توبہ گناہوں پر ندامت کے مخلصانہ اظہار اور گناہوں سے طبعاً نفرت ہو جانے کا نام ہے۔ توبہ بخششِ عام کا وہ دروازہ ہے جو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ توبہ کے لغوی معنی اعترافِ گناہ، ندامت، رجوع، لوٹ آنا، باز آجانا، گناہ سے روگردانی کرتے ہوئے اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ توبہ و استغفار کے موضوع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات پر مشتمل ایک جامع کتاب بھی زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہے اور ہزاروں، لاکھوں افراد اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اللہ کی ایک صفت غفور الرحیم ہے، وہ ذاتِ کبریا صدقِ دل سے معافی مانگنے والوں کو معاف کرتی ہے۔ معافی مانگنا؛ عجز و انکساری کااظہار اور اللہ تعالیٰ کو برتر اور معاف کرنے والا تسلیم کرنا ہے۔ یہی تسلیم و رضا بندہ مومن کی شناخت اور کامل ایمان کی نشانی ہے۔
طریقت کی راہ کا پہلا قدم توبہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ندامت ہی توبہ ہے، یعنی گناہ کے بعد پشیمانی میں مبتلا ہونے کا نام توبہ ہے۔ یقینا جس عمل سے انسان نادم ہو، وہ اس کا ہر گز اعادہ نہیں کرے گا۔ نادم ہونا اور پھر گناہ کی طرف نہ پلٹنا مقبول توبہ ہے۔
ایمانی زندگی میں توبہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود اللہ تبارک تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بہت سے مقامات پر بندوں کو توبہ کی تلقین فرمائی ہے۔ گنہگاروں کو مایوسی سے بچانے کیلئے اللہ نے خود اعلان فرمایا ہے کہ میری رحمت ہر شے پر غالب ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کو جب جنت سے نکالا گیا تو انہوں نے اپنے رب کے سکھائے ہوئے الفاظ میں توبہ کی۔ ارشاد فرمایا:
رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ.
’’پھر آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے (عاجزی اور معافی) کے چند کلمات سیکھ لیے، پس اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
(الاعراف، 7: 23)
یہاں ایک لطیف نکتہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک توبہ کا عمل اتنا مستحسن ہے کہ اللہ نے غلطی کرنے والے آدم علیہ السلام کو اس غلطی کے ازالہ کیلئے تائب ہونے کی رغبت دلائی اور پھر الفاظ بھی سکھائے۔اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر توبہ کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنی پہچان خوب توبہ قبول کرنے والے کے طور پر کروائی ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ.
’’بے شک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
(البقرة، 2: 222)
سورۃ الانفال میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اور جن لوگوں نے برے کام کیے پھر اس کے بعد توبہ کر لی اور ایمان لے آئے (تو) بے شک آپ کا رب اس کے بعد بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات اور احکاماتِ ربانی سے توبہ کی افادیت اور ایمانی زندگی میں اس کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ توبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک عظیم الشان مبارک فعل ہے۔ چنانچہ عرفا نے اپنے اپنے طریق پر توبہ کی مختلف شرائط بیان کی ہیں اور یہ شرائط ایسی ہیں کہ جن پر پورا اترنے کے بعد توبہ انسان کے لیے دنیا و آخرت میں سود مند ہو سکتی ہے۔ حقیقی توبہ کے باعث تائب کی تمام لغزشیں، کوتاہیاں اور تمام گناہ خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ مٹ جاتے ہیں جیسے وہ ابھی ماں کے بطن سے نومولود بچے کی طرح معصوم پیدا ہوا ہے۔
عمومی طور پر توبہ کی شرائط درج ذیل ہیں:
- ندامت و شرمندگی کا اظہار
- ترکِ گناہ و معصیت
- توبہ پر پختہ رہنے کا عزم
- اصلاحِ احوال
- اللہ سے مضبوط تعلق
- دین میں اخلاص
- بری صحبت سے پرہیز
- گناہ کو معمولی نہ سمجھنا
- قلبی شہوات سے اجتناب
- اخروی زندگی پر غور و فکر
ان امور پر کاربند رہنے سے توبہ بھی قبول ہوتی ہے اور انسان آئندہ کیلئے گناہوں سے بھی بچ جاتا ہے۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ گناہ کیا ہے اور اس کی اقسام کیا ہیں؟ اور ان سے بچاؤ کی کیا مؤثر تدابیر ہو سکتی ہیں؟
گناہ دو طرح کے ہوتے ہیں:
- ایک گناہ وہ ہوتا ہے جو نظر آتا ہے۔
- ایک گناہ وہ ہے جو نظر نہیں آتا۔
ان دونوں طرح کے گناہوں کے طریقہ علاج بھی جدا جدا ہیں۔
نظر آنے والے گناہ
نظرآنے والے گناہوں میں وہ تمام گناہ شامل ہیں جسے عامۃ الناس گناہ تصور کرتی ہے۔ اس میں شراب نوشی، قتل، رشوت خوری، زنا، تشدد، حق تلفی، گالم گلوچ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ وہ گناہ ہیں جو جسم سے ظاہر ہوتے ہیں۔
نظر آنے والے گناہوں کا علاج
جو گناہ نظر آتے ہیں، ان کا علاج بھی نظر آنے والی عبادات سے ممکن ہے۔ اگر کوئی انسان اخلاص سے گناہوں سے تائب ہو جائے اور نماز، روزہ، صدقہ، خیرات میں باقاعدگی پیدا کر لے اور ان گناہوں کا اعادہ نہ کرے تو پھر اللہ غفور الرحیم ہے اور معاف کر دینے والا ہے۔
نظر نہ آنے والے گناہ
کچھ گناہ ایسے بھی ہیں جو ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتے اور ہمارے باطن میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہ دوسرے لوگوں کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں۔ ان میں دل میںکسی کے لیے بغض و کینہ رکھنا، کسی کو نقصان پہنچانے کیلئے منصوبہ بندی یا سازش کرنا، دنیاوی معاملات میں عدمِ مساوات سے کام لینا، عناد، غروراور تکبر کو دل میں پالنا، خود کو برتر اور دوسروں کو کم تر جاننا، ریا کاری کرنا، کسی کی بظاہر عزت کرنا مگر دل کا احترام والے جذبات سے محروم ہونا، تابعداری اور وفاداری کا تاثر دینا لیکن عملاً دل اس کی حقیقت سے خالی ہونا۔ یہ وہ سارے عیوب ہیں جو انسان کے اپنے دل میں پرورش پاتے ہیں اور اس کا معاملہ اس کے اپنے دل اور ضمیر سے ہوتا ہے۔
نظر نہ آنے والے گناہوں کا علاج
نظر نہ آنے والے گناہوں کا علاج بھی نظر نہ آنے والی عبادات سے ہی ممکن ہے۔ ایسے گناہوں کا علاج عاجزی و انکساری اختیار کرنا، شب بیداری، قیام اللیل، گریہ و زاری، خدمتِ خلق، حسنِ خلق، ضبطِ نفس سے کام لینا اور خدمتِ خلق کے وہ جملہ امور انجام دینا جنہیں نفس قبول نہیں کرتا مگر پھر بھی رضائے الٰہی کیلئے انہیں انجام دیتے رہنا، مساجد کی صفائی، ناداروں، بیماروںکی تیمارداری ہے۔
یہ وہ سارے امور ہیں جن کا تعلق حسنِ نیت سے ہے۔ جب کوئی روحانی رشتہ قائم کرنے اور باطنی اصلاح کیلئے قرون اولیٰ کے اولیائے اللہ کے در پر حاضر ہوتا اور اپنی نسبت قائم کرنے کیلئے جاتا تو اللہ کے برگزیدہ ولی ان کے ذمہ انسانی خدمت کے کام لگاتے تھے۔ انہیں مساجد، درگاہ کی صفائی کا کام سونپا جاتا، لنگر خانے کی صفائی، نماز تہجد اور فجر کے اوقات میں نمازیوں کو جگانا، وضو کیلئے پانی کا بندوبست کرنا، وضو خانے کی صفائی، یہاں تک کہ طہارت خانوں کی صفائی بھی ان کے ذمہ ہوتی تھی۔ کم سونا، کم کھانا، آرام کے کم مواقع ملنااور ہر حال میں صبر اور شکر کی کیفیت اورجذبات کے ساتھ رہنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا تھا۔
اس خدمت کا بنیادی مقصد ’’میں‘‘ کو مارنا ہوتا تھا، اپنی ذات کی نفی کرنا اور دوسروں کیلئے خود کو مشقت میں ڈالنا اور اس پر مطمئن ہونا یہ باطنی برائیوں کے خاتمے کے علاج کی ابتداء ہوتی تھی۔ شیخ سے رشتہ استوار کرنے والے جب اس پہلی مشق میں سرخرو ہو جاتے تھے تو تصوف و سلوک کے پہلے سبق کا آغاز ہوتا تھا۔یہی وہ راز ہے کہ راہِ حق کے متلاشیوں کو اولیائے اللہ، سلف صالحین اور صوفیائے کرام کی خدمت کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ؛ حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے اور ان کی خدمت میں سلوک و تصوف کی منازل طے کررہے تھے۔ حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ ایک کھلی جگہ بیابان میں سکونت پذیر تھے اور انہیں نماز فجر کیلئے جگانا ان کے وضو کے لیے گرم پانی کا اہتمام کرنااور اپنے شیخ کی خدمت کے دیگر امور انجام بجا لانا حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی یومیہ خدمت میں شامل تھا۔ حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ جب نماز تہجد کیلئے اٹھتے اور رفع حاجت کیلئے جاتے توکھیت میں جانے سے قبل راستے میں ایک چھوٹا سا کھال آتا تھا اور اس کے اوپر ایک مٹی کی پلی بنی ہوئی تھی۔ رات کو جب پانی کا بہاؤ تیز ہوتا تو مٹی کی وہ پلی بھی بہہ جاتی۔ حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے شیخ کو بیدار کرنے سے قبل ہر رات ازسرِ نو مٹی کی وہ پلی تعمیر کرتے تاکہ شیخ سہولت کیساتھ اسے عبور کر سکیں۔ پھر آکر وہ انہیں جگاتے اور ان کے لیے پانی گرم کرتے اور یہ عمل وہ طویل عرصہ تک انجام دیتے رہے۔ اس خدمت کی انجام دہی کی وجہ سے وہ سوتے نہیں تھے، رات بھر جاگتے رہتے۔ ایک شب ان کی آنکھ لگ گئی اور وہ بروقت بیدار نہ ہوسکے۔ انہوں نے شیخ کو جگایا اور اس کے بعد اس کھال پر خود اوندھے منہ لیٹ گئے تاکہ وہ سہولت کے ساتھ گزر سکیں۔ شیخ کامل معمول کے مطابق ان کے جسم پر پاؤں رکھ کر گزر گئے اور جب واپس وہاں سے گزرنے لگے تو ان کے پاؤں کو کچھ عجیب سا محسوس ہوا تو انہوں نے کمر کو تھوڑا سا دبا دیا۔ خدمت گزارسچے مرید اور خادم کے حلق سے آواز نکل آئی اور آپ مسکرائے اور فرمایا: سلوک کی پہلی منزل جو خدمت سے حاصل ہوتی ہے، وہ آج آپ نے حاصل کرلی۔ شیخ اور مرید، شاگرد اور استاد، گرو اور چیلے کے تعلق کو خدمت سے نکھار ملتا ہے۔
یہاں ان تمام کارکنان، رفقاء اور ذمہ داران کیلئے ایک سبق ہے کہ جب وہ منہاج القرآن کی کسی بھی ذمہ داری پر آتے ہیں یا انہیں کوئی ذمہ داری سونپی جاتی ہے تو وہ اس خدمت کو حقیرنہ جانیں۔ شہر اعتکاف میں ہزاروں معتکفین کی خدمت، ان کیلئے سحر و افطار کا بندوبست کرنا، ان کے لیے وضو اور طہارت خانے تیار رکھنا، ان کے آرام اور سکون کیلئے مختلف ڈیوٹیاں سرانجام دینا، یہ خدمتِ خلق، باطن کی تطہیر، تسکین اور شیخ کے دل جیتنے کے افعال ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی عالمی میلاد کانفرنس کیلئے بازاروں میں بینر لگاتا ہے، فلیکس آویزاں کرتا ہے، لوگوں کو شرکت کیلئے آمادہ کرتا ہے، خدمت کے مختلف منصوبہ جات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے لوگوں سے فنڈریزنگ کرتا ہے، آغوش کے بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے مخیر حضرات سے رابطے کرتا ہے، نوجوان فروغِ امن کیلئے پاکستان کے شہر شہر میں جاتے ہیں، سفر کی تکالیف برداشت کرتے ہیں، بھوک برداشت کرتے ہیں اور دورانِ سفر انہیں وہ آرام دستیاب نہیں ہوتا جو اپنے گھروں میں انہیں میسرہوتا ہے اور ان تمام تکالیف کو وہ خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں تو یہ روحانی اطمینان سلوک و تصوف کے سبق کی ابتداء ہے اورشیخ کی توجہ حاصل کرنے کیلئے سیڑھی کا پہلا زینہ ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں ہر نوع کے گناہوں سے محفوظ رکھے، توبہ کرنے والا اور اللہ کی رحمت سے پرامید رہنے والا بنائے۔