گھر بار کا چین میسر ہو، محبت و ادب کرنے والے اہل و عیال موجود ہوں، مقتدر حلقوں اور عوام الناس میں مقبولیت ہو، زندگی کا ہر لمحہ استراحت اور آرام سے گزر رہا ہو، رزق اور روزگار محفوظ ہو، کامیابیوں کی ملک بھر میں دھوم ہو، دنیا قدم چومتی ہو، ایسے پر آسائش اور بہترین ماحول میں بیٹھے بٹھائے نصیب کی راحت سے صلیب کی آفت تک منتقل ہونا کون پسند کرتا ہے۔۔۔؟ قبولیت عامہ کا ماحول چھوڑ کر کسی اعلیٰ ترین مقصد کے حصول کے لئے طعنے اور گالیاں برداشت کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ راستہ انبیاء کرام کا راستہ ہے جس پر وہ صبرو استقامت اور ایمان و یقین کے نور کے ساتھ گامزن رہے۔ قوم کی سرداری، سوناچاندی اور عیش و آرام چھوڑ کر شہر شہر، گرمی، سردی، دھوپ اور بارش میں دشمنوں کی طرف سے مصائب و آلام اور پتھروں کی بارش کے باوجود پیغام حق وہی پہنچاتا ہے جسے اپنے پیغام و مقصد کی صداقت اور اپنی منزل کے حصول کا یقین محکم ہوتا ہے۔ اسی بناء پر ایسے مردانِ حُر اپنے عیش و آرام اور شہرت و ناموری کی قربانی دیتے ہوئے میدان عمل میں نکل پڑتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو حاصلِ مقصدِ تخلیق کائنات ہیں۔
ایک ایسا باطل نظریہ جسے اندھی طاقت اور بزور بازو حاصل کردہ اقتدار کی پشت پناہی حاصل ہو، ایسے باطل نظریہ و فکر کو چیلنج کرنا، اس کے خلاف قلم اور گفتار سے جدوجہد کرنا ہر حال میں اعلائے کلمہ حق کی جدوجہد اور خدمت اسلام ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قدر فتنے اسلام کی 1400 سال کی تاریخ میں اُٹھے، یہ تمام وقت کے بادشاہوں کی تائید و حمایت میں اُٹھے۔ اسی لیے اعلاء کلمہ حق کا نصب العین لے کر اٹھنے والوں کو اکثر حکمرانوں کی طاقت سے ٹکرانا پڑا۔ کلمہ حق بلند کرتے ہوئے جب کوئی صاحب عزیمت باطل اقتدار کے ایوانوں کو للکارتا اور انہیں حق اور عوام الناس کے بنیادی حقوق کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ تم اپنی ذمہ داریوں سے سرمو انحراف کئے ہوئے ہو لہذا آئین و قانون کے تحت عوام کو اُن کے حقوق واپس کرو۔ اس نعرہ مستانہ کے جواب میں اس کی کردار کشی کی جاتی ہے، ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، اس کے رفقاء و کارکنان کو مشکلات و مصائب کا شکار کیا جاتا ہے۔ الغرض ہر حربے کو آزماتے ہوئے اسے ہراساں کیا جاتا ہے۔ مگر وہ مردِ قلندر لایخافون لومۃ لائم کی عملی تصویر بنے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتا ہے۔
اعلائِ کلمہ حق ہر ایک کا نصیب نہیں
اعلاء کلمہ حق ہر ایک کا نصیب نہیں ہوتا بلکہ ہر دور میں عزم، حوصلہ، ہمت، جرات اور صبرو استقامت کے اوصاف کا حامل ایک محدود طبقہ ہی اس اعلیٰ مقام کو حاصل کرتا ہے۔ بطور عادت سچ بولنے والے دنیا میںبہت ہوتے ہیں لیکن جان ومال کی آزمائش کے وقت کلمہ حق کہنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے کہ لوگوں کو دین میں محنت، ایمان میں ترقی اور حق گوئی کی تلقین کرنے والے واعِظین جابر سلطان کی ایک نگاہ غضب آلود کی تاب نہ لا سکے اور اپنی بے حمیتی کے جواز تخلیق کرتے رہے۔
اسی طرح ایسے مردانِ خدا کی بھی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اپنی اور اپنے خاندان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ اپنے مشن پر ڈٹے رہے۔ نتیجتاً شر کی ساری طاقتیں مل کر بھی ان کا سر نہ جھکا سکیں۔
نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی حق گوئی ہویا حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکاتیب لے کر ہرقل، کسریٰ اور دیگر شاہان وقت کے درباروں میں جانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جراتِ رندانہ۔۔۔ کہیں حجر بن عدی اعلاء کلمہ حق کے جرم میں شہید کیے گئے۔۔۔ تو کہیں عبدالرحمٰن بن حسان کلمہ حق کہتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔۔۔ قافلہ حسین کے ایلچی قیس بن مسیر ہوں یا لشکر یزید سے حر بن یزید۔۔۔ یہ اور اس قبیل کے تمام افراد کا شعار ہمیشہ یہی رہا ہے کہ کلمہ حق کہتے ہوئے اپنی جان اللہ کے سپرد کردیتے ہیں مگر مشن سے پیچھے نہیں ہٹتے۔
واقعہ کربلا تو جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کی معراج ہے۔ بے سرو سامانی کے عالم میں حق پر ڈٹے رہنا اوراپنا وطن ،مال، اولاد، جان، الغرض ہر شے قربان کردینے کی اگر قیامت تک کوئی قابل تقلید مثال ہے تو امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کا کردار ہے۔
نواسہ رسول کی شہادت کے بعد امت میں قبرستان جیسی خاموشی چھا گئی۔ ایسے میں کربلا کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر کی صدائے حق روشنی بن کر چمکی۔۔۔کہیں ابن جبیر نے تو کہیں حطیطہ زبات نے حجاج بن یوسف کے ظلم کے خلاف آواز حق بلند کی۔۔۔ حضرت امام زین العابدین کے بیٹے امام زید نے اموی دور حکومت کے ظلم کے خلاف کلمہ حق بلند کیا تو ایک لاکھ لوگوں نے آپکی بیعت کی، جب حق وباطل کا معرکہ آیا تو محض 218 افراد نے آپ کا ساتھ دیا۔ آپ نے کلمہ حق بلند کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کیا اور آپ کی لاش کو کئی دن تک لٹکائے رکھا گیا۔
تاریخِ اسلام میں کہیں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ تمام حکومتی دباؤ اور پیشکشوں کو ٹھکرانے پر کوڑے کھاتے نظر آتے ہیں۔۔۔ تو کہیں امام مالک رحمۃ اللہ عنہ کو مجرموں کی طرح لا کر کوڑے مارے جاتے ہیں۔۔۔ کہیں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ عنہ کو روزے کی حالت میں اتنے کوڑے لگتے ہیں کہ آپ بے ہوش ہوجاتے ہیں۔۔۔ کہیں ذالنون مصری رحمۃ اللہ عنہ قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں تو کہیں ابو عبدالرحمٰن کو ملک بدر کیا جاتا ہے۔۔۔ کہیں امام غزالی رضی اللہ عنہ کلمہ حق بلند کرتے ہیں تو کہیں سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ ظالم حکمرانوں کو للکاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
خواجہ نظام الدین اولیاء ہوں یا خواجہ معین الدین چشتی اجمیری۔۔۔ شیخ شہاب الدین ہوں یا مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ عنہ۔۔۔ یہ تمام نامور شخصیات حکمرانوں کے غیض و غضب کا شکار ہوئیں اور قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن ہر ایک نے کلمہ حق بلند کرنے کا حق ادا کیا۔
اعلاء کلمہ حق درحقیقت دینِ اسلام کی بقاء اور استحکام کی علامت ہے۔ اگر کلمہ حق کا باب اسلامی تعلیمات میں شامل نہ ہوتا تو یقیناً اسلام کی عمر ایک صدی سے زائد نہ ہوتی یا اسلام اپنی حقیقی شناخت قائم نہ رکھ سکتا۔ کیونکہ اسے اپنی پیدائش کے محض 60سال بعد ہی دور یزید میں ایسے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا کہ، اگر اس وقت زمانے کے سب سے بہترین افراد اعلاء کلمہ حق کا فریضہ سر انجام نہ دیتے تو اسلام اپنی شناخت کھو دیتا۔ محض حکمرانوں کی مرضی اور ظلم و ستم اسلام کی پہچان رہ جاتی۔
اعلاءِ کلمۃ حق کے تقاضے اور کامیابی کی ضمانت
اعلاء کلمہ حق کے کئی تقاضے ہیں جن کی تکمیل اہل حق پر لازم ہوتی ہے۔ ان تقاضوں میں سے چند ایک یہ ہیں:
- جہدِ مسلسل
- مصائب و آلام پر صبر
- شکست نہ کھانے والاحوصلہ
- استقامت
- خوف و ہر اس کے عالم میں جدوجہد جاری رکھن
- زمانے بھر کی تنقید کو سننے اور برداشت کرنے کا حوصلہ
- مال و جان کی قربانی کا جذبہ
اعلاء کلمہ حق ایک وقتی اور عارضی جدوجہد کا نام نہیں بلکہ طویل اور مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ باطل کو اس کے انجام تک پہنچانے، اس کے اثرونفوذ کے مکمل خاتمے، حق کو سربلند کرنے اور نیکی کو غالب کرنے کے لئے اہل حق کو ایک طویل جدوجہد اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ مندرجہ بالا تمام ضابطوں اور تقاضوں کی تکمیل پر ہی کسی گروہ کو فتح نصیب ہوتی ہے۔
اہل حق کے لئے فتح کی سب سے بڑی ضمانت یہ ہے کہ اہل حق کو اللہ نے اپنا لشکر قرار دیا ہے اور اللہ اپنی جماعت کو کبھی شکست نہیں ہونے دیتا۔ارشاد فرمایا:
کَتَبَ اﷲُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ط اِنَّ اﷲَ قَوِیٌّ عَزِيْزٌ.
’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ یقینا میں اور میرے رسول ضرور غالب ہوکر رہیں گے، بے شک اللہ بڑی قوت والا بڑے غلبہ والا ہے‘‘
(المجادلة ،58: 21)
اللہ رب العزت اپنی جماعت کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لئے ان کی تربیت فرماتا ہے۔کبھی باطل کے ظلم و ستم سے ان میں صبر کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔۔۔ اور کبھی وقتی طور پر باطل کو فتح دے کر اہل حق کی استقامت کا جائزہ لیتا ہے۔۔۔ کبھی اپنوں سے طعنوں کے تیر چلوا کر لوگوں کی بے وفائی کے کرب سے گزارتا ہے۔ الغرض اللہ تعالی اہل حق کو اس وقت تک آزمائشوں سے گزارتا رہتا ہے۔ جب تک اہل حق فتح کے حصول کے لیے تمام تقاضے پورے نہیں کر لیتے۔
اعلاء ِ کلمہ حق کی جدوجہد میں ہرموقع اور مرحلہ کے اختتام پر یہ بھی ضروری نہیں کہ اہل حق کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے، اور نہ ہی اہل حق کو ہر معرکہ کے اختتام پر فوری کامیابی میسر آتی ہے۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہون
اعلاء کلمۃ حق اور موجودہ حالات
برصغیر پاک وہند کی تاریخ بھی اعلاء کلمہ حق کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ مختلف نسلوں، رنگوں اور علاقوں کے لوگ انفرادی اور اجتماعی سطح پر جدوجہد کی وہ قابلِ رشک عظیم داستانیں رقم کرتے رہے جو کہ یقیناً انہی کا نصیب تھیں۔ مسلمانان برصغیرنے علامہ اقبال کی فکر سے روشنی، دو قومی نظریہ سے قوت اور قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں جمع ہو کر قربانیوں کی وہ عظیم اور لازوال داستان رقم کی کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ شاید کہ ساقی کوثر صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشرق سے جو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آئے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اشارہ انہی قربانیوں کی طرف تھا۔
لیکن افسوس صد افسوس، قائداعظم علیہ الرحمۃ کی رحلت کے بعد ریاست مدینہ کا یہ ماڈل (پاکستان) اپنی اصلی صورت میں برقرار نہ رہ سکا اور دو لخت ہو گیا۔ پاکستان حقیقی جمہوری و فلاحی ریاست نہ بن سکا۔ باطل نظام کے پروردہ مختلف موثر طبقات نے اس مملکتِ خداداد کو دشمن طاقتوں کے ہاں گروی رکھ دیا اور ایسا نظام مرتب کیا جس سے ایک طرف غریب اور محکوم طبقات کا استحصال ہوتا چلا گیا اور دوسری طرف حاکم اور امیر طبقات کے حقوق کی حفاظت ہوتی رہی۔
ملک پاکستان آج واضح طور پر دو طبقات میں تقسیم ہوچکا:
- طبقہ اشرافیہ
- طبقہ غرباء
طبقہ اشرافیہ ظلم اور کرپشن کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوچکا ہے۔ اقتدار کے ذریعے اس طبقے نے ملک کے تمام وسائل، اختیارات، اداروں اور اٹھارہ کروڑ عوام کو اپنا غلام بنالیا ہے۔ اب مظلوم انصاف نہ ملنے پر تیل چھڑک کر اپنے آپ کو آگ لگالے یا بھتہ نہ دینے پر 300 سے زائد افراد کو زندہ جلادیا جائے۔۔۔ کروڑوں تعلیم سے محروم رہیں یا بھوکے مریں۔۔۔ گرمی سے ایک شہر میں 1500 سے زائد جنازے اٹھیں یا ہر شہر میں بدکاری و فحاشی کے اڈے کھلیں۔۔۔ اشرافیہ کا مقدر اقتدار اور عوام کا مقدر ذلت و رسوائی رہ گیا ہے۔
سیدنا علی شیرا خدا رضی اللہ تعالی نے شاید ایسے ہی نظام باطل کے متعلق ارشاد فرمایا تھا:
(برْے) لوگ فسق وفجور(گناہ) پر بھائی چارہ (مک مکا)کر لیں گے اور دین کے معاملات میں (آپس)میں پھوٹ پڑ جائے گی، اور جھوٹ کے معاملے میں یارانہ ہو گا (تحفے تحائف دیے جائیں گے)اور جب ایسا ہو جائے گا تو اولاد (والدین کے لئے) آنکھوں کی ٹھنڈک کے بجائے غیظ وغضب کی علامت بن جائے گی۔
بارشیں کثرت سے ہوں گی، ہر طرف پانی ہی پانی نظر آئے گا (یعنی سیلاب آئیں گے) شرافت اور شریف لوگوں کی کمی ہوتی جائے گی۔ اس زمانے کے لوگ بھیڑیوں کی طرح ہوں گے (زبانیں میٹھی اور دل سخت ہوں گے)، حکمران درندے ہوں گے، (لوگوں کو ماریں گے)جسمانی ومعاشی قتل کریں گے۔ متوسط طبقے کے لوگ زیادہ کھانے پینے کے شوقین ہوں گے جبکہ غریب اور فقراء بھوک سے مریں گے۔سچ اور سچائی غارت ہو جائے گی اور جھوٹ پھیلایا جائے گا۔ انسانیت کے ساتھ محبت صرف زبانی کلامی ہو گی (سیاسی نعرہ ہو گا)لوگ قلبی طور پر ایک دوسرے سے دور ہوں گے۔نسب کا معیار گناہ ہو گا۔عفت وپاکدامنی نرالی چیز سمجھی جائے گی (اس پر تعجب ہو گا)‘‘۔
(نهجه البلاغة، خطبه نمبر 102، صفحه نمبر: 194)
اگر ہم مولائے کائنات سیدنا علی شیرا خدا رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا خطبہ کے اس حصہ کا مطالعہ کریں تو من حیث المجموع ہم انہی حالات سے گزر رہے ہیں۔
ہم میدانِ عمل میں کیوں نکلے؟
ایسی صورت حال میں اہل حق پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اعلاء کلمہ حق کی جدوجہد کی خاطر آئین و قانون کے مطابق میدان میں نکل پڑیں۔ اگر اہل حق ظلم ہوتا دیکھتے رہیں اور باطل کے خلاف برسر پیکار نہ ہوں، ان کے خلاف آئینی و قانونی حدود میں رہتے ہوئے جدوجہد نہ کریں تو دائمی ذلت ورسوائی اس قوم کا مقدر بنا دی جاتی ہے۔ سیدنا علی شیرخدا کا قول ہے کہ
’’مملکت کفر پر قائم رہی سکتی ہے مگر ظلم پر نہیں‘‘۔
جس معاشرے کے لوگ ظلم کو برداشت کرنے لگ جائیں، ظالم کو ظالم نہ کہیں، اعلاء کلمہ حق کا فریضہ کوئی بھی طبقہ ادا نہ کرے تو پھر ایسی قومیں مٹا دی جاتی ہیں۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَلَوْلَا دَفْعُ ﷲِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْکَرُ فِيْهَا اسْمُ ﷲِ کَثِيْرًا.
’’اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جدو جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے‘‘۔
(الحج، 22: 40)
وطن عزیز کے لوگ 1947ء سے لیکر 1980ء تک تین دھائیوں سے مسلسل ذلت ورسوائی اور جہنم کی زندگی گزار رہے تھے۔ اجتماعی سطح پر ظلم سے ٹکرانے کو کوئی تیار نہ تھا۔ ہر کوئی اصلاح احوال کی انفرادی جدوجہد کو ہی کافی سمجھتا تھا۔ کئی طبقات غیر سیاسی ہونے کانعرہ لگا کر جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کی سنت کو اپنے کردار وعمل اور مقاصد سے خارج کر چکے تھے۔ ایسے ماحول میں اعلاء کلمہ حق کا تسلسل بنتے ہوئے قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ایک ایسی گرجدار آواز بلند ہوئی جو علمی میدان سے لیکر اعلائے کلمہ حق کی جدوجہد تک پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کی نمائندہ آواز قرار پائی۔
معاشرے میں ظلم کے خاتمے کے لئے تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کی اجتماعی جدوجہد عوام پاکستان کے لئے بالخصوص اور مسلماناں عالم کے لیے بالعموم ایک مژدہ جانفزا ہے۔ 23 دسمبر 2012ء سے اعلاء کلمہ حق کی یہ جدوجہد انقلابی مرحلے میں داخل ہوئی تو اس دن سے لے کر آج تک کارکنان تحریک نے قربانیوں اور عزم استقلال کی وہ تاریخ رقم کی جس کی نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔
- 17 جون 2014ء کو 100 افراد کو میڈیا کی موجودگی میں گولیاں مار دی گئیں 14 افراد شہید ہوئے۔ بعد ازاں ہزارہا افراد کو گھروں سے اٹھاکر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
- 9، 10 اگست کو پاکستان بھر سے آنے والے قافلوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور گولیاں مار کر لوگوں کو شہید و زخمی کیا گیا۔ عورتوں پر تشدد کیا گیا۔ قافلہ حق کو دبانے کے لئے پورے ملک کو کنٹینرز لگاکر جام کردیا گیا۔
- 30، 31 اگست کی رات کو ملکی تاریخ کے بدترین ریاستی جبر کا مظاہرہ کیا گیا۔
اعلاء کلمہ حق کے راستے پر گامزن لوگوں کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تحریک کے کارکنان بھی انہی مشکلات کا شکار ہوئے۔ ایک طرف اس عظیم تحریک کی نڈر قیادت اور بہادر کارکنان 70 دن سے زائد کھلے آسمان تلے سخت بارش اور ریاستی جبر اور حملے کے خوف کا مقابلہ کرتے ہوئے ڈٹے رہے، جبکہ دوسری طرف جس قوم کی آزادی کے لئے تن من دھن سب کچھ قربان کیا، واپسی پر اسی قوم نے طعنے بھی دیئے۔ اس تمام کے باوجود باطل کا ہر ظلم و جبر اور لوگوں کی بے وفائی اعلاء کلمہ حق کا فریضہ سرانجام دینے والے اس قافلے کے کسی ایک فرد کا سر نہ جھکاسکی۔۔۔ قارونوں کے خزانے کسی ایک شہید کے ورثاء کی وفا کو خرید نہ سکے۔۔۔ اس قافلہ عزیمت کے ایک ایک فرد نے کوہِ استقامت بن کر جراتوں کی لازوال داستان رقم کی ہے۔
یہ انقلابی جدوجہد ابھی جاری ہے۔ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ جوں جوںوقت گزرتا جا رہا ہے، صورت حال واضح ہوتی جا رہی ہے۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے کہے ہوئے ایک ایک جملے کی حقیقت اور کارکنان کی قربانیوں کی عظمت قوم پر ہر آئے دن واضح ہو رہی ہے۔ ایک طرف قائد انقلاب کی قیادت میں کارکنان کے عزم وحوصلہ میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف ظالموں کو اپنا انجام بھی اب نوشتہ دیوار نظر آ رہا ہے۔ ان شاء اللہ کارکنان کی یہی استقامت، عزم و ہمت اور جدوجہد کا تسلسل ایک دن انہیں ان کی منزل تک پہنچادے گا۔
(ماہنامہ منہاج القرآن کے آئندہ شماروں میں ہم اس انقلابی جدوجہد کے شعوری، معاشی، معاشرتی اثرات و نتائج کا جائزہ لیں گے۔)