عصرِ حاضر میں اخلاقی انحطاط نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں زہر گھول دیا ہے جس کے سبب زندگی بوجھل و دشوار تر بنتی چلی جارہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے۔۔۔؟ وہ کون سی تدابیر ہیں جنہیں اختیار کر کے اخلاقی انحطاط کے اس جن کو بوتل میں بند کیا جاسکتا ہےاور بے سکونی بے چینی اور اضطراب کی آگ میں جلتی ہوئی زیست کو امن و امان اور سکون و اطمینان سے ہم کنار کیا جاسکتا ہے۔۔۔؟ اس مسئلہ کے بہت سے حل ہیں مگر سب سے بنیادی اور اہمیت کا حامل حل ’’ذکرِ الہٰی اور صحبتِ صالحہ‘‘ کی صورت میں موجود ہے جو برائی سے بچانے اور نیکی کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ذیل میں قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں اخلاقی انحطاط کے تدارک میں ’’ذکرِ الہٰی اور صحبتِ صالحہ‘‘ کی اہمیت کو واضح کیا جارہا ہے:
1۔ ذکرِ الہٰی
ذکر دین کی ایک وسیع اصطلاح ہے جس کے لغوی معنی یاد کرنا، نصیحت اور یاد دھانی وغیرہ کے ہیں۔ تاہم اس کے مفہوم میں اس قدر وسعت پائی جاتی ہے کہ قرآنِ مجید کے بقول خود قرآن بھی ذکر ہے، رسول بھی ذکر ہے اور نماز بھی ذکر ہی کی ایک صورت ہے۔ مگر عام طور پر جب ذکر کا لفظ بولا جاتا ہے تو ا س سے مراد اللہ کو یاد کرنا ہوتا ہے خواہ زبان سے ہو یا دل و دماغ سے۔ اسلام کی فہرستِ عبادات میں ذکر کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے بلکہ اسے دیگر عبادات کی روح بھی کہا جا سکتا ہے۔
یو ں تو ذکر ہر عبادت کا حصہ ہے تاہم عمومی ذکر اور دیگر عبادات میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ دیگر عبادات میں بالعموم وقت، جگہ، ہیئت وغیرہ میں سے کوئی نہ کوئی پابندی ملحوظِ خاطر رکھنا ہوتی ہے جب کہ ذکر کے سلسلے میں اس طرح کی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی بلکہ اسے کھلا چھوڑدیا گیا کہ اللہ کے بندے اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، چلتے پھرتے اور کھاتے پیتے ہر حال میں جب اور جیسے چاہیں اللہ کا ذکر کرتے رہیں تاکہ انسان کو اللہ کی ذات اور اُس کی عظمت و رفعت کا استخصار رہے اور اُس کے مقابلے میں اپنی حیثیت بھی یاد رہے کہ وہ کیا ہے اور اُس کی ذمہ داری کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ بھولنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ گویا انسان بھولنے والے فعل سے بچ نہیں سکتا لیکن اگر وہ یہ بھی بھول جائے کہ اللہ اُس کا خالق و مالک اور اُس کا آقا ہے اور اُس کے مقابلے میں وہ اُس کا حقیر اور ذلیل بندہ ہے تو اُس کی دنیا و آخرت دونوں ہی برباد ہو جائیں گی، اس لیے ذکر کرتے رہنے کا حکم دیا گیا۔
(1) ذکر اور اصلاحِ قلب
انسان کی شخصیت میں دل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اسے جسم کی سلطنت کا بادشاہ کہا جا سکتا ہے، تمام اعضاء و جوارح دل کے تابع ہیں۔جتنی بھی حرکات و سکنات اور اعمال و افعال انسان سے سرزد ہوتے ہیں وہ سب دل کی اندرونی حالت کے آئینہ دار ہو تے ہیں۔جیسا دل کا حال ہو گا ویسے ہی اعمال و افعال ہوں گے۔ حضور علیہ السلام نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
الآ ان فی الجسد المضعۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ و اذا فسدت فسد الجسد کلہ الاوھی القلب.
(ملا علی، قاری، مرقاۃ المفاتیح، 9: 75)
’’آگاہ ہو جاؤ، انسانی جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ جب یہ سنور جائے تو پورا جسم سنور جاتا ہے اور جب یہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے ۔ جان لو کہ یہ دل ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہو ا کہ انسان بیرونی دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ اندرونی دنیا کا عکس ہوتا ہے۔ لہٰذااگر انسان کے ظاہری اخلاق کو درست کرنا ہے تو اُس کے لیے اُس کی قلبی حالت کو درست کرنا ہوگا۔ دل کی بیماریو ں کی دوا ذکرہے:
إن هذه القلوب تصدأ كما يصدأ الحديد. قيل يا رسول اللهﷺ فما جلاؤها؟ قال ذكر الموت وتلاوة القرآن.
(مسند الشهاب، 2: 198، رقم: 1178)
’’بے شک دلوں کو بھی اُسی طرح زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے۔ پوچھا گیا کہ اس کی صفائی کا ذریعہ کیا ہے؟ فرمایا موت کو یاد رکھنا اور قرآن کی تلاوت۔‘‘
یہاں بتایا جا رہا ہے کہ مختلف عوامل کی بنا پر دل زنگ آلودہ ہو جاتا ہے اُس میں میل کچیل اور گدلا پن آجاتا ہے، جس کی بنا پر صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے۔ دل کے اس زنگ کو دور کر کے اسے اپنی فطری حالت میں لانے کیلئے مجرب نسخہ اللہ کا ذکر ہے۔
ایک اور مقام پر حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
إن لكل شيء صقالة وصقاله القلب ذكر الله تعالى.
(كنز العمال، 1: 214، رقم: 1777)
’’بے شک ہر چیز کے لیے ایک ریگ مار (صفائی کا ذریعہ) ہوتا ہے اور دل کا ریگ مار اللہ کا ذکر ہے۔‘‘
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ انسان کتنی ہی احتیاط کر لے پھر بھی کچھ نہ کچھ ایسے معاملات ہو تے ہیں جن کی بنا پر دل نے کسی نہ کسی درجے میں زنگ آلودہ ہو جا نا ہوتا ہے۔ لہٰذا ذکر کے ذریعے آئینہ دل پر پڑی ہوئی گردو غبار کو ساتھ ہی ساتھ صاف کرنے کا اہتمام کیا جانا بہت ضروری ہے۔ دل بیمار ہو یا صحت مند دونوں صورتوں میں ذکر ضروری ہے۔ فرق یہ ہے کہ جب دل روحانی بیماریوں کا شکار اور زنگ آلودہ ہوتا ہے تو ذکر کی حیثیت دوا کی ہوتی ہے۔ جس کے ذریعے دل کی صفائی ہوتی ہے۔ پھر جب مسلسل اور متواتر محنت سے دل صاف ہو جاتا ہے تو یہی ذکر دل کی غذا بن جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ روز بہ روز اللہ تعالیٰ کی محبت اور قرب کی کیفیات میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ گویا ابتداء میں ذکر ایک تلخ دوائی کی طرح ہوتا ہے جس کی طرف طبیعت راغب نہیں ہوتی، لیکن اگر طبیعت پر جبر کر کے کسی قاعدے اور ضابطے کے تحت ذکر کی پابندی کی جائے تو رفتہ رفتہ یہی ذکر ایک صحت مند نشے کی صورت اختیار کر لیتا ہے جس سے طبیعت کو تسکین ملتی ہے۔
(2) کثر تِ ذکركی حکمت
ذکر کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو فقط ذکر کا حکم نہیں دیا بلکہ کثرتِ ذکر کا حکم دیا ہے:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللهُ ذِکْرًا کَثِیْرًا. وَّسَبِّحُوْهُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا.
(الاحزاب، 33: 41، 42)
’’اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو اور صبح و شام اسکی تسبیح کیا کرو۔‘‘
اس کثرت ذکر سے کیا مراد ہے؟ اس کی مقدار کتنی ہونی چاہیے؟ اس کی طرف اشارہ بعض دوسرے مقامات پر ملتا ہے:
وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ.
(الکہف، 18: 24)
’’اور اپنے رب کا ذکر کیا کریں جب آپ بھول جائیں۔‘‘
سورہ آل عمران (191) میں ارشاد فرمایا:
الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللهُ قِیٰـمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ.
’’ یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
رِجَالٌ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللهِ.
(النور، 24: 37)
’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے۔‘‘
اِن آیات سے آشکا ر ہورہا ہے کہ ایک بندہ مومن کو ہر وقت اور ہر حال میں کسی نہ کسی رنگ میں ذکر میں مشغول رہنا چاہیے۔
احادیثِ مبارکہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ دنیوی زندگی کے اُمور کو سر انجام دیتے ہوئے اللہ کی یاد میں اپنے آپ کو مشغول رکھنا ایک پسندیدہ اور مطلوب کا م ہے:
كان النبيﷺ يذكر الله تعالى على كل احيانه.
(صحيح مسلم بشرح النووي، باب ذكر الله تعالى في حال الجنابة وغيرها، 4: 68)
’’نبی ﷺ ہر وقت ذکرِ الٰہی کی کیفیت میں رہتے تھے۔‘‘
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:
یارسول اللہ ﷺ! ان شرائع الاسلام قد كثرت علينا فمرنا بأمر جامع. قال لا يزال لسانك رطبا من ذكر الله.
(مقدسی، الأحاديث المختارة)
’’بے شک اسلام میں بہت سی باتیں ہیں، ہمیں کوئی ایک بات ایسی بتائیں جو سب کی جامع ہو ۔حضورﷺ نےفرمایا: تیری زبان ہر وقت اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہیے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن یسر رضی اللہ عنہ نےحضور ﷺ سے سوال کیا کہ کون سا عمل بہتر ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
أن تفارق الدنيا ولسانك رطب من ذكر الله عز وجل.
(مسند ابن الجعد، 1: 492، رقم: 3431)
’’تو دنیا اس حال میں چھوڑے کہ تیری زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو۔‘‘
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا کہ قیامت کے دن کس بندے کا درجہ اللہ کے ہاں بہت بلند ہو گا تو آپﷺ نے فرمایا:
الذاكرون الله كثيرا والذاكرات.
(جامع ترمذی، باب ما جاء في فضل الذكر، 5: 458، رقم: 3376)
’’اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور عورتیں۔‘‘
کثرت ذکر کے حکم میں راز یہ ہے کہ انسان کے د وبڑے دشمن نفس اور شیطان ہیں جو ہر وقت خوا طروو ساوس کے ذریعے انسان کی فکر کو پراگندہ کرتے رہتے ہیں۔ ذکر کے ذریعے نفس کا بھی تزکیہ ہو تا ہے اور شیطان کے حملو ں کے مقابلے میں بھی یہ ایک زبردست ہتھیار ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰۤئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَ.
(الاعراف، 7: 201)
’’بے شک جن لوگوں نے پرہیزگاری اختیار کی ہے، جب انہیں شیطان کی طرف سے کوئی خیال بھی چھو لیتا ہے (تو وہ اللہ کے امر و نہی اور شیطان کے دجل و عداوت کو) یاد کرنے لگتے ہیں سو اسی وقت ان کی (بصیرت کی) آنکھیں کھل جاتی ہیں۔‘‘
یہی بات ایک حدیث مبارک میں یوں فرمائی گئی ہے:
الشيطان جاثم على قلب بن آدم فاذا سها وغفل وسوس وإذا ذكر الله خنس.
(مصنف ابن ابی شیبة، 7: 135، رقم: 34774)
’’شیطان انسان کے دل کے ساتھ چمٹا رہتا ہے۔ پس جب انسان اللہ کی یا دسے غافل ہوتا ہےتو وہ وسوسہ ڈالتا ہے اور جب بندہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔‘‘
ان نصوص سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے، اُس کے حملوں سے بچاؤکے لیے بندے کے پاس سب سے مؤثر ہتھیار ذکر ہی ہے ۔ جو نہی انسان اس سے غافل ہوتا ہے شیطان کو وار کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ چنانچہ شیطان کی پوری کوشش ہو تی ہے کہ انسان ذکرسے غافل رہے۔ لہٰذا فکر کی پراگندگی کا علاج ذکر کی کثرت میں ہی ہے اور جب تک ذکر کثرت سے نہیں کیا جا تا، نہ انسان کی فکر پاکیزہ ہو سکتی ہے اور نہ ہی دل کی بیماریوں سے مکمل شفایابی مل سکتی ہے۔
اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک ڈاکٹر جب مریض کے لیے نسخہ تجویز کرتا ہے تو وہ دوا کی مقدار بھی بتاتا ہے۔ اب اگر مریض اپنی مرضی سے مقدار میں بہت زیادہ کمی کر لے تو اُس کا صحت یاب ہونا بہت مشکل ہے ۔یہی معاملہ یہاں ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ ذکر صرف وہی نہیں جو زبان سے کیا جاتا ہے بلکہ دل اور سانس کے ذریعے بھی کیا جاتاہے۔ نیز ہر وہ کام جو اللہ کی اطاعت میں بجا لایا جائے تو وہ بھی ذکر میں ہی شمار کیا جاتا ہے۔
(3) ذکر بطورِ معالجہ امراضِ نفس
اسلام میں تزکیہ نفس کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اسے نبوت کے بنیادی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ قرار دیا گیا ہے۔تمام عبادات کا مقصد بھی تزکیہ نفس کا حصول ہے۔ تزکیہ نفس کا مطلب ہے نفس کا ہر قسم کی آلائشوں، آلودگیوں اور معصیتوں سے پاک ہو کر اللہ کی بندگی اور اطاعت پر کار بند ہو جانا۔دیکھنا یہ ہے کہ ذکر اس حوالے سے کیا کردار ادا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بندگی اور اطاعت میں کوتاہی کی مندرجہ ذیل دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
(ا) اعمالِ شریعت بجا لانے میں کوتاہی اور کمی جسے معصیت اور گناہ کہتے ہیں۔
(ب) اعمال کو کماحقہ یا اُن کی بہترین شکل میں انجام نہ دے پانا جسے عدمِ احسان کی حالت کہا جاتا ہے۔
اگر مذکورہ بالا دونوں حالتوں پر غور کیا جائے تو ان کا بڑا سبب ایک ہی دکھائی دیتا ہے اور وہ غفلت ہے ۔ اگر ایک مسلمان کو ہر وقت یہ بات یاد رہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے اور اُسے اپنے آقا اور مالک کا ہر حکم ماننا ہے ۔ نیزاُس کا آقا اُسے ہر وقت دیکھ رہا ہے، نافرمانی کا نتیجہ سخت سزا ہے جس پر وہ آقا ہر وقت قادر ہے تو اُس کی زمین میں رہتے ہوئے، اُس کے دیے ہوئے اعضاء کو استعمال کرتے ہوئے اور اُس کے خوف سے لاپر واہ ہو کر وہ کیسے اُس کی حکم عدولی کر سکتا ہے۔۔۔؟
اسی طرح اگر ایک مسلمان کو یہ نکتہ بخوبی مستحضر رہے کہ اللہ کے جس حکم پر بھی وہ عمل کر رہا ہے، اللہ اُسے دیکھ رہا ہے اور اس عمل کو بہتر ین طریقے سے انجام دینے کا نتیجہ اللہ کی رضا اور خوشنودی ہے تو وہ کیسے اس عمل کو غیر سنجیدگی اور لاپرواہی سے انجام دے سکتا ہے۔۔۔؟اور ان اعلیٰ مراتب سے محرومی کا خدشہ کیسے گوارا کر سکتا ہے جن کا وہ بہت حریص ہے؟
گویا غفلت کا نتیجہ معصیت ہے اور غفلت ہی کا نتیجہ مرتبۂ احسان کا عدمِ حصول ہے۔ غفلت کے اس مہلک مرض کا علاج ’’یاد کرنا‘‘ اور ’’یاد رکھنا‘‘ ہے۔ ہر وقت اللہ کے مقابلے میں اپنی حیثیت کو یاد رکھنا ۔ اس یاد کرنے اور رکھنے کو عربی میں ذکر کہتے ہیں۔گویا معصیت ترک کرنے کا نسخہ ذکر ہے اور حصولِ درجہ احسان کا ذریعہ بھی ذکر ہے۔ بالفاظِ دیگر اگر کوئی شخص اخلاقی امراض سے نجات پانا چاہتا ہے تو اُس کے لیے بھی کثرتِ ذکر ایک کار گر نسخہ ہے اور اگر کوئی ایمان کے درجات میں ترقی کر کے مراتبِ عالیہ کو حاصل کر نا چاہتا ہے تو اس کے لیے بھی ذکر ِ کثیر کی حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔
(4) ذکر کی سائنسی توجیہ
کثرتِ ذکر کس طرح آدمی کو اخلاقِ رذیلہ سے نجات دلا کر اخلاقِ حسنہ کا خوگر بناتا ہے۔۔۔؟ اس کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ جاننا ہو گا کہ ہماری ذات سے اعمال کس طرح صادر ہوتے ہیں؟
1۔ سب سے پہلے ہمارے ذہن میں خیالات پیدا ہوتے ہیں۔اُن خیالات کی پیدائش پر ہماراکوئی کنٹرول نہیں۔ ایک لمحے میں سیکڑوں ہزاروں خیالات پیدا ہوتے ہیں اور قوت متخیلہ ایک سیکنڈ کے بھی بہت تھوڑے حصے میں لاکھوں میل کا فاصلہ طے کر لیتی ہے۔ انسانی خیالات و تصوارت (Imaginations) کی کوئی حد اور حساب نہیں ہے۔ ان کی حیثیت ایک سٹور کی طرح ہے جس میں مختلف چیزیں بھر ی ہوئی ہوں۔ خود قرآنِ مجید کے بقول انسان میں اچھے اور برے دونوں طرح کے میلانات رکھے گئے ہیں۔ کچھ چیزیں وہ غیر شعوری طور پر وراثت سے پاتا ہے، کچھ چیزیں ابتدائی عمر میں اُس کے والدین اور معاشرہ کی طرف سے منتقل ہوتی ہیں جب اُس کی عقل میں پختگی نہیں ہوتی اور وہ یہ فیصلہ کر نے کے قابل نہیں ہوتا کہ چیزوں کی ماہیت کیا ہے اور اچھائی و برائی میں امتیاز کیسے کرنا ہے؟ پھر بالغ اور باشعور ہونے کے بعد بھی وہ بہت سی چیزی اپنی مرضی سے کرتا، کہتا اور سوچتا ہے اور بہت سے معاملات اُس کی مرضی کے بغیرہی اُس کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں۔ مثلاً: مختلف حادثات، سانحات تلخ و شیریں تجربات وغیرہ۔
2۔ پھر ان سب سے متعلقہ خیالات ذہن کے کسی حصے میں منظم ہونا شروع ہو تے ہیں، اُن کے مختلف اُسلوب اور سانچے بننا شروع ہوتے ہیں اور زندگی کے مختلف حقائق کے بارے میں ایک مرتب رائے بننے کا عمل شروع ہوتا ہے۔
3۔ بعد ازاں طرح طرح کی سوچوں کے درمیان اور مختلف عوامل کے تحت انسان کی سوچ پختہ اور منظم ہو جاتی ہے اور کچھ خیالات عقائد کا روپ دھار لیتے ہیں ۔
4۔ پھر یہ عقائد یا پختہ سوچ نیت اور ارادے کو جنم دیتے ہیں۔
5۔ پھر اس ارادے میں عزم پیدا ہوتا ہے تو یہ اعضاء کو حرکت میں لاتا ہے اور یوں عمل وجود میں آتا ہے۔
6۔ اعمال کی تکرار عادات کو جنم دیتی ہے اورپھر اچھی یا بری جیسی بھی عادات پختہ ہو جاتی ہیں، ویسی ہی شخصیت وجود میں آتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سارے عمل میں ذکر کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟ ذکر سے مراد ہے بعض تصورات کی مسلسل تکرار ۔ مذکورہ گفتگو کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے کہ ان تصوارت کی تکرار سے کیا نتیجہ نکلے گا۔جو آدمی جس تصور کی تکرار زیادہ کرے گا، وہ تصور پختہ ہوتا جائے گااور اگر اُس کی تکرار جاری رہے گی تو وہ آہستہ آہستہ نیت، اراد ے اور عزم کے مرحلے کو طے کر کے عمل کی شکل اختیار کر لے گااور پھر تکرار کے مزید جاری رہنے پر عمل کی پختگی عادا ت میں بدل جائے گی اور انسانی شخصیت انہی تصورات کے عین مطابق بن جائے گی جن کا تکرار تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ لیکن اس میں اہم شرط یہ ہے کہ جو بھی ذکر کیا جائے وہ پوری توجہ، انہماک اور یکسوئی سے کیا جائے۔ جس ذکر میں یہ چیزیں نہ ہوں اور دل و دماغ منتشر ہوں تو اس کے مطلوبہ نتائج ملنے بہت مشکل ہو تے ہیں۔
2۔ صحبتِ صالحہ
اخلاقی انحطاط کے تدارک میں ذکر کے ساتھ ساتھ صحبتِ صالحہ کا بھی اہم کردار ہے۔ صحبتِ صالحہ کا عمومی اور وسیع تصور یہ ہے کہ نیک اور اچھے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھا جائے۔۔۔ دوست اچھے بنائے جائیں۔۔۔ بُرے لوگوں کی مصاحبت اور ہم نشینی سے سے گریز کیا جائے۔۔۔ اکابر صوفیاء میں سے بھی بعض نے صحبت کے اس وسیع تر مفہوم کو لیا ہے ۔مثلاً: حضرت علی ہجویریؒ نے کشف المحجوب میں صحبت کو معاشرت کے وسیع تر معنوں میں لیا ہے اور چھوٹوں اور بڑوں کے آداب، سفر کے آداب وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ امام قشیریؒ نے بھی صحبت کو عمومی معنوں میں لیا ہے اور اس کے تین درجے بتائے ہیں: اپنے سے اُونچے درجے والے کی صحبت، اپنے سے کم درجے والے کی صحبت اور ہم پلہ لوگوں کی صحبت ۔ حضرت شہاب الدین سہروردیؒ نے بھی صحبت کے وسیع تر معانی کو اختیار کیا ہے اور وہ صحبت کو عمومی ہم نشینی اور عام میل جول کے مفہوم میں لیتے ہیں۔
انسانی زندگی میں بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں لیکن انسان اُنہیں سرسری انداز میں لیتے ہوئے نظر انداز کر تا چلا جاتا ہے۔ اُن میں سے ایک صحبت ہے۔ انسانی شخصیت کو سنوارنے اور بگاڑنے میں صحبت کے اثرات مسلّمہ ہیں اور ان کا ازالہ ممکن نہیں۔ اچھی صحبت میں رہنے سے لازماََانسان کی شخصیت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بُری صحبت کے بُرے اثرات بھی یقینی ہیں۔ صحبت کے ان قطعی اثرات کی بنا پر قرآن و حدیث میں جا بجا اچھی صحبت کو اپنا نے اور بری صحبت سے اجتناب کرنے کی تلقین آئی ہے۔ ارشاد فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهُ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ.
(التوبہ، 9: 119)
’’ اے ایمان والو! الله سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔‘‘
(1) صحبت بذریعہ حواسِ خمسہ
ذکر کی صورت میں الفاظ کی طاقت خیالات کو متاثر کرتی ہے لیکن اب اگلی بات یہ ہے کہ خیالات الفاظ کے بغیر بھی حواس کے ذریعے متاثر ہوتے ہیں مثلاً:
دیکھنے سے : ایک باپ بولے بغیر بھی اگر بیٹے کو اُس کی کسی غلط حرکت پر غضب ناک آنکھوں سے گھورے یا ایک محب محبوب کو پیار بھری نظروں سے دیکھے تو ان سب صورتوں میں لفظ کے بغیر بھی خیالات متاثر ہو جائیں گے۔
چھونے سے: ایک اُستاد اگر شاگرد کو غصے سے پکڑ کر جھنجھوڑے تو بھی شاگرد کے خیالات متاثر ہوتے ہیں۔
سننے سے: اگر کسی کے سامنے کوئی اچانک چیخنے لگے یا اُس کے سامنے راگ چھیڑدیے جائیں تو آدمی متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
سونگھنے سے: اگر ایک شخص کسی باغ میں گلاب کی کیاریوں کے پاس جا بیٹھے یا کسی انتہائی بدبو دار جگہ سے اُسے گزرنا پڑے تو دونوں صورتوں میں اُس کے خیالات متاثر ہوں گے۔
چکھنے سے: کسی شخص کو خوش ذائقہ اور خوشبودار مشروب پینے کو دیا جائے یا کڑوی کسیلی دوا پینے کو دی جائے تو دونوں صورتوں میں وہ اُس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اُوپر بیان کردہ پانچو ں اقسام کی مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کے خیالا ت الفاظ کے استعمال کیے بغیرمحض حواسِ خمسہ سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ گویا الفاظ او ر زبان ہی اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ ہمارامشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے ہاتھ بھی بولتے ہیں۔ مثلاً: نابینا افراد کے لیے چھو کر پڑھنے کا طریقہ ’’بریل‘‘ اب دنیا بھر میں مروج ہے۔ ہماری آنکھیں بھی بولتی ہیں۔نظر لگنا ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ بھی ہے اور صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
العين حق.
(بخاری، كتاب الطب، باب العين حق، رقم: 5408، 5: 2167)
’’نظر (بد) لگنا حق ہے۔‘‘
قرآن مجید میں ہے کہ آخرت میں تو ہمارے اکثر اعضاء بولیں گے:
یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَاَیْدِیْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.
(النور، 24: 24)
’’جس دن (خود) ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں انہی کے خلاف گواہی دیں گے کہ جو کچھ وہ کرتے رہے تھے۔‘‘
اس سے اگلی بات یہ ہے کہ الفاظ اور حواس کے بغیر بھی ایک انسان کے خیالات کی قوت دوسرے انسان کے خیالات کو متاثر کرتی ہے۔ یہ کوئی تصوراتی یا جادوئی بات نہیں بلکہ ہمارے مشاہدے اور تجربے کی بات بھی ہے اور سائنسی انکشافات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ آج کی میڈیکل سائنس یہ کہتی ہے کہ ہمارے بے شمار جسمانی امراض کا سبب ہمارے ذہنی رویے ہیں اور نا مور مسلم طبیب ابن سینا کے نزدیک طبیب کے تصور ات و خیالات بھی مریض کے علاج اور شفایابی پر اثرا نداز ہوتے ہیں۔
(2) صحبت بذریعہ مزاج و خیالات میں ہم آہنگی
یہ بھی ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ حواسِ خمسہ کے استعمال کے بغیر بھی اگر دو افراد کے درمیان مزاج و خیالات میں ہم آہنگی ہو یا خیالات میں شدت ہو تو خیالات دوسرے شخص تک پہنچ جاتے ہیں کیونکہ خیالات لہروں کی صورت میں سفر کرتے ہیں۔ موجودہ سائنس نے ثابت کر دیاہے کہ فضاء میں ہر وقت ایتھر موجود ہوتا ہے ۔ ہمارے خیالات کی لہر یں ایتھر پر سوار ہو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہیں۔خود ہمارے کان اور آنکھ اسی طرح کام کرتے ہیں کہ آواز کی سمعی لہریں یا آنکھوں کی بصری لہریں سفر کر کے ہمارے کان یا آنکھ تک پہنچ جاتی ہیں اور کان اور آنکھ دونوں میں ایسے پیغام وصول کرنے والے آلے (Receiving Sets)موجود ہیں جو انہیں وصول کر لیتے ہیں ۔
ریڈیو اور ٹی وی بھی اسی اُصول پر کام کرتے ہیں جو آج اکثر و بیشتر ہر آدمی کے زیرِ مشاہدہ ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ریڈیو، ٹی وی کے لیے سمعی و بصری لہروں کو طاقت سے فضا میں منتشر کر دیا جاتا ہے، جہاں سے وہ ایتھر کے گھوڑے پر سوارہو کر ہر جگہ پہنچ جاتی ہیں۔ اب جس شخص کے گھر میں ان سمعی یا بصری لہروں کو وصول کرنے کا آلہ ہو، وہ ان لہروں کو سن یا دیکھ سکتا ہے۔ ایکسرے اور الٹراساؤند کی لہریں بھی اسی ا ُصول پر کام کرتی ہیں۔
اسی طرح اگر خیالات کی لہروں کو قوت سے پھیلایا جائے اور دوسری طرف ایسا شخص موجود ہو جو اُنہیں وصول کرنے کا مشتاق ہو یا اُس کے خیالات سے اس کی ہم آہنگی ہو تو وہ انہیں وصول کر سکتا ہے۔ اس طرح کا ابلاغ بھی ہماری روز مرہ کی زندگی میں موجود نظر آتا ہے۔ مثلاً: بیٹا اگر شدید زخمی ہو جائے یا مر جائے تو ماں بغیر کسی اطلاع کے بھی بے چین ہو جاتی ہے اور یہ بھی ہمارے روز مرہ تجربے کی بات ہے کہ ہم جس کو چاہیں تصور میں اپنے پاس بلا سکتے ہیں اور جس کو چاہیں تصور کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے شعراء نے بھی ان کیفیتوں کو بیان کیا ہے
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسر ا نہیں ہوتا
دل کے آیئنے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
پس انسانی اعمال و افعال خیالات کی پیدا وار ہوتے ہیں اور خیالات اکثر و بیشتر حواسِ خمسہ کے ذریعے وصول ہونے والی ان دیکھی لہروں کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں اور انہی کے ذریعے انہیں ارادی طور پر متاثر کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی قصہ کہانی یامحض فلسفیانہ بات نہیں بلکہ یہ وہ بات ہے جسے آج کی میڈیکل سائنس اور نیورو فیزیالوجی ثابت کرتی ہے۔
(3) صحبت کے اخلاق پر اثرات
قرآن وحدیث کی نصوص اور دیگر مذکورہ بالا تصریحات سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ شخصیت کی تعمیر و تخریب میں ’’صحبت‘‘ بھی انتہائی مؤثر عامل کی حیثیت رکھتی ہے جسے کسی بھی صور ت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اخلاقِ رذیلہ سے نجات پا کر اخلاقِ حسنہ پر کا کاربند ہونے کے خواہاں افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دوستیوں اور سنگتوں کا جائزہ لیں کہ وہ کس نوعیت کی ہیں ۔ پھر جو اچھی دکھائی دیں، اُنہیں برقرار رکھیں اور جو اس کے برعکس ہوں اُن سے حکمت و تدبر کے ساتھ کنارہ کشی اختیار کی جائے یا اُن میں کمی لائی جائے ۔
اس حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ صحبت کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(i) اختیاری: جو اپنے اختیار میں ہے۔ اس میں وہ تمام دوستیاں اور تعلقات شامل ہیں جنہیں انسان اپنی مرضی اور آزاد ارادے کے تحت منتخب کرتا ہے۔
(ii) غیراختیاری: جو اپنے اختیار میں نہیں۔ مثلاً: خونی رشتے بھائی، بہن، اولاد، دیگر عزیز و اقارب وغیرہ، نوکری، کاروبار اور دیگر سماجی کاموں کے سلسلے میں مختلف لوگوں سے ملنا جلتا۔
اس حوالے سے جو کانٹ چھانٹ کرنی ہے، وہ اول الذکر صحبت میں ہی ہے جبکہ جہاں تک موخرالذکر صحبت کا تعلق ہے وہاں انسان مجبور ہے۔ تاہم اس کو بھی جس حد تک ہو سکے، نظم و ضبط میں لایا جا سکتا ہے ۔ نیز اُن کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے حتی الوسع خاموشی سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ان ملاقاتوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کوبھی وقتاً فوقتاً بات چیت کے دوران شامل کرنا بھی ان کی نحوست کو کم کرتا ہے۔ نیز اچھی صحبتوں کے التزام اور پابندی سے ان کے منفی اثرات کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
خلاصۂ کلام
اخلاقی انحطاط کے تدارک کا ’’ذکرِ الہٰی اور صحبتِ صالحہ‘‘ کے ذریعے جو لائحہ عمل دیا گیا ہے، وہ ہر شخص کے لیے ہے خواہ وہ کسی بھی زمانے میں اور کسی بھی قسم کے حالات میں رہ رہا ہو۔ان اصولوں کا تعلق کسی مخصوص زمانے یا حالات سے نہیں ہے بلکہ یہ ایسی بنیادی سچائیاں اور ابدی قوانین ہیں جن کے نتائج حتمی اور یقینی ہیں۔ چنانچہ ہر وہ شخص جو اپنی بشری اور فطری کمزوریوں پر قابوپانا چاہتا ہو۔۔۔ اخلاقِ رذیلہ سے نجات پا کر اخلاقِ حسنہ سے خود کو آراستہ و پیراستہ کرنا چاہتا ہو۔۔ وہ حکمت و تدبر کے ساتھ ذکرِ الہٰی پر کاربند ہوکر اور صحبتِ صالحہ کو اختیار کرتے ہوئے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتا ہے ۔ جو لوگ زمانے کی ناہمواریوں میں چلتے ہوئے اپنے آپ کو راست روی پر قائم رکھنا چاہتے ہوں اور اندرونی و بیرونی رکاوٹوں پر قابو پا کر اخلاقی کمال کو پانا چاہتے ہوں تو اُن کے لیے یہ لائحہ عمل منزل تک پہنچنے کی ضمانت دیتا ہے۔