چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے گزشتہ ماہ پولیس ریفارمز کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نظامِ عدل کی اصلاح اور بلاتاخیر فیصلوں کو یقینی بنانے کے لیے فوجداری مقدمات میں جھوٹے گواہوں کی حوصلہ شکنی اور تفتیشی نظام میں بہتری کے لیے لائحہ عمل بنایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ نظامِ تفتیش جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور پراسیکیوٹرز، تحقیقاتی افسروں کا تربیتی معیار بہتر کیا جائے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ جھوٹی گواہی اور ناقص نظامِ تفتیش کی وجہ سے سنگین مقدمات میں ملوث ملزم سزاؤں سے بچ جاتے ہیں اور غریب و مظلوم ورثاء انصاف کے لیے حسرت سے ایوانِ عدل کے دروازوں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 10-A کے تحت فیئر ٹرائل ہر شہری کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے مگر فیئر ٹرائل کا مرحلہ فیئر تفتیش کے بعد آتا ہے ، اگر کسی کیس میں فیئر تفتیش نہیں ہو گی تو فیئر ٹرائل اور انصاف کا مرحلہ بھی نہیں آئے گا۔
ناقص تفتیش اور انصاف میں تاخیر کی تازہ ترین مثال سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتلِ عام میں پولیس براہ راست ملوث ہے اور اسی پولیس نے تفتیش کے ’’فرائض ‘‘بھی انجام دئیے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا پولیس نے اسے اپنی تفتیش میں نقصِ امن کا کیس بنانے کی ہر ممکن کوشش کی، مظلوم ورثاء قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی میں غیر جانبدار تفتیش کا حق مانگتے رہے اور بالآخر ساڑھے چار سال گزر جانے کے بعد انہیں یہ حق مل سکا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس پر نئی جے آئی ٹی بنی جو اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے،امید ہے مارچ کے اختتام پر جے آئی ٹی اپنی تفتیش مکمل کر لے گی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے نظامِ عدل کی خامیاں دور کرنے کے لیے جو دلچسپی لی ہے ہم دعا گو ہیں کہ وہ اس اہم کام کو انجام تک پہنچائیں۔
چیف جسٹس کے اس بیان پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے بھی اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نظامِ انصاف میں انقلابی تبدیلی لانے کے لئے نظامِ تفتیش کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کا بیان قابلِ تحسین ہے۔ دعا ہے کہ وہ اس اہم آئینی فریضہ کو خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں۔ تفتیش کو کسی کے صوابدیدی اختیار تک محدود کر دینے سے مظلوم پر انصاف کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن جیسے سانحات اور بے گناہوں کے قتلِ عام کے واقعات میں پولیس کی ناقص اور جانبدارانہ تفتیش کی وجہ سے انصاف کا خون بھی ہوتا ہے، مقدمات غیر ضروری تاخیر کا نشانہ بھی بنتے ہیں اور مظلوم غیر جانبدار تفتیش کے آئینی حق کے لئے تڑپتا رہتا ہے۔ ماڈل ٹاؤن قتلِ عام کیس میں صرف غیر جانبدار تفتیش کا حق لینے کے لئے ساڑھے چار سال لگے اور ناقابلِ بیان مالی بوجھ برداشت کرنا پڑا۔ ایسے واقعات میں اکثر مقتولین کے ورثا تھک ہار کر قاتلوں سے ’’صلح‘‘ کر لیتے ہیں، یہاں تک کہ مائیں اپنے بچوں کے ناحق قتل کا انصاف مانگنے سے بھی عاجز آجاتی ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نظامِ تفتیش اور پراسیکیوشن میں موجود سقم دور کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ان کی ایک بڑی انسانی خدمت ہو گی اس سے انصاف کا نظام ٹریک پر آجائے گا اور لاتعداد غریب مظلوموں کو فائدہ پہنچے گااور پاکستان کو ریاستِ مدینہ کے ماڈل پر استوار کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ انصاف کی عدم فراہمی سے محرومی، اشتعال، متشدد روئیے، انتہا پسندی اور پھر دہشتگردی جنم لیتی ہے اور سوسائٹی کا امن تہس نہس ہو کر رہ جاتا ہے۔قائد تحریک منہاج القرآن نے جن نقائص کی نشاندہی کی ہے ان سے قانونی حلقے یقینا اتفاق کریں گے۔ آج ناقص نظامِ تفتیش کی وجہ سے ہر سطح کی عدالتوں میں لاکھوں کیسز زیر التواء پڑے ہیں اور جھوٹی گواہی کا کلچر اس حد تک اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے کہ مجرم ان جھوٹی گواہیوں کی وجہ سے اپنے قانونی انجام سے بچ جاتے ہیں۔ تفتیش، گواہی اور انصاف کا شفاف عمل محض آئین، قانون کا تقاضا یا انسانی ضرورت ہی نہیں بلکہ انصاف فراہم کرنا اور اس کے جملہ مراحل کے تقاضوں کو پورا کرنا دینِ اسلام کا ناگزیر تقاضا اور حکم ربانی ہے۔ قرآنی تعلیمات کی رو سے انصاف کی فراہمی اور سچی گواہی کے حوالے سے کسی قسم کا عذر قابل قبول نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے پیغمبر نبی آخر الزماںa کو بھی انصاف کرنے، عدل سے کام لینے کا حکم دیا، آئیے! نظامِ عدل کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا مطالعہ کرتے ہیں:
اسلامی نظامِ حکومت اور طرز معاشرت کی بنیادعدل پر رکھی گئی ہے۔ سورۃ المائدہ میں اللہ رب العزت نے فرمایا:
’’اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لیے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا(تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے، سو تم خواہش نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے ) اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بے شک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کررہے ہو خبردار ہے۔‘‘
سورۃ المائدہ میں ایک اور جگہ اللہ رب العزت فرماتا ہے:
’’اور اگر آپ فیصلہ فرمائیں تو ان کے درمیان (بھی) عدل سے (ہی) فیصلہ فرمائیں (یعنی ان کی دشمنی عادلانہ فیصلے میں رکاوٹ نہ بنے) بے شک اللہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
سورۃ الشوریٰ میں اللہ فرماتا ہے:
’’فرما دیجئے جو کتاب بھی اللہ نے اتاری ہے میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل و انصاف کروں۔‘‘
سورۃ المائدہ میں اللہ فرماتا ہے:
’’اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
حق اور انصاف کی فراہمی کے عمل میں رشوت ستانی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ میں اللہ فرماتا ہے:
’’اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطور رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو۔‘‘
قرآن نے قانونِ شہادت، نظامِ عدل کے حوالے سے جہاں ابہام سے پاک گائیڈ لائن دی ہے وہاں منصفوں کے لیے بھی ایک کوڈ آف کنڈکٹ دیا ہے، سورۃ النساء میں اللہ فرماتا ہے:
’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں پر حکومت کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کیا کرو( یا اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کیا کرو) بے شک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے۔‘‘
قرآن نے غیر منصفانہ فیصلوں کے لیے اپنی پسند کے جج کی طرف رجوع کرنے کو منافقین کی خصلت قرار دیا ہے۔ سورۃ النساء میں اللہ فرماتا ہے:
’’کیا آپ نے ان (منافقوں) کو نہیں دیکھا جو (زبان سے) دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس (کتاب یعنی قرآن) پر ایمان لائے، جو آپ کی طرف اتارا گیا ہے اور ان (آسمانوں کتابوں) پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئیں (مگر) چاہتے یہ ہیں کہ اپنے مقدمات (فیصلے کے لیے) شیطان (یعنی احکام الٰہی سے سرکشی پر مبنی قانون) کی طرف لے جائیں، حالانکہ انہیں حکم دیا جا چکا ہے کہ اس کا (کھلا )انکار کر دیں۔‘‘
مذکورہ بالا آیاتِ قرآنی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام نظامِ عدل کو کتنی اہمیت دیتا ہے بلکہ اسلامی نظامِ حکومت و معاشرت کی اساس ہی نظامِ عدل پر ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ چیف جسٹس نظامِ عدل میں بنیادی اصلاحات لانے کے حوالے سے اپنے عزم میں کامیاب و کامران ہوں۔