حمد باری تعالیٰ
خالقِ نظمِ دو جہاں تو ہے
گو عیاں ہے مگر نہاں تو ہے
ذرّے ذرّے میں تیری جلوہ گری
پھر بھی کھُلتا نہیں کہاں تو ہے
قطرے قطرے میں حُسن ہے تیرا
حُسن کا بحرِ بے کراں تو ہے
خالقِ انبیائے نوعِ بشر
کارواں، میرِ کارواں تو ہے
نگاہِ خلق سے نہاں ہوکر
ہر تجلی میں ضوفشاں تو ہے
سب پہ یکساں تیرا ہے لطف و کرم
سب ہی بندوں پہ مہرباں تو ہے
ہے شریف حزیں ترا بندہ
اور خداوندِ دو جہاں تو ہے
(شریف امرہوی)
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
آپ کے قدموں کے صدقے میں دعائیں ہوں قبول
مجھ غلامِ بے نوا کی التجائیں ہوں قبول
حاضری کے پھول لے کر حاضرِ دربار ہوں
اک غریبِ شہر کی آقا وفائیں ہوں قبول
کب سے ہیں آنکھیں درِ اقدس پہ محوِ التجا
آخرِ شب کانپتی میری صدائیں ہوں قبول
میرے اندر کا بھی انسان عجز کی تصویر ہے
آپ کے دربار میں اس کی انائیں ہوں قبول
چند آنسو ہیں رقم میرے عریضے میں حضور
دیدۂ تر کی مؤدب سب گھٹائیں ہوں قبول
میرے پاکستان کی یاسیدی یا مرشدی
آنسوؤں میں رات بھر بھیگی ہوائیں ہوں قبول
احتراماً لفظ ہونٹوں سے ادا ہوتے نہیں
درد میں لپٹی ہوئی آقا نوائیں ہوں قبول
ایک اک ساعت ہے مصروفِ ثنا یا مصطفی
محفلِ میلاد کی پرنم فضائیں ہوں قبول
آج پھر اصرار کرتی ہے یزیدیت، حضور!
ہر قدم پر عصرِ نو کی کربلائیں ہوں قبول
بے خودی میں رقص کے عالم میں رہتا ہے ریاض
یا نبی، وارفتگی کی انتہائیں ہوں قبول
(ریاض حسین چودھری)