سوال: کیا حالت غربت و مظلومیت کو تقدیر پر محمول کرنا درست ہے؟ کیا انسان مجبور محض ہے؟ نیز قرآن و سنت کی روشنی میں تقدیر کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: قدیم زمانے سے گمراہ انسانوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے جرائم اور گناہوں کو تقدیر کا نام دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور مظلوم طبقہ بھی خدا کی رضا سمجھ کر چپ ہوجاتا ہے۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ تقدیر علمِ الہٰی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا ہے؟ اسے وہی بہتر جانتا ہے۔ ہمیں اس پر اتنا ایمان رکھنا چاہئے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے ٹائم ٹیبل کے مطابق ہوتا ہے، اُس کے لئے کوئی حادثہ اچانک نہیں ہوتا کیونکہ وہ سب کچھ پہلے سے جانتا ہے۔
یاد رکھیں کہ ہم تقدیر کے مکلف نہیں بلکہ احکام شرع کے پابند ہیں۔ کوئی شخص جرم کا ارتکاب اور نیکی کا انکار اس دلیل سے نہیں کرسکتا کہ میری تقدیر میں یہی تھا اس لئے کہ آپ کو شریعت نے نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کا واضح حکم دیا ہے۔ آپ اس شرعی حکم کو بخوبی جانتے ہیں۔ تقدیر کا تعلق علم غیب سے ہے جو آپ کے بس میں نہیں، پھر جو چیز آپ جانتے ہیں اور جس کا حکم بھی آپ کو دیا گیا ہے اور جس کی تعمیل یا انکار کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ اگر آپ اس کی تعمیل نہیں کرتے اور اس علم الہٰی کا جسے آپ جانتے ہی نہیں، بہانہ بناکر آپ غلط راہ اختیار کررہے ہیں کہ جی قسمت میں یہی لکھا تھا۔ آپ کو کیسے پتہ چل گیا کہ آپ کی قسمت میں یہی لکھا تھا؟ کیا آپ نے لوح محفوظ پر لکھا دیکھ لیا تھا؟ پس جس کا پتہ ہے اختیار ہے، کرنے کی قدرت ہے، جس کے انجام سے باخبر ہیں اس پر عمل نہ کرنا اور جسے جانتے ہی نہیں اس کا بہانہ بنا کر فرائض سے فرار اور جرائم کا ارتکاب کرنا، بیمار اور مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
تقدیر کے پابند ہیں جمادات و نباتات
مومن فقط احکام الہٰی کا ہے پابند
اس غلط سوچ نے ہمارے معاشرے کو جہنم زار بنادیا ہے۔
عمل سے فارغ ہوا مسلمان
بنا کے بہانہ تقدیر کا
غربت، پسماندگی، جہالت، بیروزگاری، ظلم، ڈاکے، قتل، اغوا، آبرو ریزیاں، تخریب کاریاں، رشوت اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے تمام شیطان تقدیر کا غلط مفہوم نکال کر ہی اپنی کرتوتوں کا جواز نکالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی کسی کو ظلم کرنے کا حکم نہیں دیا۔ نہ مظلوم کو دب دبا کر ظلم کے آگے گھٹنے ٹیکنے کا کہیں حکم دیا بلکہ مظلوموں کو ظالموں سے قتال کرنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا:
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌO
(الحج، 22 : 39)
’’جن سے لڑا جارہا ہے ان کو اجازت دے دی گئی اس وجہ سے کہ ان پر ظلم ہوا اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قدرت رکھتا ہے‘‘۔
مسئلہ جبرو قدر:
بعض لوگ اپنی برائیوں سے بھری زندگی کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان اپنے خصائل کی تشکیل کے حوالے سے بھی بے بس ہے لہذا ایسے انسان کو گناہ و ثواب اور خیرو شر کی کڑی آزمائش میں ڈالنا ظلم ہے۔ ان احباب کی خدمت میں عرض ہے کہ ہمیں عقل، فہم، دانش، شعور، حواس اور وحی کے ذریعے اچھے برے کا تمام علم دے دیا گیا۔ سیدھے راستہ کی نشاندہی بھی فرما دی اور اس پر چلنے کا انجام بھی۔ برا راستہ بھی بتا دیا اور اس کو اپنانے کا خطرناک نتیجہ بھی۔ ہمیں علم، شعور اور ارادہ و اختیار دے دیا کہ سمجھو اور جس راستے کو چاہو اختیار کرلو۔ یہ اختیار فرشتوں کو نہیں ملا، انسانوں کو ملا ہے۔ اس میں انسانوں کی عزت و عظمت ہے کہ وہ بے اختیار پتھر یا کسی مشین کا کل پرزہ نہیں۔ بااختیار، باشعور، مقتدر ہستی ہے لیکن اکثر انسانوں نے اللہ کی ان عطا شدہ نعمتوں کی ناقدری کی اور ان کا غلط استعمال کیا اور بجائے فائدے کے اپنی ہلاکت کا سامان کرلیا جیسے لوہے سے آپ نے ایک نہایت ضروری اور کار آمد مفید آلہ چھری بنائی۔ اب اس کا استعمال آپ کے اختیار میں ہے چاہیں تو گوشت، سبزیاں وغیرہ کاٹ کر زندگی کو سہولتوں سے متمتع کریں اور چاہیں تو اپنے یا کسی اور بے گناہ کے پیٹ میں گھونپ کر چراغ زندگی گل کردیں۔ قصور نہ لوہا بنانے والے خدا کا ہے نہ چھری بنانے والے کا۔ قصور اس احمق کا ہے جس نے خالق کی نافرمانی کی۔ دوسرے انسانوں سے بہتر استعمال کا سبق نہ لیا اور کسی خیر خواہ کے مشورے پر بھی توجہ نہ دی۔ عقل و فہم اور شعور کا بھی خون کیا اور پند ناصح کو بھی درخور اعتناء نہ جانا۔ انسان اپنی ابتدائے آفرینش سے فریب نفس کا شکار ہے۔ جان بوجھ کر غلط کاریاں کرتا ہے اور اپنے نفس کو دھوکہ دینے اور طفل تسلیوں کے طور پر اس قسم کی منفی سوچوں میں مگن رہتا ہے۔
پر تجسس ذہن وہ نہیں جو منفی سوچ سوچے، تجسس صحیح وہی ہے جو مثبت ہو۔ صبح سویرے اٹھتا، قضائے حاجت سے فارغ ہوتا، ناشتہ کرتا اور دفتر، دکان، کارخانے، سکول، کالج، کھیت، زمین، باغ، منڈی کی طرف وقت مقررہ پر روزی کمانے اور مستقبل سنوارنے کے لئے ہمت کرکے چل پڑتا ہے۔ اس وقت ایسی منفی سوچ نہیں سوچتا، کام سے فارغ ہوکر گھر پہنچتا، کھانا کھاتا اور وقت پر سوتا ہے۔ کبھی ان مصروفیات پر منفی سوچ کی گرد پڑنے نہیں دیتا۔ ہر کام وقت پر کرتا ہے لیکن جونہی دینی فرائض انجام دینے کی باری آئی، نفس ہزاروں وسوسے پیدا کرتا اور انسان کو احساس ذمہ داری سے عاری کرتا ہے۔ کبھی اپنی کوتاہیوں کو تقدیر کے پلڑے میں ڈالتا ہے کبھی ماحول کی آلودگی کے ذمے لگاتا ہے۔
یہ سب بہانے اور نفس کی خود فریبیاں ہیں۔ وسوسوں سے دامن بچایئے۔ ہدایاتِ نبوت پر یقین کے ساتھ کار بند ہونا سیکھئے اور سکون سے زندہ رہئے۔ نیک عمل کیجئے اور گناہوں کے خلاف سینہ سپر ہوجائیے۔ ان وساوس سے بچنے کا ایک بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی صحبت بھی ہے۔ کسی بزرگ کی صحبت اختیار کریں۔ اپنی زندگی سنوارئیے اور دوسروں کا بھلا کیجئے۔
ہم حکم خداوندی کے پابند ہیں علم خداوندی کے نہیں
تقدیر کے حوالے سے یہ سوال بھی اکثر ہمارے ایمان کو متزلزل کرتا رہتا ہے کہ رزق کمانے کے لئے حلال و حرام ذرائع اختیار کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے مگر مقدار میں اضافہ یا کمی انسان کے اختیار میں نہیں۔ اس امرکو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ تقدیر کا لغوی معنی ہے ’’اندازہ لگانا، مقرر کرنا‘‘۔ اس کا تعلق محض اللہ کے علم سے ہے۔ عام انسانوں کو اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اللہ کے علم میں کیا مقرر ہے۔ دوسری چیز ہے اللہ کا حکم، جس کا بندوں کو علم ہے۔ وحی کے ذریعے، آثار کائنات کے ذریعے، ہم حکم خداوندی کے پابند ہیں۔ علم خداوندی کے نہیں۔ حکم ہے نماز پڑھو، ہم پر نماز پڑھنا فرض ہے۔ ہم یہ فرض اپنے اختیار سے بجالائیں گے یا خواہش نفس اور شیطان سے مغلوب ہوکر ترک نماز کریں گے۔ یہ ہے اللہ کا علم، یعنی تقدیر۔ رزق کمانے کا مسئلہ بھی غور کریں تو اس سے سمجھ میں آجائے گا۔ رزق کے بارے حکم ہے کہ کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ ستھرا کھاؤ۔ یہ حکم بالکل واضح ہے۔
وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ.
(البقره، 2 : 188)
’’اپنے مال آپس میں باطل طریقوں سے نہ کھاؤ‘‘۔
یہ ہے حکم ممانعت، جو بالکل واضح ہے۔ اب اللہ کا کمال علم یہ ہے کہ اسے معلوم ہے۔ ان واضح احکام کے باوجود، کون حلال کی پابندی کرے گا اور کون اپنے اختیار سے ان احکام کی خلاف ورزی کرے گا۔ بندے کو کرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ میں نے کیا کیا غلطی کی، کب کی، کیوں کی؟ اور ان تمام امور کو رب تعالیٰ ازل سے جانتا تھا۔ اب فرمائیے! انسان ان واضح احکام و ہدایات کے ہوتے، ان کے خلاف کیوں کرے؟ اور علم الہٰی جس کا اسے کوئی پتہ نہیں، اسے ترک حکم یا حکم کی خلاف ورزی کا کیوں بہانہ بنائے؟
دراصل ہماری دینی امور میں بے حسی ہمیں ایسے وساوس کا شکار کرتی ہے۔ یہ سوچ ایسی ہی ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے ہاتھوں قتل ہونا ہے۔ یہ تقدیر الہٰی میں اٹل ہے۔ اب اس قاتل کو سزا کیوں دی جاتی ہے؟ یہی حال چوری، بدکاری اور دیگر جرائم کا ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ تقدیر الہٰی یعنی علم الہٰی میں کیا ہے اور کیا نہیں، اسے مالک تقدیر جانے۔ ہم تقدیر کے مامور نہیں، احکام شرع کے محکوم ہیں۔ ہمیں وہی کرنا چاہئے جس کا حکم شریعت نے دیا ہے۔ گمراہی کے اندھے کنوؤں میں نہیں جھانکنا چاہئے، جہاں پہلے صحیح اندازہ نہیں ہوتا، گرنے کے بعد ہوتا ہے، جب وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
تقدیر علم خداوندی کا نام ہے
’’ہر کام اللہ کی رضا سے ہوتا ہے‘‘ اگر رضا سے مراد مشیت ہو تو ٹھیک ہے۔ اللہ کی مشیت یہ ہے کہ ہر انسان کو اختیار، ارادہ اور اچھے برے کا علم حاصل ہو۔ نیک و بد کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا جائے۔ نیکی اور بدی کے نتیجہ سے سے آگاہ کردیا جائے اور کسی ایک کے اختیار کرنے میں اسے اختیار دیا جائے اور وہ اپنی مرضی و اختیار سے نیکی یا بدی میں سے ایک کو اختیار کرلے۔ اب بندہ کس کو اختیار کرتا ہے اس میں مختار ہے۔ کیا اختیار کرے گا اس کو اللہ ازل سے جانتا ہے۔ اس علم الہٰی کو تقدیر کہتے ہیں کہ جو دنیا میں ہورہا ہے اس کے علم اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ہورہا ہے۔ محض اتفاق سے کچھ بھی نہیں ہورہا چونکہ بندہ نہیں جانتا اس لئے وہ اندھیرے میں تیر پھینکنے کا مکلف نہیں۔ وہ قرآن و سنت کے ان احکامات پر عمل کرنے کا مکلف ہے جو واضح ہیں، جن میں خفاء نہیں لہذا وہ احکام شرع چھوڑ کر علم الہٰی کے کھوج میں کیوں لگے؟
دنیا کمانے میں تقدیر کا سہارا کوئی نہیں لیتا، تگ و دو کرتا ہے۔ دین کے معاملہ میں بہانے بنائے جاتے ہیں لہذا تقدیر کی فکر نہ کریں، احکام شرع کی تعمیل کی فکر کریں۔ کیا سود خور یہ کہہ کر بچ جائے گا کہ میری تقدیر میں سود خوری لکھی ہوئی تھی۔ کہا جائے گا آپ کو تقدیر یعنی علم الہٰی جو غیب ہے وہ نظر آگیا اور قرآن میں حرمت سود کا واضح حکم نظر نہ آیا۔
کیا قاتل یہ کہہ کر چھوٹ جائے گا کہ میرے ہاتھوں قتل ہونا تقدیر میں تھا۔ کہا جائے گا حرمت جان اور قتل کا حرام ہونا تو قرآن میں واضح طور پر موجود تھا جس کے آپ مکلف تھے۔ کیا نوشتہ تقدیر بھی آپ کے سامنے ایسا ہی واضح تھا جس پر آپ نے عمل کیا؟ حکم شرع پر عمل کرنا تو قرآن میں موجود ہے، کیا تقدیر کے مطابق عمل کرنے کا بھی قرآن و سنت میں کہیں حکم ہے؟ پس احکام شرع پر عمل کریں جس کا حکم ہے۔ تقدیر علم خداوندی کا نام ہے، اسے سپرد خدا کریں۔