اِنسانی حیات کی تخلیق اس کائنات کا اہم ترین واقعہ ہے۔ ہمارے خالق و مالک نے اس کی بقا کی خاطر اپنی قدرتِ کاملہ سے ایسے ایسے اسباب پیدا فرمائے ہیں کہ عقول ان کے ادراک سے عاجز ہیں۔ انسانی حیات کی تعمیر و ترقی میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار ایسی صلاحیتیں انسان کو ودیعت کی ہیں جن کو بروئے کار لا کر وہ اپنا مقصد حیات حاصل کرسکتا ہے۔ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اس کے علم کی وسعت کے سامنے فرشتوں نے سر تسلیم خم کیا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالی کی عطا کی گئی ان نعمتوں کو سمجھے اور ان کی روشنی میں اپنی زندگی کے شب و روز سنوارے۔ یہ متنوع انسانی زندگی اس امر کی متقاضی ہے کہ بندہ اپنی شخصیت کی تکمیل میں خوب سے خوب تر کی تلاش میں کوشاں رہے۔
زندگی کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی گئی نعمت کی تعمیر و تشکیل کی تین اقسام ہیں جن کی بہترین نگہبانی اور تربیت کے ذریعے انسان خالقِ کائنات کی طرف سے عطا کردہ احسنِ تقویم کے مرتبے پر فائز ہو سکتا ہے۔ جسدِ انسانی بظاہر تو ایک مادی جسم نظر آتا ہے جس کو دیکھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ہی حیات ہے، لیکن اِس حیات کے در حقیقت تین الگ الگ پہلو اور جہات ہیں:
- جسدی حیات
- شعوری حیات
- روحی حیات
1۔ جسدی حیات
سب سے نمایاں پہلو اور جہت حیاتِ جسدی ہے جو ہر کسی کو چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ جسدی حیات انسان کی پیدائش،نگہداشت، دیکھ بھال، پرورش، اس کی معاشرتی و معاشی دائرہ کا، ازدواجی زندگی وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ تمام امور درجہ بدرجہ تکمیل پذیر ہوتے ہیں حتیٰ کہ پھر انسان اس جسدی حیات میں کوئی بزنس میں چلا جاتا ہے، تو کوئی سیاست کو بطور میدانِ کار منتخب کرتا ہے اور اپنی پہچان وہاں بناتا ہے۔ کوئی مختلف پرو فیشن اختیار کرتے ہوئے ڈاکٹر، انجینئر، لیکچرار وغیرہ بن کر اپنی شناخت قائم کرتا ہے۔ الغرض یہ ساری ترقی، گھر بار، لباس ، روز گار یہ تمام امور اُس کی جسدی حیات سے متعلق ہیں۔ اسے ہم جسدی حیات کہتے ہیں۔
2۔ شعوری حیات
جسدی حیات کے بالمقابل انسانی جسم میں ایک اور حیات بھی نمو پاتی ہے جسے شعوری حیات کہتے ہیں۔ ہماری conscious life جسدی حیات سے بالکل مختلف ہے۔ اُس میں انسان علمی زندگی گزارتا ہے، مطالعہ کرتا ہے، مختلف تعلیمی اداروں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں جا کر مختلف degrees حاصل کرتا ہے اور اُس کے علاوہ وہ تجربہ جو سالہا سال کی زندگی گزارنے کے بعد حاصل کرتا ہے، یہ سب مل کر اُس کی شعوری حیات کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ حیاتِ انسانی کی دوسری قسم ہے۔
3۔ روحی حیات
حیاتِ انسانی کا تیسرا پہلو روحی حیات ہے جس کا تعلق بظاہر انسان کی روح سے ہوتاہے لیکن در حقیقت وہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے منسلک ہوتاہے، جو ہمارا خالق و مالک ہے۔ حیاتِ انسانی کا یہ پہلو اخلاقیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس میں اخلاقی زندگی(moral life) اور مذہبی زندگی( religious life ) شامل ہے۔ یہ پہلو انسان کی رہنمائی کرتے ہوئے اس کے لیے درست سمت متعین کرتا ہے کہ وہ دنیا میں زندگی کیسے گزارے؟ اپنے اخلاق کیسے سنوارے؟ اپنی عادات و اطوار کیسی بنائے؟ اپنے لیے پیمانہ متعین کرتے ہوئے مشاہدہ کرے کہ اس کی طبیعت میں کیا بری اخلاقیات مثلاً جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، نانصافی کرنا، ناحق کسی کا مال کھانا، کرپشن وغیرہ شامل ہیں یا اخلاقیاتِ حسنہ مثلاً سچ بولنا، حسانت میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینا، نیکی کی ترویج کرنا، ایفائے عہد اور خدمتِ خلق وغیرہ شامل ہیں۔ پھر درست رہنمائی ملنے پر نیکی اور اچھائی کا ساتھ دے۔ یہ تمام امور انسان کی اخلاقی زندگی (moral life) سے متعلق ہیں۔ اِس کا تعلق حیات روحی کے ساتھ ہے۔
گویا جسم تو ایک ہے لیکن اِس میں تین طرح کی زندگیاں موجزن ہیں اور اُن تینوں زندگیوں کی ضرورتیں اور خوراک جدا جدا ہے، کسی ایک زندگی کی خوراک دوسری زندگی کے کام نہیں آتی۔ مثال کے طور پر جسدی زندگی کی ضرورت محنت کرنا، کاروبار کرنا، گھر بار بنانا اور نوکری کرنا ہے تو اس کے نتیجے میں جسدی حیات ہی مضبوط ہوگی، جبکہ شعوری حیات اور روحی حیات کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔ اِسی طرح انسان کی شعوری حیات کی خوراک علم اور تجربہ حاصل کرنا ہے جس کے نتیجے میں وہ پروان چڑھتی ہے۔
جس طرح پہلی دونوں قسم کی حیات کو بیٹھے بٹھائے کچھ نہیں ملتا۔ اِسی طرح روحی حیات کو بھی بیٹھے بٹھائے کچھ نہیں ملتا۔ اِس کو اچھے اخلاق سے، دین داری سے، اللہ اور اُس کے رسولa کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے، حیاداری کے ساتھ اور اپنی زندگی کو ڈسپلن کے ساتھ ایک بہتر راستے پر چلانے سے خوراک میسر آتی ہے۔ جب یہ تینوں حیات بیک وقت پروان چڑھتی ہیں تو اِنسان پھر اِنسان نہیں رہتا بلکہ اِنسان کامل بن جاتا ہے۔ عموماً جب ایک حیات نمو پاتی ہے اور بقیہ دو neglect ہوتی رہتی ہیں تو ایسا انسان جتنی بھی ترقی کر لے، وہ کامل نہیں بن سکتی۔ اقبال کا مردِ مرتضیٰ نہیں بن سکتا۔ مردِ مرتضیٰ تب بنے گا جب بیک وقت اِن تینوں طرح کی زندگیوں پر یکساں توجہ سے محنت کرے گا۔ لیکن امرِ واقعہ ہے کہ ہم بیک وقت حیات کے تینوں پہلوؤں کی برابرنشو و نما اور تربیت پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔
4۔ اچھا اِنسان کیسے بنتا ہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچھا انسان کیسے بنا جائے؟ اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے عصرِ حاضر میں شکوہِ قحط الرجال سے بہتر ہے کہ تینوں پہلوؤں پر برابر توجہ دی جائے اور انہیں نکھارا جائے اور عدل کا تقاضا بھی یہی ہے۔ جب کہ اگر حقیقت پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ بات آشکار ہو تی ہے کہ تینوں اقسامِ حیات اس وقت اصلاح طلب ہیں کیوں کہ انسان مقصدِ حیات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ہر پہلو کو اس حد تک نبھا رہا ہے جہاں تک اس کی معاشرتی، معاشی، سیاسی، تمدنی، مذہبی ضرورت پوری ہو جائے۔ اس مادیت زدہ دور نے انسان سے (الّا ما شاء اللہ) طلبِ صادق چھین لی ہے۔ وہ mediocre سطح کا انسان بن کر رہ گیا ہے۔ جسدی حیات کی ضروریات کی تکمیل اور اعلیٰ دنیوی زندگی کا تصورچونکہ مال و متاع کے بغیر کرنا ناممکن ہے اس لیے اس کی مکمل توجہ اسی پر ہی مرکوز ہو کر رہ گئی ہے، تاکہ مال و دولت کمائی جا سکے۔ ڈگری حاصل کرنے کے بعد روزگار کی طرف متوجہ ہو جاتا ہیں، اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی اخلاقیات پر توجہ دے کر اچھا اِنسان بننے کی تگ و دو کرے۔ لہٰذا وہ پروفیسر، انجینئر، ڈاکٹر تو بن جاتا ہے مگرقابلِ تشویش پہلو یہ ہے کہ کیا وہ اچھا انسان بھی بن پایا یا نہیں؟ اچھا انسان تو اسے روحی حیات نے بنانا تھا جسے نظر انداز(neglect)کر دیا گیا تھا۔
اگرچہ عددی اعتبار سے انسان کا کلی ارتکاز جسدی حیات پر رہتا ہے، تاہم محدود پیمانے پر بعض ایسے انسان بھی پائے جاتے ہیں جو شعوری اور روحی حیات کی جانب مقابلتاً زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ان میں ایک طبقہ فقط شعوری حیات پر توجہ دینے والوں کا ہے جو فقط مطالعہ اور تحریر و تصنیف میں مشغول رہا اور اپنی فرائض بطور گھر کے سربراہ کے احسن طریق سے نہ نبھائے، اپنی اولاد کی تربیت کا نہ سوچا، اُن کو بہتر زندگی دینے کا نہ سوچا، practical life میں نہ گئے، اُس کے نتیجے میں ان کی جسدی حیات neglect ہوگئی۔ کچھ لوگوں نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی، فقط خلوت نشینی اور گوشہ نشینی اختیار کر لی اُنہوں نے جسدی حیات کو بھی neglectکر دیا اور شعوری حیات جس کا تعلق علم سے تھا اُسے بھی neglect کر دیا۔ گویا ان میں سے بھی کوئی ایسا اِنسان کامل نہ بن سکا، جس کے اندر تینوں پہلوؤں نے بیک وقت ترقی پا کر ایک جامع اور متوازن شخصیت نے تشکیل پانا تھی۔ لہٰذا توجہ طلب امر یہ ہے کہ اب ایسی صورت حال میں انسانِ کامل کہاں سے وجود میں آئے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اعتدال و توازن کی راہ اختیار کرتے ہوئے تینوں پہلوؤں کو برابر توجہ دے تاکہ اقبال کا مردِ مرتضیٰ بن سکے۔
5۔ اقوام و ملل کی حیاتِ ثلاثہ
جس طرح حیاتِ بشری میں بیک وقت تین زندگیاں کار فرما ہوتی ہے اِسی طرح اقوام و ملل کی حیات میں بھی تینوں زندگیاں پائی جاتی ہیں۔ ہر قوم کی ایک جسدی حیات، ایک شعوری حیات اور ایک روحی حیات ہوتی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ اُس کے law and order کی صورتِ حال اچھی ہو، اُس کا نظامِ معیشت اچھا ہو، اُس کا نظامِ سیاست اچھا ہو، اُس کا نظامِ عدالت اچھا ہو، اُس کے اندر بنائے گئے تمام ادارہ جات شاندار انداز میں کام کرنے کے اہل ہوں۔ غریب کو انصاف ملتا ہو، بھوکے کو روٹی ملتی ہو، کسی کے ساتھ ظلم اور ناانصافی نہ ہو، ظالم کی گرفت ہوتی ہو، یعنی تمام ادارہ جات اپنی اپنی جگہ پر صحیح کام کر رہے ہوں تو ایسی مثالی صورت کو کہیں گے اِس ملک کی جسدی حیات اچھی ہے۔
اگر ایک ملک سائنسی ترقیاں (Scientific developments) کر رہا ہے، ملک میں نت نئی ایجادات (inventions) ہو رہی ہیں۔ خلاء کو تسخیر کر رہا ہے، ملکی صنعت ترقی یافتہ ہے، اس کی صنعت و حرفت میں نئی نئی ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے، اس ملک نے اپنی تمام تر کاوشوں کی بدولت بڑا مقام پیدا کر لیا ہے، اُس کا تعلیمی معیار قابلِ فخر ہے، تو اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ اِس ملک کی شعوری حیات بھی بڑی اچھی ہے۔
اِسی طرح اگر ایک ملک اعلیٰ اخلاقی معیار کا حامل ہے، اُس قوم کی اخلاقیات اچھی ہے، وہ قوم رشوت نہیں لیتی، وہ چوری نہیں کرتی، وہ غبن نہیں کرتی، وہ کھانے کی اشیاء میں ملاوٹ نہیں کرتی، ٹیکس ادا کرتی ہے، اخلاق سوز واقعات سے پاک ہے، تو کہیں گے کہ اِس قوم کی moral life بھی اچھی ہے یعنی اِس قوم کی روحی حیات بھی اچھی ہے۔
6۔ پاکستان کس مقام پر؟
مذکورہ بالا تناظر میں اگر ہم وطنِ عزیز ملکِ پاکستان کی قومی حیات کا جائزہ لیں تو ایک تکلیف دہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ آزادی کے 71 سال بیت جانے کے بعد بھی یہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور اس کی قومی حیات کے تینوں پہلو شکستہ اور قابلِ رحم حالت میں ہیں۔ ہر پہلوِ حیات اپنی خستہ حالت پر نوحہ کناں ہے۔ روحی حیات کا تو وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب کہ بقیہ دو پہلوِ حیات کمزور صورت میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
یہی وجہ ہے پاکستانی قوم میں ٹیلنٹ ہونے کے باوجود میرِ کارواں اچھا میسر نہ آنے کی صورت میں وہ در بدر کی ٹھکریں کھا رہی ہے۔ یہی وہ خطہ مشرق ہے جہاں سے میرِ عرب کو خوشبو کے جھونکے آئے۔ برصغیر کی وہی سر زمیں ہے جہاں سے ایک زمانے میں قوم کے لیڈرز، ائمہ، مجتہدین اور عظیم اولیاء و صوفیا ء کرام پیدا ہوئے۔ جس کی اصل وجہ تینوں قومی حیات کے پہلوؤں پر یکساں توجہ تھی۔ جس طرح تینوں حیات اگر انسان کی زندگی میں مکمل نہ ہوں تو وہ کامل نہیں بن سکتا بالکل اسی طرح جب تک مذکورہ تینوں جہات کسی قوم اور ملک کی زندگی میں مجتمع نہیں ہوں گی، وہ ملک اوجِ ثریا کی بلندیوں کو نہیں چھو سکتا اور اس کے نوجوان سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان اور اخلاقیات میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔
7۔ حاصلِ کلام
المختصر یہ کہ قدرت کی طرف سے تین طرح کی حیات انسان کی ذاتی زندگی میں خمیر کے طور پر رکھ دی جاتی ہے، ان کی نشوونما تعلیمی ادارہ جات سے شروع ہوتی ہے، اِس کا آغاز سکولز سے ہوتا ہے، پھر کالجز اور یونیورسٹیز اپنی اپنی سطح پر کردار سازی کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔ اگر اِن تعلیمی ادارہ جات میں نوجوانوں کی اِن تین طرح کی زندگیوں کی بہتری کو یقینی بنایا جائے تو اِن شاء اللہ! ان تینوں خصوصیات کے حامل بچے پاکستان کے عظیم contributors اور مہذب شہری بن سکتے ہیں۔ پھر وہ نہ صرف پاکستان کا نام بلند کریں گے بلکہ عالم اسلام کے لیے باعث فخر ہوں گے۔
نظریاتی اور غیر نظریاتی تعلیمی اداروں کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے کہ غیر نظریاتی اداروں میں صرف تعلیم دی جاتی ہے یعنی فقط انسان کی شعوری حیات پر محنت کی جاتی ہے یا جسدی حیات کی طرف توجہ مبذول کروائی جاتی ہے کہ وہ بہتر روزگار حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں۔ مگر نظریاتی انسٹی ٹیوشن میں اِس چیز کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ اس میں داخل ہونے والے طلبہ و طالبات کی زندگی میں تینوں طرح کی حیات یکساں ترقی کریں، اُس کی moral life بھی اچھی ہو تاکہ وہ ایک بہتر شہری اور بہتر انسان بن سکے، اُس کی شعوری حیات بھی اچھی ہو تاکہ وہ ایک عظیم سکالر بن سکے، پھر اُس کی جسدی حیات بھی اچھی ہو تاکہ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب وہ عملی زندگی میں جائے تو اپنے لیے بہتر سے بہتر روزگار کا انتخاب کر سکے۔