23 مارچ 1940ء کو یوم قرار داد پاکستان کو پیش کرنے کی نوبت کیوں آئی؟ وہ کیا حالات تھے کہ مسلمانانِ ہند نے ایک الگ وطن کا مطالبہ کردیا؟ اس امر کو جاننے کے لیے ہمیں 1940ء سے قبل کے حالات کا جائزہ لینا ہوگا:
برطانوی حکومت کے زیرِ نگرانی بننے والے گورنمنٹ انڈیا ایکٹ 1935ء کے نفاذ کے بعد میں ہندوستان بھر میں 1937ء میں انتخابات کروائے گئے۔ 1937ء کے انتخابات کے نتیجے میں کانگرس کو جہاں جہاں اقتدار میسر آیا، وہاں انہوں نے مذہبی، قومی اور ثقافتی سطح پر مسلمانوں کو حقیر کرنے کی غرض سے اپنے سیاسی اقتدار سے بھرپور انداز میں کام لیا۔ کانگرس نے یہ نعرہ لگایا کہ ہندوستان کی مالک ہندو اکثریت کی قوم ہے، لہذا یہاں پر وہی کچھ ہوگا جو ہم چاہیں گے اور بعد ازاں انہوں نے اپنی ظالمانہ پالیسیوں اور اعمال سے اس کا ثبوت بھی فراہم کیا۔
کانگرس کے اس رویے نے مسلمانوں کے دل و دماغ میں اپنے مستقبل کے حوالے سے کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا کردیئے اور برصغیر کے مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے کے سامنے یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ برصغیر کے سیاسی اقتدار میں آئندہ کے لیے مسلمانوں کا مستقبل مکمل طور پر مخدوش ہے۔ ان کانگرسی وزارتوں کے قیام سے قبل سیاسی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کی فضا قائم تھی۔ قائداعظمؒ نے کانگرسی وزارتوں کے قیام کے بعد بھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اس اتحاد اور تعاون کو جاری رکھنا چاہا مگر ہندوئوں کے رویے اور مظالم نے مسلم لیگ کو اپنے راستے کانگرس سے علیحدہ کرنے پر مجبور کردیا۔
1939ء تک کانگرسی وزارتوں کا یہ دور مسلمانوں پر ہر طرح کے ظلم ڈھاتا رہا۔ 1939ء میں کانگرس نے برطانوی حکومت کو جنگ عظیم دوم کے دوران برصغیر میں حالتِ جنگ کی حالت کے نفاذ کے مسئلہ پر اعتماد میں نہ لینے پر وزارتوں سے استعفیٰ دے دیا۔
یومِ نجات
اکتوبر 1939ء میں کانگرسی وزارتوں کی یہ سبکدوشی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے نہایت اہم موڑ ثابت ہوئی۔ کانگرس ہائی کمان نے اپنے خیال میں یہ نہایت انقلاب انگیز اقدام کیا تھا جس کے نتیجے میں انہیں آزادی کی منزل سے ہمکنار ہونا تھا اور ہندوستان کا بلا شرکتِ غیرے حکمران بننا تھا لیکن دراصل یہ اقدام مسلم لیگ اور مسلمانانِ ہند کے حق میں ایک نیک فال ثابت ہوا۔ کانگرسی وزارتیں اقتدار سے الگ ہوئیں، قائداعظم نے بجلی کی سرعت سے یہ اعلان کیا کہ کانگرسی وزارتوں کے مستعفی ہونے کی خوشی میں ہندوستان بھر کے مسلمان یومِ نجات منائیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر اداکریںکہ انہیں اس ظالمانہ اقتدار سے نجات ملی۔
یوم نجات کے لیے 22 دسمبر 1939ء کی تاریخ اور جمعہ کا دن مقرر کیا گیا، جلسے کئے گئے، جلوس نکالے گئے، قرار دادیں پاس کی گئیں جن میں خاص طور پر ان مظالم کی مذمت کی گئی جو کانگرسی وزارت کے صوبوں میں مسلمانوں پر روا رکھے گئے تھے۔ یہ یوم نجات اس بات کا غیر مبہم اور ناقابلِ تردید اعلان تھا کہ کانگرس کا اقتدار خالص ہندو اقتدار ہے جس سے مسلمانوں کو شدید نفرت ہے۔
قائداعظم کے اس اقدام کا نہایت مفید نتیجہ نکلا۔ حکومتِ برطانیہ بلکہ ساری دنیا کے سامنے کانگرس کے اس غلط دعوے کی قلعی کھل گئی کہ وہ برصغیر کی جملہ اقوام کی نمائندہ جماعت ہے۔ ملک کے مشہور کانگرسی اخبار اسٹیٹس مین کے ایک سابق ایڈیٹر آرتھر مورنے قائداعظم کے اس اقدام کو نہایت عاقلانہ قراردیتے ہوئے قائداعظم کی بروقت اور فوری فیصلہ کرنے کی قوت کو بے حد سراہا۔ قائداعظم کے اس اقدامِ یوم نجات کے اعلان سے کانگرس بوکھلا گئی۔ بعد ازاں وائسرائے ہند نے بھی اپنی تقریر میں آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت قرار دے دیا۔ وائسرائے کی طرف سے یہ اعلان بلاشبہ ہندوستان کے مسلمانوں، مسلم لیگ اور قائداعظم کی بہت بڑی فتح تھی اور مسلم لیگ کی قوت کا سرکاری سطح پر یہ پہلا اعتراف تھا۔
مسلم لیگ کے فیصلہ کن اجلاس کیلئے لاہور کا انتخاب
مسلم لیگ کا قافلۂ حریت اپنے بیدار مغز اور اولوالعزم رہنما کی قیادت میں اپنی فکری منزلِ مقصود کی جانب نہایت تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ اب مسلمان؛ ہندو فرقہ پرستوں خصوصاً کانگرس سے بالکل مایوس ہوچکے تھے۔ کانگرسی وزارتوں کے استعفیٰ اور مسلم لیگ کی جانب سے یومِ نجات منانے کے اقدام کے بعد ہندوستان کی دونوں قومیں دو متضاد اور مخالف راستوں پر گامزن ہوچکی تھیں اور حکومتِ برطانیہ کا راستہ دونوں سے الگ تھا۔ گویا یہ ملک تین بڑی طاقتوں کی آویزش کی آماجگاہ بن رہا تھا، جس میں سے دو طاقتیں نہایت منظم اور مضبوط تھیں لیکن ان میں مسلمانوں کی طاقت کمزور تھی۔ اس کمزور طاقت اورمنتشر قافلے کو اب ایک مضبوط اور صاحبِ بصیرت قائد مل گیا تھا۔ جس نے فیصلہ کرلیا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نصب العین دے کران کے فکرو عمل کی قوتوں کو نکھارا جائے اور انہیں دو دشمنوں سے نجات دلاکر ایک مستحکم اور ناقابلِ شکست قلعہ میں محفوظ کردیا جائے۔
اس قلعہ کی تعمیر کے لیے اینٹیں درکار نہیں تھیں بلکہ گوشت پوست، ہڈیوں اور خون کی ضرورت تھی اور قوم کو اس عظیم قربانی کے لیے تیار کرنے کی غرض سے قائدِ قوم نے لاہور کا تاریخی شہر منتخب کرلیا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس جو 24,23,22,21 مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقد ہونے والا تھا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ یہ برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی قسمتیں بدل دے گا اور ساتھ ہی دنیا کا نقشہ تبدیل کرکے دکھادے گا۔ مگر خلاف توقع ایسا ہی ہوا۔
اجلاس کی کامیابی کے لیے کاوشیں
پنجاب مسلم لیگ کے رہنمائوں نے اس تاریخی اجلاس کو کامیاب بنانے کے لیے شب و روز کاوشیں کیں اور اس کے لیے منٹو پارک کا وہ میدان منتخب کیا گیا جو قائداعظم کے انگریز سوانح نگار ہیکٹر بالیتھو کے بقول پہلوانوں کے دنگل کے لیے مخصوص تھا۔ ٹھیک ہے، برصغیر کے دس کروڑ مسلمان بھی تو ایک بہت بڑے اور تاریخ کے سب سے بڑے قومی دنگل میں اترنے والے تھے۔ ابتداء میں حکومت نے منٹو پارک کی خوبصورتی خراب ہونے کے پیشِ نظر جلسہ کی اجازت دینے سے انکار کردیا مگر بعد ازاں مسلم لیگی رہنمائوں کے دبائو پر 5 ہزار روپے بطور ضمانت (برائے تلافی نقصان باغ) جمع کروانے کی شرط پر اجازت ملی۔ مگر بعض مسلم لیگی خیال کے افسروں کی کوششوں سے پانچ ہزار روپے داخل کرنے کی نوبت نہ آئی اور مسلم لیگ کا یہ تاریخی اجلاس اسی پارک میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔
اس تاریخی اجلاس کو ہر ممکن کامیاب بنانے کے لیے پنجاب مسلم لیگ کے رہنمائوں نے جلسہ کے انتظام وانصرام کے لیے متعددکمیٹیاں تشکیل دی گئیں جنہوں نے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو اپنی طاقت اور بساط سے بڑھ کر ادا کیا۔
مسلم لیگ کے اس تاریخی جلسے کی تاریخیں جوں جوں قریب آتی جارہی تھیں، پنجاب مسلم لیگ خصوصاً لاہور کے مسلمانوں کے جوش و خروش میں شدت پیدا ہوتی جارہی تھی۔ مسلمانوں کے پاس جان تھی اور اسے قربان کے لیے ہمہ وقت تیار تھے لیکن اس وقت فوری ضروریات کے لیے جان سے زیادہ روپے کی ضرورت تھی اور اس دور میں مسلمانوں کا کمزور پہلو یہی تھا۔ اس عظیم الشان اجلاس کے لیے بطورِ اخراجات ہزارہا روپے کی ضرورت تھی۔ نواب امیر محمدخان کالا باغ، سر شاہنواز خان ممدوٹ، سر سکندر اور دیگر مسلمان عمائدین نے اس جلسہ کے انتظام و انصرام کے لیے مالی طور پر بہت زیادہ تعاون کیا۔ علاوہ ازیں مجلس استقبالیہ نے حصول زر کی ایک اور ترکیب نکالی اور مسلم لیگ کی رکنیت حاصل کرنے والوں کے لیے پچاس روپے فیس مقرر کر دی۔ ایک اندازے کے مطابق اس جلسے کے لیے بیس ہزار روپے کی رقم جمع ہوگئی۔ جس میں ٹکٹوں سے حاصل ہونے والی رقم بھی شامل تھی۔ جلسے کے انتظامات پر گیارہ ہزار روپے کے قریب رقم خرچ کی گئی۔ باقی رقم آل انڈیامسلم لیگ کے خزانے میں جمع کروادی گئی۔
لاہور میں ایک المناک حادثہ
19 مارچ کو ٹبی بازار میں نو گزے پیر کی قبر کے پاس خاکساروں کے ایک دستے اور پولیس کے درمیان تصادم ہوگیا جس میں سرکاری اعلان کے مطابق 23خاکسار شہید ہوگئے۔ ایک انگریز سپرنٹنڈنٹ پولیس ایک خاکسار کے بیلچے سے ہلاک اور ایک پولیس آفیسر زخمی ہوگیا۔ بعض حلقوں کی طرف سے تجویز آئی کہ مسلم لیگ کا اجلاس فی الحال ملتوی کیا جائے۔ قائداعظم نے اس حادثہ پر نہایت افسوس کا اظہار کیا لیکن مسلم لیگ کے اجلاس کے ملتوی کرنے کی سختی سے مخالفت کی اور فرمایا کہ اجلاس ان ہی تاریخوں میں ہوگا اور لاہور میں ہوگا۔ یہ قائداعظم کی مستقل مزاجی، اولوالعزمی اور نامساعد حالات میں بھی اپنے فیصلے پر قائم رہنے کی قابلِ رشک مثال ہے۔
اجلاس میں شرکت کے لیے قائداعظم کی لاہور آمد
20 مارچ 1940ء کو دہلی سے مسلم لیگ کے عمائدین قائداعظم کو لے کر لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ اگرچہ قائد اعظم کی تشریف آوری سے دو روز قبل خاکساروں پر فائرنگ سے لاہور کی فضا سخت غمناک تھی مگر اس کے باوجود 21 مارچ 1940ء کی صبح کو لاہور ریلوے اسٹیشن پر ہجوم کا یہ حال تھا کہ دل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔نواب سر شاہنواز خان ممدوٹ کی قیادت میں پنجاب کے تمام قابل ذکر مسلم لیگی رہنما اپنے محبوب قائد کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ہر طرف سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے اور پلیٹ فارم سے لے کر ریلوے اسٹیشن کے باہر دور دور تک انسانوں کا ایک جم غفیر تھا۔ جوں ہی مسلم لیگ کی سپیشل ٹرین پلیٹ فارم کے حدود میں داخل ہوئی، اسٹیشن کی عمارت نعرہ ہائے تکبیر سے اور قائداعظم زندہ بادکے نعروں سے گونج اٹھی۔
پروگرام کے مطابق قائداعظم کوجلوس کی صورت میں قیام گاہ تک لے جایا گیا۔ اسٹیشن سے قائداعظم ممدوٹ ولا تشریف لے گئے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد سب سے پہلے میو ہسپتال جاکر زخمی خاکساروں کی عیادت کی۔ انہیں تسلی دی اور ان کے دل بڑھائے۔ قائداعظم کے اس مشفقانہ طرز عمل کا اہلیانِ لاہور اور خاص طور پر خاکساروں اور زخمی خاکساروں کے عزیز و اقارب پر نہایت اچھا اثر ہوا۔
سالانہ اجلاس کا آغاز
- 21 مارچ 1940ء: عصر کی نماز کے بعد قائداعظم جلسہ گاہ میں تشریف لائئے اور مسلم لیگ کا سبزہلالی پرچم لہرا کر رسم پرچم کشائی اداکی۔ 21 مارچ کی شام کو مسلم لیگ کونسل کا اجلاس ہوا۔ نواب زادہ لیاقت علی خان جنرل سیکرٹری آل انڈیا مسلم لیگ نے رپورٹ پیش کی۔
- 22 مارچ 1940ء: جمعہ کے دن آل انڈیا مسلم لیگ کا عام اجلاس منعقد ہوا۔ مجلس استقبالیہ کے صدر نواب سر شاہنواز خان ممدوٹ نے استقبالیہ کلمات پیش کیے۔ خطبہ استقبالیہ کے بعد قائداعظم مائیک پر تشریف لائے اور انہوں نے کچھ دیر اردومیں تقریر کی اور پھر انگریزی میں اپنا تاریخی خطاب شروع کیا۔ پہلے سے لکھی لکھائی تقریر نہ تھی بلکہ برجستہ تقریر تھی۔ جس میں انہوں نے گذشتہ دو سال کے سیاسی واقعات کا خلاصہ بیان کیا اور اس کے بعد انگریز، کانگرس اور دوسرے سیاسی عناصر کا تجزیہ کرتے ہوئے مسلم لیگ کی پالیسی کی وضاحت کی۔
- بعد ازاں 22 مارچ کو رات 8 بجے سبجیکٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں اگلے دن پیش کی جانے والی قرار داد کا متن نوابزادہ لیاقت علی خان نے پیش کیا۔ ممبران کمیٹی نے اس پر مزید غورو خوض کیا۔ یہ قرار داد انگریزی زبان میں تیار کی گئی تھی، ممبران کی رائے پر قائداعظم نے مولانا ظفر علی خان کو اس کا اردو ترجمہ کرنے کی ہدایت کی۔جس پر مولانا ظفر علی خان نے اس کا اردو ترجمہ کیا۔
23 مارچ: قائداعظم کا خطبہ صدارت
23 مارچ 1940: بالآخر 23 مارچ 1940ء کا وہ تاریخی دن آگیا، جب منٹو پارک لاہور کا میدان 1 لاکھ سے زائد نفوس سے آباد تھا۔ اس پروگرام میں قرار داد پاکستان پیش کرنے سے قبل قائداعظم نے اپنا تاریخی خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ہندوستان کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک اس حقیقت کا اعتراف نہ کرلیا جائے کہ یہ مسئلہ فرقہ واری نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے۔ اس کے بغیر جو آئین تشکیل دیا جائے گا اس کانتیجہ صرف تباہی ہوگا اور مسلمانوں کے علاوہ حکومت برطانیہ اورہندوئوں کے لیے بھی نقصان رساں اور تباہ کن ہوگا۔ اگر برطانوی حکومت نیک نیتی سے ہندوستان کے باشندوں کی خوشحالی کے نقطہ نظر سے امن و امان کی خواہش مندہے تو اس کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ اس ملک کو دو آزاد اور خود مختار ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے اور ان دونوں بڑی قوموں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا جائے۔ اس لیے کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف تہذیبوں، فلسفوں، تہذیبی روایات اور ادبی افکار کے حامل اقوام ہیں۔ اگر ان دومختلف اقوام کو جن میں سے ایک ہمیشہ اکثریت میں اور دوسری اقلیت میں ہوگی، ایک ہی حکومت کے ماتحت رہنے پر مجبور کردیا جائے تو اسکے باہمی جھگڑوں میں آئے دن اضافہ ہوتا رہے گا اور ایک دن ایسا آئے گا جس سے اس قسم کی حکومت کے تارو پود منتشر ہوجائیں گے۔
تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیںموجود ہیں جیسے برطانیہ اور آئر لینڈ کی یونین یا چیکو سلاویہ اورپولینڈ کا مسئلہ۔ ہمیں تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ایسے علاقے جو ہندوستان سے رقبہ میں کہیں چھوٹے ہیں، یہ ایک مستقل ملک کہلانے کے مستحق تھے لیکن اب اتنی ریاستوں میں بٹے ہوئے ہیں جتنی قومیں ان میں آباد ہیں۔ مثلاً: بلقان آٹھ آزاد ریاستوں میں بٹا ہواہے۔ اسی طرح اسپین اور پرتگال دو الگ الگ اور خودمختار ملک ہیں حالانکہ یہ دونوں ایک ہی جزیرہ نما میں واقعہ ہیں۔
ہندوستان میں ایک متحد قوم کا فلسفہ نہایت بودا ہے کیونکہ اس قسم کی کسی قوم کا سرے سے یہاں وجود ہی نہیں۔ اسی طرح ایک ملک کا نظریہ بھی غلط ہے کیونکہ گزشتہ بارہ سو سالوں میں ہندوستان کو ایک ملک کی حیثیت کبھی حاصل نہیں رہی بلکہ یہ ملک ہمیشہ مسلم ہندوستان اورہندو ہندوستان میں بٹا رہا ہے۔ ہندوستان کی جو وحدت آج قائم ہے وہ بالکل مصنوعی ہے اور برطانوی حکومت کی سنگینوں کے سہارے قائم ہے۔ جیسے ہی برطانوی اقتدار ختم ہوجائے گا اس مصنوعی وحدت کا بھی خاتمہ ہوجائے گا اور پھر اس ملک میں ایسی تباہی آئے گی، جس کی نظیر گزشتہ ایک ہزار سال کی تاریخ میں بھی نہیں ملے گی۔
یہ پروپیگنڈہ عام ہے کہ برصغیر میں مسلمان اقلیت میں ہیں حالانکہ یہ خیال غلط ہے۔ نقشہ پر نظر ڈالنے سے آج بھی صاف طورپر معلوم ہوتاہے کہ برطانوی ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے چار صوبے ایسے ہیں جن میں مسلمان غالب اکثریت میں ہیں اور یہ صوبے کانگرس کی حکم برداری سے آزاد ہیں۔
ایمانداری کا تقاضا ہے اور کروڑوںمسلمانوں کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ اس مسئلے کاکوئی ایسا حل تلاش کیاجائے جو آبرو مندانہ ہو اورجس کے تحت سب کے ساتھ انصاف ہوسکے۔ میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہم کسی کے رعب کی وجہ سے اپنے مؤقف سے نہیں ہٹیں گے۔ ہم اپنا نصب العین متعین کرچکے ہیں اور ہم اس کے حصول کے لیے ہر قسم کی قربانی دیں گے۔ کوئی نصب العین حاصل کرنا آسان نہیں۔ آزادی حاصل کرنے کے لیے صرف دلائل کافی نہیں ہوتے۔ پس میں مسلمان دانشوروں سے اپیل کرتا ہوں کہ قربانی کاجذبہ لے کرمیدان میں گامزن ہوجائیں، عوام تک پہنچیں، عام مسلمان بیدار ہیں، ان کو اقتصادی، سماجی، سیاسی اور تعلیمی اعتبار سے منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسا ہوگا تو مسلمان ایسی طاقت بن جائیں گے جن کا سب کو احترام کرنا پڑے گا۔‘‘
قرار داد لاہور
قائداعظم کے خطبۂ صدارت کے بعد مولوی فضل الحق نے درج ذیل قرار داد پیش کی:
’’جغرافیائی لحاظ سے متصل وحدتوں کی اس طرح حد بندی کی جائے اور ایسا تغیر و تبدل کیا جائے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں جہاں مسلمان اکثریت سے ہیں، خودمختار ریاستیں قائم ہوجائیں اور ان میں ہر وحدت آزاد اور خود مختار ہو۔
ان وحدتوں میں آباد اقلیتی فرقوں کے مذہبی، ثقافتی، سیاسی، انتظامی اور دوسرے معاملات کے تحفظ کے لیے ان کے مشورے سے دستور میں تسلی بخش اور کافی انتظامات کیے جائیں۔ اس طرح ہندوستان کے جن خطوںمیں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں دستور میں ان کے اور دوسری اقلیتوں کے مشورے سے ایسے انتظامات کیے جائیں جس سے ان کے مذہبی، ثقافتی، معاشی اور سیاسی نیز دوسرے مفادات کا تحفظ ہوسکے۔‘‘
- 23 مارچ 1940ء کے کھلے اجلاس میں شیر بنگال مولوی فضل الحق کے قرار داد پیش کرنے کے بعد چوہدری خلیق الزمان، مولانا ظفر علی خان، سردار اورنگ زیب خان اور سر عبداللہ ہارون نے اس قرار داد کی تائید میں تقریریں کیں۔ ان تقریروں میں عام طور پر اس آزاد اسلامی مملکت کے لیے کوئی نام استعمال نہیں کیا گیا، جس مقرر نے اس قرار داد کی تائید میں تقریر کی، اس نے اسے تقسیمِ ہند کی قرار داد ہی کہا۔ البتہ بیگم جوہر نے اپنی تقریر میں اسے پاکستان کا ریزولیوشن کہا اور وہ بھی اس وجہ سے کہ چوہدری رحمت علی کی کوشش اور سعی سے یہ لفظ مشہور ہوچکا تھا۔ پھر ہندوئوں نے طعن و طنز کے طور پر اس نام کوایسا اچھالا کہ زبان زدِ عام ہوگیا۔
اس قرار داد کو نہایت جوش و خروش اور تالیوں کی گونج میں نعرہ تکبیر کی پر اثر صدا میں اتفاق رائے منظور کرلیا گیا۔ قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری جناب ایچ مطلوب سید کا بیان ہے کہ قرار داد کی منظوری کے بعد قائداعظم نے فرمایا:
’’آج اقبال ہمارے درمیان موجود نہیں، اگر وہ زندہ ہوتے تویہ دیکھ کر خوش ہوتے کہ ہم نے ان کی آرزو پوری کردی۔‘‘
قرار دادِ پاکستان کے بعد کانگرس کا ردعمل
پاکستان کی مستقبل کی سکیم کے بارے میں ہندو کانگرس اور اس کے تمام نیتا شب و روز اس پروپیگنڈے میں مصروف تھے کہ یہ ایک دیوانے کا خواب ہے اور ایک ناقابل عمل سکیم ہے۔ اس پروپیگنڈے کے جواب میں قائداعظم نے دو ٹوک کہا کہ وہ کانگرس کے مطالبات یا اس کے سیاسی تقاضوں کے سامنے کبھی اپنا سر نہیں جھکائیں گے اور وہ ہندو راج کے قدموں کے نیچے غلامی کی زندگی کسی صورت میں بسر نہیں کریں گے۔ ہندوستان میں مسلمان اپنے لیے بہر صورت ایک خطہ زمین آزاد مسلم ریاست کے قیام کے لیے ضرور حاصل کریں گے۔
قرار داد لاہور کے پاس ہوجانے کے بعد اب ہر طرف سے اور خاص طور پر کانگرس کی طرف سے مطالبہ ہونے لگا کہ پاکستان کی وضاحت کیجئے، اس کی حد بندی کیجئے، اس کی تعریف کیجئے، بتایئے اس کے حدود اربعہ کیا ہوں گے؟ بیورلی نکلسن اپنی کتاب ’’مشاہدہ ہند‘‘ میں مسٹر جناح سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتاہے:
’’میں نے مسٹر جناح سے کہا کہ معترضین کا سب سے بڑا اور اہم اعتراض آپ پر وارد ہوتا ہے کہ آپ نے اب تک پاکستان کی کوئی وضاحت اور تعریف نہیں کی، کیا آپ اس اعتراض کو موزوں اورمناسب نہیں سمجھتے؟
اس پر مسٹر جناح نے جواب دیتے ہوئے کہا:
’’یہ اعتراض نہ تو موزوں ہے اورنہ مناسب ہے۔ یہ نہ تو فہمِ سیاسی کا کوئی اچھا نمونہ ہے، بالخصوص اس وقت جب یہ اعتراض کوئی انگریز کر رہا ہو۔ آئرلینڈ کی علیحدگی انگلستان سے عمل میں آئی تو تقسیم کا شرائط نامہ صرف دس سطروں پر مشتمل تھا۔ صرف دس سطریں ایک ایسے گنجلک اورالجھے ہوئے مسئلہ کے لیے جس نے صدیوں سے برطانوی سیاست کو تلخ اور ناگوار بنا رکھا تھا۔ اس کی جملہ تفصیلات مستقبل کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اکثر و بیشتر مستقبل ثالث ثابت ہوا کرتا ہے۔ اس کے برعکس میں نے تو دس سطروں سے زیادہ مواد پاکستان کی ہئیت ترکیبی اور اس کے اجزاء و عناصر ساری دنیا کے سامنے پیش کردیئے ہیں۔ آپ اسے بھی پیش نظر رکھئے کہ ہندوستان کی تاریخ میں یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ کوئی تفصیلی دستاویز قطعاً غیر ضروری اور بے نتیجہ ہے۔ گول میز کانفرنس میں جب برماکی ہندوستان سے علیحدگی کا مسئلہ طے ہوا تھا تو کیا کوئی دستاویز مرتب کی گئی تھی؟ ہے کوئی دستاویز جب سندھ کی بمبئی سے علیحدگی عمل میں آئی تھی؟ جواب قطعاً نفی میں ہے۔ ایسی دستاویز کی مطلق ضرورت نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ پہلے علیحدگی کا اصول تسلیم کرلیا جائے، تفصیلات خود بخود طے ہوتی رہیں گی۔ بغیر اصول کو تسلیم کرائے ہوئے تفصیلات کا خاکہ بحث و گفتگو کے لیے پیش کرنا اختلاف و افتراق کا ایک نیا دروازہ کھول دے گا۔ تقسیم کا اصول مان لیجئے، پھر آیئے بیٹھیں اور تفصیلات طے کرلیں۔ ‘‘
خلاصۂ کلام
مسلمانوں اورمسلم لیگ کے دشمنوں کی خواہش تھی کہ وہ قرار داد پاکستان کے اجلاس کو مختلف بیانوں سے جذبات کی رومیں بہاکر لے جائیں گے لیکن قائداعظم محمد علی جناح نے ان تمام تخریبی اورجذباتی حربوں کا بڑے ٹھنڈے دل و دماغ اور قانون کی منطق کے سہارے مقابلہ کیا اور ان کے ہر وار کو ناکام بنادیا۔مسلم لیگ کا اجلاس بسلسلہ قرار داد لاہور یا قرار داد پاکستان شاندارکامیابی سے ہمکنار ہوکر اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ اس اجلاس کی تمام کارروائیاں انتہائی سنجیدگی کے ماحول میں اپنے ارتقائی عمل کی جانب گامزن رہیں۔ جس میں جذبات خاص طور پر مسلمانوں کے جذبات کے اتار چڑھائو کا ایک عظیم امتحان تھا۔ مسلمان اس امتحان سے بخیر و خوبی گزر گئے اور آئندہ کے لیے ایک لائحہ عمل بھی مرتب کرنے میں کامیاب ہوگئے جس پر ان کے آئندہ آزاد اور خود مختار مستقبل کا دارومدار تھا۔
لاہور میں جب مسلمانوں کا خون کھول رہا تھا تو اس وقت قائداعظم جذبات سے بالاتر ہوکر مستقبل کی راہوں کے نشیب و فراز سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی فراست اور قانونی منطق کے ذریعہ جذبات کے طوفانوں کا مقابلہ کیا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ وہ لمحات برصغیر کی تاریخ میں انتہائی خطرناک لمحات تھے کیونکہ لاہور کی خاک پر تیس مسلمانوں کی لاشیں خون میں تڑپ اٹھی تھیں۔ یہ کوئی بچوںکا کھیل نہیں تھا کہ مسلمانوں کے جذبات کو قابومیں رکھا جائے۔ یہ قائد کی فہم و فراست کا ایک امتحان تھا۔ اگر ایسی صورت میں لاہور جیسے شہر میں امن و امان کی صورت پیدا ہوجاتی تو قرار داد لاہور کا اجلاس ضرور ملتوی کرنا پڑتا۔ قائداعظم نے فرمایا کہ ’’ایسے خطرناک لمحات کے لیے مجھے کسی دیو کے پائوں اور فرشتے کی آواز کی ضرورت تھی جو کہ عوام کے جذبات کے ابلتے ہوئے سمندر کو قابو میں رکھ سکے۔‘‘ لہذا اس لمحہ واقعی قائداعظم نے فرشتوں کی زبان اور آواز میں مسلمانوں کے اس بلا خیز سیلاب کو مخاطب کیا۔ پھر قائداعظم کی حکمت کی وجہ سے اس سیلاب نے اپنی تمام جذباتی لہریں اس اہم وقت کے سمندر میں خاموش کردیں تاکہ مسلم قائدین مسلمانوں کے عظیم مستقبل کے لیے اپنی پوری صلاحیتوں وہ اہم فیصلہ کرسکیں جس فیصلے پر مسلمانوں کے آئندہ مستقبل کا دارو مدار تھا۔
(ماخوذ از: قیامِ پاکستان کا مقدمہ تاریخ کی عدالت میں)