ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
گزشتہ حصّے: حصّہ اوّل - حصّہ دوم
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ.
(الفاتحه، 1: 5-6)
’’ہمیں سیدھا راستہ دکھااُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا۔‘‘
پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کو سیدھی راہ کی طلب کی دعا سکھائی اور دوسری آیت کریمہ میں وہ سیدھی راہ جس کے ساتھ ہدایت کو مشروط کیا گیا ہے اسے متشخص اور متعین کرنے کے لیے فرمایا کہ اللہ کے انعام یافتہ بندوں کی راہ صراطِ مستقیم ہے۔ گویا اللہ رب العزت نے صراطِ مستقیم کے ٹائٹل کو شخصیاتِ مقدسہ کے ساتھ متعین کردیا۔
لازمی بات ہے کہ یہ شخصیاتِ مقدسہ تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوں گی تو تب ہی امتِ مسلمہ کی رہنمائی و اصلاح کا فریضہ سرانجام دینے کے قابل ہوسکیں گی۔ اس وقت دنیا میں کوئی مرکز اور مقام ایسا نہیں ہے جہاں ایسے افراد تیار کیے جاسکیں جو اللہ کے انعام یافتہ بندے کہلائیں اور صراطِ مستقیم کی پہچان بن سکیں۔
صراطِ مستقیم کی پہچان بننے والے ایسے افراد کی تیاری میں نظامِ تعلیم ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نظامِ تعلیم کا مرکزی نقطہ ’’شخصیت سازی‘‘ ہے کہ ہر حوالے سے ایک کامل شخصیت تشکیل پائے۔ اس تناظر میں تعلیم و تربیت کے مراکز جو مسجد، مدرسہ، خانقاہ، درس گاہ اور تربیت گاہ کی صورت میں موجود ہیں، ان تمام کا مقصود ایک ایسی شخصیت تشکیل دینا ہے جو آج کے زمانے، نسل، معاشرے اور طالبانِ حق و ہدایت کو درکار ہے۔
سوال یہ ہے کہ جو شخصیات ہمیں مسجد، مدرسہ اور خانقاہ کی صورت میں قائم تعلیم و تربیت کے مراکز سے درکار ہیں، کیا ان اداروں سے ایسی شخصیات وجود میں آرہی ہیں یا نہیں؟ اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو گویا ہم صحیح سمت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ہمارا فوکس ٹھیک ہے لیکن اگر ان مراکز سے ایسی شخصیات وجود میں نہیں آرہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان مراکز میں کہیں کوئی کمی، کمزوری اور نقص ہے جسے ہمیں تلاش کرنا ہے۔
مدارسِ دینیہ کی تاریخ اور اس کے نصاب کا جائزہ لینے سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ وہ مدرسہ جو کسی زمانے میں ہمہ جہتی کردار کا حامل تھا، افسوس کہ آج بہت پیچھے رہ گیا اور دنیاوی تعلیم کے ادارے سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز آگے بڑھ گئیں۔ جدید انسانی زندگی، معاشرے اور زمانے سے متعلق علوم سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے پاس چلے گئے جبکہ مدارس صرف معین نصاب تک محدود ہوکر رہ گئے۔ نتیجتاً حقیقی حاملینِ علم کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا اور منشاء کے مطابق جو قدرو منزلت تھی، وہ بحال نہ ہوسکی۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ عہد نبوت سے لے کر پونے تین سو سال قبل تک کبھی دینی مدارس کا صرف یہ مقصد نہیں رہا کہ یہاں سے پڑھ کر نکلنے والے لوگ صرف نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، مناکحات و معاملات، نکاح، طلاق، وراثت، جنازہ، نمازِ عیدین اور فقہ کے دیگر مسائل جاننے والے ہوں۔ برصغیر پاک و ہند میں برطانوی سامراج کے دور میں اسلام اور امتِ مسلمہ کے خلاف ایک سازش کے تحت دینی نصاب میں جمود طاری کردیا گیا جبکہ عصری نصاب میں تحرک جاری رکھا گیا۔
جن مدارس میں دینی نصابات عصری تقاضوں کے ساتھ ساتھ چلتے تھے، وہاں سے نکلا ہوا عالم، محقق، محدث، مفسر، فقیہ، مجتہد کبھی زمانے سے پیچھے نہیں رہتا تھا۔ ہر زمانے کے تقاضے بدلنے کی وجہ سے نصابات بھی بدل جاتے اور وہ نصاب عصری تقاضوں کو پورا کرتا ہوا آگے بڑھتا رہتا اور اس میں تحرک قائم رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان مدارس سے امام اعظم، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام غزالی، ابنِ سینا، ابن الہیثم، فارابی، رازی اور نامور محدث و ائمہ نکلے اور یہ تمام اپنے اپنے زمانے میں علمی معیارات میں سب سے آگے تھے اور اسی سبب ان کی عزت و تکریم ہوتی تھی۔
برصغیر پاک و ہند کے مدارس میں رائج نصاب کا پس منظر یہ ہے کہ جب تاتاری آئے اور چنگیزی اور ہلاکو خان کے فتنے نے وسط ایشیاء، وراء النہر اور خراسان کے علاقوں کو تباہ کردیا تو وہاں سے علماء و مشائخ ہجرت کرکے ہندوستان آگئے۔ ان کے پاس علامہ سعدالدین تفتازانی اور میر سید شریف جرجانی اور اس زمانے کی کتابیں تھیں، جو یہاں کی ضروریات کے مطابق یہاں کے نصاب میں شامل ہوگئیں اور پھر بعد ازاں یہ نصاب وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہوتا رہا۔
1947ء تک جو نصابات یہاں رائج تھے، وہ اپنے زمانے کی عصریات کے مطابق سو فیصد صحیح تھے۔ مثلاً: فلسفہ، منطق، علم الحساب، جیومیٹری، علم الہندسہ، علم الطب، علم نجوم اور فلکیات وغیرہ ان سارے علوم میں سے ایک علم بھی دینی علوم کا حصہ نہیں تھا بلکہ یہ سب علومِ عصریہ ہونے کے باعث علومِ اسلامیہ میں شامل تھے۔ اسی طرح ادب، شعرو شاعری، لٹریچر یہ مضامین بھی علومِ شریعہ میں سے نہیں ہیں مگر عصری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ مضامین بھی مدارس میں پڑھائے جاتے تھے۔
آج سے سات سو سال قبل تک ہمارے ہاں مسجد کا کردار اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل رہا۔ ابن بطوطہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ ہندوستان آئے تو دہلی میں دو سو مساجد اور دو ہزار سے زائد روحانی خانقاہیں تھیں۔ اس زمانے میں خانقاہ کا معنی صرف مزار نہیں بلکہ تربیت گاہ ہوتا تھا، جہاں لوگ علمی، فکری، عصری اور روحانی تعلیم و تربیت کے لیے آتے تھے۔ یہ طرزِ عمل آج سے سات سو سال قبل ہمارے ان اسلاف کا تھا جن سے ہم نے نسل در نسل علمی، فکری اور روحانی ورثہ لیا ہے۔ یہ ہستیاں تعلیم و تربیت پر اتنا فوکس کیا کرتی تھیں کہ صرف دہلی کے اندر تقریباً بائیس سو تربیت گاہیں؛ مساجد اور خانقاہوں کی شکل میں موجود تھیں جہاں طلبہ کے علم و فکر کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ اخلاق اور سیرت سنوارنے کے لیے بھی تربیتی اسباق پڑھائے جاتے۔
سو اس زمانے میں مدارسِ دینیہ کے نصاب میں اپنے زمانے کے مطابق تحرک رہا اور سب مضامین برابر چلتے رہے مگر ایک سازش کے تحت جب یہ اسلوب رک گیا تو جمود طاری ہوگیا۔ دوسری طرف سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے نصاب میں تحرک و ارتقاء جاری رکھا گیا اور اس میں وقتاً فوقتاً نئی ترامیم ہوتی رہیں تاکہ ان اداروں سے پڑھ کر نکلنے والے گریجوایٹ نئی عصریات کے مطابق ڈھل سکیں، کیونکہ انہیں سلطنت دینی تھی۔ گویا جنہیں سلطنت دینی تھی، انہیں دین سے نکالنا اور دین سے دور رکھنا تھا اور جنہیں دین کا علم دینا تھا، انہیں سلطنت اور معاشرے کی باعزت پوزیشن سے دور رکھنا تھا تاکہ وہ صرف مخصوص اور محدود ماحول کی خدمات انجام دینے کے قابل رہ جائیں اور معاشرے میں بھرپور طریقے سے کردار ادا نہ کرسکیں۔
افسوس! دینی مدارس اور دینی تعلیم سے متعلق کچھ اذہان جو اس سازش کا شکار ہوئے، انہوں نے جدید علوم و فنون اور زبانوں کو اپنے نصابِ دینیہ میں عملاً حرام کردیا، نتیجتاً تیز رفتاری سے آگے بڑھتے ہوئے معاشرے میں علماء اور اہلِ علم پیچھے رہ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس طبقہ کو معاشرے میں وہ مقام اور جگہ نہیں ملتی تو وہ غصے اور انتہا پسندی کے ساتھ اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس سازش کے تحت دینی مدارس نے دو سو سال گزارے ہیں نیز چونکہ اس نصاب میں آسانی بھی ہے، سالہا سال ایک ہی چیز پڑھنی پڑھانی ہے اور کوئی نئی کتابیں اور مضامین شاملِ نصاب نہیں ہونے تو پھر انسانی طبائع بھی سہولت پسند ہوجاتی ہیں اور اسی میں آسانی محسوس کرتے ہوئے اسی نصاب کو قائم رکھتی ہیں۔ اس سوچ کے تحت درسِ نظامی کے موجودہ مروّجہ نصاب کو بغیر کسی تبدیلی کے دو صدیاں بیت گئیں۔
نظام المدارس پاکستان کے نصاب کی اہم خصوصیات
مدارسِ دینیہ کے قیام اور اس کے نصاب کی تاریخ، غرض و غایت، موجودہ نصاب کی صورتِ حال اور عصرِ حاضر کے تقاضوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ذیل میں نظام المدارس کے نصاب کا تعارف، تفردات اور افادیت کو بیان کیا جارہا ہے کہ نظام المدارس پاکستان کا نصاب کن خوبیوں اور خصوصیات کا حامل ہے؟
1۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہم نے نظام المدارس پاکستان کے نصاب کو مرتب کرتے ہوئے درس نظامی کے موجودہ نصاب میں کوئی کمی بیشی یا تبدیلی نہیں کی بلکہ انہی علوم و فنون کو آج کے دور کے جدید مناہج اور اسالیب کے ساتھ جوڑتے ہوئے خلاء کو ختم کیا ہے اور جہاں جہاں کمی تھی، وہاں مضامین کا اضافہ کیا ہے۔
اس اضافہ کی نوعیت یہ ہے کہ درسِ نظامی کے موجودہ نصاب میں 8 سالوں میں 20 مضامین پڑھائے جاتے ہیں جبکہ ہم نے موجودہ 20 مضامین کو قائم رکھتے ہوئے، ان میں مزید 18 مضامین کا اضافہ کرکے 38 مضامین کو ایک ترتیب کے ساتھ نظام المدارس پاکستان کے نصاب کا حصہ بنایا ہے۔
2۔ دیگر وفاق اور بورڈز نے اپنے ہاں رائج درس نظامی کا نصاب چھ سے آٹھ صفحات پر مشتمل ایک مختصر سے کتابچہ کی صورت میں شائع کیا ہوا ہے جو online بھی دستیاب ہے۔ اس میں نصاب کی زیادہ تفصیلات اور جزئیات درج نہیں ہیں، جبکہ نظام المدارس پاکستان کا نصاب 128 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں ایک ایک جزو کو تفصیل سے درج کیا گیا ہے۔ اس نصاب کے پہلے تقریباً 45 صفحات تعلیمی اوقات کار، کتب کی تقسیم، امتحانات اور دیگر شرائط و ضوابط پر مشتمل ہیں جبکہ تقریباً 80 صفحات صرف نصاب کی تفصیل پر ہیں۔
3۔ اس نصاب میں یہ واضح کردیاگیا ہے کہ نصابی کتاب مکمل پڑھائی جائے گی یا اس کا کچھ منتخب حصہ پڑھایا جائے گا؟ ہر ہر کتاب سے جو باب اور فصل پڑھنی ہے، اس باب اور فصل کا عنوان تک واضح کردیا ہے تاکہ اساتذہ اور طلبہ دونوں کو اس حوالے سے کوئی دشواری پیش نہ آئے۔
4۔ اس نصاب کا اول سے آخر تک ایک نظم ہے۔ ہر مضمون کے ساتھ ضروری کتب برائے مطالعہ اور ان کے مطالعہ کی ہدایات بھی درج کردی ہیں۔
5۔ کسی مضمون سے متعلقہ وہ کتب جو باقاعدہ نصاب میں شامل نہیں ہیں، ان کتب اور ان کے مصنفین کا تعارف نصاب میں شامل کردیا ہے تاکہ اساتذہ ان کتب کو متعارف کروائیں اور طالب علم کا ان کے ساتھ تعلق قائم کریں تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ ان کتب سے استفادہ کرسکے۔
6۔ نظام المدارس پاکستان کے نصاب کی انفرادیت بایں طور بھی واضح ہوتی ہے کہ عام مدارس کے 8 سالہ کورس میں پڑھائی جانے والی درسی کتب کی تعداد 63 سے 68 تک ہے جبکہ اس تعلیمی دورانیہ میں اس مضمون سے متعلقہ دیگر کتب سے طالب علم کو آشنا نہیں کروایا جاتا اور وہ ان کے تعارف سے محروم رہ جاتا ہے۔
نظام المدارس پاکستان کے تحت پڑھائی جانے والی درسی کتب کی تعداد 145ہے۔ گویا ان کتب کی تعداد دیگر وفاق اور بورڈز کی درسی کتب کی تعداد کے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔
7۔ نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں درسی کتب کے مطالعہ کی معاونت کے طور پر مزید 96 کتب شامل ہیں۔ ان کتب کے مطالعہ سے اساتذہ اور طلبہ درسی کتب میں موجود مباحث کو بآسانی اور وسیع تناظر میں سمجھ سکیں گے۔
8۔ شاملِ نصاب علوم و فنون کی مزید 135کتب کے اسلوب اور مباحث سے بھی طلبہ کومتعارف کروایا جائے گا تاکہ طلبہ کا ان کتب کے ساتھ ایک تعلق قائم ہو۔
الغرض ہر ہر مضمون کے موضوعات کے تعارف کے لیے درجنوں کتابیں شامل کردی ہیں تاکہ طالب علم جب 8 سال کے بعد الشہادۃ العالمیہ کی سند لے کر نکلے تو وہ قدیم و جدید، ظاہر و باطن اور علم و حلم کے ہر میدان میں مسلح ہو، اس کے پاس دلائل ہوں اور وہ معاشرے میں اعتدال کو فروغ دیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان طلبہ و علماء کی اپنی طبائع میں بھی اعتدال و توازن موجود ہو۔
9۔ کل 376کتب نظام المدارس کے نصاب میں شامل ہیں جن میں سے درسی کتب کی تعداد 145 ہے۔۔۔ درسی کتب سے متعلقہ معاون کتب برائے مطالعہ کی تعداد 96 ہے۔۔۔ اور نصاب میں شامل علوم و فنون اور مضامین سے متعلقہ کتب برائے تعارف کی تعداد 135ہے۔ یہ کتب 8 سال کے دورانیہ میں طالب علم پڑھے گا، ان کی ابحاث، مضامین اور عناوین سے شناسا ہوگا، نتیجتاً اس کے علم و فکر میں وسعت پیدا ہوگی۔
10۔ نظام المدارس کے مکمل نصاب کو قابلِ عمل بنایا گیا ہے۔ ہر چیز کے نقشے بنادیئے ہیں، پڑھنے پڑھانے کا اسلوب واضح کردیا ہے، ایک Scheeme of study دے دی ہے کہ 8 سال کے دوران پڑھائے جانے والے 38 مضامین میں سے کون سے مضامین کس سال پڑھنے ہیں۔۔۔؟ حتی کہ فیصد اور تناسب کے اعتبار سے بھی ترتیب دی ہے کہ کس مضمون کو کتنا فیصد وقت ملنا ہے۔۔۔؟ ہفتے میں کل اسباق اور کل لیکچرز کتنے ہوں گے۔۔۔؟ کس کتاب کے کتنے ابواب اور اجزاء پڑھنے ہیں۔۔۔؟ الغرض پہلے سال سے لے کر آٹھویں سال تک ہر چیز کو متعین کردیا ہے اور پورا کا پورا نظام قابلِ عمل بنادیا گیا ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ اساتذہ اور طلبہ نصاب سے مکمل آگاہ ہوں۔ کسی مضمون کو جب استاد پڑھائے تو اپنی مرضی کے ساتھ نہ پڑھائے بلکہ نصاب کے مطابق پڑھائے اور اس انداز سے پڑھائے کہ وقت کے اندر اندر تمام نصاب کا احاطہ ہوسکے اور کوئی چیز رہ نہ جائے۔
11۔ نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں مروّجہ کتب کے علاوہ مزید جن کتب کا اضافہ کیا گیا ہے ان میں یہ احتیاط برتی ہے کہ وہ کتب شاملِ نصاب کریں جو پاکستان میں آسانی سے دستیاب ہوں۔ ہمارے ہاں جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن میں بہت زیادہ کتب ایسی پڑھائی جاتی ہیں جو پاکستان میں میسر نہیں، مگر صرف ایک ادارہ ہونے اور محدود تعداد ہونے کی بناء پر ان کتب کو ان طلبہ کے لیے مہیا کرنا ہمارے لیے آسان ہے۔ وہ کتب عرب ممالک سے یا دنیا کے جس ملک سے شائع ہوئی ہوں، ہم منگوالیتے ہیں اور طلبہ کو کسی نہ کسی صورت میں مہیا کردیتے ہیں مگر یہ اصول نظام المدارس پاکستان میں نہیں چل سکتا تھا۔ اتنی بڑی تعداد میں تمام طلبہ کو وہ کتب مہیا کرنا، ہمارے لیے ممکن نہیں۔ لہذا ہم نے فقط وہ کتب شاملِ نصاب کی ہیں جو پاکستان میں دستیاب ہیں تاکہ کتب کے حصول میں دشواری نہ ہو۔
12۔ نظام المدارس کے تحت چلنے والے اداروں کے اساتذہ کو برائے مطالعہ ضروری کتب مہیا کرنے کا اہتمام کیا جائے گا تاکہ وہ صرف منتخب کتب کا ہی مطالعہ نہ کریں بلکہ جو کتب اس مضمون سے متعلقہ ہیں اور اس مضمون پر نئے اسلوب و نئے منہج پر آئی ہیں، ان کا مطالعہ بھی کرسکیں تاکہ ان کا نظم بڑھے، تنقیدی وسعت میں اضافہ ہو اور دورِ حاضر کے ساتھ ان کی مطابقت پیدا ہو۔
13۔ نظام المدارس پاکستان کے تحت کئی ایسے مضامین بھی شامل نصاب ہوں گے جو Online پڑھائے جائیں گے اور جیسے جیسے طلبہ کی صلاحیت میں ارتقاء ہوگا، ویسے ویسے مرکز سے عرب شیوخ اور دیگر سکالرز کے لیکچرز Online نشر کیے جائیں گے۔
14۔ اساتذہ کی Training کے لیے وقتاً فوقتاً شارٹ کورسزبھی کروائے جائیں گے تاکہ نئی کتب پڑھانے کے لیے ان کی استعداد میں اضافہ ہوسکے اور انھیں نئے اسالیب سے واقفیت ہوسکے۔
15۔ اساتذہ کو ڈویژن اور ضلع وائز ریفریشر کورسز کروائے جائیں گے اور ان کی کمپیوٹر لرننگ سکلز میں اضافہ کیا جائے گا۔ الغرض علوم و فنون کے مآخذ اور مصادر تک رسائی اور تعلیمی و تدریسی رہنمائی کے لیے ہر ذریعہ بروئے کار لایا جائے گا۔
مدارسِ دینیہ کے نصاب میں نئے مضامین کے اضافہ کی ضرورت کیوں؟
جیسا کہ پہلے بیان کرچکا ہوں کہ نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں دیگر وفاق کے تحت پڑھائے جانے والے 20 مضامین کو قائم رکھتے ہوئے مزید 18 مضامین کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ان کل 38 مضامین کو پڑھانے کے لیے درسی کتب اور کتب برائے مطالعہ و برائے تعارف کی تعداد 376 ہے۔ ان تمام کتب کی تفصیل نظام المدارس پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اس موقع پر ہر ایک مضمون اور ان درسی اور کتب برائے مطالعہ کی تفصیل بیان کرنے کے بجائے نصاب میں جن مضامین اور کتب کا اضافہ کیا گیا ہے، ان پر بات کروں گا کہ ان مضامین کے اضافہ کی ضرورت کیوں ہے؟
1۔ ترجمہ قرآن اور تفسیر
نظام المدارس پاکستان کے نصاب کا سب سے اہم ترین حصہ یہ ہے کہ 8 سالوں میں قرآن مجید کا مکمل ترجمہ شاملِ نصاب کیا گیا ہے۔ دیگر دینی مدارس کے نصاب میں تفسیر بیضاوی، جلالین یا دوسری تفاسیر کے کچھ منتخب حصے پڑھادیئے جاتے تھے مگر ترجمہ اور علوم قرآن پر کوئی زور نہیں تھا۔ نتیجتاً ہمارے طلبہ جب مدارس سے عالم بن کر نکلتے ہیں تو وہ علوم القرآن میں مہارت تو بڑی دور کی بات علوم القرآن سے شناسائی تک سے محروم ہوتے ہیں۔ بعد ازاں جب یہ مسجد میں امام اور خطیب مقرر ہوتے ہیں تو اپنے وسائل کے مطابق کتبِ تفسیر خرید کر پڑھنا یا نہ پڑھنا ان کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے یا پھر اردو کی ذیلی کتابیں پڑھتے ہیں اور اپنا وقار کھو بیٹھتے ہیں لیکن مدرسہ ان کو تفسیر کے سمندر میں غوطہ زن نہیں کرتا۔
ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہمارے طلبہ جب عالم بن کے نکلتے ہیں تو علوم القرآن، تفسیر، تاریخ تفسیر اور علوم الحدیث میں کمزور ہوتے ہیں، فقہ اور اصول فقہ مناسب حد تک پڑھ لینا کافی نہیں کیونکہ آج زمانہ قرآن و سنت کی بات پوچھتا ہے۔ اسی مقصد کے تحت نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں کثیر تفاسیر شاملِ نصاب ہیں۔ اس ضمن میں قرآن مجید کے پارے اور سورتیں آٹھ سالوں میں تقسیم کرکے مختلف تفاسیر کے ساتھ پڑھائے جائیں گے۔ گویا قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر خازن، المظہری، بیضاوی، جلالین اور بہت سی دیگر تفاسیر کو یکجا کرکے تفسیر قرآن کے علوم کا دائرہ وسیع کردیا ہے تاکہ 8 سال مسلسل طالب علم علوم القرآن کے ساتھ متمسک رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخِ تفسیر کو بھی ایک نئے مضمون کے طور پر شاملِ نصاب کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں قرآن مجید کی تمام 114 سورتوں کا تعارف بھی شاملِ نصاب کیا ہے تاکہ سورتوں کی تفسیر کے ساتھ ان کے تعارف سے بھی طلبہ آگاہ ہوں۔ مزید یہ کہ علوم القرآن کے لیے امام سیوطی کی ’’الاتقان‘‘ اور امام زرکشی کی ’’البرہان‘‘ کو شاملِ نصاب کیا ہے۔ 8 سالوں میں علوم القرآن اور تفاسیر سے متعلق ترجیحاً وہ کتب رکھی ہیںجن کے اردو ترجمے دستیاب ہیں تاکہ جب تک طالب علم کو عربی زبان پر دسترس نہیں ہوجاتی، وہ ترجمہ کے ساتھ پڑھ سکے اور پھر جیسے جیسے عربی کی استعداد بڑھتی جائے گی ویسے ویسے وہ عربی کتب کی طرف منتقل ہوتا چلا جائے گا۔
2۔ عقائد
ہمارے ہاں مدارس 8 سالہ تعلیمی دورانیہ میں طلبہ کو عقائد کے میدان میں مضبوط نہیں کرتے۔ برصغیر پاک و ہند میں پچھلے دو اڑھائی سو سال میں عرب کے بعض خطے سے کچھ عقائد اور افکار و نظریات اس خطے میں منتقل ہوئے ہیں، ان افکار نے برصغیر پاک و ہند کے عقائد کو متاثر کیا ہے۔ ہمارے مدارس کے نصاب میں اپنے عقیدے اور مسلک کے تحفظ کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں کوئی کتاب سرے سے شامل ہی نہیں ہے۔ ہمارے مدارس کے نصاب میں عقائد کی جو کتب شامل ہیں، ان میں ہزار سال پہلے کی مباحث ہیں۔ اس دور میں اُن عقائدِ باطلہ کے رد میں جو جو درکار تھا، عقیدے کی کتب میں وہی کچھ رقم ہے۔ یہ بات بڑی توجہ طلب ہے کہ جو مباحث پچھلے دو سو سال کے اندر پیدا ہوئی ہیں اور جن کا تعلق عصمت النبی ﷺ ، معجزات النبی ﷺ ، ختم نبوت، عقیدہ علم غیب، آپ ﷺ کے خصائل و شمائل، توسل، شفاعت، استعانت، استغاثہ، زیارتِ قبور، ایصالِ ثواب، تصرفات و اختیارات، میلاد، اولیاء کی شان، عبادت و تعظیم کے تصورات اور اس جیسی دیگر مباحث و مسائل سے ہے، ان کے متعلق ایک بحث بھی درس نظامی کے کسی مدرسہ میں نہیں پڑھائی جاتی، حتی کہ اس حوالے سے کوئی کتاب بھی شاملِ نصاب نہیں ہے۔
ہمارے طالب علم کو مدرسہ میں عقائد کے باب میں وہ ابحاث پڑھائی جاتی رہیں جن کا تعلق ہزار سال قبل سے تھا۔ معتزلہ اور یونانی فلسفی مرگئے، جو ہر و اعراض کی ابحاث ختم ہوگئیں، وہ فلسفے اور اشکال و شبہات ختم ہوگئے اور اب ان کا وجود ہی نہیں، زمانہ بدل گیا ہے اور نئے نئے فرقے وجود میں آگئے ہیں مگر اُن ابحاث و فلسفوں اور ان کے رد کو آج بھی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔ ہاں! ان سابقہ ادوار کی مباحث کو پڑھانا چاہیے تاکہ پرانی کتب کے ساتھ طالب علم کو سوجھ بوجھ پیدا ہو، عبارتوں اور ابحاث کو سمجھے، ہم نے ان میں سے کسی کو خارج از نصاب نہیں کیا، وہ سب برقرار ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ جو خلا ہے اور جو گوشے خالی ہیں، ان ابحاث کو بھی زیر بحث لایا جائے اور نئے نئے باطل افکار و نظریات کا رد کیا جائے۔
پوری دنیا میں توحید اور شرک و بدعت کا ایک نیا تصور آگیا ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس تصور کو رد کرنے اور اصل توحید اور اس کی ذیلی مباحث کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ طالب علم 8 سال گزار کر تعلیمی ادارے سے نکل رہا ہے مگر اس نے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے عقیدے کے دفاع کی ایک کتاب بھی نصاب میں نہیں پڑھی ہوتی۔ نتیجتاً اس باب میں وہ مارکیٹ میں میسر کتب سے رہنمائی لیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ ان مسائل کو ان کتب سے مناظرانہ، انتہا پسندانہ اور فرقہ وارانہ طریقے سے پڑھتا ہے۔ اگر وہ ان ابحاث کو قرآن و حدیث سے پڑھتا تو اس میں توازن اور اعتدال آتا، استنباط و استدلال کا طریقہ آتا، دلائل کی قوت آتی، صحیح عقیدے کا پرچارکرتا اور پھر اپنے مطالعہ کو وسیع کرنے کے لیے مزید کتب پڑھتا۔
نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں عقیدے کے باب میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ عقائد سے متعلق تمام ابحاث کو اول سال سے آخر سال تک شاملِ نصاب کردیا ہے۔ اب نظام المدارس پاکستان کے فارغ التحصیل طلبہ عقیدہ و مسلک اور تصوف و طریقت سے متعلق قرآن و سنت اور حدیث کے دلائل سے مزین ہوں گے۔
عقائد کے باب میں نئی ابحاث چونکہ اس زمانے کی ضرورت نہیں تھی۔ امت کا ان مسائل پر اجماع اور کثرت کے ساتھ عمل تھا، نیز ان پر اعتراضات اور فتن بھی پیدا نہیں ہوئے تھے، لہذا ان ابحاث کو اس زمانہ میں شاملِ نصاب کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن عقائد کے باب میں آج یہ ابحاث زمانہ کی ضرورت ہیں، مگر نصاب میں جاری جمود کی وجہ سے یہ ابحاث شاملِ نصاب نہیں ہیں۔ عقائد کے باب میں اس خالی گوشہ کو نظام المدارس نے پُر کیا ہے۔
3۔ حدیث
ترجمۃ القرآن کی طرح حدیث کے ترجمہ کو بھی اول سال سے ہی نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں شامل کردیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں پڑھانے کا منہج یہ رکھا گیا ہے کہ کتب حدیث اور شروحاتِ حدیث کو یکجا کیا گیا ہے۔ مثلاً: مشکوٰۃ شریف کو مرقاۃ المفاتیح کے ساتھ شامل نصاب کیا ہے تاکہ طالب علم کو پتہ بھی ہو کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ صحیح بخاری کو فتح الباری، عمدۃ القاری اور ارشاد الساری کے ساتھ شامل کیا ہے۔ صحیح مسلم کو شرح نووی اور قاضی عیاض کی شرح کے ساتھ شاملِ نصاب کیا گیا ہے۔ یعنی حدیث کی اصل کتب کو شروح کے ساتھ نصاب کی درسی کتاب کے طور پر شامل کردیا ہے تاکہ اساتذہ جب اسباق پڑھائیں تو اصل کتب کے حوالے دیں اور طلبہ ان کے نوٹس بنائیں، بجائے اس کے کہ استاد اپنے طور پہ کچھ کہہ دے کہ ابن حجر نے یہ کہا ہے، امام نووی نے یہ کہا ہے، قاضی عیاض نے یہ کہا ہے، قسطلانی نے یہ کہا ہے۔ نہیں، ایسا نہ ہو، بلکہ طلبہ خود ان کتب تک رسائی حاصل کریں۔ اس سے مقصود یہ ہے ان کتابوں کے ساتھ طلبہ کی شناسائی پیدا ہو اور وہ ان کا مطالعہ کریں۔
امام نووی کی ریاض الصالحین کے ساتھ معارج السنن اور منہاج السوی بھی شامل کردی ہیں۔ اسی طرح صحاح ستہ، امام بخاری کی الادب المفرد اور دیگر ائمہ کی کتب کو بطور درسی کتب یا برائے مطالعہ یا ان کا تعارف شاملِ نصاب کیا ہے تاکہ طالب علم اخذِ علم کے لیے ان کتب سے شناسا ہو۔
کتبِ حدیث کو شروحِ حدیث کے ساتھ شاملِ نصاب کرنے کے علاوہ تاریخِ حدیث کو بھی ایک نئے مضمون کے طور پر شاملِ نصاب کیا گیا ہے۔
(جاری ہے)