حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّ اللّٰهَ لَيَرْفَعُ ذُرِّيَّةَ الْمُوْمِنِ مَعَه فِیْ درجته فِی الْجَنَّةِ وَاِنْ کَانَ لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَمَلِه لِتَقَرَّ بِه عِيْنُه.
’’اللہ تعالیٰ ایک مومن کی اولاد کو بھی جنت میں اس کے درجے تک پہنچا دے گا تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو، حالانکہ وہ اولاد اپنے عمل کی بدولت اس درجے کی اہل نہیں ہوگی۔ ‘‘(مجمع الزوائد، 7 : 114)
شرح و تفصیل
اللہ و رسول پر ایمان کی بڑی شان اور قدر و قیمت ہے لیکن تمام اہل ایمان یکساں مراتب کے مالک نہیں، کچھ ایمان دار ہونے کے باوجود کھلے ڈُلے انداز میں ایسی حرکتیں بھی کرتے ہیں جو ان کے شایان شان نہیں ہوتیں، شیطان کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور حد سے گزر جاتے ہیں حالانکہ بتایا گیا ہے یہ دوزخ کی راہ ہے اور اس سے وہ پاکیزہ صلاحیت متاثر ہوتی ہے جو جنت میں جانے کے لئے ضروری ہے۔ جنت ایک خوشبودار گلشن اور سدا بہار فردوسی نعمتوں کا مسکن ہے اس میں سکونت پذیر ہونے والوں کے لئے لازمی ہے کہ وہ ہر قسم کی ظاہری و باطنی پلیدی سے پاک ہوں اور یہ پاکیزگی ایمان عطا کرتا ہے۔ اس کے بغیر انسان میں یہ صلاحیت پیدا نہیں ہوتی کہ جنت میں جا سکے۔
یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان جب جنت میں جائیں گے تو ایمان کی اس خاصیت، صلاحیت اور انفرادی تاثیر سے آگاہ ہونے کے باعث اور اس قدر و منزلت کے سبب جو ایمان کی بدولت انہیں حاصل ہوگی، اللہ کے دربار میں بڑے ناز بھرے انداز میں یہ درخواست پیش کریں گے کہ رب کریم!
ہمارے ماں باپ، اولاد، احباب تو یہاں موجود ہی نہیں۔ شوہر، بیویوں کی اور بیویاں شوہروں کی عدم موجودگی کا ذکر کریں گی، ان کے بغیر تو جنت ویران ہے، انہیں بھی جنت میں داخل کر دے تاکہ ہمارے دل لگیں اور اداسی دور ہو۔ ہم جانتے ہیں وہ گناہ گار ہیں مگر ایمان دار تو ہیں۔ ایمان، جنت میں داخلے کی شرط اول ہے اور جنت میں سکونت کی صلاحیت عطا کرنے والا ہے، اس لئے ہمارے ان جگر پاروں اور پیاروں کے گناہوں کو بخش دے اور ایمان کی بدولت جنت میں داخل کردے۔ چنانچہ ان کی خواہش پوری کردی جائے گی، ماں باپ، اولاد، کے پاس اور اولاد ماں باپ کے پاس، شوہر بیویوں کے پاس اور بیویاں، شوہروں کے پاس اور دوست احباب ایک دوسرے کے پاس جنت میں پہنچ جائیں گے، کیسے پہنچیں گے؟ اس سلسلے کی آیات و احادیث یہ ہیں :
صالح انسان کی شان
صالح اس نیک پاک انسان کو کہتے ہیں جو بڑے ہی اخلاص و محبت کے ساتھ صرف رضائے الہٰی کے لئے کوئی کام کرے۔ اس میں ذاتی اغراض، دنیاوی مقاصد اور مالی مفادات کی آلائش شامل نہ ہو۔ اس محبت بھرے پر خلوص جذبہ عمل کو بارگاہ خداوندی میں بڑی ہی پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔ ایسا عالی شان انسان، آسمان والوں کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے، فرشتے اسے محبت سے دیکھتے اور عقیدت سے اس کے پاؤں تلے پر بچھاتے ہیں۔ قضاء و قدر کے کارکنوں کو ایسے پیارے بندے کے بگڑے کام سنوارنے اور رکے ہوئے کام پایہ تکمیل تک پہنچانے اور ہر معاملے میں اس کی مدد کرنے پر مامور کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کے تمام کام غیبی نگرانی میں از خود سنورتے چلے جاتے ہیں۔
صالح انسان کی اپنی ذات ہی غیبی امداد سے بہرہ ور اور خصوصی نوازشوں سے فیض یاب نہیں ہوتی بلکہ اس کی صالحیت کے فیوض و برکات کے دھارے چاروں سمت بہنے لگتے ہیں اور وہ لوگ بھی اس کے فوائد و برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں جن کا اس صالح انسان کے ساتھ کسی بھی حیثیت سے تھوڑا بہت تعلق ہوتا ہے۔
ارشاد رب العزت ہے :
وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلاَمَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا
’’اور وہ جو دیوار تھی تو وہ شہر میں (رہنے والے) دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا‘‘
دنیا میں تو فائدہ پہنچتا ہی ہے، جیسا کہ آیت میں مذکورہ واقعہ سے ظاہر ہے کہ صالح باپ کی وجہ سے اولاد کا خزانہ محفوظ ہوگیا۔ لیکن صالحیت کا کمال یہ ہے کہ آخرت میں بھی صالح انسان کی بدولت اس کے ایمان دار، ماں باپ، آل اولاد، شوہروں، بیویوں اور دوستوں کو فائدہ پہنچے گا جو ایمان دار تو ہوں گے لیکن صالح نہیں ہوں گے۔ چنانچہ وہ ان گناہ گاروں کو اپنے ہمراہ جنت میں لے جائیں گے۔ مندرجہ ذیل آیات و احادیث میں اس کی وضاحت ہے :
1. وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰ. هُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْئٍ.
’’جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے صرف ایمان کے معاملے میں ان کی پیروی کی، ہم (جنت میں) ان کی (گناہ گار) اولاد کو بھی ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ماں باپ کے اپنے اعمال کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں کریں گے‘‘۔ (الطور : 21)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ نیک پارسا، صالح ایمان دار لوگوں کی گناہ گار اولاد بھی ان کی صالحیت اور پارسائی کی وجہ سے نہ صرف بخش دی جائے گی بلکہ انہیں جنت میں وہ اعلیٰ مدارج و مقامات بھی دے دیئے جائیں گے جہاں ان کے ماں باپ رہائش پذیر ہوں گے لیکن شرط صرف یہ ہے کہ وہ اولاد ایمان دار ہو، بے ایمان اولاد کو نیک صالح انسانوں سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ نوح علیہ السلام کا بیٹا کافر تھا، اسے نوح علیہ السلام کی صالحیت و نبوت سے کوئی فائدہ نہ پہنچا جبکہ ایماندار لوگ نجات پاگئے جو اولاد بھی نہیں تھے۔
حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویاں بھی کافر تھیں اس لئے دونوں حضرات نے ان دونوں کو بھی کوئی فائدہ نہ پہنچایا۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْئًا. (التحریم : 10)
اس کے برعکس جو ایمان دار تھے انہیں بچا لیا، فرشتوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا ہم ان پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔
2۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں :
اِنَّ اللّٰهَ لَيَرْفَعُ ذُرِّيَّةَ الْمُوْمِنِ مَعَه فِیْ دَرَجَتِه فِی الْجَنَّةِ وَاِنْ کَانَ لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَمَلِه لِتَقَرَّبِه عِيْنُه.
(مجمع الزوائد، 7 : 114، مشکل الآثار، 2 : 15، قرطبی، 17 : 66)
’’اللہ تعالیٰ ایک مومن کی اولاد کو بھی جنت میں اس کے درجے تک پہنچا دے گا تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو، حالانکہ وہ اولاد اپنے عمل کی بدولت اس درجے کی اہل نہیں ہوگی۔ ‘‘
3۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ راوی ہیں ایک مومن جنت میں پہنچ کر ماں باپ اور بیوی بچوں کو تلاش کرے گا اور پوچھے گا وہ کہاں ہیں؟ اسے بتایا جائے گا ان کے اعمال تیرے جیسے نہیں تھے اس لئے وہ یہاں نہیں ہیں۔ وہ کہے گا میں انہیں یہاں دیکھنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ اس کی شفاعت و خواہش پر انہیں اس کے پاس پہنچادیا جائے گا۔
4۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا :
اِنَّ الرَّجُلَ يَقُوْلُ فِی الْجَنَّةِ : مَا فَعَلَ صَدِيْقِیْ؟ وَصَدِيْقُهُ فِی الْجَحِيْمَ. فَيَقُوْلُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ : اَخْرِ جُوْا لَه صَدِيْقَه اِلَی الْجَنَّةِ فَيَقُوْلُ مَنْ بَقِیَ فِيْهَا فَمَالَنَا مِنْ شَافِعِيْنَ وَلَا صَدِيْقٍ حَمِيْمٍ.
(قرطبی، 13 : 118)
’’ایک آدمی جنت میں پہنچ کر پوچھے گا : میرا فلاں دوست کہاں ہے؟ حالانکہ اس کا دوست دوزخ میں ہوگا، اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیں گے اس کے دوست کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کر دو۔ اس کے بعد جو لوگ دوزخ میں باقی رہ جائیں گے وہ ان نجات پانے والوں کو دیکھ کر حسرت سے کہیں گے! ہمارا تو کوئی بھی ایسا گہرا دوست اور شفاعت کرنے والا نہیں۔ اے کاش ہمارا بھی کوئی ہوتا تو اس عذاب سے چھوٹتے‘‘۔
ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ جو بھی صالح مومن ہوگا، وہ اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، شوہروں اور دوستوں کو جنت میں نہ پاکر ان کو وہاں لانے کی درخواست کرے گا اور اس کی خوشی کے لئے اس کی یہ درخواست قبول کرلی جائے گی تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔
سورۃ المومن کی ایک آیت کا مضمون ہے کہ ایماندار مومنوں کی بخشش، ان کے درجات کی بلندی اور انہیں ایک دوسرے کے پاس پہنچانے کے لئے فرشتے بھی دعائیں کرتے رہتے ہیں :
الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِO رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُم وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ
(المومن : 7. 8)
’’جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اُس کے اِرد گِرد ہیں وہ (سب) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں (یہ عرض کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب! تو (اپنی) رحمت اور علم سے ہر شے کا احاطہ فرمائے ہوئے ہے، پس اُن لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستہ کی پیروی کی اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لےo اے ہمارے رب! اور انہیں (ہمیشہ رہنے کے لئے) جنّاتِ عدن میں داخل فرما، جن کا تُو نے اُن سے وعدہ فرما رکھا ہے اور اُن کے آباء و اجداد سے اور اُن کی بیویوں سے اور اُن کی اولاد و ذرّیت سے جو نیک ہوں (انہیں بھی اُن کے ساتھ داخل فرما)‘‘۔
جنت میں جانے کی وہی صلاحیت رکھتا ہے جو ایمان دار ہو، کیونکہ جو صاحبِ ایمان نہیں وہ اس قابل ہی نہیں ہوتا کہ جنت میں جائے، اس لئے اس آیت میں صلاحیت سے مراد ایمان ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ صالح ہونا انسان کی اپنی ذات کے لئے ہی نافع و مفید نہیں ہے، بلکہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی نفع رساں ہے، چنانچہ اگر ماں باپ صالح ہیں تو وہ اپنی اولاد کو۔ ۔ ۔ اور اگر اولاد صالح ہے تو وہ اپنے ماں باپ کو۔ ۔ ۔ اور اگر شوہر صالح ہے تو وہ اپنی بیوی کو۔ ۔ ۔ اور اگر بیوی صالحہ ہے تو وہ اپنے شوہر کو۔ ۔ ۔ اسی طرح صالح دوست احباب اور رشتہ دار ایک دوسرے کو لے کر جنت میں جائیں گے اور ان کی صالحیت دوسرے کی بخشش اور درجات میں بلندی کا سبب بن جائے گی۔ یہاں تک کہ اگر کسی صالح انسان کے ساتھ تھوڑی سی محبت اور اس کی ذرا سی خدمت بھی کی ہوگی تو وہ بھی اسے نفع دے گی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يُصَفُّ اَهْلُ النَّارِ فَيَمُرُّبِهِمُ الرَّجُلُ مِنْ اَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَقُوْلُ الرَّجُلُ مِنْهُمْ يَافُلاَنُ! اَمَا تَعْرِفْنِیْ اَنَا الَّذِیْ سَقَيْتُکَ شُرْبَةً وَقَالَ بَعْضُهُمْ اَنَا الَّذِیْ وَهَبْتُ لَکَ وَضُوْئً فَيَشْفَعُ لَه فَيُدْخِلُهُ الْجَنَّةَ.
(ابن ماجه، 3685، مشکوة، 494)
’’گناہ گار دوزخیوں کو دوزخ میں بھیجنے کے لئے علیحدہ کر دیا جائے گا وہ صف بستہ کھڑے ہوں گے کہ ایک جنتی بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ ان کے قریب سے گزرے گا تو وہ دوزخی اپنے اس نیک صالح انسان کو پہچان لیں گے۔ کوئی کہے گا کیا آپ مجھے نہیں پہچانتے؟ فلاں موقعہ پر میں نے آپ کو پانی پلایا تھا۔ کوئی کہے گا میں نے آپ کو وضو کے لئے پانی لا کر دیا تھا، اتنے سے تعارف اور معمولی سے خدمت پر ہی وہ نیک انسان ان کی شفاعت کرے گا جو قبول کی جائے گی اور وہ انہیں اپنے ساتھ جنت میں لے جائے گا۔ ‘‘