ذاتِ باری تعالیٰ ذرے کو آفتاب بنانے پر قدرت رکھتی ہے۔ اسی اصول کے تحت جب قادرِ کون و مکان اپنے خاص بندوں پر مہربان ہوتی ہوگی تو ان پر کس قدر عنایات اور نوازشات کی برسات کا عالم کیا ہوگا؟ اس جود و کرم کا اندازہ کرنا کسی بھی شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال بندۂ مومن کی عظمت، شان و شوکت اور دسترس کا عالم کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفرین، کار کشا کار ساز
یہاں ہم ایک ایسے ہی غالب و کار آفرین، کار کشا اور کارساز مردِ مومن کا تذکرہ کریں گے۔ ان کا دستِ بابرکت ایک طرف تو تسبیح کے دانوں پر اللہ رب العزت کی حمد و ثنا اور کبریائی بیان کرتا تھا تو دوسری جانب وہی ہاتھ دکھ درد کے ماری مخلوقِ الٰہی کی نبضیں ٹٹول کر ان کے دکھ، درد اور روگ دور کر کے مسیحائی کا کردار ادا کرتا تھا۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ یا تو اللہ رب العزت کی بندگی میں بسر ہوتا تھا یامخلوقِ الٰہی کی بندہ پروری میں۔ شب و روز کی اس کارگزاری نے انہیں مردِ مومن کے مقام پر پہنچا دیا۔ اگر ہم اس حوالے سے تاریخ کا مطالعہ کریں تو اوراق اس عظیم ہستی کا تعارف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے والد گرامی قبلہ حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے کراتے ہیں۔
حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت بے پناہ اوصاف و کمالات کا مجموعہ تھی۔ ذیل میں ان کی شخصیت کے چند تابناک پہلوئوں کو بیان کیا جارہا ہے:
حکمت میں حاصل کمال
حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ علم و حکمت کے ایسے جویا تھے، جو اوائل عمری ہی میں محدود ذرائع نقل و حمل ہونے کے باوجود جھنگ جیسے دور افتادہ علاقے سے تن تنہا پہلے سیال کوٹ اور بعد ازاں لکھنؤ کی طلسم نگری میں علم و حکمت کی تلاش میں تن تنہا جا پہنچے۔ مثل مشہور ہے کہ سفر وسیلۂ ظفر ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ان کا یہ سفر مبارک ثابت ہوا اور بالآخر یہ مردِ قلندر پانچ سال کے طویل عرصے کے بعد علم وحکمت کو گوہر ہاے گراں مایہ اپنی جھولی میں بھر کر جھنگ واپس پہنچا۔ قطرے کو گہر بننے میں کیا کچھ کرنا پڑتا ہے وہ قطرہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اس حوالے سے مرزا اسد اللہ غالبؔ کیا خوب منظر کشی کرتے ہیں:
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد گام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
ڈاکٹر فرید الدین قادری کے لکھنؤ میں گزرے پانچ سالوں کی کار گزاری کچھ یوں تھی۔ ’کہاں جھنگ!کہاں لکھنؤ! دیارِ غیر میں نہ کوئی مونس، نہ کوئی مددگار، نہ کوئی آشنا، نہ کوئی واقف کار اور گھر سے مزید رقم کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ بالآخر حالات کی کڑی دھوپ میں یہ درویش جوان زمانے کے سرد و گرم تھپیڑے ہنس کر جھیلتا رہا اور دیوانہ وار اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہا، بالآخر یہ مردِ قلندر پانچ سال کے طویل عرصے میں علم و حکمت کے گہر ہاے بے بہا سے اپنی جھولی بھر کر گھر واپس لوٹا۔ فریدِ الدین جب گھر سے نکلے تو ایک ناتواں اور تہی دامن نوجوان تھے، مگر اجنبی دیار میں برسوں کے مجاہدات، ریاضات اور مشکلات طے کر کے ڈاکٹر فریدالدین بن کر واپس لوٹے تو ان کا دامن مؤقر ڈگریوں سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے جوائنٹ طبیہ کالج سے طب کی سند لی تو کنگ جارج میڈیکل کالج سے میڈیکل سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ دورۂ حدیث اور درسِ نظامی کی تکمیل اس پر مستزاد تھی۔
ڈاکٹر فرید الدین قادری لکھنؤ سے طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور پہنچے تو اپنے علمی سفر کو خیرباد کہنے کے بجائے حکمت کی سب سے بڑی ڈگری ’زبدۃ الحکمائ‘ کے حصول کے لیے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے امتحان میں شریک ہوئے۔ انہوں نے اس امتحان میں نبض شناسی کے موضوع پر چالیس سے زائد صفحات مشتمل عربی زبان میں مقالہ تحریر کیا اور اس کارنامے پرپنجاب بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کرتے ہوئے طلائی تمغہ حاصل کیا۔ تقسیمِ انعامات کی تقریب میں مہمان خصوصی شہرۂ آفاق ادبی جریدہ ’مخزن‘ کے مدیر سر عبدالقادر نے ڈاکٹر فرید الدین قادری کی اس عظیم کاوش کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا:
’’یہ طالبِ علم (ڈاکٹر فرید الدین) مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے نبض کے موضوع پر ایک عظیم مقالہ لکھا ہے۔ اپنے موضوع پر ایک بہترین مقالہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ایک ادبی شہ پارہ بھی ہے۔ ہم اسے دیکھ کر حیران رہ گئے اور یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ یہ ایک طالبِ علم کا نبض کے موضوع پر مقالہ ہے یا کہ نبض کے فن پر کسی امام کی کتاب، ہم پچاس میں سے پچاس نمبر دینے پر مجبور تھے ورنہ یہ مقالہ زیادہ نمبروں کا مستحق تھا۔‘‘
سر عبد القادر کے یہ الفاظ ڈاکٹر فرید الدین قادری کی طب کے علم پر گہری گرفت اور ماہر نباض ہونے کی سند ثبت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اردو زبان و ادب میں حاصل کمال
اردو زبان و ادب کے اہم مرکز لکھنؤ میں گزارے شب و روز نے انہیں نہ صرف شعر و سخن کی جانب راغب کیا بلکہ اردو نعت کے اہم شاعر امیرمینائی کے بیٹے شکیل مینائی کی شاگردی اختیار کر کے اعلیٰ شعر کہنے کی بدولت اس زمانے کے ہر مشاعرے کی زینت سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے نعتیہ قصائد سمیت تمام قابلِ ذکر اصنافِ شعر میں طبع آزمائی کی۔ وہ ’دیوانِ قادری‘ سمیت حکمت پر مبنی متعدد تصانیف اور ایران، عراق، شام اور سعودی عرب کے اسفار پر مبنی سفرنامہ کے مصنف بھی تھے۔ ان کے شاعرانہ مقام و مرتبے کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شیر افضل جعفری اور مجید امجد جیسے کہنہ مشق شاعر بھی سخن ور میں ان سے اصلاح لیا کرتے تھے۔
سفر ہائے زیارات
حضرت فریدِ ملت رحمۃ اللہ علیہ نے سیروا فی الارض کے حکم الہٰی کے تحت خطہ ارضی کے بیشتر حصوں کی سیر کی تاکہ قدیم و جدید علوم و رجحانات سے آگہی ہونے کے ساتھ ساتھ قومی و بین الاقوامی ویژن میسر آئے کیونکہ یہی خصوصیات آپ نے سائنس و ٹیکنالوجی کی موجودہ صدی کی عالم گیر تجدیدی و احیائی تحریک کی قیادت میں منتقل کرنا تھیں۔ آپ کے ان اَسفار کا مقصد کبھی شیخ طریقت کی تلاش ہوتا توکبھی روحانی اسرار و معارف سے شناسائی۔۔۔ کبھی دینی علوم کا حصول ہوتا تو کبھی دنیاوی علوم تک رسائی۔
حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ نے محدود ذرائع نقل و حمل کے باوجود ایران، عراق، شام اور سعودی عرب کی سیاحت بھی کی۔ انہوں نے اس عالم گیر اسفار میں جہاں حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی وہیں مقاماتِ مقدسہ کی زیارت سے بھی فیض یاب ہوئے۔ انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ بغداد میں مقیم غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے جگرگوشۂ حضرت شیخ ابراہیم سیف الدین القادری البغدادی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پر بیعت بھی کی۔ اس طرح وہ جسمانی طبیب کے ساتھ ساتھ روحانی معالج بن کر غوث الوریٰ کے بغدادی مہ خانے کا فیض بھی بانٹنے لگے۔
تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن
ڈاکٹر فرید الدین قادری تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن تھے۔ آپ کے ایک دیرینہ دوست ڈاکٹر احسان صابری قریشی بیان کرتے ہیں:
’’آل انڈیا مسلم لیگ کا 23 مارچ 1940ء کا مشہور تاریخی اجلاس لاہور میں شروع ہونے والا تھا۔ ان ایام میں دفعتاً ڈاکٹر فریدالدین قادری جھنگ تشریف لائے اور اپنے والد صاحب کے گھر ٹھہرنے کی بجائے میرے ہاں ٹھہرے۔ مجھے انہوں نے مشورہ دیا کہ آئو لاہور چلیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ اجلاس میں شرکت کریں، جبکہ میں نے اپنی سرکاری ملازمت کے سبب لیت و لعل سے کام لیا۔ اس پر فرید صاحب نے کہا کہ اس اجلاس میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خطے کی قرار داد پاس ہوگی اور قائداعظم محمد علی جناح بنفسِ نفیس اس کی صدارت کریں گے۔ اس لحاظ سے یہ ایک تاریخی اجلاس ہوگا اور ان شاء اللہ مسلمان انگریز سے ایک علیحدہ خطہ لے کر رہیں گے۔
چنانچہ میں نے فرید صاحب کا مشورہ مان لیا اور دو دن کی رخصت لے کر ڈاکٹر فرید صاحب کے ساتھ لاہور پہنچا۔ میں چونکہ زمانہ طالب علمی میں مسلم لیگ کا رضا کار بھی رہا تھا، اس لیے 23مارچ کے اجلاس میں ہم دونوں نے پہلی قطار میں جگہ حاصل کرلی۔ قائداعظم کی تقریر کے دوران میں نعرے لگاتا تھا اور فرید صاحب مع حاضرین اجلاس میرے نعروں کا جواب دیتے تھے۔ ہم ’’مسلم لیگ زندہ باد‘‘، ’’قائداعظم زندہ باد‘‘ کے نعرے پوری قوت سے لگا رہے تھے۔ قائداعظم ہم دونوں سے بہت خوش نظر آتے تھے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ہمیں دادِ تحسین دیتے تھے۔ مولوی ابوالقاسم، فضل الحق، خلیق الزماں اور نواب زادہ لیاقت علی خان بھی ہمیں شاباش دے رہے تھے۔ یہ اجلاس تین روز تک جاری رہا اور ہم دونوں نے تینوں روز فلک شگاف نعرے لگائے‘‘۔
حضرت فرید ملت 1947ء کی ہجرت کے خانماں برباد مہاجرین کے مونس و مددگار رضا کار کی حیثیت سے عرصہ دراز تک ان کی بحالی میں بھی کوشاں رہے۔ وہ دینِ اسلام کے معلم اور فتنۂ قادیانیت کے خلاف ننگی تلوار تھے۔ چناب نگر (ربوہ) نزدیک ہونے کے سبب ضلع جھنگ کا سارا علاقہ قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کا محور مرکز بن چکا تھا، مگر یہ ان کی مبلغانہ کاوشوں کا ہی کمال تھا کہ جھنگ میں مرزائیت کے ناسور کو پنپنے کا موقع نہیں ملا۔
ڈاکٹر فرید الدین قادری ایک وقت میں طب کے حکیم بھی تھے اور روحانی پیشوا بھی۔ وہ عالم بے بدل بھی تھے اور مقرر دل پذیر بھی۔ وہ صاحبِ اسلوب شاعر بھی تھے اور باکمال مصنف بھی۔ ’’ان کی خوش قسمتی یہ کہ انہیں حضرت مولانا محمد یوسف سیال کوٹی، مولانا عبد الحی فرنگی محل، مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا عبدالشکور مہاجر مدنی، شیخ علوی بن عباس المالکی، شیخ محمد الکتانی، مولانا سردار احمد، حضرت ابوالبرکات سید احمد قادری، حکیم عبد الوہاب نابینا انصاری اور شفاء الملک حکیم عبد الحکیم جیسی تاریخ ساز شخصیات کے حلقۂ تلمذ میں رہنے کا اعزاز حاصل رہا۔ ان عظیم شخصیات کی تعلیم و تربیت، خداداد صلاحیتوں اور شبانہ روز کاوشوں کے سبب وہ صرف، نحو، منطق، فلسفہ، اصول فقہ، معانی، علمِ عروض، عربی ادب، فارسی ادب، طب، حدیث، اصولِ حدیث، اصولِ تفسیر اور تصوف جیسے شعبوں میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔‘‘ علم و حکمت اور دیگر اوصاف سے روشن یہ خورشید 2 نومبر 1974ء بمطابق 16 شوال کو جھنگ کی سرزمین میں غروب ہوگیا۔
ڈاکٹر فرید الدین قادری متعدد علوم و فنون کی ایسی کہکشاں تھے جہاں ہر پل ہر گھڑی نورِ ہدایت تابانیاں بکھیرتا تھا۔ اس نور سے عرصہ دراز تک ایک دنیا مستنیر ہوتی رہی۔ شجر کی شناخت اس کے پھل سے اور عمارت کی اہمیت اس کے معمار سے ہوتی ہے۔ اسی قانون کے تحت یہ اسی منور و معطر ہستی کی تعلیم و تربیت کا فیض ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے مبارک وجود کی صورت میں دنیا بھر میں اس صدی کی تجدیدی تحریک منہاج القرآن کی شکل میں برپا ہے۔ ان شاء اللہ قیامت کے دن تک یہ نور اہلِ حق کے قلوب و صدور کو پرنور کرتا رہے گا۔