سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے حصول کی جدوجہد کو ساڑھے 5 سال کا عرصہ گزر گیا، ہنوز ورثاء انصاف سے محروم ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا ٹرائل انسدادِ دہشتگردی کی عدالت لاہور میں زیرِ سماعت ہے، اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے فلور پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تشکیل پانے والی دوسری جے آئی ٹی کے سٹے آرڈر کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے وکلاء قانونی چارہ جوئی کررہے ہیں۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء جے آئی ٹی کے خلاف آنے والے حکمِ امتناعی کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی گئے جہاں لاہور ہائیکورٹ کو دوسری جے آئی ٹی کے متعلق نیا بنچ تشکیل دینے اور 3 ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کی ڈائریکشن دی گئی ہے۔ اس ضمن میں سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور کا کہنا ہے کہ ہم حصولِ انصاف کے لیے مسلسل قانونی چارہ جوئی کررہے ہیں، عدالتوں کے سوا اور کوئی دوسرا فورم نہیں ہے۔ خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے معزز ججز نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ قتلِ عام کا کھلا واقعہ ہے اس پر انصاف ہونا چاہیے۔ امید ہے کہ بے گناہوں کو قتل کرنے والے جلد یا بدیر ایک نہ ایک دن اپنے عبرتناک انجام سے ضرور دو چار ہوں گے، یہ انسانی خون ہے جو رائیگاں نہیں جائے گا۔
منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے نہتے اور بے ضرر کارکنان کو بلا اشتعال دن دہاڑے شہید کیا گیا، درجنوں کو بہیمانہ طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قتل و غارت گری اور ظلم و بربریت کے یہ سارے منظر میڈیا کے ذریعے پوری قوم نے دیکھے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا اول روز سے صرف ایک مطالبہ، موقف اور اپیل ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش کروائی جائے۔ غیر جانبدار تفتیش سے ہی انصاف کاعمل پٹری پر چڑھے گا۔ اس سے قبل پنجاب کے جن حکمرانوں نے جے آئی ٹی تشکیل دی وہ براہ راست سانحہ ماڈل ٹاؤن کے نامزد ملزم ہیں۔ سانحہ میں ملوث ہونے کے حوالے سے ان کے خلاف ثبوتوں کے ڈھیر ٹرائل کورٹ میں پیش کیے جا چکے ہیں۔ یقینا اگر قاتل تفتیش کروائے گا تو اس کا مقصد انصاف نہیں بلکہ کلین چٹ حاصل کرنا ہو گا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں بننے والی جے آئی ٹی سے یہی کام لیا گیا۔
شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے وکلاء معزز ججز کے روبرو اپنا یہی موقف رکھ رہے ہیں کہ سابق حکمرانوںکی قائم کردہ جے آئی ٹی نے یکطرفہ تفتیش کی اور اس کا چالان پیش کیا۔ سابق حکمرانوں کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کسی زخمی، چشم دید گواہ یا متعلقہ فرد کی شہادت قلمبند نہیں کی جو کہ انصاف کے بنیادی تقاضوں کے برخلاف ہے۔ تاحال سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثائ، چشم دید گواہان اور زخمیوں کا کسی سرکاری تفتیش میں بیان قلمبند نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ کے فلور پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ازسرنو تفتیش کیلئے جو جے آئی ٹی بنائی گئی تھی، اس نے اپنا 90فیصد سے زائد کام مکمل کر لیا تھا، اس دوسری جے آئی ٹی کے روبرو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثائ، زخمیوں سمیت کیس سے متعلق ہر فرد نے اپنا بیان قلمبند کروایا اور جے آئی ٹی پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ اسی طرح ملزمان کی طرف سے بھی جے آئی ٹی میں بیانات قلمبند کروائے گئے تھے۔ جے آئی ٹی اپنے کام کی تکمیل کے مرحلے میں تھی کہ اسے کام کرنے سے روک دیا گیا۔
آئین کا آرٹیکل 10Aفیئر ٹرائل کی بات کرتا ہے مگر فیئر ٹرائل سے قبل ایک مرحلہ فیئر تفتیش کا بھی آتا ہے، جن خطوط پر تفتیش ہو گی عدالتیں انہی کے مطابق فیصلے دیتی ہیں، اگر تفتیش کا مرحلہ ہی بدنیتی پر مبنی ہو گا تو یقینا اس کا فائدہ ملزمان کو پہنچے گا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں اب تک یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ آخر مظلوموں کی حسبِ منشاء غیر جانبدار تفتیش کروانے میں کون سا امر مانع ہے؟
شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے وکلاء اپنا موقف پیش کررہے ہیں کہ ایک کیس میں دو دو تفتیشیں کروائے جانے سے متعلق کوئی قانونی قدغن نہیں ہے اور اس ضمن میں متعدد مثالیں بھی موجود ہیں۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، جیسے ماں کے نزدیک ان کے سارے بچوں کی قدر و منزلت ایک جیسی ہوتی ہے، اسی طرح ریاست کے نزدیک بھی اس کے شہریوں کی قدر و منزلت اور مقام و مرتبہ ایک جیسا ہونا چاہیے مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں امتیاز نظر آتا ہے۔ طاقتور قاتلوں کو تو ریلیف ملتا ہے مگر مظلوموں کے لیے کوئی ریلیف دستیاب نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ظلم کیخلاف جن کارکنوں نے قانون اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کی تھی، ان کے خلاف پولیس نے دہشتگردی کی دفعات کے تحت جھوٹے مقدمات درج کیے تھے اور پھر جھوٹی گواہیاں پیش کر کے 107 کارکنوں کو پانچ سال اور سات سال کی سزائیں دلوادیں اور جن کے پیارے ان سے بے رحمی کے ساتھ چھین لیے گئے، ان مظلوموں کے لیے تاحال نہ کوئی انصاف ہے نہ ریلیف۔ ملک اور قومیں انصاف کے بول بالا سے مضبوط اور معتبر ہوتی ہیں، جب مظلوموں کے لیے انصاف کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں تو پھر ایک ایسا دروازہ کھل جاتا ہے جہاں مظلوموں کی سنی جاتی ہے اور ظالموں، جابروں کی کڑی گرفت ہوتی ہے۔
قائد ڈے تقریبات جاری۔۔۔۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی 69ویں سالگرہ کی نسبت سے پاکستان کے طول و عرض اور بیرون ملک سالگرہ کی تقریبات منعقد ہوئیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ سالگرہ کے سلسلے میں پہلی بڑی تقریب آغوش کمپلیکس میں آغوش آرفن کیئر ہوم کے زیر اہتمام منعقد ہوئی۔ جس کے مہمان خصوصی صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسین محی الدین قادری تھے۔ آغوش آرفن کیئر ہوم کے بچوں نے اپنے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے خصوصی نغمے اور نظمیں تیار کررکھی تھیں۔ مختلف طلبہ و طالبات نے تقاریر کے ذریعے بھی اپنے قائد اور شیخ کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس اہم تقریب میں منہاج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر ساجد محمود شہزاد ،بیرسٹر عامر حسن بھی خصوصی طور پر شریک ہوئے اور انہوں نے انتہائی دلپذیر انداز میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس ضمن میں دوسری تقریب فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی بھی ڈاکٹر حسین محی الدین قادری تھے۔
سالگرہ کی مرکزی تقریب 19 فروری 2020ء کو منعقد ہوئی جس میں جملہ قائدین، فورمز کے صدور اور ہزاروں کی تعداد میں کارکنان شریک تھے۔ شیخ الاسلام کی 69ویں سالگرہ کے موقع پر یورپ، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا میں بھی خصوصی کیک کاٹے گئے اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صحت و تندرستی کیلئے دعائیں کی گئیں۔ مختلف تقاریب میں قرعہ اندازی کے ذریعے عمرہ کے ٹکٹ بھی نکالے گئے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی تحریر ،تقریر کے ذریعے دنیا بھر میں آباد مسلم نوجوانوں کی زندگیوں اور سوچنے ، سمجھنے کے انداز بدل ڈالے۔ بہت تھوڑے لوگ ایسے ہوتے ہیں جوایک صدی کا کچھ حصہ جی کر پھر صدیوں جیتے ہیں، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ماہنامہ منہاج القرآن کی طرف سے بھی ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ان کی 69ویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرستی کے ساتھ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔آمین۔