برصغیر پاک و ہند وہ خطہ ہے جو مرکزِ اسلام سے دور ہونے کے باوجود پہلی صدی ہجری میں ہی آفتابِ ہدایت کی نورانی کرنوں سے مستنیر ہوا۔ بت کدہ ہند کی ثقافت دنیا کی قدیم اور متنوع ترین ثقافت سمجھی جاتی ہے۔ یہاں کے پیچیدہ اور تہہ در تہہ انسان ساختہ مذہبی تصورات نے لوگوں کو مختلف نسلی اور اعتقادی طبقات میں تقسیم کر رکھا تھا۔ صدر اسلام میں جب اسلامی خلافت کی سرحدیں جزیرہ عرب سے نکل کر افریقہ، یورپ اور ایشیاء کے براعظموں تک پھیل رہی تھیں تو لامحالہ ہندوستان میں بھی اس عالمگیر اسلامی تحریک کے اثرات پہنچ رہے تھے۔ اصحاب علم و تحقیق نے وثوق کے ساتھ لکھا ہے کہ جب 8 ویں صدی عیسوی کے آغاز (712ء) میں حجاج بن یوسف نے اپنے جواں سال بھتیجے محمد بن قاسم کی سربراہی میں سندھ کے خود سر حکمران راجہ داھر کے خلاف فوجی مہم روانہ کی تو اس سے قبل بھی برصغیر کے مختلف علاقوں میں مسلمان آبادیاں قائم ہو چکی تھیں۔ یہ مسلمان آبادیاں جنوبی ہند کے علاقوں، مالا بار، جزیرہ مالدیب، سراندیپ اور گجرات جیسے ساحلی علاقوں میں قائم ہو رہی تھیں جہاں عرب مسلمان تاجروں کی آمد و رفت جاری تھی۔ انہوں نے اپنی خوش خلقی اور حسنِ تجارت سے یہاں کے متمول تجارت پیشہ طبقات خصوصاً راجاؤں کو اسلام کی طرف مائل کیا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ سراندیپ (سری لنکا) کا راجا ساتویں صدی عیسوی کے شروع یعنی 40 ہجری میں مسلمان ہو چکا تھا۔ اسی طرح مالا بار (کیرلا) کا راجہ بھی عرب تاجروں کے ذریعے اسلام سے روشناس ہوا اور عقیدہ توحید و رسالت اسے اتنا پسند آیا کہ وہ حکومت چھوڑ کر مسلمانوں کے ہمراہ اسلامی تعلیم و تربیت کے حصول کے لئے عمان پہنچ گیا جہاں سے اس نے صوفی منش علماء کی ایک جماعت تیار کر کے اپنے ملک میں بھیجی جن میں مالک بن دینار بھی شامل تھے۔
ہندوستان میں اسلام کی دعوت لے کر آنے والے مسلمان تین طبقات میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔ پہلا طبقہ تجارت پیشہ لوگوں کا تھا جنہوں نے حسنِ معاملات، دیانتداری اور خوش خلقی کے ذریعے اسلام کو متعارف کروایا۔ دوسرا طبقہ محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری جیسے سلاطین اور امراء کا تھا جنہوں نے فوجی مہمات کے ذریعے مغربی اور شمال مغربی سمتوں سے حملہ آور ہو کر باقاعدہ حکومتیں قائم کیں۔ مگر ان دونوں ذرائع کی نسبت زیادہ موثر، دیرپا اور فطری طریقہ دعوت و تبلیغ ان صوفیائے کرام کا تھا جو ان فاتحین کے ساتھ آئے۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت کے سامنے بعض قبائل سرنگوں ہو جاتے یا اسلام قبول کر لیتے مگر جیسا ہی حملہ آور فاتح واپس جاتا تو یہ لوگ مرتد ہو کر اپنے سابقہ مذہب اختیار کر لیتے چنانچہ سروں کے ساتھ ساتھ دلوں کو فتح کرنے کی ضرورت ہمیشہ رہی اور اس ضرورت کی تکمیل ہمیشہ صوفیائے کرام نے کی جس کی بہت سی زندہ و جاوید مثالیں آج بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ان مخلص داعیین اسلام میں بعض شخصیات کا تعلق تو دورِ تابعین سے ہے اور بعض کا تبع تابعین سے۔ اسی طرح غزنوی اور خلجی دور کے صوفیاء میں شیخ صفی الدین گازرانی رحمۃ اللہ علیہ، سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حمیدالدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ، بابا فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ، مخدوم علاؤالدین کلیری رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ، بوعلی قلندر رحمۃ اللہ علیہ، شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، مخدوم شہباز قلندر رحمۃ اللہ علیہ اور امام ربانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اجل صوفیاء نے کفرستانِ ہند میں شرق سے غرب تک نورِ اسلام کے چراغ روشن کئے۔ ان عظیم المرتبت شخصیات نے اسلام کی تعلیمات کو قیل و قال اور بحث و مناظرہ کے ذریعے نہیں بلکہ محبت، اخلاص اور عظمت و کردار کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں منتقل کیا۔ انسانی احترام، سادگی، عدل، علم دوستی اور طہارت و پاکیزگی جیسی آفاقی خصوصیات کے حامل کردار تھے جنہوں نے خواص و عوام کو اسلام کی طرف راغب کیا۔ چنانچہ صوفیائے کرام کی کاوشوں سے اس خطے میں مسلمان ہونے والے اب بھی پوری دنیا کی مسلم آبادی کا 33% بنتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ برصغیر میں محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ مسلمان حکومت کا آغاز بھی ہو چکا تھا اور یہ سلسلہ کم و بیش 1000 سال تک پھیلا ہوا ہے جس میں مغلیہ سلطنت کا شاندار عہد حکومت بھی شامل ہے۔ مگر یہ قابلِ غور بات ہے کہ اس ایک ہزار سالہ عہد حکومت میں کوئی ایک مثال بھی ایسی موجود نہیں جب کسی مسلمان بادشاہ نے جبراً کسی علاقے کی رعایا کو اسلام قبول کرنے کا حکم دیا ہو، حالانکہ مقامی مذاہب کی طرف سے بے شمار فتنے، شورشیں، بغاوتیں اور سازشیں سر اٹھاتی رہیں، مسلمان حکمران چاہتے تو جواباً ایسا کر سکتے تھے (جیسا کہ خود مسلمانوں کے ساتھ سپین میں ہوا یا آج بھی بھارت سمیت کئی ممالک میں مسلمان اقلیتوں کے ساتھ ظلم و جبر کی متعدد مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں)۔ پوری دنیا کے منصفِ مزاج محققین اسی لئے حیران ہوتے ہیں جب غیر مسلم قوتیں مسلمانوں کو دہشت گرد، خون خوار اور ظالم و قاتل کا ٹائیٹل دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ حقیقت سب کے سامنے آشکار ہے کہ آج کے بھارت جیسے بڑے جمہوری ملک میں مسلمان کل آبادی کا صرف 20 فیصد ہیں۔ ہزار سالہ بااختیار مسلم حکمرانی کے بعد بھی غیر مسلم رعایا کی غالب اکثریت خود اس حقیقت کی شہادت ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے اسلامی شریعت کی روح کو سامنے رکھا اور کسی فرد پر اپنا مذہب زبردستی نہیں ٹھونسا۔
پوری دنیا میں ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ سے متعلق پھیلائے جانے والے زہریلے پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے بطلِ اسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری یورپ، ا مریکہ اور آسٹریلیا کے لگاتار دعوتی دوروں کے بعد گذشتہ ماہ انڈیا بھی تشریف لے گئے۔ آپ کا یہ تیسرا باقاعدہ دعوتی دورہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تاریخ ساز اہمیت اختیار کر گیا۔ شیخ الاسلام نے گجرات، حیدر آباد، اجمیر، بمبئی، دہلی اور بنگلور جیسے تاریخی مقامات پر نہایت کامیاب اجتماعات میں اسلام کا آفاقی فلسفہ محبت و مؤدت پیش کیا اور مسلمانوں کو علم اور عمل کا پیغام دیا۔ ہم ان تحریکی دوستوں اور بزرگوں کو عمیقِ قلب سے مبارکباد پیش کرتے ہیں جو کسی بھی طرح ان شاندار اجتماعات کے انتظامات میں شامل رہے۔ ایمانی جذبوں کا یہ سفر رکنا نہیں چاہئے۔ بھارت کی زرخیز سرزمین پر تحریک منہاج القرآن کی پرامن دعوت کو پھیلانے میں اپنی مخلصانہ کاوشیں جاری رکھیں۔
شیخ الاسلام کی فکر اور جذبہ عشق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقبولیت کے مناظر ان اجتماعات میں دیدنی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض نادان کلمہ گو لوگوں نے حسد و بغض کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس دورے کے دوران کئی مقامات پر ان کے خطاب پر پابندی لگانے کی ناکام کاوشیں بھی کیں مگر حق اور سچ کی آواز نہ پہلے رکی ہے اور نہ آئندہ رکنے پائے گی۔ شیخ الاسلام نے اکابر صوفیاء کے دعوتی تسلسل میں پرامن بقائے باہمی کے ساتھ توحید و رسالت کا محبت بھرا پیغام سنایا اور اہل اسلام نے بھی ذوق و شوق کی انتہاء کر دی۔ اہل فکر و نظر بھارتی مسلمانوں کے یہ ٹھاٹھیں مارتے لاکھوں کے اجتماعات دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھے ہیں کہ یہ وہی ہندوستان ہے جس کی گود میں پروان چڑھنے والے اہل ایمان کے ذوق کی داد خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی تھی کہ مجھے اس طرف سے فرحت بخش ٹھنڈی ہوائیں محسوس ہو رہی ہیں۔ شاعرِ مشرق نے کیا خوب سماں باندھا ہے۔
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
ڈاکٹر علی اکبر قادری