کسی بھی تحریک کے وسیع پیمانے پر فروغ و اشاعت میں اس تحریک سے وابستہ کارکنان کا طریقہ دعوت خشتِ اول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر عوام الناس کو اپنے منفرد و ممتاز پیغام کی حقانیت کا یقین دلانا ہے تو دعوت کے عمل کا موثر اور جاندار ہونا از حد ضروری ہے۔ حالات و واقعات، ماحول، مخاطب کی ذہنی کیفیت اور ان جیسے دیگر عوامل کو ذہن میں رکھ کر ’’ادع الی سبيل ربک بالحکمة‘‘ کے مصداق دعوت کو پہنچانے والا ہی درحقیقت ایک کامیاب داعی ہے مگر اس سے بھی پہلے داعی کا اپنا کردار مخاطب کو اس کی بات قبول کرنے یا نہ کرنے کی طرف راغب کرتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے دعوت کے سلسلے میں دی جانے والی تعلیمات سے بھی اقتباسات لئے گئے ہیں تاکہ ہم عملِ دعوت کی اہمیت، ضرورت اور اس کے جملہ تقاضوں کو مدِ نظر رکھ کر اپنے پیغام کو اوروں تک پہنچاتے ہوئے اندھیروں کو ختم کرنے اور روشنیوں کو پھیلانے میں عملی طور پر حصہ لے سکیں۔
قول و فعل۔ ۔ ۔ آئینہ باطن
انسان اپنے گرد و پیش سے روابط استوار کرنے، روابط میں ردوبدل کرنے، فاصلے گھٹانے بڑھانے، اور قربتوں اور دوریوں میں ترمیمات کے لئے اظہار کے خفی و جلی، دانستہ و نادانستہ، محتاط وغیر محتاط، رنگین و بے رنگ، صوتی و صوری، لسانی و اشاراتی جانے کتنے پیرائے استعمال کرتا ہے۔ اور یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ انسان جو کچھ کہتا ہے اور جو کچھ نہیں کہتا یا جو کچھ ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ ظاہر نہیں کرتا اس کے پیچھے اس کے دل کی کیفیات، ارادے، رغبتیں، تغیرات، تصورات، اور خیالات کا ہمہ وقت بہتا ہوا ایک دھارا ہو تا ہے جو اس سے سرزد ہونے والے اعمال کی تشکیل کرتا رہتا ہے اور اکثر اسے خبر بھی نہیں ہوتی کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اس کا عمل اس کی نفی کر رہا ہے اور جو کچھ وہ کر رہا ہے زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی یا زبان تو خاموش ہے مگر جسمانی حرکات و سکنات، آنکھیں، چہرے کی سنجیدگی یا شگفتگی یا لبوں پر تبسم، بیٹھنے کا انداز، کھڑے ہونے کا طریقہ، چلنے کا انداز، وضع قطع الغرض اس کا پورا بشریٰ صاف صاف اس کی ذہنی حالت، پسند و ناپسند، نفرت و محبت اور ارادوں کو بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ دیکھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ اس کی body language کیا کہہ رہی ہے۔
مختلف کردار اور ان کے مقاصد
ایک متکبر انسان اور ایک عاجز انسان میں فرق نظر آجاتا ہے۔ دونوں کی چال ڈھال سے ان کا من جھلکتا ہے۔ اسی طرح ایک جھگڑالو اور ایک شریف آدمی بھی اپنے طور طریقوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ ایک اچھا سیلزمین اپنا مال گاہک کے ہاتھ بیچنے کے لئے کیا کچھ کرتا ہے۔ ۔ ۔ وہ گاہک کو خالی جانے ہی نہیں دیتا۔ ۔ ۔ اس کی زبان کی مٹھاس، گا ہک کی عزت افزائی کے طریقے اور اس کے دل میں اپنا مال خریدنے کے لئے پسندیدگی، میلان یا ایک بیقراری کی سی کیفیت پیدا کرنے کے غیر محسوس حربے، محتاط اور منجھی ہوئی گفتگو، چہرے پر سچائی اور یقین کے رنگ، آنکھوں میں گاہک کے لئے ہمدردی کی چمک اور اپنے مال کی خوبیوں کا بیان سب مل کر اس کی محنت کو اثر انگیز اور نتیجہ خیز بنا دیتی ہیں۔ بظاہر یہ معاملہ مختصر وقت کے لئے ہوتا ہے لیکن اگر مال گاہک کی مرضی کا نکلے اور وہ ادا کی جانے والی قیمت پر مطمئن بھی ہو کہ مناسب داموں میں اچھی چیز مل گئی تو سیلز مین کی کامیابی اس کی دیرپا فتح میں بدل جاتی ہے۔ گاہک دوبارہ اس کے پاس جاتا ہے اور اگر دونوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ استوار ہو جائے تو ایک دیر پا تعلق وجود میں آتا ہے اور گاہک اس دوکان کے لئے چلتا پھرتا اشتہار بن جاتا ہے۔
مثبت کردار کی ایک مثال
انتخابات سے دو چار ماہ قبل کے سیاست دان کی مثال بھی تصور میں لائیں۔ معاشرے میں اس جیسا بہترین انسان نظر نہیں آتا۔ ہر ایک کے ساتھ میل ملاقات، سب کے دکھ درد میں شریک، ہر حاجت مند کی مدد کے لئے ہمہ وقت مستعد، لوگوں کے آرام اور سکون کی خاطر اپنا آرام اور سکون قربان کرنے والا، گھر آنے والوں کی کھلے دل سے خاطر تواضع کرنے والا، گویا معاشرے کے سارے طبقوں حتیٰ کہ مخالفین تک کی بھی بھلائی کے لئے تکلیف اٹھا کر کام کرنے اور کام آنے والا، جو جو خوبیاں ایک مرد مومن میں ہونی چاہئیں ان سب کا مرقع۔ لوگ ایسے بہترین انسان کو کیونکر ووٹ نہ دیں۔ سو لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے کا یہی آرٹ ہے۔ چہرہ، زبان، دل کی دھڑکن، تن من دھن اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہر لمحہ وقف، اور اس طرح منزل بھی مل جاتی ہے۔
داعی : ایک کردار
اس ساری تمہید سے یہ عیاں کرنا مقصود ہے کہ انسان کی شخصیت حرکات و سکنات سے جھلکتی ہے اور معاشرے میں چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا اور معاملہ کرنے کے طریقوں سے انسان کی پہچان ہوتی ہے۔ دل مقصد کے پانیوں میں ڈوبا ہوا ہو تو زبان سے، آنکھوں سے، چہرے کی رنگت سے، تاثرات سے وہی پانی بوند بوند ٹپکتا نظر آتا ہے اور اگر یہ پانی قلبی و روحانی حیات بخشنے کا موجب بن رہا ہو تو لوگ اس حیات بخش انسان کے پاس محبت کے ساتھ خود بخود چل کر آئیں گے چہ جائے کہ وہ خود چل کر لوگوں کے پاس جائے جو کہ اس کے فرائض میں شامل ہے اور اگر وہ خود چل کر لوگوں کے پاس جائے اور ان کی سماعتوں میں حیات رس نچوڑے تو کون ہے جو اس کی بات نہ سنے گا اور اس کی دعوت پر لبیک نہ کہے گا اور دیدہ و دل اس کے لئے فرشِ راہ نہیں کرے گا۔
داعی ’’اِذَا رُءُ وْا ذُکِرَاللّٰه‘‘ کے مصداق
ہم نے دیکھ لیا کہ انسان کیسا ہی پراسرار کیوں نہ ہو اہلِ نظر سے اس کی حقیقت پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ انسان اپنے رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے سے ہی اپنی اصلیت کا پتہ دیتا ہے۔ اور پھر جو ہو ہی کھلی کتاب، جو اندرسے بھی باہر کی طرح ہو، جو کہے وہ کرتا ہو اور جو کرتا ہو وہی کہتا ہو اس کے عمل کی سچائی اس کے قول کی حقانیت کی دلیل ہو اور جس کے قول کے بارے میں خود رب العزت کا فرمان یہ ہو ’’وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰه‘‘ کہ اس سے بہتر تو اور کوئی قول ہی نہیں، اللہ کی طرف بلانے سے بہتر اور کوئی قول ہو ہی نہیں سکتا۔ ۔ اور جس کے بارے میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں کہ وہ سب سے بہتر ہے اور اس کی نشانی یہ ہے کہ ’’اِذَا رُئُ وْا ذُکِرَاللّٰه‘‘ جب اسے دیکھیں تو اللہ تعالیٰ یاد آ جائے یعنی وہ اللہ رب العزت کی نشانی بن چکا ہو۔ اس کے ظاہر کا یہ عالم ہو کہ اسے دیکھنے سے اللہ یاد آنے لگے تو اس کے باطن کا عالم کیا ہو گا۔ اس کا باطن تو تجلیاتِ الٰہی سے منور ہو گا۔ اس کے من میں تو عالم لاہوت کے انوار جلوہ گر ہوں گے اور اس پر ملائکہ کا نزول ہو رہاہوگا۔
دعوت کی برکھا رُت
معلوم ہوا کہ دعوت کے عمل میں سب سے اہم بات داعی کی اپنی شخصیت، اس کا باطن اس کا اپنا من ہے، اس کا اپنا دل ہے اس کی اپنی روحانی استعداد ہے جو دعوت الیٰ اللہ کے خمار سے وجود میں آتی ہے اور اس کے اندر سے اس کے باہر تک اس کے پورے وجود میں اور اس کے ذہن کے ہر گوشے میں ہر جہت برکھا رُت کی طرح چھائی رہتی ہے۔ جونہی فضا سازگار ملتی ہے دعوت کی برکھا رُت برسنے لگتی ہے اور رحمتِ باری کا رم جھم جل ترنگ بجنے لگتا ہے۔ داعی ایک طاہر و منزہ انسان ہے باہر سے اندر تک اور اندر سے روح کی پہنائیوں تک، صاف ستھرا، پاکیزہ، مہکتا ہوا، ہر کوئی اس کی صحبت میں بیٹھنا چاہے اور بیٹھ کر معطر ہونا چاہے۔ اس کے پاس قلب سلیم کا خزانہ ہو تا ہے۔ یہ وہ دل ہے جو دنیا کے لئے رغبتوں، محبتوں، خود غرضیوں اور مفاد پرستیوں سے پاک ہوتا ہے۔ وہ دنیا میں ہوتا ہے، دنیا اس میں نہیں ہوتی، دنیا کے سمندر میں وہ ایک کشتی کی مانند ہے، جب تک اس میں پانی نہیں جاتا اس کا وجود ہے، جونہی پانی اس کے اندر چلا گیا کشتی غرق ہو جاتی ہے اور اس کا وجود مٹ جاتا ہے۔ یہی قلب سلیم داعی کے باطن میں نور الٰہی کا چراغدان ہوتا ہے۔ اس کی گفتگو میں مقناطیس کی سی کشش ہوتی ہے اور یہی مقناطیسیت اس کی شخصیت کا جوہر ہے۔
دعوت کا مخاطب کون؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دعوت اور داعی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ اعتکاف 1999ء کے موقع پر تحریکی زندگی میں تربیت کے قواعد کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :
’’آپ جس تحریک سے منسلک ہیں یہ تحریک اپنی اصل میں اول تا آخر دعوت ا لیٰ اللہ کی تحریک ہے۔ یہ اللہ کا حکم ہے کہ آپ لوگوں کو اپنے رب کی طرف بلائیں۔ ادع الیٰ سبيلِ ربک. ان الفاظ کے پردے میں ایک حقیقت پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ اس آیہ کریمہ میں دعوت کے مخاطب کا ذکر نہیں کیا گیا۔ حکم دیا گیا ہے اپنے رب کی طرف بلایئے۔ کس کو بلائیے اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ سمجھنے والوں کی سمجھ پر چھوڑ دیا گیا۔ اس میں یہ حکمت پنہاں ہے کہ لوگوں کو دعوت دینے کا مرحلہ بعد میں آتا ہے سب سے پہلے تو داعی اپنے نفس کو اللہ کی طرف بلائے۔ آج داعی کی دعوت بے اثر کیوں ہو گئی۔ ۔ ۔؟ اور اس کا دعوت الیٰ اللہ کا عمل بے نتیجہ کیوں ہو گیا۔ ۔ ۔ ؟ اس سے برکتیں کیوں اٹھ گئیں۔ ۔ ۔ ؟ اس سے قلب و باطن میں، زندگی میں، کائنات میں انقلاب پیدا کر دینے والا ہیجان پیدا کر دینے والا ایک ولولہ انگیز تبدیلی لے آنے والا اثر کیوں نہ رہا۔ ۔ ۔؟ اس لئے کہ ہم نے دعوت کا مخاطب اوروں کو بنا لیا اور اپنے نفس اور اپنی جان کو بھول گئے، ہم نے اپنے آپ کو دعوت الیٰ اللہ کا مخاطب نہ سمجھا جبکہ دعوت کی ابتداء تو ہوتی ہی اپنے نفس سے ہے۔ جب تک نفس امارہ کو دعوت کے عمل سے گزار کر قلب سلیم کا مقام حاصل نہیں کیا جاتا دعوت بے اثر ہی رہے گی‘‘۔
پہلے اپنی خودی کو مسلمان کریں
اسی حکمت کو علامہ اقبال نے ان الفاظ میں بیان کیا کہ مومن جب اپنی خودی کو مسلمان کر لیتا ہے تو تب حقیقی معنی میں مومن بنتا ہے۔ اگر نفس ہدایت کا مطیع نہیں، باغی اور سرکش ہے تو مومن کیونکر وجود میں آئے گا۔ لہٰذا دعوت خود اپنے نفس سے شروع کرنا ہے۔ یہی جہاد با لنفس ہے جو جہادِ اکبر ہے۔ جب خودی مسلمان ہو جائے تو مردِ مومن وجود میں آتا ہے اور اس کی شان یہ ہے کہ
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
کیونکہ قرآن کی دعوت اس کے باطن میں اکمل طریقے سے سرایت کر جاتی ہے۔ اس کے قول و فعل میں کوئی تفاوت نہیں رہتا، نہ ہی اس کے ظاہر و باطن میں کوئی امتیاز رہتا ہے اور یہی وحدت اس کی شخصیت کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔
دعوت کا اولین مخاطب نفس ہے
مگر جب ہم اپنے حال کو بھول کر صرف یہ سمجھ لیں کہ صرف لوگوں نے اللہ کو بھلا دیا ہے اور اس طرف توجہ ہی نہ کریں کہ بندے تیرے اپنے نفس نے اللہ کو بھلا دیا ہے اور یہ خیال ہی نہ آئے کہ سب سے بڑھ کر تو اللہ کو بھلا دینے والا میں خود ہوں، لوگوں کی بات تو بعد میں آئے گی۔ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا رہوں اور خود اللہ کی راہ سے ہٹا رہوں، منحرف اور باغی رہوں۔ ۔ ۔ لوگوں کو اللہ کی بندگی کی تلقین کرتا رہوں اور خود اطاعت چھوڑ بیٹھوں۔ ۔ ۔ لوگوں کو اللہ کی محبت کا درس دیتا رہوں اور اپنے دل میں دنیا کی محبت سجالوں۔ ۔ ۔ اللہ کی محبت بھول جاؤں تو نتیجہ یہی نکلے گاکہ میرے قول اور عمل میں تضاد آ جائے گا، باطن اور ظاہر میں تضاد آ جائے گا۔ جب اندر دعوت الیٰ اللہ برپا نہ ہو۔ ۔ ۔ من کی وادی میں اللہ اللہ کی صدا گونج نہ رہی ہو۔ ۔ ۔ دل میں اللہ کی محبت کی مہک تو رچی نہ ہو اور نہ ہی اللہ کی معرفت کے انوار اترے ہوں۔ ۔ ۔ من میں تو اللہ کی یاد میں فنا ہونے والا وجد آیا نہ ہو اور نہ ہی اللہ کے ساتھ تعلق کی کوئی چنگاری دل کو جلانے اتری ہو۔ ۔ ۔ تو میری بات بے تاثیر نہ ہو گی تو اور کیا ہوگی۔
سو یہی ہوا کہ میری بات میں اثر نہ رہا۔ ۔ ۔ میرا خطاب بھی بے اثر ہو گیا۔ ۔ ۔ تبلیغ کا کہیں ثمر نہ ملا۔ ۔ ۔ عزت بھی جاتی رہی اور معاشرے میں مبلغ کا منصب و مقام بھی جاتا رہا۔ ۔ ۔ سب کچھ ختم ہو گیا۔ اللہ پاک نے تو فرمایا : قوا انفسکم و اهليکم نارا کہ سب سے پہلے اپنی جانوں کو دوزخ سے بچاؤ، پھر اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ کیونکہ تمہارا اپنا نفس دوزخ کی طرف کھنچا چلا جا رہا ہے، تمہارے اپنے اندر دوزخ قائم ہے۔ ۔ ۔ سب سے بڑا فرعون تو تیرا نفس بن گیا ہے۔ ۔ ۔ ساری خرابیاں اور بربادیاں تو تیرے اپنے نفس میں پیدا ہو گئی ہیں اور تو نے انہیں فراموش کر دیا ہے۔ ۔ ۔ ان پر پردہ ڈال دیا ہے۔ ۔ ۔ اور ساری خرابیاں صرف دوسروں میں نظر آنے لگی ہیں تو دعوت میں اثر کہاں سے پیدا ہو گا۔
داعی خود سراپا دعوت ہو
حالانکہ اللہ پاک نے تو واضح کر دیا : لم تقولون ما لا تفعلون. وہ بات کیوں کہتے ہو جو خود نہیں کرتے۔ لہٰذا دعوت سے پہلے دعوت کو اپنے اندر بپا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب من کے چمن میں بہار آ گئی تو باہر بھی بہار آ جائے گی اور اگر اندر ہی خزاں چھائی رہی تو باہر بہار کی تلاش عبس ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے اپنے اندر کی خزاں کو ختم کرو پھر باہر بہار کا سوچو۔ جب اندر ہدایت کی مہکار جاگے گی تو نیک اعمال جنم لیں گے۔
اپنے اندر دعوت بپا کرنا ہو گی تا کہ باہر نیکیوں کا موسم آئے۔ وہ داعی محض اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے جو دعوت دیتا ہے مگر خود عمل صالح نہیں کرتا۔ لہٰذا کارکن جو کہ داعی ہے پہلے مشن اپنے اندر اور باہر طاری کرے پھر مشن دوسروں تک لے کر جائے تا کہ سننے والا اور دیکھنے والا جان لے کہ جو یہ کہہ رہا ہے خود کر بھی رہا ہے۔ دعوت دیتے دیتے خود سراپا دعوت بن جاؤ اور جب لوگ خود سراپا دعوت بن جاتے ہیں تو پھر زبان سے کچھ کہنے کی حاجت نہیں رہتی، لوگ دیکھ کر ہی کھنچے چلے آتے ہیں۔ کارکن کی شان یہ ہے کہ کہ اس کا سارا وجود دعوت الیٰ اللہ ہو۔ اس کا عمل، اس کی سیرت، اس کا کردار، اس کا اٹھنا بیٹھنا، سونا، اوڑھنا بچھونا دعوت الیٰ اللہ ہو جائے۔
یہ ہے وہ داعی جس کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی یاد آنے لگتی ہے۔ ۔ ۔ جس کے پاس قلب سلیم کی دولت ہوتی ہے۔ ۔ ۔ جس کا تعلق مالائے اعلیٰ سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ مگر ہم تو دل کی کشتی دنیا کے پانیوں میں ڈبو کر بیٹھ چکے۔ کیا ہمیں پتہ ہے کہ دعوت الیٰ اللہ ہے کیا۔ ۔ ۔؟ کیا ہم نے کبھی قرآنِ حکیم کو کھول کر یہ جاننے کی کوشش بھی کی ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمارے لئے جو پیغامِ ہدایت اپنے محبوب کے ذریعے پہنچایا ہے وہ دراصل ہے کیا۔ ۔ ۔؟ اور اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جو تعلیم عطا فرمائی ہے اس کو سمجھنے اور اس پر عملدرآمد کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ ۔ ۔؟ہم کیا ہیں اور ہمیں کیا اور کیسے بننا ہے۔ ۔ ۔؟ اور جب ہم دعوت کے مفہوم تک رسائی حاصل کر لیں تو اس دعوت کو اپنے اندر بپا کیسے کرنا ہے۔ ۔ ۔؟
مضمون کے اگلے حصے میں اپنے من میں دعوت بپا کرنے کے طریقوں پر بات ہو گی اور شیخ الا سلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قرآن و سنت سے اخذ کردہ تعلیمات کے مطابق یہ دیکھا جائے گا کہ وہ داعی جسے دیکھ کر اللہ یاد آنے لگے اس کی شخصیت کی تعمیر کے عمل مین کون کون سی حکمتیں کار فرما ہیں اورقلب سلیم کے حصول کے لئے تحریک کے کارکن کو کیا کرنا ہو گا۔ رب کریم کے اس فرمان کو کبھی فراموش نہ کیا جائے کہ یوم حساب اس کے حضور کامیابی کی ضامن اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف اور صرف قلبِ سلیم ہے اور یہ وہ دل ہے جس میں حبِ الٰہی اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہوتی ہے اور جس میں دنیا اور اس کی رغبتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ (جاری ہے)