23 مارچ کا تاریخ ساز دن ہر بار ہماری زندگیوں میں آتا اور گزر جاتا ہے مگر اس دن کی فکری اور عملی افادیت آج بھی عملدرآمد کی منتظر ہے۔ بانیان پاکستان نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں ہزار ہا اسلامیان برصغیر کے ہجوم میں ایک وعدہ کیا تھا کہ ایک ایسا وطن حاصل کریں گے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق سیاست، معیشت اور معاشرت نمو پائے گی۔ جہاں ہر طبقہ فکر کو بلارنگ و نسل اپنے مذہبی اور ثقافتی رجحانات کے ساتھ بلاروک ٹوک زندگی گزارنے کی ضمانت حاصل ہو گی۔ یہ وہی سوچ تھی جس کے حوالے سے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو نامساعد حالات کا سامنا تھا اور اقلیتیں ہندو اکثریت کے غلبہ کی وجہ سے فکری اعتبار سے سمٹ رہی تھیں اور انہیں آزادیٔ عمل میسر نہ تھی۔ تحریک آزادی سے مراد فقط جسمانی غلامی سے نجات نہیں تھا بلکہ اس سے مراد سوچنے، سمجھنے، بولنے اور اپنے مافی الضمیر کے اظہار کی آزادی تھا۔ جن قوموں نے آزادی کا تحفظ یقینی بنایا اور اجتماعی تخلیقی جوہر کو پروان چڑھایا، انہوں نے اپنے نظامِ تعلیم کو مکمل طور پر اپنے معروضی حالات و واقعات اور میلان و رجحانات کے تابع رکھا۔ جب بھی کسی قوم کو آزادی سے غلامی کے اندھیروں میں اتارنے کا عمل روبہ عمل آتا ہے تو سب سے پہلے اُس قوم کے نظامِ تعلیم پر ضرب لگائی جاتی ہے۔
1857ء کے بعد برصغیر کے قابض حکمرانوں نے 35کروڑ مسلمانوں کو غلام بنانے کے لئے اسلحہ سے اتنا کام نہیں لیا جتنا کام بدیسی نظامِ تعلیم سے لیا گیا۔ مسلمان اردو، فارسی اور عربی زبان کے ذریعے علوم و فنون کے ماخذ سے جڑے ہوئے تھے اور آزادی کی جدوجہد کرنے والی قیادت انہی علوم و فنون پر دسترس رکھنے کی وجہ سے باشعور اور تعلیم یافتہ تھی۔ انگریز حکمران اپنی تمام تر چالاکیوں کے باوجود تحریک آزادی کی قیادت کو فکری اعتبار سے اپنا تابع فرمان نہ بنا سکا۔ برصغیر کے مروجہ نظام تعلیم کی وجہ سے ایک بہترین قیادت اُبھر کر سامنے آئی۔ اس پسِ منظر میں سرسید احمد خان کا تذکرہ بھی ضروری ہے جنہوں نے مستقبل کی تعلیمی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک جامع اور زمینی حقائق سے ہم آہنگ نظامِ تعلیم وضع کیا اور ایک بہت بڑی افرادی قوت تیار کی جس نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غاصب انگریز سے مکالمہ کیا اور آزادی کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا۔
23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان کا یہ پیغام ہے کہ اگر ہم اپنے زوال کو کمال میں بدلنا چاہتے ہیں، اپنی مایوسیوں اور ملال کو علمی جاہ و جلال میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، اپنی نقاہت کو قوت و شجاعت میں بدلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے نظامِ تعلیم کو اپنی قومی ضروریات کے مطابق تشکیل دینا ہو گا۔ 1857ء کے بعد برصغیر میں مروجہ نظامِ تعلیم کو مسخ کرنے کے لئے انگریز سرکار نے جو اقدامات کئے وہ تو تاریخ کا حصہ ہیں لیکن جب برصغیر کی تقسیم کی مہم اپنے منطقی انجام کی طرف پہنچنے لگی تو ہندو قیادت نے بھی غاصب انگریز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسلمانوں کو اُن کے علمی ماخذ اور اساس سے کاٹنے کی ہر ممکن کوشش کی کیونکہ ہندو قیادت اس حقیقت سے آگاہ ہو چکی تھی کہ مسلمانوں کو کمزور کرنے اور غلام بنا کر رکھنے کے لئے انہیں ایک ایسے نظام تعلیم سے جوڑنا ہو گا جو انہیں ان کے علمی ماضی سے کاٹ دے اور ان کی قومی شناخت کو دھندلا بنا دے۔ ایسی ہی ایک بہت بڑی کوشش 1937ء میں کی گئی۔
1937ء میں نیا نصاب تعلیم تیار کرنے کے لئے ڈاکٹر ذاکر حسین کی صدارت میں ایک 10 رکنی کمیٹی قائم کی گئی۔ اس 10 رکنی کمیٹی میں دو ممبر مسلمان تھے۔ اگرچہ ڈاکٹر ذاکر حسین مسلمان تھے مگر وہ فکری راہ نمائی گاندھی سے لے رہے تھے۔ اس کمیٹی نے دسمبر 1937ء میں ایک رپورٹ تیار کی جسے ’’واردھا تعلیمی سکیم‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سکیم کابنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک ایسی نسل تیار کی جائے جو دو قومی نظریہ کی بجائے ایک قومی نظریہ پر یقین رکھے اور ان کے مذہب، تمدن، ثقافت، معاشرت اور روایات کو ختم کر کے ان کے ذہنوں پر ہندو ثقافت اور مذہب کی برتری کا نقش جما دے۔ مسلمانوں کی پوری تحریک آزادی کا جوہر دو قومی نظریہ میں پنہاں تھا جبکہ ’’واردھا تعلیمی سکیم ‘‘کا مرکزی نکتہ ہی دو کی بجائے ایک قومی نظریہ کی تشکیل تھا۔ ’’واردھا تعلیمی سکیم ‘‘ میں موسیقی اور مخلوط تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اس نظام تعلیم میں ہندو ثقافت اور تمدن کی خوبیوں کو اجاگر کرنے کے لئے 5 کتابیں خصوصی طور پر تیار کی گئیں۔ اس نظام تعلیم میں حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات، مسلمانوں کی ہزار سال پر پھیلی ہوئی فتوحات اور شاندار علمی کمالات کو نظر انداز کیا گیا۔ مسلمانوں کی غالب آبادی برصغیر کے دیہات میں آباد تھی۔ اس ’’واردھا تعلیمی سکیم ‘‘میں اس بات کو بطور خاص شامل کیا گیا کہ دیہات میں مخیر حضرات کے مالی تعاون سے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں گے یعنی مسلمانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لئے ریاستی سطح پر یہ گھناؤنی سازش تیار کی گئی۔ مسلمانوں کو زوال کے پاتال میں دھکیلنے کے لئے اُنہیں ان کے مذہب اور تاریخ سے بے گانہ کرنے کی انتہائی زہریلی کوشش کی گئی۔
اس ساری تمہید کا بنیادی مقصد یہ باور کرانا ہے کہ بطور ملک اور قوم ترقی کرنے کے لئے ہمیں اپنے اسلاف کے علمی، تحقیقی کمالات کو شاملِ نصاب کرنا ہو گا۔ اپنی زبان کو پروان چڑھانا ہو گا اور اپنے اجداد کی تحقیق سے نئی نسل کو جوڑنا ہوگا۔ بدیسی زبان میں نظام تعلیم کی تشکیل آج سے 100سال پہلے بھی ایک سازش تھی اور آج بھی یہ ایک سازش ہے۔ 23 مارچ 1940ء کا سب سے بڑا پیغام ہی یہ ہے کہ ہم اپنے نظامِ تعلیم کو تبدیل کریں اور یکساں نظامِ تعلیم کو رائج کریں۔ اگر آج ہم اس اہم کام کو کر لیں اور دہرے، تہرے نظامِ تعلیم سے نجات حاصل کرلیں تو پاکستان کا زوال کا سفر ترقی کے سفر میں تبدیل ہو جائے گا۔
یہاں تحریک منہاج القرآن کے بانی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا بطور خاص ذکر کیا جائے گا کہ انہوں نے نہ صرف اس تعلیمی ضرورت کو محسوس کیابلکہ مقاصد کے حصول کے لئے عملی پیش رفت بھی کی۔ تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے سب سے پہلے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن قائم کیا جہاں جدید اور قدیم علوم کو جمع کیا۔ یہاں زیر تعلیم طلبہ و طالبات دین کی تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں اور عصری علوم بھی پڑھ رہے ہیں اور پھر ایک اور قدم آگے آتے ہوئے کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز قائم کیا گیا۔ یہاں کا فارغ التحصیل سکالر بیک وقت ایک پروفیشل بھی ہوتا ہے اور ایک دینی سکالر بھی ہوتا ہے اور پھر کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کا عالم اسلام کی ممتاز یونیورسٹی جامع الازہر کے ساتھ الحاق کیا گیا۔ یہاں کے طلبہ جامعہ الازہر میں بھی داخلے لیتے ہیں اور جامعہ الازہر کے اساتذہ کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز میں طلبہ و طالبات کو زیور علم سے آراستہ کررہے ہیں۔
اسی طرح پونے تین سو سال پرانے درس نظامی کے تعلیمی نظام کو بھی تبدیل کرنے کا کریڈٹ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور نظام المدارس پاکستان کو جاتا ہے۔آج سے 100 سال قبل تعلیم کے شعبہ میں جو کارہائے نمایاں سرسید احمد خان انجام دے رہے تھے، اس سلسلے کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایک نئے آہنگ اور رنگ کے ساتھ فی زمانہ جاری رکھا ہوا ہے۔ منہاج القرآن کے تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کو بھی بطور خاص شامل نصاب کیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ جن کے ہاتھ میں عنان اقتدار اور قوم کے وسائل ہیں، وہ انہیں اس گتھی کو سلجھانے کی توفیق دے اور ایک نصاب اور ایک نظامِ تعلیم رائج کرنے کی توفیق اور ہمت دے۔