رپورٹ: نوراللہ صدیقی
فی زمانہ سوشل میڈیا خدمتِ دین و خدمتِ انسانیت، کردار سازی اور تعلیم و تعلّم کے فروغ کا طاقتور ترین ذریعۂ اظہار ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہر دور کے تقاضوں کے مطابق دعوتِ دین اور تعلیم و تحقیق پر فوکس کیا ہے اور امت کی بروقت رہنمائی کی۔ منہاج القرآن کے ذمہ داران اور کارکنان جدید دعوتی ابلاغی اسلوب کو اختیار کریں۔ اس لیے کہ ہر کان تک حق کی آواز کو پہنچانا بطورِ مسلمان ہمارا دینی، قومی و ملی فریضہ ہے۔ دعوت کی ذمہ داری ایک عظیم نعمت بھی ہے اور سنت مبارکہ بھی۔
آج ہمیں سوشل میڈیا کے جدید ٹولز کے ذریعے ماضی کی طرح قائد کی آواز کے ذریعے اصلاحِ احوال اور اصلاحِ معاشرہ کے عظیم مشن کو آگے بڑھانا ہے اور نئی نسل کو دینِ مصطفوی کے علم، امن اور تحقیق والے پیغام سے ہم آہنگ بھی کرنا ہے اور اسے دعوتِ حق کا پیامبر بھی بنانا ہے۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا کی اسی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر گزشتہ ماہ مرکزی سیکرٹریٹ منہاج القرآن انٹرنیشنل پر دو مختلف کانفرنسز بعنوان ’’نظامِ دعوت بذریعہ سوشل میڈیا‘‘ کانفرنس اور ’’سوشل میڈیا سمٹ‘‘ منعقد ہوئیں۔ جن میں چیئرمین سپریم کونسل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے خصوصی خطابات کیے۔ ان کانفرنسز میں جملہ مرکزی قائدین اور رہنماؤں نے خصوصی شرکت کی۔
خطاب ڈاکٹر حسن محی الدین قادری
آج کے اس عالمی گاؤں میں جس طرح کا ماحول ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے بے دریغ اور بلا سوچے سمجھے معلومات پھیلائی جاتی ہیں، اس حوالے سے سورۃ الحجرات کی چند آیات میں ہمیں ہدایات کا پورا پیکج ملتا ہے۔ آیئے! سورۃ الحجرات اور قرآن حکیم کے دیگر مقامات اور احادیث نبویہ ﷺ کا اس تناظر میں مطالعہ کریں:
1۔ خبر کی تحقیق کا حکم
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا.
’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو۔‘‘
(الحجرات، 49: 6)
یاد رہے کہ خبر کی تحقیق کے طریقے درج ذیل ہیں:
- فوری طور پر خبر پر یقین نہ کر لیا جائے اور بغیر تحقیق اسے آگے شئیر نہ کیا جائے۔
- خبر کے سیاق و سباق پر غور کریں کہ یہ خبر پھیلانے کے پیچھے کوئی سازش تو نہیں۔
- اس مواد اور خبر کے ساتھ اپنے مفاد اور تعلق پر بھی غور کریں کہ اس خبر سے ہمارا کوئی تعلق بھی ہے یا نہیں؟
- اگر خبر ٹھیک ہے، ہمارے متعلق بھی ہے پھر بھی کیا اس کا جواب دینا یا اسے آگے پھیلانا ضروری ہے یا نہیں؟ کیوں کہ بعض اوقات خبر پھیلانے یا اس کا جواب دینے میں بھی کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے اور نظر انداز کر دینا بھی بہتر ہوتا ہے۔
- اگر خبر دینا ضروری ہے یا اسے پھیلانا ضروری ہے تو یہ دیکھ لیں کہ ہمارا اچھا اور مثبت مؤقف کسی کی مخالفت کی بھینٹ نہ چڑھ جائے یعنی ہمارا مؤقف مضبوط تھا مگر ہمارے انداز نے مخالفین کو کھلی تنقید کا موقع فراہم کردیا جس سے ہمارا اچھا مواد بھی ضائع ہوگیا۔
2۔ ناسمجھی یا انا کی وجہ سے کسی کو نقصان نہ پہنچائیں
سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 6کے ہی الفاظ ہیں:
اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَھَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ.
’’(ایسا نہ ہو)کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو۔ پھر تم اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔‘‘
(الحجرات، 49: 6)
اس میں ہمارے لیے درج ذیل رہنمائی ہے:
- ہم اپنا مؤقف بیان کریں، نہ کہ اپنی بات کے ذریعے کسی کی دل آزاری کا سامان کریں۔
- ہماری بات یا مؤقف سے تفرقہ بازی نہ پھیلے اور امن و سلامتی کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
- اس آیت میں مکمل رہنمائی عطا کرنے کے بعد اس بات کو بھی واضح کردیا کہ اگر تم نے ان ربانی تعلیمات کو نظر انداز کیا تو پھر تم خود بعد ازاں پشیمان و شرمندہ ہوگے۔ اس لیے اپنے آپ کو شرمندگی اور ندامت سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ دعوت و تبلیغ یا سوشل میڈیا پر کسی بھی بات کو پھیلانے کے لیے اس کی حقانیت اور اسلوبِ بیان ہمیشہ پیشِ نظر رہے۔
3۔ معلومات کی ترسیل ایک امانت ہے
جہاں میسر آنے والی معلومات کی تحقیق ضروری ہے، وہیں ان معلومات کی اشاعت بطورِ امانت ہونی چاہیے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ جو معلومات ہمیں ملی ہیں، اگرچہ وہ درست ہیں لیکن پھر بھی یہ سوچیں کہ ان معلومات کی اشاعت سے کسی کو ناحق نقصان تو نہیں پہنچے گا، یہ معلومات انتشار کا سبب تو نہیں بنیں گی۔ مراد یہ ہے کہ یہ خیال رہنا چاہیے کہ کون سی شے آگے پہنچانی ہے اور کون سی خبر آگے نہیں پہچانی۔ قرآن مجید ہمیں اس حوالے سے بھی رہنمائی عطا کرتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
اِنَّ اللهَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰـنٰـتِ اِلٰٓی اَهْلِهَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللهَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط اِنَّ اللهَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًا.
’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں پر حکومت کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کیا کرو (یا: اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و اِنصاف کے ساتھ فیصلہ کیا کرو)۔ بے شک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
(النساء، 4: 58)
مومنین کی صفات کے ضمن میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ.
’’اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں۔‘‘
(المؤمنون، 23: 8)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے بتایا:
سَأَلْتُکَ مَاذَا یَأْمُرُکُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ أَمَرَکُمْ بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ، قَالَ: وَهَذِهِ صِفَۃُ نَبِیٍّ. (رَوَاهُ الْبُخَارِیُّ وَالنَّسَائِیُّ وَأَبُوْ عَوَانَۃَ).
’’ہرقل نے اُن سے کہا کہ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ وہ (نبی) تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے؟ تم نے بتایا کہ وہ تمہیں نماز، سچ بولنے، پاک دامن رہنے، وعدہ پورا کرنے اور امانت ادا کرنے کا حکم فرماتا ہے۔ اُس نے کہا: نبی کی صفت یہی ہوتی ہے۔‘‘
4۔ سچ پھیلائیں اور جھوٹ سے اجتناب برتیں
سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کو اپنے اوپر لازم کرلیں کہ ہمیشہ سچی خبر ہی ہمارے ذریعے آگے پہنچے۔ جھوٹی اورمن گھڑت باتیں محض کسی کی دشمنی میں قطعاً آگے نہ پھیلائیں۔ قرآن مجید میں اور حضورنبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں سچ بولنے کی تلقین اور جھوٹ سے اجتناب کے احکامات واضح ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ.
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت)میں شامل رہو۔‘‘
(التوبة، 9: 119)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّ الصِّدْقَ یَهْدِی إِلَی الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ یَهْدِی إِلَی الْجَنَّةِ، وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَصْدُقُ وَیَتَحَرَّی الصِّدْقَ حَتَّی یُکْتَبَ عِنْدَ اللهِ صِدِّیْقًا، وَإِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ، فَإِنَّ الْکَذِبَ یَهْدِی إِلَی الْفُجُوْرِ، وَإِنَّ الْفُجُوْرَ یَهْدِی إِلَی النَّارِ، وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی الْکَذِبَ حَتَّی یُکْتَبَ عِنْدَ اللهِ کَذَّابًا. (مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ).
’’سچ کو اپنے اوپر لازم کر لو، بے شک سچائی آدمی کی بھلائی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ جھوٹ سے اجتناب کرو، بلاشبہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جاتے ہیں۔ آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذَّاب (بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:
لَا تَنْظُرُوْا إِلَی صَلَاةِ أَحَدٍ، وَلَا إِلَی صِیَامِهِ، وَلَکِنِ انْظُرُوْا إِلَی مَنْ إِذَا حَدَّثَ صَدَقَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ أَدَّی.
(أخرجه البیهقی فی السنن الکبری، 6: 288، الرقم: 12473)
’’کسی شخص کی نماز اور اس کے روزوں کی طرف نہ دیکھو، بلکہ اس کی طرف دیکھو جو بولے تو سچ بولے، اور جب اسے امانت سونپی جائے تو اُسے ادا کرے۔‘‘
امام مالک فرماتے ہیں:
بَلَغَنِی أَنَّهُ قِیْلَ لِلُقْمَان: مَا بَلَغَ بِکَ مَا یَرَی؟ قَالَ مَالِکٌ: یُرِیْدُوْنَ الْفَضْلَ، قَالَ لُقْمَان: صِدْقُ الْحَدِیْثِ، وَأَدَاءُ الأَمَانَةِ، وَتَرْکُ مَا لَا یَعْنِیْنِی.
(البیهقی فی شعب الإیمان، 4: 230، الرقم: 4888)
’’مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت لقمان سے پوچھا گیا: آپ کو یہ مقام کسی طرح حاصل ہوا؟ امام فرماتے ہیں: پوچھنے والوں کا مقصد فضیلت تھا۔ حضرت لقمان نے فرمایا: (مجھے یہ مقام) سچی بات، امانتوں کی ادائیگی اور بے مقصد باتوں کو ترک کر دینے کی وجہ سے حاصل ہوا۔‘‘
5۔ جوڑنے والے بنیں، توڑنے والے نہیں
سوشل میڈیا پر عام طور پر رجحان یہ ہے کہ ہم افتراق و انتشار پھیلاتے ہیں، محبتوں کے بجائے نفرتوں کے سوداگر بنتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر قرآن کے احکامات کو دیکھیں تو قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ہمیں صلح کرانے اور افتراق و انتشار کے بجائے اتفاق و اتحادکے راستے ہموار کرنے کا حکم ملتا ہے:
وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا.
’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی کریں تو اُن کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔‘‘
(الحجرات، 49: 9)
حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اقدس ہے:
’’میں نے دنیا سے رخصت ہو جانا ہے اور علم بھی عنقریب اٹھا لیا جائے گا یہاں تک کہ دو آدمیوں کے درمیان اختلاف واقع ہو گا اور اُن کے درمیان بھی کوئی صلح کرانے والا نہیں ہو گا۔‘‘
(سنن الدارمی، الرقم: 221)
لہذا سوشل میڈیا پر لوگوں کو توڑنے والے نہ بنیں بلکہ جوڑنے والے بنیں۔
6۔ عدل کا دامن کبھی نہ چھوٹے
سوشل میڈیا پر اپنی جملہ سرگرمیوں میں اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ کبھی عدل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔
عدل کی تعریف یوں کی جاتی ہے:
وَضْعُ الشَّیْءِ فِی مَحَلِّهِ.
’’کسی شے کو اس کے اصل مقام میں رکھنا عدل کہلاتا ہے۔‘‘
جب کہ اس کے مد مقابل ظلم کی تعریف یہ ہے:
وَضْعُ الشَّیْءِ فِی غَیْرِ مَحَلِّهِ.
’’کسی چیز کو اس جگہ رکھنا جو اس کا اصل مقام نہ ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے بھی ہمیں عدل و انصاف سے کام لینے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا.
’’ تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو۔‘‘
(الحجرات، 49: 9)
لہٰذا سوشل میڈیا کے ساتھ عدل یہ ہو گا کہ کیا کہنا ہے۔۔۔ کتنا کہنا ہے۔۔۔ کس کو کہنا ہے۔۔۔ کس وقت اور کس جگہ کہنا ہے۔۔۔؟ بصورتِ دیگر بے وقت راگ الاپنے سے وقت اور قدر دونوں ضائع ہوں گے۔
7۔ ایک مکمل اخلاقی پیکج
اللہ رب العزت نے انسان کے اخلاق کی تہذیب کرنے کے لیے اپنے کلام میں ایک مکمل اخلاقی پیکج عطا فرمایا ہے۔ اس اخلاقی پیکج کو ہم نے نہ صرف اپنی معمول کی زندگی کا حصہ بنانا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی دعوت و تبلیغ اور فروغِ علم کے دوران پیشِ نظر رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 10 تا 12 میں درج ذیل امور کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے:
- ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑاؤ
- طعنہ زنی نہ کرو
- برے نام اور القابات سے نہ پکارو
- بدگمانی سے پرہیز کرو
- عیب جوئی نہ کرو
- غیبت نہ کرو
- خوفِ خدا کو لازم پکڑو
یہ ایک ایسا اخلاقی پیکج ہے کہ اگر ہم میں سے ہر کوئی اپنے معمول کی زندگی میں بھی اور سوشل میڈیا پر ایکٹو ہوتے ہوئے بھی اس کو اپنے اوپر لازم کرلے تو اس سے ہمارا معاشرہ جنت نظیر معاشرہ بن سکتا ہے۔
ان اخلاقی پابندیوں کو اپنے اوپر لازم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس زبان میں ہم کسی سے بات کریں گے تولازمی بات ہے کہ اسی زبان و لہجے میں دوسرا بھی ہم سے بات کرے گا۔ ہم نے دوسروں کے عیب تلاش کرنے پر جو وقت ضائع کرنا ہے، چاہیے یہ کہ اس وقت کو ہم اپنی اور معاشرے کی اصلاح کے لیے استعمال کریں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے الزامات لگانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے غلط دلائل کا سہارا لیں اور اس طرح مزید برائی کی دلدل میں پھنستے چلے جائیں۔
8۔ اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی
سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے بطور مسلمان کبھی بھی امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کی ذمہ داری سے غافل نہ ہوں۔ اس لیے کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی ہی کے سبب امتِ مسلمہ کو بہترین امت قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ.
’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی)کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
(آل عمران، 3: 110)
لہذا ہمارا ہر قدم اور عمل لا یعنی اور بے مقصد باتوں کو فروغ دینے کے بجائے تعمیری اور مثبت ہونا چاہیے جس سے ہر دم افراد و معاشرہ کی اصلاح کا سامان میسر آتا رہے۔
9۔ دعوتِ دین میں عقل و حکمت کا استعمال
یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ دعوت و تبلیغ کے فروغ اور اصلاحِ احوالِ امت کے مصطفوی مشن پر گامزن ہوتے ہوئے جب ہم جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال کریں تو اس استعمال میں بھی ہر قدم پر عقل و حکمت ہمارے شامل حال رہے۔ یہ نہ ہو کہ ہم حکمت و بصیرت سے ہٹ کر اور عقل سے بالا بالا ہر جگہ ایک جیسا اسلوب اور طرز بیان اختیار کریں۔ایسا کرنا اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ.
’’(اے رسولِ معظّم!)آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو۔‘‘
(النحل، 16: 125)
گویا کسی صورت بھی اخلاق اور عقل و حکمت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔حقیقی مومن کی یہ علامت ہے کہ اُس کے اُمور مبنی بر عقل اور حکمت ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں عقل و دانش کو کام میں نہ لانے والوں کی مذمت فرمائی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللهِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لاَ یَعْقِلُوْنَ.
’’بے شک اللہ کے نزدیک جانداروں میں سب سے بدتر وہی بہرے، گونگے ہیں جو (نہ حق سنتے ہیں، نہ حق کہتے ہیں اور حق کو حق)سمجھتے بھی نہیں ہیں۔‘‘
(الأنفال، 8: 22)
10۔ نیکی کو فروغ دینے والا اجر اور برائی کو رواج دینے والا اپنا بوجھ بڑھاتا ہے
پچھلے زمانوں میں جب کوئی شخص برائی کرتا تھا تو اُس برائی کا اثر اُس تک محدود رہتا تھا یا اس کے قریب کے لوگ متاثر ہوتے تھے۔ آج دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے۔ کوئی واقعہ کہیں بھی رونما ہو، اس کی خبر چشمِ زدن میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ یہی حال سوشل میڈیا پر ہمارے شئیر کردہ مواد کا بھی ہے۔ اِدھر کوئی مواد اپ لوڈ ہوا، اُدھر وہ پوری دنیا کے سامنے چلا گیا۔
جو مواد اچھا ہوگا اور جتنے لوگ بھی اسے دیکھیں گے اور اس پر عمل کریں گے تو ان دیکھنے والوں اور عمل کرنے والوں کو بھی ثواب ملے گا اور مواد اپ لوڈ کرنے والوں کو بھی ان کے برابر اجر ملتا رہے گا، جب کہ بعد والوں کے اجر میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔
لیکن اگر کوئی شخص کوئی برا یا فحش مواد انٹرنیٹ پر شائع کرتا ہے تو اسے اپنا گناہ تو ہوگا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا گناہ بھی اسے برابر ملتا رہے گا جو بعد میں اس کے اپ لوڈ کیے ہوئے فحش مواد کو دیکھیں گے یا کسی طرح کا اثر لیں گے۔ لہٰذا یہ امر ہر لمحہ ملحوظ رہے کہ ہم اچھا مواد شئیر کر رہے ہیں یا برا مواد پھیلا رہے ہیں؟
حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اقدس ہے:
مَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَیْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَیِّئَةً کَانَ عَلَیْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَیْءٌ.
’’جس نے اسلام میں کسی اچھے عمل کی بنیاد رکھی تو اُس کے لیے اُس نیک عمل کا بھی اجر ہے اور بعد میں اُس نیک عمل کرنے والوں کا اجر بھی ملے گا لیکن بعد میں عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ اور جس نے اسلام میں کسی برے کام کو رواج دیا تو اُس کے لیے اُس برے عمل کا بھی بوجھ ہے اور بعد میں وہ برا عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اُس کے سر پر ہوگا جب کہ بعد میں وہ برا کام کرنے والوں کے اپنے گناہ میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘ (صحیح مسلم)
لہٰذا سوشل میڈیا پر ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں۔ اگر کچھ برا دیکھ رہے ہیں تو اس برے مواد کی rating اور likes بڑھا رہے ہیں۔ نتیجتاً وہ مواد search میں بھی اوپر آئے گا اور ہم اس میں پورے حصے دار ہوں گے۔
اس لیے سوچ سمجھ کر سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا استعمال کریں۔ ایسا نہ ہو کہ لاعلمی میں اپنے گناہ اور اپنا بوجھ بڑھاتے رہیں۔
11۔ ہمیشہ پختہ بات کہی جائے
سوشل میڈیا اور ابلاغ کے جدید ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا بھی اہتمام کرنا چاہیے کہ ہماری بات مدلّل اور پختہ بنیاد پر مبنی ہو۔ ایسی بات ہر گز نہ کی جائے جو سطحی، عامیانہ اور غیر واضح ہو جس سے افرادِ معاشرہ میں شکوک و شبہات جنم لیں اور معاشرے میں تعمیر کی بجائے تخریب کا عمل رونما ہو۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ہمیں ہمیشہ پختہ اور واضح بات کرنے کا حکم دیا۔ ارشاد فرمایا:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا.
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو۔‘‘
(الأحزاب، 33: 70)
قَوْلا سَدِیدًا کہنے کا حکم دے کر یہ بتلایا جا رہا ہے کہ ایسی بات کہی جائے جو:
- مبنی بر صداقت ہو
- کِذب بیانی پر مشتمل نہ ہو
جب عام حالات میں یہ حکم ہے تو دعوت دینے کے لیے بھی ایسا انداز اپنایا جائے جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ ایسی بات کے ذریعے دعوت دی جائے جو محقّقہ اور سچی ہو۔
ان نصیحتوں کو اچھی طرح یاد کیجیے اور اپنی بقیہ زندگی کو اسی کے مطابق گزاریے۔ ہماری یہ اولین ذمہ داری ہونی چاہیے کہ کسی کو ہماری وجہ سے تکلیف نہ پہنچے اور کوئی بری چیز ہماری وجہ سے معاشرے میں نہ پھیلے۔
- سوشل میڈیا کے ذریعے دعوت کے فروغ اور اس کے مثبت اور بامقصد استعمال کے سلسلے میں منعقد ہونے والی ان کانفرنسز سے ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈاپور، نائب ناظم اعلیٰ کوآرڈینیشن محمد رفیق نجم، نائب ناظم اعلیٰ میڈیا افیئرز نوراللہ صدیقی، علامہ غلام مرتضیٰ علوی، میاں عبدالقادر، عرفان یوسف، اینکر پرسن اسامہ غازی، فرخ شہباز وڑائچ، صدیق جان، شعیب امام، فرحان عزیز، فراز ہاشمی، رضی طاہر، محب مجید اور حیدر مصطفی نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ نیز ان کانفرنسز میں جملہ مرکزی قائدین اور نائب ناظمین اعلیٰ، ضلعی صدور اور تنظیمی عہدیداران کی اکثریت نے شرکت کی۔
- محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اپنے خطاب کے اختتام پر دعوت بذریعہ سوشل میڈیا کو منظم انداز میں فروغ دینے کے لیے محترم حفیظ اللہ جاوید کو سنٹرل سوشل میڈیا کوآرڈینیٹر برائے دعوت مقرر کرنے کا اعلان فرمایا اور اس امید کا اظہار کیا کہ وہ مصطفوی مشن کے فروغ کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔