مرتّب : محمد یوسف منہاجین معاون : اظہر الطاف عباسی
اتحاد امت اور اجتماعیت کے حوالے سے قرآن پاک کی آیات اوراحادیث مبارکہ سے رہنمائی کے بعد آیئے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اکتساب فیض کرتے ہوئے موضوع کے دوسرے حصے ’’مسلمان پیکر امن و رحمت‘‘ ہے پر گفتگو کرتے ہیں۔
مسلمان پیکرِ امن و رحمت
میں نے سر زمین مشرق و مغرب، امریکہ، انگلینڈ، یورپ، آسٹریلیا ہر جگہ یہ بات برملا کہی ہے کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ سراپا امن و محبت اور پوری کائناتِ انسانیت کو امن و رحمت عطا فرمانے والی ہے۔
مسلمانو! اگر آج آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی غلامی چاہتے ہو تو اپنے ظاہر و باطن کے وجود میں پیکرِ امن، پیکرِ رحمت اور پیکر محبت بن جاؤ۔ اسلام اعتدال کا نام ہے، انتہا پسندی کا نام نہیں۔ ۔ ۔ اسلام محبت کا نام ہے، نفرت کا نام نہیں۔ ۔ ۔ اسلام لوگوں کی جانیں بچانے کا نام ہے، گلے کاٹنے کا نام نہیں ہے۔ ۔ ۔ اسلام اپنے پرائے، دوست دشمن ہر ایک کی عزت، جان و مال کی حفاظت کرنے کا نام ہے، کسی کے حقوق لوٹنے کا نام نہیں۔ ۔ ۔ اسلام نے پوری عالم انسانیت کو امن، رحمت، سلامتی اور سکون کا نہ صرف پیغام دیا بلکہ ان تک یہ نظام پہنچایا ہے۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو پیغام اس امت کے لئے لے کر آئے اس کو سمجھنے کے لئے اپنی سوچوں، دماغ، قلب و باطن کو چودہ صدیاں قبل سر زمین عرب کی طرف لے جائیں۔ اس زمانے میں جب گردنیں کاٹی جاتی تھیں۔ ۔ ۔ عزتیں لوٹی جاتی تھیں۔ ۔ ۔ مال لوٹے جاتے تھے۔ ۔ ۔ جب انسانیت کے پاس عزت نہ تھی۔ ۔ ۔ بیٹی پیدا ہوتی تو زندہ درگور کر دی جاتی۔ ۔ ۔ صدیوں تک نسل در نسل خون خرابہ ہوتا۔ ۔ ۔ عرب کی سرزمین مدت ہوئی امن دیکھنا بھول گئی تھی۔ ۔ ۔ یہاں رحمت، محبت، شفقت، بھائی چارہ، مودت اور احسان و انعام نہ تھا۔
1500 سال قبل UN تھی اور نہ اس وقت انسانی حقوق کی بات ہوتی تھی۔ اس وقت اعتدال کی بات تھی نہ Human Devolopment کا تصور تھا۔ خواتین، بچوں اور جانوروں تک کے حقوق کا کوئی تصور نہ تھا اور نہ جمہوریت کا کوئی Concept تھا۔ باہمی تنازعات کا حل صرف اور صرف گردنیں اڑانا، قتل و غارت اور لڑائی تھا یعنی جنگ کے سوا کوئی قانون دنیا میں نہ تھا۔ قبائل، افراد، قوموں اور ملکوں کی آپس میں جنگ ہی جنگ تھی۔
اپنی چشم تصور میں کچھ دیر کے لئے اس ماحول کو سامنے لائیں جہاں ہر سو دہشت گردی اور بربریت کا اندھیرا ہے۔ اس اندھیری رات میں ایک ہستی کھڑی ہوتی ہے، حرا کے غار سے اتر کر مکہ کی وادی میں کھڑے ہو کر آواز دیتی ہے کہ بیٹیوں کو زندہ دفن نہیں کیا جا سکتا۔ ۔ ۔ اس ہستی کی آواز مکہ کی وادی میں گونجتی ہے کہ غلام، آزاد انسانوں کی طرح عزت پائیں گے۔ ۔ ۔ گری ہوئی انسانیت عزت پائے گی۔ ۔ ۔ عورتوں کو حقوق ملیں گے۔ ۔ ۔ امن و سلامتی ہو گی، انتہا پسندی نہیں ہو گی۔ ۔ ۔ Moderation ہو گی۔ ۔ ۔ تشدد نہیں ہو گا، Extreemism، Terrorism نہیں ہو گی، Human Killing نہیں ہو گی۔ الغرض وہ ذات امن و محبت، شفقت و رحمت کا پیغام لے کر کھڑی ہوتی ہے۔ ایسی بولی اس زمانہ میں دور دور تک کوئی بولتا نہ تھا۔
صبر و برداشت کی عظیم مثال
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی پیغامِ محبت و رحمت اور پیغامِ ہدایت کو لے کر طائف جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتھروں سے لہولہان کر دیا جاتا ہے۔ سر انور سے قدمین شریفین تک پورا جسم اقدس لہولہان ہے مگر اس کیفیت میں بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبر و تحمل اور برداشت کا عظیم مظاہرہ فرماتے ہیں۔ پہاڑوں کا فرشتہ عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ مجھے حکم کریں تو میں ان دو پہاڑوں کے درمیان طائف کی بستی کو اس طرح پیس دوں کہ بستی طائف کا نہ کوئی گھر بچے اور نہ کوئی فرد زندہ بچے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا پڑے اور فرمایا :
بَلْ اَرْجُوْ اَنْ يُّخْرِجَ اللّٰهُ مِنْ اَصْلَابِهِمْ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰه وَحْدَه لَا شَرِيْکَ لَه شَيْئًا.
(صحيح بخاری، کتاب بدالخلق، باب ذکرالملائکه، الرقم : 3059)
میں ان کو مارنا نہیں چاہتا امید کرتا ہوں شاید ان کی نسلوں سے مومن پیدا ہو جائیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا کہ
اِنِّيْ لَمْ اُبْعَثْ لَعَّانًا وَاِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً.
(صحيح مسلم، کتاب البر والصله والآداب، الرقم : 2599)
اللہ نے مجھے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے میں ان کو رحمت سے محروم کرنے والا اور عذاب میں مبتلا کرنے والا بن کر نہیں آیا بلکہ
اِنَّمَا بَعْثَنِيْ رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْن.
(سنن ابی دائود، باب نهی عن سبّب اصحاب رسول صلی الله عليه وآله وسلم، رقم : 6659)
میں سارے جہانوں کے لئے رحمت بن کے آیا ہوں۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خون کو پونچھتے تھے اور ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے تھے :
اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِيْ فَاِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْن
۔ میرے مولا! ان کو معاف کر دے۔ انہوں نے جو کچھ میرے ساتھ کیا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ یہ مجھے پہچانتے نہیں ہیں۔
(صحيح بخاری، کتاب الانبياء، رقم : 1792)
لوگو! کیا انسانی کائنات میں کوئی ایسا نام ہے جو اتنا ظرف رکھنے والا ہو، جس کا اتنا حوصلہ ہو، جس کی اتنی درگزر کرنے کی صلاحیت ہو۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری انسانیت کے لئے سراسر امن و رحمت ہیں کہ جو پتھروں سے لہولہان کر رہے ہیں ان سے بھی انتقام نہیں لے رہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا :
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ پہاڑوں کے فرشتہ کے ذریعے ان کا خاتمہ نہیں چاہتے تو کم سے کم ان مشرکین کے خلاف بد دعا ہی کر دیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِنِّيْ لَمْ اُبْعَثْ لَعَّانًا وَاِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً.
(صحيح مسلم، کتاب البر والصله والآداب، الرقم : 2599)
میں بد دعاؤں کے لئے نہیں بلکہ دعاؤں کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔
یہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رحمت پر مبنی کردار اور عمل ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت مسلمہ کو یہ کردار عطا کیا کہ جس کی مثال حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ روایت ہے :
مسلمانوں اور غیر مسلموں کی جنگ ہو رہی تھی کہ دوران جنگ ایک عورت قتل ہو گئی۔
فَنَهَی الرَّسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَان.
(صحيح بخاری، باب قتل النساء فی الحرب، رقم : 2852)
خبردار! اگر جنگ بھی جاری ہو تو تب بھی عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جود و کرم کی انتہا
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملِ رحمت و امن اور محبت صرف نیکو کاروں کے لئے نہیں تھا بلکہ گناہگاروں کے لئے بھی تھا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے دو چیزوں کا اختیار دیا کہ ان میں سے کوئی ایک چیز اختیار فرما لیں۔
1۔ جتنی امت آپ کی قیامت تک ہو گی اس کا 50% بخشش کروا لیں یعنی اللہ پاک نے فرمایا کہ میں آپ کو یہ کوٹہ دے دیتا ہوں کہ نصف امت بغیر حساب کتاب کے بخش دی جائے گی۔
2۔ دوسرا Option اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہیں تو آپ کو شفاعت کا حق دے دوں، جس کو چاہیں بخشوا لیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ فاخترت الشفاعة. باری تعالیٰ مجھے کوٹوں میں نہ ڈال میری شفاعت کا حق مطلق کر دے کہ میں جس جس کی بخشش کا کہتا جاؤں تو بخشتا چلا جائے۔
شفاعت کے مطلق اختیار کا انتخاب کرنا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیکر رحمت ہونے، امت کے ہمدرد اور غمخوار ہونے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیکر امن، پیکر محبت اور پیکر شفقت ہونے کو ظاہر کر رہا ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر پہلی چیز کو اخیتار کرتا ہوں تو 50% میرا کوٹہ ختم ہو جانے کے بعد ان گناہگار امتیوں کا کیا ہو گا جو بعد میں بچ جائیں گے اور عرض کریں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں چھڑا دیں تو اس موقع پر میرا یہ کہنا کہ میرا کوٹہ ختم ہو گیا ہے، میرے شایان شان نہیں لہذا باری تعالیٰ یہ کوٹے چھوڑ بلکہ مجھے شفاعت کا مطلق اختیار عطا فرما۔ رب کائنات نے فرمایا :
وَلَسَوْفَ يُعْطِيْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی.
’’اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘۔
(الضحٰی : 5)
تجھے کوٹہ نہیں دیتے بلکہ مطلق شفاعت کا اختیار دیتے ہیں اور شفاعت کا اتنا اختیار کہ محبوب جب تک تو بخشواتا رہے گا، میں بخشتا رہوں گا اور یہ سلسلہ بخشش اس وقت ختم ہو گا جب تو کہے گا کہ مولیٰ میں راضی ہو گیا ہوں۔
لوگو! آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی غلامی کا تقاضا یہ ہے کہ آپ بھی اپنے اندر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی جھلک پیدا کریں۔ اس طرح انسانیت کے لئے امن، محبت، شفقت، احسان کے پیکر بن جائیں کہ آپ کے وجود سے ہر کسی کو امن ملے۔
مطلق شفاعت کا اختیار حاصل کرنے کے حوالے سے بیان فرما کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ میں نے جو شفاعت کا حق لیا ہے کیا یہ متقین کے لئے ہے؟ جو نمازی، متقی اور نیکو کار ہیں ان کو بخشوانے کے لئے شفاعت کا حق لیا ہے؟ نہیں بلکہ
شفاعتی لاهل الکبائر من الامتی.
(جامع ترمذی، کتاب صفة القيامه، رقم : 2435)
جو نیکو کار ہیں وہ تو اللہ کے فضل سے خود ہی بخشے جائیں گے۔ میں نے شفاعت کا حق لیا ہی گناہگاروں کے لئے ہے، خطاکاروں کے لئے ہے جو نیکو کار، متقی ہوں گے ان کو اللہ اپنے فضل سے بخش دے گا، ان کا حساب کر کے اللہ تعالیٰ جنت میں بھیج دے گا مگر ناپ تول میں نیکیاں کم اور گناہ زیادہ ہونے والے لوگ مایوس کھڑے ہوں گے، انہیں اپنے اعمال پر بھروسہ نہیں ہو گا۔ پس میں نے اپنی شفاعت کا حق لیا ہی اپنی امت کے ان گناہگاروں کے لئے ہے۔
اس لئے گناہگارو تمہیں مبارک ہو، نیکوکاروں کے لئے خدا ہے اور گناہگاروں کے لئے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں گناہگار حاضر ہوتے، اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا اس وقت یہ عالم ہوتا کہ آپ ان کے گناہ کی وجہ سے ان سے نفرت نہ کرتے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گناہگاروں سے محبت کرتے اور انہیں اپنے قریب کر کے گناہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور فرما دیتے۔
اے اہل حیدر آباد! میرا جملہ سن لو، ہمیشہ گناہ سے نفرت کرو لیکن گناہگار سے نفرت نہ کرو۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ طریقہ عطا فرمایا، اس مشرب کو حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ اجمیر رحمۃ اللہ علیہ، قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ، بابا فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اور جملہ اولیاء نے اپنایا کہ اولیاء گناہ سے نفرت کرتے، گناہگار سے نفرت نہ کرتے۔ ان کی صحبت میں مسلمان بھی آتا، نیک بھی آتا، بد آتا، ہندو بھی آتا، مشرک بھی آتا، موحد بھی آتا۔ الغرض کوئی بھی ان کی مجلس میں آنے سے گھبراتا اور کتراتا نہ تھا اس لئے کہ ان کی محبت کا دریا ہر ایک کے لئے بہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ رحمت و شفقت اور امن کا یہ درس صرف امت مسلمہ کے لئے نہیں بلکہ انسانیت کی سطح پر سکھایا۔
جانوروں اور پرندوں کے حقوق کی حفاظت
اسلام سے بڑھ کر نفس انسانی کی حرمت کی تعلیم دینے والا کوئی فلسفہ اور کوئی مذہب کائنات میں نہیں ہو سکتا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم اور رحمت صرف انسانیت کے لئے نہیں بلکہ عالم خلق کے لئے ہے۔ حیوانوں، جانوروں، پرند اور چرند کے بھی حقوق متعین فرمائے اور ان سے بھی رحمت و شفقت کا زبانی و عملی درس دیا۔
انسان تو انسان اسلام حیوانوں، اونٹ، بکری، کتا، بلی اور پرندوں تک کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ جانوروں کے حقوق سے جدید دنیا آج آگاہ ہوئی ہے۔ پندرہ سو سال پہلے جہاں انسان کے خون کی کوئی قدر نہ تھی تو ان جانوروں کے حقوق اور خون کی پرواہ کون کرتا تھا۔ جب انسانی خون بہائے جاتے تھے، اس زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی حقوق عطا فرمائے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کو بھی روک دیا۔ یہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام امن تھا۔ جس رسول نے جانوروں اور پرندوں تک کے حقوق کی حفاظت فرمائی اس رسول کی تعلیمات سے بہتر انسانی حقوق کی حفاظت کون کر سکتا ہے۔
متعدد احادیث مبارکہ میں موجود ہے کہ جب جانوروں کو ان کا حق نہ ملتا، مالک جانوروں کو تکلیف دیتا، چارہ نہ دیتا، بوجھ زیادہ ڈالتا تو وہ جانور تکلیف کی وجہ سے روتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آ جاتے چونکہ آپ رحمت للعالمین ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے مالک کو بلواتے اور فرماتے : اس جانور نے مجھے آ کر شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا بھی رکھتے ہو اور اس کی طاقت سے بڑھ کر اس سے کام بھی لیتے ہو، اس کو چارہ دیا کرو اور اس کی طاقت کے مطابق ہی اس سے کام لیا کرو۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عورتوں، مردوں، بچوں، بوڑھوں، بڑوں، نوجوانوں، بیماروں، گناہگاروں، نیک، بد، مسلم و غیر مسلم یعنی ہر ایک کے حقوق کے رکھوالے ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عالم انسانیت کو ہر قسم کے امن اور رحم کا وہ درس دیا کہ اسلام کی تعلیمات کے ذریعے انسان کو بھی امن و رحمت ملے اور حیوان کو بھی امن و رحمت ملے۔
عالم خلق کے لئے امن و محبت اور رحمت پر مبنی سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان بھی اسی کردار کے مالک بنیں اور اسلامی تعلیمات کے حقیقی پیکر بن کر انسانیت کے لئے امن و رحمت کے اسباب پیدا کریں۔
اس دور کے جانوروں کو بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت تھی۔ ۔ ۔ اس دور کے اونٹوں کو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت تھی۔ ۔ ۔ بکریوں کو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت تھی۔ ۔ ۔ اونٹوں کو سجدہ کرتے دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعجب ہے اونٹوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور نہیں ہوئے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سجدے میں گر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ليس شئی بين السمآء والارض الا يعلم انی رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم من الجن والانس.
سوائے بدعقیدہ انسانوں اور جنوں کے زمین وآسمان کی ہر شے میرے مقام اور میری عظمت کو پہچانتی ہے۔ ہائے افسوس کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے بگڑے ہوئے اونٹ بھی میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جانتے تھے اور ہم انسان ہو کر عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں پہنچاتے۔ ہم سے تو وہ اونٹ بھی بہتر ہوئے، ہم سے تو بکریاں بھی بہتر ہو گئیں، ہم سے تو جانور بھی بہتر ہو گئے۔
یہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ ہے۔ میں یہی پیغام امن، یہی پیغام محبت، یہی پیغام رحمت اور یہی پیغام عظمت سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر ہندوستان آیا ہوں۔ یہی پیغام میں نے امریکہ، یورپ، آسٹریلیا و نیوزی لینڈ اور دنیا کے آخری کونے جہاں سورج کے طلوع ہوتے ہوئے پہلی کرن پڑتی ہے ان بستیوں تک بھی پہنچایا ہے۔ میرے کانوں میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کی آواز گونجتی تھی کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جہاں جہاں سورج طلوع ہوتا ہے اور جن جن کناروں پر غروب ہوتا ہے میرا نام وہاں وہاں تک پہنچے گا۔ میں نے وہاں تک مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام پہنچانے والے لوگوں کی نوکری میں ان کے ساتھ شامل ہونے کے لئے ان تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام محبت و رحمت پہنچایا ہے۔
اسلامک دہشت گردی۔ ۔ ایک غلط اصطلاح
شرق سے غرب تک میں نے ہر جگہ فقط امن، رحمت، عظمت اور شفقت کا پیغام پہنچایا ہے اور بیان کیا ہے کہ دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے۔ دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ بریکٹ کر کے Islamic Terrorism ’’اسلامک دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح کا استعمال دہشت گردوں کے مشن کو فائدہ اور دہشت گردی کو تقویت دے رہا ہے۔ اسلامک دہشت گرد کی اصطلاح استعمال ہونے سے اس قبیح اور حرام عمل کے کرنے والے عام مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ ہم سچے مسلمان ہیں اسی لئے اسلام کا مخالف بھی ہمارے عمل کو ہمارے ساتھ منسوب کرتے ہوئے اسے اسلام کا نام دے رہا ہے۔
میں ہمیشہ پوری دنیا کی حکومتوں کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جیتنا ہے تو دہشت گردوں کے عنوان کو اسلام سے جدا کیا جائے اور اسلام کو دہشت گردوں سے علیحدہ کیا جائے۔ دہشت گردی، دہشت گردی ہے۔ وہ کبھی اسلامک نہ تھی اور نہ ہو سکتی ہے۔ انتہا پسندی صرف انتہا پسندی ہی ہے وہ کبھی اسلامک نہیں ہوسکتی۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا حتی کہ دہشت گرد کا کوئی ملک نہیں ہوتا۔ دہشت گرد ایک مجرم ہے۔
دنیا کے ہر مذہب میں دہشت گرد پائے جاتے ہیں۔ 9 / 11 سے پہلے Oklahoma Bomb Blast ہوا تھا۔ کیا Oklahoma Bomb Blast کرنے والے مسلمان تھے؟ نہیں بلکہ یہ حرکت کرنے والا امریکہ کا Christian cult تھا، انہوں نے ہزاروں انسانوں کو لقمہ اجل بنایا کسی نے آج تک انہیں Christain Terrorists نہیں کہا۔ ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے ناروے میں مسیح مذہب رکھنے والے ایک طبقہ نے دہشت گردی کا ارتکاب کیا، کسی نے ان کو کرسچن Terrorists نہیں کہا۔ طبقہ یہود میں بھی دہشت گرد ہوئے ہیں مگر کوئی Jewish Terorism نہیں کہتا۔ ہندوستان کی سرزمین پر ہندو مذہب رکھنے والے بھی دہشت گرد ہوتے ہیں اور وہ بھی دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں مگر وہ ہندو دہشت گردی نہیں ہو سکتی۔ جب ہندو دہشت گردی کی اصطلاح استعمال نہ ہو، نہ یہودی دہشت گردی ہو، نہ عیسائی دہشت گردی ہو۔۔۔ تو پھر اسلام کے ساتھ دہشت گردی کا نام کیوں جوڑا جائے۔
Why is Islamic Terrorism? Terrorism is Just terrorism, it has no religion, no culture, no country. These are Just Criminal people and act of criminality can not be conected with concepts of Islam.
میرا یہ دورہ امن ہے، میرا دورہ محبت ہے۔ میں نفرتوں کو مٹانے آیا ہوں۔ میرے دورے سے اگر سرزمین ہند پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین محبت، بھائی چارہ اور برداشت کی فضاء پیدا ہو سکتی ہے تو میں سمجھوں گا کہ میں عبادت کا کام کر کے گیا ہوں۔ مل جل کر امن کے ساتھ رہنا سیکھو، امن کے ساتھ جینا سیکھو، ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کا طرز عمل خواہ کہیں بھی ہو قابل مذمت ہے لہذا امن کی طرف بڑھو۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و معرفت
میری گفتگو کا تیسرا اور آخری حصہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق کو مضبوطی سے استوار کرنے پر مشتمل ہے۔ ہمیں اپنے تعلق کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حقیقی معنوں میں استوار کرنا ہو گا کیونکہ اس دنیا میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی کام آنا ہے، قبر و برزخ میں بھی صرف آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کام آنا ہے اور قیامت کے دن بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کام آنا ہے۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا تعلق آج بھی امت کے ہر فرد کے ساتھ رکھتے ہیں۔ آپ میں سے ہر ایک شخص پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ ہے۔ جہاں جہاں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام امتی آباد ہے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پر نگاہ ہے۔ اس لئے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے صبح و شام ہمارے اعمال پیش ہوتے ہیں۔
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں آقا علیہ السلام نے فرمایا :
حياتی خيرلکم فاذا انا مت کانت وفاتی خيرلکم حياتی خيرلکم ينزل علی الوحی من السماء فاخبرکم بما يحل لکم وما يحرم عليکم.
میری ظاہری حیات تمہارے لئے خیر ہے۔ اور جب میری وفات ہو جائے گی تو میرا وفات پا جانا بھی تمہارے لئے خیر ہے۔ میری ظاہر حیات تمہارے لئے اس لئے خیر ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے، تمہیں حلال و حرام سمجھاتا۔
جب وفات ہو جائے گی تو اس کے بعد بھی میں تمہارے لئے خیر ہوں گا کہ تعرض علی اعمالکم تمہارے اعمال ہر وقت میرے اوپر میری وفات کے بعد بھی پیش ہوتے رہیں گے۔
فان رأيت خيراً حمدت الله وان رأيت غير ذلک استغفرت الله لکم.
اگر میں تمہارے نیک اعمال دیکھوں تو اللہ کی بارگاہ میں شکر ادا کرتا ہوں۔ اور اگر کوئی گناہ و خطاء تم سے سرزد ہو جائے تو میں تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہتا ہوں اور تمہارے لئے شفاعت کرتا رہتا ہوں
(القول البديع، امام سخاوی)
حیدر آباد دکن، ہندوستان پاکستان میں شرق تا غرب پوری دنیائے انسانیت میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایک امتی و غلام جو عمل کرتا ہے وہ نامہ اعمال ایک طرف کراماً کاتبین، اللہ کے حضور پیش کریں گے اور دوسری طرف وہ اعمال ساتھ ساتھ گنبد خضریٰ میں بھی پیش کئے جاتے ہیں۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے امتیوں کے ساتھ مستقل تعلق رکھتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ساتھ متصل ہیں اور ہمہ وقت امت کے ایک ایک فرد کے ساتھ تعلق رکھا ہوا ہے۔ تمام امتیوں کے اعمال واحوال سے باخبر ہیں۔ نیکی پہنچتی ہے تو خوش ہو کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، کسی کے گناہ کا علم ہوتا ہے تو بخشش کے لئے دعا کرتے ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک تعلق تو یہ کہ ہر ہر عمل پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ گناہگاروں کے لئے بخشش و مغفرت کی دعا کا عمل بھی جاری ہے۔
سو ہمیں اپنے اعمال کو اتنا اچھا کرنا چاہئے کہ کل آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں شرمساری نہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے گناہ و بدی اُن کے سامنے پیش کئے جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو کریم و رحیم ہیں بخشش و مغفرت کی تو دعا کریں گے۔ لیکن خوش نصیب ہے وہ امتی جس کی نیکیاں صبح و شام گنبد خضریٰ پہنچتی ہیں اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے حضور خوش ہو کر شکر ادا کرتے ہوئے دیکھیں کہ میرے امتی نیک عمل کر رہے ہیں، میری سنت اور اسوہ پر چل رہے ہیں، امن و محبت کا عمل کر رہے ہیں، تقویٰ و پرہیزگاری کے امور انجام دے رہے ہیں، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کی پیروی کر رہے ہیں۔
ان کی سماعت پہ لاکھوں سلام
پھر صرف یہ بات نہیں اس موضوع پر آپ کو ایک اور عجیب مضمون سنانے والا ہوں جسے علماء کے علاوہ شاید کثرت کے ساتھ سنا اور پڑھا نہ گیا ہو۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ليس من عبد يصلی علی الا بلغنی صوته حيث کان.
(القول البديع فی الصلاة علی الحبيب الشفيع، امام سخاوی)
کوئی شخص جو مجھ پر درود و سلام پڑھتا ہے، وہ روئے زمین کے جس مقام پر بھی بیٹھ کر پڑے اس کی آواز بھی میرے کانوں پر آتی ہے۔
اے عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! غلامانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں مبارک ہو کہ اللہ نے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا تمہارا نصیب بنا دیا۔ ہر وقت درود و سلام پڑھنا اللہ نے تمہارا عقیدہ بنا دیا۔ درود و سلام پڑھنا اللہ نے تمہارا وطیرہ اور شعار بنا دیا۔ درود و سلام کو تو فرشتے بھی پہنچاتے تھے اور درود و سلام آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براہ راست بھی پہنچتا تھا مگر امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر فرد کو مبارک ہو کہ فرمایا : پڑھنے والے کی آواز میں اپنے کان سے سنتا ہوں۔ جب تم درود و سلام پڑھتے ہو تو گنبد خضریٰ میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے تمہاری آواز پہنچتی ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے قرب و بُعد کوئی معنی نہیں رکھتا۔ صبح و شام میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق ہمارے ساتھ استوار رہتا ہے اور ہماری بخشش و مغفرت اور شفاعت بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کر رہے ہیں۔
مرنے کے بعد کامیابی کا انحصار
لوگو ضروری ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنے تعلقِ محبت کو قائم رکھو اور بات صرف یہاں تک نہیں بلکہ اس دنیا میں کامیابی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق سے ملے گی اور مرنے کے بعد نجات بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے ملے گی۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے کہ موت کی پہلی شام جب قبر میں منکر نکیر آئیں گے تو سوال کریں گے :
ما کنت تقول فی حق هذا الرجل محمد.
بتا ان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں تیرا عقیدہ کیا ہے؟ دنیا کی خیرات بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دم سے اور قبر کی شام میں نجات بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دم سے ہے۔ باقی سوال تو سب بعد میں ہوں گے۔ قبر میں بخشش کا مدار آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچاننے سے ہی ممکن ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ جب صاحب قبر پہچان لے گا کہ ہاں یہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تواس کے سامنے ایک طرف دوزخ کا منظر ہو گا اور ایک طرف جنت کا منظر آ جائے گا اور بتایا جائے گا کہ اے مرنے والے دیکھ اگر تو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچان نہ سکتا تو اس دوزخ میں جاتا۔ فقط ایک سبب سے کہ تو نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچان لیا اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچاننے سے تیرا ٹھکانہ دوزخ سے جنت میں بدل دیا گیا ہے۔
(صحيح بخاری، کتاب الجنائز، رقم : 1273)
لوگو! اس دنیا کی خبر بھی میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین میں ہے۔۔۔ اس دنیا کی سلامتی بھی میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت میں ہے۔۔۔ اس دنیا کی کامیابی و کامرانی بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوڑوں میں ہے۔۔۔ قبر میں شادمانی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت میں ہے۔۔۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا امت اور کیا ہے۔۔۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا مردِ مومن اور کیا ہے۔۔۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا قبر اور دنیا میں ہمارا سرمایہ اور کیا ہے۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جڑو، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کرو۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرو، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب کرو۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع کرو، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ اوڑھنا بچھونا بن جائے تاکہ دنیا بھی سنور جائے اور قبر بھی منور ہو جائے۔
اے اہلِ حیدر آباد! اس اجتماع میں انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو دیکھ کر مجھے یاد آ رہا ہے کہ آج سے 9 / 8 سال قبل جب سالار ملت حضرت سلطان صلاح الدین اویسی، حیات تھے تو اس موقع پر بھی میرا ایک خطاب ان کی موجودگی میں یہاں ہوا تھا۔ آج اُس سمندر سے بھی بڑا لوگوں کا سمندر ہے۔ یہ سمندر اصل میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سمندر ہے۔ یہ سمندر محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے، نسبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے، تعلق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے۔ مجھے علم ہے اور کوئی غلط فہمی نہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا انسانوں کا سمندر یہاں کیوں آیا ہے۔ یہ مجھے دیکھنے نہیں آیا۔ میں کیا ہوں اور میری حیثیت کیا ہے، میں ایک تنکے سے بھی کم تر ہوں۔ میں یہاں اس لئے آیا ہوں کہ جانتا ہوں کہ آپ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق ہیں اور آپ کو علم ہے کہ یہاں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیرات بٹے گی، حسن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہو گی، نسبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہوگی۔ میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں امن سکھاؤں اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کٹے ہوئے تعلق کو جوڑ کر جاؤں۔ لوگو! میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جڑ جاؤ، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین سے جڑ جاؤ۔
بروز قیامت کامیابی کا انحصار
تعلقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے سنور جائے گی اور پھر جب قیامت کے دن اٹھو گے تو اللہ کی عزت کی قسم اس دن بھی دیکھو گے کہ بخشش بھی واسطہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوگی۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قیامت کا دن ہو گا جب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت قبروں سے اٹھے گی تو انہیں عرش پر دو کرسیاں نظر آئیں گی ایک کرسی کرسی خدا ہو گی تو دوسری کرسی کرسی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو گی۔
فيلقی له کرسی عن يمين الله.
(المستدرک، امام حاکم، رقم : 8698)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ پاک بلائے گا اور فرمائے گا کہ میرے محبوب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ میری کرسی ہے اور ساتھ والی کرسی پر تو بیٹھ۔ میں آج روزِ قیامت کا صدر ہوں اور تو روزِ قیامت کا وزیراعظم ہے۔ اللہ پوچھے گا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خود بتا تیری امت کے ساتھ آج کیا کیا جائے؟ مشورہ دیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرض کریں گے کہ باری تعالیٰ تیرے بندے ہیں جو جی چاہتا ہے ایساکر۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فاستشار ربی ماذا فعل بامتک.
اللہ مجھ سے مشورہ مانگے گا کہ میں تیری امت کے ساتھ کیا سلوک کروں؟ میں عرض کروں گا مولا تو مالک ہے، جیسا چاہے کر۔ اللہ فرمائے گا نہیں تو بتا میں کیا کروں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرض کریں گے مولا تو مالک ہے۔ اللہ فرمائے گا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو کچھ نہیں بتاتا، تو سُن! مجھے اپنی عزت کی قسم تو بیٹھ کر مجھے بتاتا جا میں تیری امت کو جنت میں داخل کرتا جاتا ہوں۔
عاشقانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو مبارک ہو، جنت کے دن بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سلطنت ہو گی اور اس سلطنت میں سب سے پہلا کرم ان پر ہو گا جو عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں گے جو غلامان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں گے، جو متبعین سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں گے، جو مطیعین حکم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں گے۔
اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے، اللہ پاک اہل دین کو سلامت رکھے، آپ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر مجھے یاد رہے گا، آپ کی محبتیں دیکھ کر وارفتہ ہوں اور آپ کے عشق کے جذبے دیکھ کر مجھے حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی کیفیتیں یاد آتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہند کا ذکر اپنے لبوں سے فرمایا اور اس فتح میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔