ایک مکتبہ فقہ کی تقلید کیوں ضروری ہے؟
جواب: اس کے لیے اللہ کے حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل کی اتباع کو معیار قرار دیا گیا ہے۔ حلال و حرام، جائز و ناجائز اور اوامر و نواہی کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت لازمی ہے۔
قرآن و سنت میں دوطرح کے احکام ہیں:
بعض احکام محکم اور واضح ہیں جن میں اِجمال، اشتباہ، اِبہام یا تعارض نہیں، انھیں پڑھنے والا ہر شخص بغیر کسی اُلجھن کے اُن کا مطلب آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ جیسے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی فرضیت، زنا، شراب نوشی، چوری، فساد فی الارض اور قتل وغیرہ کی حرمت ہے۔
اس کے برعکس قرآن و سنت کے بہت سے احکام ایسے بھی ہیں جن میں بادی النظر میں اِبہام پایا جاتا ہے۔ جیسے عبادات اور معاملات وغیرہ کے فروعی مسائل۔ قرآن و سنت سے ان احکام کے مستنبط اور اخذ کرنے کی دو صورتیں ہیں:
- ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم اپنی فہم و بصیرت پر اعتماد کر کے اس قسم کے معاملات میں خود کوئی فیصلہ کر لیں اور اس پر عمل کریں۔
- دوسری صورت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات میں از خود کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے قرونِ اولیٰ کے جلیل القدر اسلاف کی فہم و بصیرت پر اعتماد کریں اور انہوں نے جو کچھ سمجھا ہے، اس کے مطابق عمل کریں۔
چونکہ عام مسلمان قرآن و حدیث سے احکامِ شرع کے قواعد و ضوابط کو سمجھ کر مسائل اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لئے جمہور اہلِ سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ شرعی احکام و مسائل کے حل کے لیے ائمہ اربعہ (امامِ اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم) میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے۔ کیونکہ مذکورہ ائمہ اپنے تقویٰ، زہد و ورع، ثقاہت و دیانت، علم و فکر اور کردار کے حوالوں سے اعلیٰ ترین مقام و مرتبہ کی حامل قرون اولیٰ کی ہستیاں ہیں، انہوں نے امت کی سہولت کی خاطر نہایت جانفشانی اور دیانت و لیاقت سے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کیا اور شریعت اسلامی کے ایسے اصول و قواعد و ضع کئے جس سے عام مسلمانوں کو دین فہمی اور شرعی احکام پر عمل پیرا ہونے میں سہولت ہوئی۔ صدیوں سے علماء کرام ان کے اقوال پر فتوی دیتے آئے ہیں۔ اللہ مجدہ کا ارشاد گرامی ہے :
فَسْئَلُوْٓا اَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.
’’سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو۔‘‘
(النّحل، 16: 43)
کسی امام یا مجتہد کی تقلید کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اُسے بذاتِ خود واجب الاطاعت سمجھ کر اتباع کی جا رہی ہے یا اُسے شارع (شریعت بنانے والا، قانون ساز) کا درجہ دے کر اس کی ہر بات کو واجب الاتباع سمجھا جا رہا ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ پیروی تو قرآن و سنت کی مقصود ہے لیکن قرآن و سنت کی مراد کو سمجھنے کے لیے بحیثیت شارحِ قانون اُن کی بیان کی ہوئی تشریح و تعبیر پر اعتماد کیا جا رہا ہے۔
ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کے طریقہ پر احکامِ شرعیہ بجا لاناتقلیدِ شخصی کہلاتاہے۔ مثلاً: امامِ اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم میں سے کسی ایک کے طریقے پر عمل کرنا۔
تقلید شخصی کی شرعی حیثیت میں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
أنَّ الاُمَّةَ قَدْ اجْتَمَعَتْ عَلَی اَنْ یَعْتَمِدُوْا عَلَی السَلَفِ فِیْ مَعْرَفَةِ الشَرِیْعَةِ، فَالتَّابِعُوْنَ اعْتَمَدُوْا فِیْ ذَلِکَ عَلَی الصَحَابَةِ، وَ تَبْعُ التَابِعِیْنَ اعْتَمَدُوْا عَلَی التَّابِعِیْنَ، وَ هَکَذَا فِیْ کُلِّ طَبَقَةٍ إعْتَمَدَ العُلَمَاء ُ عَلَی مِنْ قَبْلِهِمْ.
’’امت نے اجماع کر لیا ہے کہ شریعت کی معرفت میں سلف صالحین پر اعتماد کیا جائے۔ تابعین نے اس معاملہ میں صحابہ کرام پر اعتماد کیا اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا۔ اسی طرح ہر طبقہ میں علماء نے اپنے سے پہلے آنے والوں پر اعتماد کیا‘‘۔
(شاہ ولی ﷲ، عقد الجید، 1: 31)
تقلید شخصی کو لازم کرنے کی ایک واضح نظیر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں جمعِ قرآن کا واقعہ ہے کہ جب انہوں نے قرآنِ حکیم کا ایک رسم الخط متعین کر دیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے پہلے قرآنِ حکیم کو کسی بھی رسم الخط کے مطابق لکھا جا سکتا تھا کیونکہ مختلف نسخوں میں سورتوں کی ترتیب بھی مختلف تھی اور اس ترتیب کے مطابق قرآنِ حکیم لکھنا جائز تھا لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے امت کی اجتماعی مصلحت کے پیشِ نظر اس اجازت کو ختم فرما کر قرآن کریم کے ایک رسم الخط اور ایک ترتِیب کو متعین کر کے امت کو اس پر متفق و متحد کر دیا اور امت میں اسی کی اتباع پر اجماع ہوگیا۔
(بخاری، الصحیح، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، 4: 1908، رقم: 4702)
مذاہبِ اربعہ میں سے کسی ایک مذہب کی تقلید کا فائدہ یہ ہے کہ عام مسلمان تفرقہ و انتشار سے بچ جاتا ہے۔ اگر تقلیدِ مطلق کی عام اجازت ہو اور ہر شخص کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ جس مسئلے میں جس فقیہ کی چاہے تقلید کر لے تو اس قسم کے اقوال کو جمع کر کے ایک ایسا مذہب تیار ہو سکتا ہے جس میں دین خواہشات کا کھلونا بن کر رہ جائے گا، جسے کسی بھی طور پر جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ فقہاء کے نزدیک اب تقلیدِ شخصی کی پابندی ضروری ہے اور کسی ایک مجتہد (کے مکتبِ فکر) کو معین کر کے ہر مسئلے میں اسی کی پیروی کی جائے تاکہ نفسِ انسانی کو حلال و حرام کے مسائل میں شرارت کا موقع نہ مل سکے۔
سوال: اگر محصولات (ٹیکس) مقررہ مقاصد پر خرچ نہ ہوں تو ان کی ادائیگی کا کیا حکم ہے؟
جواب: ریاست کا نظامِ حکومت چلانے کے لیے مالی وسائل بنیادی ضرورت ہیں۔ دنیا میں جب سے ریاستی نظام وجود میں آیا ہے تب سے ریاست کے مالی وسائل کی دستیابی کے لیے حکومتیں مختلف اقدامات اٹھاتی ہیں تاکہ ریاستی عمال جیسے فوج، پولیس، ججوں، اساتذہ، اطباء اور دیگر ہمہ قسم سرکاری اداروں کے اہلکاروں کو تنخواہیں دے سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے، ہسپتال، سٹرکیں، پل اور ضروری بنیادی ڈھانچے (NFRASTRUCTURE) کی تعمیر کر سکیں اور مستحقین کی مدد یا عامۃ الناس کو اشیائے خورد و نوش کی فراہمی میں رعایت (SUBSIDY) دے سکیں۔
اولین اسلامی ریاست میں اس مقصد کے لیے بیت المال کا نظام وضع کیا گیا جس میں زکوٰۃ، اموالِ غنیمت کا خمس اور اموالِ فئے وغیرہ سے مالی وسائل حاصل کیے جاتے اور مذکورہ مقاصد پر صَرف کیے جاتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ وسائل ناپید ہوگئے تو اموال کی فراہمی کے لیے محصولات (TAX) کا نظام وجود میں آیا۔ اس لیے حکومتیں ریاست کے مالی وسائل کے لیے عوام پر مختلف قسم کے محصولات (ٹیکس) عائد کرتی ہیں اور ٹیکس سے حاصل کردہ رقوم ریاستی نظام چلانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اگر حکومت ٹیکس نہ لے تو ریاست کا نظام اور تمام فلاحی امور کی انجام دہی خطرے میں پڑ جائے گی۔
قرآنِ مجید میں ذوالقرنین بادشاہ کا قصہ بیان کیا ہے کہ جب ذوالقرنین سفر کرتے ہوئے ایک ایسے علاقے میں پہنچے جہاں کے لوگوں نے ان سے یاجوج و ماجوج کے فساد کی شکایت کی تو اس فساد کے سدباب کے لیے انہوں نے ایک ایسی دیوار تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی جس سے ان کو یاجوج و ماجوج کی فتنہ انگیزیوں سے تحفظ مل جائے اور اس کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے کا بھی عندیہ دیا۔ چنانچہ قرآنِ مجید فرماتا ہے:
حَتّٰی اِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمَا قَوْمًالا لَّا یَکَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ قَوْلًا. قَالُوْا یٰـذَا الْقَرْنَیْنِ اِنَّ یَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَکَ خَرْجًا عَلٰٓی اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمْ سَدًّا.
’’یہاں تک کہ وہ (ایک مقام پر) دو پہاڑوں کے درمیان جا پہنچا اس نے ان پہاڑوں کے پیچھے ایک ایسی قوم کو آباد پایا جو (کسی کی) بات نہیں سمجھ سکتے تھے۔ انہوں نے کہا: اے ذوالقرنین! بے شک یاجوج اور ماجوج نے زمین میں فساد بپا کر رکھا ہے تو کیا ہم آپ کے لیے اس (شرط) پر کچھ مالِ (خراج) مقرر کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک بلند دیوار بنادیں۔‘‘
(الکهف، 18: 93-94)
حضرت فاطمہ بنت قیسj فرماتی ہیں میں نے یا کسی اور نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زکوٰۃ کے متعلق پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ فِی المَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّکَاةِ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الآیَةَ الَّتِی فِی البَقَرَةِ: (لَیْسَ البِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَکُمْ... الآیَةَ) (البقرة، 2: 177)
’’مال میں زکوۃ کے علاوہ بھی حق ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۃ بقرہ کی آیت (نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو۔۔۔) کی تلاوت کی۔‘‘
(ترمذی، السنن، کتاب الزکاة ، باب ما جاء أن فی المال حقا سوی الزکاة، 3: 48، رقم: 659)
درج بالا آیت و روایت سے حکومت کے لیے محصول (ٹیکس) عائد کرنے کی گنجائش نکلتی ہے۔ اگر بوجوہ یہ ٹیکس ان مقاصد کے لیے خرچ نہیں کیے جا رہے تو ٹیکس چوری کرنے کے بجائے نظام میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہر شخص یہی سوچ کر ٹیکس ادا کرنا چھوڑ دے کہ یہ اپنے اصل مقصد پر خرچ نہیں کیے جارہے تو فلاحِ عامہ کا جو تھوڑا بہت کام ہو رہا ہے وہ بھی ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ اس لیے ذمہ داری کے ساتھ ٹیکس ادا کریں اور اتنی ہی ذمہ داری سے اداروں کا محاسبہ کرتے رہیں تاکہ ان ٹیکسز کو اصل مقاصد پر خرچ کیا جائے۔
سوال: اسلام میں یتیم پوتے کی وراثت بارے کیا احکام ہیں؟
جواب: میت کی مذکر اولاد کی موجودگی میں اس کا یتیم پوتا بحیثیتِ وارث حصہ نہیں پاتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تقسیمِ وراثت کے شرعی احکام کی بنیاد ’’الاقرب فالاقرب‘‘ کے اصول پر رکھی گئی ہے۔ اس اصول کی بناء پر یہ قانون طے کیا گیا ہے کہ اصحاب الفرائض (جن کے حصے قرآن و حدیث نے مقرر کر دیے ہیں)کو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی مالِ وراثت میت کے قریب ترین رشتہ دار کو بطور عصبہ مل جائے گا۔ میت کے ساتھ اس کے پوتے کی رشتہ داری اپنے باپ کے واسطے سے ہے جبکہ اس کی اپنی اولاد بلاواسطہ رشتہ دار ہے۔ اس لیے میت کے بیٹے کی موجودگی میں اس کی بیٹیاں اور بیٹے عصبہ بنیں گے اور وراثت کے اصولی مستحق ہوں گے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقی فهو لأولی رجل ذکر.
’’اصحاب الفرائض کو ان کا حق دینے کے بعد جو باقی بچے وہ قریبی ترین مرد وارث کے لیے ہے۔‘‘
(صحیح البخاری، 2: 977)
اس اصول کی بنا پر ہی اگر میت کی وفات کے وقت اس کی کوئی مذکر اولاد زندہ نہیں ہے، صرف بیٹیاں اور پوتا ہے تو بیٹیوں کو حصہ دینے کے بعد پوتا بطور عصبہ دادا کی وراثت سے حصہ پائے گا کیونکہ اس صورت میں یہ قریب ترین مرد رشتہ دار ہے۔
اسی طرح شریعت نے وصیت کا قانون بھی متعارف کروا رکھا ہے۔ اس کی رو سے اگر کسی شخص کو خدشہ ہو کہ اس کی اولاد اس کے یتیم پوتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گی تو وہ اپنی زندگی میں ان کے لیے جتنی چاہے جائیداد ہبہ کر سکتا ہے یا ان کے حق میں اموالِ وراثت سے ایک تہائی مال تک کی وصیت کر سکتا ہے۔ ہمارے فقہاء کے نزدیک بعض حالات میں پوتے کے لیے وصیت کرنا مستحب اور بعض اوقات واجب بھی ہو جاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اسلام کا نظام ِوراثت بڑی حکمتوں پر مبنی ہے۔ اس کے اصولوں کے مطابق اگر یتیم پوتے کو بیٹوں کے ساتھ بطورِ وارث حصہ نہیں دیا گیا ہے تو وقت ِضرورت اس کی حاجت روائی اور کفالت کے دیگر پختہ انتظامات کیے ہیں۔