دہلی، گجرات، حیدر آباد، بنگلور اور ممبئی میں مسلمانوں کے تاریخی اجتماعات سے خطابات
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنے ایک ماہ پر محیط(21 فروری تا 20 مارچ 2012ء) تنظیمی و دعوتی دورہ پر بھارت تشریف لے گئے۔ اس تاریخی دورہ کے دوران نئی دہلی، ممبئی، ریاست گجرات، حیدر آباد دکن، بنگلور اور اجمیر شریف میں لاکھوں کے عوامی اجتماعات، ورکرز کنونشنز اور امن کانفرنسز سے خطابات کئے۔ اس دورہ کے دوران شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے مختلف سیاسی، مذہبی، علمی، فکری شخصیات، ممبران اسمبلی، علماء، مشائخ اور مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے متعدد وفود نے بھی خصوصی ملاقاتیں کیں۔ علاوہ ازیں ریاست گجرات میں منہاج القرآن اسلامک سنٹر کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔
انڈیا پہنچنے پر منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے صدر سید ناد علی، منہاج القرآن مہاراشٹر (انڈیا) کے صدر رفیق خان، مولانا حیات اللہ قادری نائب صدر منہاج القرآن انڈیا، امان اللہ پٹیل جنرل سیکرٹری منہاج القرآن انڈیا، مولانا حبیب احمد الحسینی ناظم دعوت و ارشاد منہاج القرآن انڈیا و دیگر ذمہ داران نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا۔
اس دورہ کا شیڈول حسب ذیل تھا :
- 22 فروری 2012ء۔۔۔ تقریب رونمائی فتویٰ (انڈین اسلامک کلچر سنٹر، لودھی روڈ، دہلی)
- 25 فروری 2012ء۔۔۔ تقریب سنگ بنیادمنہاج القرآن اسلامک سنٹر و عوامی اجتماع سے خطاب (کرجن۔ گجرات)
- 27 فروری 2012ء۔۔۔ ورکرز کنونشن (وڈوڈرا۔ گجرات)
- 28 فروری سے 2012ء۔۔۔ ورکرز سے خصوصی نشست (حیدر آباد)
- 29 فروری سے یکم مارچ 2012ء۔۔۔ درس حدیث (عقائد) (قلی قطب شاہ اسٹیڈیم، حیدرآباد)
- 02 مارچ 2012ء۔۔۔ عوامی اجتماع سے خطاب (دارالسلام، حیدر آباد)
- 03، 04 مارچ 2012ء۔۔۔ درس حدیث (اصول حدیث) (سٹی کنونشن سنٹر، بالمقابل نمپلے اسٹیشن)
- 07 مارچ 2012ء۔۔۔ عوامی اجتماع سے خطاب (کچھ۔ گجرات)
- 10 مارچ 2012ء۔۔۔ سکالرز کو اسلام دین امن کے موضوع پر لیکچر (بنگلور)
- 11مارچ 2012ء۔۔۔ عوامی اجتماع سے خطاب (شری کرشنا وہار بنگلور پیلس۔ بنگلور)
- 12 مارچ 2012ء۔۔۔ ورکرز کنونش اور علماء کانفرنس سے خطابات (بنگلور)
- 13 مارچ 2012ء۔۔۔ عوامی اجتماع سے خطاب (اجمیر شریف)
- 15 مارچ 2012ء۔۔۔ اسلام دین امن کے موضوع پر مختلف طبقہ ہائے زندگی کی نمائندہ شخصیات کولیکچر( ممبئی)
- 16 مارچ 2012ء۔۔۔ ورکرز کنونشن (ممبئی)
- 17 مارچ 2012ء۔۔۔ عوامی اجتماع سے خطاب (صومیہ گرائوند چونا بھٹی، سائن ممبئی)
ذیل میں بھارت کے ان پانچ بڑے شہروں میں ہونے والے عوامی اجتماعات کی مختصر رپورٹ نذرِ قارئین ہے :
1۔ دہلی میں دہشت گردی کے خلاف فتوی کی تقریب رونمائی
منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے زیراہتمام مورخہ 22 فروری 2012ء کو انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دہشت گردی کے خلاف فتوی ’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘ کی تقریب رونمائی ہوئی۔ اس تقریب میں سابق ریلوے وزیر سی کے جعفر شریف، قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین جسٹس وجاہت حبیب اللہ، دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین صفدر ایچ خان، سابق آئی پی ایس افسر قمر احمد، جسٹس فخرالدین، معروف وکیل مشتاق احمد ایڈووکیٹ، ایران ٹی وی کے شمشاد کاظمی، صدر منہاج القرآن انڈیا سید ناد علی، حیدر کمال، سلیم امروہوی اور عامر رضوی سمیت نامور علمائ، ادیب، کالم نگار، صحافی، مختلف نیوز چینلز اور اخباری نمائندوں سمیت کثیر تعداد میں ارباب علم و دانش نے خصوصی شرکت کی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی آمد سے قبل ہی ہال شرکاء سے بھر چکا تھا حتی کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہال کے اندر اور باہر بھی اس پروگرام میں شرکت کے لئے کھڑی تھی۔ اس تقریب میں شیخ الاسلام کا پرتپاک انداز میں شاندار استقبال کیا گیا۔
اس موقع پر اسلام اور دہشت گردی کے موضوع پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ اسلام کے ساتھ دہشت گردی کا لفظ جوڑنا بالکل غلط ہے۔ جو لوگ کم علمی اور ناسمجھی کی بنا پر اسلام سے دہشت گردی کو جوڑ کر دہشت گردی کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں، وہ یہ جان لیں کہ اس طرح دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔ اس طرح کی اصطلاحیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔ اگر کوئی دہشت گرد ہے تو اسلام تو کیا، کسی بھی مذہب سے تعلق نہ ہو گا اور اگر کوئی مسلمان ہے تو وہ دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ دہشت گردی اور اسلام کے درمیان ربط ڈھونڈنے والے آفاقی دین کی حقیقی تعلیمات سے نابلد ہیں۔ دہشت گردی کا مرتکب انسان ہے اور نہ مسلمان۔ اسلام جیسے سلامتی اور امن بانٹنے والے دین کی ڈکشنری میں دہشت گردی کے لفظ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے میڈیا ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور دو متضاد رویوں کے درمیان ربط جوڑنے میں وقت ضائع نہ کرے۔ دہشت گردی کے لفظ کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کے رحجان کوبند کیا جائے اور اس اصطلاح کا ذکر اب آگے نہیں ہونا چاہیے۔ دہشت گردی کو کسی بھی مذہب کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے۔
صوفیاء نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ لوگوں کے ذہنوں کو پاک کیا۔ صوفیاء کرام نے کروڑوں افراد کے من کی دنیا بدلی اور انسانی معاشروں کو امن کی خیرات بانٹی۔ بیرونی دنیا میں امن تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب فرد کے باطن میں سلامتی اور امن کا ڈیرہ ہو۔ سلامتی کا تعلق جنت سے ہے اور جو چیز امن و سلامتی کے خلاف ہے وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتی، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اسلام اس درخت کی مانند ہے جہاں دھوپ کے جلے ہوئے لوگ راحت اور سلامتی حاصل کرتے ہیں۔ جہاں اسلام کا سایہ پڑ گیا وہیں سلامتی نے گھر کر لیا۔
میرا ہندوستان آنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کے خلاف جو فضا بنائی گئی ہے اور اسلام کو غلط طریقے سے ظاہر کیا گیا اور غلط سمجھا گیا، اس غلط فہمی اور اشکالات کا ازالہ کروں۔ میرا مقصد اعتماد کا پل قائم کر کے مذہبی رواداری، برداشت، انسانی احترام اور مکالمے کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔ انسانوں کے مابین محبت، رنگ، نسل اور مذہب کے امتیاز کے بغیر ہونی چاہیے تبھی دنیا امن کا گہوارہ بن سکے گی۔ میرا مشن ہے کہ انسانوں کے درمیان نفرتوں کو کم کیا جائے تاکہ امن و محبت کا پیغام عام ہو۔
2۔ کرجن (گجرات) میں منہاج القرآن اسلامک سنٹر کا قیام اور عظیم الشان اجتماع سے خطاب
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دورہ بھارت کے دوران 25 فروری 2012ء کو بھارتی ریاست گجرات میں کرجن کے مقام پر پہلا عظیم الشان عوامی اجتماع ہوا۔ اس موقع پر شیخ الاسلام کو سننے کیلئے ریاست گجرات میں وڈوڈرہ، اجمیر شریف، ممبئی، کچھ، احمد آباد، حیدرآباد دکن، دہلی، لکھنو اور انڈیا کے اطراف و اکناف سے انسانوں کا سیلاب امڈ آیا۔ اجتماع میں علماء و مشائخ کرام، سجادگان اور سلطان الہند سیدنا معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خدام بھی شامل تھے۔
حضرت شیخ الاسلام جب خطاب کیلئے سٹیج پر پہنچے تو لاکھوں افراد نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔ گجرات حکومت کی طرف سے انہیں سٹیٹ گیسٹ کا پروٹوکول دیا گیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بھارتی ریاست گجرات میں وڈوڈرا سے 50 کلومیٹر دور واقع ’’کرجن‘‘ میں منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے ہیڈ کوارٹر کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے سرپرست اعلیٰ سید ناد علی نے شیخ الاسلام کے دست مبارک سے سنگ بنیاد کی دو اینٹیں وصول کیں۔ آپ نے خطاب کے ابتدائی جملے گجراتی زبان میں بولے اور کہا کہ ’’گجرات والوں کی محبت سے بہت خوش ہوا ہوں اور میں تمام گجراتیوں کیلئے دعا گو ہوں کہ وہ امن و سلامتی اور خوشحالی سے رہیں‘‘
حضرت شیخ الاسلام نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام سلامتی اور امن و آشتی کا دین ہے اور اس کا پیروکار انتہا پسند اور دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری انسانیت کیلئے رحمت بن کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلا امتیاز نسل، رنگ و مذہب ساری انسانیت کو حقوق دئیے اور ان حقوق کو شعور عطا کیا۔
اولیاء اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کا پیغام عام کرنے کیلئے آئے۔ انکی ذوات مقدسہ بند دلوں کو کھولنے والی چابیاں تھیں۔ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بلند کر دیا ہے اور تمام انسانیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کے ڈنکے بجا رہی ہے۔ بھارت کی سرزمین اللہ کے دوستوں سے معمور ہے۔ خواجہ اجمیر رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ بختیار کاکی رحمۃاللہ علیہ، نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ، مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر اولیاء کرام نے لوگوں کے دل جیت کر اللہ کا پیغام پہنچایا۔ نفرتوں کو ختم کر کے محبت سے رہنے میں ہی سکون ہے۔ سکون، نفرت اور عداوت سے نہیں بلکہ محبت اور سلامتی سے ملتا ہے۔
3۔ حیدرآباد میں دورہ حدیث کی دو روزہ خصوصی نشستیں
منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا حیدر آباد دکن کے زیراہتمام حیدرآباد دکن میں قلی قطب شاہ اسٹیڈیم میں 29 فروری 2012ء کو دو روزہ دورہ حدیث کی خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں عوام و خواص کے علاوہ ہزاروں علماء و مشائخ اور اہل علم نے خصوصی شرکت کی۔
پہلا دن :
پہلے پروگرام کی صدارت مولانا سید محمد اولیاء حسینی قادری پاشا نے کی جبکہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد خواجہ شریف مہمان خصوصی تھے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے ڈائریکٹر مولانا حبیب احمد الحسینی نے شیخ الاسلام کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم اس شخصیت کے ساتھ موجود ہیں، جو دنیا بھر میں مختلف موضوعات پر 6 ہزار سے زائد لیکچرز دے چکے ہیں۔ آپ کی تصانیف کی تعداد ہزار سے زائد ہیں، جس میں 400 سے زائد طبع ہو چکی ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسلام کا عالمگیر پیغام دنیا میں پھیلانے کے لیے منہاج القرآن انٹرنیشنل کا نیٹ ورک قائم کیا، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں آپ کی آواز اور شخصیت ایک اتھارٹی بن چکی ہے۔
اس موقع پر مولانا اولیاء حسینی مرتضیٰ پاشا نے شیخ الاسلام پر ہونے والے اعتراضات پر لکھی گئی عبدالستار منہاجین (ڈائریکٹر منہاج انٹرنیٹ بیورو) کی تصنیف اور ماہنامہ منہاج القرآن کا قائد ڈے نمبر فروری 2012ء بھی شرکاء کے سامنے پیش کیا جس میں 2011ء میں شیخ الاسلام کی اہم ترین عالمی پروگراموں کی رپورٹس اور تصویری جھلکیاں شامل کرتے ہوئے آپ کی حیات و خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
دورہ حدیث کا یہ عظیم الشان اجتماع محمد غوث کارپوریٹر و ڈپٹی فلور لیڈر مجلس بلدی پارٹی حیدرآباد کی سرپرستی میں منعقد ہوا۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے قائدین بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ حافظ محمد خان قادری ارشد حبیبی صدر سٹی منہاج القرآن نے نقابت کے فرائض سر انجام دیئے۔ پروگرام میں سینکڑوں علماء و مشائخ سمیت ہزاروں شرکاء نے شرکت کی، شرکاء کی کثیر تعدادکے باعث اسٹیڈیم کے باہر ہنگامی طور پر بڑی سکرینیں لگائی گئیں تھیں۔
شیخ الاسلام کی گفتگو :
حضور شیخ الاسلام نے دورہ حدیث کے لیے صحاح ستہ کے منتخب ابواب کا انتخاب کیا۔ آپ نے متعدد احادیث صحیحہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وسیلہ یعنی مدد مانگنا انبیاء کرام، صحابہ کرام اور صالحین کی سنت ہے اور اس عقیدہ کا حوالہ قرآنی نصوص ہیں۔ جس عقیدہ کی نص قرآن و حدیث میں موجود نہیں، محض دوسری کتب کی بنیاد پر عقیدہ تبدیل کرنا فتنہ اور بدعت ہے۔ یہ عقیدہ اوائل اسلام سے موجود ہے۔ جس میں بعد ازاں تبدیلی آ گئی لیکن سوائے چند ایک کے تمام امت اور علمائے امت اس عقیدہ پر متفق ہیں۔ چودہ سو سال سے صلحاء امت کا یہی عقیدہ ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام نے ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اپنی خطا کی معافی کے لیے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔۔۔ اسی طرح ایک جنگ میں جب یہودی پسپا ہو رہے تھے تو اپنی مقدس کتاب تورات کھول کر اس میں موجود اسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی انگلی رکھ کر دعا کی تو وہ جنگ فتح میں تبدیل ہوگئی۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک صرف 5 برس تھی، جب مکہ میں شدید قحط پڑا۔ لوگ پانی نہ ہونے کی وجہ سے مرنے لگے، اس وقت لوگوں نے اپنے سردار حضرت عبدالمطلب سے کہا کہ وہ بارش کی دعا کریں۔ حضرت عبدالمطلب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑا اور صحن کعبہ میں آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک کعبہ کی دیوار کے ساتھ لگا کر کھڑا کر دیا گیا اور ننھے شہزادہ سے کہا کہ وہ آج دعا کریں کہ قحط سالی ختم ہو جائے۔ پھر کیا تھا کہ ننھے شہزادے نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ مکہ کی خشک وادیاں بہنے لگیں۔
اسی طرح بخاری شریف کی ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ ایک دفعہ مدینہ منورہ میں بارش نہ ہونے سے لوگ پریشان تھے۔ خلیفہ دوم سیدنا عمر ابن خطاب نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت ابوالفضل عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کی کہ اے اللہ ہم اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیری بارگاہ میں وسیلہ بنایا کرتے تھے اب ہم تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کو وسیلہ پیش کر رہے ہیں، تو اسے قبول فرما۔ اس دعا کے فوری بعد بارش شروع ہوگئی۔
عقیدہ توسل اور وسیلہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہ عقیدہ اصل دین ہے۔ یہ عقیدہ جمیع صحابہ کرام کا ہے۔ یہ عقیدہ تمام سلف صالحین کا ہے اور اسی عقیدہ صحیحہ کا پرچار کرنے کی ضرورت ہے۔ امام بخاری اس عقیدے پر اتنے راسخ تھے کہ آج تک صحیح بخاری کی لکھی گئیں تمام شروح کے کسی ایک شارح حدیث نے بھی اس عقیدہ کو غلط قرار نہیں دیا۔ کسی ایک شارح حدیث نے عقیدہ توسل کو بدعت قرار نہیں دیا۔ کسی ایک شارح حدیث نے اس عقیدہ کو اپنی کتب سے خارج نہیں کیا۔ 12 سو سال پہلے لکھی گئی ’’کتاب الشرعیہ‘‘ میں بھی یہی عقیدہ ہے، جس کا آج حرمین شریفین سمیت سارے عرب و عجم میں درس دیا جاتا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ کے نظریہ کے حامل محدث علامہ شوکانی لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت میں موجود ہیں اور اپنے اوپر پڑھے جانے والے درود کی خود سماعت کرتے ہیں۔ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے تو اس وقت بھی آپ کے وسیلہ جلیلہ سے دعا قبول ہوتی تھی۔ علامہ ابن تیمیہ اس بات پر متفق ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت بھی نبی تھے جب حضرت آدم علیہ السلام پانی و مٹی کے مرحلہ میں تھے۔ زمین و آسمان کا وجود تک نہ تھا۔ عرش کے ستونوں پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا تھا، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی ’’محمد‘‘ درج تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امت محمدی کا تعلق کثیر الجہتی ہے۔
- پہلا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا ہے۔
- دوسرا تعلق محبت ہے۔ نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے نسبت رکھنے والی ہر شے سے محبت لازمی ہے۔
- تیسرا تعلق اطاعت کا ہے۔ ہر مسلمان کو اسوہ حسنہ کی کامل پیروی کرنا چاہیے۔
- چوتھا تعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کے ساتھ ادب، تعظیم اور توقیر ہے۔ اس تعلق کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب، آل و اولاد، آپ کی سنت اور ہر وہ شے اور ذات جس سے آپ کی نسبت ہو اس کی تعظیم اور توقیر ضروری ہے۔
- حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کی پانچویں جہت نصرت و جانثاری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی سربلندی کیلئے مسلمان ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہے۔ آج ہمیں امت میں عقیدہ صحیحہ کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔
دوسرا دن :
حضرت شیخ الاسلام نے قلی قطب شاہ اسٹیڈیم میں منہاج القرآن انڈیا کے زیراہتمام منعقدہ دو روزہ درس حدیث کے دوسرے دن (یکم مارچ 2012ء ) سینکڑوں علماء و ہزاروں سامعین سے خطاب کیا۔ اجلاس کی سرپرستی مولانا سید کاظم پاشا قادری الموسوی سجادہ نشین خانقاہ موسویہ نے کی۔
شیخ الاسلام کی گفتگو :
شیخ الاسلام نے احادیث کی کتب صحاح ستہ میں سے عقائد سے متعلق منتخب احادیث کو موضوع کلام بنایا اور تقریباً سوا تین گھنٹے تک مسلسل قرآن و حدیث کے حوالوں سے درسِ حدیث دیا۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعاؤں کی قبولیت کیلئے مجرب نسخہ خود سکھلایا ہے۔ جامع ترمذی میں ہے کہ ایک نابینا صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بینائی کے حصول کے لئے عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے یہ دعا سکھلائی کہ یوں کہہ : اے اللہ میں تیری بارگاہ میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں اور پھر یہ الفاظ سکھائے کہ :
يا محمد انی قد توجهت بک الی ربی فی حاجة هذه فتقضی لی اللهم فشفعه فی
’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی اس حاجت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ یہ حاجت بر آئے۔ اے اللہ اس معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔‘‘
گویا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استعانت طلب کرنے کے ساتھ یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ندا کرنے کی بھی ہدایت دی گئی۔ امام ترمذی کے علاوہ ابن ماجہ اور دیگر حدیث کی کتب میں اس کا ذکر موجود ہے۔ یہ حدیث خبر واحد نہیں ہے کہ جس پر اعتراض کیا جا سکے۔ اصحاب سنن، صحاح ستہ کے ہر ایک امام حدیث نے اس کو صحیح کہا ہے۔
امام نووی کتاب الاذکار میں حدیث الاستغاثہ بیان کرتے ہیں۔ امام بخاری اور دیگر ائمہ حدیث اسے بیان کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی حاجت در پیش ہو تو دو رکعت نماز نفل پڑھی جائے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کیا جائے۔ احادیث کتب میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں اس ارشاد پاک کے پیش نظر ایک نابینا اعرابی نے مذکورہ طریقہ کار کے تحت دعا کی تو اسے فوری بینائی مل گئی۔ علامہ ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث کی تائید کی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ کے نظریہ کے حامل علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے تحفۃ الذاکرین میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں اہل حدیث کے عالم عبدالرحمن مبارک پوری نے اپنی کتاب میں تقریباً ڈیڑھ صفحہ پر مشتمل اس حدیث سے متعلق تفصیل تحریر کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاجت طلب کرنا اور مدد مانگنے کے معاملہ میں ابتدائی دور اسلام یعنی متقدمین سے متاخرین تک کسی میں اختلاف نہیں ہے۔
آج بعض لوگ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ اعمال صالحہ سے توسل جائز ہے اور ذات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا اولیاء وصالحین سے جائز نہیں۔ اس طرح کا نظریہ پیش کر کے وسیلہ کا انکار کرنے والے درحقیقت 1300 برس کے اجماع امت کو رد کر رہے ہیں۔ عمل صالح خود کیا ہیں؟ کوئی بھی عمل حکم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمل صالح بنتا ہے، اگر امر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہو تو عمل خود بخود رد ہو جاتا ہے۔ پس عمل بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے عمل صالح بن رہا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سے ہٹ کر ہو تو وہ خود بدعت ہے۔ قرآن پاک میں ہے :
إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا.
(النِّسَآء ، 4 : 64)
’’اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے‘‘۔
یہ عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں جاری تھا اور قیامت تک اس آیت کا حکم جاری رہے گا۔
ایک مرتبہ اہل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوئے اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا تو انہوں نے کہا کہ جاؤ اور اس طرح دعا کرو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور آسمان کے درمیان میں کوئی پردہ نہ ہو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے روضہ انور کی چھت میں سوراخ کیا تو ایسی بارش ہوئی کہ مدینہ منورہ سرسبز و شاداب ہو گیا۔ جانور فربہ ہوگئے، یہاں تک کہ ان کے پیٹ پھٹنے لگے۔ مدینہ منورہ کی تاریخ میں اسے پیٹ پھٹنے کا سال قرار دیا گیا۔ اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ قبر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرنا ام المومنین کا حکم ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر اجماع ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود کئی موقعوں پر اپنی زلفوں کے بال اور اپنے ناخن تراش کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تقسیم کیا کرتے اور صحابہ کرام ان کو برکت کے حصول کے لئے اپنے پاس رکھتے اور اس کا وسیلہ پیش کیا کرتے تھے۔ جو عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور تبع تابعین کا تھا، مسلمان اسی پر عمل کریں اور مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم رہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عقیدہ اور عمل سے ہٹ جانا خود بدعت اور فتنہ ہے۔
بعد ازاں مولانا ڈاکٹر سید علیم اشرف نے خانوادہ اشرفیہ کی جانب سے شیخ الاسلام کی بھرپور تائید کا اعلان کیا۔ دورہ حدیث کے دوران سٹیج پر مولانا سید غوث محی الدین قادری، مولانا قاضی سید اعظم علی صوفی، مولانا حبیب موسیٰ الحسینی سمیت علماء، مشائخ کی بڑ ی تعداد موجود تھی۔
4۔ حیدرآباد (انڈیا) میں لاکھوں کے اجتماع سے خطاب
’’اتحادِ امت اور سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے عنوان سے تاریخی جلسہ عام دارالسلام (حیدر آباد، انڈیا) میں مورخہ 2 مارچ 2012ء کو منعقد ہوا۔ یہ جلسہ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے 54 سال کی تکمیل کے ضمن میں منعقد کیا گیا تھا۔ جس سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خصوصی خطاب کیا۔ جلسہ کی نگرانی نقیب ملت بیرسٹر اسد الدین اویسی صدر مجلس ورکن پارلیمنٹ حیدر آباد نے کی۔ سٹیج پر علماء، مشائخ، معززین، مجلسی ارکان مقننہ موجود تھے۔ حیدر آباد کی تاریخ کے اس سب سے بڑے اجتماع میں لاکھوں کی تعداد میں سامعین موجود تھے۔ دارالسلام کا وسیع وعریض میدان اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کر رہا تھا۔ تاحد نظر سروں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دکھائی دے رہا تھا۔ دارالسلام کا نہ صرف اندرونی حصہ پْر ہو چکا تھا بلکہ بیرونی راستوں پر بھی ہزاروں فرزندان اسلام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سننے کیلئے جمع ہو گئے تھے۔ یہ دارالسلام کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔
حضرت شیخ الاسلام نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو جائیں۔ کسی بھی قوم کی بقا ہمیشہ اتحاد میں ہے۔ قوموں کی موت افتراق اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے میں ہے۔ دنیا کا ہر فرد دہشت گرد ہو سکتا ہے لیکن غلام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ غلام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا انسانیت کا علمبردار ہوتا ہے۔ اسلام سے بڑھ کر نفس انسانی کے احترام کا فلسفہ کسی مذہب نے نہیں دیا۔ مسلمان اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کو مضبوط کریں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف اس دنیا میں بلکہ قبر، برزخ اور روزِ قیامت ہر جگہ ہمارے کام آئیں گے۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک، اسوہ حسنہ پر عمل کریں تو دنیا وآخرت میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔
(شیخ الاسلام کے اس خطاب کے پہلے حصہ کو ماہنامہ منہاج القرآن ماہ اپریل 2012ء کے شمارہ میں شائع کیا جا چکا ہے۔ آخری حصہ زیر نظر شمارہ کے ابتدائی صفحات پر ملاحظہ فرمائیں)
صدر مجلس بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ اس جلسہ عام میں عالم اسلام کی سرکردہ شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شرکت اہل حیدر آباد کیلئے سعادت کا موقع ہے۔ میں نے دورہ پاکستان کے موقع پر لاہور میں تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کے مختلف شعبوں کا مشاہدہ کیا۔ یہ تحریک حقیقی معنوں میں اسلام کی تعلیمات کو فروغ دے رہی ہے۔
اس تاریخی کانفرنس کے موقع پر سٹیج پر علماء مشائخ معززین اور سیاسی قائدین کی بڑی تعداد موجود تھی جن میں قابل ذکر مولانا سید محمد مقبول بادشاہ قادری شطاری، مولانا سید مسعود حسین مجتہدی، مولانا محمد رحیم الدین انصاری، مولانا سید تقی رضا عابدی، مولانا سید فضل اللہ قادری الموسوی، مولانا سید اسرار حسین رضوی، مولانا سید محمود بادشاہ قادری زرین کلاہ، مولانا سید شاہ ظہیر الدین علی صوفی قادری، مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی، جناب محمد ماجد حسین مئیر گریٹر حیدر آباد، مجلسی ارکان مقننہ مسرس سید احمد پاشا قادری، محمد ممتاز احمد خاں، محمد مقتدا افسر خاں، محمد وراثت رسول خاں، محمد معظم خاں، احمد بلعلہ، سید الطاف حیدر رضوی، سید امین الحسن جعفری کے علاوہ جوائنٹ سیکرٹری مجلس ایس اسے حسین انور، مولانا انوار احمد، ڈاکٹر امین الدین اویسی، جعفر حسین معراج سابق ڈپٹی مئیر، مولانا محمد فاروق علی، مولانا محمد عبدالرشید، مولانا سید آل رسول قادری حسنین پاشا، مولانا عبید عثمان العمودی اور دوسری اہم شخصیات موجود تھیں۔
٭ بھارت کے شہر حیدر آباد کی تاریخ کے سب سے بڑے اجتماع میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطاب کو بھارت کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بھر پور کوریج دی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے مکمل خطاب کو نش (Nish) ٹی وی، ایم کیو (MQ) ٹی وی، فور (Four) ٹی وی، سی سی این (CCN) ٹی وی، ای ٹی وی (ETV) اردو اور اردو (Urdu) ٹی وی سمیت کئی چینلز نے براہ راست نشر کیا۔
5۔ حیدرآباد میں درسِ اصول حدیث کی دو روزہ نشستیں
منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے زیراہتمام حیدرآباد دکن کے سٹی کنونشن سنٹر نامپلی میں دو روزہ درس اصول حدیث 3 مارچ 2012ء کو شروع ہوا۔ درس حدیث کے تاریخی اجتماع میں ہندوستان بھر سے سینکڑوں علماء و مشائخ اور اہل علم کے علاوہ ہزاروں افراد نے بھی شرکت کی۔ اس پروگرام کی صدارت مولانا سید کاظم پاشا قادری الموسوی نے کی، جبکہ جسٹس سید شاہ محمد قادری موظف (جج سپریم کورٹ) مہمان خصوصی تھے۔ ان کے علاوہ حضرت ابوالعلائی شاہ آغا محمد قاسم، سید اسرار حسین رضوی، مولانا قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی، مولانا سید محمد اولیاء، مولانا سید آل مصطفیٰ قادری، مولانا حبیب موسیٰ الموسوی، مولانا سید آل رسول قادری، مولانا سید محمد علی قادری ممشاد پاشا، مولانا محمد فاروق علی، ڈاکٹر امین الدین اویسی، جناب عبدالمنعم حاجی سیٹھ، مولانا سید حیات اللہ قادری، مولانا حبیب احمد الحسینی، مولانا سید انوار اللہ حسینی، حطیم سیٹھ اور دیگر معزز مہمان بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ سٹی کنونشن سنٹر کے اندر اور بیرونی حصہ پر بڑی ایل سی ڈی سکرینیں بھی لگائیں گئیں تھیں۔
شیخ الاسلام کے خطاب سے قبل علامہ مولانا سید کاظم پاشا قادری الموسوی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شیخ الاسلام فن حدیث کا سمندر ہیں۔ کیونکہ آج کی یہ نشست ہمارے لیے فن حدیث کا علم جاننے کا بہترین ذریعہ ہے۔ فن حدیث وہ علم ہے، جو چوکوں اور چوراہوں میں نہیں سیکھی جا سکتی۔ اس کے لیے علماء، صلحاء اور حدیث کا فن جاننے والے جید علماء کے حضور زانوئے تلمذ طے کرنے پڑتے ہیں۔ بعض لوگ صرف چند ہزار احادیث کو مان کر حدیث کے عالم ہو جانے کا دعویٰ کرتے ہیں، تو کیا ہم 8 لاکھ سے زائد احادیث پر عقیدہ قائم کر کے بھی حدیث کے اہل نہیں ہو سکتے؟ تاریخ انسانی میں بعض شخصیات اپنے فن اور کارناموں کے ذریعے تاریخ کا حصہ بنتی ہیں لیکن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خود تاریخ بنائی ہے۔ آج ہمیں اس عظیم علمی سمندر سے استفادہ کرنا چاہیے، یہ ہماری زندگی کے خوش قسمت ترین لمحات ہیں۔
درسِ اصولِ حدیث :
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فن اصول حدیث کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں دو فتنوں نے صحیح العقیدہ مسلمانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ ایک فتنہ صرف قرآن کو مانتا ہے اور حدیث کا انکار کرتا ہے جبکہ دوسرا فتنہ قرآن کے ساتھ صرف اسی حدیث کو مانتا ہے، جو قرآن سے ثابت ہے۔ آج ان دونوں فتنوں کا سد باب کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی پسند کی احادیث کو مان کر کچھ احادیث کو چھوڑ دینا، یہ طریقہ اصول حدیث اور فن حدیث کے خلاف ہے۔ دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں 1400 سال میں تمام ائمہ نے قرآن و حدیث کے درجہ میں کوئی فرق نہیں کیا۔ آج اگر کوئی شخص قرآن و حدیث میں فرق کرتا ہے تو وہ سرا سر جھوٹا اور فتنہ پرور ہے کیونکہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ صرف صحیح بخاری کو مانتا اور دوسری احادیث کو نہیں مانتا تو یہ فتنہ پروری ہے۔ یہ اصول جہالت کی اختراع ہے۔ ایسا کہنے والوں نے اصول حدیث اور فن حدیث کی کتابیں ہی نہیں پڑھیں۔
آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ خبردار! جان لو کہ مجھے دو چیزیں عطاء کی گئیں، ایک قرآن اور دوسری میری سنت ہے۔ احکام اسلام کی پیروی کے لئے ان دونوں سے رہنمائی لینا یکساں ناگزیر ہیں۔ ان دونوں میں فرق صرف ترتیب کا ہے، ترتیب میں پہلے قرآن پاک اور پھر درجہ حدیث ہے۔ اس لیے اب اگر کوئی یہ کہے کہ وہ قرآن کو تو مانتا ہے لیکن حدیث کو نہیں مانتا تو یہ واضح طور پر احکام قرآن کا انکار ہے۔ یہ فتنہ اور دھوکہ ہے۔ اہل ایمان کی نشانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اطاعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان میں شامل ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اسی طرح مطلق امر ہے جس طرح اللہ کی اطاعت میں ’’لیکن‘‘، ’’اگر‘‘ جیسے الفاظ کی گنجائش نہیں ہے۔
حدیث کی تین اقسام ہیں، ایک حدیث صحیح، دوسری حدیث حسن اور تیسری حدیث ضعیف ہے۔ تینوں احادیث میں فرق صرف احکام کا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ حدیث ضعیف کو نہیں مانتا تو وہ جاہل، جھوٹا اور منکر ہے۔ جو ضعیف کہہ کر حدیث کو خارج کرے وہ خود خارجی ہے۔ حدیث کو ضعیف کہہ کر خارج کرنے سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ہو سکتا۔ گزشتہ 1200 برس کے دوران کسی بھی مکتبہ فکر کے عالم نے ایسا نہیں کہا کہ چونکہ فلاں حدیث ضعیف ہے اس لئے وہ حدیث کے درجہ سے ہی خارج ہے۔ ضعیف حدیث کو نہ ماننے والے جاہل ہیں۔
حدیث کے دو حصے متن اور سند ہیں۔ حدیث کی قبولیت کی بنیاد متن پر نہیں ہے کیونکہ حدیث حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے منسوب ہے۔ حدیث مبارکہ کی قبولیت کی بنیاد اسناد یعنی سلسلہ روایت ہے۔ فن حدیث میں سلسلہ اسناد کی بنیاد پر متن کو قبول کیا جاتا ہے۔ حدیث بیان کرنے والی شخصیت اگر معتبر ہو تو قولِ رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبول کیا جاتا ہے۔ اس قاعدے اور قانون سے پتہ چلتا ہے کہ سارا دار و مدار ذات یعنی شخصیت پر ہے۔ پس اس سے یہ عقیدہ قائم ہوا اور ہمارے عقیدے کی پہچان بھی یہی ہے کہ ہم پہلے ذات کو مانتے ہیں اور پھر بات کو مانتے ہیں لیکن آج ایسا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا ہے جو صرف بات کو ماننے کا دعویٰ کرتا ہے۔ بعد میں ذات کو ماننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو دین کی اصل اور بنیاد کے ہی خلاف ہے۔
صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں، وہ صحیح ہیں، لیکن یہ سمجھنا کہ جو حدیثیں صحیح ہیں وہ تمام کی تمام صرف صحیح بخاری میں موجود ہیں اور صحیح بخاری کے علاوہ کوئی حدیث صحیح نہیں ہو سکتی تو یہ عقیدہ غلط ہے۔ حافظ ابن کثیر کی بات کو آج بعض نام نہاد علماء رد نہیں کر سکتے۔ حافظ ابن کثیر نے اپنے شیخ علامہ ابن تیمیہ سے اکتساب فیض کیا۔ انہوں نے کہا کہ بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر شیوخ کی سینکڑوں کتب احادیث میں ہزار ہا احادیثِ صحیحہ کا خزانہ موجود ہے۔ اس لیے صحیح احادیث کو کسی امام کے ساتھ منسوب کر دینا درست نہیں بلکہ احادیث صحیحہ درجہ کے اعتبار سے بخاری و مسلم سمیت صحاح ستہ اور دوسری کتب میں بھی موجود ہیں۔
اس طرح احادیث صحیحہ کے لیے صحاح ستہ کے علاوہ بھی کئی کتب احادیث اہم ہیں، جو ان سے پہلے اور بعد کے شیوخ نے لکھی ہیں۔ موجودہ دور میں یہ جہالت عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کتب حدیث میں موجودہ حدیث غیر صحیحہ کو رد اور باطل قرار دیا جائے۔ جبکہ ’’حدیث غیر صحیح‘‘ اصول حدیث کی ایک اصطلاح ہے۔ ’’غیر صحیح حدیث‘‘ کا مطلب و معنی اردو زبان والا نہیں ہے بلکہ ’’حدیث صحیح‘‘ اور ’’غیر صحیح‘‘ کے درمیان پانچ شرائط کا فرق ہے۔ حدیث مقبول کو بھی غیر صحیح کہا جا سکتا ہے۔ اگر ’’غیر صحیح احادیث‘‘ کو نہ مانا جائے تو اکثر احکام پر عمل ہی ترک ہو جائے گا۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ صرف صحیح بخاری کی حدیث کو ہی مانیں گے تو صحیح بخاری میں بیٹھ کر پیشاب کرنے کی روایت ہی نہیں آئی، صحیح بخاری میں صرف کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی روایت آئی ہے۔ پس جو لوگ صحیح بخاری کے علاوہ دیگر کتب احادیث کا انکار کرتے ہیں وہ آج سے پھر صرف کھڑے ہوکر پیشاب کیا کریں یا پھر اپنے اس خود ساختہ تصور کی اصلاح کریں کہ صرف صحیح بخاری میں مذکور احادیث ہی صحیح ہیں۔ اسلامی تاریخ میں 1400 سال سے کسی عالم حدیث نے یہ جملہ نہیں کہا کہ وہ صرف بخاری یا مسلم کو مانتے ہیں اور دیگر ائمہ احادیث کو نہیں مانتے۔ بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر کتب حدیث سے انکار کرنا دین اور شریعت کو پامال کرنا ہے۔ بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر کتب حدیث کا انکار فتنہ، جھوٹ اور جہالت کی انتہاء ہے۔
حیدرآباد دکن میں یہ دو روزہ درس حدیث کی خصوصی نشست آنے والی نسلوں کے لیے علمی خزانہ ہے۔ آنے والی نسلوں کے لیے علمی پیغام ہے کیونکہ میں علماء کو علمی جرات دینے کے لیے آیا ہوں اور یہ پیغام پہنچانے آیا ہوں کہ جس عقیدہ اور مسلک پر وہ قائم ہیں، اس پر سواد اعظم کا اجماع ہے۔
دوسرا دن :
منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا حیدر آباد دکن کے زیراہتمام سٹی کنونشن سنٹر حیدرآباد میں دو روزہ دورہ اصول حدیث کے دوسرے دن 4 مارچ 2012ء شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اصول حدیث پر خصوصی اظہارِ خیال کیا۔
ابتداء میں مولانا سید عالم مصطفیٰ قادری الموسوی علی پاشاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حکم دیا کہ تم میرا ذکر کیا کرو، میں تمہارا ذکر کیا کروں گا۔ اس آیت کے پیش نظر ڈاکٹر طاہر القادری نے دنیا میں خدمت دین کی جس راہ کو منتخب کیا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ دنیا بھر میں اپنی منفرد پہچان اور ایک علمی اتھارٹی بن چکے ہیں۔ طاہرالقادری کی فکر گنبد خضراء کے فیض سے فیض یافتہ ہے، یہی وجہ ہے کہ مخلوق ان کی آواز کو سن کر کشاں کشاں ان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آج ہمیں اس عالم دین کی قدر کرنی ہو گی، جو کسی ایک مخصوص علاقے اور لوگوں کی ملکیت نہیں بلکہ عالم اسلام کی پہچان بن چکے ہیں۔
درسِ اصولِ حدیث :
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دورہ اصول حدیث میں پہلے روز کے موضوع کے تسلسل کو آگے بڑھایا اور ساڑھے 4 گھنٹے تک اصولِ حدیث کی تفصیلات کو بیان فرمایا۔ آپ نے کہا کہ تمام ائمہ حدیث کا اس بات اور اصول پر اجماع ہے کہ ضعیف حدیث قبول کرنا جائز ہے۔ کفر و ایمان اور حرام و حلال کا مسئلہ کے علاوہ باقی تمام معاملات اور امور میں ضعیف حدیث کو قبول کرنا مستحب قرار دیا گیا ہے۔ احکام شرعی کے باب میں ضعیف حدیث سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس پر عالم اسلام کے کسی مکتبہ فکر نے انکار نہیں کیا۔ ہر امام حدیث نے یہ بات مانی ہے کہ جسے ضعیف حدیث کہا جا رہا ہے، حقیقت میں اس کا متن کمزور نہیں بلکہ اس کی صرف اسناد میں سقم یعنی کمزوری ہے۔ امام بخاری سے تمام ائمہ تک ضعیف حدیث کا بیان کرنا جائز ہے، بلکہ اکثر ضعیف حدیثوں سے اعمال و فضائل اور احکام شریعت تک ثابت ہوئے ہیں۔ اگر ضعیف حدیث کو چھوڑ دیا جائے یا ترک کر دیا جائے تو ان احکام شریعت کو بھی چھوڑنا ہوگا، جو آج ہم ضعیف احادیث کے ثبوت کی وجہ سے بجا لا رہے ہیں۔
امام بخاری نے جن 16 لاکھ سے زائد احادیث کو جمع کیا، ان میں سے 3 لاکھ احادیث کو زبانی یاد کیا۔ تین لاکھ میں سے انہوں نے ایک لاکھ احادیث کو صحیح قرار دیا، باقی دو لاکھ احادیث کو امام بخاری نے حدیث حسن یا حدیث ضعیف قرار دیا۔ بعد ازاں اپنی کتاب الجامع الصحیح میں صرف 7 ہزار احادیث صحیحہ کو شامل کیا۔ امام بخاری کے مطابق انہیں ایک لاکھ صحیح احادیث زبانی یاد تھیں، لیکن وہ تمام کو بخاری میں جمع نہیں کر سکے۔ اس طرح امام احمد بن حنبل کو 7 لاکھ احادیث زبانی یاد تھیں، اس میں سے آپ نے تقریباً 30ہزار کو جمع کر کے اپنی حدیث کی کتاب "مسند احمد بن حنبل" مرتب کی۔ امام احمد بن حنبل اگر 7 لاکھ احادیث کو کتاب کی شکل دیتے تو 70 جلدیں ہو جاتیں۔ امام ابن الصلاح جو اصول حدیث کے بانیان میں سے ہیں، ان کی مثال بھی آپ کے سامنے ہے۔ ان کی کتب کا کسی مکتب فکر کے علماء نے انکار نہیں کیا ہے۔ یہ کتب ہر مکتبہ فکر کی جامعات اور تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان تمام کا اس بات پر اجماع ہے کہ ضعیف حدیث سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ امام بخاری و امام مسلم نے وہ تمام احادیث جن پر صحیح ہونے کا حکم ہے ان تمام احادیث کو اپنی کتابوں میں جمع نہیں کیا بلکہ طوالت کے خوف سے اس میں سے منتخب احادیث کو شامل کیا۔
ضعیف احادیث سے کئی احکام شریعت اور اعمال ثابت ہیں۔ ضعیف احادیث کو جمع کرنا امام بخاری کی کتابوں سے ثابت ہے۔ عورت کی ماہواری سے متعلق، عیدین کے احکام، صدقہ کے جائز ہونے کے احکام اور دیگر احکام شریعت ضعیف حدیثوں سے ثابت ہیں۔ اس لیے جمہور ائمہ حدیث کے مطابق احکام کے باب میں بھی ضعیف احادیث سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
علماء و مشائخ دین کی خدمت کے لیے عقائد، فقہ، حدیث اور دیگر علوم پر محنت کریں۔ کیونکہ اسلام کا صحیح پیغام دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے تمام علوم سے بہرہ ور ہونا لازمی ہے۔ حیدرآباد دکن میں دوہ روز اصول حدیث کی اس نشست نے ایک علمی تاریخ رقم کر دی ہے۔ جس سے دنیا بھر میں کروڑوں مسلمانوں کے ایمان کو تقویت ملے گی۔ حدیث کے حوالے سے کئی ابہام اور شبہات کا ازالہ ہو گا۔ مسلمان نفرت پر مبنی فتاویٰ کے ذریعے مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور انہیں کافر قرار دینے کی رسم چھوڑ دیں۔ علماء کرام کو چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اہل بیت، صحابہ کرام، تابعین، اولیائ، صالحین کے طریقہ کار پر چلیں اور عشق و محبت کے ذریعے عالم اسلام کو ایک وحدت کی لڑی میں پرو دیں۔
کوئی شخص کسی مسلک کا ٹھیکیدار نہیں، جہالت اور کم نظری کی وجہ سے مسلک اہل سنت کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ اس کے خلاف طرح طرح کی فتوے بازی کا سلسلہ شروع ہے۔ ہر کوئی خود کو اہل سنت کا ٹھیکیدار کہہ رہا ہے جبکہ علمی طور پر کسی نے بھی اہل سنت کے لیے کچھ نہیں کیا۔ آج کچھ نام نہاد لوگ اپنے فتوئوں سے لوگوں کو سُنی ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر رہے ہیں، لیکن وہ سن لیں کہ کسی کے کہنے یا نہ کہنے سے کوئی سُنی نہیں ہو جاتا۔ میں علمی روشنی پھیلا کر بدعلمی، بدعقیدگی اور انا پرستی کی دیواروں کو گرانے کے لیے آیا ہوں۔ اسی انا پرستی نے ہمیشہ اسلام کو نقصان پہنچایا ہے۔ اہلِ سنت کو تقسیم کرنے کے فتوؤں کو ردی کی ٹوکری کی نذر کر دینا چاہیے۔ اہل سنت کو ایک فرقہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ یہ طریقہ سواد اعظم کا ہے۔ یہ اہل بیت، صحابہ کرام، تابعین اولیاء اور صلحاء کا مسلک ہے۔ ہمیں ہر جگہ اپنی پہچان اہل سنت کے طورپر کروانی چاہئے اور اس سے کم کسی بھی ٹائٹل کو اپنے لئے قبول نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اہل بیت، صحابہ کرام، تابعین اولیاء اور صلحاء بھی مسلک اہل سنت پر تھے۔ بریلوی کوئی مسلک نہیں ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کسی کتاب میں بریلویت کو مسلک کے طور پر متعارف نہیں کروایا اور نہ کبھی اپنے آپ کو بریلوی لکھا۔
اگر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی وجہ سے بریلویت کو ایک مسلک مان لیا جائے تو مجھے بتایا جائے کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے قبل کے ائمہ کس مسلک کے پیروکار تھے؟ لہذا یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہمارا مسلک اہل سنت ہے، یہی مسلک سوادِ اعظم کا ہے۔ اگر ہم نے اپنے آپ کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے قبل کسی بزرگ کے ساتھ مسلک کے حوالے سے منسوب نہیں کیا تو پھر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے نام کے حوالے سے اپنے مسلک کو کیوں متعارف کروائیں۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے مجدد تھے۔ عاشق رسول تھے جنہوں نے عظمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے اٹھنے والے ہر فتنہ کو رد کیا۔ مجھے منامی طور پر بھی آپ کی شاگردگی کا اعزاز حاصل ہے۔ میں صرف ایک واسطہ سے اعلیٰ حضرت کا شاگرد ہوں۔ کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنے خود ساختہ خیالات و عقائد کی بناء پر دوسروں کو اہل سنت کی صف سے خارج کرے۔ علماء اپنے قول و عمل سے مسلکِ اہل سنت کو تقویت دیں، اس کی کمزوری کا باعث نہ بنیں۔
دوسری نشست کے اختتام پر شیخ الاسلام نے شرکاء کو چاروں ائمہ کرام فقہ حنفی، فقہ شافعی، فقہ مالکی، فقہ حنبلی اور صحاح ستہ کے ائمہ حدیث بخاری، مسلم، ترمذی، ابودائود، ابن ماجہ اور نسائی کے علاوہ شریعت و طریقت کی بھی مختلف اسانید احادیثِ جاری کیں۔
6۔ کچھ( گجرات) میں لاکھوں کے اجتماع سے خطاب
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے انڈیا کی ریاست گجرات کے ضلع کچھ میں عشاقان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لاکھوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام دین امن و سلامتی ہے۔ تنگ نظری اور انتہا پسندی کے الاؤ میں وہ لوگ جل رہے ہیں جنہوں نے اسلام کی روح کو سمجھا ہی نہیں۔ سرزمین ہند میں ہونے والی میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس میں شریک لاکھوں مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کھینچ لائی ہے اور یہ سب دنیا کو محبت و امن و سلامتی کا پیغام دینے کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ جس دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے محبت کے چشمے پھوٹتے ہیں تو وہ کسی جانور کو بھی گزند پہنچانے کا تصور نہیں کر سکتا۔ امن کی بحالی کیلئے ضروری ہے کہ آقا کی ذات سے تعلق کو پختہ کیا جائے۔ ذات سے تعلق مضبوط ہو گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی تحریک ملے گی۔ باطن کو نور اور امن سے مزین کرنے کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب سیکھنا ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب سے عاجزی اور انکساری آئے گی اور معاشرے میں محبت کی خوشبو پھیلے گی اور جس دل میں محبت کا سمندر موجزن ہو جائے اس جسم سے دوسرے کیلئے سلامتی اورمحبت کے رویے ہی پھوٹ سکتے ہیں۔
اللہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت کی طرح مطلقاً واجب کر دیا ہے۔ ذکر خدا سے ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جدا نہیں کیا جا سکتا اور یہی اصل ایمان ہے۔ مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر عمل کو اپنا شعار بنائیں۔ قرآن مجید کی 150 آیات میں حدیث مبارکہ اور سنت مبارکہ کی حجت ہونے کو بیان کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو بھی واجب قرار دیا ہے۔ قرآن مجیدنے منافقوں کی پہچان یہ بتائی کہ وہ اللہ کے احکام کو تو قبول کرتے ہیں لیکن انہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ماننے سے انکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رسول جو کچھ عطا کریں تم پر واجب ہے کہ اسے قبول کر لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
امت کو نعمت اسلام میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے نصیب ہوئی اور پورا قرآن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق اور سیرت پر اعلیٰ کتاب ہے۔ محبت اور ادب ایمان کی متاع ہے آج داخلی اور خارجی قیام امن کیلئے محنت کی ضرورت ہے۔ من کی دنیا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے سیراب کرنا ہو گا۔ نفسانی خواہشات کو ختم کر کے باطن کو تقوی، طہارت، توحید الٰہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منور کر لیا جائے تو امت کا ہر فرد اپنے اپنے ملک میں امن و سلامتی بکھیرنے والا بن جائے گا۔ مخلوق آقا کا میلاد منانے کا حق ادا نہیں کر سکتی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد خود اللہ نے منایا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی تمام خوشیوں سے بڑھ کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی منانی چاہیے۔
عقیدت مندوں سے ملاقات اور خصوصی ہدایات
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دورہ بھارت میں 8 مارچ 2012ء کو ضلع کچھ، ریاست گجرات میں ایک مقامی ہوٹل میں اسکالرز سے خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس نشست کے لیے ہوٹل میں مخصوص اور محدود پیمانے پر انتظام کیا گیا اور خصوصی پاسز جاری کیے گئے لیکن پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی ہزاروں لوگ اس نشست میں شیخ الاسلام سے ملاقات کی خواہش لئے مقامی ہوٹل پہنچ گئے۔ اس موقع پر منتظمین نے انتظامات اور سیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اس پروگرام کو فوری طور پر منسوخ کر دیا کیونکہ ان ہزاروں شرکاء کا ہوٹل میں داخلہ ممکن نہیں تھا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ان ہزاروں لوگوں کے جذبہ محبت کو دیکھ کر انتظامیہ کو ہدایت کی کہ تمام لوگوں کو علیحدہ علیحدہ وفود اور گروپس کی شکل میں ملاقات کرنے دی جائے۔ جس کے بعد انتظامیہ نے ہزاروں لوگوں کی گروپس کی شکل میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے ملاقات کرائی۔
اس ملاقات میں شیخ الاسلام نے تمام عقیدت مندوں اور محبین کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں درج ذیل خصوصی ہدایات دیں :
- تمام لوگ غیبت سے پرہیز کریں۔
- جھوٹ بولنے اور کذب سے پرہیز کریں۔
- بری عادات (شراب نوشی، زنا) اور تمام حرام چیزیں ترک کر دیں۔
- گالم گلوچ سے پرہیز کریں۔
- پانچ وقت کی نماز کی پابندی کریں۔
- رمضان کے روزے باقاعدگی سے رکھیں۔
- صاحب ثروت لوگ زکوۃ ادا کریں۔
- قرآن مجید کی تلاوت کریں۔
- کتابوں کو پڑھیں۔
- حلقہ درود قائم کریں۔
- کسی انسان سے زیادتی ہو گئی ہو تو اس سے معافی مانگیں۔
- کسی ظلم اورفساد میں شریک نہ ہوں۔
- امن و محبت سے رہیں، ہندو و مسلم ہر انسان سے بھلائی کریں۔
- مشن منہاج القران کی خدمت کریں۔
7۔ بنگلور (انڈیا) میں لاکھوں کے اجتماع سے خطاب
بھارت کے شہروں حید ر آباد، گجرات، دہلی اور کچھ میں ہونے والے تاریخی اجتماعات کے بعد11 مارچ 2012ء شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا بنگلور میں بھی لاکھوں مسلمانوں نے عظیم الشان استقبال کیا۔ جب آپ خطاب کیلئے پیلس گراؤنڈ پہنچے تو انسانوں کا ایک سمندر ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھا۔ شیخ الاسلام نے ان لوگوں کی محبت اور جذبات کے اس منظر کو دیکھتے ہوئے کہا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ خطاب کی بجائے آپ کو دیکھتا رہوں۔
شیخ الاسلام نے مسلمانوں کے متلاطم سمندر سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنے والے کے ہر عمل سے سلامتی محبت، خیر، مواخات، احترام انسانیت، اختلاف رائے کا احترام اور برداشت کے رویے پھوٹتے ہیں۔ جسکے باطن کی دنیا عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لبریز ہو جائے وہ پوری انسانیت کیلئے سراپا سلامتی بن جاتا ہے۔ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ نعمت ہے جو باطن کی دنیا میں انقلاب لے آتی ہے۔ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے ہی محبت و مواخات عام ہو گی اور نفرت و انتقام کے رویے رخت سفر باندھیں گے۔
آج امت مسلمہ غلامی کے سارے طوق اتار پھینکے اور غلامی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پٹے کو فخر کے ساتھ پہن لے تو ہمارا زوال رخصت ہو جائے گا اور دائمی عروج مقدر بن جائے گا۔ تحریک منہاج القرآن اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لازم و ملزوم ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کرنے والا انسانوں سے نفرت نہیں کر سکتا اسکے ہر عمل سے خیر اور سلامتی کے رویے پھوٹتے ہیں۔ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فروغ ہی مختلف معاشروں کو انتہا پسندی، دہشت گردی سے دائمی نجات دلا سکتا ہے۔
دنیاکا ہر فرد دہشت گرد ہوسکتا ہے لیکن غلام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زندگیاں سنوارنے کے لئے ناگزیر ہے کہ ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی، حبی اور عشقی تعلق قائم کیا جائے۔ ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق مضبوط ہونے کے بعد تعلیمات پر عمل نہ صرف آسان ہوجاتا ہے بلکہ اس میں حلاوت بھی شامل ہوجاتی ہے۔
لوگو! میری پوری زندگی امت مسلمہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت کا شعور دینے میں گزر گئی ہے اور میری حیات کا مقصد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کے ڈنکے بجانا ہے۔ انڈیا کے مسلمانوں کا عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھ کر مجھے حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی یاد آرہی ہے۔
٭ بھارتی میڈیا کے اعداد وشمار کے مطابق 20 لاکھ سے زائد مسلمانوں نے بنگلور میں ہونے والے اجتماع میں شرکت کی۔ بھارت کے پانچ شہروں میں تحریک منہاج القرآن انڈیا کے تحت ہونے والے مختلف اجتماعات میں مجموعی طور پر 80 لاکھ سے زائد مسلمانوں نے شرکت کی اور مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعے 10 کروڑ سے زائد مسلمانوں نے ان خطابات کو براہ راست دیکھا اور سنا۔ انڈیا کی تاریخ میں یہ کسی بھی سکالر کو سننے کا سب سے بڑا ریکارڈ ہے۔
8۔ اجمیر شریف میں شیخ الاسلام کا خطاب
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 13 مارچ 2012ء کو درگاہ اجمیر شریف پر خصوصی خطاب کیا۔ سلطان اولیاء، سلطان الہند اور نائب النبی حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری کی درگاہ عالیہ پر ہزاروں شرکاء کا مجمع موجود تھا۔ درگاہ اجمیر شریف کے خدام میں حضرت سید معین الدین، سید راحت حسین، آغا آغائی اور حضرت صدیق الحسن کے علاوہ حضرت خواجہ غریب نواز کے تمام سجاد گان اور علمائے مشائخ ہند کی بہت بڑی تعداد بھی اس اجتماع میں شریک تھی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب سے قبل حضرت خواجہ غریب نواز کی درگاہ پر قدیم طریقہ کار کے مطابق روایتی انداز میں حاضری دی۔ حاضری کے بعد درگاہ کے احاطہ میں ہی کل انجمن معینیہ چشتیہ ہند کے زیراہتمام خصوصی اجتماع کا انعقاد کیا گیا۔ انتظامیہ کی طرف سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو باقاعدہ طور پر خوش آمدید کہا گیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے "حضور خواجہ غریب نواز اور اولیاء اللہ کا مقام و مرتبہ" کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میری روح اور میری نس نس حضرت خواجہ غریب نواز کی محبت سے معمور ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سنگت پر ہمیشہ برقرار رکھے۔ حضرت خواجہ فخر الدین گردیزی کی ساری اولاد آج بھی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر استقامت سے بیٹھی ہے۔ یہ حضور خواجہ غریب نواز کے اصل خدام ہیں، جنہوں نے صدیاں بیت جانے کے بعد بھی اس در کی غلامی نہیں چھوڑی، یوں وہ 800 سال سے خواجہ غریب نواز کے در سے جڑے بیٹھے ہیں اور یہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی زندہ کرامت ہے۔
شیخ الاسلام نے اپنے خطاب میں متعدد احادیث مبارکہ اور قرآنی حوالہ جات سے اولیاء اللہ کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن کے مطابق "صرف متقی لوگ ہی اللہ کے ولی ہوتے ہیں"۔ قرآن پاک کے آیت کریمہ کا بعض لوگوں نے غلط مفہوم یہ سمجھا کہ اولیاء اللہ کوئی خاص لوگ نہیں، بلکہ ہر نیک بندہ، ولی اللہ ہے۔ یہ تصور سرا سر غلط ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی متعدد احادیث کے مطابق اولیاء اللہ ایک خاص طبقہ ہے۔
دنیا میں بہت بڑے سلاطین بھی گزرے، لیکن دنیا میں کسی سلطان اور بادشاہ کی محبت مخلوق میں ایسے جاگزیں نہیں ہوئیں، جتنی 8 صدیاں گزرنے کے بعد بھی سلطان الہند کی محبت ہے۔ آج بھی مخلوق میں خواجہ غریب نواز کی محبت کے چراغ جل رہے ہیں۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ قیامت کے دن ابھی حساب و کتاب بھی شروع نہیں ہوا ہوگا کہ جب میری امت کا پہلا طبقہ جنت میں جائے گا، اللہ پاک فرمائیں گے کہ اے حبیب حساب و کتاب کے کھاتے بعد میں کھولتے ہیں، لیکن پہلے ان لوگوں کو جنت میں داخل کر دیں، جن کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہیں اور یہ لوگ اللہ کے ولی ہوں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھلایا اور پلایا جائے گا۔ زلفیں اور بال سنوارنے کے لیے ان کے کنگھے سونے اور چاندی کے ہوں گے۔ ان کے پسینہ سے کستوری کی خوشبو آ رہی ہو گی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جتنے اولیاء قیامت کے دن ہوں گے ان کے درمیان کوئی اختلاف اور بغض نہیں ہو گا۔
حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "جو میرے کسی ایک ولی سے عداوت رکھتا ہے، میں اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیتا ہوں"۔ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کا مقام و مرتبہ اور طاقت دکھانا چاہتا ہے کہ جس نے میرے کسی ادنیٰ سے ولی سے بھی عداوت رکھی تو اس کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اب اگر سلطان الہند ہوں، تمام ولی جس کے در کے سائل ہوں، جو نائب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں تو اس کے خلاف جو عداوت رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے خلاف بھلا کیسے جنگ نہیں کرے گا۔ اللہ کا حکم ہے کہ جب تم میرے ولی کی بارگاہ میں جاؤ تو اس کے سامنے تواضع سے، ادب سے اور محبت سے جھکو، جو میرے ولی کے سامنے جھکا نہیں، جس نے میرے ولی کا ادب نہیں کیا، جس نے میرے ولی کے سامنے عاجزی کا مظاہرہ نہیں کیا تو اس نے مجھے چیلنج کر دیا کہ میرے اولیاء کی بے ادبی کرنے والے! کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تو میرے سامنے ٹھہر سکے گا۔ کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ میرے سامنے تیری طاقت بڑھ جائے گی۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ جب ولیوں کی عزت اور حرمت کا معاملہ آتا ہے تو یہ کام میں خود اپنے ذمے لیتا ہوں۔
شیخ الاسلام نے اڑھائی گھنٹے سے زائد خطاب کیا، جس میں انہوں نے اولیاء اللہ کی شان کو قرآن و حدیث کے متعدد حوالوں سے بیان فرمایا۔
9۔ ممبئی میں عوام کے جم غفیر سے خطاب
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دورہ انڈیا میں 15 مارچ 2012ء کو برلاماتوشری سبھاگرہ ممبئی میں اجتماع منعقد ہوا، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا اور منہاج القرآن انٹرنیشنل ممبئی کے قائدین بھی اسٹیج پر موجود تھے۔
خطاب شیخ الاسلام : تاریخی اجتماع میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے "دنیا نفرت کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتی" کے مرکزی خیال پر مبنی "اسلام امن اور رحمدلی کا مذہب" کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
قرآن مجید میں پہلی وحی کا آغاز بھی لفظ 'اقراء ' سے ہوا۔ پہلی وحی میں اللہ تعالیٰ نے علم، امن، محبت، رحمدلی اور جمہوریت کی تعلیم دی ہے۔ اگر اللہ تعالی چاہتا تو عبادت، روزہ یا کسی اور حکم الٰہی سے وحی کا آغاز کر سکتا تھا، لیکن اللہ تعالی نے وحی قرآنی کے ذریعے اسلامی تعلیم کا آغاز ’’علم‘‘ اور’’ انسانیت‘‘ سے کیا اور یہی اسلامی تعلیمات کا مرکزی پیغام بھی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت علم اور انسانیت کے لئے کی گئی، کہ دنیا میں علم کا نور پھیلایا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کے احترام کا اصول نہ صرف انسانیت کو دیا بلکہ خود کو ایک نمونہ کے طور پر انسانیت کے سامنے رکھا۔
جب حبشہ ہجرت میں بادشاہ نجاشی کے سامنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا تھا، کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ہیں اور اسلام کی تعلیمات کیا ہیں؟ اس پر حضرت جعفر بن طیار رضی اللہ عنہ نے ایک تفصیلی جواب دیا کہ "ہم گنوار اور غیر مہذب تھے، طاقتور، کمزورں کو کھا جاتے تھے، ہم کسی قانون کے پابند نہیں تھے، کسی کی حاکمیت کو قبول نہیں کرتے تھے، ہمارا قانون صرف طاقت تھا، ہم رشتہ داروں کو قتل کرتے تھے، پڑوسیوں اور دوسرے انسانوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے، پھر اللہ نے ہم میں سے ہی ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا، ہم جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صادق اور امین ہیں، ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقدس، پاکیزگی، طہارت اور امانت سے خوب واقف تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خبردار کیا کہ جھوٹ نہ بولو سچ بولو، ہمیں کہا کہ کمزوروں کی حفاظت کرو، غریبوں، بیواؤں اور بے آسرا لوگوں کی حفاظت کرو، یتیموں کو پالو، عورتوں کو عزت دو اور ان پر الزام تراشیاں نہ کرو، امانت دار بنو، حکم دیا کہ پڑوسیوں اور خونی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرو، کہا کہ خبردار انسان انسان کا خون نہ بہائے، غیر اخلاقی کاموں سے روکا، کہا کہ کسی کو دھوکہ نہ دو، کسی کی جائیدادیں ہڑپ نہ کرو۔
حضرت جعفر بن طیار کا یہ جواب سن کر نجاشی بادشاہ رو پڑا اور اس نے کہا کہ پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں نے اپنی کتابوں میں یہی پڑھا تھا۔
انسانی اقدار سے محبت اور انسانیت کو آج نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ لوگ خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ 'مسلمانیت' 'انسانیت' کی حفاظت، ترقی، انسان کے احترام، امن اور انصاف و رحمدلی کا نام ہے۔
میں بذریعہ علم و شعور پیغامِ امن لے کر انڈیا آیا ہوں، میں ہر دہشت گرد کا دشمن ہوں۔ ہر انسان کی جان بچانے کے لئے ہم سب کو آگے بڑھنا چاہیے، چاہے اس میں ہماری جان بھی چلی جائے۔ پیغام محمدی کو پھیلانے اور عام کرنے کے اہم مشن کے فروغ کے لئے طاہر القادری کی جان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ میں پیغام محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عام کرنے کے لیے ساری دنیا میں سفر کرتا ہوں، جس کا مقصد یہ ہے کہ انسان انسان سے محبت کرے، میں نفرت کو مٹانے اور نفرت کو محبت سے بدلنے کے لئے دنیا بھر میں مصروفِ عمل ہوں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ جو پہلا پیغام بھیجا وہ بھی انسانیت کی تعلیم تھی کہ زنا نہ کرو، چوری نہ کرنا، بچوں کو قتل نہ کرنا، کسی پر تہمت نہ لگانا، غیبت نہ کرنا، عورتوں کی بے عزتی نہ کرنا، سب کے حقوق کے محافظ رہنا۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اور یثرب کی سر زمین کو رحمت بنا دیا، تب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پہلے خطاب میں یہی درس دیا کہ اللہ سے محبت کرو، دلوں کو نرم رکھو، ایک دوسرے سے محبت کرو، ایفائے عہد کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دشمنوں کو کبھی نفرت کا پیغام نہیں دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانوں کو ایک لازوال سیرت و کردار دیا کہ اے مسلمانوں اگر تم سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بننا چاہتے ہو تو آپ سب کو محبت، ایمانداری، سچائی، علم، پیار کی طرف آنا ہو گا، عورتوں کو عزت دینا ہو گی، خود کو بھوکا رکھ کر بھوکوں کو کھلانا ہو گا، قربانی دینی ہو گی۔
مسلم ہو یا غیر مسلم آپ تمام کو اپنی خوشیاں ساری انسانیت پر نچھاور کرنا ہوں گی۔ میثاق مدینہ کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین، انصار اور یہودی قبائل کو ایک ہی ریاست کے باشندے قرار دیتے ہوئے آپس میں جوڑ دیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کو امت واحدہ کہتے ہیں۔ انہیں ایک قوم کہا تھا، آج یہ تصور کہاں چلا گیا؟ مذہب میں کوئی جبر نہیں ہے، مدینہ میں یہودیوں کے لئے ان کا مذہب تھا اور مسلمانوں کے لئے ان کا لیکن سیاست اور ملک میں سب ایک قوم تھے۔ یہ ایک کثیر الجہت سماج کی بنیاد تھی۔
تعلیم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں مسلمانان ممبئی اور اسلامی ملکوں کے لئے میرا یہ پیغام ہے کہ جہاں بھی دوسرے مذاہب کے لوگ اقلیت میں ہیں وہاں ان کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں پر ہے اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے ملک کے وفادار رہیں، نہ کسی کا گلا کاٹیں نہ اپنا گلا کٹوائیں۔ یہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، اسلام علیحدہ رہنے سے روکتا ہے اور میل جول کا درس دیتا ہے۔ یہ بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان فرمایا۔ امن کا یہ تصور اسلام نے دیا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور کردار اعتدال پر مبنی ہے، انتہا پر نہیں۔ اسلام میں انتہاء پسندی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ نفرت اور قتل وغارت گری کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ مسلمانو! تم انتہا پسند نہ بنو، توازن رکھو اور معتدل بنو، جنت میں پہنچو گے۔
اسلام نے پڑوسیوں، غیر مسلموں، عورتوں اور بچوں کے حقوق سمیت ہر طبقہ زندگی کے حقوق کا ذکر کیا ہے۔ اسلام انسانیت کے خلاف جنگ کی اجازت نہیں دیتا، نہ اجتماعی قتل کی اجازت دیتا ہے نہ انفرادی قتل کی، جنگ کے دور میں بھی یہ عورتوں، بچوں، ضعیفوں، عبادت گزاروں، تاجروں، جنگی قیدیوں اور نہ لڑنے والوں کے قتل کو روکتا ہے، یہ پھل دار درخت کاٹنے سے روکتا ہے، جانور مارنے سے روکتا ہے، اسلام عدم تشدد کا مکمل درس دیتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کی جان ومال کی حفاظت کے لئے آئے تھے، قتل و غارت گری کے لئے نہیں۔ تمام مذاہب انسانیت کا ہی درس دیتے ہیں، میرا پیغام مسلمانوں، ہندوؤں، عیسائیوں، یہودیوں اور تمام مذاہب والوں کے لئے یہی ہے کہ دنیا نفرت کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتی۔ تنگ نظری کے ساتھ نہیں کھلے دل و دماغ کے ساتھ چلنا ہو گا، سب کا مذہب اپنا اپنا مگر سب مل جل کر پیار اور امن سے رہنا سیکھیں اور مل جل کر، نفرت اور دہشت گردی کی آگ کو بجھائیں اور محبت اور امن کو فروغ دیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کے لئے میرا پیغام بھائی چارہ اور برداشت کا ہے۔
10۔ ممبئی میں شیخ الاسلام کا خطاب، لاکھوں افراد کی شرکت
منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے زیراہتمام 17 مارچ 2012ء کو ممبئی کے صومیہ گراؤنڈ میں پروگرام منعقد ہوا، جس میں شیخ الاسلام نے لاکھوں افراد سے خطاب کیا۔
اس پروگرام کے معزز مہمانوں میں سید کاظم پاشا، حیدر آباد، ممبئی اور اجمیر شریف کی درگاہوں کے سجادہ نشین وخدام بھی موجود تھے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک اور نعت مبارکہ سے ہوا۔ جس کے بعد محترمہ سعدیہ دہلوی نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا جامع تعارف پیش کیا۔ تقریب میں سید کاظم پاشا قادری (حیدر آباد) نے بھی مختصر اظہار خیال کیا۔ جس میں انہوں نے شیخ الاسلام کی عالمی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شیخ الاسلام کے دورہ انڈیا اور ممبئی میں اس اجتماع کو تاریخی قرار دیا۔
اس پروگرام میں شیخ الاسلام کے استقبال کے وقت ایک نہایت خوبصورت واقعہ بھی پیش آیا۔ شیخ الاسلام کے خطاب کے آغاز میں آپ کے استقبال کے لئے فضاء میں چھوڑے گئے کبوتروں میں سے ایک کبوتر آپ کے دائیں طرف مائیک کے سٹینڈ پر بیٹھ گیا اور ڈیڑھ گھنٹہ تک اس جگہ پر بیٹھا رہا گویا کہ وہ بھی عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ترانے سن رہا ہو۔ حتی کہ خطاب کے دوران شیخ الاسلام کی اونچی آواز اور ہاتھوں کے اشارے سے بھی وہ اس جگہ سے نہ اڑا بلکہ استقامت کے ساتھ بیٹھا رہا۔ یہ واقعہ وہاں موجود حاضرین و سامعین کے ذوق و شوق اور محبت و عقیدت کے جذبات میں مزید اضافہ کرتا چلا گیا۔
خطاب شیخ الاسلام :
شیخ الاسلام نے "عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زمانے کے تغیرات کے ساتھ عقیدہ رسالت سے متعلق مسلمانوں میں کچھ تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ میں ان تبدیلیوں کو اعتقادی بدعات کہوں گا۔ اس سلسلے میں جو تعلیم قرآن و سنت نے دی اور ان کی تشریحات جس طرح اکابرین امت و سلف صالحین نے کیں، آج مسلمان ان تعلیمات سے دور ہو گئے ہیں۔ متعدد آیات قرآنی اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کی شاہد ہیں کہ عبادات والوہیت میں خدا کے ساتھ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ملانا شرک ہے لیکن دیگر معاملات میں آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہٹانا کفر ہے۔ آج نام نہاد علماء جو قرآن وسنت کا صحیح علم نہیں رکھتے، نہ عربی عبارت و تشریحات کو جانتے ہیں، نہ انہیں قرآن کی تفسیر کا خاطر خواہ علم ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی سمجھ اور علم کے مطابق قرآنی تشریحات کرتے پھرتے ہیں اور اپنے عقیدے کے مطابق بات بات پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں کہ یہ کفر ہو گیا، وہ شرک ہو گیا کی رٹ لگاتے ہیں۔ ایسے علماء نے مسلمانوں کو عظمت اور معرفت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور کر دیا ہے۔
مسلمانو! عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کے ذریعے سمجھو اور جو لوگ کفر اور شرک کے فتوے لگا کر امت کو گمراہ کر رہے ہیں، ان کو پہچانو کہ ان کی بات نص سے کتنی مطابقت رکھتی ہے، بصورت دیگر اس سے دور رہو۔
شیخ الاسلام نے اپنے خطاب میں عقیدہ رسالت، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ، معجزات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور وسیلہ کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔
11۔ ڈپٹی چیئرمین راجیہ سبھا کی طرف سے شیخ الاسلام کے اعزاز میں عشائیہ
راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین کے رحمن خان نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تاریخی دورہ بھارت کے اختتام پر ان کی خدمات کے اعتراف میں 20 مارچ 2012ء کو اپنی رہائش گاہ (نئی دہلی) پر عشائیہ کا اہتمام کیا۔
اس عشائیہ میں درج ذیل احباب نے خصوصی شرکت کی :
٭کانگریس صدر سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل ٭کانگریسی لیڈر موتی لال ووہرا ٭جناردن دویدی ٭مرکزی وزیرفاروق عبداللہ ٭سیف الدین سوز ٭جسٹس کاٹجو ٭پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک ٭دوردرشن کے ڈائریکٹر جنرل ایس ایم خان ٭مولانا محمود مدنی (ایم پی) ٭اظہر الدین (ایم پی) ٭شفیق الرحمن برق (ایم پی) ٭سابق وی سی سراج حسین ٭م افضل، اسد رضا ٭عزیز برنی ٭شکیل شمسی ٭معصوم مراد آبادی ٭حسن شجاع
کے رحمن خان نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خیر مقدم کیا اور پروگرام کی نظامت کے فرائض سرانجام دیئے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے کہا کہ اسلام سلامتی کا مذہب ہے اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتماعی معاشرہ قائم کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ انسانی حقوق متعارف کرائے اور عملی طور پر نافذ کر کے بھی دکھایا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری کمیونٹی کو ایک ملت کے طور پر پیش کیا۔ اس میں مہاجر، انصار، حبشی مختلف قبائل کے لوگ سب شامل تھے۔ بھائی چارہ اور باہمی تعاون پر مبنی سماجی اصولوں نے دنیا کو امن وسلامتی سے ہمکنار کیا۔ میں نے قرآن، گیتا، ، وید، تورات و انجیل و دیگر مذاہب کی تعلیمات کا مطالعہ کیا، کسی بھی مذہب نے دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی۔ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں سے اگر کوئی دہشت گردی کا مرتکب ہوتا ہے تو دنیا میں کبھی بھی اس مذہب کو دہشت گرد نہیں کہا جاتا مگر اگر کوئی مسلمان نادانی میں یہ حرکت کرے تو مسلم دہشت گردی کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ حالانکہ دہشت گردی ایک جرم ہے اسے کسی مذہب سے جوڑنا غلط ہے۔ ہند و پاک آپس میں تعلقات مضبوط کریں تو جنگی بجٹ کا پیسہ رفاہ عامہ پر خرچ ہو سکے گا۔
تاریخی مقامات کا دورہ اور مزاراتِ اولیاء پر حاضری
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے اس دورہ بھارت کے دوران دہلی، گجرات، حیدر آباد، بنگلور، ممبئی اور لکھنو میں متعدد تاریخی مقامات کا دورہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان شہروں میں موجود معروف اولیاء کے مزارات پر حاضری دی اور امت مسلمہ کے لئے خصوصی دعائیں کیں۔
٭ شیخ الاسلام کے اس دورہ کو انڈیا بھر کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے بھرپور کوریج دی۔ آپ نے مذکورہ شہروں میں مختلف چینلز، اخبارات اور میگزین کو خصوصی انٹرویوز بھی دیئے اور پریس کانفرنسز بھی کیں۔
ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجالاتے ہیں کہ اسلام کا پیغام امن و محبت صحیح معنوں میں دیار ہند کے باسیوں تک پہنچانے کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی توجہات اور اولیاء کرام کی شفقتوں کی بناء پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا یہ دورہ انتہائی کامیاب و کامران رہا۔