانشمندی کا مظاہرہ عارضی طور پر وزیراعظم کی بلائی گئی APC میں کیا تھا وہ محض وقتی ثابت ہوئی۔ ہر کوئی سیاسی Point Scoring میں لگا ہوا ہے۔ پنجاب میں گورنر اور حکومت کے درمیان سرد جنگ اب کھلے محاذ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ بعض مذہبی، سیاسی رہنما ابھی تک فوج کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہیں ایسے حالات میں جب کہ ملکی دفاع خطرے میں ہے فوج کو تنقید کا نشانہ بنانے سے کس کے مقاصد کے لئے کام کیا جا رہا ہے۔ وکلاء رہنما لانگ مارچ کی پلاننگ کر رہے ہیں۔ الغرض ایسے حالات سے نمٹنے کے لئے جس طرح دانش، حکمت عملی اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ ہونا چاہئے وہ ناپید ہے۔
اس وقت ملکی دفاعی صورت حال شدید نازک صورت حال اختیار کر چکی ہے۔ ہمیں ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کے اصول پر قومی حکومت بناکر واضح اور دو ٹوک جرات مندانہ دفاعی حکمت عملی مرتب کرنی چاہئے۔ بھارت اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ہمارا سیکورٹی نظام تباہ کرنا چاہتا ہے ہمیں اس تاریخی چیلنج کو وسیع تر اسلامی اور قومی تناظر میں دیکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کرنے چاہیئں۔ دوسری طرف ایک وسیع قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری قوم ایک ایجنڈے ’’ملکی وقار اور سا لمیت‘‘ کے تحفظ کے لئے جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ ہماری اور ہمارے وطن کی اعلیٰ قیادت کو اس موقع پر ذاتی مفادات و ترجیحات پر قومی مفادات و ضروریات کو فوقیت دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
ڈاکٹر علی اکبر قادری