اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کی قسم کھائی ان میں سے ایک قلم بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ القلم میں فرمایا:
’’قلم کی قسم اور اس (مضمون) کی قسم جو فرشتے لکھتے ہیں‘‘۔
یعنی قلم کی بھی قسم کھائی اور کاتبین کے لکھے کی بھی کہ فرشتے جو لکھتے ہیں وہ حق ہوتا ہے، اس میں زیر، زبر کا بھی فرق نہیں ہوتا، جسے عرف عام میں نامہ اعمال سے تشبیہ دی جاتی ہے، اسی نامہ ا عمال کی بنیاد پر جنت و دوزخ کے فیصلے اور نیک و بد کا تعین ہوگا۔ قرآن مجید کا اسلوب تمثیلی بھی ہے اور دو ٹوک بھی، قلم کی قسم سے مراد علم کی حرمت اور اظہار و بیان کی پاکیزگی ہے کہ جب بھی قلم کا استعمال کیا جائے تو سچ لکھا جائے، قلم کے استعمال سے محبت، امن، آشتی اور شائستگی فروغ پائے، نہ کہ شر اور فساد جنم لے۔
دین اسلام کرہ ارض کا وہ واحد جامع دین اور ضابطہ حیات ہے جو انسان کو اٹھنے، بیٹھنے، بولنے، چلنے، غم اور خوشی کے اظہار اور ردعمل دینے کے طور طریقے سکھاتا اور آدابِ زندگی فراہم کرتا ہے، اسلام انسان میں انسانیت اور کردار سازی پر زور دیتا ہے، انسان اپنے کردار، حسنِ عمل اور علم کی وجہ سے تمام مخلوقات سے افضل ہے، تخلیقِ آدم کے مرحلہ پر ابلیس سے مکالمہ کے موقع پر علم کی وجہ سے آدم کی عظمت کا تعین ہوا۔ اللہ رب العزت نے فرشتوں کو فرمایا کہ آدم پر فساد فی الارض کے حوالے سے استغاثہ پیش کرنے والو! ان اشیاء کے نام بتاؤ جو آدم کو ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے سکھائے۔ فرشتوں کی طرف سے جواب نفی میں تھا۔ سورۃ البقرہ میں ارشاد ہوا:
’’اور اللہ نے آدم کو تمام (اشیاء )کے نام سکھا دئیے‘‘۔
قلم کی نسبت کا پاس نہ رکھنے والے سورۃ البقرہ کا ٹھنڈے دل و دماغ سے مطالعہ کریں اور مذکورہ آیات پر غور وفکر اور تدبر کریں اور پھر اس بات کا احاطہ کریں کہ آیا وہ قلم اور اللہ کے عطا کردہ اس علم کے استعمال کا حق ادا کررہے ہیں جس کا تقاضا ان سے قرآن مجید کررہا ہے؟قصہ آدم و ابلیس اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ بلاتصدیق الزام تراشی نہ کی جائے اور حسنِ ظن سے کام لیا جائے۔تحقیق کیے بغیر الزام تراشی اور پھر اپنی ناقص بات پر ڈٹ جاناشیطانی عمل ہے۔
اللہ کا اہلِ علم و قلم سے ایک تقاضا اور مطالبہ ہے کہ علم میں پختگی اور رسوخ حاصل کریں، کچی و ادھوری بات نہ کریں اور آپ کا قول پختہ ہو۔ پختگی وسعتِ مطالعہ اور فکر و تدبر سے حاصل ہوتی ہے، کوالیفائیڈ کو ڈاکٹر اور نامکمل و ادھورے علم والے کو عطائی کہتے ہیں جو خطرہ جان ہوتا ہے۔ کوئی ریاست نیم حکیم کو علاج کرنے کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ جب نیم حکیم بیمار کا علاج کرتا ہے تو پھر قبرستان آباد ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب کوئی نیم خواندہ دانشور استاد، شاعر، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ، وکیل، اینکر، کالم نویس فکری آبیاری کا بیڑہ اٹھاتا ہے تو پھر شر اور فساد جنم لیتا ہے۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ کوئی عطائی ڈاکٹر بن کر قانونی اعتبار سے علاج نہیں کر سکتا مگر فکری بیماریوں کا علاج کرنے والے عطائیوں سے یہ ملک بھرا پڑا ہے اور کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ آج اگر ہماری سوسائٹی میں امن، برداشت، اعتدال، رواداری، صبر، شائستگی اور محبت ہے تو پھر اس کا مطلب ہے ہمارے دانشور، استاد، علمائ، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ، وکیل، اینکر، کالم نویس، ڈرامہ نویس، ہدایتکار اپنا کام ٹھیک طریقے سے کررہے ہیں اور اگر سوسائٹی میں نتائج و ثمرات اس کے الٹ ہیں تو پھر اس کا مطلب ہے قوم عطائیوں کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے۔
اظہار کا سلیقہ، فہم کی پختگی اور اعتماد مثبت سوچ اور وسیع مطالعہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ قرآن پاک فکری گتھی کو سلجھاتے ہوئے کہتا ہے کہ
اس میں واضح اور صاف معنی رکھنے والی آیات بھی ہیں اور اشتباہ رکھنے والی آیات بھی ہیں، بہترین اور مکمل علم رکھنے والی ذات صرف خدا کی ہے اور جن کے دلوں میں کجی ہے وہ صرف متشابہات کی پیروی کو ترجیح دیں گے، جو یہ سمجھیں گے کہ اللہ کی کتاب مکمل اور کافی ہے اور ہر نصیحت رب کی طرف سے ہے تو وہ فلاح پائیںگے، وہی اہل دانش اور خوش نصیب ہیں۔
قرآن نے یہ گتھی اس طرح سلجھائی کہ کوئی انسان جس سوچ اور جذبے کے ساتھ کسی فکر کا مطالعہ کرے گا تو اسی طرح کا رنگ اس کے دل، دماغ اور قلم پر غالب آئے گا۔ اگر وہ مثبت سوچ کے ساتھ کوئی بات کرے گا تو اس کے اثرات بھی مثبت ہوں گے اور اگر وہ منفی سوچ کے ساتھ کوئی کام کرے گا تو اس کے اثرات بھی منفی ہی ہوں گے۔
مذکورہ بالا تمہید کا مقصد، قلم، علم،بیان و اظہار کی حرمت اور مقصدیت بیان کرنا تھا۔ کوئی یہ مت بھولے کہ اس کے بولے اور لکھے ہوئے الفاظ کا اثر اور کوئی نتیجہ نہیں ہوتا۔ ہر لکھنے اور بولنے والے کا ایک حلقہ ہوتا ہے جو اس کی تحریروں کا اثر لیتا ہے پھر آگے ان کا حلقہ ہوتا ہے، اسی طرح ایک بات ری ٹویٹ ہوتی اور پھیلتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی دور دراز پسماندہ گاؤں کی مسجد کے امام کا سپیکر میں کیا ہوا کوئی اعلان بعض اوقات پورے ملک کو آگ اور خون کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کے الزامات اور پھر اس کے ردِعمل کو ہم متعدد بار بھگت چکے ہیں۔
یہ صدی سوشل میڈیا کے انقلاب کی ہے، بعض اوقات وہ بڑا کام گھنٹوں کا وعظ اور سینکڑوں صفحات پر مشتمل کتاب نہیں کر پاتی جو کام ایک ٹویٹ کر دیتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال جسٹس فار زینب کا ہیگ ٹیگ ہے جو منہاج القرآن سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ نے لانچ کیا۔ جسٹس فار زینب کا ہیش ٹیگ لانچ ہونے کے بعد یہ زینب کے انصاف کی آواز بن گیا۔ سوشل میڈیا کا یہ انتہائی مثبت اور موثر استعمال ہے مگر دوسری طرف اسی سوشل میڈیا کو بعض نام نہاد دانشور ’’پیڈ دیہاڑیے‘‘ مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، عزت دار لوگوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں، الزام تراشی کرتے اور سوسائٹی میں نفرت اور نفاق پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے تمام احباب یہ بات پیش نظر رکھیں کہ علم اور قلم کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کا حکم ہے نہ کہ انسانیت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے۔ شیطان نے محض وسوسہ کی بنیاد پر خود کو عالم اور انسان کو فسادی قرار دیا اور اپنی اس بات کو آگے بڑھانے کے لیے غلط استدلال سے کام لیا، اور نتیجتاً راندہ درگاہ ٹھہرا۔
آج بھی سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ، کالم نویس، دانشور، شاعر اور ادیب حضرات میں سے جو لوگ محض وسوسہ کی بنیاد پر الزام تراشی کرتے اور نقصِ امن کا سبب بنتے ہیں وہ سوسائٹی کا بوجھ اور ناسور ہیں اور اللہ نے فساد فی الارض کرنے والوں کو ظالم قرار دیا اور ان کے خلاف آہنی ہاتھوں سے پیش آنے کا حکم دیا۔
الحمدللہ تعالیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری کے تربیت یافتہ کارکنان بالخصوص منہاج سائبر ایکٹیوسٹ کے جملہ ممبران و عہدیداران اول دن سے ہی علم اور قلم کی حرمت کے نہ صرف پاسبان ہیں بلکہ اس پیغام کو فروغ دینے میں بھی سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ آج ہم ایک مرتبہ پھر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں گے، باوقار انداز میں اپنی آواز عامۃ الناس تک پہنچائیں گے، الفاظ کے چناؤ میں شائستہ رہتے ہوئے، جدید ٹیکنالوجی سے وابستہ رہیں گے اور اللہ کے عطا کردہ اس علم اور توفیق کا انتہائی مثبت استعمال کریں گے اور حقیقی معنوں میں اسلام اور پاکستان کے ترجمان بنیں گے۔