گذشتہ ماہ (30-04-2019) چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز منہاج یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ منعقدہ ایک نشست میں علمی و فکری اور تربیتی خصوصی گفتگو فرمائی۔ اس طویل نشست میں انہوں نے علم و فکر کے میدان میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور تحریک منہاج القرآن کی عالمگیر خدمات اور اُن کے ہمہ جہتی اثرات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ حصولِ علم کے آداب کو بھی بیان فرمایا۔ محترم ڈاکٹر صاحب کی گفتگو کا وہ حصہ جو حصولِ علم کے آداب سے متعلق ہے، ترتیب و تدوین کے بعد نذرِ قارئین ہے۔ (محمد یوسف منہاجین)
زمانہ جوں جوں قیامت کے قریب ہوتا چلا جارہا ہے ویسے ویسے فتن بھی کثرت سے ظہور پذیر ہورہے ہیں اور فساد بھی بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ علم کے ادراک، فہم اور شعور کی سطح بھی گرتی چلی جارہی ہے۔ نہ صرف حقیقی صاحبانِ علم بہت قلیل رہ گئے ہیں بلکہ علم کی قدر کرنے اور اسے سمجھنے والوں کی تعداد بھی نہایت کم ہوچکی ہے۔ افسوس! آج ہم ایک ایسے دور میں زندہ رہ رہے ہیں جہاں فساد ہر سمت سے بڑھتا ہوا چلا آرہا ہے۔ علم، اعتقاد، فکر، نظریہ، فلسفہ الغرض ہر طرف سطحیت آچکی ہے۔ ماضی قریب پھر بھی کچھ نہ کچھ بہتر تھا، صاحبانِ علم اور قدر دانِ علم نظر آتے تھے اور اگر اس سے بھی پچھلے دور میں چلے جائیں تو اِس امر میں نہایت حوصلہ افزا کیفیت و ماحول نظر آتا تھا۔ وہ دور علم والوں، علم کی قدر کرنے والوں، علم سمجھنے والوں اور علم کا ادب کرنے والوں کا ایک سنہرا دور تھا۔
موجودہ دور کے اسی علمی انحطاط ہی کی بناء پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اکثر کہا کرتے ہیں کہ:
’’کاش میں بھی اُس دور میں ہوتا جو صاحبانِ علم اور علم کی قدر کرنے والوں کا دور تھا۔ جہاں اولیائ، صلحائ، اتقیاء اور ابرار کی مجالسِ علم و معرفت سجا کرتی تھیں، جن میں وہ دل کی بات، راز کی بات اور یار کی بات کیا کرتے تھے۔ کاش میں بھی اُن مجالس میں بیٹھنے والا اور اُن کو سننے والا ہوتا‘‘۔
آج زمانہ جوں جوں قیامت کی طرف بڑھ رہا ہے، اسی تناسب سے نفسانیت، شہوت، فساد، دنیا داری اور مکرو فریب بھی ہمارے معاشرے میں بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ علم کے میدان میں بھی مکرو فریب اور چکر بازی آگئی ہے اور لوگ Short Cuts کی طرف جانا شروع ہوگئے ہیں۔ آج نہ وہ مجالس رہیں اور نہ ہی وہ مخلص علماء رہے۔ ہر طرف خزاں اور اداسی چھائی ہوئی ہے، دل کی وادیاں ویران ہورہی ہیں، علم میں چاشنی اور ذوق مفقود ہوچکا ہے اور علمی مجالس کہیں بھولے سے بھی دکھائی نہیں دیتیں۔
آج علم کے میدان میں جرأت، استدلال، حجت، قوت، دلیل اور رعب ختم ہوچکا ہے۔ یاد رکھیں! علمی رعب و دبدبہ جلال سے نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کی خیرات اور وہاں سے عطا کردہ علم و عرفان سے ملتا ہے۔ اس بارگاہ سے خیرات میسر آجائے تو پھر علم کے سمندر میں غوطہ زنی بندے کو استدلال و استنباط اور حقیقت تک رسائی عطا کرتی ہے۔ جو دامنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھام کر علم میں ڈوب جاتا ہے پھر وہ علم اس بندے کو اپنا لیتا ہے اور علم کا لباس اس کی زینت بن جاتا ہے۔
علمِ نافع کا حصول ادب کے بغیر ممکن نہیں
یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ حقیقی نافع علم صحبتِ صالحہ اور ادب کے بغیر نصیب نہیں ہوتا۔ علم اگر کتابوں سے آنا ہوتا تو پھر کتابیں تو بہت ہیں اور آتی رہیں گی مگر کتاب کو تھامنے والا ہر بندہ صاحبِ ادب نہیں ہوتا۔ یاد رکھیں! علم نہیں بلکہ ادب بندے کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ حقیقت تک رسائی حاصل کرسکے۔ دینِ اسلام کی حقیقی فہم اور تعلیماتِ اسلامیہ کی روح سے آگاہی کے کچھ تقاضے ہیں اور ان تقاضوں میں سے سرِفہرست ’’ادب‘‘ ہے۔ لہذا علم، علمائ، کتاب، وقت اور درس گاہ کا ادب کریں اور یہ امر ہمیشہ مستحضر رہے کہ بغیر ادب کے کوئی علم نہیں آتا۔ ذیل میں ادب کی ان ہی جہات اور گوشوں کو بیان کیا جارہا ہے:
1۔ علم اور استاذ کا ادب
تَعْلِیْمُ الْمُتَعَلِّمْ فِی طَرِیْقِ تَعَلُّمْ امام برہان الدین الزرنوجی کی تصنیف ہے۔ یہ صاحب الہدایہ کے شاگرد ہیں اور ان کا دور چھٹی ہجری کا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے علم، اساتذہ اور کتاب کے ادب کے حوالے سے بہت مفید باتیں درج کی ہیں۔ ذیل میں اُن سے کچھ کا تذکرہ درج کیا جارہا ہے:
امام زرنوجی فرماتے ہیں اے طالب علم اگر تم علم سیکھنا چاہتے ہو اور علم کا نور اپنے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہو تو جان لو:
لَا یَنَالُ الْعِلْمَ وَلَا یَنْتَفِعُ اِلَّا بِتَعْظِیْمِ الْعِلْم وَاَهلِهٖ وَتَعْظِیْمِ الْاُسْتَاذِوَتوقِیْرِهٖ.
’’علم تعظیم و ادب کے بغیر نہیں آتا۔ تم اس وقت تک علم نہیں سیکھ سکتے اور نہ ہی اس سے نفع حاصل کرسکتے ہو جب تک اُس علم، علم والوں اور استاذ کی تعظیم و توقیر نہ بجا لاؤ‘‘۔
گویا جن کے دلوں میں اللہ نے علم کا چراغ جلایا ہے، اُن کی توقیر کرنا بھی ہم پر واجب ہے۔ اگر علم اور علماء کی تعظیم و توقیر کے بغیر علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو جان لو کہ یہ راستہ حصولِ علم کا نہیں ہے، اس راستے کو ترک کرکے تو عالم نہیں بن سکتا، اس لیے کہ علم بغیر ادب کے نہیں آتا۔ پھر فرماتے ہیں:
مَا َوصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَّا بِحُرْمَةِ. وَمَا سَقَطَ مَنْ سَقَطَ اِلَّا بِتَرَکِ الْحُرْمة.
’’جو جہاں تک پہنچا، وہ علم کی حرمت کے سبب اس مقام تک پہنچا اور جو اپنے مقام سے گرا، وہ علم کی تکریم کو ترک کرنے کے باعث گرا ہے‘‘۔
پھر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دور کے کبار علماء سے پوچھا کہ وہ اس مقام تک کیسے پہنچے؟ تو اُن سب نے فرمایا کہ ہم علم اور علماء کی خدمت کے سبب اس مقام تک پہنچے۔ معلوم ہوا کہ علم خدمت، نسبت و ادب اور علم والوں کی توقیر کے سبب ملتا ہے اور جس نے علم کی تکریم و تعظیم میں تنقیص (کمی) کی، اللہ نے اس کے علم میں تنقیص کردی۔
یہی وجہ ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اَنَا عَبْدٌ مَنْ عَلَّمَنِیْ حَرْفًا وَاحدا.
’’جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھادیا، میں اُس کا غلام ہوگیا (اب چاہے وہ مجھے بیچے یا اپنے پاس رکھے)‘‘۔
ایک علم وہ ہے جو ہمیں کتاب دے رہی ہے اور ایک علم وہ ہے جو ہمیں استاذ دے رہا ہے۔ اس معلم (استاذ) کی توقیر و ادب یہ ہے کہ:
اَلَّا یَمْشِیَ اَمَامَه
’’استاذ سے آگے مت چلو‘‘
لَا یَجْلِسَ مَکَانَه.
’’کبھی استاذ کی مسند پر نہ بیٹھنا‘‘
وَلَا یَبْدِی الْکَلَامَ عِنْدَهٗ اِلَّا بِاِذْنِهٖ.
’’استاذ کے اذن و اجازت کے بغیر کلام میں پہل نہ کرنا‘‘۔
وَلَا یَدُقَّ الْبَاب حَتّٰی یَخْرُجَ.
’’اور استاذ کے آرام کے وقت اُن کے گھر کے دروازے پر دستک بھی نہ دینا بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ تم صبر کرو یہاں تک کہ وہ خود باہر آجائیں‘‘۔
2۔ ادبِ اساتذہ اور اسلاف کا معمول
امام زرنوجی کے ان الفاظ سے علم اور اساتذہ کا ادب سیکھیں، اس لیے کہ ان آئمہ نے اسی ادب ہی کی بدولت عظمت و مقام کو حاصل کیا ہے۔ اس موقع پر امام زرنوجی اساتذہ کے ادب کے حوالے سے کچھ واقعات بھی درج کرتے ہیں:
1۔ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے دور کے بہت بڑے نحوی، صرفی، ادیب، اصولی شیخ الاصمعی کے پاس اپنے بیٹے کو بھیجا تاکہ وہ اُن سے علم اور ادب سیکھے۔ ایک روز اُس نے دیکھا کہ شیخ اصمعی وضو فرمارہے ہیں اور خلیفہ ہارون الرشید کا بیٹا لوٹے سے اُن کے پاؤں پر پانی بہا رہا ہے اور شیخ اصمعی اپنے ہاتھوں سے اپنے پاؤں دھو رہے ہیں۔ خلیفہ نے اپنے بیٹے اور شیخ اصمعی دونوں کو بلا لیا اور ناراضگی کا اظہار کیا۔ شیخ اصمعی گھبرا گئے کہ شاید خلیفہ نے مجھے وضو کرانے کے دوران اپنے بیٹے کے پانی بہانے کے عمل کو برا محسوس کیا ہے۔ ہارون الرشید نے کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کو آپ کے پاس علم کے ساتھ ساتھ ادب سکھانے کے لیے بھیجا تھا مگر دکھائی یہ دیتا ہے کہ آپ اسے صرف علم سکھا رہے ہیں، ادب کی تعلیم نہیں دے رہے۔ شیخ اصمعی نے پوچھا کہ اس نے کیا بے ادبی کردی ہے؟ خلیفہ نے کہا کہ ادب کا تقاضا یہ تھا کہ جب آپ وضو کررہے تھے تو:
بِاَنْ یَّصُبَّ الْمآءَ بِاحْدٰی یَدیْه وَیَغْسِلَ بِاُخْرٰی رِجْلَکَ.
’’وہ ایک ہاتھ سے پانی بہاتا اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاؤں کو خود دھوتا‘‘۔
یعنی ادب یہ نہیں تھا کہ صرف پانی بہاتا اور وضو کرانے میں آپ کی مدد کرتا بلکہ ادب یہ تھا کہ پانی بہانے کے ساتھ ساتھ اپنے دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاؤں بھی صاف کرتا۔
2۔ اساتذہ کرام اور ان سے نسبت رکھنے والی چیزوں کے ادب کے حوالے سے امام زرنوجی فرماتے ہیں کہ ایک روز آئمہ میں سے ایک بہت بڑے امام اپنی مجلس میں اپنے تلامذہ کے سامنے بیٹھے تھے۔ وہ امام دورانِ تدریس بار بار کھڑے ہوتے اور پھر بیٹھ جاتے۔ ان کی اس حرکت پر شاگردحیران ہوئے کہ کیا ماجرہ ہے؟ پوچھنے پر فرمایا کہ میرے شیخ (استاذ) کا چھوٹا بچہ سامنے کھیل رہا ہے، جب وہ کھیلتے کھیلتے مسجد کے دروازے پر میرے سامنے آتا ہے تو میں شیخ کے ادب میں اس کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے اور جب وہ چلا جاتا ہے تو بیٹھ جاتا ہوں۔
یعنی انہوں نے واضح کردیا کہ میں نے علم تو ادب ہی کے ذریعے حاصل کیا ہے اور اس ادب کا تقاضا ہے کہ شیخ سے نسبت والی چیزوں کا بھی ادب کروں۔ یہ ان آئمہ کے واقعات ہیں جو بحرالعلوم تھے اور جن کے علم کی خیرات سے ہی آج اسلامی تعلیمات ہم تک پہنچ رہی ہیں۔
3۔ کتاب کا ادب
امام زرنوجی استاذ کے ادب کو بیان کرنے کے بعد ’’کتاب‘‘ کا ادب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
فَیَنْبَغِیْ لِطَالِبِ الْعِلْم اَنْ لَا یَاْخُذَ الْکِتَابَ اِلَّا بِطَهارَة.
’’طالب علم کو چاہئے کہ طہارت کے بغیر کسی کتاب کو ہاتھ مت لگائے‘‘۔
یعنی جس کتاب سے تم علم سیکھتے ہو، وہ کتاب یہ حق رکھتی ہے کہ اُس کو چھونے والے طہارت کے ساتھ ہوں۔
1۔ شمس الآئمہ شیخ الحلوانی سے پوچھا گیا کہ آپ کو علم میں اعلیٰ مقام کیسے نصیب ہوا؟ فرمایا:
اِنَّمَا نِلْتُ هٰذَا الْعلم بِتَعْظِیْم.
’’مجھے یہ علم تعظیم ہی کی بدولت حاصل ہوا‘‘۔
پوچھا گیا تعظیم کیا ہے؟ فرمایا:
اِنِّیْ مَا اَخَذْتُ الْکاغِذَ اِلَّا بِالطَّهَارَةِ.
’’(کتاب تو بڑی دور کی بات) میں نے آج تک کسی کاغذ کو بھی بغیر طہارت کے نہیں پکڑا‘‘۔
2۔ امام زرنوجی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ امام سرخسی کو پیٹ کی تکلیف تھی مگر اس کے باوجود مطالعہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ اُس رات انہوں نے اس تکلیف کے باعث 17 دفعہ وضو کیا مگر مطالعہ اور علم کا حصول بغیر طہارت کے جاری رکھنا قبول نہ کیا۔
حصولِ علم و معرفت میں یقینی کامیابی کا راز
1۔ امام عبدالوہاب الشعرانی ’’الانوار القدسیہ فی معرفۃ قواعد الصوفیۃ‘‘ میں نقل کرتے ہیں کہ امام مالک نے امام شافعی سے فرمایا:
یا محمد! اِجْعَلْ الْعِلْمَ کَمِلْحًا وَاَدَبَکَ دَقِیْقًا.
’’اے محمد الشافعی! اگر تم کچھ بننا چاہتے ہو تو اپنے علم کو نمک کی مانند کرلو اور ادب کو آٹے کی مانند کرلو‘‘۔
یعنی جتنی مقدار آٹے میں نمک کی ڈالی جاتی ہے، وہ مقدار علم کی ہو اور جتنی مقدار آٹے کی ہوتی ہے، وہ مقدار ادب کی ہو، تب جاکر اُس علم کا حق بھی ادا ہوتا ہے اور وہ علم فیض رساں بھی ہوتا ہے۔
2۔ سیدنا عبدالرحمن بن القاسم فرماتے ہیں کہ میں نے امام مالک کے سامنے 20 سال زانوئے تلمذ تہہ کیا، اس عرصہ میں انہوں نے مجھے 18 سال ادب سکھایا اور صرف 2 سال علم سکھایا۔ بعد ازاں میں پچھتانے لگا کہ کاش وہ 2 سال جو میں نے علم سیکھنے میں صرف کیے، وہ سال بھی میں ادب سیکھنے میں صرف کرتا۔
یاد رکھیں! ادب اُسے نصیب ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ رقتِ قلب، ورع اور خشیت عطا فرماتا ہے اور ورع اُسے ملتا ہے جسے اللہ تعالیٰ ’’جوع‘‘ یعنی بھوکا رہنے کی نعمت عطا کرتا ہے۔ گویا علم اُسے ملے گا جس کا دامن ادب سے معمور ہوگا اور ادب اُسے نصیب ہوگا جو ورع کی نعمت سے مالا مال ہوگا۔
امام شعرانی بیان کرتے ہیں کہ اگر ہمیں اپنے علم، طریقت، معرفت کی راہ میں کامیابی چاہئے اور جس منزل تک ہم پہنچنا چاہتے ہیں، اُس منزل کا حصول یقینی بنانا چاہتے ہیں تو درج ذیل پانچ چیزوں کو لازمی اختیار کرنا ہوگا:
- ادب
- ورع
- الجوع (بھوک)
- شب بیداری
- قلت الکلام
3۔ الفتوحات المکیۃ میں ابن العربی فرماتے ہیں:
لَمَّا خَلَقَ النَفْسَ سُئِلَ عَنْهٗ مَنْ أَنَا؟
’’جب اللہ رب العزت نے نفس کو پیدا کیا تو اُس سے پوچھا کہ میں کون ہوں؟‘‘
نفس نے جواب دیا:
مَنْ اَنْا؟
(میں کون ہوں؟)
یعنی اُس کو کچھ خبر نہ تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُسے خبر دینے کے لیے ایک اہتمام فرمایا:
فَاَسْکَنَهَا فِی بَحْرِالْجُوْعِ اَرْبَعَةَ آلْاف سَنَة.
’’اللہ تعالیٰ نے اُسے چار ہزار سال کے لیے بھوک کے سمندر میں رکھ دیا‘‘۔
چار ہزار سال بعد جب اُسے وہاں سے نکالا تو پھر وہی سوال کیا کہ مَنْ اَناَ ؟ (میں کون ہوں؟)
اب اس نے جواب دیا کہ اَنْتَ رَبِّی :تو میرا رب ہے
معلوم ہوا کہ جب تک بھوک، پیاس، صبر، آزمائش کے سمندر میں غوطہ زن نہ ہوا جائے، اس وقت تک خدا کی خبر نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ نفس ہمیں ہر چیز بھلا دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌم بِالسُّوْٓءِ.
’’بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے ‘‘۔
(یوسف، 12: 53)
یعنی نفس تو سوئ، گناہ، شہوت، دنیا کی طرف ابھارتا ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا:
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالَانْعَامِ وَالْحَرْثِط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاج وَاﷲُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ.
’’لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے‘‘۔
(آل عمران، 3: 14)
ان تمام محبتوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کے تابع رکھنے کے لیے ’’جوع‘‘ کے راستے کو اختیار کرنا ہوگا۔ اگر طالبِ علم بننا ہے تو پھر نہ صرف فقر و فاقہ کو خوش آمدید کہنا ہوگا بلکہ علم و معرفت کی جوع (بھوک) بھی اپنے اندر پیدا کرنا ہوگی۔
4۔ امام سہل بن عبداللہ تستری کا معمول یہ تھا کہ آپ 15 دن کے بعد ایک کھانا کھاتے۔ رمضان المبارک میں معمول یہ تھا کہ شوال کے چاند کے نظر آنے تک کچھ نہ کھاتے، صرف صیامِ وصال سے بچنے کے لیے پانی سے افطار کرتے تھے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں سے گزر کر یہ آئمہ ہمیں علم و معرفت کی دولت عطا کرگئے۔
5۔ امام شافعی، امام احمد بن حنبل کے استاذ تھے۔ ایک دن امام شافعی کو معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبل ان کے ہاں تشریف لانے والے ہیں تو انہوں نے اپنی بیٹی کو حکم دیا کہ میرے استاذ تشریف لارہے ہیں لہذا بہترین کھانا تیار کریں۔ امام شافعی کے تشریف لانے پر امام احمد بن حنبل کی بیٹی نے ایک وسیع و عریض اور بہترین پکوانوں سے سجا دستر خوان بچھوادیا۔
امام شافعی نے اس موقع پر اس قدر کھانا تناول فرمایا کہ امام احمد بن حنبل کا حصہ بھی کھالیا اور وہ ادب کے ساتھ اپنے شیخ کے سامنے بیٹھے رہے۔ امام احمد بن حنبل کی بیٹی نے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور بعد ازاں اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ آپ تو اپنے استاذ کے علم، اخلاق اور مقام و مرتبہ کا بڑا بیان کیا کرتے تھے مگر آج تو وہ آپ کا حصہ بھی کھاگئے، کیا اللہ والے ایسے ہوتے ہیں؟
فرمایا: بیٹی! وہ میرے شیخ ہیں، اس حوالے سے میں جرأت نہیں رکھتا کہ ادب کی وجہ سے اُن سے یہ پوچھوں۔ بیٹی خاموش ہوگئی۔
رات کو امام شافعی، امام احمد بن حنبل سے مختلف علمی و فکری موضوعات پر گفتگو کرتے رہے۔ بعد ازاں امام شافعی اپنے کمرے میں آرام فرمانے لگے۔ صبح ہوئی تو اٹھے اور وضو کئے بغیر ہی تہجد اور فجر کی نماز ادا کی۔ بیٹی نے جب یہ معاملہ بھی دیکھ لیا تو اپنے والد صاحب سے اس کا بھی تذکرہ کردیا۔ امام احمد بن حنبل نے پھر وہی فرمایا کہ وہ میرے شیخ ہیں، میں ادب کی وجہ سے اُن کے سامنے نہیں بول سکتا، البتہ تجھے اُن سے سوال کرنے کی اجازت لے دیتا ہوں، تم خود اُن سے پوچھ لینا۔
جب امام شافعی کے جانے کا وقت آیا تو اُن کی اجازت سے امام احمد بن حنبل کی بیٹی نے اُن سے سوال کیا کہ رات کو آپ اکیلے ہی چار/ پانچ افراد کا کھانا تناول کرگئے حالانکہ اولیاء تو بھوک کو ترجیح دیتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟
فرمایا: پہلے تو یہ بات راز میں تھی مگر چونکہ تم نے سوال کرلیا ہے، لہذا اس کا جواب دیتا ہوں کہ پچھلے تین دن سے میں کھانے اور پینے کے بغیر سفر کررہا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ احمد بن حنبل کے گھر کے کھانے کے علاوہ پاک و صاف اور حلال کھانا مجھے آگے بھی نہیں ملے گا۔ لہذا پچھلے تین دنوں کی طرح اگلے تین دن بھی بھوک برداشت کرنا پڑے گی، اس لیے میں نے سیر ہوکر کھانا یہیں کھالیا۔
امام احمد بن حنبل کی بیٹی نے دوسرا سوال کیا کہ آپ رات بھر سوئے رہے اور صبح تہجد اور فجر کی نماز بھی بغیر وضو ہی پڑھ لی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
فرمایا کہ رات کو جو حدیث میں نے احمد بن حنبل کو پڑھائی اور سنائی تھی، وہ سننے کے بعد تمہارے والد تو سونے کے لیے چلے گئے۔ میں آنکھیں بند کرکے صرف لیٹ گیا تھا مگر سویا نہیں تھا بلکہ ساری رات صرف اُس ایک حدیث مبارک سے 80 مسائل کا استنباط و استخراج کیا اور جب نماز کا وقت ہوگیا تو اسی طرح رات کے وضو سے ہی تہجد اور فجر بھی ادا کرلی۔
اس واقعہ سے جہاں دیگر باتیں معلوم ہورہی ہیں وہاں امام احمد بن حنبل کا اپنے شیخ و استاذ کا ادب کرنا بھی واضح ہورہا ہے۔ اسی ادب نے انہیں علمی دنیا کا امام و رہنما بنادیا۔ دیگر آئمہ کرام اور سلف صالحین کے حالاتِ زندگی کا اگر مطالعہ کریں تو ہمیں وہاں پر بھی اسی ’’ادب‘‘ کے رنگ جگہ جگہ پر نظر آتے ہیں۔
طلبہ کو نصیحت
عزیز طلبہ! اپنی زندگیوں، اپنے علم، کردار، معاملات، شب و روز کی کیفیات، اساتذہ، کتب اور مکتب، الغرض ہر سطح پر ادب کو مقدم رکھیں۔ بغیر ادب کے علم کچھ نہیں، صرف کتابیں ہیں۔ جس کو ادب و تعظیم مل گیا تو کتابیں خود اس سے ہمکلام ہوجاتی ہیں۔ یہاں تک کہ کتاب کا ادب کرنے والے کا عالم یہ ہے کہ صاحبِ کتاب اُس قاری کو اپنی بارگاہ میں بٹھا لیتے ہیں۔ آج کے اس دور میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور تحریک منہاج القرآن کا وجود ایک غنیمت ہے کہ جہاں سے علم و ادب اور معرفت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ اس دور میں الحمدللہ تعالیٰ شیخ الاسلام اور تحریک منہاج القرآن اُس علم و فکر کے احیاء کے لیے کاوشیں بروئے کار لارہے ہیں جو ہمارے اسلاف کی میراث تھا۔ یہاں سے ملنے والی تعلیمات اسلام کی حقیقی تعلیمات ہیں۔ لہذا اِن کتب میں ڈوب جائیں اور ان سے کسبِ فیض کے لیے ’’ادب‘‘ کو ہر سطح پر ہمیشہ ملحوظ رکھیں۔
یاد رکھیں! جن کے سینوں میں علم، معرفت اور قرآن و حدیث کی نعمتیں ہیں اُن کا ادب بھی ہم پر واجب ہے۔ اس لیے اس درسگاہ، اپنے اساتذہ، اس مادرِ علمی اور اس تحریک سے محبت کریں اور اس محبت کو اپنی فکر میں منتقل کریں۔
عزیز طلبہ! اپنے وقت کو غنیمت جانیں اور وقت کو ضائع نہ کریں۔ اس وقت کا بھی ادب کریں۔ گزرا ہوا وقت کبھی واپس نہیں آتا۔ یہ وقت آپ کے لیے ایک نعمت ہے۔ اس عمر کو نعمت سمجھ کر گزاریں، جو آج سیکھ لیا وہ کل کام آئے گا۔۔۔ جو وقت آج راتوں میں گریہ و زاری کرتے ہوئے گزارا، یہ کل نجات کا باعث بنے گا۔۔۔ جو جھاگ آج لگ گئی وہ کل کام آنے والی ہے۔۔۔ جو نسبت آج مل گئی، کل بیڑا پار کرنے والی ہے۔۔۔ جو صحبت آج اپنالی، اسی صحبت نے کل کام آنا ہے۔
آج جو نعمت اس تحریک، شیخ الاسلام اور اس مادرِ علمی کی وجہ سے میسر آرہی ہے، اس کا شکر یہ ہے کہ خدا کے حضور جھکنا اور خدا کا ہونا سیکھیں۔۔۔ طہارت و پاکیزگی اور عبادت و تقویٰ کے ساتھ رہیں۔۔۔ اپنی سوچ، فکر، انداز، کردار میں پاکیزگی پیدا کریں تاکہ طہارت آپ کے چہروں اور کردار میں جھلکتی ہوئی نظر آئے۔
طلبہ کے سیرت و کردار میں درج ذیل چیزیں نمایاں ہونی چاہئیں:
- گریہ و زاری
- ادب
- جوع
- جستجو
حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یٰـیَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّةٍ.
’’اے یحییٰ! (ہماری) کتاب (تورات) کو مضبوطی سے تھامے رکھو ‘‘۔
(مریم، 19: 12)
یعنی کتاب کو سنجیدگی کے ساتھ ایسے پکڑیں جس طرح کتاب کو پکڑنے کا حق ہے۔ ادب، اطاعت، تعظیم، احترام کے ساتھ اس کتاب کو تھامیں اور پھر اس کتاب کے علم پر عمل کرنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو گزارنے کا حق ادا کریں۔ اسی صورت اس کتاب کا حق ادا ہوگا۔
عزیز طلبہ! آپ اپنے آپ کو اس طرح بنائیں کہ جب آپ یہاں سے جائیں تو لوگ آپ کو دیکھ کر اپنے لیے نمونہ بنائیں کہ اس طالب علم کا پڑھنا، اٹھنا، بیٹھنا، بولنا، معاملہ کرنا، ادب کرنا یہ بتا رہا ہے کہ اسے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صحبت و نسبت حاصل ہے۔ اللہ رب العزت آپ کو اس قابل کرے کہ آپ اس مادرِ علمی کی لاج رکھنے والے بن جائیں۔ آپ نے اس فیض کو آگے امت میں منتقل کرنا ہے۔ جب کسی مسند پر بیٹھیں تو مسند کو آپ پر فخر ہونا چاہئے کہ یہ اُس مسند سے فیض لے کر آئے ہیں جس پر سب مسندوں کو فخر ہے۔۔۔ خطابت، آپ پر فخر کرے کہ یہ اُس کا فیض یافتہ ہے جس پر بڑے بڑے خطباء فخر کرتے ہیں۔۔۔ تدریس کو آپ پر فخر ہو کہ یہ علم کے اس سمندر سے آرہے ہیں جہاں بڑے بڑے علماء و شیوخ بھی زانوئے تلمذ تہہ کرتے نظر آرہے ہیں۔۔۔ کردار بھی آپ پر فخر کرے کہ یہ ایسے صاحبِ کردار کے پاس سے آرہے ہیں جن پر خود کردار بھی فخر کرتا نظر آتا ہے۔
الغرض جملہ اخلاقی و روحانی اقدار آپ اپنے اندر اس طرح پیدا کریں کہ جس طرح ان اقدار کو اپنانے کا حق ہے۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں علمِ نافع عطا فرمائے اور دین و دنیا کی بھلائیوں سے ہمارے دامن کو معمور فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم