حضرت سید رسول شاہ خاکی رحمۃ اللہ علیہ (حیات مبارکہ کے چند گوشے)
حضرت سید رسول شاہ خاکی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار تحریک منہاج القرآن کے روحانی سرپرستوں میں ہوتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو تحریک اور بانی تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے خاص قلبی اور روحانی لگاؤ تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اکثر فرماتے کہ پروفیسر صاحب ’’شیخ الاسلام‘‘ کے منصب پر فائز ہیں اور اس صدی میں کوئی شخص ان کے پائے کا نہیں۔
آپ کا یہ قول کہ ’’جو پروفیسر صاحب اور تحریک منہاج القرآن کی مخالفت کرے گا اس پر قبر میں بندش ہوگی لہذا ان کی مخالفت سے پرہیز کرنا چاہئے‘‘ ان کی مشن کے ساتھ محبت اور لگاؤ کے ساتھ ساتھ اس مصطفوی مشن کی صداقت اور حقانیت کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔
حضرت سید رسول شاہ خاکی رحمۃ اللہ علیہ اعلیٰ نسب، نجیب الطرفین سید تھے۔ پیران پیر حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے سید عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ کی نسل پاک سے تھے۔ آپ کے آباؤ اجداد مقبوضہ کشمیر (سری نگر) میں مقیم ہوئے۔ شروع سے ہی آپ کے خاندان کا مافوق الفطرت ماحول رہا۔ آپ کے خاندان کو کشمیر میں ’’متو‘‘ خاندان کہتے ہیں۔ ’’متو‘‘ کشمیری زبان میں مست اور مجذوب کو کہا جاتا ہے۔ حضرت داؤد شاہ خاکی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے خاندان کے بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ یہ اپنے زمانے میں قاضی القضاۃ تھے۔ اس لئے طرزِ زندگی نہایت شاندار تھی۔ آپ اپنے بلند علمی مرتبے اور فقہی مہارت کی بنا پر ’’ابو حنیفہ ثانی‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ سلطان العارین ہفتم حضرت مخدوم حمزہ رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصی تربیت و صحبت سے متاثر ہوکر روحانیت اور تصوف کی طرف آگئے۔ اپنے آپ کو ختم کیا اور بالکل مٹی کے ساتھ مٹی ہوگئے۔ تب حضرت مخدوم حمزہ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو ’’خاکی‘‘ کہہ کر پکارا۔ اس وقت سے ’’خاکی‘‘ کا لقب اب تک اس خاندان کے لئے مخصوص ہے۔
حضرت پیر سید رسول شاہ خاکی رحمۃ اللہ علیہ بھی ابتداء ً مجذوب تھے۔ کافی عرصہ انڈیا اور کشمیر کے جنگلات میں ذکر و فکر میں مگن رہے۔ سری نگر کشمیر سے پاکستان آئے پھر یہاں بھی مختلف مقامات پر عبادات و ریاضات میں مصروف رہے۔ اسی دوران مری میں غوث زماں حضرت خواجہ قاسم موہڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچے۔ حضرت خواجہ قاسم موہڑوی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو نقشبندی سلسلہ میں خلافت عطا فرمائی۔ اسی طرح ایک دفعہ دہلی میں آپ کی ملاقات حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نقیب الاشراف حضرت ابراہیم سیف الدین رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی (ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کے والد گرامی فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ بھی حضرت ابراہیم سیف الدین رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت تھے)۔ آپ فرماتے ہیں کہ
’’مجھے انہوں نے اٹھا کر گود میں بٹھا لیا، وہ دعا کرتے تھے تو میں ان کے ہاتھ پکڑ لیتا۔ دوسری مرتبہ پھر ہاتھ اٹھائے تو میں نے ان کے ہاتھ پکڑ لئے۔ تیسری مرتبہ انہوں نے کہا کہ بیٹا تم نے ہوش میں آنا ہے۔ پھر میں خاموش ہوگیا پس یہ ان کی دعا کا اثر ہے کہ میں ہوش میں آیا ورنہ میں مکمل مدہوشی یا حالت جذب میں رہتا‘‘۔
اس کے بعد ڈھوڈا (چکوال) میں رہے وہاں سے پھر گاؤں مرید کے قریب مخدوم پور شریف میں مستقل قیام فرمایا۔ آپ کا وصال مبارک 25 جمادی الاول 31 اکتوبر 1994ء میں ہوا۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کا جنازہ حضور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی نے پڑھایا۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی زندگی میں عرس امام حسین رضی اللہ عنہ (10,9,8 محرم الحرام) کا اہتمام کیا کرتے۔ جس میں ملک بھر سے نعت خوانان حضرات اور منہاج القرآن سے علماء کرام خطاب فرماتے۔
آپ کے وصال کے بعد جگر گوشہ حضرت اعجاز ہادی رحمۃ اللہ علیہ قلندر پیر سید محمودالحسن شاہ خاکی مدظلہ العالی عرس کی محافل کی صدارت فرماتے ہیں جو اپنے والد بزرگوار سید رسول شاہ خاکی رحمۃ اللہ علیہ کے سجادہ نشین ہیں۔ انہوں نے باقاعدہ ’’محبت مشن‘‘ شروع کر رکھا ہے جو مخاصمت کے اس دور فتن میں محبت و امن کو فروغ دینے میں ملک و بیرون ملک پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔