یہ بحث نوجوان نسل کے ذہنوں کو ابہام سے دو چار کرنے کے لیے جاری رکھی جاتی ہے کہ بانی پاکستان کا مسلک کیا تھا؟ کیا وہ سیکولر تھے؟ ان کے مذہبی رجحانات اور عقائد کیا تھے؟ ان کی بعض تحریروں اور تقاریر کو سیاق و سباق سے ہٹا کر نئی نسل کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے اور ان کی فکر کو لادینیت سے جوڑنے کی ناکام اور مذموم کوشش کی جاتی ہے۔ بانی پاکستان کس قدر اسلام پسند اور قرآن و سنت کے زریں اصولوں پر کاربند تھے، اس کا اندازہ صرف اس ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ان کی اکلوتی بیٹی نے پارسی مذہب میں شادی کی اور انہوں نے بہت کوشش کی کہ وہ واپس اسلام کے راستے پر آجائے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہو رہیں تو انہوں نے اپنی بیٹی کو لکھا کہ میرا اور آپ کا رشتہ اسلام کی وجہ سے تھا، آج کے بعد نہ مجھے ملنا اور نہ مجھے نظر آنا۔ اگر بانی پاکستان اسی طرح کے سیکولر ذہن کی شخصیت ہوتے اور وہ مغرب کے انسانی حقوق کے مسخ شدہ موقف کے حامی ہوتے تو وہ کہتے کہ میری بیٹی کو اپنی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے مگر جس فکر اور اصول پر وہ خود کھڑے تھے، وہ اپنی بیٹی کو بھی اسی فکر اور اصولوں پر کھڑا دیکھنا چاہتے تھے۔ جب وہ کھڑی نظر نہیں آئی تو انہوںنے عمر بھر کیلئے بیٹی سے قطع تعلق کر لیا۔
قائداعظم ایک مردِ مومن تھے اور اسلام کی تعلیمات توحید، اللہ پر ایمان، نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت، اسلام کے دینی، دنیاوی معاملات سے مکمل آگاہی، قرآن کے سنہری اصولوں کی تعلیم کے علاوہ نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور اسلام جو بین الاقوامی امن کا داعی ہے، اس کی تاریخ سے مکمل آگاہی رکھتے تھے۔
قائداعظم ایک مرد حق تھے اور جرأت و بہادر مرد حق کے اوصاف میں سے ایک وصف ہوتا ہے۔ قائداعظم متوکل علی اللہ اتنے تھے کہ پاکستان کے اولین یومِ آزادی پر جب لارڈ مائونٹ بیٹن نے بخوفِ جان کراچی آنے سے انکار کر دیا اور قائداعظم کو لکھا کہ اس موقع پر سکھوں نے آپ کو بم سے اڑا دینے کا منصوبہ مکمل کررکھا ہے، ایسے حالات میں نہ آپ کے لیے جلوس نکالنا مناسب ہے اور نہ میرے لیے اس میں شرکت کرنا تو قائداعظم نے انہیں ان الفاظ میں تسلی دی کہ گھبرائو نہیں، خداپر بھروسہ کر کے آجائو، اللہ تعالیٰ بہتری کرے گا۔ چنانچہ لارڈ مائونٹ بیٹن اس مرد حق کی یقین دہانی پر آئے اور قائداعظم انہیں کھلی کارمیں بٹھا کر لاکھوں انسانوں کے پرجوش ہجوم سے بخیر و خوبی گورنمنٹ ہائوس تک لے آئے جس سے لارڈ مائونٹ بیٹن بہت متاثر ہوئے۔
بانی پاکستان اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولت سے بھی مالا مال تھے۔ ایک عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر قائداعظم نے فرمایا تھا کہ آج ہم کروڑوں انسانوں کے قائد اور عظیم ترین انسانوں کے ممدوح کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جو ایک بزرگ ترین معلم، مدبر اور قانون ساز تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک عظیم حکمران بھی۔ اسلام صرف چند رسوم و روایات، مذہبی اصولوں کا نام نہیں بلکہ مسلمانوں کے سیاسی، اقتصادی و دیگر مسائل کی رہبری کیلئے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام کی بنیاد صرف ایک خدا پر ہے۔ انسان، انسان میں کوئی فرق نہیں، مساوات، آزادی اور بھائی چارہ اسلام کے مخصوص اصول ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی اس زمانے کے لحاظ سے نہایت سادہ تھی۔ کاروبار سے لے کر حکمرانی تک ہر معاملہ میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی اور سچی بات تو یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا انسان دنیا نے کبھی پیدا نہیں کیا۔ انہوں نے 13سو سال پہلے ہی جمہوریت کی بنیاد رکھ دی تھی۔
قائداعظم کا مذکورہ پیغام ان کی سیاسی، دینی اور سماجی فکر کا آئینہ دار ہے۔ بانی پاکستان اپنی سیاسی، سماجی، معاشی، اخلاقی فکر کے رہنما اصول قرآن و سنت سے اخذ کرتے تھے اور اس ضمن میں بطور حوالہ ان کی بے شمار تقاریر اور تحریریں پیش کی جا سکتی ہیں۔
14فروری 1948ء کو انہوں نے ایک موقع پر فرمایا:
’’میرا عقیدہ یہ ہے کہ ہماری نجات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضع کردہ سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہونے میں ہی مضمر ہے۔ آئیے ہم اپنی جمہوریت کی عمارت حقیقی اسلامی نظریات اور اصولوں کی بنیادوں پر استوار کریں‘‘۔
بانی پاکستان نے تحریک پاکستان شروع ہونے سے بہت پہلے عوام الناس کے اسلامی جذبات کا ادراک کر لیا تھا اور یہ بھی جان لیا تھا کہ کس طرح وہ اسلامی قوانین کے ذریعے ایک قوم کی تشکیل کر سکتے ہیں۔ امپیریل پریوی کونسل سے خطاب کے دوران انہوں نے برطانیہ کے وقف لاز کو بدلنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی حکومت نے وقف سے متعلق اسلامی قوانین بدل کر اسلامی فقہ کے ایک اہم عضو کو کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ ان کے اس ایک بیان سے ان کی شریعت محمدی اور فقہ سے گہرے شغف کا اندازہ ہوتا ہے۔
بانی پاکستان برطانوی پارلیمنٹرین کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے یہ بات فخر سے کہتے تھے کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیال میں دوسرے انسانوں کے ساتھ محبت اور رواداری کے فرض کے والہانہ اور شدید احساس سے بڑھ کر اور کوئی حکم زیادہ ضروری اور الہامی طور پر لازمی نہیں ہے۔
عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاایک اور ایمان افروز مکالمہ سماعت کریں کہ جس کا ذکر بانی پاکستان نے 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے فرمایا:
آج عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم چند غلام ان کی یاد میں یہاںجمع ہوئے ہیں اور اس ذاتِ اقدس کے کروڑوں ثناء خوان دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔غیر مسلم مشاہیر بھی ان کا نام انتہائی تعظیم سے لیتے ہیں۔ میں ناچیز ان کی خدمت میں کیا ہدیہ عقیدت پیش کر سکتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک معلم، مبلغ، قانون دان، منتظم، مدبر اور حکمران تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر ارشاد ہمارے لیے واجب تعمیل ہے۔ اس لیے جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بہت سارے غیر مسلم ہمارے وفورِ اشتیاق کا صحیح ادراک نہیں کر پاتے۔ اسلام محض چند رسوم، چند روایات اور چند اعتقادات کا ہی مجموعہ نہیں بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہماری سیاست، ہماری معیشت اور معاشرتی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے۔ ہمارے دین کی بنیاد احترام، ایمان اور عدل و انصاف کے زریں اصولوں پر قائم ہے۔ خدائے واحد کے بندوں سے مساویانہ حسنِ سلوک اسلامی تعلیمات کا لازمی جزو ہے۔ اسلام، افتخار، رنگ و نسل اور تمیز بندہ وآقا سے ہمیشہ ناآشنا رہا ہے۔ اس لیے مساوات اور اخوت اسلام کے وہ دو محکم اصول ہیں جن میں رتی بھر بھی تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں۔ ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سادگی و قناعت میں زندگی گزار دی، اس کے باوجود تجارت سے حکمرانی تک ہر موڑ پر کامیابی نے ان قدم چومے۔
ہم ہر سال یوم آزادی، یوم پاکستان، یوم قائداعظمؒ جیسے ایام مناتے ہیں اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے دعائیں کرتے ہیں۔ اس موقع پر ہم اپنا محاسبہ بھی کرتے ہیں اور ہر سال لکیرپیٹتے ہیں کہ قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ بانی پاکستان کے مذکورہ ارشادات جو مختلف مواقع پر بیان ہوئے سے واضح ہوتا ہے کہ بانی پاکستان اپنی فکر کا ماخذ قرآن و سنت سمجھتے تھے کہ ہمارے مسائل کا حل قرآن و سنت میں بیان کیے گئے اخلاقی، سیاسی، سماجی اصولوں میں مضمر خیال کرتے تھے۔ وہ اس حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک سیرت کو ایک بہترین عملی نمونہ تسلیم کرتے ہوئے اپنے قلب و روح میں اسے بسائے ہوئے تھے۔ جب تک ہم صدقِ دل کے ساتھ اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا نہیں ہوں گے مسائل کے حل کے نام پر مارے مارے پھرتے رہیں گے۔ ہمارے جملہ مسائل کا حل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک سیرت کے مطابق اپنے ہر نظامِ حیات کو ترتیب دینے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔یہی نظریہ پاکستان اور یہی نظریہ اسلام ہے۔