حادثہ کربلا کے اسباب و عوامل کی تہہ تک رسائی۔۔۔ اور واقعات کے صحیح محمل کا کھوج لگانا از بس ضروری ہے۔۔۔ کیونکہ گذشتہ کچھ عرصہ سے بعض تیرہ بخت خارجیوں اور یزیدیوں نے نام نہاد تاریخی ریسرچ کا ناٹک رچاکر۔۔۔ اورحکومت وقت کے خلاف بغاوت کے مذہبی احکام کی جھوٹی آڑ میں۔۔۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کو داغدار کرنے کی مذموم جسارت کی ہے۔۔۔ جس سے بعض سادہ لوح افراد کے ذہن بھی کس قدر مسموم ہوئے۔۔۔ اور وہ اسلام کے اس عظیم فرزند اور نسل انسانی کے اس محسن جلیل کی عظمت کردار کا صحیح اندازہ لگانے سے قاصر ہوگئے۔۔۔ پھر المیہ یہ ہے کہ۔۔۔ مخالفین تو ایک طرف، خود حامیوں نے بھی واقعہ کربلا پر جتنا کچھ لکھا۔۔۔ اس میں عام طور پر صرف دو ہی پہلو نمایاں کئے جا سکے۔۔۔ ایک یزید کا فسق و فجور۔۔۔ اور دوسرے امام حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومیت۔۔۔
اسباب و عوامل کے بیان میں اپنے بھی غیروں کے زہریلے پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ۔۔۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کو طلب اقتدار پر محمول کر بیٹھے۔۔۔ گویا آپ کا یزید کے ہاتھ پر بیعت نہ کرنا، کوفہ والوں کا آپ کو خطوط لکھنا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشوروں کے برعکس آپ کا سفر کوفہ پر روانہ ہوجانا ایسے اقدامات تھے۔۔۔ جن کی کوئی توجیہہ و تعلیل، کوئی توضیح و تفسیر ان لکھنے والوں کے نزدیک سوائے اس کے ممکن نہیں کہ۔۔۔ امام پاک رضی اللہ عنہ خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے اور کوفیوں کے تعاون سے یزید کو ہٹا کر خود تخت سلطنت پر متمکن ہونا چاہتے تھے۔۔۔ یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ ۔۔۔ خلافت کا ملوکیت میں بدل جانا اور یزید جیسے فاسق و فاجر کا حکمران بننا ایک بہت بڑا فساد تھا۔۔۔ جو امام پاک رضی اللہ عنہ کے لئے ناقابل برداشت تھا۔۔ لہذا آپ میدان عمل میں نکل آئے۔۔۔
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے موقف اور اقدام کی یہ توجیہہ کئی لحاظ سے مبہم، پیچیدہ اور محل نظر ہے۔۔۔ اسی لئے خارجیوں نے بآسانی اس میں الجھاؤ پیدا کر دیا ہے۔۔۔ تاریخ کی اکثر قدیم و جدید کتابوں اور نئے لکھنے والے قریباً تمام مصنفین کی تحریروں میں اس نقطے پر جو کچھ لکھا گیا ہے۔۔۔ اسے پڑھ کر آپ شدید ابہام، حیرت اور افسردگی سے دوچار ہونگے۔۔۔ اس موقع پر اکثر تحریریں الجھی ہوئی، سوچ کا انداز معذرت خواہانہ اور طرز بیان مایوس کن ہے۔۔۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے موقف اور اقدام کی ٹھوس، حقیقی اور واضح توجیہہ آپ کو شاید ہی کہیں نظر آئے۔۔۔ مذہب، سماج اور انسانیت کی بلند سطحوں پر آپ رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کو اجاگر نہیں کیا جاسکا۔۔۔ اسباب، نتائج اور اثرات کو ناقابل تردید شواہد و حقائق کے آئینے میں دیکھا نہ جاسکا۔۔۔ کتابوں کے نام لکھنے اور حوالے دینے کی ضرورت نہیں۔۔۔ قارئین! اس موضوع پر کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھیں۔۔۔ اور گہری نظر سے جائزہ لیں۔۔۔ تو انہیں معاملہ کی تہہ تک رسائی اور حقیقت حال کی نقاب کشائی کے لئے مشکل ہی سے کوئی راہ ملے گی۔۔۔
خارجیوں کا پروپیگنڈہ غیر محسوس طریقہ سے معاملے کو اس قدر الجھا چکا ہے۔۔۔ اور بہت سے ذہنوں کو اس قدر پراگندہ کر چکا ہے کہ۔۔۔ جس انداز سے عام طور پر لکھنے والے حضرات اس واقعہ کی تاویل و توضیح پیش کرتے ہیں، اس سے جدید اذہان کی تشفی نہیں ہوپاتی۔۔۔ بہت کچھ پڑھ لینے کے باوجود ایک خلش ضرور باقی رہتی ہے۔۔۔ راقم الحروف کو اس معاملے میں اکثر ایسے سوالات کے جواب دینے پڑے۔۔۔ اور بارہا لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ واقعہ کربلا کے اسباب و عوامل پر بہت کچھ لکھے جانے کے باوجود اس اقدام کے جواز، اہمیت اور نتائج و اثرات پر ٹھوس حقائق و شواہد کی روشنی میں گفتگو کی ضرورت باقی ہے۔۔۔ اسی احساس کے تحت۔۔۔ زیر نظر مضمون میں واقعہ کربلا کے اسباب و عوامل پر عام ڈگر سے ہٹ کر قدرے مختلف انداز سے روشنی ڈالنا درکار ہے۔۔۔
حادثہ کربلا کے پس منظر میں جتنے تکوینی، تاریخی، سماجی اور دینی عوامل کارفرما نظر آتے ہیں۔۔۔ ان کا جائزہ لینے سے یہ بات پوری طرح آشکار ہو جاتی ہے کہ۔۔۔ تکوینی طور پر مشیت الہٰی۔۔۔ تاریخی لحاظ سے ضابطہ پیکار حق و باطل۔۔۔ سماجی اعتبار سے امت کی حیات معنوی کی بقا اور دینی جہت سے غلبہ اسلام کی ذمہ داری نے۔۔۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پر یزیدی فسق و فجور اور ظلم و استبداد کے خلاف جدوجہد کرنا فرض و لازم ٹھہرا دیا تھا۔۔۔ تاریخ اسلام کے اس نازک ترین موڑ پر رونما ہونے والے حالات، واقعات اور اسباب و عوامل نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا۔۔۔ اور پے درپے ایسے امور پیش آتے گئے جو پورے ماحول اور مجموعی فضا کو اس حادثہ فاجعہ کے وقوع کی سمت بڑھاتے چلے گئے۔۔۔ حتی کہ یزیدی استبداد کی قوتوں اور کوفی دغا بازوں کی ساز باز سے معرکہ کربلا کے اسباب اس درجہ فراہم ہوگئے کہ۔۔۔ آپ رضی اللہ عنہ کے قدرتی طور سے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ چھوڑ کر کوفہ کا سفر اختیار کرنا ناگزیر ہوگیا۔۔۔
حالات کا دھارا ایسے رخ پر بہنے لگا جس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا دلیرانہ کردار تاریخ کی تمام قوتوں کی پکار بن گیا۔۔۔ اسلام کی حفاظت کا مطالبہ، امت مسلمہ کی بقاء کا تقاضا اور ملوکیت کے ظلم و استبداد سے نجات کا مسئلہ یہ سب امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک سوال کے طور پر اس طرح آکر کھڑے ہوگئے کہ۔۔۔ آپ نے اپنے یقین و ایمان، فکرو اجتہاد اور جذبہ و احساس کی تمام تر توانائیوں کو اس ایک نقطہ پر مرتکز کر کے سوچا۔۔۔ تو باطنی وجدان، ظاہری حالات اور ایمانی احساسات سبھی نے۔۔۔ آپ پر حفاظت دین اور بقائے ملت کی جدوجہد کو فرض عین ثابت کردیا۔۔۔
کائنات کے ہر افق اور زندگی کی ہر سطح سے اٹھتی ہوئی پکار آپ کو یہ باور کراگئی کہ۔۔۔ حسین رضی اللہ عنہ اس مرحلہ پر تمہارا سامنے آنا اور شہادت حق کا فریضہ ادا کرنے کے لئے تن، من، دھن کی قربانی دینا لازم و ناگزیر ہوگیا ہے۔۔۔ ماحول پر ایک نظر ڈالتے ہی آپ نے محسوس کرلیا کہ۔۔۔ حالات و واقعات اور اسباب و عوامل کا سارا تانا بانا اس نہج پر ڈھل چکا ہے کہ۔۔۔ حسینی جاں نثاری تکوین اور تشریع ہر دو جہت نے فرض عین کا درجہ اختیار کرچکی ہے۔۔۔ تب امام حسین رضی اللہ عنہ فرات کے ویراں کناروں پر آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجِ خون سے چمنِ انسانیت کی آبیاری کرنے۔۔۔ اور تاریخ کے لامتناہی افق پر ننھے علی اصغر کی معصوم قربانی سے نجاتِ ملتِ بیضا کی سطرِ عنوان لکھنے کے لئے نکلے۔۔۔ اور اس شان سے نکلے کہ۔۔۔ رہتی دنیا اس کی مثال دیکھنے سے چشم فلک قاصر رہے گی۔۔۔
آیئے اب ہم ذرا تفصیل سے دیکھیں کہ۔۔۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پر میدان پیکار میں نکلنا کیونکر ناگزیر ہوگیا تھا۔۔۔ اور اسباب و عوامل کی وہ کونسی کڑیاں تھیں۔۔۔ جن کے تحت حسینی جدوجہد کا مقام جواز و اباحت کے دائرے سے نکل کر فرض و لازم کا درجہ اختیار کر چکا تھا۔۔۔ اس سوال کا جواب انتہائی اہمیت کا حامل اور پوری شرح و بسط کا متقاضی ہے۔۔۔ کیونکہ یہی وہ نکتہ ہے جس سے اس عہد کے مجموعی تناظر میں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی نوعیت اور افادیت نمایاں ہوتی ہے۔۔۔ لوگوں نے اس موقع پر مختلف پہلوؤں سے گفتگو کی ہے۔۔۔ لیکن ہمیں اس سوال کا جواب عرصہ حیات کی اس تاریخ گوئی سے لینا ہے جس کا رد کرنا عہد حاضر کے کسی بھی انسان کے بس کی بات نہیں۔۔۔ تو لیجئے پڑھئے اسباب کربلا۔۔۔
یزیدی بگاڑ اور اس کی ہولناکی
سانحہ کربلا کے اسباب و عوامل کو سمجھنے کے لئے اس سلسلے میں سب سے پہلی قابل غور بات یہ ہے کہ۔۔۔ آیا یزید کا تخت سلطنت پر متمکن ہونا اسلامی معاشرہ میں کسی بنیادی تغیر کی نشاندہی کر رہا تھا یا نہیں۔۔۔ اور اگر واقعی یزید کی تخت نشینی سے مسلم سوسائٹی میں کوئی حقیقی اور اصولی تغیر در آیا تھا۔۔۔ تو اس تغیر کی عملی نوعیت کیا تھی۔۔۔ اور معاشرہ میں موجود حق کی قوتوں پر اس تغیر سے عہدہ بر آہونے کے لئے کس قسم کی ذمہ داری عائد ہوتی تھی؟۔۔۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب دیئے بغیر اس عہد کے تقاضوں کو پوری طرح سمجھنا۔۔۔ اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے موقف کے ٹھیک ٹھیک شرعی حیثیت متعین کرنا ممکن نہیں ہے۔۔۔ اب یہاں تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ۔۔۔ تاریخ نگاروں نے معاشرتی حالات کا تجزیہ کرکے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنا تو درکنار۔۔۔ سرے سے حالات کی سیاسی اور سماجی جہتوں کو باہم مربوط اورمتاثر کرنے والے حقائق کو بیان کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔۔۔
عہد یزید میں معاشرتی سطح پر جو اصولی، بنیادی اور ہمہ گیر تغیر ابھر آیا تھا۔۔۔ اس کا تذکرہ تودرکنار۔۔۔ تاریخ نویسوں کے ہاں اشارے بھی خال خال ہی ملتے ہیں۔۔۔ بس لے دے کے ایک ملوکیت اور یزید کے ذاتی کردار کا معاملہ ہے جو تاریخ نے کسی قدر ابھارا ہے۔۔۔ اس بناء پر ہم سمجھتے ہیں کہ۔۔۔ تاریخ کے منتشر اور بکھرے ہوئے مواد کو یکجا کر کے۔۔۔ پوری پوری تنقیح کے بعد۔۔۔ اسے نئے انداز سے مرتب کرنا عصر حاضر کی اہم ترین ضرورت بن گئی ہے۔۔۔ تاکہ تاریخ کو معاشرہ کا آئینہ بنا دیا جائے۔۔۔ اور اس کے صفحات میں اسلام کی حقیقی قوتوں اور اصل مراکزِ ارتقاء کے خد و خال جھلکیں۔۔۔
اب آیئے ہم تاریخ کے نیم وا دریچوں سے۔۔۔ یزیدی قصرِ اقتدار کے وسیع آنگن میں پھیلے ہوئے مسلم معاشرہ پر ایک نظر ڈالیں۔۔۔ اور اسلام کے فلسفہ زندگی، نظام عمل اور معیار حق کے اٹل اصولوں اور ٹھوس شواہد کی روشنی میں جائزہ لیں کہ۔۔۔ یزیدی استبداد اور اس کی قوتوں کے طرز عمل سے اسلامی معاشرہ میں کس بنیادی اور اصولی تغیر کو راہ ملی جو اسلام کی حق پرست قوتوں کے لئے کسی طور قابل برداشت نہ تھا۔۔۔ لہذا اس کے خلاف میدان عمل میں نکلنا ضروری ہوگیا تھا۔۔۔ ویسے تو یزیدی اقتدار میں ابھرنے والے اس تغیر کے بہت سے رخ ہیں۔۔۔ لیکن ہم یہاں اس کی تین اہم جہتوں پر روشنی ڈالیں گے۔
1۔ قلوب و ارواح کی موت
2۔ اجتماعی احتسابی قوت کا خاتمہ
3۔ ظلم کی انتہاء
یزیدی بگاڑ کے یہ تینوں رخ اس قدر گہرے، بھیانک اور دور رس منفی اثرات لئے ہوئے تھے کہ۔۔۔ اگر سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بروقت میدان عمل میں نہ نکلتے۔۔۔ اور اپنے خون کی طاقت سے یزید کی سلطنت کو مٹا کر نہ رکھ دیتے۔۔۔ تو یقین مانئے آج نہ جانے اسلامی تہذیب کس قدر مسخ ہو کر رہ گئی ہوتی۔۔۔ اب آیئے ذرا ہم ایک ایک کر کے یزیدی بگاڑ کے ان تینوں پہلوؤں کو اجاگر کریں۔
1۔ قلوب و ارواح کی موت
یزیدی دور کی پہلی بنیادی خرابی یہ تھی کہ یزید دلوں کو بنجر کر رہا تھا۔ یزید کی ولی عہدی کے لئے بیعت لیتے وقت۔۔۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے گورنروں کے ذریعہ رائے عامہ ہموار کرنے اور خود اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور افراد اہلبیت کو آمادہ کرنے کے لئے جو کوششیں کیں۔۔۔ وہ اسلامی نظام حکومت میں مشاورت اور عوام کی شمولیت کی آخری مدہم سی جھلک تھی۔۔۔ چنانچہ جن اکابرین نے بیعت نہیں کی، ان پر صریح جبر اور واضح سختی نہیں برتی گئی۔۔۔ یہ حریت فکر ورائے کا ادنی ترین مظہر تھا جو عہد ملوکیت میں میسر آیا۔۔۔ یزید نے تخت نشین ہوتے ہی ان پانچ، چھ حضرات سے جبراً بیعت لینے کے احکام صادر کئے۔۔۔ جبری بیعت کا یہ نظام۔۔۔ فکر و احساس کی حریت پر قدغن، سوچ اور رائے کے آزادانہ اظہار پر پابندی اور تسخیر ذہن و قلب کا ظالمانہ اقدام تھا۔۔۔
سوال یہ ہے کہ اگر یزید کی بیعت منعقد اور حکومت قائم ہو چکی تھی۔۔۔ جیسا کہ خارجیوں اور یزیدوں نے باور کرانے کی پوری کوشش کی ہے۔۔۔ تو پورے عالم اسلام میں صرف پانچ یا چھ افراد کے بیعت نہ کرنے سے یزید کو پریشانی کیوں لاحق تھی۔۔۔ آج دنیا کے ہر ملک میں قائم ہونے والی حکومت۔۔۔ خواہ فوجی یا شاہی تسلط کی صورت ہو یا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے۔۔۔ بہر صورت ہزاروں، لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد اس کے مخالف ہوتے ہیں۔۔۔ اس کے باوجود حکومت ان سے جبراً اعتماد کا اظہار لینے کی کوشش نہیں کرتی۔۔۔ پھر یزید ان پانچ یا چھ افراد کے بیعت نہ کرنے سے خائف کیوں تھا۔۔۔ اور حکمران بنتے ہی سب سے پہلی ترجیح ان حضرات سے جبراً بیعت لینے کے کام کو کیوں دی۔۔۔
صاف ظاہر ہے کہ۔۔۔ یزید جانتا تھا، ان حضرات کی شخصیت اور رائے معاشرہ میں مجھ سے زیادہ معتبر اور مقبول ہے۔۔۔ اگر انہوں نے یزیدی حکومت کے خلاف آواز اٹھائی تو پوری امت ان کی ہم آواز ہوکر میرے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی۔۔۔ یوں میرا تخت اقتدار اس سیلاب میں بہہ جائے گا۔۔۔ اور اموی قصر ملوکیت ہمیشہ کے لئے منہدم ہوجائے گا۔۔۔ یزید ان چند شخصیات کو ملت اسلامیہ میں حریتِ فکر و رائے کے سرچشمے سمجھتا تھا۔۔۔ کہ ان کی رائے تمام امت کی رائے۔۔۔ ان کی فکر پورے معاشرے کی فکر۔۔۔ اور ان کی پکار ساری ملت کی پکار تھی۔۔۔ ان کی صدا قافلہ ملت کے لئے آواز بیداری۔۔۔ ان کی ذوات قدسیہ مسلمانوں کی نگاہوں کا مرکز اور دلوں کا مرجع تھیں۔۔۔ اس بناء پر یزید نے ان چھ حضرات کے انکارِ بیعت کو پوری امت کا انکارِ بیعت۔۔۔ اور ان کی حریت فکر و رائے کو پورے معاشرہ کا ترجمان سمجھا۔۔۔ لہذا ان سے جبری بیعت لینا ضروری گردانا۔۔۔ کیونکہ یزیدی استبداد کا سکہ حریت فکر و رائے پر کامل پابندی کے ساتھ ہی چل سکتا تھا۔۔۔
یزید۔۔۔ نہ تو اسلامی اعمال جیسے نماز، روزہ اور انفرادی نیکی کے کاموں پر کوئی پابندی لگا سکتا تھا۔۔۔ اور نہ ہی وہ معاشرہ میں عملی فسق و فجور کو بزور حکومت پھیلانے کی سکت رکھتا تھا۔۔۔ یزید۔۔۔ معاشرے میں جس قسم کی تبدیلی لانا چاہتا تھا وہ فکری تبدیلی تھی۔۔۔ وہ فکر و سوچ اور جذبہ و احساس کے دھارے کا رخ بدلنا چاہتا تھا۔۔۔ وہ۔۔۔ نظریہ اور خیال کی دنیا میں سے اسلامی حریت کو بے دخل کر دینا چاہتا تھا۔۔۔ جبکہ اسلام کی نظر میں سب سے بڑی خرابی، سب سے بنیادی تغیر اور تمام برائیوں کی جڑ یہی فکر و احساس کی کجی ہے۔۔۔ فکر بگڑ جائے تو سیرت و کردار میں بگاڑ آ جاتا ہے۔۔۔ کیونکہ فکر ہی زندگی کی اساس اور عمل کا سرچشمہ ہے۔۔۔ فکر ہی کردار کی بنیاد فراہم کرتی۔۔۔ اور زندگی کا اسلوب متعین کرتی ہے۔۔۔
الغرض انسان کی عملی زندگی اس کے ذہنی رویے اس سوچ و فکر کے تابع ہوتی ہے۔۔۔ ایمان کا تعلق فکر سے ہے۔۔۔ اور اسلام کا تعلق عمل سے۔۔۔ جیسا کہ حدیث جبرئیل علیہ السلام میں ایمان اور اسلام کی تعریف سے واضح ہوتا ہے۔۔۔ اب صاف ظاہر ہے کہ۔۔۔ ایمان مقدم ہے اور اعمال موخر۔۔۔ ایمان کے بغیر عمل کی کوئی وقعت نہیں۔۔۔ یہیں سے یہ بھی واضح ہے کہ۔۔۔ ایمان کی حفاظت حریتِ فکر پر موقوف ہے۔۔۔ اسی لئے دینِ اسلام میں حریتِ فکر و رائے کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔۔۔ اور اسے معاشرتی آزادی، عدل و انصاف اور قومی بقاء کا ضامن ٹھہرایا گیا ہے۔۔۔
اس کے لہو سے زندہ ہے انسان کا ضمیر
یزید کی نامزدگی ہی اسلام کے طریق انتخاب اور اصول مشاورت کے بالکل خلاف تھی۔۔۔ پھر اس کی تربیت اور ساخت و پرداخت شروع سے آخر تک ملوکیت کے ماحول میں ہوئی تھی کہ۔۔۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور گورنری ہی سے اس نے شاہانہ روش اختیار کرلی تھی۔۔۔ اس طرح یزید جس کا ذہن و دماغ ملوکیت کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔۔۔ چنانچہ جب وہ تخت اقتدار پر متمکن ہوا تو سب سے پہلی کوشش اس نے یہ کی۔۔۔ کہ مسلم معاشرہ میں حریت فکر و اظہار کو بالکل مٹاکر رکھدے۔۔۔ سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر بیعت نہ کرنے والے حضرات پر سختی کرنے اور جبری بیعت لینے کا اس کے سوا اور کیا مدعا تھا کہ۔۔۔ پوری سوسائٹی میں کوئی ایک شخص بھی یزیدی استبداد کے خلاف سوچنے اور رائے رکھنے والا باقی نہ رہے۔۔۔ کسی کو یزیدی فسق و فجور پر تنقید کرنے اور محاسبہ کرنے کا حق نہ رہے۔۔۔ وہ ضمیروں پر قفل چڑھا دینا اور زبانیں گنگ کر دینا چاہتا تھا۔۔۔ ملوکیت کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے۔۔۔ یزیدی اقتدار کا سب سے بڑا فتنہ اور سب سے بنیادی تغیر یہی تھا کہ۔۔۔ وہ پوری سوسائٹی کو منجمد کردینا چاہتا تھا۔۔۔
اور واقعہ یہ ہے کہ۔۔۔ وہ ذہن و فکر کو ویران اور جذبہ و احساس کو سرد کر دینے میں بڑی حد تک کامیاب ہوگیا تھا۔۔۔ لوگوں نے حکومت کے جواز و عدم جواز پر سوچنا ترک کر دیا تھا۔۔۔ یزیدی فسق و فجور کو عام طور پر برداشت کیا جا رہا تھا۔۔۔ معاشرہ میں بدی کی قوتیں فروغ پا رہی تھیں۔۔۔ فتنے پروان چڑھ رہے تھے۔۔۔ ظلم و بربریت کے مظاہر عام ہو رہے تھے۔۔۔ لیکن لوگ سہمے ہوئے اور سمٹے ہوئے تھے۔۔۔ عوامی زندگی کے سب دھارے ہوا کے رخ پر بہہ رہے تھے۔۔۔ حکومت اور نظام حکومت کے ساتھ سازگاری کا جذبہ عام تھا۔۔۔ اسی لئے تو اہل کوفہ نے حضرت مسلم بن عقیل اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھلی بے وفائی کی۔۔۔ لیکن یزید اور ابن زیاد کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہ کر سکے۔۔۔ یزیدی فوج کے سالار اور سپاہی مدینہ منورہ کی حرمت و تقدس کو تار تار کر دینے کے لئے تیار ہوگئے۔۔۔ کعبۃ اللہ پر سنگباری کرنے سے باز نہ آئے۔۔۔ لیکن عوام یزیدی استبداد کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکے۔۔۔
قارئین محترم! ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے۔۔۔ کیا ذہن و ضمیر، فکر و وجدان اور جذبہ و احساس کی دنیا میں در آنے والی یہ منفی تبدیلی ایسی نہیں تھی جو۔۔۔ اسلامی تشخص کے خاتمہ اور امت مسلمہ کے زوال و انحطاط کا سبب بنتی۔۔۔ کیا یزیدی طاغوت کے اقدامات اسلامی زندگی کی جڑ پر کلہاڑا چلانے کے مترادف نہ تھے۔۔۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کسی غیر اسلامی رجحان، فسق و فجور اور ظلم و عصیان کا کوئی بھی تصور کیا جا سکتا ہے۔۔۔ جب ذہن بنجر، دل تاریک، ضمیر مردہ، تخلیقی فکر ختم، ایمان مضمحل، ظلم و بربریت روا اوردینی حمیت فنا ہوجائے۔۔۔ تو اس کے بعد امت مسلمہ کی موت اور اسلام کی تباہی کا کونسا سامان باقی بچ جاتا ہے؟۔۔۔
کیا اس سب کو اطمینان سے برداشت کر لینا خانوادہ نبوت کے لئے ممکن تھا۔۔۔ کیا آغوش مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پروان چڑھنے والے حسین رضی اللہ عنہ ۔۔۔ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے صدیقی، فاروقی، عثمانی اور علوی و حسنی ادوار میں اسلام کی پاکیزگی، تقدس، حرکت اور فعالیت کا مشاہدہ کیا تھا۔۔۔ جن کے رگ و ریشہ میں ایمان کی حرارت موجزن تھی۔۔۔ جن کا وجود ’’آیت مباہلہ‘‘ کے مصداق قیامت تک دین اسلام کی صداقت و حقانیت کی شہادت ہے۔۔۔ اس بنیادی اور ہمہ گیر تبدیلی کو خاموشی سے قبول کر سکتے تھے۔۔۔ کیا اپنے نانا جان کے دین کو اس طرح ناپاک یزیدی ہاتھوں سے مٹتا ہوا دیکھ سکتے تھے۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔
پس یہ وہ سبب تھا جس نے۔۔۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو تن تنہا میدان جہاد میں نکلنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ انہوں نے۔۔۔ بنجر ذہنوں کو شاداب کرنے، مردہ دلوں کو زندگی بخشنے، خفتہ ضمیروں کو بیدار کرنے اور رائے عامہ کو فعال بنانے کا تہیہ کر لیا۔۔۔ وہ۔۔۔ انسانوں کو حریت فکر و سوچ، آزادی رائے، جرات اظہار، یقین و ایمان اور ولولہ و شوق سے سرشار کرنے کے لئے میدان عمل میں نکل آئے۔۔۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب رہے۔۔۔ انہوں نے اپنا خون دے کر۔۔۔ قیامت تک آنے والی نسل انسانی کو فکری حریت، ایمانی غیرت اور جذبہ جہاد سے بہرہ ورکر دیا۔۔۔
خلد درد اماں ہے تجھ سے جلوہ گاہِ حریت
ہے جبیں تیری چراغِ شاہراہِ حریت
2۔اجتماعی احتسابی قوت کا خاتمہ
یزیدی دور کا دوسرا بڑا فتنہ یہ تھا کہ یزید اجتماعی احتسابی قوت مٹا رہا تھا۔ حریت فکر و اظہار پر پابندی عائد کرکے یزید دراصل امت مسلمہ کی اجتماعی احتسابی قوت کو ختم کر دینا چاہتا تھا۔۔۔ کیونکہ اس قوت کی موجودگی میں اس کے فسق و فجور، ظلم و استبداد اور ملوکیت و اقتدار کو ہرگز استحکام نہیں مل سکتا تھا۔۔۔ وہ چاہتا تھا کہ۔۔۔ سوسائٹی میں کوئی شخص اس کو ٹوکنے والا، اس پر تنقید کرنے والا اور اس کا محاسبہ کرنے والا باقی نہ رہے۔۔۔ تاکہ وہ جو چاہے کرے۔۔۔ اسے معلوم تھا کہ۔۔۔ جب تک معاشرہ میں تنقید و احتساب کا جذبہ موجود رہے گا۔۔۔ ملوکیت پروان چڑھ سکتی ہے۔۔۔ ملوکیت ہمیشہ سے قوم کے جذبہ احتساب کی دشمن رہی ہے۔۔۔ ملوکیت نام ہی اس طرز حکومت کا ہے جس میں کوئی شخص بادشاہ کے کردار، اعمال اور فیصلوں کا محاسبہ نہیں کر سکتا۔۔۔ جبکہ اسلام کی رو سے۔۔۔ حکومت تو ایک طرف رہی خود معاشرہ، ملت اور مذہب کا وجود اسی اجتماعی احتسابی قوت کے ساتھ وابستہ ہے۔۔۔
اس کے لہو سے چہرۂ ایماں نکھر گیا
یزید کو معلوم تھا کہ اس کی حکومت کسی بھی طرح اسلام کے سیاسی تصور اور دینی نظام سے میل نہیں کھاتی۔۔۔ لہذا اسے قدم قدم پر شدید تنقید اور محاسبہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔ پھر وہ کوئی منجھا ہوا، بزرگ اور شائستہ انسان نہیں تھا۔۔۔ بلکہ ایک تعیش پسند، آوارہ مزاج، جوشیلا نوجوان تھا۔۔۔ فراست و تدبر، تحمل و بردباری اور دور اندیشی و معاملہ فہمی جو عمر، تجربہ اور تربیت سے میسر آتی ہے یزید اس سے عاری تھا۔۔۔ اس کے مقابلے میں اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم، اہلبیت اطہار اور بزرگ تابعین موجود تھے جو اسلام کے مزاج، خلافت راشدہ کے طرز عمل اور دینی ذہن و ذوق سے پوری طرح آشنا تھے۔۔۔ جو اس کے اللوں تللوں کو ہرگز برداشت نہ کرتے۔۔۔ اس لئے یزید نے ’’گربہ کُشتن روز اول‘‘ کے مصداق۔۔۔ تخت اقتدار پر مسلط ہوتے ہی سب سے پہلے قوم کے اجتماعی ضمیر اور جذبہ احتساب کو فنا کردینے کی ٹھان لی۔۔۔ اس نے سوچا کہ بیعت سے انکار کرنے والوں اور مخالفت کرنے والوں کو تہہ تیغ کر کے وہ ملت کے بقیہ افراد کو خوف و دہشت میں مبتلا کر دے گا۔۔۔ اور یوں ہر قسم کی تنقید اور مواخذہ سے بے نیاز ہوجائے گا۔۔۔
تنقید برداشت نہ کرنا یزید کے مزاج کا خاصہ بن گیا تھا۔۔۔ کیونکہ اس نے ملوکیت کے انتہائی آسودہ ماحول اور مدح و ستائش کرنے والے خوشامدیوں کے جھرمٹ میں پرورش پائی تھی۔۔۔ یوں تو یزید کی ذاتی زندگی اس طرح کے سینکڑوں واقعات سے بھری پڑی ہے۔۔۔ لیکن اس کی ذہنیت کا اندازہ ان چند بڑے بڑے واقعات ہی سے لگایا جا سکتا ہے۔۔۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وصیت کے باوجود اس کے لئے پانچ، چھ بیعت نہ کرنے والے اکابرین کا وجود پہلے دن ہی سے ناقابل برداشت بن گیا۔۔۔ سانحہ کربلا کے بعد اہلبیت کے ساتھ اپنے دربار میں جو سلوک اس نے کیا۔۔۔ اور ذرا ذرا سی تنقید پر سیخ پا ہوجانا جو اس کا معمول تھا۔۔۔ پھر قتل حسین رضی اللہ عنہ کے بھیانک جرم سے آلودہ ہوجانے کے بعد بھی اہل مدینہ و مکہ کے ترک بیعت کو برداشت نہ کر سکا۔۔۔ اور اپنی عاقبت کو تاریک سے تاریک تر کرنے پر اتر آیا۔۔۔
اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ۔۔۔ یزید اپنے دور میں ملت کی اجتماعی احتسابی قوت کو کس بے دردی سے تباہ کرنے پر تلا ہوا تھا۔۔۔ یہ تو اس کی بدقسمتی اور امت کی خوش نصیبی تھی کہ۔۔۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ملت کی حیات اجتماعی میں ابھرنے والے اس شدید تغیر اور بھیانک تبدیلی کو بروقت محسوس کر کے۔۔۔ اس کا تدارک کرنے کے لئے میدان عمل میں نکلنے اور ریگزار کربلا میں اپنے قیمتی خون کا نذرانہ دے کر۔۔۔ افراد امت کے خوابیدہ ضمیروں کو بیدار اورمردہ دلوں کو حیات نو سے ہمکنار کر دیا۔۔۔ شہادت حسین رضی اللہ عنہ نے عوام کی اجتماعی بے حسی کو شعور و احساس کی کروٹ دی۔۔۔ فکر و سوچ کے منجمد سرچشموں کو تخلیقی فعالیت عطا کی۔۔۔ دوں ہمتی کو عزم جواں بخشا۔۔۔ اور یاس و قنوط کی گرد میں ڈوبے ہوئے جذبوں کو۔۔۔ حرکت و انقلاب کی لہروں میں بدل دیا۔۔۔ غرض آپ کی عظیم قربانی نے۔۔۔ امت مسلمہ کو از سر نو زندہ اور اسلام کو ہمیشہ کے لئے تابندہ کر دیا۔۔۔
رخسار حق کا غازہ تمہارا لہو ہوا
تم سرخرو ہوئے تو یہ دیں سرخرو ہوا
بجھتی ہوئی سی شمع کو تابندگی ملی
ملت کو تیرے دم سے نئی زندگی ملی
3۔ ظلم کی انتہاء
یزیدی عہد کی تیسری بنیادی خرابی عدل و انصاف کا فقدان اور ظلم و استبداد کے رجحانات کا فروغ تھا۔۔۔ ایک طرف یزید کا ذاتی فسق و فجور، بے حیائی، تعیش پسندی اور آوارگی۔۔۔ جو اسے مسلمانوں پر حکومت کرنے کے لئے بالکل نااہل ثابت کرنے کو کافی ہے۔۔۔ بلکہ حکومت پر مسلط ہوجانے کے بعد اسے معزول کرنے کی جدوجہد کا شرعی جواز ہے۔۔۔ اور دوسری طرف۔۔۔ ظلم و ناانصافی، فتنہ و فساد اور انتشار و بد امنی کو اس کے حکمران بنتے ہی جس قدر فروغ ملا۔۔۔ وہ یزید کی نااہلی اور بدکرداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حکومت کے قائم ہونے، باقی رہنے اور ترقی کرنے کو از اول تا آخر عدل و انصاف پر موقوف ٹھہراتے ہوئے یہ تاریخ ساز فقرہ کہا ہے :
الملک يبقی مع الکفر ولا يبقی مع الظلم.
’’یعنی کفر پر مبنی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم و ناانصافی کے ساتھ حکومت ہرگز باقی نہیں رہ سکتی‘‘۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس ارشادِ حقیقت بنیاد کی تصدیق یزید کی ظالمانہ حکومت کے انجام سے بخوبی ہو جاتی ہے۔۔۔ اس بدبخت آدمی نے تخت سلطنت پر بیٹھتے ہی فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ظلم و بربیت کا نشانہ بنایا۔۔۔ حرم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معصوم اور پاکباز انسانوں پر وہ مظالم توڑے کہ چنگیزیت بھی شرما جائے۔۔۔ کعبۃ اللہ کی طرف رخ کرکے نمازیں پڑھنے والوں نے، جن کے ذمہ اس کی پاسبانی تھی۔۔۔ کعبۃ اللہ پر سنگباری کر کے ابرہہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔۔۔ یزید کے ظلم و استبداد کا عفریت جب کعبۃ اللہ پر بھی چڑھ دوڑا تو غضب الہٰی نے اس ظالم کی گردن توڑ دی۔۔۔ اور یوں محاصرہ مکہ مکرمہ کے دوران یزیدی طاغوت اپنے بھیانک انجام کو پہنچا۔
عصر حاضر کے خارجی اور یزیدی گروہ اپنے سالار کارواں کو امیر المومنین اور صالح و پاکباز ثابت کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود۔۔۔ اس کے چہرے سے ظلم و بربریت کے یہ بدنما داغ کبھی نہ دھو سکیں گے۔۔۔ سوال یہ ہے کہ یزید اور اس کے حواریوں نے کوفہ میں حضرت مسلم بن عقیل، ان کے معصوم بچوں اور اہلبیت کے عقیدت مندوں۔۔۔ کربلا میں خانوادہ نبوت کی مقدس و پاکباز ہستیوں اور ان کے جاں نثاروں۔۔۔ مدینہ منورہ میں حرم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاک طینت مکینوں اور عفت مآب بیبیوں پر جو انسانیت سوز مظالم ڈھائے۔۔۔ درندگی، وحشت و بربریت اور چنگیزیت کے جو شرمناک مظاہرے کئے۔۔۔ اور کعبۃ اللہ کے انتہائی مقدس و پرامن ماحول میں فتنہ و فساد اور قتل و غارت کے جو بیج بوئے۔۔۔ کیا یہ سب محض اتفاقی حادثات اور کبھی کبھار رونما ہونے والے اکا دکا واقعات تھے۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔ بلکہ یہ سب کچھ۔۔۔ یزید اور اس کے گورنروں کی ظالمانہ سرشت، فاسقانہ ذہنیت، ان کے مستقل ہمہ وقتی رویوں اور مسلسل اقدامات کا مظہر تھا۔۔۔
وہ لوگ بنیادی طور پر فسق و فجور کے دلدادہ، ظلم و بربریت کے مجسمے اور وحشت و درندگی کے پیکر تھے۔۔۔ وہ پورے معاشرے پر ظلم و ناانصافی کو مسلط کر دینا چاہتے تھے۔۔۔ عدل و انصاف کا تصور بھی ان کے لئے اجنبی ہو کر رہ گیا تھا۔۔۔ شرافت و شائستگی کی ہوا بھی انہیں چھوکر نہ گذری تھی۔۔۔ خاندان نبوت کو تہہ تیغ کرنے والوں، حرم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تاراج کرنے والوں اور بیت اللہ پر سنگباری کرنے والوں کا بس چلتا۔۔۔ تو شاید کرہ ارض کو زیر و زبر کر کے رکھ دیتے۔۔۔ جہاں تک ان کے اقتدار و اختیار کی رسائی اور قبضہ و تسلط کی حد تھی۔۔۔ وہاں تک انہوں نے ظلم و جور، فسق و فجور، فتنہ و فساد اور بدامنی و انتشارکی حد کر دی۔۔۔ ظلم و درندگی اور وحشت و بربریت میں جہاں تک ان کا بس چلتا تھا کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔۔۔
جس سے زندگی تباہیوں کی راہ پر چل پڑی۔۔۔ امت مسلمہ زوال و انحطاط کی تاریک وادیوں میں اترنے لگی۔۔۔ اسلام کی نبضیں ڈوبتی اور یقین و ایمان کی شمعیں بجھتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔۔۔
یہ صورت حال اہل حق کے لئے ناقابل برداشت تھی۔۔۔ لیکن دعوت و عزیمت کی راہ پر جادہ پیمائی کا آغاز اور دوسروں کے لئے نشان راہ بنانے کی سعادت جس عظیم ہستی کا مقدر تھی۔۔۔ وہ ہیں۔۔۔ سبط رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، دلبند مرتضی رضی اللہ عنہ پور بتول رضی اللہ عنہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ۔۔۔ آپ نے یزیدی طاغوت کے ہاتھوں عظمت اسلام کا قلعہ مسمار ہوتے دیکھا۔۔۔ اور غیرت ایمانی کا سورج ڈوبتے پایا۔۔۔ تو اپنی اور اپنی اولاد کی رگوں میں دوڑتا خون نبوت لے کر لپکے۔۔۔ اور ریگزار کربلا میں بہتر (72) سروں کی فصل بوکر اسلام کی عظمت و حقانیت کا فلک رس مینار تعمیر کرگئے۔۔۔
شاعرِ اسلام علامہ محمد اقبال نے اسی تاریخی حقیقت کو کتنے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا :
چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت
حّریت را زہر اندر کام ریخت
’’جب خلافت نے قرآن پاک سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اس نے حریت کے حلق کے اندر زہر انڈیل دیا‘‘
خاست آں سر جلوۂ خیرالامم
چوں صحاب قبلہ باراں در قدم
’’یہ حالت دیکھ کر بہترین امت کا وہ بہترین جلوہ یوں اٹھا جیسے قبلہ کی جانب سے بارش سے بھرپور بادل‘‘
بر زمینِ کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
’’یہ بادل کربلا کی زمین پر برسا، اس ویرانہ میں گلہائے لالہ اگائے اور آگے بڑھ گیا‘‘
تاقیامت قطع استبداد کرد
موج خونِ او چمن ایجاد کرد
’’اس نے قیامت تک کے لئے استبداد کی جڑ کاٹ دی، اس کی موج سے ایک نیا چمن پیدا ہوا‘‘
بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است
پس بنائے لا الہ گرویدہ است
’’سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حق کی خاطر خاک و خون میں لوٹے، اس لئے وہ لا الہ کی بنیاد بن گئے‘‘
مدعا یس سلطنت بودے اگر
خود نکردے باچنیں ساماں سفر
’’اگر ان کا مقصود سلطنت حاصل کرنا ہوتا تو اتنے تھوڑے ساز و سامان کے ساتھ یہ سفر اختیار نہ کرتے‘‘
ماسوی اللہ را مسلماں بندہ نیست
پیش فرعونے سرش افگندہ نیست
’’مسلماں غیراللہ کا بندہ نہیں وہ کسی فرعون کے سامنے اپنا سر نہیں جھکاتا‘‘
خونِ او تفسیر ایں اسرار کرد
ملت خوابیدہ را بیدار کرد
’’سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے خون نے اس راز کی تفسیر پیش کر دی اور (اپنے عمل سے) ملت خوابیدہ کو بیدار کر دیا‘‘
رمز قرآن از حسین آموختیم
ز آتشِ او شعلہ ہا اندوختیم
’’ہم نے قرآن پاک کے رموز سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے سیکھے ہیں، ان کی روشن کی ہوئی آگ سے ہم نے آزادی کے شعلے اکٹھے کئے ہیں‘‘
تارِ ما از زخمہ اش لرزاں ہنوز
تازہ از تکبیرِ او ایماں ہنوز
’’ہماری زندگی کا تار ابھی تک سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے زخم سے لرزاں ہے انہوں نے میدان کربلا میں جو تکبیر بلند کی تھی وہ ہمارے ایمان کو زندہ کر رہی ہے‘‘ (ماخوذ از کربلا معراج عشق)
سلام بحضور امام عالی مقام رضی اللہ عنہ
کیا جلوہ کربلا میں دکھایا حُسین نے
سجدے میں جا کے سر کو کٹایا حُسین نے
خوش بخت تھا کہ آپ کے قدموں پہ آ گرا
سویا نصیب حُر کا جگایا حُسین نے
نیزے پہ سر تھا اور زباں پر تھیں آیتیں
قرآن اس طرح بھی سنایا حُسین نے
راہِ خدا میں جان کی بازی لگا گئے
پیشِ یزید سر نہ جھکایا حُسین نے
نانا کے پاک نام پہ ہر چیز وار دی
کچھ بھی نہ اپنے پاس بچایا حُسین نے
کیوں آپکو نہ اپنے نواسے پہ ناز ہو
ہر قول مصطفی کا نبھایا حُسین نے
اکبر کی خشک آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے
صغرٰی کا جب پیام سنایا حُسین نے
ایسا لگا کہ دیکھ کے حوریں بھی رو پڑیں
قاسم کی لاش کو جو اُٹھایا حُسین نے
صدمے سے قدسیوں کی بھی چیخیں نکل گئیں
اصغر کو جب گلے سے لگایا حُسین نے
فیضان وہ تو ساقئی کوثر کے لال تھے
کیسے کہوں کہ آب نہ پایا حُسین نے
(فیض رسول فیضان)