اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لیے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو۔ایک اور مقام پر فرمایا کہ سچے لوگوں کا ساتھ دو، کسی مجرم، خائن اور بددیانت شخص کا ساتھ مت دو۔ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا (اے رسول گرامی!) لوگوں میں حق کے مطابق فیصلے کریں، بددیانت لوگوں کی طرف داری میں بحث کرنے والے نہ بنیں اور یہ کہ اللہ بددیانت اور بدکار کو پسند نہیں کرتا۔ ایک اور مقام پر فرمایا کہ عدل و انصاف اور گواہی کے معاملے میں خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرو۔
قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات نظامِ عدل کی بنیاد ہیں مگر افسوس! اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والے وطنِ عزیز کا نظامِ عدل اسلام کے بتائے گئے اصولوں پر عمل پیرا نہیں ہے۔ انصاف کے عمل میں مظلوم کی بے بسی کی بجائے طاقتور کا چہرہ دیکھا جاتا ہے۔ مخصوص کیسز میں سچی گواہی کو چھپایا اور جھوٹی گواہی کو قبول کیا جاتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس موجودہ نظامِ عدل کا چہرہ بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ 17 جون 2014ء کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 5 سال مکمل ہو گئے مگر ہم دکھی دل کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں مظلوموں کا انصاف، انصاف کے اداروں سے مانگاگیا تھا مگر جیسے ہی کوئی سنجیدہ پیش رفت ہونے لگتی ہے، کوئی رکاوٹ آجاتی ہے کیونکہ بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے والے عام لوگ نہیں بلکہ اس ملک کے مراعات یافتہ اور طاقتور لوگ ہیں۔
بہرحال شہدائے ماڈل ٹاؤن کی 5ویں برسی پر ہم اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں کہ وہ شہداء کے درجات بلند کرے، ورثاء کو انصاف اور تحریک کو حصولِ انصاف کی جدوجہد میں سرخرو کرے۔ 5ویں برسی پر شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء سلیوٹ کے مستحق ہیں کہ وہ حصولِ انصاف کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہیں، ان کے پایہ استقلال اور عزم و استقامت میں رتی برابر جنبش نہیں آئی، انہوں نے طاقتور فرعون صفت ملزموں کے خلاف بے دھڑک گواہیاں دی ہیں اور انصاف کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت ان کے عزم و ہمت اور استقامت میں اضافہ فرمائے اور روزِ قیامت ان کا شمار سچی گواہی دینے والوں، ظلم اور ظالموں کے خلاف ڈٹے رہنے والوں میں ہو۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور پوری تحریک شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لیے ورثاء کے ساتھ کھڑی ہے اور ہمارا شہداء کے خون سے یہ وعدہ ہے کہ کامل انصاف تک جدوجہد جاری رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں انصاف کی جدوجہد سے ہٹاسکی اور نہ ہٹاسکے گی۔ جس طرح کارکنان کا جذبہ بے مثل ہے اسی طرح قائد کا عزم بھی بے مثل ہے۔
اپریل 2019ء کا مہینہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد دوسرا دلخراش اور تکلیف دہ ثابت ہوا۔ انسداد دہشت گردی عدالت سرگودھا نے 107 کارکنوں کو 5 سال، 7 سال کی سزا سنا دی۔ یہ کارکنان وہ تھے جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ظلم و بربریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تھی، جنہوں نے ظلم کے خلاف احتجاج کیا۔ لیکن اب یہ کارکنان جیل میں بند ہیں اور جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہوں کا خون بہایا، قتل عام کیا وہ آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ حصولِ انصاف کے لیے جو مشکلات سابق دور حکومت میں تھیں وہ آج بھی ہیں۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کیلئے کچھ نہیں بدلا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ظلم کی یہ سیاہ رات ضرور ڈھلے گی اور مظلوموں کو انصاف ملے گا۔ 107 کارکنوں کے انصاف کی جنگ بھی لڑیں گے۔ کارکن بے گناہ ہیں، انہیں بری کروائیں گے۔
مدارس کی رجسٹریشن اور وفاقی وزیر تعلیم کی پریس کانفرنس
گذشتہ ماہ وفاقی وزارت تعلیم کی علمائے کرام اور جملہ مدارس کی تنظیمات کے ذمہ داران سے کامیاب میٹنگ ہوئی جس میں یہ طے پایا کہ تمام مدارس جن کی تعداد 30 ہزار کے لگ بھگ ہے، ان کی رجسٹریشن کروائی جائے گی، تمام مدارس اپنا الگ اکاؤنٹ کھلوائیں گے اور طے پانے والے کوڈ آف کنڈکٹ کی مکمل پاسداری کریں گے۔ وفاقی وزیر تعلیم نے دعویٰ کیا ہے کہ مدارس اس بات پر رضا مند ہو گئے ہیں کہ وہ رجسٹریشن بھی کروائیں گے اوراپنے ہاں زیر تعلیم طلبہ کو پیشہ وارانہ تعلیم بھی دلوائیں گے ۔رجسٹریشن نہ کروانے والے مدارس کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے گی۔ فرقہ واریت کے پھیلاؤ، نفرت کے پرچار اور سٹیٹ کے خلاف نعرہ بازی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائیگا۔ جو مدارس کوڈآف کنڈکٹ کو فالو کریں گے، وزارت تعلیم انہیں مختلف امور و معاملات میں مدد دے گی۔ غیر ملکی طلبہ کو اپنی پسند کے مدرسہ میں حصولِ تعلیم کی اجازت ہوگی۔ غیر ملکی طلبہ حصول علم کیلئے 9 سال تک پاکستان میں قیام کر سکیں گے اوروزارت تعلیم انہیں ویزے دلوانے میں مدد دے گی۔
مدارس کی رجسٹریشن اوراور دیگر امور و معاملات کے حوالے سے اگر مدارس اور حکومت کے درمیان کوئی معاہدہ یا معاملہ طے پا گیا ہے تو یہ انتہائی خوش آئند بات ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ یہ اتفاق رائے برقرا ر رہے اور تمام معاملے خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہوجائیں۔ ملک بھر میں ہزاروں مدارس قائم ہیں جہاں لاکھوں طلبہ دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ریاست کے پاس ان کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور نہ ہی ریاست اس بات سے باخبر ہے کہ ان مدارس میں کہاں کہاں سے طلبہ حصول علم کے لیے آتے ہیں؟ ان کے مالی حسابات اور ذائع آمدن کیا ہیں اور کس قسم کا نصاب پڑھایا جاتا ہے؟ ان اداروں کے فارغ التحصیل طلبہ عملی زندگی میں کہاں کام کرتے ہیں اور ان کیلئے روزگار کے کیا مواقع دستیاب ہوتے ہیں؟ ان سارے معاملات اور مسائل کے حوالے سے ریاست لاعلم ہے۔
بدقسمتی سے بعض ایسے واقعات بھی رونما ہوئے کہ امن اور انسانیت کے دشمنوں نے بعض مدارس کی آڑ لے کر بے گناہوں کا خون بہایا، ریاستی اداروں پر حملہ آور ہوئے، مساجد، اولیائے اللہ کے مزارات، امام بارگاہوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور ان کا تعلق دینی مدرسوں سے جوڑا گیا اور پھر پاکستان کے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ دشمنوں نے بھی خوب پروپیگنڈا کیا اور ریاستِ پاکستان کو دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ یہ بھی ایک دلخراش حقیقت ہے کہ گزشتہ دو عشروں میں 70 ہزار سے زائد شہری دہشت گردی کے واقعات کا نشانہ بنے اور کھربوں ڈالر معیشت کو نقصان پہنچا یہاں تک کہ قیامِ امن اور انسدادِ دہشتگردی کیلئے فوج کو متعدد آپریشن کرنے پڑے ۔
دیرپا امن کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جنوری 2015ء میں اتفاق رائے کے ساتھ ایک نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا، غیر ملکی فنڈنگ روکنے، مدارس کو قومی دھارے میں لانے اور نصاب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی شق بھی اس نیشنل ایکشن پلان کا حصہ تھی مگر افسوس اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ اپریل2019ء کے آخری ہفتے میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی پریس کانفرنس کے دوران اس بات کی ضرورت کا اظہار کیا کہ مدارس کو قومی دھارے میں آنا چاہیے اور یہاں زیر تعلیم طلبہ کو جدیدعلوم بھی پڑھنے چاہئیں تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد دیگر یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں کے طلبہ کی طرح روزگار حاصل کر سکیں اور باوقار زندگی گزار سکیں۔ دینی مدارس بلاشبہ اسلام کی روشنی کو عام کررہے ہیں مگر ایک جامع نظام العمل کے فقدان کے باعث اور معاشی معاملات کے بارے میں ابہام پائے جانے کے سبب بہت ساری انگلیاں اٹھتی رہتی ہیں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ مدارس اور وفاقی وزارت تعلیم ایک کوڈ آف کنڈکٹ پر متفق ہوگئے ہیں۔ اگر ریاست اور مدارس ایک پیج پر آ کر آگے بڑھے تو یقینا یہ ملک اور اسلام کی ایک بڑی خدمت ہو گی اور وہ عناصر جو مدارس کی آڑ لے کر نفرت اور فرقہ واریت پھیلاتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہو گی اور وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ ہم دعا گو ہیں کہ حکومت اور مدارس کے مابین جو کوڈ آف کنڈکٹ طے پارہا ہے وہ پایہ تکمیل کو پہنچے۔