ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
جرح وتعدیل کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہے کہ جس طرح جرح و تعدیل میں تین طبقات؛ متشدد، معتدل و متوسط اور متسامح (نرم) ہیں، اسی طرح جرح و تعدیل کے درج ذیل کچھ اصول و ضوابط اور قواعد ہیں، جنھیں پیشِ نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے:
1۔ کسی سند کی جرح وتعدیل کے وقت دیکھا جائے گا کہ جارح کا تعلق کس طبقے سے ہے؟ متشدد جارح کی جرح کا حکم اور ہوگا اور معتدل یا متساہل جارح کا حکم اور ہوگا۔ مثلاً: ابن ابی حاتم، امام نسائی اور علامہ ذہبی متشدد جارح ہیں جبکہ امام حاکم متساہل و متسامح جارح ہیں اور امام بخاری و امام مسلم معتدل جارح ہیں۔
2۔ دوسرا قاعدہ یہ ہے دیکھا جائے گا کہ جرح مبہم ہے یا مفسر؟ جب یہ پردہ اٹھے گا تو اُس جرح کے پیچھے بہت سارے مخفی حقائق سامنے آئیں گے، تب جا کر محدث، مجتہد یا عالم کسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ روایت کو قبول کرنا ہے یا نہیں؟
بعض اوقات جرح کا سبب مذہبی اختلاف، تعصب اور معاصرت (ہم زمانہ) بھی ہوتی ہے۔ علماء، محدثین، فقہاء، جرح وتعدیل کے سب امام بشر اور انسان تھے۔ ان علماء میں سے کوئی پیغمبر نہیں تھا۔ خطا سے معصوم صرف پیغمبر کی ذات ہوتی ہے۔ اس لیے یہ امر ذہن نشین رہے کہ جرح کرنے والے کی جرح میں بھی خطا ہو سکتی ہے اور تعدیل کرنے والے کی تعدیل میں بھی خطا ہو سکتی ہے۔ اُس کے اسباب میں مذہبی تعصب اور عناد بھی ہوتا ہے، ذاتی اختلاف بھی ہوتا ہے کہ جب کسی حدیث، فقہی مسئلہ یا کسی معاملے پر اختلاف ہو گیا تو طبیعت ایک دوسرے کے خلاف ہوگئی، اِس لیے جب جرح دیکھیں تو دیکھنا ہے کہ جرح کرنے والا کون ہے اور جرح مفسر ہے یا غیر مفسر ہے؟
3۔ جرح کا تیسرا قاعدہ یہ ہے کہ جس پر جرح کی گئی ہے، جارح کا درجہ اس سے اونچا ہو، اس لیے کہ چھوٹا بڑے پر کیا جرح کرے گا۔
امام احمد بن حنبل کا قول حافظ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں روایت کیا ہے کہ:
کل رجل ثبتت عدالته لم یقبل فیه تجریح أحد. حتی یتبین ذلک علیه بأمر لایحتمل غیر جرحه.
(عسقلانی، تهذیب التهذیب، 7: 241)
ہر وہ ہستی جس کی عدالت (دوسرے مقام پر کہتے ہیں جس کی امامت، جلالت اور ثقاہت) ثابت ہو گئی ہو اُس پر کسی شخص کی جرح کو قبول نہیں کیا جاتا۔ حتیٰ کہ جرح غیر محتمل ہو جائے، اُس میں کوئی احتمال نہ رہے۔
جرح کے قابلِ قبول ہونے کا معیار
جرح کے اس تیسرے قاعدے کے حوالے سے درج ذیل اقوال پر غور فرمائیں، جن سے ایک طرف جرح و تعدیل کا اصول سمجھ میں آتا ہے تو دوسری طرف یہ امر واضح ہوتا ہے کہ کبار ائمہ سے بھی حسد و عداوت کا اظہار کیا گیا اور اسی عداوت کے پیشِ نظر اس دور کے دیگر علماء نے ائمہ پر فتوے لگائے مگر ان کے فتاوٰی کو ان کی عداوت، حسد اور معاصرت کے پیشِ نظر قبول نہیں کیا جائے گا:
1۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
استمعوا علم العلماء ولا تصدقوا بعضهم علی بعض.
(الیواقیت والدرر، 2:3۶۹)
علماء سے علم لیاکرو، لیکن اگر ایک عالم دوسرے عالم کے خلاف بول رہا ہو تو کبھی تصدیق نہ کرو۔
یعنی علماء؛ علماء کے خلاف جب بات کریں تو اُسے رد کر دیں۔ علماء سے علم لیں مگر غیبت اور تہمت نہ لیں۔ اگر وہ ایک دوسرے کے خلاف اپنی تقریر، تحریر، خطاب اور جلسوں میں بات کررہے ہوں تو اُن کی تصدیق نہ کرو۔
2۔ حضرت مالک بن دینارؒ نے ارشاد فرمایا:
یؤخذ بقول العلماء والقراء في کل شيء إلا قول بعضهم في بعض.
دین کے بارے میں علماء کی ہر بات قبول کر لو مگر کوئی عالم اگر دوسرے عالم کے بارے میں کوئی منفی بات کرے تو کبھی قبول نہ کرنا۔
کیوں؟ اس لیے کہ اُس کے پیچھے حسد، عداوت، عناد، معاصرت اور مسلکی و مذہبی اختلاف ہو سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ غیبت کرنے والا یا تہمت لگانے والا یہ سوچتا ہو کہ ’’فلاں عالم اتنے اونچے مقام پر پہنچ گیا جبکہ میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ ہم ایک ہی زمانہ، شہر، ملک اور ایک ہی عمر کے ہیں مگر میری بات کوئی نہیں سنتا جبکہ اسے لوگ آسمان پر بٹھاتے ہیں؟‘‘ یہ معاصرت بندے کو غیبت، تہمت اور مخالفت پر اکساتی ہے، اِس لیے ائمہ نے فرمایا کہ علماء کی ایک دوسرے کے خلاف بات کی تصدیق نہ کرو۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ یہ بات اولیاء کی فرمائی ہوئی نہیں ہے، وہ تو حسنِ ظن کا پیکر ہوتے ہیں بلکہ یہ قول محدثین اور جرح کرنے والوں کا ہے۔
3۔ امام مالک کے شاگرد عبداللہ بن وھب کا قول ہے کہ:
أنه لا یجوز شهادة العلماء علیٰ العلماء.
(ابن عبدالرفیع، معین الاحکام)
علماء کی گواہی علماء کے خلاف قبول نہیں کی جائے گی۔
یعنی علماء کی گواہی غیر علماء کے خلاف قبول ہے مگر علماء کی گواہی علماء کے خلاف قبول نہیں ہو گی۔
کبار ائمہ کی مقبولیت کے پیشِ نظر اُن سے حسد کیا جانا
علماء کی گواہی دوسرے علماء کے خلاف اس لیے قبول نہیں کہ:
لأنهم أشد الناس تحاسدا وتباغضا.
اُن میں ایک دوسرے کے بارے میں بےپناہ حسد اور بغض ہو گا۔
یہ حسد اُن پر غلبہ پالیتا ہے کہ جو چیز کسی دوسرے کو مل گئی، وہ مجھے کیوں میسر نہیں آئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ کبار ائمہ سے حسد کیا گیا۔ حتی کہ امام اعظم اور امام بخاری سے بھی حسد کیا گیا۔ ذیل میں اس سلسلہ میں چند واقعات درج کیے جاتے ہیں:
(1) الفاظ قرآن کے مخلوق یا غیرِ مخلوق ہونے کے حوالے سے امام بخاریؒ سے اختلاف کی بناء پر ائمہ کا روایات لینے سے انکار
امام بخاری اپنے شیخ محمد بن یحییٰ الذھلی سے ملاقات کے لیے نیشاپور گئے۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں امام الذھلی سے دو درجن سے زائد احادیث روایت کی ہیں۔ امام ذھلی نے اپنے شاگردوں کو جن میں امام مسلم بھی شامل تھے، بلایا اور فرمایا کہ محمد بن اسماعیل بخاری، نیشاپور آ رہا ہے، میں اُن کے استقبال کے لیے جاؤں گا، آپ میں سے بھی جو جانا چاہے، اسے اجازت ہے، جائے مگر ایک بات سن لیں کہ امام بخاری سے دروسِ حدیث سنیں مگر کوئی اُن سے قرآن کے الفاظ کے مخلوق یا غیرِ مخلوق ہونے کے بارے میں سوال نہ کرے۔ اُس زمانے یہ بحث عام تھی کہ قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں یا غیر مخلوق ہیں؟ امام احمد بن حنبل کو بھی اس مسئلہ پر کوڑے لگے۔
اس لیے کہ اگر امام بخاری نے ہماری رائے سے مختلف جواب دے دیا اور اُنہوں نے وہ کہا جو میرے فتویٰ سے مختلف ہے تو پھر ہماری آپس میں ٹھن جائے گی۔ پھر یہ محبت کا رشتہ نہیں رہے گا اور ہم ٹکرا جائیں گے۔ اس لیے کہ بہتر ہے کہ علمِ حدیث سنیں مگر اُن سے یہ مسئلہ نہ پوچھیں۔
پہلے دن درس حدیث ہوا، لوگوں کے ایک ہجوم نے درس حدیث سماعت کیا۔ دوسرے یا تیسرے دن کسی ایک شخص نے قرآن کے الفاظ کے بارے میں سوال کر دیا۔ امام بخاری نے اپنی تحقیق کے مطابق اس کا جواب دے دیا۔ بس جواب سنتے ہی وہاں لڑائی شروع ہوگئی، بحث و مباحثہ شروع ہوگیا اور بعد ازاں نوبت ہنگامہ و فساد تک جاپہنچی۔ شیخ محمد بن یحییٰ الذھلی کو خبر ملی تو اُنہوں نے اعلان کردیا کہ آج کے بعد ہمارے تلامذہ میں سے کوئی اُدھر نہ جائے۔ جو اُدھر جائے گا، وہ ہماری مجلس میں نہیں آ سکتا۔
شیخ محمد بن یحییٰ الذھلی نے امام مسلم کو بھی روک دیا کہ آج کے بعد امام بخاری کے پاس نہیں جانا۔ یہ دونوں حضرات امام مسلم کے شیوخ تھے۔ امام ذھلی کے حکم کے بعد امام مسلم پھر دوبارہ کبھی امام بخاری کے پاس نہیں گئے۔ امام مسلم کے پاس امام بخاری کے طریق سے جو روایات ہیں، وہ اس واقعہ سے پہلے کی ہیں۔ امام مسلم نے ایک طرف امام بخاری کو چھوڑ دیا تو دوسری طرف امام محمد بن یحییٰ الذھلی کے پاس جانا بھی چھوڑ دیا اور کہا کہ وہ اب شیخ محمد بن یحییٰ ذھلی اورامام بخاری دونوں کی روایات نہیں لیں گے۔
میں نے یہ صرف ایک واقعہ بتایا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ امام ابن عبدالبر مالکی (التمھید)، حافظ ابن حجر عسقلانی (تہذیب التہذیب)، علامہ ذہبی (میزان الاعتدال) ، علامہ مزی (الکمال) اور خطیب بغدادی (تاریخ بغداد) الغرض اسماء الرجال کے ائمہ نے اپنی کتب میں اس طرح کے بے شمار واقعات درج کیے ہیں۔
(2) امام بخاری کی نیشا پور سے بخارا واپسی
امام بخاری کا قرآن کے الفاظ کے بارے میں مؤقف چونکہ ایک دقیق بحث تھی اور ہر ایک کی سمجھ میں آنے والی نہ تھی، لہذا جس نے اسے آگے بیان کیا، وہ اسے اس انداز کے مطابق بیان نہ کرسکا جو امام بخاری کی رائے تھی، اس نے کچھ اور ہی بات امام بخاری کی طرف منسوب کردی۔ نتیجتاً فتنے پیدا ہوگئے اور بالآخر امام بخاری کی اِتنی مخالفت ہوئی کہ اُن کو نیشاپور سے نکال دیا گیا اور وہ پلٹ کر واپس بخارا آ گئے۔
جن علماء نے امام بخاری کو نکالا، وہ بھی اُس دور کے علماء، محدثین اور اہلِ علم تھے، جو اپنے فتویٰ کے مخالف جانے والوں کو گمراہ کہتے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے لوگ اگر امام بخاری پر جرح کریں تو کیا ان کی جرح قبو ل کر لیں گے؟ نہیں، اس لیے کہ وہ مذکورہ مسئلہ پر امام بخاری سے اختلاف کے باعث ہر مسئلہ پر کہہ دیں گے کہ امام بخاری ایسا ہے، کتابوں میں یہ یہ لکھا ہے، فلاں فلاں نے امام بخاری کو ترک کر دیا، مثلاً: ابن ابی حاتم کے صاحبزادے کہتے ہیں میرے والد نے امام بخاری کو ترک کر دیا، ابو زرعۃ نے ترک کر دیا۔ تو کیا ان ائمہ کے کہنے سے امام بخاری کی حدیث متروک ہو جائے گی؟ نہیں، بلکہ دیکھا جائے گا کہ جس نے ترک کیا ہے اُس کا اپنا درجہ کیا ہے ؟ اس نے کیوں ترک کیا؟ کب ترک کیا؟ ترک کا سبب کیا بنا؟ پس اِس طرح تحقیق کی جاتی ہے کہ کیا قبول کرنا ہے اور کیا قبول نہیں کرنا ہے؟
(3) امام بخاری کی بخارا سے جلا وطنی
امام بخاری کے حوالے سے ایک اور بات جو بہت ہی کم علماء کو معلوم ہے کہ امام بخاری نے بخارا میں اپنی نوجوانی کے ایام میں ابتدائی سولہ سال کی عمر تک امام ابو حفص الکبیر سے تعلیم حاصل کی۔ جامع سفیان الثوری، امام عبداللہ بن مبارک کی کتابیں، امام وکیع بن الجراح کی کتابیں اور امام اعظم ابو حنیفہ کی فقہ حنفی کے بارے میں امام بخاری نے امام ابو حفص الکبیر سے ہی پڑھا تھا۔ آپ یہ جان کر حیران ہو جائیںگے کہ امام ابو حفص الکبیر براہ راست امام محمدبن حسن شیبانی کے شاگرد تھے۔ امام محمد بن حسن شیبانی؛ امام اعظم ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں۔ یعنی امام ابو حفص الکبیر، امام اعظم رضی اللہ عنہ کے پوتے شاگرد تھے جن سے فقہ کی کتابیں امام بخاری نے اپنی نوجوانی میں پڑھیں۔
امام ابو حفص الکبیر کے بیٹے جنہیں ابو حفص الصغیر کہتے ہیں، یہ بھی بخارا سے نیشاپور جاتے ہوئے امام بخاری کے ساتھ اُس سفر میں تھے۔ جب قرآن مجید کے الفاظ کے بارے میں امام بخاری کے قول کی وجہ سے جو جھگڑا ہوا، آپ پر فتوی لگا اور آپ کو نیشا پور سے نکالا گیا تو امام ابو حفص الصغیر نے ہی واپس آ کر بخارا کے علماء کو بتایا کہ یہ واقعہ ہوا۔ اس واقعہ کو سن کر بخارا کے علماء بھی امام بخاری کے مخالف ہوگئے۔
اس لیے کہ فتویٰ جب آگے چلتا ہے تو کچھ کا کچھ بن جاتا ہے۔ قائل نے کچھ کہا تھا مگر سننے والے نے کچھ اور سمجھا اور اُس نے جس کو بیان کیا، اُس نے کچھ اور سمجھا۔ اس طرح اصل قول کے برخلاف کوئی نئی کہانی بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سند کی ضرورت پڑتی ہے کہ کوئی راوی ضعیف تو نہیں ہے، اُس نے حافظے کی کمزوری کی وجہ سے کوئی لفظ اوپر نیچے تو نہیں کر دیا، اُس نے اپنی سمجھ اور فہم کی کمزوری کی وجہ سے مفہوم اورمعنی تو نہیںبدل دیا۔ حدیث لفظاً روایت کی گئی ہے یا معناً کی گئی ہے؟ گویا ایک ایک بات کو باریکی کے ساتھ پرکھا جاتا ہے۔
امام بخاری کے ساتھ یہی کچھ ہوا کہ جب نیشاپور سے بات بخارا پہنچی تو کچھ کی کچھ بن چکی تھی، نتیجتاً وہاں کے علماء نے بھی امام بخاری کو بخارا سے نکال دیا۔ پھر آپ بخارا سے باہر کئی میلوں کے فاصلے پر موجود ایک گاؤں میں مقیم ہوئے اور آخری عمر تک وہیں مقیم رہے، وہیں آپ کا مزار ہے۔ لوگ بعدازاں وہیں آتے اور کسبِ فیض کرتے تھے۔
علامہ ذہبی نے سیراعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ ایک وقت یہ تھا کہ بخارا والوں نے آپ کو جلا وطن کردیا اور جب یہ وقت گزر گیا تو پھر دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک دفعہ بخارا میں سخت قحط تھا، نماز استسقاء کے باوجود بارش نہیں ہوئی تھی۔ اولیاء اور صالحین میں سے کسی نے کہا: چلو امام بخاری کے مزار پر جا کر دعا کرو۔ بخارا کے تمام لوگ امام بخاری کے مزار پر آئے، دعا کی تو بارش ہوگئی۔ بعد ازاں وہ لوگ صحیح بخاری پڑھتے تھے اور اس کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے تھے تو بارش ہوتی تھی۔
بتانا مقصود یہ ہے کہ ایک زمانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مخالفت کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔
الفاظِ قرآن کے حوالے سے بھی امام بخاری کے خلاف ایک عجیب سی علمی تعصب کی فضا بن گئی کہ جو عالم حدیث کسی شہر میں پڑھانے آتا جو سفیان بن عیینہ، سفیان ثوری، حماد بن زید، عبدالرحمن بن مہدی اور دیگر ائمہ سے پڑھا ہوتا تو علماء اس کی آمد کا سُن کر جمع ہوتے اور بجائے اِس کے کہ وہ اُن سے حدیث پوچھیں، وہ سب سے پہلے پوچھتے تھے کہ بتاؤ امام بخاری کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں یا غیر مخلوق؟ اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ یعنی ایسا ماحول بن جاتا کہ سارا علم پیچھے رہ جاتا ہے اور ایک فتویٰ کے پیچھے دنیا چل پڑتی۔ اگر کوئی محدث یہ کہہ دیتا کہ الفاظ قرآن غیر مخلوق ہیں تو اُس سے حدیث سنتے تھے اور اگر کوئی محدث علماء کے اس سوال کے جواب میں امام بخاری کے موقف کے مطابق مؤقف اختیار کرتا تو اس پر بھی فتویٰ لگادیتے۔ اس طرح اگر کوئی ان کے سوال کے جواب میں خاموش رہتا اور سکوت اختیار کرتا تو وہ اِس سے حدیث ہی نہ سنتے اور کہتے کہ اپنی زبان سے کہو کہ جو الفاظِ قرآن کو غیر مخلوق نہیں کہتا، وہ کافر ہے۔ اگروہ کافر کہنے میں تامل کرتا تو لوگ کھڑے ہو جاتے اور کہتے:
من شک في کفره فقد کفر.
اگر کافر کہنے میں تمہیں شک ہے تو تم بھی کافر ہو۔ یعنی اِس انتہاء تک چلے جاتے۔
(جاری ہے)