انسانی امتیاز کا قرآنی پس منظر
جب تخلیقِ آدم کا مرحلۂ تشکیلِ خمیرِ بشریت آیا تو خالقِ ارض و سماوات نے عزرائیل علیہ السلام کو فرشِ ارضی تا تحت الثریٰ یک مشت خاکِ طبقاتِ ہفت پیش کرنے کا حکم دیا، سو عزرائیل علیہ السلام نے تعمیلِ حکمِ یزدانی میں یک مشت مٹی حاضر خدمتِ الٰہِ عظیم کر دی۔ یہاں ایک لطیف نقطۂ منطقی صفحۂ قرطاس پر ثبت کرنے لگا ہوں کہ
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انسان اس مٹی سے تخلیق ہوا ہے جو سات طبقات ارضی کا مجموعہ تھی۔ علاوہ ازیں خالقِ عظیم نے تین مزید مرکبات کو خاکِ مطلوبہ میں داخل کیا جن میں آگ، پانی اور ہوا شامل ہیں۔ تخلیقِ آدم سے قبل مٹی، آگ، پانی اور ہوا موجود تھے۔ اسی عناصرِ اربعہ کے مرکباتی ملغوبہ سے خمیرِ آدم تشکیل دیا گیا۔ قارئین یہ وضاحت کرتا چلوں کہ لفظ ملغوبہ کی وجۂ تسمیہ کیا ہے اور کیوں زینتِ قرطاس بنایا گیا ہے؟ مٹی، آگ، پانی اور ہوا ہر چہار عناصر کی علیحدہ علیحدہ تاثیر ہے اور ہر عنصر ایک الگ حرکت پذیری رکھتا ہے۔ مگر حیرت ناک کرشمۂ خدائی کے باعث ہر عنصر کا ایک الگ فطری ردِ عمل کا حامل ہونے کے باوجود ایک قالب آدمِ خاکی میں مقید ہو کر اپنے ردِ عمل سے معذور ہونا اور ایک دوسرے پر تاثیری اعتبار سے غلبہ حاصل کر لینا اور ایک خاص سمجھوتے کے تحت خاص دائرہ کار میں مشغول رہنا، سبھی خدا تعالیٰ کی تخلیقی حکمت اور ضرورت ہے کیونکہ تاثیری حیرت ناکی یہ ہے کہ:
1۔ انسانی جسم میں عنصر اول مٹی (تراب) Inorganic matter پستی پسند عنصر ہے۔ مٹی اوپر جاکر بھی پست نشینی اختیار کرتی ہے۔
2۔ انسانی جسم میں عنصر دوم ’’آگ‘‘ (fire) ہے۔ جس کی تاثیر حرارت ہے اور آگ کی فطرت بلندی کی طرف مائل ہونا ہے۔ قرآنی نقطہ یاد کریں کہ یہ وہی حرارت ہے جس نے مٹی کے گارے کو ٹھکری کی طرح بجنے والا بنایا۔
3۔ انسانی جسم میں موجود عنصر سوم پانی (water) ہے جو بے رنگ، بے ذائقہ اور بے بو ہونے کے باوجود اہمیت اور تاثیری اعتبار سے بحالیٔ زندگی کا ایک اہم جز ہے۔ انسانی جسم میں تقریبا 70 فی صد پانی موجود ہے اور پانی کی ایک تاثیر یہ ہے کہ قرآنی نقطہ نظر سے یہ ایک طرف وجۂ زندگی اور وجۂ تخلیق ہے اور دوسری طرف پانی ایک فطرتی تاثیر یہ بھی رکھتا ہے کہ جب بپھر جائے تو بڑے بڑے بند توڑ دیتا ہے۔ جب سیلاب بن جائے تو اس کے سامنے نبرد آزمائی بے سود ہے اور پھر ضرورت کے وقت وہ اپنا راستہ خود بناتا ہے اور روکنے پر نہیں رکتا۔ اگر عقلی حوالے استعمال کیے جائیں تو جس برتن میں ڈالو، اس کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور وہی پانی حکمِ الٰہی سے ابرِ رحمت کی صورت میں زندگی بن کر برستا ہے۔
4۔ انسانی جسم میں عنصر چہارم ہوا (air) ہے۔ ہوا انسانی جسم میں زندگی کی حامل شے اور عجوبہ قدرت ہے۔ حیاتِ انسانی کا نظامِ تنفس یہی ’’ہوا‘‘ ہے۔ انسان ایک منٹ میں زندہ رہنے کے لئے اٹھارہ مرتبہ سانس لیتا ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ:
سانس کیا ہے؟ جی ہاں، سانس حبابِ باد ہے یعنی وہ ہوا ہے جو مخصوص، محدود اور مقررہ وقت میں اندر جاکر باہر آتی ہے۔ جس سے ایک سانس کا فطری دورانیہ تکمیل پذیر ہوتا ہے۔ ہوا بھی بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ ہونے کے باوجود زندگی رسانی کے علاوہ زمیں سے جانبِ افلاک سفر طے کرتی ہے۔ بپھر جائے تو پانی اور آگ کی طرح بے قابو ہو جاتی ہے اور اگر مٹی بھی اپنی مرکبی اصلیت چھوڑ دے تو یہی ہوا اسے زمیں سے آسمان کی طرف لے جاکر چھوڑ دیتی ہے۔ اگر مٹی پر ہوا غالب آ جائے اور اسے اڑا کر لے جائے تو ایک طوفانِ خاکی جسے آندھی کہتے ہیں، اس کا سبب بن کر تباہی کا موجب بنتی ہے۔ یہ امر قابلِ صد غور ہے کہ جب ہوا سانس کی صورت اندر جاتی اور باہر آتی ہے اور نفسی سلسلہ بحال رہتا ہے اور جب ہوا اندر سے باہر آکر پھر اندر نہ جائے تو زندگی کی گھڑی تھم جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔
الغرض کہ مٹی سراپا خنکی، آگ کلیتاً حرارت، پانی مرطوب اور ہوا رطوبتِ جسمانی کو اڑانے والی یعنی کہ سب کے سب ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ایک دوسرے کی ضد ہونے کے باوجود خدا عظیم نے انہیں جسمِ انسانی میں مقید کرکے اپنی منشائِ ربوبیت کے تحت اپنے اپنے کاموں میں مصروف کر رکھا ہے۔ ہاں! اگر عقلِ انسانی کا غلبہ رہے تو انسان ان عناصرِ اربعہ کو اپنی مرضی سے اپنے تابع رکھ سکتا ہے۔
جی ہاں جب خمیرِ آدم بشریت کے مختلف مراحل سے گزر کر منشائِ ایزدی کے مطابق پاک و صاف اور مزکیٰ و مصفیٰ ہو چکا اور اپنی مصفیٰ جوہری حالت کو پہنچا تو خالقِ ارض و سماوات و جن و انس نے creation of first man روئے زمین پر پہلے انسان کی تخلیق فرمائی(احسن تقویم پر پیدا کیا)۔ عظیم شاہکارِ انسانی کو اسمِ آدم علیہ السلام سے گردانا گیا اور قرآنی نام، آدم ٹھہرایا گیا۔ پھر خالقِ عظیم نے اپنی خاص حکمت اور منشاء کی تکمیل کے لئے اپنے خاص فضل کے تحت روئے کائنات کی تمام اشیاء کے نام قلب و ذہنِ آدم علیہ السلام کو سکھا دیئے۔ قرآن عظیم مخاطب ہوا:
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَةِ فَقَالَ اَنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰٓؤُلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo
(البقرة، 2: 31)
اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو۔
اسی طرح ایک اور مقام پر قرآن کہتا ہے:
قَـالُوْا سُبْحٰنَکَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُo
(البقرة، 2: 32)
فرشتوں نے عرض کیا: تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے، بے شک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے۔
خالق کائنات نے حکمتِ ثلاثہ کے تحت فرمایا:
یٰـاٰدَمُ اَنْبِئْهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ ج فَـلَمَّآ اَنْبَاَهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّـکُمْ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لا وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَo
(البقرة، 2: 33)
اے آدم! (اب تم) انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرو، پس جب آدم (علیہ السلام) نے انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کیا تو (اللہ نے) فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہوo
پھر خالقِ ارض و سماوات نے حکمتِ اربعہ کے تحت فرمایا:
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِکَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلآَّ اِبْلِیْسَ ط اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَo
(البقرة، 2: 34)
اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور (نتیجتاً) کافروں میں سے ہوگیا۔
دعا و استدعائے بنی نوع آدم کا قرآنی اسلوب
احباب محتشم! آپ کو طویل تمہید عنوان سے گزارنے کا مقصد منشائِ الوہی اور حکمتِ یزداں آشکار کرنا ہے۔
وہ خاص حکمت یہ ہے کہ بنی نوعِ آدم کو اشرف المخلوقات اور مخلوقاتِ عالم میں سرفراز و عفت مآب بنایا۔ اس کی قرآنی استدلالی وجہ جو قرآن نے خود فرما دی ہے کہ وہ فقط فوقیتِ علم ہے۔ اس علم سے مراد جو کتابوں اور استادوں کا پڑھایا ہوا علم ہرگز ہرگز نہیں ہے بلکہ علمِ لدنی ہے جو کسی استاد سے پڑھے بغیر القائِ قلب و ذہن ہو۔ یاد رکھیں کہ اسی علمی عطائے خاص اور القائے الوہی اور الہامی نے انسانِ اول حضرت آدم علیہ السلام کو مقرب فرشتوں میں ممتاز و مرتفع کر دیا۔ نجانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ علمِ لدنی اور علمِ غیب فقط خداوند کریم کی عطا اور آقائے دو جہاں ﷺ کی میراث ہے۔ تاہم جس پر فضل اور خیراتِ الوہی ہو جائے وہ نوازا جاتا ہے اور قرآن نے سورہ فاتحہ میں دو طبقاتِ بنی نوع آدم کی نشاندہی بھی فرما دی ہے۔ ملاحظہ ہو:
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo
(الفاتحه، 1: 5)
ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
بروئے قرآن پہلا انسانی طبقہ:
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ لا عَلَیْهِمْo
(الفاتحه، 1: 6)
اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایاo
بروئے قرآن دوسرا انسانی طبقہ:
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ.
ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے۔
(الفاتحه، 1: 7)
بروئے قرآن تیسرا انسانی طبقہ:
وَلاَ الضَّآلِّیْنَo
(الفاتحه، 1: 7)
’’اور نہ ہی گمراہوں کا۔‘‘
اگرچہ تیسرا طبقہ دوسرے طبقے میں بھی شمار ہوتا ہے، تاہم ہم نے یہاں وضاحت کے لیے الگ طبقے کے طور پر بیان کیا ہے۔
جب تخلیقِ آدم علیہ السلام ارتقائی مراحل سے بتدریج گزرنے کے بعد تکمیل و منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوئی اور خالقِ ارض و سماوات نے خاص روح پھونکی۔ اس کا حکمِ قرآنی ملاحظ ہو:
فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَo
(الحجر، 15: 25)
پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا۔
سو حکمِ یزدانی پر ایسا ہی ہوا۔ سب فرشتے حضرت جبریل علیہ السلام کی قیادت میں سجدہ میں پڑ گئے۔ قابلِ ذکر جو بات میری دانست میں ہے وہ یہ کہ اس سجدۂ تعظیمی اور مرتفاعیٔ آدمیت کا سبب اور وجہِ فوقیت اشرف المخلوقی علم لدنی (خدا تعالیٰ کی طرف سے علم خاص) تھا۔
اب ہم قرآنی ہدایت کی روشنی میں روحانی، علمی، کرامتی اور فیوضاتی عطاؤں کے حامل نابغہ عصر، الماسِ علمی فیض یاب خیراتِ علمِ لدنی اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کی عملی تفسیر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کا ذکر کریں گے۔
جب خالق نے آدم علیہ السلام کو اشرف المخلوقی عطا کی جس کی منطقی اور حقیقی وجہ فقط مقصدِ تخلیقِ کائنات، روحِ جانِ عالم ہائے ہفت، محبوبِ خدا حبیب کبریا ﷺ محمد رسول اللہ کا شرفِ انسانیت اور فضیلتِ بشریت کے لباسِ نور میں ملبوس عالمِ اجسام میں نور افروز ہونا ہے۔ تاہم اشرف المخلوقی امتِ محمدیہ کے پیش نظر آدم علیہ السلام کو مولائی صفات کے روحانی کمالات ودیعت کرکے اپنے مقرب فرشتوں سے افضل ثابت کرنے کے لئے علمِ لدنی یعنی کل اشیاء کے اسماء سکھائے اور دو فضیلتیں ودیعت فرمائیں:
- تزکیہ نفس
- تصفیہ باطن
شیخ الاسلام نے فرشتوں سے شرفِ فضیلت کا سبب تزکیہ نفس اور تزکیہ باطن کو گردانا ہے۔ تخلیق آدم کے وقت ابلیس نے مقربِ بارگاہ ہونے کے باوجود حکمِ الہی (خالق) کی حکم عدولی کرکے تزکیہ نفس اور تزکیہ باطن کی نفی کر دی اور راندہ درگاہ ہوگیا۔ آدم علیہ السلام نے حکمِ الوہی صدقِ روح سے تسلیم کرکے تزکیہ نفس اور تزکیہ باطن کا ثبوت دیا۔
انسانی امتیاز کا معاشرتی اصلاحی پس منظر
مخفی سرِ انسانیت اصولی اور ایمانی طور پر فقط دو چیزوں میں مضمر ہیں:
- اخلاقِ حسنہ
- علمِ نافع
کیونکہ ہمارے آقائے دو جہاں سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا: اخلاقِ حسنہ ایمان کی پہچان اور خوب سیرتی انسان کی شان ہے۔ حضور انور کے اخلاقِ طیبہ ہمارے لئے عملی اور کامیاب زندگی گزارنے کی ایمانی ضمانت ہیں۔ ارشاد فرمایا:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo
(القلم، 68: 4)
اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔
اور جب حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضور نبی اکرم ﷺ کے اخلاق کے بارے دریافت کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
کان خلقه القرآن.
سارا قرآن (یعنی اُس کی ہر آیت) حضور ﷺ کا اخلاق ہے۔
اخلاقی برتری اور فضیلت ہی انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز و مرتفع کرتی ہے کیونکہ طبعی اعتبار سے اور وجود کے لحاظ سے انسان دوسرے حیونات سے مختلف نہیں، لیکن جو چیز انسان کو حیوان سے اوپر اٹھاتی ہے اور اسے اشرف المخلوق کے درجہ پر تمکن عطا کرتی ہے، ان میں سے ایک اخلاقِ کامل ہے۔ اخلاقِ کامل میری نظر میں اسوۂ رسول محتشم ﷺ ہے۔ دوسرے نمبر پر جو چیز انسانی عظمت اور عفت یابی کی اہم وجہ ہے، وہ مرتفاعی علمی برتری ہے جس کے سبب فرشتوں میں فضیلت اور زمین پر اللہ کا نائب اور خلیفہ بنا کر انسان کو بھیجا گیا۔ یہ علم ہی ہے جس نے آسمانوں پر روبرو خالقِ عظیم فرشتوں کو سجدہ آدم کرنے پر مجبور کیا اور یہی علم زمین پر بڑے بڑے زور آور اور فرعون طبع انسانوں کو علم کے آگے سجدہ ریز کر دیتا ہے۔
ضرورتِ معاشرتی بیداریِ شعور!
یاد رکھیں! ہر دور میں اصلاحِ معاشرہ معاشرتی المیہ رہا ہے اور دورِ حاضر کا المیہ بھی یہی ہے۔ جب اسلامی معاشرہ اخلاقی انحطاط اور علمی بے راہ روی کا شکار ہو کر زوال پذیر ہو جائے تو پھر چھوٹے موٹے اخلاقی حربے اور علمی ٹوٹکے کارگر ثابت نہیں ہوتے بلکہ ایک مصلح (reformer) اور نجات دہندہ کی ضرور ہوا کرتی ہے جو معاشرتی بیداریِ شعور کے ذریعے معاشرے کے ظاہر پر نہیں بلکہ روح میں اتر کر اصلاحات کا اہم فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ یاد رکھیں! امت محمدیہ کے مصلح کا حکیم الامت ہونا ضروری ہے۔ یعنی کہ بیمار معاشرے کی روحانی امراض پر کامل تشخیص اور اس کے کامل علاج پر دسترس رکھتا ہو۔ مصلح (reformer) جہاں معاشرتی و روحانی امراض کے مختلف اسباب تلاش کرتا ہے وہاں اسلامی مصلح (Islamic reformer) اسلامی معاشرے میں دینی بیداری کی اصل وجہ بھی کھوجتا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ معاشرتی اور اخلاقی زبوں حالی کی ایک اہم ترین وجہ متضاد اور متعارض انتہا پسندانہ معاشی اور سیاسی نظریے کے ساتھ علمی اور فکری اِنتشار ہے۔ یہ ایک جاں گُسل المیہ کے طور پر چیلنج بن کر نصف صدی میں نہ صرف اُبھرا بلکہ معاشرے کو مادہ پرستی، تشکیک، لادینیت اور بیزاریِ دین سے دو چار کر دیا۔
دوسرا چیلنج فکری نظریاتی تھا، وہ یہ کہ تجدد پسند علمی روشن خیالی، حریتِ فکر کے خود ساختہ خوبصورت لیبل لگائے احباب دانش نے نظریاتی افکارکی تشریح قرآن و سنت کی منشاء اور معاشرتی ضرورت کے برعکس کرکے قوم اور معاشرے کو ذہنی کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے۔ معاشرہ مجموعی طور پر مصنوعی نظام تنفس کی جانب بڑھنے لگا ہے یعنی کہ اسلام ventilator (مصنوعی نظامِ تنفس) پر چلنے لگا۔ اب اہل سنت والجماعت کے لئے بالخصوص اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کے بعد علمی و تجدیدی (reformative) اور نظریاتی اعتبار سے خلا بڑھنے لگا، ایسے میں قانونِ فطرت ہے کہ خالق عظیم قوموں اور معاشروں کی تہذیبی، اخلاقی و نظریاتی اصلاحات (reforms ) کے لئے ایک کامل مصلح (reformer ) منصہ شہودِ علمی پر جلوہ گر فرما دیتا ہے۔ پھر وہ علمی و تجدیدی وراثت انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث اور امین کے طور اس زیر بھنور ڈوبتے سفینۂ علم و فکر اور احیاء و تجدید کو سنبھالتا ہے۔
الحمد للہ! اس دورِ انحطاط اور افراط و تفریط میں اس سفینے کو جس نے کنارہ علم و حکمت، احیاء و تجدید اور اجتہاد نصیب کیا وہ مجتہد عظیم، مجدد عصر، مصلحِ امتِ محمدیہ (Reformer of islamic umma)، منتہی علوم شرعیہ، منطقۃ البروج الاسلام، میری مراد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ نے اپنی علمی و روحانی، فکری و نظریاتی اور کشفی فیوضاتی حکمت اور منصوبہ بندی کو بروئے کار لاتے ہوئے گزشتہ نصف صدی میں زیرِ گرداب سفینۂ ایمان اور اسلام کو از سرِ نو ساحلِ امن و تجدید حقیقی سے نہ صرف روشناس کرایا بلکہ اخلاقی، علمی اور معاشرتی طور پر نشاۃِ ثانیہ سے ہمکنار کیا ہے۔
(جاری ہے)