مفکر و مجدد امام احمد رضا قدس سرہ العزیز (م : 1340ھ / 1921ء) اپنے عہد میں بر صغیر کے سب سے بڑے دینی پیشوا اور ملی رہ نما تھے، انھوں نے اسلام اور عقیدہ اہل سنت کے تحفظ اور فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ امتِ مسلمہ کا اتحاد اور اس کی فلاح و نجات ان کی فکر کا خاص محور تھا۔ وہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقطہ اتحاد پر عالمِ اسلام کو ہم قدم اور ہم فکر کرنا چاہتے تھے۔ وہ بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جانے کے زبردست داعی تھے۔ وہ امتِ مسلمہ کی کامیابی کا راز دینِ مصطفیٰ، علمِ مصطفیٰ اور عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مضمر سمجھتے تھے۔ اسی فکر کے داعی شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال بھی تھے۔
بمصطفے ٰ بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است
عہدِ حاضر میں فکرِ رضا کی معنویت
امام احمد رضا قدس سرہ العزیز بلا شبہ عظیم مجدد، عظیم فقیہ اور عظیم دانش ور تھے۔ وہ امتِ مسلمہ کے داخلی اور خارجی مسائل و مشکلات پر حساس نظر رکھتے تھے۔ مسلمانوں کی حالتِ زار پر آنسو بھی بہاتے تھے اور ان کی فلاح و نجات کے لیے تدبیریں بھی پیش کرتے تھے۔ ان کی فکر و نظر کا محور یہی تھا کہ اسلامی تہذیب دنیا کی ہر تہذیب پر غالب ہو اور مسلم قوم دنیا کی ہر قوم سے بلند تر ہو۔ دین و مذہب، سیاست و صحافت، معیشت و معاشرت، تعلیم و تجارت، وہ ہر میدان میں مسلمانوں کو سرخرو اور کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے مسلسل جد و جہد کی۔ امتِ مسلمہ کو بار بار جھنجھوڑا، علما اور قائدین کو بیدار کیا اور انھیں ان کی منصبی ذمہ داریوں سے باخبر کیا۔ ان کی کوتاہیوں پر زجر و توبیخ فرمائی، تعمیری منصوبے بنائے، خطوطِ عمل طے کیے، باہمی اتحاد کے لیے قرآن و احادیث سے دلائل دیے۔ نفرت و بے زاری کا ماحول ختم کرنے کے لیے شرعی احکام سپردِ قلم کیے۔
امام احمد رضا کے افکار و نظریات پر اب ایک صدی مکمل ہونے کو ہے، مگر اس دور اندیش مفکر کے افکار کی معنویت آج بھی اسی طرح باقی ہے، جس طرح ان کے عہد میں تھی، بلکہ بعض نظریات کی معنویت تو آج عہدِ رضا سے بھی سِوا نظر آتی ہے۔ امام احمد رضا کے افکار ونظریات گرد و پیش کے حالات کا نتیجہ نہیں تھے کہ عشرے دو عشرے میں اپنی معنویت کھو دیتے بلکہ ان کے افکار و نظریات قرآن و حدیث سے ماخوذ تھے، جن پر حوادثِ روز گار کی گرد کی پرتیں بے اثر ہوتی ہیں۔ قرآن و سنت کے حقیقی جلوے جب عمل کے میدان میں درخشاں ہوتے ہیں تو حوادثِ روزگار خود اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔
آئیے! اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے افکار کی روشنی میں اپنے کردار و عمل کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
علماء کرام کا منفی عمومی رویہ
اس وقت اہلِ سنت و جماعت کے درمیان سخت انتشار ہے، علماء کرام اتحادکی فضا ہم وار کر سکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے ان کا ایک طبقہ خود اختلافات کو ہوا دے رہا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف زبان و قلم کا بے جا استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ آج اہلِ سنت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی سخت ترین ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر اسلام کے خلاف منظم اور مسلسل سازشیں ہو رہی ہیں۔ اہل سنت کے خلاف پیہم شر انگیزی کا ایک سلسلہ شروع ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے عہد میں امت مسلمہ کی جو حالت تھی، آج بھی اس سے بہتر نظر نہیں آتی جس کا انہیں شدید احساس تھا۔ آپ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ خالص اہل سنت کی ایک قوت اجتماعی کی بہت ضرورت ہے، مگر اس کے لیے تین چیزوں کی سخت حاجت ہے۔
(1) علما کا اتفاق
(2) تحمل شاق قدربالطاق۔
(3) امرا کا انفاق لوجہ الخلاق۔
یہاں یہ سب مفقود ہیں۔‘‘
(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 132)
علماء کرام کے عدم اتفاق کی بنیادی وجہ امام احمد رضا حسد قرار دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی علماء کے اختلاف و انتشار کی بنیادی وجہ حسد ہی ہے۔۔۔ فلاں شخص عوام وخواص میں مقبول ہے، ہم کیوں نہیں۔۔۔ فلاں تحریک و ادارہ عوام و خواص کا مرکزِ توجہ ہے، ہمارا کیوں نہیں۔۔۔ ظاہر سی بات ہے ان چیزوں کا برسرِ عام اظہار تو کیا نہیں جائے گا لیکن جب سینے کی آگ سے دل کے پھپھولے جلتے ہیں تو نفرتوں کی لپٹیں اٹھتی ہی ہیں اور پھر شروع ہو جاتا ہے ایک دوسرے کی شخصیتوں، تحریکوں اور اداروں پر طرح طرح کے الزامات عائد کرنے کابدترین سلسلہ۔
امام احمد رضا قدس سرہ علماء کے انتشار کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اتفاقِ علما کا یہ حال کہ حسد کا بازار گرم، ایک کا نام جھوٹوں بھی مشہور ہوا تو بہتیرے سچے اس کے مخالف ہو گئے۔ اس کی توہین تشنیع میں گمراہوں کے ہم زبان بنے کہ’’ہیں‘‘ لوگ اسے پوچھتے ہیں اور ہمیں نہیں پوچھتے؟ اب فرمائیں کہ وہ قوم کہ جو اپنے میں کسی ذی فضل کو نہ دیکھ سکے، اپنے ناقصوں کو کامل، قاصروں کو ذی فضل بنانے کی کیا کوشش کرے گی؟ حاشا یہ کلیہ نہیں مگر للاکثر حکم الکل
(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 133)
امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے اس خصوصی تبصرے میں ہم اپنے عہد کے علما کا اختلافی چہرہ بخوبی پہچان سکتے ہیں۔
فتویٰ لگانے میں احتیاط کی ضرورت
اس مقام پر ایک خاص بات یہ ہے کہ جب علماے کرام سے کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ فلاں تحریک و ادارے یا فلاں شخص کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ تو بلا دلیل کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ تو خارج از اسلام ہے۔ فلاں تحریک تو بدعقیدہ تحریک ہے، یا فلاں شخص تو صلح کلی کا حامی ہے۔ ہم بڑے ادب سے عرض کرتے ہیں کہ جو ضروریاتِ دین میں سے کسی شے کا منکر ہو باجماع مسلمین یقیناً قطعاً کافر ہے۔ اگرچہ کروڑ بار کلمہ پڑھے مگر اس کی وضاحت تو کر دی جائے کہ فلاں شخص نے ضروریاتِ دین میں سے فلاں چیز کا انکار کیا ہے اور اگر واقعی ایسا ہے تو علماء کرام کو بہ اتفاقِ رائے فیصلہ صادر کرنا چاہیے تاکہ جماعتی انتشار ختم ہو اور معاملہ یک طرفہ ہو اور اگر معاملہ ایسا نہیں ہے تو کسی صحیح العقیدہ عالم کو یا کسی دینی تحریک اور ادارے کو صلح کلی، بدعقیدہ یا خارج از اسلام کہنے میں سخت احتیاط کرنی چاہیے۔ سنی سنائی باتوں پر بلا تحقیق کسی کو مجرم مان کر اس پر سخت حکم شرعی نافذ کر دینا تو ویسے بھی خلاف شریعت عمل ہے اور فتویٰ نویسی کے تقاضوں کے منافی بھی ہے اور ذمہ دار علما کو یہ غیر محتاط، غیر ذمہ دارانہ اور طفلانہ طرز عمل زیب نہیں دیتا۔ ہم اس حوالے سے بھی امام احمد رضا قدس سرہ کے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں۔ امام اہلِ سنت فرماتے ہیں :
’’فرض قطعی ہے کہ اہل کلمہ کے ہر قول وفعل کو اگر چہ بظاہر کیسا ہی شنیع وفظیع ہو حتی الامکان کفر سے بچائیں اگر کوئی ضعیف سے ضعیف، نحیف سے نحیف تاویل پیدا ہو، جس کی رُو سے حکمِ اسلام نکل سکتا ہوتو اس کی طرف جائیں، اور اس کے سوا اگر ہزار احتمال جانبِ کفر جاتے ہوں تو خیال میں نہ لائیں۔
(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 317)
اعلیٰ حضرت مزید فرماتے ہیں :
’’حدیث میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کفوا من اهل لا الٰه الا الله لا تکفروهم بذنب فمن اکفر اهل لا الٰه الا الله فهو الی الکفر اقرب.
’’لا الٰہ الا اللہ کہنے والوں سے زبان روکو، انھیں کسی گناہ پر کافر نہ کہو، لاالٰہ الااللہ کہنے والوں کو جو کافر کہے وْہ خود کفر سے نزدیک تر ہے‘‘
(المعجم الکبير، ج : 12، ص : 272)
امام احمد رضا قدس سرہ اس کے بعد ایک دوسری حدیث نقل فرماتے ہیں :
’’ تین باتیں اصل ایمان میں داخل ہیں، لاالٰہ الااللہ کہنے والے سے (کفر منسوب کرنے سے) باز رہنا اور اسے گناہ کے سبب کافر نہ کہا جائے اور کسی عمل پر اسلام سے خارج نہ کہیں‘‘
(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 318)
اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز مزید فرماتے ہیں :
ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ ائمہ دین فرماتے ہیں، جو کسی مسلمان کی نسبت یہ چاہے کہ اس سے کفر صادر ہو، وہ کفر کرے یا نہ کرے، یہ چاہنے والا بھی کافر ہو گیا کہ اس نے مسلمان کو کافر ہونا چاہا۔
(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 403)
مجدد ملت اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کی ان عبارتوں کی روشنی میں اب ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ اس مقام پر ہم ایک بار پھر یہ وضاحت کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے اکابر نے جن کلمہ گو لوگوں کی تکفیر کی ہے، اس کی وجہ ان کا ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کا انکار ہے۔ اس لئے حسام الحرمین کی حقانیت و صداقت اپنی جگہ مسلم ہے۔
آج بہت سے علماء امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے اس مشرب کے برعکس تحریر و تقریر کے جوہر دکھاتے پھر رہے ہیں حالانکہ وہ صبح وشام مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کو حق و سچ ثابت کرتے نہیں تھکتے۔ آئے دن ان کی طرف سے کفریہ فتاوٰی جاری ہوتے ہیں۔ فریقِ ثانی کی دعوتِ دین اور اس کی مقبولیت عامہ سے خائف ہو کر حاسدانہ مخالفت کے ہاتھوں فتوؤں کی بوچھاڑ کے ساتھ ساتھ کردار کشی کی بھی منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ انتہائی شنیع حرکت ہے۔ ہمیں اس قسم کی حرکتوں سے بہرصورت باز رہنا چاہیے۔
فروغِ فکرِ رضا کی مطلوبہ جہات
شاید ہم عہدِ حاضر کے ایک انتہائی حساس مسئلہ کو لے کر دیر تک الجھے رہے، گفتگو ہو رہی تھی، اہل سنت و جماعت کے اتحاد اور ان کی اجتماعی قوت میں انتشار کے اسباب اور وجوہات کی، یہ ایک سچائی ہے کہ پوری دنیا میں اہل سنت کا کوئی مضبوط پلیٹ فارم نہیں۔ دین و دانش اور دعوت و تبلیغ کے مختلف شعبوں میں با صلاحیت افراد کی بھی ضرورت ہے اور کثیر سرمائے کی بھی۔ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز نے بھی اپنے عہد میں اسی کا رونا رویا تھا اور عوام و خواص کو ان کی ذمہ داریوں کو بار بار یاد دلایا تھا، امام احمد رضا اپنے سائل سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
’’ جو آپ چاہتے ہیں اسی قوت متفقہ پر موقوف ہے جس کا حال اوپر گزارش ہوا۔ بڑی کمی امرا کی بے توجہی اور روپے کی ناداری ہے۔ حدیث کا ارشاد صادق آیا کہ ’’وہ زمانہ آنے والا ہے کہ دین کا کام بھی بے روپیہ کے نہ چلے گا۔‘‘ کوئی باقاعدہ عالی شان مدرسہ تو آپ کے ہاتھ میں نہیں، کوئی اخبار پرچہ آپ کے یہاں نہیں، مدرسین، واعظین، مناظرین، مصنفین کی کثرت بقدرِ حاجت آپ کے پاس نہیں۔ جو لوگ کچھ کر سکتے ہیں وہ فارغ البال نہیں۔ جو فارغ البال ہیں وہ اہل نہیں۔‘‘
(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 133)
امام احمد رضا قدس سرہ العزیز نے ہمیں اہلِ سنت کے فروغ کے لیے جن چیزوں کی کمی کا احساس دلایا تھا، مکمل ایک صدی بیتنے کے باوجود بھی ان کی فکر کا عَلم تھامنے کے دعویدار عملی طور پر اس جانب کما حقہ قدم نہ اُٹھا سکے۔
میڈیا کی ضرورت و اہمیت جتنی آج ہے اتنی اعلیٰ حضرت کے عہد میں ہرگز نہیں تھی، مگر واہ رے مردِ دور اندیش۔ امام اہل سنت نے ایک صدی قبل میڈیا کی ضرورت و اہمیت اور مضبوط تعلیمی اداروں کی ضرورت کو محسوس کیا تھا۔ آج ایک صدی گزرنے کے بعد بھی اہلِ سنت کا کوئی قابلِ ذکر ملکی اور عالمی سطح کا اخبار نہیں۔
اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کے ان عقیدت مند حضرات کو چاہیے تھا کہ وہ ان کی ان اعلیٰ خواہشات کے پیش نظر دینی تعلیمی ادارے بناتے۔۔۔ میڈیا کے اس دور میں مضبوط لوگوں کو تربیت دیتے۔۔۔ اخبارات اور رسائل پر توجہ دیتے اور اس کمی کو پورا کرتے، جن کی طرف امام اہل سنت نے توجہ مبذول کروائی تھی۔۔۔ مگر ان تمام فرائض کی بجا آوری کی بجائے جو کام مستعدی اور دلجمعی سے ہو رہا ہے وہ ایک دوسرے کی مخالفت اور مخاصمت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پہلے کے مقابل بیداری ضرور آئی ہے۔ چند رسائل بڑی پابندی سے اعلیٰ معیار کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ادارے اور شخصیات ہی ہمارے نادان دوستوں کے فتوؤں کی زد میں رہتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عقائد حقہ کے فروغ اور اصلاحِ احوال کے لئے بڑی جد و جہد کی ضرورت ہے۔
امام اہل سنت نے اپنے عہد میں ایک عظیم دارالعلوم اور مختلف میدانوں کے مردانِ کار کی کمی کا بھی شدت سے احساس کیا تھا۔ تصنیف و تالیف، تدریس و تحقیق، خطابت و مناظرہ، سیاست و صحافت اور دعوت و تبلیغ کے میدانوں میں ملکی اور عالمی سطح پر اس حوالے سے کچھ علماء و مشائخ نے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں مگر کاموں کے پھیلاؤ اور حالات کے دباؤ کا تقاضا ہے کہ مزید معیاری ادارے قائم کئے جائیں۔
اجتماعی قوت کا استحکام کیونکر ممکن ہے؟
امام اہل سنت نے اہل سنت کی اجتماعی قوت کے استحکام اور فروغ اہل سنت کے لیے جو دس نکاتی فارمولہ سپردِ قلم فرمایا تھا۔ اس کی جتنی اہمیت عہدِ رضا میں تھی آج اس سے بھی زیادہ ہے۔ اس فارمولہ میں آپ کا مرکزی خیال عقائد اہل سنت کے کما حقہ فروغ کے لئے جامعات کے قیام، درس وتدریس، تحقیق، تصنیف و تالیف، دعوت و تبلیغ اور اخبار و جرائد کے اجراء پر مبنی ہے۔
(تفصیل کے لئے فتاویٰ رضویہ، ج 2، ص 133 ملاحظہ فرمائیں)
امام احمد رضا قدس سرہ کی یہ دس تدبیریں ِ اہلِ سنت کی فلاح و بہبود اور احیاء کے لئے رہنما خطوطِ ہیں۔ امام احمد رضاقدس سرہ نے 15 جمادی الاخریٰ 1330ھ میں کیے گئے ایک سوال کے جواب میں یہ دس نکاتی فارمولا سپردِ قلم فرمایا تھا۔ اب 1434ھ ہے اس مکمل ایک صدی میں ہم نے ان تدابیرِ رضا پر کتنا عمل کیا، ہمیں انتہائی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
ہم یہاں تفصیل و تجزیہ سے گریز کرتے ہوئے اتنا ضرور عرض کریں گے کہ امام احمد رضا قدس سرہ نے اس دس نکاتی فارمولے میں پیری مریدی کے مروجہ رحجان سے متعلق کوئی تدبیر نہیں رکھی کہ پیرانِ طریقت تیار کر کے ملک کے گوشے گوشے میں بھیجے جائیں۔ لیکن آج علماء کرام اور مشائخِ عظام کی اولین ترجیح پیری مریدی بن گئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج اہلِ سنت میں 99فی صد اختلافات حلقہ مریداں کے حوالے سے ہیں۔ میرے اس تبصرے پر کوئی یہ نہ سمجھے کہ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز پیری مریدی کے مخالف تھے، یا ہم معاذ اللہ احسان و تصوف سے گریزاں ہیں۔ مسئلہ در اصل ان پیرانِ عصر کا ہے جو احسان و تصوف کے حقیقی تقاضوں سے بہت دور دولت و عشرت کے گلیاروں میں ہا و ہو کی ضربیں لگا رہے ہیں۔۔۔ جن کا مطمع نظر ارشاد و تبلیغ سے زیادہ حصول زر، آرام طلبی اور شہرت و ناموری ہے۔۔۔ انہیں اپنی ذات، اپنی گدی اور خانقاہ سے ہٹ کر کسی دینی میدان میں جان مارنے، غور و فکر کرنے اور جگر کوشی کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔
امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کسی معمولی فکر و دانش کی حامل شخصیت کا نام نہیں تھا لیکن افسوس ہم نے اپنی معمولی فکر و دانش کی روشنی میں امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کو پڑھا اور اسی نہج پر قوم کے سامنے ان کا تعارف کرایا بلکہ عام طور پر ہمارے اسٹیجوں پر امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے حوالے سے جو خطابات ہوتے ہیں ان کا عام طور پر لازمی تاثر یہ ہوتا ہے کہ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کی پوری زندگی صرف ردِ بد مذہباں سے عبارت تھی، انھوں نے اس کے علاوہ کچھ کیا ہی نہیں اور پھر یہی تاثر مخالفین بھی عوام و خواص میں پہنچاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اہل علم و دانش کے درمیان امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کی فکر و شخصیت کا وہ تعارف نہیں ہو سکا جس کے وہ متقاضی تھے۔
امام احمد رضا قدس سرہ العزیز بلا شبہ عظیم مجدد و مفکر تھے۔ ان کی حساس نظر جماعتی مسائل پر بھی تھی اور مسلمانوں کے عالمی منظر نامے پر بھی۔۔۔ وہ ملی فلاح و بہبو کے بھی زبردست داعی تھے۔۔۔ ایک سچے قائد و پیشوا کی نظر صرف مسجد و مدرسے تک محدود نہیں ہوتی۔ اس کی نظر میں مسلمانوں کاملی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی منظر اور پس منظر بھی ہوتا ہے۔ ایک عظیم مجدد اور مخلص مفکر کی منصبی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کے ہر گوشہ حیات پر نظر رکھے اور ان کے لیے بہتر سے بہتر خطوط فکر و عمل طے کرے۔
امام احمد رضا قدس سرہ العزیز ایک عبقری مفکر و مجدد تھے۔ امتِ مسلمہ کے سچے ہم درد اور مخلص رہ نما تھے۔ عصرِ حاضر کا تقاضا ہے کہ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کی فکر کے ان مذکورہ عملی پہلوؤں کو بھی سامنے رکھا جائے، اسی سے ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کے لئے رہنمائی لے سکتے ہیں اور یہی امام احمد رضا سے سچی محبت اور ان کی بارگاہ میں سچا خراجِ عقیدت ہے۔