تحریک پاکستان میں علماء و مشائخ کا کردار تاریخ کا ایک ایسا سنہرا کردار ہے کہ اگر اِسے حذف کر دیا جائے تو آزادی کی تحریک بے رنگ نظر آئے گی۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ علمائے حق اگر بانی پاکستان کا دامے، درمے، سخنے ساتھ نہ دیتے تو آزادی کے لئے جمیع اُمت یکسو نہ ہوتی اور تحریک پاکستان کو جذبۂ ایثار سے لبریز اور پُرعزم افرادی قوت دستیاب نہ آتی۔ اپنوں نے جہاں پشت میں خنجر گھونپنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا وہاں ہر قسم کی فکری سازشوں کو ناکام بنانے والے علماء بھی ہر نازک موقع پر بانی پاکستان اور مسلمانان برصغیر کے شانہ بشانہ جمے اور ڈٹے رہے اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک ہزار سال کی تاریخ میں جب بھی طاقتور طبقے نے سیاسی اختیارات اور وسائل کے حصول کے لئے بے رحمی کا کھیل کھیلا اور اسلام کی بنیادی فکر اور انسانیت کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو سب سے پہلے علمائے کرام عَلمِ حق لے کر باہر نکلے اورانہوں نے سلطان کے مقابلے میں قرآن کی حقانیت ثابت کی اور اُمت کی راہ نمائی کی۔ اس جدوجہد میں نامور محدثین، مجتہدین اور علماء و مشائخ جان سے بھی گزرے۔
فتنوں کے انسداد کیلئے قربانیوں کا جو سلسلہ امامِ اعظم سیدنا ابو حنیفہؒ سے شروع ہوا وہ مختلف زمانوں اور ادوار سے ہوتا ہوا آفتابِ ہند حضرت مجدد الف ثانیؒ، مجاہد کبیر علامہ فضل حق خیرآبادی، مولانا احمد رضا خان ؒ، مولانا شوکت علیؒ،مولانا محمد علی جوہرؒ، مفتی کفایت اللہ کافیؒ، مولانا حضرت موہانیؒ جیسی معتبر علمی شخصیات تک پہنچا۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے عباسی خلفاء کے جبر و استبداد کے خلاف نعرۂ حق بلند کیا تو ایوانِ خلافت میں لرزہ طاری ہو گیا اور اُنہیں قید و بند سے نبردآزما ہونا پڑا اور اسی حالت میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے مگر باطل کی بیخ کنی کے لئے ایک لمحہ بھی غافل نہ رہے۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ نے دورِ اکبری میں دینِ الٰہی کے نام پر دراندازی کی تو حضرت مجدد الف ثانی ؒ سیف جلی بن کر سامنے آئے اور اس فتنے کا سرکچلا۔ خود حضرت مجدد الف ثانی ؒاپنے مکتوبات میں دورِ اکبری کے حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اسلام اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ کفار بے کھٹکے مسجدوں کو گرا رہے ہیں اور ان کی جگہ مندر بنارہے ہیں۔‘‘
نوابزادہ محمود علی خان مطبوعہ لاہور میں لکھتے ہیں آپ ؒ نے دیوانہ وار اسلام کی اساسی فکر کا تحفظ کیا اور اس مشن میں جلال الدین اکبر کا جاہ و جلال اور رعب و دبدبہ انہیں مرعوب نہ کر سکا۔ آپ نے گوالیار کے قلعے کی تکلیفیں خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیں۔ ترجمانِ حقیقت اقبالؒ نے اس پر کیا خوب فرمایا:
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے گرمیٔ احرار
وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
قیام پاکستان کی تحریک کی اساس، دو قومی نظریہ ہے جس کے مطابق مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ بلاشبہ علماء کے ایک طبقے نے بڑی شدومد کے ساتھ پاکستان کی مخالفت کی مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اس کو ہائی لائٹ کرنے والے دانشوروں کو 1925ء سے 1942ء تک برصغیر کے کونے کونے میں آل انڈیا سنی کانفرنس کے نام پر نہ وہ یادگار اور فقیدالمثال کانفرنسز دکھائی دیتی ہیں جن میں مشائخ عظام ا ور علماء کرام نے اپنا حقیقی کردار ادا کیا اور نہ انہیں یہ بات یاد رہتی ہے کہ ہندوستان کا ایک بھی ایسا گدی نشین یا پیر طریقت نہیں جس نے پاکستان کی مخالفت کی ہو یا اس کے لئے مالی اور جانی قربانی نہ دی ہو۔
جس وقت انگریز حکومت نے ہندوستان کے کسی ایک صوبے کی اسمبلی سے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کرانے کا مطالبہ کیا تو کون نہیں جانتا کہ مجاہد اسلام پیر عبدالرحمن صاحب آف بھرچونڈی شریف نے رات دن ایک کرکے سندھ اسمبلی سے یہ قرار داد منظور کرائی۔
اسی طرح کیا سرحد میں پیر صاحب آف مانکی شریف اور پیر صاحب آف زکوڑی شریف کی مجاہدانہ جدوجہد کے بغیر دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والی اس مملکت کی تاریخ مکمل ہوسکتی ہے؟ یہ مشائخ و علماء ہی تھے جنہوں نے اپنے بزرگوں کے فکروعمل کے مطابق اس نظریے کے احیاء میں عملی حصہ لے کر جان ڈال دی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی فراست، اصول پسندی اور قائدانہ صلاحیتوں سے یہ مقدمہ اس انداز سے لڑا کہ مدینہ منورہ میں قائم ہونے والی پہلی مصطفوی ریاست کے صدقہ میں یہ دوسری ریاست تھی جو محض اسلامی قومیت کے نظریہ پر قائم ہوئی۔
یہ وہی قائداعظم محمد علی جناح تھے جو ابتدائی سیاسی زندگی میں ہندومسلم اتحاد کے قائل تھے مگر حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوریؒ کی مسلسل دینی رہنمائی کے نتیجے میں بالآخر ایک علیحدہ مسلم ریاست (پاکستان) کی تشکیل کے مطالبے پر متفق ہوگئے۔ محدث علی پوریؒ کو 1935ء میں تحریک مسجد شہید گنج کے سلسلہ میں منعقدہ کل ہندکانفرنس کے موقع پر مسلمانان ہند کی قیادت کے لئے ''امیر ملت'' کا خطاب دیا گیا تھا۔
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ علمائے حق اگر بانی پاکستان کا دامے، درمے، سخنے ساتھ نہ دیتے تو آزادی کے لئے جمیع اُمت یکسو نہ ہوتی اور تحریک پاکستان کو جذبۂ ایثار سے لبریز اور پُرعزم افرادی قوت دستیاب نہ آتی
بانی پاکستان کے علاوہ مصور پاکستان علامہ محمد اقبالؒ، اولیاء کرام کی عظمت کردار کے مدّاح تھے اور خود اپنے والد گرامی سے سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے۔ آپ کو حضرت مجدد الف ثانیؒ سے کامل عقیدت تھی، علم وفکر کی پختگی نے آپ کو ان کے نظریہ ''وحدت الشھود'' کا قائل بنادیا تھا جس نے آگے چل کر جداگانہ مسلم قومیت کے تصور کو قوت و توانائی بخشی۔
برصغیر کے اطراف واکناف میں پھیلے علمی اور روحانی سرچشموں کے وارث علماء و مشائخ اور اولیاء کرام، انسان دوستی، خلوص وللّہیت، دینی حمیت اور عوام سے قریبی ربط و تعلق کے باعث رائے عامہ تشکیل دینے اور عوامی مزاج متعین کرنے میں محدود اثرورسوخ رکھنے والے سیاسی زعماء پر برتری رکھتے تھے۔ کروڑوں مریدین ومتوسلین کے قلوب و اذہان پر براہ راست حکمرانی کرنے والے بزرگان دین ہی اپنی خداداد بصیرت کے باوصف سرسید احمد خان، محمد علی جوہر اور علامہ اقبال اور قائداعظم سے بھی بہت پہلے اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ بدلے ہوئے حالات میں مسلمانان برصغیر کی بقا و سلامتی فقط اور فقط جداگانہ مسلم قومیت پر اصرار اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست کے قیام میں مضمر ہے۔
1946ء کے انتخابات سے قبل بنارس میں 27تا 30 اپریل منعقد ہونے والے آل انڈیا اجتماع کے موقع پر ہزاروں علماء ومشائخ کی موجودگی میں مجلس استقبالیہ کے صدر محدث سید احمد کچھوچھویؒ نے مطالبہ پاکستان کی تشریح کرتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ’’ہمارے نزدیک پاکستان ایسی خودمختار اور آزاد حکومت ہے جس میں شریعت اسلامیہ کے مطابق فقہی اصول پر کسی قوم کی نہیں اسلام کی حکومت ہو جس کو مختصراً یوں کہئے کہ خلافت راشدہ کا نمونہ ہو‘‘۔
اس موقع پر ایک تاریخی قرار داد بھی منظور کی گئی جس میں مطالبہ پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ اگر خدانخواستہ مسلم لیگ حصول پاکستان کے مطالبہ سے دستبردار بھی ہو جائے تو بھی ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک پاکستان حاصل نہ کرلیں۔ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں علماء ومشائخ کے کردار کا گہرا مطالعہ کرتے ہوئے ممتاز مورخ اور نقاد عزیز احمد لکھتے ہیں کہ
’’مسلم ہند کی قیادت میں جناح کی کامیابی کا راز جو نظر آتا ہے حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ خود قیادت نہیں کررہے تھے بلکہ وہ مسلم زعماء اور مسلم اجماع کے پیروکار تھے۔ ان کا اپنا کردار ایک پرخلوص اور صاف ذہن رکھنے والے قانون دان یعنی وکیل کا تھا جو اپنے موکل کی عین خواہش کے مطابق مقدمہ کو نپی تلی زبان میں ڈھال سکتے تھے اور اس کا اظہار بھی کرسکتے تھے‘‘۔
برصغیر کے اطراف واکناف میں پھیلے علمی اور روحانی سرچشموں کے وارث علماء و مشائخ اور اولیاء کرام، انسان دوستی، دینی حمیت اور عوام سے قریبی ربط و تعلق کے باعث رائے عامہ تشکیل دینے میں محدود اثرورسوخ رکھنے والے سیاسی زعماء پر برتری رکھتے تھے
یہاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے والدگرامی فرید ملتِ حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری ؒ کا تذکرہ بھی ناگزیر ہے کہ آپؒ نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں فرنگی محل قیام کے دوران تحریک پاکستان کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں اور انہوں نے ایک خاص وقت تک آل انڈیا مسلم لیگ کے لئے خدمات انجام دیں اور اس کا دفتر غیر فعال نہ ہونے دیا۔ حضرت فرید ملت ؒ نے بطور نوجوان تحریک پاکستان کے لئے جو خدمات انجام دیں، چند سال قبل انہیں ان کی ان خدمات کے اعتراف میں گولڈ میڈل سے نوازا گیا اوران کی خدمات کا فخریہ اعتراف کیا گیا۔ علمائے حق کے اس کردار کے باعث آج ہم باوقار طریقے سے آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔
پس یہی علماء و مشائخ و اولیاء وہ نفوس قدسیہ ہیں جو اجتماعی ملی شعور کے صورت گر، اجماع امت کے حقیقی ترجمان اور اس پر اسرار جذبے کے محرک اور پوشیدہ ہاتھ کے نمائندہ تھے جس نے تمام ترمذہبی رواداری کے باوجود تاریخ کے کسی بھی مرحلہ پر مسلمانوں کو کبھی ہندومت میں ضم نہیں ہونے دیا اور صدیوں تک نسل درنسل، عہد بہ عہد اور سینہ بہ سینہ باطنی طریق پر جہد مسلسل کے ذریعے مسلم اذہان کو ان کے جداگانہ تشخص کا احساس دلاتے رہے اور پاکستان کی منزل کی جانب ان کی رہنمائی کرتے رہے۔
بالآخر ان مستقبل کے روشن چراغوں کی لو سے مقام محمد عربی ﷺ سے آشنا کرنے کا پاک فریضہ علماء ومشائخ کی شب زندہ داریوں اور بلاخوف و خطر اپنے پاکیزہ مشن کی طرف استقلال و استقامت کے ساتھ چلتے رہنے کی وفاداریوں اور قول و فعل کی ہم آہنگیوں کا ثمر تھا اور یہ ثمر کتنا میٹھا تھا کتنا شیریں تھا کہ اس کی مٹھاس کا شیرہ پورے ہندوستان کے غیور مسلمانوں کو مٹھاس سے بھر گیا۔ پھر کوئی کڑواہٹ انکا مزہ کِرکَرا نہ کرسکی اور پوری دنیا کے سامنے ایک عجوبہ یعنی پاکستان کا مطلب کیا: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نعرے کا معجزہ رونما ہوا اور پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ شاید یہ شعر انہی ہستیوں کے بارے میں کسی نے کہا ہے:
اپنے دامن کو کیا خون سے تر پھولوں نے
اک میرا دامن کانٹوں سے چھڑانے کیلئے