ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰـتِنَا ط اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ.
(بنی اسرائیل، 17: 1)
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ہر نبی اور رسول علیہم السلام کو معجزات عطا کیے لیکن جتنے معجزات ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل علیہم السلام کو عطا کیے، ان سب سے بھی بڑھ کر کثیر معجزات حضور نبی اکرم ﷺ کو عطا فرمائے۔ یہ معجزات نہ صرف عدد میں سب سے زیادہ ہیں بلکہ مرتبہ و کمال میں بھی ارفع واعلیٰ ہیں۔ آپ ﷺ کو عطا کیے گئے معجزات میں سے سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے اور قرآن مجید کے بعد سب سے بڑا معجزہ معراج النبی ﷺ کا ہے۔ کفار کے مطالبے پر انگلی کے اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کرنے کا معجزہ بھی اپنے رتبے میں معجزۂ معراج کے بعد ہے کیونکہ چاند کے ٹکڑے کرنا ایک ایسا معجزہ ہے جس کے ایک طرف بھی مخلوق ہے دوسری طرف بھی مخلوق ہے۔ یہ معجزہ عالمِ خلق میں ظہور پذیر ہوا ہے مگر معراج ایک ایسا معجزہ ہے جو عالمِ خلق و امر سے بھی ماورآء اور عالمِ مکان و لامکاں سے بھی اوپر صادر ہوا۔ اس معجزہ کے ایک طرف آقا علیہ السلام ہیں اور دوسرے طرف خود رب ذوالجلال ہے۔ پس معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور آپ ﷺ کا پیش ہونا، اللہ کا دیدار کرنا، اس کے کلام کو سننا اور اپنا ہدیہ و نیاز پیش کرنا یہ سب قرآن مجید کے بعد سب سے بڑا معجزہ ہے۔
دیگر انبیاء کرام اور حضور نبی اکرم ﷺ کے باقی معجزات کا جب ذکر آتا ہے تو ان میں واقع ہونے والا فعل اس پیغمبر کی طرف منسوب ہوتا ہے یا اس شے کی طرف منسوب ہوتا ہے جس چیز پر معجزہ واقع ہوا ہوتاہے مگر معراج النبی ﷺ واحد ایسا معجزہ ہے جس میں اللہ رب العزت نے فعل کی نسبت نہ مخلوق کی طرف کی ہے اور نہ ہی حضور ﷺ کی طرف کی۔ اس لیے کہ یہ بہت بڑی بات تھی اور لوگوں کے عقل و فہم اور ادراک سے بالا تر تھی۔ معلوم تھا کہ انگلیاں اٹھیں گی اور زبانیں کھلیں گی، لہذا اِن تمام اعتراضات اور شکوک و شبہات کا خاتمہ کرنے کے لیے معجزۂ معراج کی نسبت ہی اپنی طرف کردی تاکہ تمام اعتراضات، ابہامات اور وساوس سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ (پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کولے گئی) کے کلمات سن کر ہی دَم توڑ جائیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو لامکان اور اس سے بھی آگے لے جانے والی ذات خود باری تعالیٰ کی ہے، لہذا اس معجزہ پر کسی قسم کا اعتراض اور شک وارد ہی نہیں ہوسکتا۔
اس معجزہ کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا اسلوب بھی منفرد ہے۔ جب کوئی کسی کے محبوب پر اعتراض کرے اور شکوک وارد کرے تو محب اپنے محبوب سے کہتا ہے کہ میرے محبوب تم ایک طرف ہوجائو، میں ان کو خود دیکھ لوں گا اور پھر وہ اپنے محبوب کو اپنی حیثیت و طاقت کے مطابق مخالفین کے پروپیگنڈے سے بچاتا ہے۔ بلاتشبیہ و بلا مثال اللہ رب العزت نے معترضین پر واضح کردیا کہ اپنی زبانیں مت کھولو اور معجزۂ معراج کے حوالے سے میرے محبوب ﷺ پر اعتراض وارد نہ کرو۔ میرے محبوب نے کب کہا کہ میں خود گیا، جس نے چیلنج کرنا ہے، وہ مجھے کرے کیونکہ میں انہیں خود لے گیا۔گویا اللہ رب العزت نے اس معجزہ کی نسبت بطورِ خاص اپنی طرف کرکے اس کا ذکر اعلیٰ انداز اور عظیم شان کے ساتھ قرآن مجید میں فرمایا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ پر ہونے والی ہر نعمت کا حصہ امت کو بھی نصیب ہوتا ہے
یہ بات طے شدہ ہے کہ جو نعمت اللہ تعالیٰ حضور نبی اکرم ﷺ پر فرماتے ہیں، اس نعمت کا حصہ آقا علیہ السلام کی طرف سے امت کو بھی ملتا ہے۔ آقا علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی فضیلت ملی، اس میں آپ ﷺ کا معمول اور عادتِ مبارکہ تھی کہ ملنے والی ہر فضیلت اور نعمت میں آپ ﷺ اپنی امت کو بھی شریک کرتے۔ کوئی نعمت ایسی نہیں جو اللہ نے آقا علیہ السلام کو عطا فرمائی ہو اور اس کا حصہ امت کو نہ ملا ہو۔ اس کی وضاحت کے لیے ذیل کی امثال پر غور کریں:
1۔ اللہ تعالیٰ نے جب قرآن مجید کی یہ آیت مبارک نازل فرمائی:
اِنَّ اللهَ وَمَلٰٓئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.
’’بےشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔
(الاحزاب، 33: 56)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ !اللہ تعالیٰ جب آپ ﷺ کو کوئی خصوصی فضل و شرف عطا فرماتا ہے تو امت اور آپ ﷺ کے غلاموں کو بھی اس فیض اور نعمت سے حصہ عطا فرماتا ہے۔ آپ ﷺ پر اللہ اور اس کے فرشتوں کی طرف سے ہونے والے اس درود و سلام میں سے ہمارا کیا نصیب ہے؟
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس استفسار پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓئِکَتُهٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا.
’’وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے، اور وہ مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے‘‘۔
(الاحزاب، 33: 43)
2۔ اسی طرح معراج کے موقع پر قاب قوسین او ادنیٰ کی قربتوں میں جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر سلام بھیجا تو فرمایا:
’’السلام علیک ایها النّبی‘‘
تو آقا علیہ السلام نے اس میں بھی امت کو شریک کیا اور عرض کی:
السلام علینا و علی عباداللّٰه الصالحین.
یہ آپ ﷺ کی سخاوت اور رحمت تھی کہ آپ ﷺ کو جو نعمت ملتی اس میں امت کو شامل کرلیتے۔
معجزۂ معراج میں امت کا نصیب
حضور نبی اکرم ﷺ کی اسی عطا، رحمت اور سخاوت کا اظہار معراج کے موقع پر اللہ رب العزت کی بارگاہ سے ملنے والے ایک اور تحفہ سے بھی ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے معراج کی رات آقا علیہ السلام کو ’’ثم دنی فتدلیٰ فکان قاب قوسین او ادنیٰ‘‘ کے مقام پر بٹھا کر۔۔۔ ’’ومازاغ البصر وما طغٰی‘‘ کی شان سے نوازا اور اپنا دیدار کروایا۔ یعنی جو دیدار لوگوں کو قیامت کے دن نصیب ہوگا، وہ آقا علیہ السلام کو اسی حیاتِ مبارکہ میں عطا کردیا۔۔۔ اور ’’واوحیٰ الی ماعبدہ فاوحیٰ‘‘ کے مصداق حضور نبی اکرم ﷺ سے راز و نیاز کی باتیں فرمائیں۔ اللہ سے ملاقات، اس کے دیدار اور اس سے براهِ راست شرفِ کلام کے حصول کی صورت میں حضور نبی اکرم ﷺ کو جو نعمتِ عظمیٰ عطا ہوئی، اس پر آپ ﷺ نے عرض کیا:
باری تعالیٰ! دیدار کا تحفہ تو میرے لیے تھا، اب میری امت کے لیے بھی کوئی تحفہ عطا فرما۔۔۔ باری تعالیٰ! مجھے تو نے جو عطا کرنا تھا، کردیا، اب ان عنایات میں میری امت کو بھی شریک کر۔ پھر اللہ رب العزت نے معجزہ معراج میں امت مصطفوی کو بھی شریک کرنے کے لیے نماز کا تحفہ عنایت فرمایا۔
تحفۂ معراج؛ نماز ہی کیوں؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے لیے نماز ہی کو بطورِ تحفہ عنایت کیوں فرمایا۔۔۔؟ نمازکے اندر وہ کیا رازہے کہ اللہ نے اپنے محبوب ﷺ کی امت کے لیے اس تحفہ کو منتخب فرمایا۔۔۔؟ اس سوال کے جواب کی دو جہات ہیں:
- ایک جہت کا تعلق حضورنبی اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی سے ہے۔
- دوسری جہت کا تعلق امت سے ہے۔
1۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا، اس کو تکنا، اس سے باتیں کرنا اور اس کے قرب میں بیٹھنا، یہ نعمتیں تو وہ تھیں جو معرا ج کی رات آقا علیہ السلام کو عطا ہوئیں مگر کوئی ایسی چیز بھی تحفے میں دینا ضروری تھا جو چیز اپنے دامن میں ان تمام نعمتوں کے اثرات سمیٹے ہوئے ہو، اس لیے کہ اسی نعمتِ معراج کا ہی حصہ دینا مقصود تھا۔ یعنی ایسی نعمت ہو جس میں خدا کا قرب بھی ہو۔۔۔ جس کے ذریعے خدا کے حضور حاضری بھی ہو۔۔۔ جس میں اللہ کا دیدار بھی ہو۔۔۔ جس کے ذریعے اس سے کلام بھی ہوجائے۔۔۔ جس میں اس کی میٹھی میٹھی باتوں کو سننا بھی نصیب ہوجائے۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے مکالمہ بھی ہو اور اس کو تکنا بھی شامل ہو۔
اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ محبوب! معراج کی صورت میں آپ ﷺ کو اگر میرا دیدار و قرب ملا اور حضوری و مکالمہ ملا تو نعمت صرف یہ نہیں کہ جب آپ ﷺ میرے قرب میں ہیں تو یہ تمام چیزیں میسر ہوں اور جب واپس جائیں تو یہ ساری کیفیات زائل ہوجائیں اور میری بارگاہ سے رابطہ کٹ جائے۔ اگر ایسا ہو تو پھر وہ نعمت کیا ہوئی۔۔۔؟ میں جب آپ ﷺ کو کوئی نعمت عطا کرتا ہوں تو ہمیشہ کے لیے عطا کرتا ہوں۔ محبوب! قاب قوسین پر بٹھا کر میں نے آپ ﷺ کو سب کچھ دے دیا ہے، اب اصل نعمت یہ ہے کہ اب آپ ﷺ پلٹ کر جائیں گے تو::
چاہے مکہ کی گلیوں میں رہیں یا مدینہ میں جائیں۔۔۔ دعوت دیں یا جہاد کریں۔۔۔ غزوہ بدر ہو، اُحد ہو، حنین ہو یا لوگوں کے ساتھ لین دین کریں۔۔۔ گھر میں فیملی میں بیٹھیں یا غلاموں سے ملیں۔۔۔ جنگ کے لیے تدبیر کریں، فوجوں کو ترتیب دیں یا ریاست چلائیں۔۔۔ سیاسی معاملات ہوں یا معاشی معاملات۔۔۔ عوامی معاملات ہوں یا دیگر اقوام سے رابطے۔۔۔ محبوب! ’’قاب قوسین‘‘ پر آپ ﷺ کو تنہا بلاکر خلوت میں جو نعمت دے دی ہے، اس نعمت کا کمال یہ ہے کہ اب ساری جلوتوں میں بھی یہ نعمت آپ کے پاس رہے گی۔ یعنی آپ ﷺ کا حال اب یہ ہوگا کہ جس حال میں بھی رہیں، یہ کیفیت نہیں جائے گی۔۔۔ آپ ﷺ فرش پر چلتے پھرتے جہاں جہاں جائیں گے، آپ ﷺ کے قلب و باطن کا حال اور کیفیت وہی رہے گی جو قاب قوسین او ادنیٰ پر آپ ﷺ کو عطا کردی ہے۔
یعنی اب آپ ﷺ کے قلبِ اطہر کو ’’قاب قوسین‘‘ اور روح کو ’’او ادنیٰ‘‘ بنادیا ہے۔۔۔ آپ ﷺ کے اندر کے حال کو ’’مازاغ البصر وماطغیٰ‘‘ بنادیا ہے۔۔۔ اب آپ ﷺ جس حال میں بھی ہوں گے، یہ کیفیت آپ ﷺ سے الگ نہیں ہوگی۔ پھر یہی ہوا اور معراج کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ ’’قاب قوسین‘‘ ہوگیا۔
2۔ معراج کے موقع پر تحفہ دینے کے لیے نماز کے انتخاب کا تعلق امت مسلمہ کے ساتھ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو یہ دائمی کیفیت عطا کردی، تو اب اس کیفیت کا حصہ امت میں بھی منتقل کرنا تھا اور یہ بھی ضروری تھا کہ امت بھی دائماً اس کیفیت میں رہے۔ پس اللہ رب العزت نے فرمایا کہ محبوب! جو کچھ آج رات آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی شان کے لائق ملا ہے، اس میں سے ہر نعمت کا حصہ آپ ﷺ کی امت کی حیثیت کے مطابق انہیں بھی دینے کے لیے میں آپ ﷺ کو نماز کا تحفہ دیتا ہوں کہ اب جو اس نماز سے جتنا شغف پیدا کرلے گا، اس پر معراج کی اتنی ہی کیفیات کھلتی چلی جائیں گی۔
ییہی وجہ ہے کہ معراج سے واپسی پر جب عرض کیا گیا: یارسول اللہ! آپ ﷺ معراج سے ہوکر آئے ہیں، اس بڑی نعمت میں ہم کیسے شامل ہوں گے؟ ہم تو سدرۃ المنتہٰی اور قاب قوسین تک نہیں جاسکتے۔ تو آقا علیہ السلام نے فرمایا:
الصلوۃ معراج المومنین.
نماز میری امت کے مومنوں کی معراج ہے۔
یعنی مجھے یہ نعمت قاب قوسین پر جاکر ملی ہے لیکن تمہیں یہ نعمتِ معراج اپنی مسجدوں اور اپنے گھروں میں مصلّے پر تمہاری شان، استعداد اور حیثیت کے مطابق مل گئی ہے۔
آغاز میں پچاس نمازوں کا تحفہ کیوں؟
اللہ تعالیٰ نے نماز کو بطورِ تحفہ حضور نبی اکرم ﷺ کو عنایت فرماتے ہوئے ایک دن میں پچاس نمازوں کا حکم دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ یہ تحفہ لے کررب کائنات سے ملاقات کرنے کے بعد لامکاں سے پلٹے تو راستے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور جب اُن کے علم میں آیا کہ اللہ تعالیٰ نے پچاس نمازوں کا تحفہ دیا ہے اور امتِ مسلمہ پر ایک دن میں پچاس نمازوں کی ادائیگی فرض کی ہے تو انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ کی امت پر اِن کی ادائیگی مشکل ہوجائے گی، لہذا انہیں کم کروائیں۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بار بار گزارش پر آپ ﷺ نو مرتبہ اللہ کی بارگاہ میں پلٹے اور پینتالیس نمازیں کم کروائیں۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ جو بات موسیٰ علیہ السلام جانتے ہیں کہ حضور ﷺ کی امت پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکے گی، بڑا مشکل ہوگا تو کیا یہ بات اللہ تعالیٰ خود نہیں جانتے تھے۔۔۔؟ یہ ساری جو پریکٹس کرائی جارہی ہے، اس کی ضرورت کیا ہے۔۔۔؟پہلے پچاس دینی ہیں اور پھر آخر پر پانچ ہی کرنی ہیں تو اکٹھے ہی پینتالیس کم کیوں نہیں کردیں۔۔۔؟ اس سوال کے جواب کے کئی پہلو ہیں:
1۔ ایک پہلو کا تعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت اور ان کی ایک خواہش سے ہے۔ سفرِمعراج سے واپسی کے راستے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کو کھڑا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے دیدار کی صورت میں ملنے والی نعمتِ عظمیٰ کی قدر اور اہمیت موسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر کون جانتا ہے۔ انہوں نے اللہ سے دیدار مانگا تھا اور اس نے فرمایا تھا:
’’لن ترانی‘‘ تو میرا دیدار نہیں کرسکتا۔
موسیٰ علیہ السلام کے اصرار پر اللہ نے فرمایا تھا کہ ایک تجلی کوهِ طور پر پھینکتا ہوں، وہ دیکھ لینا، اگر اس نے تجلی برداشت کرلی تو تم بھی کرلو گے۔ اللہ نے جب اپنی تجلی کوهِ طور پر ڈالی تو کوهِ طور ریزہ ریزہ ہوگیا اور اس تجلی کے اثر سے موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوگئے۔
موسیٰ علیہ السلام کی اللہ رب العزت کے دیدار کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشنے کے لیے آپ علیہ السلام کا انتخاب کیا گیا کہ اے موسیٰ علیہ السلام ! میرے محبوب میرا دیدار کرکے پلٹ رہے ہیں تو مجھے دیکھنے کی تڑپ لیے ہوئے ہے، اب اُن کو دیکھ لے، اُن کو دیکھنا مجھے دیکھنا ہے۔ پس اللہ کی ذات کا دیدار کرنا اور ’’وماذاغ البصر وماطغیٰ‘‘ آنکھ جھپکے بغیر تکتے رہنا، اس نعمتِ عظمیٰ کی قدرو منزلت موسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر کون جانتا ہے۔
2۔ آغاز میں پچاس نمازیں دینے اور آخر پر پانچ کردینے کی دوسری حکمت یہ ہے کہ جو نعمتِ دیدار وملاقات حضور ﷺ کو قاب قوسین پر حاصل رہی، امت کو بھی دائماً اللہ کے قرب اور حضوری کی یہ کیفیت میسر رہے اور اس کے ساتھ ساتھ معاملاتِ زندگی میں بھی انہیں آسانی اور سہولت میسر رہے۔ اگر پچاس نمازیں پڑھنی پڑتیں تو ہم ہر وقت قربت اور حضوری کے اس حال میں رہتے جیسے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو پالینے کے بعد زلیخا کا حال ہوگیا تھا۔ ایمان لے آنے اور یوسف علیہ السلام کے عقد میں آجانے اور ان کی صحبت کا فیض و توجہ مل جانے کے بعد وہ سارا دن پچاس نمازوں کی طرح مصلے پر بیٹھی رہتیں تھیں اور سر اٹھا کر بھی یوسف علیہ السلام کو تکتی بھی نہیں تھیں۔ ایک بار یوسف علیہ السلام ہنس پڑے، پوچھا: زلیخا پہلے تو مجھے حاصل کرنے کے لیے تونے نجانے کتنی کاوشیں کیں یہاں تک کہ مجھے جیل بھجوادیا تھا۔ تمہارا عشق و دیوانگی انتہا پر تھی اور اب یہ حال ہے کہ جب میں مل گیا ہوں تو اب مجھے تکتی بھی نہیں ہو۔ زلیخا نے جواب دیا کہ جب سے آپ علیہ السلام ملے ہیں تو آپ علیہ السلام نے کوئی اور ملادیا ہے، اب اس کو تکنے سے فرصت ملے تو کسی اور کو دیکھوں۔
اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پچاس نمازیں ہی ہم پر فرض رہتیں تو ذرا سوچیں کہ ہمیں دنیاوی معاملات و ذمہ داریاں ادا کرنے کی فرصت کہاں ملتی۔۔۔؟ سارا دن پچاس نمازیں ہی ادا کرتے رہتے، یہ تو موسیٰ علیہ السلام کی شفاعت کام آگئی جن کو اللہ تعالیٰ نے راستے میں خود ہی کھڑا کردیا اور وہ تخفیف کراتے کراتے پانچ تک لے آئے اور پھر آقا علیہ السلام کا حوصلہ اور شفقت بھی دیکھئے کہ نو مرتبہ پلٹ پلٹ کر گئے ہیں اور آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے محبوب آپ پر نمازیں تو پانچ ہی فرض کردی ہیں مگر اجر و ثواب اور برکات و ثمرات پچاس کے ملیں گے اور نامہ اعمال میں بھی پچاس نمازیں لکھی جائیں گی۔
امت نعمتِ معراج میں کس طرح شامل ہے؟
یہ بات بڑی غور طلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت کو کس طرح معراج کی نعمت میں شامل کیا۔۔۔؟ اس کو سمجھنے کے لیے سفرِ معراج کے مراحل پر نظر ڈالنی ہوگی۔ معراج کا سفر تین حصوں میں ہے:
- پہلا حصہ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ہے۔
- دوسرا حصہ مسجدِ اقصیٰ سے سدرۃ المنتہٰی تک ہے، جہاں عالمِ خلق اور عالمِ ارواح ختم ہوجاتا ہے۔
- تیسرا حصہ سدرۃ المنتہٰی سے مقامِ قاب قوسین او ادنیٰ تک ہے جو قربِ الہٰی کا خاص مقام ہے۔
اسی طرح نماز کو بھی اللہ تعالیٰ نے تین حصوں میں تقسیم کردیا ہے:
1۔ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا جو سفر ہے، اس کو قیام میں شامل فرمایا۔ نماز میں قیام کی معراج مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفر ہے۔ لہذا جب نماز پڑھیں تو تصور میں یہ لایا کریں کہ قیام کے دورانیہ میں ہم مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کے حصے میں داخل ہونے جارہے ہیں جوکہ اللہ سے ملاقات کا سفر ہے۔
2۔ معراج کا دوسرا حصہ مسجدِ اقصیٰ سے سدرۃ المنتہٰی تک کا سفر ہے جو کہ مومنوں کو نماز کے رکوع کی شکل میں دے دیا کہ جب بندہ نماز میں جھکتا ہے تو اسے عروج مل جاتا ہے، یعنی رکوع میں بلندی ہے۔
3۔ مسجدِ اقصیٰ سے مقامِ قاب قوسین او ادنیٰ تک کا جو سفر ہے وہ مقامِ قربِ خاص ہے اور اس کا فیض سجدے میں رکھ دیا ہے۔ پس سجدہ مومنوں کے اپنے مقام اور حیثیت کے مطابق ان کا ’’قاب قوسین‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ.
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ سر بسجود رہیے اور (ہم سے مزید) قریب ہوتے جائیے۔‘‘
(العلق، 96: 19)
جب سجدے میں جائیں تو اس کیف و سرور کے ساتھ جائیں کہ یہ قرب کی آخری منزل ہے، جس میں بندہ اپنے مولا کے قریب ہوتا ہے۔
- جب مومن سفر کے یہ تین مراحل پورے کرکے آگے منزل پر پہنچتا ہے تو وہاں مکالمہ اور مناجات کا مقام آتا ہے۔ جیسا کہ آقا علیہ السلام قاب قوسین او ادنیٰ کے مقام پر پہنچے تو اللہ سے ہمکلام ہوئے۔ اس ہمکلامی کا حصہ براهِ راست اللہ تعالیٰ نے نماز کے ’’تشہد‘‘ میں رکھ دیا۔ حضور ﷺ کا امتی جب قیام، رکوع اور سجود سے فارغ ہوجاتا ہے اور اپنے زانوئوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتا ہے اور عرض کرتا ہے:
التحیات لله والصلوة و الطیبات.
’’میری قولی، عملی اور مالی نیاز مندی اللہ کے لیے ہے۔‘‘
اپنی اس نیاز مندی اور حقیر بندگی کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنا امتی کے لیے مناجات کا وہ مقام ہے جو قاب قوسین کے مقام پر حضور نبی اکرم ﷺ کی اللہ سے ہمکلامی کے نتیجے میں فیض کی صورت میں ملا۔
جب آقا علیہ السلام قاب قوسین کے مقام پر پہنچے تو اللہ رب العزت نے سلام سے استقبال کیا اور فرمایا:
’’السلام علیک ایها النبی‘‘
اے میرے محبوب نبی ﷺ تم پر میرا سلام ہو۔
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو کہا گیا اپنا سلام من و عن ’’تشہد‘‘ کی صورت میں نماز کے برتن میں ڈال کر دے دیا۔ جب ہم ’’السلام علیک ایھا النبی‘‘ کے کلمات ادا کرتے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور سلام بھیجتے ہیں تو یہ قاب قوسین او ادنیٰ کے مکالمہ اور مناجات میں سے ہے۔ نماز میں حضور ﷺ پر سلام بھیج کر ہم اللہ کی سنت پوری کرتے ہیں۔ جیسے اللہ نے انشائً اپنے حبیب ﷺ پر درود و سلام بھیجا، ہم بھی اسی سنت پر عمل کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے سلام کے جواب میں آقا علیہ السلام نے عرض کیا:
السلام علینا و علی عباد اللّٰه الصالحین.
’’ہم پر بھی سلام اور اللہ کے صالح بندوں پر بھی سلام۔‘‘
اللہ رب العزت نے حضور ﷺ کے اس کلام کو بھی من و عن ’’تشہد‘‘ میں رکھ دیا۔ اس کو پڑھ کر ہم شہادۃً ’’اشہد ان لا الہ الا للّٰہ واشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ‘‘ کے کلمات اداکرتے ہیں کہ اے اللہ تو بھی سچا اور تیرا محبوب بھی سچا۔ جو تو نے کہا، وہ بھی سچ تھا اور جو تیرے محبوب نے کہا، وہ بھی سچ کہا۔ چونکہ نماز کی صورت میں مومنوں کو معراج کی نعمت حضور ﷺ کے صدقے سے ملی، پس اس کا شکر ادا کرنے کے لیے ہم حضور ﷺ پر درود پڑھتے اور سلام بھیجتے ہیں۔
جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو گویا اپنے ایمان اور روحانیت کی معراج میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ہر مومن کی شان اور اس کے حال کے لائق اللہ تعالیٰ نے نماز میں مسجدِ حرام سے قاب قوسین تک کے سفر کا عکس رکھ دیا ہے۔ لہذا نماز کو استقامت سے ادا کریں۔۔۔ اور اس سے وہ فیض لیں جو معراج النبی ﷺ کا حصہ ہے۔
نماز کی ادائیگی کا آسان طریقہ
نماز کی ادائیگی کے لیے ایک آسان طریقہ جس کے ذریعے نماز پڑھنا پچاس فیصد آسان ہوجائے گا، وہ ہر وقت وضو کے ساتھ رہنا ہے۔ جب وضو پہلے سے ہی موجود ہوگا تو نماز پڑھنا آسان ہوجائے گا۔ وضو کے ساتھ صرف جسمانی طہارت ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثرات باطن تک جاتے ہیں۔ یہ طہارت اندرکے اندھیرے کے ساتھ جنگ کرتی ہے، جس کے نتیجے میں اندھیرا کم ہوتا رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں پتہ چلے یا نہ چلے۔ یہ ایک مستقل عمل ہے جو ہوتا رہتا ہے۔ لہذا ہر وقت وضو سے رہیں، وضو کو زندگی کا حصہ بنالیں، جب کوئی عمل زندگی کا حصہ بن جاتا ہے تو اس کے کرنے سے کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔ وضو کی برکات کا عالم یہ ہوتا ہے کہ یہ بہت سی بیماریوں کا علاج بن جاتا ہے۔
فَاِنَّهٗ یَرَاک.
ذہن میں خیال آتا ہے کہ ہم نماز تو پڑھتے ہیں مگر اس کے اندر ہمیں اللہ سے ملاقات کی کیفیت نصیب نہ ہو تو پھر کیا کریں؟
اس بات کو اس مثال سے سمجھیں کہ بعض لوگ بینا ہوتے ہیں اور بعض نابینا ہوتے ہیں۔ اگر کسی نابینا کو بادشاہ کے دربار میں قرب حاصل ہو اور وہ بادشاہ کے دربار میں ہمہ وقت بیٹھا ہوا ہو اور دوسری طرف عام رعایا جن کی بادشاہ کے دربار تک رسائی ممکن نہیں ہے تو ان دونوں میں فرق ہے۔ نابینا شخص کو نظر نہیں آتا تو نہ سہی مگر بادشاہ کو تو نظر آرہا ہے کہ فلاں میرے دربار میں بیٹھا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کو نماز میں کیفیت نہیں مل رہی کہ اس کو دیکھ سکوں تو پرواہ نہ کریں بلکہ اس حال میں مست رہیں کہ مجھے میرا محبوب تک رہا ہے۔ اگر عاشق کو اتنا یقین ہوجائے کہ میر امحبوب اس وقت مجھے دیکھ رہا ہے تو اس کو اور کیا چاہیے۔ لہذا نماز وہ مقام ہے کہ جس میں اللہ رب العزت اپنے بندے پر خاص نگاہ ڈالتا ہے۔
کئی وہ بھی ہیں کہ جنہیں وہ ہر لمحہ تکتا ہے اور یاد کرتا ہے لیکن اگر یہ کیفیت نہ بھی ہو تو کم سے کم اس پر بھی خوش رہیں کہ پانچ وقت ایسے آتے ہیں کہ جب ہم وضو کرکے مصلّے پر کھڑے ہوتے ہیں تو ہمارا معبودِ حقیقی براهِ راست ہمیں تکتا ہے۔
جب یہ خیال یقین میں بدل جائے کہ اس وقت تو وہ ہمیں دیکھ رہا ہے تو جتنا ہم سنور سکتے ہیں، اتنا سنور جائیں۔۔۔ جتنا ہمارے بس میں ہو، اتنا ادب بجا لائیں۔۔۔ دھیان اس کی طرف کرلیں۔۔۔ ذوق سے قرأت اور سجدہ کریں۔۔۔ جتنا کچھ ہمارے بس میں ہے، کرتے چلے جائیں، اس لیے کہ وہ تو دیکھ رہا ہے کہ میری خاطر میرا بندہ آنکھیں جھکائے ہوئے، ذوق سے قرأت، رکوع اور سجدہ کررہا ہے۔ یہ پانچ نمازیں ایسی ہیں کہ ان اوقات میں اللہ اپنے بندوں کو دیکھتا ہے، ان کی طرف دھیان کرتا ہے اور آقا علیہ السلام نے اس کی گارنٹی دی۔ فرمایا:
ان تعبد للّٰہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک۔
عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تمہیں یہ کیفیت اور حال نصیب نہ ہو کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو تو اس کی فکر نہ کرو بلکہ اس حال میں یہ یقین کرلو اور مست ہوجائو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ جب یہ یقین پختہ ہوتا چلا جائے گا تو یہی یقین بتدریج ہماری کیفیات کو بڑھاتا چلا جائے گا۔
پس نماز اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم تحفہ ہے۔ اس تحفے کو اس طرح قبول کریں کہ آج کے بعد پانچوں نمازوں میں سے کوئی نماز نہ چھوٹے۔ بھلے ہمیں کچھ دکھائی دے یا نہ دے، پس یہ تصور کریں کہ وہ ہمارے چہرے پر اپنی شان کے لائق نگاہیں جمائے ہوئے ہے۔ جیسے اس نے اپنے محبوب ﷺ سے فرمایا:
فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا.
’’بے شک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں۔‘‘
(الطور، 52: 48)
ہمیں یہ کیفیت یا حال نصیب ہوتا ہے یا نہیں، اس کو خاطر میں نہ لائیں۔ بس اس کیفیت اور حال پر اکتفا کریں کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور جس کو رب دیکھے، اس کو بخشش و مغفرت کی بشارت سنا دی جاتی ہے۔
نماز میں کیفیت میسر نہ آنے کی وجہ
نماز میں کیفیات کے محسوس ہونے یا نہ ہونے کی بحث میں نہ الجھا کریں، اس لیے کہ کیفیات محسوس نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سارے لوگ روحانی اعتبار سے بے ہوشی (Anesthesia ) کی حالت میں ہیں، جس طرح جسم کا کوئی عضو کاٹ دیں تو محسوس نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہم ابھی روحانی طور پر جاگے ہوئے نہیں ہیں۔ جو جاگ جائے، اس کو محسوس ہوتا ہے، سوئے ہوئے کو محسوس نہیں ہوتا۔ ہم روحانی طور پر سوئے ہوئے ہیں اور ہماری روحیں گہری نیند میں ہیں، اس لیے محسوس نہیں ہوتا۔ اگرچہ ہمیں محسوس نہ بھی ہو تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس کا توجہ کرنا رُک گیا ہے یا کینسل ہوگیا ہے اور جو کچھ وہ دے رہا ہے، اس کو وہ روک دے گا۔
اس کو اس مثال سے بھی سمجھیں کہ اگر محسوس نہ بھی ہو تو سانس تو آرہا ہوتا ہے اور زندہ بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہمیں احوال و کیفیات محسوس نہیں ہوتیں تو بھی فکر نہ کریں، صرف یہ تصور کریں کہ وہ ہمیں پھر بھی دیکھ رہا ہے، بخشش بھی اس کی اتر رہی ہے، توجہ بھی میسر ہے اور اس کی برکات بھی نازل ہورہی ہیں۔
معجزہ معراج چونکہ قرآن مجید کے بعد آپ ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ ہے، لہذا اس موقع پر امت کے لیے نماز کی صورت میں جو تحفہ آپ ﷺ کو عطا کیا گیا، وہ بھی تحائف میں سے سب سے بڑا تحفہ ہے۔ اس لیے کہ جس بارگاہ سے یہ تحفہ عطا ہوا ہے، وہ سب سے بڑی بارگاہ ہے۔ اس سے بڑا تحفہ عالمِ خلق و امر میں کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
نماز کی صورت میں ملنے والے اس تحفۂ معراج کی فضیلت و عظمت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ دین کے تمام فرائض روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد اور دیگر تعلیمات کی آیات زمین پر اتریں اور یہیں پر فرض ہوئیں، مگر نماز قاب قوسین او ادنیٰ پر ملی۔ یعنی اللہ رب العزت نے اس ایک فرض کو چنا اور حضور علیہ السلام کو شبِ معراج اپنی بارگاهِ خاص سے بطورِ تحفہ عطا فرمایا۔ نماز اور باقی فرائض کی عظمت کے درمیان یہ فرق ان لوگوں کے لیے سستی و غفلت کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے جو اس کی ادائیگی میں غفلت برتتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ سے تحفہ بھیجے اور آقا علیہ السلام وہ تحفہ لے کر آئیں اور امت کو عطا کریں مگر ہم اس کو عملی طور پر قبول نہ کریں اور اپنی زندگیوں میں اس کا اطلاق نہ کریں تو یہ اس عظیم تحفے کی ناقدری اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ بے وفائی ہوگی۔ اللہ رب العزت ہمیں اس تحفہ کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔