حدیث و سیرت اور شمائل و اخلاق نبوی ﷺ پر مشتمل کتابوں کے مطالعہ سے مترشح ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی حسین عادات و خصائل میں سے ایک خوبصورت عادتِ کریمہ اور خصلتِ حسنہ یا طبعی ذوق یہ بھی تھا کہ آنجناب علیہ التحیۃ والثناء دین و دنیا کے ہر چھوٹے بڑے کام کو عملی جامہ پہنانے میں فنی مہارت، پختگی، عمدگی، نفاست، منصوبہ بندی، صفائی ستھرائی، حسنِ ترتیب، نظم و ضبط، تہذیب و شائستگی، بردباری، وقار، اذیت رسانی سے گریز، احتیاط اور خوبصورتی کو پسند فرماتے تھے۔ اسی طرح کسی بھی چیز اور معاملہ میں ناپختگی، بدہیئتی، بدصورتی، بدنظمی، بے ڈھنگی اور بےترتیبی کا مظاہرہ گوارا نہیں تھا۔ کام کو محض خانہ پُری، جان چھڑانے، صرف کارروائی ڈالنے اور سر کا بوجھ اتارنے کے انداز میں کرنا آپ ﷺ کو قطعاً ناپسند تھا۔
ذیل میں سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں چند واقعات درج کیے جارہے ہیں:
1۔ قبر کی تیاری میں خوبصورتی کا لحاظ
قبر کا واحد اور بڑا مقصد میت کو زمین کے پیٹ میں چھپا دینا ہے۔ قبر میں خوبصورتی اور حسن کاری کا لحاظ بظاہر کوئی معنی نہیں رکھتا مگر حضور اکرم ﷺ کو اس معاملے میں بھی کسی قسم کی کوتاہی، بدہئیتی اور بے ڈھنگا پن قبول نہیں تھا۔ صاحبزادہ ابراہیم علیہ السلام کی تدفین کے موقع پر قبر کی تیاری کے وقت ایک رخنہ باقی رہ گیا اور قبر پوری طرح برابر نہ کی گئی تو حضور اکرم ﷺ سے یہ رخنہ اور قبر کی بدہئیتی برداشت نہ ہوسکی اور امر بھا ان تسدّ: اسے بند کرنے کا حکم فرمایا۔ پاس کھڑے ایک صحابی نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! اس سے مدفون کو کیا نفع پہنچے گا؟ فرمایا:
اما انها لا تضر ولا تنفع ولکنها تقر عین الحی.
(متقی الهندی: کنزالعمال، کتاب الموت، قسم الاقوال باب فی الدفن، رقم: 42396۔42397، 14956)
’’بے شک رخنہ کی یہ بندش میت کو کوئی نقصان پہنچائے گی نہ کوئی نفع مگر اس سے زندہ آدمی کی آنکھ تو ٹھنڈی ہوگی (یعنی خوبصورت قبر دیکھ کر اسے خوشی ہوگی)۔‘‘
ایک دوسری روایت کے مطابق حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے صاحبزادے کی قبر پر کھڑے ہوکر دیکھا کہ اس کی ایک اینٹ ٹیڑھی لگی ہوئی ہے تو آپ ﷺ نے اس کو درست کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: اس میں کوئی شک نہیں کہ اینٹ کی یہ درستگی میت کو کوئی نفع نقصان نہیں پہنچاتی:
لکن اللّٰه یحب من العامل اذا عمله ان یحسن.
(کنزالعمال، رقم: 42395)
’’لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ آدمی جب کوئی کام کرے تو اسے خوبصورتی سے کرے۔‘‘
اور ایک روایت کے مطابق یوں فرمایا کہ:
اذا عمل احدکم عملا فلیتقنه.
(محمد رضا، محمد رسول اللہ، الاقتداء باخلاق رسول الله، ص 468)
’’جب تم میں سے کوئی آدمی کوئی بھی کام کرے تو اسے مضبوطی اور بڑی فنی مہارت سے کرے۔‘‘
قبر تک میں جو پیغمبر آنکھوں کی خنکی کو ملحوظ رکھتے ہوں، اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی دیگر چیزوں اور دوسرے اہم کاموں میں حسن کاری اور حسن پسندی سے متعلق ان کا ذوق کتنا بلند اور کس قدر پاکیزہ ہوگا۔ آپ ﷺ نے قبروں کے حوالے سے ہدایت فرمائی کہ:
احفروا واوسعوا واحسنوا.
(ابن ماجه، السنن، ابواب ماجاء فی الجنائز باب ماجاء فی حفرالقبر، رقم 1560)
’’قبریں گہری کھودا کرو اور انہیں کھلا رکھو اور خوبصورت بنائو (یا میت کے ساتھ غسل کفن دفن اور قبر کے معاملے میں خوبصورت طرز عمل اختیار کرو)۔‘‘
2۔ تھوکتے وقت بھی حسن کاری کی تعلیم
تھوکنا انسان کی ایک ادنیٰ سی طبعی ضرورت ہے۔ معلمِ انسانیت ﷺ نے اس معاملے میں بھی حسن کاری اور کچھ آداب کی تعلیم دی ہے۔ ایسا نہیں کہ جہاں جی چاہا اور جیسے جی چاہا یہ ضرورت پوری کرلی۔ ان آداب کا لحاظ نہ کرنے پر حضور ﷺ نے کس قدر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، اس کا اندازہ درج ذیل روایت سے لگایا جاسکتا ہے:
’’حضرت ابو سہلہ السائب رضی اللہ عنہ بن خلاد جو نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے ہیں، روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی ایک قوم کی امامت کیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے قبلہ کی طرف (منہ کرکے) تھوک دیا اور اللہ کے رسول ﷺ دیکھ رہے تھے تو اللہ کے رسول ﷺ جب فارغ ہوئے تو فرمایا:
لا یصل لکم
اب یہ آدمی تمہیں نماز نہ پڑھائے۔
اس کے بعد اس نے لوگوں کو نماز پڑھانا (امامت کرانا) چاہی تو انہوں نے اسے (نماز پڑھانے سے) روک دیا۔ اس نے اللہ کے رسول ﷺ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: نعم، (ہاں میں نے ہی ایسا حکم دیا) اور میرا (راوی کا) گمان ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: انک آذیت اللّٰہ ورسولہ۔
’’بے شک تو نے (اس حرکت سے) اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی۔‘‘
(ابوداؤد، السنن، کتاب الصلوة فی کراهیة البزاق فی المسجد، 1: 81، رقم: 482)
قبلہ کی طرف منہ کرکے تھوکنے کے علاوہ پبلک مقامات، گھر، دفتر اور مجلس میں ہی تھوک دینا کس قدر طہارت و صفائی کے خلاف، طبی نقطہ نظر سے کتنا نقصان دہ، کس قدر اذیت و گھِن کا باعث اور تہذیت و وقار کے خلاف ہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔
3۔ حسن کارکردگی پر حضور ﷺ کی طرف سے تحسین و انعام
اہلِ اسلام میں حسن کاری اور حسن پسندی کی سوچ، ذوق اور کلچر کو فروغ دینے کے لیے سیرت نبوی ﷺ میں یہ معمول بھی نظر آتا ہے کہ جب کوئی آدمی کسی بھی کام میں حسنِ کارکردگی، عمدگی اور فنی مہارت کا ثبوت دیتا اور مظاہرہ کرتا تو نبی رحمت ﷺ نہ صرف اس کی زبانی تحسین فرماتے بلکہ بعض اوقات اسے نقد انعام و اکرام سے بھی نوازتے۔ یہ طرزِ عمل انسانی نفسیات کے مطابق جہاں اس آدمی کی حوصلہ افزائی کا سبب ہے وہاں دوسرے لوگوں کو اس جیسے کام کی ترغیب اور شوق دلانے کا بھی مؤثر ذریعہ ہے۔ آئندہ سطور میں اس طرح کے چند واقعات پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن میں کسی صحابی نے حسنِ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو نبی رحمت ﷺ نے اس پر مسرت کا اظہار فرمایا، کلماتِ تحسین ارشاد فرمائے اور بعض مواقع پر انعام بھی عنایت فرمایا۔
(1) مصنوعات میں خوبصورتی اور معیار پر تحسین
درج ذیل روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو مصنوعات میں خوبصورتی اور معیار پسند تھا اور اس کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے۔ مصنوعات میں سے کسی بھی چیز کے اندر خوبصورتی اور معیار قائم رکھنا خود صانع کے لیے کتنی عزت، شہرت اور ترقی کا باعث ہے، وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ حضور اکرم ﷺ کی پسند اور تحسین کے پیش نظر کسی بھی چیز کی تیاری/ پروڈکشن میں خوبصورتی اور معیار کا لحاظ یقینا ’’ہم خرما و ہم ثواب‘‘ کے مترادف ہے۔
’’حضرت بکر بن عبداللہ المزنی کہتے ہیں کہ میں خانہ کعبہ کے نزدیک حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ ان کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہنے لگا: کیا بات ہے کہ میں آپ کے چچا کی اولاد کو حاجیوں کو شہد اور دودھ پلاتے دیکھتا ہوں اور تم لوگ انگورکا جوس (نبیذ) پلاتے ہو۔ کیا ایسا کسی تنگی کے باعث ہے جو تمہیں لاحق ہوگئی ہو یا بخل کی وجہ سے ہے؟ اس پر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے نہ تو ہمیں کوئی تنگی لاحق ہے اور نہ یہ کنجوسی کا نتیجہ ہے۔ دراصل نبی اکرم ﷺ اپنی سواری پر تشریف لائے جبکہ ان کے پیچھے حضرت اسامہؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے پانی طلب کیا توہم نے آپ ﷺ کی خدمت میں نبیذ کا ایک پیالہ پیش کیا تو آپ ﷺ نے اس میں سے پیا اور اس کا بقیہ حضرت اسامہؓ نے پی لیا اور (پھر خوش ہوکر) فرمایا:
احسنتم واجملتم کذا فاصنعوا.
’’تم نے بہت اچھا (شربت تیار) کیا اور بہت عمدہ بنایا۔ اسی طرح (خوبصورت اور عمدہ چیز) بنایا کرو۔ تو ہم نہیں چاہتے کہ اس چیز کو بدل دیں جس کا اللہ کے رسول ﷺ نے حکم فرمایا تھا۔‘‘
(مسلم، الصحیح، کتاب الحج باب فضل القیام بالسقایة والثناء علی اهلها، 1: 423)
(2) پروقار انداز میں ملاقات پر تحسین اور بشارت
انفرادی اور اجتماعی و قومی سطح پر اہم امور و معاملات میں غوروفکر، سوچ بچار، حوصلہ و تدبر اور باہمی مشورہ بڑی برکات اور ہمیشہ خیر کا موجب ہوتا ہے۔ جبکہ جذبات، غصے، جوش اور جلد بازی میں اٹھایا گیا قدم عام طور پر زندگی بھر کے پچھتاوے، افسوس اور نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے نبی رحمت ﷺ نے غوروفکر، حوصلے اور سوچ سمجھ کر کام کرنے کو اللہ کریم کی جانب (رحمت الہٰی سے) منسوب کیا ہے جبکہ سوچے سمجھے اور انجام پر نظر کیے بغیر کام کرنے کو شیطان کا فعل قرار دیا ہے۔ دوسرا یہ کہ کسی بھی کام میں جلد بازی اور بے صبری کا مظاہرہ اور اسے سوچے سمجھے بغیر مطلوبہ آداب کے مطابق اور احسن طریق پر سرانجام نہ دینے سے چونکہ اس میں جھول اور خامی رہ جاتی ہے اس لیے اللہ و رسول ﷺ کو پسند نہیں۔ اس حوالے سے عہد نبوی ﷺ کا ایک ایمان افروز واقعہ اور نبی رحمت ﷺ کے تاثرات ملاحظہ ہوں:
’’ام ابان بن وازع بن زارع اپنے دادا زارع بن عامر سے جو وفد عبدالقیس کے ہمراہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے، روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا:
لما قدمنا المدینة فجعلنا نتبادر من رواحلنا فنقبل ید رسول اللّٰه ﷺ ورجله.
’’جب ہم مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے تو اپنی سواریوں سے جلدی جلدی اترنے لگے اور رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک اور پائوں کو بوسہ دینے لگے۔‘‘
البتہ المنذر الاشج (رئیسِ قافلہ) نے اس طرح جلد بازی سے کام نہ لیا بلکہ پہلے اپنے صندوق/ تھیلا کے پاس آئے، اپنے کپڑے تبدیل کیے (سفر والا لباس اتار کر خوبصورت لباس پہنا) پھر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے ان سے (ان کی یہ ادا دیکھ کر) فرمایا:
بے شک تمہارے اندر دو ایسی خصلتیں ہیں جن کو اللہ پسند کرتا ہے۔ بردباری اور متانت و آہستگی۔ دوسری روایت کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا: وہ دو خصلتیں حلم اور حیا ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! کیا میں اپنے طور پر ان اخلاق/ عادات کا مظاہرہ کررہا ہوں یا اللہ نے یہ خصلتیں میری جبلت و طبیعت میں رکھی ہیں؟ فرمایا: بلکہ اللہ نے تمہیں ان خصلتوں پر پیدا کیا ہے۔ انہوں نے کہا: سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے میری جبلت و فطرت میں (خلقی طور پر) ایسی دو خصلتیں رکھ دی ہیں جن کو اللہ اور اس کا رسول ﷺ پسند کرتا ہے۔
(ابوداؤد، السنن، کتاب الادب باب قبلة الرجل، 2: 709)
تحمل و بردباری، آہستگی، انجام بینی اور پورے غورو فکر سے کام سرانجام دینا عقل و نقل کے اعتبار سے بڑی دانشمندی اور عقلمندی کی بات ہے۔ انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا کے ہر دانا اور عاقل آدمی کا ہمیشہ یہی طریق رہا ہے۔ کیونکہ اسی رویہ سے کام میں پختگی، مضبوطی، استحکام، پائیداری اور حسن و زینت پیدا ہوسکتی ہے۔
(3) گارا بنانے میں حسن کاری پر تحسین نبوی ﷺ
کسی دیوار کی تعمیر یااینٹوں کی چنائی کے لیے مٹی کا گارا بنانا کوئی قابلِ ذکر کاموں میں سے نہیں۔ مگر نبیٔ رحمت ﷺ نے اس معاملے میں بھی حسن کاری کی تحسین فرمائی۔ گویا کسی بھی کام کو احسن انداز میں سرانجام دینا حضور نبی اکرم ﷺ کو پسند تھا۔ چنانچہ جب مسجد نبوی کی تعمیر کا کام شروع تھا تو حضر موت کا ایک شخص طلق بن علی وہاں آیا۔ وہ مٹی گوندھنے اور گارا بنانے کے فن میں بڑا ماہر تھا۔ حضور ﷺ اس کی کارکردگی پر بہت خوش ہوئے اور فرمایا:
رحم اللّٰه امرا احسن صنعه.
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو جس کام کو کرتا ہے تو بڑے حسن و خوبی سے کرتا ہے۔
پھر اسے فرمایا کہ تم یہی کام کیا کرو کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اسے بڑے اچھے طریقے سے کرتے ہو۔ طلق کہتا ہے کہ میں نے کسّی پکڑلی اور گارا بنانے میں مصروف ہوگیا۔ حضور ﷺ میرے کام کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ فرمایا: اس کو گارا بنانے پر ہی رہنے دو کیونکہ یہ اس کام کو تم سے زیادہ عمدگی سے کررہا ہے۔
(الکتانی، السید محمد عبدالحی، نظام الحکومة النبویة، دار ارقم بیروت، س ن، 2: 56۔57)
(4) پختہ کار کے لیے دعائے نبوی
کسی بھی کام میں پختہ کاری اور فنی مہارت و استحکام کا مظاہرہ نبی رحمت ﷺ کو کتنا پسند ہے۔ اس کا اندازہ آپ ﷺ کی پختہ کار کے لیے اس دلی دعا سے لگایا جاسکتا ہے جو بے ساختہ آپ کی زبان پر آگئی تھی۔ چنانچہ فرمایا:
رحم اللّٰه من عمل عملاً فاتقنه.
(القرطبی، الجامع القرآن، 13: 218، تحت سورة النمل: 88)
’’اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے جو کوئی کام کرے تو اسے پختگی سے کرے۔‘‘
اس دعائِ نبوی ﷺ کے حوالے سے پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کا درج ذیل تفسیری و تشریحی نوٹ لائق مطالعہ ہے۔ سورۃ النمل کی آیت نمبر88 (صُنْعَ اﷲِ الَّذِیْٓ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْئٍ الخ) کی تفسیر میں حضور ﷺ کے مذکورہ فرمان کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:
حضور ﷺ کا امتی جو کام کرے اس میں اپنی فنی پختگی اور صنعتی مہارت کا ناقابلِ تردید ثبوت بہم پہنچائے۔ کسی کام کو نیم دلی اور بے توجہی سے کرنا یا اس میں کوئی خامی اور نقص باقی رہنے دینا ہمارے آقا ﷺ کو ہرگز پسند نہیں۔ پختگی، پائیداری اور نفاست کون سی چیز ہے جس کا ذکر حضور ﷺ کے اس فرمان میں نہ آگیا ہو۔ حضور ﷺ اپنے غلاموں سے اسی چیز کی توقع رکھتے ہیں اور اسی کی تلقین فرماتے ہیں۔ فنی، صنعتی اور دیگر میدانوں میں کام کرنے والوں کو چاہیے کہ اس حدیث کو لکھ کر اپنے سامنے آویزاں کریں۔
(محمد کرم شاہ الازهری، ضیاءالقرآن، 3: 469۔470 )
(5) ایک بچے کے خوبصورت اندازِ خدمت پر حضور ﷺ کی دعا
یہاں مذکورہ نوعیت کے ایک اور ایمان افروز واقعہ کا مطالعہ بھی بے جانہ ہوگا جس میں ایک انصاری بچے نے حضور اکرم ﷺ کی محبت و خدمت کا خوبصورت انداز اپنایا تو آپ ﷺ نے خوش ہوکر اسے دعا سے نوازا۔ اس اجمال کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ:
ایک چھوٹا انصاری لڑکا (غُلیم) ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ کے گزرنے کے راستے پر بیٹھ گیا۔ جب آپ ﷺ نماز کے لیے وہاں سے گزرے تو وہ بھی آپ ﷺ کے ساتھ چل پڑا۔ جب آپ ﷺ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ ﷺ نے اپنا بایاں جوتا اپنے دائیں پائوں کی مدد سے اتارا تو اسے اس بچے نے پکڑ لیا، اسے اپنی چادر سے صاف کیا، پھر منہ سے پھونک مار کر اس کی گرد و غبار کو جھاڑا۔ جب آپ ﷺ اپنی نماز سے فارغ ہوگئے اور آپ ﷺ نے واپس لوٹنے کا ارادہ فرمایا تو اس بچے نے آپ ﷺ کو آپ کا دایاں جوتا پکڑایا جسے آپ ﷺ نے پہن لیا، پھر اس نے آپ ﷺ کو بایاں جوتا پیش کیا تو آپ ﷺ نے اسے بھی پہن لیا، پھر یہ بچہ کئی دن تک اسی طرح اس خدمت و محبت کا مظاہرہ کرتا رہا۔
(ایک دن) اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے پوچھا: اے بچے تم کون ہو؟ اس نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، انصار میں سے ہوں۔ آپ ﷺ نے پوچھا: تمہیں اس چیز کا حکم کس نے دیا ہے؟ اس نے عرض کیا: مجھے کسی نے اس خدمت کا حکم نہیں دیا۔ میں اپنے طور پر ہی اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی خوشی و مسرت کا سامان کروں۔ اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے ہاتھ اٹھادیئے اور بارگاہ الہٰی میں عرض کیا: باری تعالیٰ یہ بچہ میری خوشی کا خواہاں ہے تو اسے دنیا و آخرت میں خوشی عطا فرمانا۔ تین مرتبہ آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی۔
(الخرکوشی، النیساپوری، شرف المصطفی، جامع ابواب صفة اخلاقه وآدابه فصل فی کرمه مع اصحابه و اکرامه لهم، 4: 536، رقم: 1866)
اسی قسم کے خوبصورت اندازِ محبت یا حسن کاری اور حضور ﷺ کی دعا پر مشتمل ایک روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے کہ ایک دن نبی اکرم ﷺ نے انصار کے ایک لڑکے سے فرمایا: (بیٹا)! مجھے میرا جوتا پکڑا دو تو اس لڑکے نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی ﷺ ! میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، آپؐ مجھے اجازت فرمایئے کہ میں خود آپ ﷺ کے پائوں مبارک میں دونوں جوتے پہنائوں۔ اس پر خوش ہوکر اللہ کے رسول ﷺ نے اس بچے/ لڑکے کے لیے یوں دعا فرمائی:
اللهم ان عبدک هذا یترضاک، فارض عنه.
(ایضاً، 4: 537)
’’اے اللہ! بے شک تیرا یہ بندہ (اس عمل کے ذریعے) تیری رضا و خوشنودی چاہتا ہے۔ پس تو بھی اس سے راضی ہوجا۔‘‘
(8) خاوند کے ساتھ حسنِ معاشرت پر جہاد کے ثواب کی نوید
ایک عورت کا بنیادی اور اصولی فریضہ گھر کو عمدہ طریقے سے سنبھالنا، بچوں کی تعلیم و تربیت، گھر کی نگرانی، امور خانہ داری کی احسن طریقے سے انجام دہی، خاوند کی اطاعت و فرمانبرداری اور حسنِ معاشرت ہے۔ اگر وہ اپنے اس بنیادی فرض میں حسنِ کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے تو نبی رحمت ﷺ نے اس رویے یا حسن کاری کی ترغیب کے لیے اسے جہاد فی سبیل اللہ کے مترادف قرار دیاہے۔
چنانچہ ایک بار ایک خاتون نے نبی رحمت ﷺ سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ ﷺ! مرد تو تلوار اٹھا کر جہاد کرتے ہیں اور زندگی یا شہادت دونوں صورتوں میں بڑا مرتبہ پاتے ہیں، ہم اس لیے اس اجرو ثواب سے محروم رہ جاتی ہیں کہ عورتوں پر جہاد فرض نہیں۔ اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
وجهاد المرأة حسن التبعل لزوجها.
(شعب الایمان)
’’اور عورت کا جہاد گھر کے ماحول کو سازگار بنانا، اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اور اس کے ساتھ حسنِ معاشرت ہے۔‘‘
حاصلِ کلام
دین دنیا کے کسی بھی کام میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے عقلاً اور نقلاً ضروری ہے کہ اسے پورے غورو فکر سے، سوچ سمجھ کر، انجام کو مدنظر رکھ کر پورے اطمینان و حوصلے سے اور پروقار انداز میں سرانجام دیا جائے ورنہ وہ کام بدصورت ہی نہیں خراب بھی ہوگا اور انسان کی ساری محنت رائیگاں جائے گی۔ ایک حدیث نبوی ﷺ میں غورو فکر اور بردباری سے کام سرانجام دینے کو پیغمبرانہ وصف قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن سرجس المزنی روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
السمت الحسن والتودة والاقتصاد جزء من اربعة وعشرین جزء من النبوة.
(ترمذی، الجامع، ابواب البر والصلة باب ماجاء فی التانی والعجلة، 2: 464، رقم: 1970)
’’خوبصورت طرز عمل/ روش، غورو فکر اور بردباری سے کام کرنا اور (تمام امور میں) میانہ روی نبوت کا چوبیسواں جزء ہے۔‘‘
جبکہ ایک دوسری حدیث میں نبی رحمت ﷺ نے غوروفکر اور بردباری سے کام سرانجام دینے کو اللہ کی جانب سے القاء کے مترادف اور سوچے سمجھے بغیر جلد بازی کے مظاہرہ کو شیطانی وسوسہ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اللہ کے پاک رسول ﷺ نے فرمایا:
الاناة من اللّٰه والعجلة من الشیطان.
(ایضاً، 2: 465، رقم: 1972)
’’آہستگی، بردباری اور غوروفکر سے کام کرنا اللہ کریم کی طرف سے جبکہ جلد بازی سے کام لینا شیطان کی طرف سے ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں دین و دنیا کے ہر معاملہ کو حُسن و نظم، نفاست، عمدگی، پختگی اور سلیقہ و قرینہ کے ساتھ سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ