بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
دستِ قدرت کی عطا ہے یہ ہمارا قائد
یہ لاہور کی ایک پر شکوہ مسجد کا وسیع و عریض صحن تھا جو تاحدِ نگاہ چمکتے چہروں سے بھر چکا تھا۔ مسجد کے اطراف میں خوبصورت شامیانوں کی پرشکوہ بستی آباد تھی جس میں کراچی سے کشمیر اور بلوچستان سے سرحد تک ہر علاقے کی نمائندہ تنظیمات کے ہزاروں پر جوش اور پر عزم پیرو جواں معتکفین بھی اپنی اپنی قیام گاہوں میں ہمہ تن گوش تھے۔ سینکڑوں لوگ برطانیہ، فرانس، ڈنمارک، ناروے، جرمنی، کوریا، جاپان، امریکہ، کینڈا حتی کہ سعودی عرب اور کویت سے بھی یہاں آکر اعتکاف بیٹھ چکے تھے۔ یہاں سے تھوڑے فاصلے پر اس روح پرور دس روزہ شہر اعتکاف کا ایک حصہ خواتین پر مشتمل تھا جہاں ایک تعلیمی ادارے میں کم و بیش چھ سات ہزار عورتیں گھریلو مصروفیات اور مانوس ماحول کو چھوڑ چھاڑ کر دس دنوں کے لئے یہاں فروکش ہوکر ذکر وفکر میں مصروف تھیں۔ شہر کے باسی رات کے خنک اور راحت بخش دامن میں دن بھر کی ہنگامہ خیزیوں کے بعد محو استراحت ہوچکے تھے جبکہ زندہ دلان لاہور کی بڑی تعداد روشنیوں سے جگ مگ تجارتی مراکز اور شاپنگ پلازوں میں گھوم پھر رھی تھی۔ پاکستانی قوم کا ایک طبقہ دارالحکومت اسلام آباد کی عدالتی، پارلیمانی اور سیاسی سرگرمیوں پر نظریں گاڑے صدارتی الیکشن کے سودوزیاں کا حساب لگارہا تھا۔ دو سال تک خفیہ ڈیل کی کہانی اب طشت از بام ہورہی تھی قومی مصالحتی آرڈیننس کے نام پر ہوسِ اقتدار کے پجاری فریقین قوم کے ساتھ سفاکانہ مذاق کی تفصیلات طے کرچکے تھے۔ مذہبی و سیاسی بازی گروں کے داؤ پیچ اور لمحہ بہ لمحہ جھوٹ کی نت نئی داستانوں کے خالق ’’قومی راہنما‘‘ ذرائع ابلاغ کے ذریعے سادہ لوح عوام کے سامنے دانشورانہ اظہار خیال میں مصروف تھے۔ ام المسائل غربت کے ہاتھوں قاتلانہ حملوں کا شکار اسی نیم جاں قوم کے متوسط طبقے سے کم و بیش 35 ہزار خواتین و حضرات کا محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے خرچ پر یہاں جمع ہونا واقعی اس مادی دور میں کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ تعلیم و تربیت اور تزکیہ و تطہیر کی خواہش لیکر آنے والوں کی اس بستی کی نبض پر ایک شخص کا ہاتھ تھا۔ یہ سارے پروانے اسی ایک شمع کے گرد منڈلارہے تھے۔ ان سب کی آنکھیں ایک چہرے کو دیکھنے، کان ان کی گفتگو سننے اور اس کے ایمانی جذبوں کو اپنے تن بے روح میں اتارنے کی کوشش کررہے تھے۔
ہاں۔ جامع المنہاج کی اس روحانی بستی کے اس نقیب کا نام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہے اور اہل علم و دانش انہیں شیخ الاسلام کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ آپ بھی آغا ز میں پرویز مشرف کے سات نکاتی احتسابی اور ترقیاتی ایجنڈے کے پرزور حامی تھے۔ پھر جب عام انتخابات کا موسم آیا اور ’’وننگ ہارسز‘‘ کے چناؤ میں جنرل صاحب نے تمام اصول اور ضابطے ایک طرف رکھتے ہوئے فوجی آمریت پر جمہوریت کا مضحکہ خیز لیبل لگایا اور یکے بعد دیگرے غیر اخلاقی غیر جمہوری اقدامات کئے گئے تو حضور شیخ الاسلام وہ واحد اسمبلی ممبر تھے جنہوں نے (17ویں ترمیم کے بعد) باوردی صدارت کے خلاف باقاعدہ احتجاج کیا اور موجودہ قومی اسمبلی کو ربڑ سٹمپ قرار دیکر مزید وقت ضائع کئے بغیر اس کی ’’نفع بخش‘‘ رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ وہ دن اور آج کا دن انہوں نے مڑ کر کوچہ سیاست کا رخ کیا اور نہ ہی کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لیا۔ انہوں نے مصطفوی انقلاب کے پروگرام کو آئندہ کسی مناسب وقت کے لئے سنبھال کر رکھ لیا ہے۔ استعفیٰ دیتے وقت بلائی گئی پریس کانفرنس میں انہوں نے مذہبی قوتوں کے ساتھ مل کر نفاذ اسلام کے لئے کاوشیں جاری رکھنے کے سوال پر فرمایا تھا ’’مذہبی جماعتوں کے جو 7 درجن نمائندے اسمبلی میں آج تک ایک بل بھی پیش نہیں کرسکے ان سے نفاذ اسلام کی توقع ایک خواب تو ہوسکتا ہے حقیقت نہیں۔ ایم ایم اے کے ممبران نفاذِ اسلام کے علاوہ ہر ایجنڈے پر کار بند دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے وابستہ سماجی سیاسی اور مالی مفادات نفاذ اسلام سے زیادہ عزیز ہیں‘‘۔
سننے والوں میں سے اکثریت نے اس ’’تلخ نوائی‘‘ کو اس وقت مخالفت برائے مخالفت سمجھا لیکن آج یہ سب کچھ سچ ثابت ہوچکا ہے جب جنرل پرویز مشرف تمام اصول، ضابطے، آئین اور اخلاقیات ایک طرف رکھتے ہوئے ملکی تاریخ کی بدترین ڈیل کے نتیجے میں آئندہ پانچ سالہ مدت کے لئے غیر سرکاری طور پر صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ اس انتخاب کے پیچھے قاف لیگ کے ساتھ امریکہ نواز آمریت کو سہارا دینے والوں میں پی پی اور ایم ایم اے والے ایک ہی جگہ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ خود غرضی، مفاد پرستی اور جنون کی حد تک ہوس اقتدار میں مدہوش مذہبی و سیاسی قائدین کی قطار پر نظر دوڑائیں تو واقعتا ہمارے قائد کے اس وقت کے اندازے حرف بہ حرف درست تھے اور بھرے میلے کو چھوڑ کر اپنے علمی و تحقیقی گوشے میں آبیٹھنا ان کا نہایت موزوں اور بروقت فیصلہ تھا۔ بلاشبہ ان کے اخلاص، جرات اور استغناء کو داد دینا پڑتی ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ وہ ہمارے دور کے ان عظیم المرتبت لوگوں کے سرخیل ہیں جن کے دلوں کو اللہ پاک نے دین کی خدمت و محبت کے لئے منتخب کرلیا ہے۔ ان کی شخصیت میں متاثر کن کشش اور لہجے میں بلاکی خود اعتمادی اور درد امت پنہاں ہے۔ حکمت و دانش اور فہم و بصیرت کے ساتھ ان کی شبانہ روز محنت وکاوش کا نتیجہ ہے کہ اس وقت ان کی قائم کردہ ’’تحریک منہاج القرآن‘‘ دنیا کی سب سے بڑی موثر اور مقبول عام تنظیم ہے۔ پاکستان کے اطراف و اکناف کے علاوہ دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں ان کا موثر نیٹ ورک موجود ہے۔ جہاں اسلام کی نورانی تعلیمات، پر امن بقائے باہمی، اخوت اور محبت و عمل صالح کے سانچے میں ڈھل کر لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدل چکی ہیں۔ اس دورِ ظلمت و مادیت میں ان کا وجود بلاشبہ اہل اسلام اور اہل پاکستان پر ایک نعمت عظمیٰ سے کم نہیں جب کہ ہر طرف مذہب کے نام پر نفرت قتل و غارت فتنہ و فساد اور خانہ جنگی کی بدترین فضاء میں مسلمان ہی مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ یہ سالانہ اعتکاف گاہ ہو یا ستائیس رمضان کا روحانی اجتماع، 12 ربیع الاول کو ہونے والی عالمی میلاد کانفرنس ہو یا یورپ میں ہونے والے تربیتی اور دعوتی کیمپ ہر جگہ وہ علم و تحقیق، حکمت و تدبر اور باوقار روحانیت کے ذریعے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو شایانِ شان طریقے سے متعارف کروارہے ہیں۔ آج کل Q ٹی وی کی ذریعے روزانہ رات دس بجے ان کے روح پرور خطبات و دروس نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت، بنگلہ دیش، یورپ، کینڈا، امریکہ، مشرق بعید اور دیگردرجنوں ممالک میں رہنے والے مسلمان جس ذوق شوق اور عقیدت سے سنتے ہیں اور مثبت اثرات کو قبول کرتے ہیں جس کی مثال اس وقت شاید ہی کہیں پوری دنیا کے اسلام میں کہیں اور موجود ہو۔ قائد تحریک کو اللہ پاک نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ عشق و محبت کا وہ طاقتور جذبہ عطا کر رکھا ہے جس کی تمنا اقبال نے امت کی پستی کو عروج اور سربلندی میں بدلنے کے لئے ان الفاظ میں کی تھی۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد (ص) سے اجالا کردے
انہیں ایک طرف اسلاف کا جذبِ دروں محدثین و مفسرین کا فہم دین اور عشاق کی زبان نصیب ہوئی ہے تو دوسری طرف جدید علوم اور نئے تقاضوں کے مطابق دینی معارف کو نئی نسل کے سامنے آسان ترین انداز میں رکھنے کا خصوصی ملکہ بھی عطا ہوا ہے۔ آج سے 26 سال قبل انہوں نے لاہور میں بے سروسامانی کے عالم میں جس ادارے کی بنیاد رکھی اور چند ساتھیوں کو لیکر سوئے منزل قدم اٹھایا آج وہ ادارہ ایک عالمی تنظیم اور ان کے وہ چند ساتھی لاکھوں، کروڑوں جانثار عقیدت مندوں کے ہجوم میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ کیا کسی شخص کا یہ کمال کم ہے کہ ان کے تعلیمی دعوتی اور تربیتی اداروں سے اس وقت لاکھوں لوگ زیور تعلیم اور نعمت ایمان سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ رہے اختلافات اور تحفظات جو ان کے معاصرین کو ان سے ہیں تو یہ بھی ان کی غیر معمولی شخصیت اور اثرات کے بہتے دریا کا رد عمل ہیں جس کی ہزاروں مثالیں انبیاء و اولیاء اور مصلحین کی زندگیوں میں ملتی ہیں اور یہ ان کے حق پر ثابت قدم ہونے کی بڑی نشانی بھی ہیں۔
بحیثیت قوم ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو ان کی زندگیوں میں قریب ہوکر دیکھنے کی بجائے دور سے سنی سنائی پر فتوی لگانے میں دیر نہیں لگاتے اور جب یہ شخصیات طبعی عمر گزار کر دنیا سے پردہ فرماجاتی ہیں تو ان کی شان میں قصیدے لکھے جاتے ہیں اور خدمات پر سیمینار اور جلسے منعقد کئے جاتے ہیں۔ بقول شاعر
عمر بھر سنگ زنی کرتے
رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
بہر حال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی، تحقیقی، دعوتی، تنظیمی، تعلیمی، سماجی، تربیتی اور سیاسی خدمات اور دنیا بھر میں ثمرات کو دیکھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ واقعتاً اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو ہر دور میں زندہ رکھنے کے لئے ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیات کو فیض نبوت سے سرفراز کرتا ہے جو ہر دور میں علم نبوت کے وارث اور حقیقی ترجمان ہوتے ہیں۔ ان کا انتخاب بھی دست قدرت خود کرتی ہے اور ان کے کردار کی صلابت کو نکھارنے کے لئے زمانے کی تلخیوں کو ان کے اردگرد جمع بھی کردیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ دس روزہ مجالس اعتکاف میں انہوں نے بالترتیب حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، امام حسن بصری، فضیل بن عیاض، حضرت معروف کرخی، امام احمد بن حنبل، ابراہیم بن ادہم ، سفیان ثوری اور ذوالنون مصری رضوان اللہ علیہم جمیعاً کی سیرت و کردار سے اکتساب فیض کرتے ہوئے خصوصاً علم حدیث میں ان کی شاندار خدمات پر نادر معلومات عوام و خواص کے سامنے رکھیں۔ ان خطبات میں بیٹھنے والا ہر شخص ان کے فہم دین، علمی تبحر اور قوتِ استدلال کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ وہ بلاشبہ دست قدرت کا شاہکار اور انتخاب ہیں۔ جن کے دم قدم سے گلزار عالم ایمان بخش جذبوں سے مزین ہے۔ لاریب وہ بزم عشق کے رازداں ہیں جن کی نگاہِ فیض رساں سے بنی آدم کا بھرم قائم ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ان کی محبت کے اسیر ہیں، جنہیں ان کے پرچم تلے دین متین کی خدمات کا شرف حاصل ہے اور جو ان کے قافلہ علم وفکر کا حصہ اور بزم عشق و مستی کے ہم جلیس ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کے سب کارکنان، تمام رفقاء اور جملہ وابستگان اس سعادت پر ناز بھی کریں اور اقامتِ دین کے مشن میں کوشاں بھی رہیں۔
ڈاکٹر علی اکبر قادری