سوال: کیا نماز میں دنیاوی خیالات کا آنا اس کی عدمِ قبولیت کی علامت ہے؟
جواب: نماز مسلمان کے لئے سب سے قیمتی تحفہ ہے جو اسے دیگر مذاہب کے پیرو کاروں سے منفرد و ممتاز بناتی ہے۔ نماز ایسی عبادت ہے جو عابد و معبود کے درمیان احساسِ قربت کا ذریعہ ہے، بندہ مومن جب نماز ادا کرتا ہے تو وہ محض قیام و تلاوت اور رکوع و سجود نہیں کر رہا ہوتا بلکہ اپنے رب تعالیٰ سے ہمکلام ہوتا ہے، یہی انسان کی معراج ہے۔
اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ حالتِ نماز میں خشوع و خضوع نہیں رہتا، انسان کا دھیان ادھر ادھر بھٹکنے لگتا ہے، دنیاوی خیالات دل و دماغ کو گھیر لیتے، انسان بظاہر ارکانِ نماز ادا کر رہا ہوتا ہے مگر اس کی توجہ کہیں اور ہوتی ہے۔ نماز میں وساوس یا دنیاوی خیالات کا آنا بہت عام ہے۔ اسی لیے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’میری امت سب سے پہلے جس شے سے محروم ہوگی وہ خشوع ہے۔‘‘
خشوع سے مراد وہ کیفیت ہے جس میں انسان کا دل شوقِ الٰہی سے بھرپور ہو، لبوں سے ادا ہونے والے الفاظ کا اظہار اعضائے جسمانی سے بھی ہو رہا ہو، جسم کعبہ کی طرف اور دل ربِ کعبہ کی طرف متوجہ ہو۔اگرچہ نماز میں دنیاوی خیالات یا وساوس آنے سے نماز کی صحت و قبولیت پر کوئی اثر نہیں ہوتا، یہ نماز کی عدمِ قبولیت یا رب تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بھی نہیں ہیں، تاہم ان دنیاوی خیالات کو طول نہیں دینا چاہیے بلکہ فوراً جھٹک دینا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو کوشش کریں کہ نماز میں خشوع و خضوع برقرار رہے۔
دنیاوی خیالات آنے کی صورت میں نماز کی تلاوت قدرے بلند آواز میں کریں، اس سے توجہ خیالات سے ہٹ کر نماز کے الفاظ پر ہو جائے گی۔ مزید یہ کہ کچھ سورتوں یا آیات کا ترجمہ یاد کرلیں اور نماز میں ان کی تلاوت کریں۔ تلاوت کرتے ہوئے ان آیات کا ترجمہ بھی ذہن میں دہراتے رہیں، اس سے دھیان ادھر ادھر نہیں بھٹکے گا۔
نماز میں یکسوئی حاصل کرنے کا طریقہ
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے نماز میں شیطانی خیالات، وسوسوں سے بچنے اور خشوع و خضوع برقرار رکھنے کے لیے درج ذیل تدابیر بیان فرمائی ہیں:
1۔ انسان جب اذان کی آواز سنے تو دل میں تصور کرے کہ مجھے میرے خالق و مالک اور غفور و رحیم کی بارگاہ سے حاضری کا بلاوا آیا ہے، اب میں ہر کام پر اس حاضری کو ترجیح دیتا ہوں۔ لہٰذا جس کام میں بھی مشغول ہو، اسے چھوڑ کر نماز کی تیاری کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
رِجَالٌ لَّا تُلْهِیهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَیْعٌ عَن ذِکْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِیتَاءِ الزَّکَاةِ یَخَافُونَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُO
(النور، 24: 37)
’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی‘‘۔
2۔ نماز میں یکسوئی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مؤذن کی صدا سننے کے بعد نمازی کا دل بار بار اپنے مالک کی حاضری کی طرف متوجہ ہو اور خوش ہو کہ مالک نے یاد فرمایا ہے اور میں اس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنی تمام روداد عرض کروں گا۔۔۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگوں گا۔۔۔ شوق و محبت سے قیام کروں گا۔۔۔ رکوع اور سجود کے ذریعے دلی راحت و سکون حاصل کروں گا۔۔۔ اور اسی طرح اپنے تمام غموں اور صدماتِ ہجر و فراق کا ازالہ کروں گا۔میں محبوبِ حقیقی کی حاضری کے لیے طہارت کرتا ہوں، اچھے کپڑے پہن کر اور خوشبو لگا کر حاضر ہوتا ہوں کیونکہ میرے مالک کا حکم ہے :
یَا بَنِی آدَمَ خُذُواْ زِینَتَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِدٍ.
’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو۔‘‘
(الاعراف، 7: 31)
پس بندے کو چاہئے کہ بارگاہِ خداوندی کی عظمت کا بار بار تصور کرتے ہوئے سوچے کہ اتنی بڑی بارگاہ میں کیسے حاضری دوں گا۔
3۔ نماز میں یکسوئی حاصل کرنے کے لیے مکمل نماز کے معانی ذہن نشین کر لیے جائیں اور اس کا مفہوم لفظاً لفظًا ازبر کرلیا جائے۔ مثلاً: لفظ سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ زبان سے ادا ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی بڑائی، پاکیزگی اور تقدس کا تصور دل و دماغ میں گھر کر جائے اور نمازی پر یہ خیال حاوی ہو جائے کہ وہ سب سے بڑے بادشاہ کے دربار میں دست بستہ حاضر ہے جو ہر عیب اور نقص سے پاک ہے۔ وَبِحَمْدِکَ سے اس کی حمد و ثنا کی طرف نگاہ جاے کی وہی ذات ساری تعریفوں کے لائق ہے۔ علی ھذا القیاس ساری نماز کے ایک ایک لفظ پر نمازی کو آگاہی ہو تو نماز میں یکسوئی نصیب ہوتی ہے۔
4۔ نمازی نماز میں یہ تصور کرے کہ یہ میری زندگی کی آخری نماز ہے شاید اس کے بعد زندگی مہلت نہ دے۔ بس یہ سوچ نمازی کو باقی چیزوں سے ان شاء اﷲ اجنبی و بیگانہ کر کے اپنے رب کریم کی طرف متوجہ کر دے گی۔
سوال: جنتری، فال یا ستاروں کی چال دیکھ کر بچوں کے نام رکھنا کیسا ہے؟
جواب: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے با معنی اور اچھا نام رکھنے کا حکم دیا ہے۔ امام طوسی روایت کرتے ہیں:
جَاء َ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ یَارَسُوْلَ اﷲِ مَا حَقَّ إِبْنِیْ هٰذَا؟ قَالَ (صلی الله علیه وآله وسلم) تَحَسَّنَ إِسْمُه وَادَّبَه وَصَنَعَه مَوْضِعاً حَسَناً.
(محمد بن احمد صالح، الطفل فی الشریعة الاسلامیة: 74)
’’ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) میرے اس بچے کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا: تو اس کا اچھا نام رکھ، اسے آداب سکھا اور اسے اچھی جگہ رکھ (یعنی اس کی اچھی تربیت کر)۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اچھے ناموں کو پسند فرمایا بلکہ اچھے نام رکھنے کا حکم بھی دیا اور اسے بچے کا پیدائش کے بعد اولین حق قرار دیا۔ ستارے، جنتری یا فال کے ذریعے نام رکھنا توّہم پرستی ہے اور شرعِ اسلامی میں تواہمات کی کوئی حقیقت نہیں۔
سوال: معاہدہ بیع ختم ہونے پر خریدار کا بیعانہ کی رقم دوگنا لینا کیسا ہے؟
جواب: جب خریدار اور فروخت کنندہ باہمی رضامندی سے خرید و فروخت کا معاملہ طے کر لیتے ہیں تو خریدار کچھ رقم پیشگی ادا کرتا ہے جسے بیعانہ کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل فروخت شدہ شے کی قیمت کا ہی حصہ ہوتا ہے جو فوری ادا کر دیا جاتا ہے۔ خریدار طے شدہ مدت میں کسی وجہ سے باقی قیمت ادا کرنے سے عاجز آ جائے یا فروخت کنندہ بیچنے سے انکار کر دے تو صرف بیعانہ کی رقم واپس کی جائے گی، خریدار کی طرف سے زائد کا مطالبہ کرنا یا فروخت کنندہ کا رقم دبا لینا شرعاً جائز نہیں۔
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
نَهَی رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم عَنْ بَیْعِ الْعُرْبَانِ.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیع عربان سے منع فرمایا ہے۔‘‘
بیع عربان یہی ہے کہ ایک شخص کوئی چیز خریدے اور فروخت کرنیو الے کو اس کی کچھ قیمت اس شرط پر دے کہ اگر خرید و فروخت مکمل ہوجائے تو دی گئی رقم سامان کی قیمت میں شمار کی جائے گی اور بیع مکمل نہ ہوسکے تو خریدار یہ رقم فروخت کرنے والے کے لیے چھوڑ دے گا۔ اس کی وضاحت امام مالک نے ان الفاظ میں کی ہے:
’’حقیقی علم اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، مگر ہمارے خیال میں اس (بیع عربان) کا معنٰی یہ ہے مثلاً: ایک آدمی غلام خریدے یا کرائے پر جانور لے تو کہے کہ میں آپ کو ایک دینار دیتا ہوں اس شرط پر کہ اگر میں سامان نہ لوں یا کرائے پر نہ رکھوں تو جو (دینار) میں نے آپ کو دیا ہے وہ آپ کا ہو گا۔‘‘
(ابی داود، السنن، کتاب الإجارة، باب فی العربان، 3: 283، رقم: 3502)
جمہور فقہائے کرام نے اس بیع کو ممنوع و ناجائز قرار دیا ہے کیونکہ اس صورت میں بلاعوض دوسرے کے مال کا مالک بننا لازم آتا ہے۔ اس لیے زید بکر کو وہی رقم واپس کرے جو اس نے بیعانہ کی صورت میں وصول کی تھی۔ بکر کے لیے دوگنا رقم کا مطالبہ اور اس کا حصول و استعمال جائز نہیں۔
سوال: کیا ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پر منافع دینے والی غیر مسلم کمپنیوں کی طرح مسلمان بھی کاروبار کر سکتے ہیں؟
جواب: مسلمانوں کے پاس اس طرح کے کاروبار کے لیے شرعی طریقہ بیع مضاربہ اور مشارکہ کی صورت میں موجود ہے۔
مضاربہ میں سرمایہ ایک شخص کا اور محنت دوسرے شخص کی ہوتی ہے۔ مضاربہ سے جتنا منافع حاصل ہو، طے شدہ مناسب کے مطابق آپس میں تقسیم کر لیں گے۔
مشارکہ میں دو یا زیادہ لوگ اپنا اپنا سرمایہ لگاتے ہیں، جو منافع ہوتا ہے آپس میں طے شدہ مناسب کے مطابق تقسیم کر لیتے ہیں۔
مسلمان یہ دونوں طریقے اپنا کر اپنا کاروبار اور منافع بڑھا سکتے ہیں۔ کوئی بھی کمپنی ہو، خواہ مسلمانوں کی یا غیر مسلموں کی یا کسی کی بھی، اگر اس نے منافع فکس کیا، مثلاً: ایک لاکھ پر 5000 تو یہ جائز نہیں ہے اور اگر منافع میں سے طے شدہ تناسب کے مطابق جتنا مقرر کرتی ہے تو یہ جائز ہے۔
گویا فکس کرنے کے دو طریقے ہوئے:
- ایک لاکھ لے کر5000 دے دینا۔ یہ صورت جائز نہیں ہے اور سود ہے۔
- دوسری صورت یہ ہے کہ ایک لاکھ لے کر5 فیصد یا10 فیصد دے تو یہ جائز ہے۔
کیونکہ دوسری صورت میں رقم فکس نہیں ہے، اس لیے یہ صورت جائز ہے۔ ہو سکتا ہے ایک ماہ آپ کا منافع 5 فیصد کی صورت میں ایک ہزار روپے ہو اور دوسرے ماہ5 فیصد کی صورت میں منافع 8 ہزار روپے ہو۔ ایسی صورت میں انسان نفع و نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے۔ جبکہ پہلی صورت میں ایسا نہیں ہے۔ اس نے ہر صورت میں 5000جو فکس کیے ہیں، ادا کرنے ہیں اور یہ سود ہے جو حرام ہے۔
ایسی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے شرعاً کوئی حرج نہیں، ان کے لیے جائز ہے، کیونکہ وہ فقط محنت مزدوری کرتے ہیں، سود کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا محنت مزدوری کرنے والوں کے لیے ایسی کمپنیوں میں کام کرنا جائز ہے۔ البتہ سود لینے والا، دینے والا، گواہ اور کاتب (اس کو لکھنے والا) ان لوگوں کو حدیث میں سود خور کہا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ متبادل کام تلاش کرتے رہیں، جونہی انہیں کسی دوسری جگہ کام ملے سود والی کمپنی سے فوراً کام کرنا چھوڑ دیں۔ حالتِ اضطراری میں حرام چیز بھی حلال ہو جاتی ہے، اگر سود کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور دوسرا کوئی راستہ نہیں تو پھر جائز ہے۔ جیسے جان بچانے کے لیے مردار کا کھا لینا وغیرہ۔ قرآن میں آیا ہے:
فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَیْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ.
(البقرة، 2: 173)
’’پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں)کوئی گناہ نہیں، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
شرط یہ رکھی گئی ہے کہ وہ واقعی مجبور ہے، ورنہ نہیں۔
غیر مسلموں کے ساتھ کام کرنا یا تجارت کرنا اصلاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ فقط سود اور حرام کاموں میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ ایسے کفار سے جو مسلمانوں کے دشمن ہوں، جنہیں حربی کہا جاتا ہے، ان کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات جائز نہیں، جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہوں اور ہر وقت مسلمانوں کو ایذا اور تکلیف دیں۔