اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ کریم نے اپنے شاہکار تخلیق، اپنے آخری نبی اور اپنے حبیب علیہ السلام کو تمام انسانوں کے لئے ہر پہلو، ہر زاویے، ہر جہت، ہر اعتبار، ہر لحاظ اور ہر حوالے سے ایک کامل، مثالی اور منفرد نمونہ بنانے کے لئے جہاں بے شمار خاندانی نسبی، جسمانی، روحانی، ظاہری، باطنی، علمی، اخلاقی اور صوری و معنوی کمالات عنایت فرمائے وہاں اس نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عام لوگوں کے برعکس کھانے پینے اور بھوک و پیاس کے معاملات میں بھی بچپن سے غیر معمولی اور مافوق العادت صبرو قناعت، قوت برداشت، دنیا سے بے رغبتی، سیر چشمی اور غنائے نفس کی دولت سے مالا مال فرمایا تھا۔ چنانچہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صابرو قانع طبیعت کے متعلق آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بچپن کی دایہ اور گھریلو باندی و خادمہ سیدہ ام ایمن ’’برکۃ‘‘ (جو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے والد گرامی کے ترکہ میں ملی تھیں اور جنہیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم از راہ احترام ’’امی بعد امی‘‘ (میری ماں کے بعد دوسری ماں فرمایا کرتے تھے۔) آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک بڑی ایمان افروز عادت کریمہ بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
مارايت النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم شکا صغيرا ولا کبيرا جوعا ولا عطشا کان يغدو فيشرب من زمزم فاعرض عليه الغداء فيقول لا اريده انا شبعان.
’’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچپن میں یا بڑے ہوکر کبھی بھوک اور پیاس کی شکایت کی ہو۔ بسا اوقات یوں ہو تاکہ صبح کے وقت آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم آب زم زم نوش فرمالیتے جب کھانا پیش کیا جاتا تو فرماتے میں پہلے ہی سیر ہوں۔ اب کھانے کی حاجت نہیں‘‘۔
(ابن سعد، الطبقات الکبری، ذکر علامات النبوة فی رسول الله قبل ان يوحی اليه، 1: 168)
کھانے پینے میں صبرو قناعت اور برداشت کے اس معمول کے متعلق ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ عینی گواہی بھی ملاحظہ کیجئے، آپ فرماتی ہیں کہ:
کان رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم اذا دخل علی قال هل عندکم طعام؟ فاذا قلنا لا، قال انی صائم
’’جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لاتے تو پوچھتے کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ اس کے جواب میں اگر ہم یہ عرض کرتے کہ کوئی شے نہیں، تو فرماتے: پھر میں روزہ دار ہوں (روزے کی نیت کرتا ہوں)‘‘۔
(سنن ابی داؤد، باب النية فی الصيام، 2: 329)
قاضی عیاض نے (الشفاء 1:85) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس روایت کو بیان کیا ہے کہ:
’’جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہل خانہ میں تشریف فرما ہوتے تو بسا اوقات کھانے پینے کے متعلق کچھ پوچھتے ہی نہیں تھے۔ اگر گھر والوں نے کوئی چیز کھانے پینے کو دے دی تو چپ کرکے کھا پی لی (ورنہ کوئی لمبا چوڑا تقاضا نہیں ہوتا تھا)‘‘۔
یہ تو بھوک پیاس اور کھانے پینے کے معاملے میں آپ کی انتہائی قوت برداشت اور صبرو قناعت کی ایک ہلکی سی جھلک تھی۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا کہ جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی پر ملکوتی و نورانی صفات کا غلبہ ہوتا اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم قرب الہٰی و فنا فی اللہ کی انتہائی منازل پر فائز ہوتے تو ظاہری طور پر کھانے پینے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی۔ چنانچہ صحیح بخاری اور دیگر کتب صحاح میں یہ روایت موجودہ ہے کہ ایک موقعہ پر نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال کے روزے (مسلسل روزے جن کے درمیان کھانا پینا نہیں ہوتا) رکھنے شروع کئے تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں اتباع نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے اور عملی طور پر دلدادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی وصال کے روزے رکھنے شروع کردیئے۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے غلاموں کی اس اقتداء اور روش کا پتہ چلا تو از راہ شفقت و رحمت اور از راہ تخفیف و سہولت ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ اس پر عاشقان رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کیا کہ آخر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو صوم وصال رکھ رہے ہیں؟ (پھر ہم اس سنت سے کیوں محروم رہیں) اس کے جواب میں اللہ کے رؤف رحیم نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
انی لست مثلکم انی ابيت يطعمنی ربی ويسقينی
’’میں تمہاری مانند نہیں ہوں۔ میرا حال تو یہ ہے کہ میں رات اپنے پروردگار کے پاس گزارتا ہوں۔ وہ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘۔
(صحيح بخاری، باب مايکره من التعمق والتنازع فی العلم و الغلو فی الدين والبدع، 6: 6869)
کھانے پینے کے بشری تقاضے
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانے پینے کی اور دیگر انسانی و معاشی ضروریات سے بالکل مبرا تھے۔ کھانے پینے اور دیگر حوائج ضروریہ کی تکمیل کے لئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعی پر تو قرآن مجید کی نص موجود ہے کہ اہل مکہ نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے جب یہ اعتراض کیا کہ
مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْکُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِی الْاَسْوَاقِ.
’’اس رسول کو کیا ہوا ہے، یہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے‘‘
(الفرقان: 7)
اللہ کریم نے اس فضول اعتراض کا جواب اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ.
’’اور ہم نے آپ سے پہلے رسول نہیں بھیجے مگر (یہ کہ) وہ کھانا (بھی) یقینا کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی (حسبِ ضرورت) چلتے پھرتے تھے ‘‘
(الفرقان: 20)
علاوہ ازیں صحاح ستہ اور اکثر کتب حدیث میں موجود باب کتاب الاطعمۃ اور سیرت و شمائل الرسول کی کتابوں میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرغوب کھانوں اور مشروبات کی فہرست، بشری تقاضے غالب ہونے پر کھانا طلب کرنا اور بھوک محسوس فرمانا اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھوک پیاس اور دیگر بشری تقاضوں سے مبرا نہ تھے۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت اطہار بھی حد درجہ صابر و قانع ہونے کے باوجود آخر انسان تھے۔ دیگر انسانوں کی طرح انہیں بھی کھانے پینے، لباس، علاج معالجہ، روزمرہ کی دیگر ذاتی، معاشی، معاشرتی و سماجی ضروریات اور انسانی خواہشات کو ایک باعزت باوقار مناسب اور معقول انداز میں پورا کرنے کی ضرورت ہوتی تھی۔
اہل و عیال کے ضروری اخراجات اور حوائج ضروریہ کی فراہمی میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے عیال دار لوگوں کے لئے ایک نمونہ بھی چھوڑنا تھا، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کی گزر بسر کس طرح ہوتی تھی اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خانگی ضروریات کی فراہمی و تکمیل کس طرح فرماتے تھے؟ آسان لفظوں میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذریعہ معاش یا ذریعہ آمدن کیا تھا؟ آئندہ سطور میں ہم یہی چیز معلوم کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا مالی ایثار و قربانی
ہمارے گرامی قدر سیرت نگاروں (نوراللہ قبورہم) نے اگرچہ بالعموم اس چیز کو مستقل عنوان کے تحت ذکر نہیں کیا تاہم حدیث کی کتابوں میں متفرق مقامات پر حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ معاش کا سراغ مل جاتا ہے۔ چنانچہ اہل علم کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب جوانی میں قدم رکھا تو ذریعہ معاش کے لئے عام شرفائِ مکہ اور اپنے آباؤ اجداد کے پیشہ تجارت کو اختیار فرمایا۔ اس سلسلے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چچا جان کے ہمراہ شام کا تجارتی سفر اور پھر سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا تجارتی مال لے کر کئی ممالک کا سفر کیا اور اپنی دیانت و امانت اور خداداد ذہانت و فطانت سے دوسرے تاجروں سے کہیں زیادہ نفع کمایا۔ 25 سال کی عمر میں جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے رفیقِ تجارت سے آگے بڑھ کر ان کے رفیقِ حیات بھی بن گئے تو انہوں نے زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہا کا شرف حاصل کرنے کے بعد اپنے خداداد مال، اپنے ایثار، اپنے خلوص ومحبت اور اپنی کمال وفاشعاری کے باعث حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مالی تفکرات سے مستغنی کردیا تھا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اس ذاتی خلوص و محبت وفا شعاری اور مالی ایثار و قربانی کااعتراف خود حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد مقامات پر فرمایا۔
انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہدیے اور تحائف
مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو سات ماہ تک معروف صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو مہمانی کا عظیم شرف بخشا۔ ظاہر ہے اس عرصے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے اور اپنے اہل عیال کے کھانے پینے اور دیگر گھریلو اخراجات کے لئے کسی کام اور محنت کی ضرورت نہ تھی۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی سعادت اور خوش نصیبی تھی کہ دیگر جاں نثار اور وفا شعار انصار کی زبردست خواہش اور حد درجہ تمنا کے باوجود اللہ کریم نے انہیں نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ’’مہمان نوازی‘‘ کے لئے منتخب فرمالیا تھا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر تواضع اور مہمانداری کرکے دنیا و آخرت کی سعادتیں حاصل نہ کرتے۔ وہ اگرچہ کوئی امیر کبیر آدمی نہ تھے جس کی دلیل یہ ہے کہ ایک رات پانی کا گھڑا ٹوٹ گیا تو پانی کے نیچے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمرے میں ٹپکنے کے اندیشے کے باعث انہیں اپنے ہی لحاف کے ذریعے اس پانی کو جذب کرنا پڑا تھا۔ گھر میں اتنا کپڑا (تولیہ وغیرہ) نہ تھا کہ اس سے پانی کو جذب کرسکتے۔
(سهيلی الروض الانف، 2: 239)
اس کے باوجود ام ایوب رضی اللہ عنہ روزانہ بڑی عقیدت اور چاہت سے کھانا تیار کرکے اور پہلے بارگاہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کرتیں اور جو کھانا بچ رہتا، اسے میاں بیوی بطور تبرک بڑے شوق سے کھاتے اور برتن کی اسی جگہ سے کھاتے جہاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک کے نشان لگے ہوتے تھے۔
(ابن اثير الجزری، اسدالغابة، 2: 81)
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ تو مہمان نوازی کے طور پر ’’ماحضر‘‘ بارگاہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کرتے ہی تھے، اس دوران کئی دوسرے انصار صحابہ بھی روزانہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کھانا اور دیگر تحائف پیش کرنے میں حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے پیچھے نہیں تھے۔ چنانچہ سمہودی نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان نقل کیا ہے کہ جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب کے گھر جلوہ افروز ہوگئے تو سب سے پہلا آدمی جو ہدیہ لے کر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہائش گاہ میں داخل ہوا وہ میں تھا۔ گندم کی روٹی سے تیار کی گئی ثرید کا پیالہ کچھ گھی اور دودھ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھتے ہوئے میں نے عرض کیا یارسول اللہ! یہ پیالہ (کھانا) میری والدہ نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر مجھے ’’بارک اللہ فیہا‘‘ کے الفاظ سے برکت کی دعا دی اور اپنے تمام ساتھیوں کو بلالیا اور ان کے ساتھ مل کر تناول فرمایا۔ میں (زید بن ثابت) ابھی دروازے سے نہیں ہٹا تھا کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ (رئیس الانصار) کا غلام ایک ڈھکا ہوا پیالہ سر پر رکھے ہوئے آگیا۔ میں نے ابو ایوب کے دروازے پر کھڑے ہوکر اس پیالہ کا ڈھکنا اٹھا کر دیکھا تو اس میں ثرید تھی جس کے اوپر گوشت کی ہڈیاں نظر آرہی تھیں۔ غلام نے بارگاہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوکر وہ پیالہ پیش کردیا۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں کہ کوئی رات ایسی نہ گزری تھی جس رات ہم بنی مالک بن النجار میں سے تین چار آدمی باری باری حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش نہ کرتے ہوں حتی کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دولت کدہ میں منتقل ہوگئے۔
(سمهودی، وفاء الوفاء، 1: 264)، (ابن کثير، سيرة النبی، ج1، ص480-481)
جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب کے گھر سے اپنے دولت کدہ منتقل ہوگئے تو شروع میں ہمیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی ذریعہ معاش نظر نہیں آتا اور اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ انصار مدینہ خصوصاً پڑوسی انصاریوں نے اپنے خلوص و محبت و عقیدت و ارادت اور جذبہ ایثار کے باعث آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اہل بیت نبوی کے کھانے اور دیگر اخراجات کے سلسلے میں چنداں متفکر نہیں ہونے دیا۔ انصار کی محبت کا یہ عالم تھاکہ ان کے مرد اور عورتیں مختلف ہدایا (کھانے پینے کی چیزیں) بھیج کر رسول مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرب حاصل کرتے اور نظرالتفات چاہتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ام سلیم کے پاس ہدیہ دینے کے لئے کوئی چیز نہ تھی انہوں نے یہ حسرت اپنا بیٹا انس بارگاہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خدمت کے لئے پیش کرکے پوری کی۔
(ايضاً، 1: 193)
آپ کے ننھیالی عزیز اور صاحب حیثیت حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور اسد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی عقیدت کا تو یہ عالم تھا کہ روزانہ بلاناغہ ان کے کھانے کا پیالہ دولت کدہ نبوی میں پہنچتا تھا۔
(ايضاً)
انصار کی اس پرخلوص محبت کی تائید صحیحین اور دیگر کتب حدیث میں موجود ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ:
قد کان لرسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم جيران من الانصار وکانت لهم منائح فکانوا يمنحون رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم من البانهم فيسقينا.
’’رسول مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند پڑوسی انصار میں سے تھے جن کے پاس اونٹنیاں تھیں وہ (از راہ محبت) حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس دودھ بھیجا کرتے تھے تو وہ دودھ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں پلادیتے تھے‘‘۔
(صحيح بخاری، کتاب الهبه وفضلها، 2: 907، الرقم: 2428)
علاوہ ازیں مدینہ منورہ کے انصار صحابہ زراعت کے پیشہ سے منسلک تھے۔ ان میں سے صاحب ثروت حضرات نے اپنے اپنے باغوں میں ایک ایک درخت کو نشان زدہ کردیا تھا کہ اس کا پھل رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہوگا۔ چنانچہ ہر سال کھجور کی فصل کاٹنے پر اس درخت سے جتنی کھجوریں حاصل ہوتیں وہ سب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر پہنچادی جاتیں۔ (ڈاکٹر محمد حمیداللہ، خطبات بہاولپور، خطبہ نظام مالیہ و تقویم، ص275)
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کھجوریں قبول فرماتے رہے مگر جب 3۔4 ھ میں بنو قریظہ اور بنو نضیر کے املاک اور زرعی زمینیں بطور ’’فئے‘‘ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر تصرف آگئیں تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخلصین انصار کے یہ باغات (درخت) ان کو واپس فرمادیئے تھے۔
ذاتی بکریاں و اونٹنیاں
ہاتھ سے کماکر کھانے والے بلکہ دوسروں کو کھلانے والے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کیسے ممکن تھا کہ وہ ان صحابہ رضی اللہ عنہ کے تحائف و ہدایا اور نذرانوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے۔ انصار کے یہ پرخلوص ہدیے اور نذرانے تو محض ان غلاموں و عقیدت مندوں کی تسکین خاطر عزت افزائی اور بلندی درجات کے لئے قبول کئے جاتے تھے۔ بنا بریں بلاذری اور دیگر سیرت نگاروں کے مطابق حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بال بچوں کی غذائی ضروریات کے لئے دودھ دینے والی کچھ بکریاں اور اونٹنیاں ذاتی طور پر خرید لیں تھیں اور کچھ لوگوں نے بطور ہدیہ پیش کی تھیں۔
(البلاذری، انساب الاشراف، 1: 512 تا 514)
ان بکریوں اور اونٹنیوں کے لئے شہر مدینہ کے مضافات میں ایک چراگاہ معین کی گئی جہاں ایک صحابی رضاکارانہ طور پر ان جانوروں کی نگہداشت کرتے، انہیں چرانے کا فریضہ انجام دیتے اور روزانہ دودھ اس مقام سے مدینہ منورہ لاکر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں پہنچایا کرتے تھے۔ اہل خاندان اس دودھ کو استعمال کرتے تھے۔
(محمد حميدالله، خطبات بهاولپور، خطبه نظام ماليه و تقويم، ص276)
مال غنیمت میں حصہ
2ھ رمضان المبارک میں غزوہ بدر پیش آیا اور اس کے بعد بوجوہ غزوات کا ایک مستقل سلسلہ چل نکلا۔ دشمنان اسلام پر فتح کے نتیجہ میں ان کی املاک اور سازو سامان غنیمت کے طور پر ہاتھ لگتا۔ اللہ کریم نے سابق انبیاء کرام اور ان کی امتوں کے برعکس اس مال غنیمت کو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بطور خاص حلال قرار دیا۔ ارشاد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
احلت لی الغنائم
’’میرے لئے غنیمتیں حلال کردی گئیں‘‘۔
(مشکوٰة، ص512)
ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
فلم تحل الغنائم لاحدمن قبلنا ذلک بان الله رای ضعفنا وعجزنا فطيبهالنا.
’’ہم سے قبل کسی کے لئے یہ غنیمتیں حلال نہ تھیں۔ بایں وجہ کہ اللہ نے ہماری کمزوری اور عجز کو دیکھا تو غنیمت کو ہمارے لئے حلال کردیا‘‘۔
(مسلم، باب تحليل الغنائم لهذه الامة خاصه، 3: 1366، الرقم: 1747)
چنانچہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے لئے یہ ایک آمدن کا ذریعہ بن گیا۔ قرآنی ہدایات کے مطابق جو کچھ مال غنیمت حاصل ہوتا اس کا 5/1 حصہ (خمس) نائب الہٰی سربراہ مملکت اور رسول خدا ہونے کی حیثیت سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (سرکاری) تحویل میں آتا اور باقی 5/4 حصہ (منقولہ) مجاہدین اور غازیوں میں تقسیم کردیا جاتا۔ کل مال غنیمت کا 5/1 حصہ میں اللہ کریم نے پانچواں حصہ یعنی کل کا 25/1 نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مختص فرمادیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْئٍ فَاَنَّ ِﷲِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْيَتٰمٰی وَالْمَسٰکِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ.
’’اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لیے اور (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں کے لیے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لیے ہے‘‘۔
(الانفال: 41)
تمام غزوات میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف شریک ہوتے بلکہ امیر لشکر بھی ہوتے تھے۔ اس لئے مال غنیمت کا 5/4 حصہ جو مجاہدوں اور غازیوں میں پیدل اور سوار میں تھوڑے سے فرق (پیدل کے لئے ایک اور سوار کے لئے دو حصے) کے ساتھ تقسیم کیا جاتا تھا۔ اس میں دیگر مجاہدین کے ساتھ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی برابر کا حصہ ملتا۔ یوں مال غنیمت سے ملنے والا حصہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمدن کا ایک معقول ذریعہ بن گیا۔ کیونکہ بعض غزوات میں کثیر مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا مثلاً صرف ہوازن سے جو مال غنیمت حاصل ہوا اس میں واقدی اور ماوردی کی صراحت کے مطابق چھ ہزار غلام و باندیاں، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی تھی۔
(واقدی، کتاب المغازی، 3: 943)
صحابہ کا باغات وقف کرنا
3ھ میں جب غزوہ احد پیش آیا تو اس میں اگرچہ مسلمانوں کو کوئی مال غنیمت نہیں ملا تھا تاہم اللہ کریم نے اپنے وعدہ
وَمَنْ يَّتَّقِ ﷲَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاo وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ.
’’اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہےo اور اسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرماتا ہے ۔ جس کا وہ گمان بھی نہیں کرسکتا‘‘۔
(الطلاق، 3: 2)
کی ایک جھلک دکھاتے ہوئے اس موقعہ پر اپنے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک ایسی جگہ سے رزق بہم پہنچایا۔ جس کا بظاہر دور دور تک کوئی امکان اور گمان تک نہ تھا۔ چنانچہ مورخین کا بیان ہے کہ مخیریق نامی یہودی بنو نضیر میں ایک معتبر عالم تھا۔ اس کے پاس سات زمینیں یا سات باغات تھے۔ غزوہ احد کے دن آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ میں شریک ہوئے اور وصیت کی کہ اگر میں شہید ہوجاؤں تو میرے ساتوں باغات (بمع زمین) رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہوں گے۔ چنانچہ وہ شہید ہوگئے تو ان کے سارے باغات حسب وصیت حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت میں آگئے۔
(الماوردی، احکام السلطانية، ص272)
ظاہر ہے ان باغات کی آمدنی اب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتی آمدنی بن گئی تھی۔ اس کے بعد قرین قیاس یہی ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کوئی مالی دشواری نہیں رہی ہوگی۔ ان باغات کے متعلق ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طبعی فیاضی، جودو سخا اور رحمۃ للعالمینی کے باعث یہ باغات مہاجرین، غرباء و مساکین کے لئے وقف کردیئے تھے۔
اموال و املاک فئے
مال غنیمت میں حصہ اور حضرت مخیریق رضی اللہ عنہ کے مذکورہ سات باغات کے علاوہ ایک اور بہت بڑا ذریعہ آمدن یا ذریعہ معاش جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے پیدا فرمایا وہ مال فئی تھا۔ یہ وہ املاک و اموال تھے جن کے لئے مجاہدین اسلام کو کوئی جنگ اور لشکر کشی نہیں کرنی پڑی بلکہ اہل حرب (یہود وغیرہ) کے ساتھ معاہدہ صلح کے بدلے میں یہ مال حاصل ہوئے تھے۔ یہ مال فے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مختص تھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے چاہتے اس میں تصرف فرماتے۔ اپنے لئے خاص کرلیتے یا جن صحابہ میں چاہتے تقسیم فرمادیتے۔ مال غنیمت کے برعکس کل مال فے کو اللہ تعالیٰ نے رسول مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مخصوص کرتے ہوئے فرمایا:
مَآ اَفَآء اﷲُ عَلٰی رَسُوْلِهِ مِنْ هْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْيَتٰمٰی وَالْمَسٰکِيْنِ.
’’جو (اَموالِ فَے) اللہ نے (قُرَیظہ، نَضِیر، فِدَک، خَیبر، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ) بستیوں والوں سے (نکال کر) اپنے رسول( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لیے ہیں اور (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنو عبدالمطّلب) کے لیے اور (معاشرے کے عام) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لیے ہیں ‘‘۔
(الحشر: 7)
اس سلسلے میں سب سے پہلا مال فئے جو 3ھ یا 4ھ میں ہاتھ آیا وہ مدینہ منورہ کے نواح میں رہنے والے یہودیوں کے مشہور قبیلہ بنو نضیر کے اموال تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک معاہدے کے مطابق یہ لوگ اپنے ہتھیاروں کے علاہ جتنا منقولہ سامان لے جاسکتے تھے، اٹھا کر جلاوطن ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں ان کے کھجوروں کے نخلستان حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر تصرف آگئے۔
لہذا یہ اموال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی ملکیت تھے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اموال (نخلستان) کی آمدن سے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے سال بھر کا نفقہ لے لیتے اور باقی ماندہ آمدنی جہاد فی سبیل اللہ اور فقراء مہاجرین میں خرچ فرماتے تھے۔
سنن ابی داؤد میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے کہ
کانت لرسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم ثلث صفايا بنو النضير وخيبر وفدک فاما بنوالنضير فکانت حبسا لنوائبه واما فدک فکانت حبسا لا بناء السبيل واما خيبر فجزء ها رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم ثلاثه اجزاء جزئين بين المسلمين وجزء نفقة لاهله فما فضل عن نفقة اهله جعله بين فقراء المهاجرين.
’’بنو نضیر، خیبر اور فدک کے تینوں اموال (باغات وغیرہ) رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مخصوص (چن لئے گئے) تھے۔ چنانچہ بنو نضیر کے اموال سے آمدنی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذاتی حوائج و حوادث (ناگہانی ضروریات) کے لئے اور فدک سے آمدنی مسافروں کے لئے مختص تھی جبکہ خیبر سے آمدنی کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین حصوں میں تقسیم کردیا تھا (کیونکہ خیبر کے بعض قلعے بزور شمشیر فتح ہوئے تھے اور بعض معاہدہ صلح کے نتیجہ میں) دو حصے مسلمانوں میں تقسیم فرمادیئے اور ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے نان نفقہ کے لئے رکھ لیا۔ پھر اپنے اہل خانہ کے نفقہ سے جو بچ رہتا اسے بھی فقراء مہاجرین میں تقسیم کردیتے۔
(سنن ابی داؤد، باب صفايا النبی من الاموال، 3: 141، الرقم: 2967)
ابن سعد نے متعدد ازواج مطہرات کے تذکرے میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ انہیں خیبر کی آمدنی سے سالانہ (80) وسق (405 من) کھجور اور (20) وسق (101 من 10 سیر) جو سالانہ عنایت فرماتے تھے۔ (ابن سعد ، طبقات الکبریٰ، 8:80، 95، 100، 107، 119، 127، 140)
درج بالا یہی وہ اموال فئے تھے جن کو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لخت جگر سیدہ فاطمۃ الزہراء نے غلط فہمی میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بطور میراث لینے کا مطالبہ کیا تھا مگر خلیفہ اول کی زبانی جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ترکہ میں فرمان نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق میراث جاری نہ ہوسکنے کی حقیقت معلوم ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہا خاموش ہوگئیں۔ بخاری شریف میں ہے کہ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان اموال میں میراث کا مطالبہ کیا تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ
لا نورث ماترکنا فهو صدقة انما ياکل آل محمد من هذالمال.
’’ہم انبیاء کی مالی وراثت نہیں چلتی، ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ (وقف) ہوتا ہے۔ البتہ آل محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مال یعنی اللہ کے مال سے کھاتے رہیں گے‘‘۔
ان کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ کھانے پینے کی ضروریات سے زیادہ کا مطالبہ کریں۔ قسم بخدا نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقات کا استعمال جس طرح آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ہوتا تھا اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کروں گا۔ میں ان کے بارے میں ہر قیمت پر وہی کروں گا جو رسول مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے تھے۔ اس موقعہ پر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا:
والذی نفسی بيده لقرابة رسول الله احب الی ان اصل من قرابتی.
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابتداروں سے صلہ رحمی کرنا مجھے اپنے اقرباء کی صلہ رحمی سے زیادہ عزیز ہے‘‘۔ (مطلب یہ ہے کہ آپ کے مالی حقوق تو ادا کئے جاتے رہیں گے مگر ان اموال میں میراث جاری نہ ہوگی)۔
(صحيح بخاری، کتاب المناقب، باب مناقب قرابة رسول الله، 3: 1260، الرقم: 3508)
بادشاہوں اور وفود کے ہدیے
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معاش، گزر بسر اور آمدن کا ایک ذریعہ صحابہ کے ہدایا کے علاوہ مختلف ممالک کے بادشاہوں اور فرمانرواؤں کے تحائف اور ہدیے بھی تھے۔ جن کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی عزت افزائی اور تالیف قلبی کے لئے قبول فرمالیتے تھے۔ مثلاً مقوقس ملک القبط نے ایک دفعہ دو لونڈیاں، ایک جوڑا کپڑے اور ایک سفید خوبصورت خچر بھیجا جس کا نام دلدل تھا۔۔۔ فروہ بن عمر جذامی (عامل قیصر) نے ایک عمدہ خچر، گھوڑے، کپڑے اور سندس کی قبا بھیجی۔۔۔ اسی طرح اکیدر دومۃ الجندل نے قیمتی ہدیے بھیجے۔ بادشاہوں کے علاوہ مختلف وفود جو ہدایا لاتے تھے وہ اس کے علاوہ تھے۔
(نسيم الرياض، شرح الشفاء، 1: 471)
درج بالا ظاہری و حسی ذرائع معاش اور خاطر خواہ ذرائع آمدن موجود ہونے، قد اعطیت مفاتیح خزائن الارض باطنی طور پر زمین کے خزانوں کی کنجیاں ہاتھ میں ہونے اور دس لاکھ مربع میل کا حکمران ہونے کے باوجود اگر شہنشاہ دوسرا تاجدار مدینہ، نبی کریم رؤف رحیم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکے گھروں میں بقول ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دو دو مہینے آگ نہیں جلا کرتی تھی تو ظاہر ہے اس کا باعث معاشی و مالی مجبوری نہ تھی بلکہ
- اس کی ایک وجہ تو امت کے صاحب ثروت و دولت لوگوں کے لئے صبرو قناعت اور زہد و فقر کا عملی نمونہ پیش کرنا تھا۔
- دوسرا اس اختیاری زہد و فقر سے غرباء و مساکین امت کے لئے ڈھارس و حوصلہ کا سامان مہیا کرنا تھا۔
- تیسرے اپنی طبعی رحمت و شفقت اور جبلی فیاضی و کریمی کے باعث اپنا سب کچھ خلق خدا پر خرچ کردینا تھا۔
جس کی ایمان افروز ترجمانی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں کی ہے:
میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگ
دریا بہادیئے ہیں در بے بہادیئے ہیں