پانچویں صدی ہجری اپنے اختتام کی طرف رواں دواں تھی، ادھر مشیت ایزدی معلم ثقلین اور مصلحِ احوالِ انسانیت کی ولادت اور تربیت و پرورش کا انتظام و انصرام فرمارہی تھی۔ دریں اثناء حضرت موسی جنگی دوست اور حضرت ام الخیر فاطمہ پر اللہ رب العزت کی طرف سے طہارت و تقویٰ کی صورت میں خیرو برکات کے خصوصی انعامات کا نزول جاری تھا۔ آپ کی گود کو پاک طینت و جبلت والے پاک باطن اور عظیم فرزند کی آمد کے لئے تیار کیا جارہا تھا۔ 470ھ میں وہ مولود پیدا ہوا جو نہ صرف اپنے والدین کی خوبیوں کا مظہر بنا بلکہ طہارت، معرفت اور صالحیت کے اسرار و فیوضات کو چہار دانگ عالم میں فروغ دینے کا باعث بنا۔ تقویٰ و طہارت کو تاجوری و سروری عطا کرنے والی اس مثالی شخصیت کو دنیا حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کے نام سے جانتی ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے اسلامی معاشرہ میں پیدا ہونے والے بگاڑ کا خاتمہ کیا اور ملت اسلامیہ کی مٹتی ہوئی اقدار کو زندہ کرتے ہوئے دین و ملت کا احیاء فرمایا۔ اسی وجہ سے آپ ’’محی الدین‘‘ کے لقب سے موسوم ہوئے۔ اس بات کا اظہار آپ اپنے شعری کلام میں اس طرح فرماتے ہیں:
انا الجيلی محی الدين اسمی
واعلامی علی راس الجبال
انا الحسنی والمخدع مقامی
واقدامی علی عنق الرجال
وعبدالقادر المشهور اسمی
وجدی صاحب العين الکمال
’’میں جیلانی ہوں اور محی الدین میرا نام (لقب) ہے اور میری عظمتوں (اور رفعتوں) کے جھنڈے پہاڑوں کی چوٹیوں پر لہرارہے ہیں۔ میں (نسب میں) حسنی ہوں اور میرا خاص مقام ہے اور میرے قدم اللہ کے ولیوں کی گردنوں پر ہیں اور میرا نام (نامی مبارک) عبدالقادر ہے اور میرے نانا (یعنی آقا علیہ السلام) کمالات کے چشموں کے مالک و سردار ہیں‘‘۔
حیات و سیرت پر ایک نظر
حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ حاضر دماغ، شرعی اصولوں کی تکریم کرنے والے، شریعت و دین کی دعوت دینے والے اور شرعی احکامات کی مخالفت سے نفرت کرنے والے تھے۔ آپ نے اپنی سیرت و کردار کے ذریعے لوگوں کو شریعت، عبادت، مجاہدہ کے ذریعے عمل کی طرف راغب فرمایا۔ آپ کے بارے میں عمر بن مسعود بزار نے ذکر کیا ہے کہ
’’میری آنکھوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی سے بڑھ کر علوم حقائق کا کسی کو غواص اور عالم نہیں دیکھا۔ آپ نے ہر اس شخص کا رد کیا جس نے مذہب سلف کی مخالفت کی کیونکہ آپ کتاب، سنت اور سلف صالحین کے طریقے کو سختی کے ساتھ تھامنے والے تھے‘‘۔
علوم شریعت کے زیور سے آراستہ ہونے کے بعد حضور غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ لطائف باطنیہ تک پہنچے تو آپ نے تمام مخلوق کو چھوڑ کر حق کی طرف ہجرت کی۔ آپ نے اپنے خالق حقیقی کی طرف سفر کے لئے حق و معرفت پر مبنی زاد سفر تیار کیا۔ آپ پر کائنات کے چھپے راز آشکار ہوگئے۔ آپ کی مجالس اس قدر بابرکت ہوتیں کہ تجلیات الہٰیہ کے ظہو رکا اکثر و بیشتر نظارہ ہوتا۔ آپ اپنے خطبات کو قرآنی نص کی روشنی میں بیان کرتے اور مخلوق کو خدا تعالیٰ کی طرف بلاتے۔
سلسلہ قادریہ کا فروغ
سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ان اکابر علماء اور صوفیاء میں سے تھے جن کی شہرت زمین کے کونے کونے تک پہنچی۔ مشرق، مغرب کے مسلمان آپ کے معتقد ہوگئے۔ آپ نے سلسلہ قادریہ کی بنیاد رکھی۔ یہ سلسلہ طریقت دنیا میں سب سے زیادہ پھیلنے والا ہے اور سب سے بڑھ کر مریدوں کی تعداد اسی سلسلے کی ہے۔ مقام و مرتبہ اور شہرت کے حوالے سے اس سلسلے کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کے اس سلسلہ طریقت کے فروغ میں آپ کی محبت، حکمت وبصیرت، مخلوقِ خدا کی بھلائی اور اصلاحِ معاشرہ کے لئے اقدامات نے کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ نے لوگوں کے دلوں میں اپنی محبت کے لئے تلوار استعمال نہیں کی۔ آپ بغداد سے حج کا فریضہ ادا کرنے کے علاوہ کبھی باہر نہ گئے لیکن اس کے باوجود اتنے زمانے گزر جانے کے بعد بھی آپ کے مرید اور چاہنے والے ہندوستان، افغانستان، پاکستان، بلاد مغرب، چین، ترکی، عراق، شام، مصر، فلسطین اور اس کے گردونواح حتی کہ اطراف و اکناف عالم میں موجود ہیں۔ مختلف اقوام اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ جن کے درمیان طویل مسافتیں اور بہت زیادہ فاصلے موجود ہیں لیکن ان تمام کے دل میں شیخ عبدالقادر جیلانی کی خالص محبت ایک امر مشترک ہے۔ جس دل میں یہ محبت بس گئی اس نے آگے کئی دلوں کو اس محبت سے سرشار کردیا۔
آسمانوں پر شہرت
حضور شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز عظیم روحانی و علمی مقام و مرتبہ کے حامل تھے یہاں تک کہ آپ کو ملاء اعلیٰ میں باز اشھب کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ حتی کہ آپ نے بھی اس شان کی تصریح یوں فرمائی:
انا البازی اشهب کل شيخ
فمن ذا فی الرجال اعطی مثالی
’’میں باز اشھب ہوں اور ہر ولی پر غالب ہوں۔ پس وہ کون ہے جس کو میرے رتبے و مقام جیسا رتبہ دیا گیا ہے (یعنی حضور غوث اعظم جیسا رتبہ اولیاء صالحین میں سے کسی کو نہیں دیا گیا)‘‘۔
حضرت ابوسلیمان المنجی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت شیخ عقیل کی بارگاہ اقدس میں حاضر تھا کہ آپ سے سوال کیا گیا کہ اس وقت شہر بغداد میں ایک عبدالقادر نامی صالح نوجوان بڑی شہرت پارہا ہے۔ آپ نے فرمایا:
’’اس صالح نوجوان کی شہرت آسمان میں اس سے کہیں زیادہ ہے اور ملاء اعلیٰ میں یہ نوجوان ’’باز اشھب‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے اور عنقریب ایک وقت آئے گا کہ امر ولایت انہی کی طرف منتہی ہوجائے گی اور انہی سے آگے صاد رہوگی‘‘۔
نبوی مشن کا احیاء
انسانی و بشری معاشرہ اپنی بقاء اور امن و استقرار کے لئے بہت ساری اہم اور بنیادی چیزوں کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر یہ معدوم ہوجائیں تو معاشرہ نامکمل، ناقص اور ادھورا رہ جاتا ہے، قدریں ختم ہوجاتی ہیں، اخلاق اور اچھی روایات مٹ جاتی ہیں اور وہ انسانوں کا گروہ یا مجموعہ تو نظر آتا ہے لیکن روح پرواز کرچکی ہوتی ہے۔ آپ ایسے معاشرے کو نہ ایک اچھا اور مثالی معاشرہ کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی نمونہ اخلاق کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔
اگر تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ مصلح کامل آقائے دو جہاں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو بہت بڑا کارنامہ انجام دیا وہ یہ ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب معاشرے کی غلط روایات کو توڑا اور قدیم فکری و علمی بے راہ روی کو ختم کرتے ہوئے انسانیت کے حقوق کی بازیابی کی جنگ لڑی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک طرف فسادات کا قلع قمع کرتے ہوئے بے انصافی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور دوسری طرف اخلاقی گراوٹ کو اخلاق حسنہ کی ضیا بخشی اور لوگوں کو اللہ کی توحید و وحدانیت کے طرف لائے۔
آقائے دو جہاں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم اور مثالی معاشرے کا قیام عمل میں لائے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تاریخ اسلام کی اگلی چار صدیاں اضطرابات و سانحات سے گزریں۔ حضور غوث اعظم قدس سرہ العزیز نے اس عظیم نبوی مشن کو جہاں تقویت بخشی وہاں اس کا اپنے زمانہ میں احیاء بھی فرمایا۔ قابل غور بات ہے کہ مرور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں مختلف اعلیٰ و اخلاقی قدریں زوال کا شکار ہوتی ہیں۔ برائیاں اور خرابیاں مختلف سطحوں پر جنم لیتی ہیں۔ عدل و انصاف مفقود ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ہوس و مادیت عام ہوجاتی ہے اور لوگوں کا مطمع نظر نفسانی شہوات کے اردگرد گھومتا ہے۔ یہ ہی حال پانچویں صدی ہجری کے آخر اور چھٹی صدی ہجری کے اوائل میں تھا۔ اسی ابتری و بدحالی کی وجہ سے کئی فتنے رونما ہوچکے تھے۔ جس میں فتنہ اعتزال عباسی خلیفہ واثق باللہ اور فتنہ خلق قرآن خلیفہ مامون کے دور میں بطور آزمائش آچکا تھا۔
لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز نے ان تمام ابتریوں اور زبوں حالی کی کیفیات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور معاشرہ کی اصلاح میں بنیادی حیثیت کے حامل ’’تزکیہ نفس‘‘ کو فروغ دیا۔ آپ کی ذات مبارکہ کے فیوضات و تعلیمات کی روشنی میں نہ صرف تصوف کو عرب و عجم میں بے مثال تقویت و وسعت ملی بلکہ اصلاح معاشرہ و انسانیت کے دائرہ نفوذ کو ایسی فقیدالمثال توسیع دی کہ تاریخ بھی ان کے کارناموں پر فخر کرتی ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض و انوار کی وجہ سے ایسے نفوس قدسیہ اور سرخیل میدان عمل آئے جنہوں نے آپ کی تعلیمات کی روشنی میں اصلاح معاشرہ کو اپنا مطمع نظر بنایا۔
خدمتِ انسانیت
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز نے خدمت انسانی کو اپنا اوڑھنا بچھونا رکھا اور معاشرہ کے ہر فرد کو دنیوی، اخروی، مالی و مادی، روحانی و باطنی الغرض ہر قسم کے نقصان سے بچانے کی ہمیشہ کاوش کی۔ آپ کی تعلیمات ہمیشہ خیر خواہی پر مبنی تھیں۔ آپ نے ہمیشہ ہر سطح پر معاشرہ کو مضبوط کرنے والے امور کی تعلیمات دیں اور اسے کمزور کرنے والے اسباب کا صفایا کیا۔
حضور غوث اعظم قدس سرہ العزیز نے پڑوسیوں اور ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھنے اور دوسری کے ساتھ خیر خواہی سے پیش آنے کی تعلیم دی۔ آپ اپنی کتاب الفتح الربانی میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’اے لوگو! افسوس ہے کہ تم سیر ہوکر کھاتے ہو اور تمہارے پڑوسی بھوکے ہیں، پھر تم دعویٰ کرتے ہو کہ ہم مومن ہیں۔ تمہارا ایمان درست نہیں ہے‘‘۔
گویا آپ نے کامل اور درست ایمان کی علامت بیان فرمائی کہ معاشرہ کے غریب، فقراء اور محتاج لوگوں کا خیال رکھنا ایمان ہے۔ دوسروں کی خاطر مال اور اپنا وقت خرچ کرنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔
تعلیماتِ غوث الاعظم رضی اللہ عنہ
آپ اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں کہ اے بیٹے میں تمہیں یہ وصیت بھی کرتا ہوں کہ
- اغنیاء کے ساتھ تم بھی بطور ایک غنی اور پروقار بن کر رہنا جبکہ فقراء کے ساتھ عاجزی اور تواضع سے رہنا۔
- ہر عمل میں اخلاص کو مضبوطی سے تھامنا اور وہ یہ ہے کہ ریاکاری کو بھلا دینا۔ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی رویت اور اس کی رضا کے لئے عمل کرنا۔
- اسباب کے حوالے سے کبھی خدا تعالیٰ کی ذات میں شک و شبہ نہ کرنا بلکہ ہر معاملہ میں خدا تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم رہو۔
- اپنی حاجتوں کو کسی شخص کے سامنے نہ رکھنا، چاہے اس کے اور تمہارے بیچ محبت، مودت اور قرابت دوستی کا تعلق ہی کیوں نہ ہو۔
- فقراء کی خدمت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ فقراء کے معاملہ میں تین چیزوں کی پابندی لازمی ہے: تواضع انکساری، حسن آداب، سخاوت نفس۔
- اپنے نفس کی ریاضت میں دوام پیدا کر حتی کہ وہ زندہ ہوجائے۔
- مخلوق میں سے خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ نزدیک وہ شخص ہے جو اخلاق میں سب سے زیادہ عمدہ اخلاق کا مالک ہے۔
- تمام اعمال میں سب سے زیادہ افضل عمل ایسی چیز میں التفات سے بچنا ہے جو خدا تعالیٰ کو اذیت دے یعنی اس کی ناراضگی کا سبب بنے۔
- جب فقراء کو خواہشات آلیں تو تم ان سے کنارہ کشی کرنا کیونکہ حقیقی فقیر خدا تعالیٰ کی ذات کے سواء ہر چیز سے مستغنی ہوتا ہے۔
تقویٰ کیا ہے؟
آپ سے تقویٰ سے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا تقویٰ کی مختلف اقسام ہیں:
- تقویٰ عام
- تقویٰ خاص
- تقویٰ خاص الخاص
- تقویٰ عامہ سے مراد مخلوق کے ذریعے جو شرک ہوتا ہے اس کو ترک کرنا ہے۔
- تقویٰ خاص سے مراد خواہشاتِ نفسانی اور گناہوں کو ترک کرنا ہے یعنی تمام تر احوال میں نفس کی مخالفت کرنا ہے۔
- خاص الخاص کے تقویٰ سے مراد اشیاء کی چاہت کو ترک کرنا، نوافل عبادت کی پابندی اور تمام تر احکامات میں احکام فرائض کا اہتمام کرنا ہے۔
پھر فرمایا: تقویٰ کا پہلا راستہ اور اس کی ابتداء بندوں کے حقوق کو ظلماً کھانے سے خود کو خلاصی دلانا ہے یعنی لوگوں کے حقوق میں ظلم نہ کیا جائے۔ پھر صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے خلاصی ہے۔ پھر قلبی ذنوب اور خطاؤں سے خلاصی ہے جو کہ تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ قلبی ذنوب و خطاؤں سے مراد نفاق، ریائ، غرور، تکبر، حرص، لالچ، جاہ منصب اور سلطنت کی طلب اور دوسروں پر فوقیت حاصل کرنے کی خواہش ہے۔ یہ تمام تر گناہ دل سے پید اہوتے ہیں اور اعضاء سے سرزد ہوتے ہیں۔
تعلیم و تدریس
حضور غوث اعظم قدس سرہ العزیز نے تعلیم و تدریس میں بڑی جانفشانی کے ساتھ زندگی گزاری چونکہ علم و تعلیم انسانی معاشرہ کی بقاء اور استقرار کا بنیادی پہلو ہے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ علم معاشرے کی صحت مندی اور تندرستی کی اہم اور ضروری غذا ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے تعلیمی سلسلہ کے ذریعہ سے افراد سازی کا فریضہ انجام دیا کیونکہ اچھے اور قابل افراد کی تیاری اچھے معاشرے کے قیام پر منتج ہوتی ہے۔ چھٹی صدی ہجری اس بات کی متقاضی تھی کہ باصلاحیت اور صاحبان استعداد افراد منظر عام پر آئیں جو بدامنی اور انحرافی تحریکوں کا خاتمہ کریں۔ اس بارے میں آپ کی کاوشوں کو بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کی علمی نشست میں ستر ہزار افراد تک شریک ہوتے۔ جن میں سے چار سو علماء کرام قلم دوات لے کر حاضر ہوتے تھے جو آپ کے ارشادات کو قلمبند کیا کرتے تھے۔ آپ سے بہت سے لوگوں نے علم حاصل کیا حتی کہ آپ کے شاگردوں میں سے بہت سے ثقہ علماء کے طبقات تھے۔ آپ کی تربیت اور اصلاح سے نامور علماء ربانی تیار ہوئے۔
نظرِ کیمیاء
کفرو شرک کی بہیمی صفات بھی انسانی معاشرے میں طرح طرح کی پریشانیوں اور خرابیوں کا باعث بنتی ہیں۔ حضور غوث اعظم قدس سرہ العزیز کو وہ کمال لازوال حاصل ہے کہ آپ کے دست اقدس پر پانچ ہزار سے زائد یہودو نصاری نے شرف اسلام حاصل کیا ہے۔
ڈاکہ زنی، لوٹ مار اور قزاقی وہ اعمال قبیحہ ہیں جن سے افراد معاشرہ کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور بدامنی جنم لیتی ہے۔ آپ کی نظر کو وہ کمال حاصل تھا کہ جس پر پڑتی اس کی کیفیت بدل دیتی اور جس شخص پر آپ نگاہِ جمال آفریں سے توجہ فرماتے، وہ چاہے جتنا ہی کرخت مزاج اور سنگدل کیوں نہ ہوں، مطیع اور غلام بن جاتا۔ آپ کی نگاہ پُر نور نے معاشرے میں بداعمالی اور بدکاری کرنے والے افراد کی اصلاح فرمائی۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے ہاتھ پر ایک لاکھ سے زائد ڈاکوؤں، قزاقوں، فساد انگیزوں اور بدعتی لوگوں نے توبہ کی۔
آپ نے لوگوں کے تزکیہ نفس کا اس قدر اہتمام فرمایا کہ لوگ خود آکر آپ کے ہاتھ پر گناہوں سے توبہ کرلیتے تھے۔ حضرت شیخ عمر الکمائی فرماتے ہیں کہ آپ کی کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی جس میں یہود و نصاری اسلام قبول نہ کرتے یافسادی، قاتل، ڈاکو اور بدعقیدہ لوگ آپ کے دست مبارک پر توبہ نہ کرتے ہوں۔
قدیم زمانے سے ہی انسانیت اہل تقویٰ کی طرف مائل ہوئیں یعنی لوگوں نے ان اولیاء کرام کے زہد، ورع تقویٰ طہارت کے اعتماد پر اپنے اعتقادات بنائے، ان کے دینی اعمال کو اپنا شعار بنایا۔ لوگوں نے ان کے راستوں کو کامیابی، کامرانی کے لئے اپنا منہج بنالیا اور یہی ان روحانی شخصیات کا مقصد ہے کہ انسانیت کو سیدھے راستے پر چلا کر ان کو خدا تعالیٰ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کامیاب کرایا جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دلِ خاشع سے دعا ہے کہ ہمیں حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کے فیوضات و برکات سے نوازے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم