امام سُلَمِی کی ’’طبقات الصوفیہ‘‘ سے شہر اعتکاف رمضان 2007ء میں
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا علمی، تربیتی اور روحانی خطاب
ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین
امسال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام منعقدہ شہر اعتکاف 2007ء کے ہزاروں معتکفین کی علمی، تربیتی، فکری، اخلاقی اور نظریاتی اصلاح کے لئے امام ابو عبدالرحمن محمد بن حسین السُّلَمِی (325ھ۔ 412ھ) کی تصوف کے موضوع پر لکھی گئی شہرہ آفاق کتاب ’’طبقات الصوفیہ‘‘ کے دروس ارشاد فرمائے۔ ’’طبقات الصوفیہ‘‘ ’’طبقات سُلَمِی‘‘ کے نام سے بھی معروف ہے۔ اولیاء کرام کے احوال، ارشادات و فرمودات اور ان کے تذکرہ پر مشتمل یہ تاریخ اسلام و تصوف میں لکھی گئی پہلی جامع کتاب ہے۔ تصوف و سلوک کی جملہ کتب کے تمام مصنفین نے بلا استثناء ’’طبقات سُلَمِی‘‘ پر انحصار کیا ہے۔ تعلیمات تصوف اور احوال صوفیاء کے باب میں طبقات السلمی کا درجہ اسی طرح کا ہے جیسے حدیث کے باب میں بخاری شریف کا مقام ہے۔ امام سُلَمِیْ، حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے دادا شیخ ہیں۔ امام ابوالقاسم القشیری رحمۃ اللہ علیہ (صاحبِ رسالہ القشیریہ)، حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ میں سے ہیں اور اما م قشیری رحمۃ اللہ علیہ، امام سُلَمِیْ کے تلامذہ اور مریدین میں سے ہیں۔
معزز خواتین و حضرات! طبقات الصوفیہ کا درس شروع کرنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ تذکرۃ الاولیاء کے باب میں ’’طبقات الصوفیہ‘‘ پہلی جامع کتاب ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تصوف کے باب میں یہ پہلی کتاب ہے کیونکہ تصوف میں اس سے بہت پہلے بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ تصوف اور طریقت پر کتابیں اس وقت سے آئمہ، اکابر اور اسلاف امت نے لکھنی شروع کیں جب ابھی صحیح بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور دیگر کتب حدیث بھی نہیں لکھی گئی تھیں۔ الغرض صحاح ستہ سے بھی بہت پہلے تصوف پر کتابیں لکھی گئیں۔ لیکن لوگوں کی اکثریت مطالعہ کی کمی کی بناء پر اس حقیقت سے لاعلم ہے۔
تصوف پر لکھنے والوں میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں، انہوں نے ’’کتاب الزہد‘‘ لکھی۔ پہلے زمانوں میں تصوف کے لئے ’’الزہد والرقائق‘‘ یا ’’الزہد والرقاق‘‘ کی اصطلاح علمی طور پر استعمال ہوتی تھی اور عملی طور پر ’’تزکیہ اور احسان‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ اسی طرح وکیع بن الجراح (م196ھ)، امام الحدیث ہیں اور اصحاب صحاح ستہ کے رجال میں سے ہیں اور حدیث میں سند ہیں، انہوں نے کتاب ’’الزہد والرقائق‘‘ لکھی یہ امام اعظم ابو حنیفہ کے تلامذہ میں سے ہیں۔ ۔ ۔ ان سے بھی پہلے امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ (م : 181ھ) نے ’’کتاب الزہد والرقائق‘‘ لکھی اور یہ بھی امام اعظم ابو حنیفہ کے ہم عصر ہیں نیزامام اعظم کے تلامذہ اور مداحین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ان کا اپنا درجہ امیرالمومنین فی الحدیث ہے اور علم الحدیث میں اس ٹائٹل سے بڑا کوئی ٹائٹل نہیں ہے۔ جیسے تصوف و ولائت کی دنیا میں غوث کا ٹائٹل ہے اس طرح حدیث کے باب میں امیرالمومنین فی الحدیث ہے۔ گویا علم الحدیث میں امیرالمومنین فی الحدیث، غوث کا درجہ رکھتا ہے۔ امام عبداللہ بن مبارک اور امام سفیان ثوری امیرالمومنین فی الحدیث کے درجے پر فائز تھے۔ امام عبداللہ بن مبارک بھی صوفی ہیں اور امام سفیان الثوری بھی صوفی ہیں۔ پس جو امیرالمومنین فی الحدیث تھے وہ خود صوفیاء تھے۔
علاوہ ازیں کتاب الزہد و صفۃ الزاہدین (امام احمد بن محمد بن زیاد بن بشر ابو سعید بن الاعرابی۔ 245۔ 340ھ)، کتاب الزہد (ھنادد بن سری الکوفی۔ 152۔ 234ھ)، کتاب الزہد (ابن ابی عاصم شیبانی۔ م287ھ)، کتاب الزہد (امام احمد بن حنبل۔ 164۔ 241ھ)، کتاب الورع (امام احمد بن حنبل۔ 164۔ 241ھ)، کتاب الورع، کتاب الحلم، کتاب الاولیاء۔ ابن ابی دنیا۔ 208۔ 281ھ) بھی شہرہ آفاق کتب تصوف ہیں اور ان کے مصنفین کا شمار آئمہ حدیث میں بھی ہوتا ہے۔
لہذا تصوف، صحاح ستہ کے دور سے بھی بہت پہلے مرتب ہوا۔ اولیاء اللہ کے احوال و مقامات، فرمودات و تعلیمات کو تذکرہ کی شکل میں جمع کرنا، تصوف کے علم کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ بہت ساری کتب تصوف جن سے آپ واقف ہیں، ان میں سے ہر ایک میں ایک باب تذکرۃ الاولیاء کے نام سے مخصوص ہوتا ہے۔ حضور داتا گنج بخش سیدنا علی ہجویری کی کشف المحجوب میں بھی تذکرۃ الاولیاء کا ایک باب ہے جس میں آپ اجل اکابر، قرون اولیٰ کے اولیاء اللہ کے احوال لکھتے ہیں۔ ۔ ۔ اس طرح عوارف المعارف میں بھی اولیاء کے تذکروں پر مشتمل باب ہے۔ ۔ ۔ حضرت فریدالدین عطار کی مکمل کتاب تذکرۃ الاولیاء ہے۔ ۔ ۔ حضرت ابراہیم الخواص کی ’’تذکرۃ الخواص‘‘ ہے۔ الغرض جس طرح محدثین کے ہاں طبقات المحدثین، میزان الاعتدال، تہذیب التہذیب، التقریب التہذیب، تہذیب الکمال، سیر اعلام النبلاء، تاریخ بغداد، امام بخاری کی التاریخ الکبیر اور التاریخ الصغیر ہے اور یہ کتب محدثین کے طبقات سے متعلق ہیں۔ محدثین کی سیرت، ان کے ثقہ ہونے، ان کے مقام و مرتبہ پر دیگر کتابیں ہیں اس طرح صوفیاء اور اولیاء کے احوال پر کتابیں ہیں ان کتابوں کو تذکرۃ الاولیاء کی طرز کی کتابیں کہتے ہیں۔
اس ضروری وضاحت کے بعد ’’طبقات الصوفیہ‘‘ میں موجود علمی، تربیتی اور روحانی معارف سے اپنے قلوب و ارواح کو منور کرنے کی کوشش کے طور پر دروس کا آغاز کرتے ہیں۔
1۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ
’’طبقات الصوفیہ‘‘ کا پہلا باب حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔
آپ کا اسم گرامی فضیل بن عیاض بن مسعود بن بشر التمیمی ہے۔ اصلاً خراسان، ایران کے صوبے سے تھے اور اکثر محدثین و آئمہ ایران سے ملحقہ علاقوں سے ہوئے۔ جن میں امام ابن ماجہ، امام نسائی، امام ترمذی (اس زمانے کا ترکستان جو آج ازبکستان ہے، ایران کا ہی حصہ تھا) امام ابو داؤد (سجستان سے ہوئے جو ایک روایت کے مطابق خراسان کا گاؤں تھا) امام مسلم (نیشا پور)، امام بخاری (بخارا سے جو آج ازبکستان ہے مگر اس زمانے میں وہ بھی ایران کا صوبہ تھا) قابل ذکر ہیں۔ اس سے اسلامی تعلیمات کے فروغ میں اس خطہ کے Contribution کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
حضرت فضیل بن عیاض کی ولادت سمرقند بخارا میں ہوئی، وفات 187 ہجری میں ہوئی، یہ جلیل القدر امام حدیث بھی تھے، ابن ماجہ کے سوا صحاح ستہ کی بقیہ کتب کے رجال میں سے ہیں۔ لوگوں نے حضرت فضیل ابن عیاض کو صرف صوفی جانا حالانکہ یہ امام حدیث بھی ہیں، آپ نے اپنا علم زیادہ تر کوفہ میں حاصل کیا، ان کی متصل سند حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم تک پہنچتی ہے۔
٭ حضرت فضیل ابن عیاض، امام منصور المعتمد السلمی سے روایت کرتے ہیں، وہ سیدنا ابراہیم النخعی (جو امام اعظم کے شیخ ہیں) سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت علقمہ بن قیس النخعی سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا :
يَقُوْلُ اللّٰهُ تعالیٰ لِدنيا يَا دُنْيَا مُرِّ عَلٰی اَوْلِيآئِی وَلاَ تَحْلَوْلِ لَهُمْ وَ تَفْتَنِيْهِمْ.
(مسند الشهاب ج 2، ص 325، رقم 1453)
یہ امر ذہن نشین رہے کہ اس پوری سند میں کوئی راوی کمزور اور غیر ثقہ نہیں ہے، اصول الحدیث کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ جس سند کے راوی فقہاء محدثین ہوں خواہ وہ سند طویل ہی کیوں نہ ہو اور اس کے مقابلے میں چھوٹی سند ہو اور اس کے راوی غیر فقہاء محدثین ہوں تو فقہاء محدثین کی سند نازل (طویل)، خالی محدثین کی سند عالی سے بھی اعلیٰ و ارفع تصور کی جائے گی، یعنی یہ سند زیادہ معتبر ہوتی ہے اور مذکورہ بالا حدیث کی سند فقہاء محدثین کی سند ہے۔
اس سند سے حضرت عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا :
’’اللہ تعالیٰ دنیا سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اے دنیا میرے اولیاء پر کڑوی بن کر رہ اور ان کے لئے بہت میٹھی نہ بن کہ ان کے دل تیرے فتنے میں مبتلا ہوجائیں‘‘۔
اس حدیث مبارکہ سے پہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ حدیث پاک میں بھی لفظ اولیاء کا ذکر ہے جس طرح قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَO
(يونس، 10 : 26)
’’خبردار بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے‘‘۔
اللہ پاک نے اپنے اولیاء کو ایک قسم کے خوف و غم سے بچالیا ہے اور ایک قسم کے غم و خوف سے بھر دیا ہے۔ دنیا کا غم ان سے دور کردیا ہے اور اپنا خوف اور اپنا غم ان کو لگا دیا ہے۔
دل ایک وقت میں ایک ہی چیز کا مسکن بن سکتا ہے
معزز قارئین! ایک دل میں کبھی دو خوف اور دو غم جمع نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح ایک دل میں دو محبتیں بھی جمع نہیں ہوتیں۔ یہ نظام قدرت ہے۔ ۔ ۔ ایک سودا ہے۔ ۔ ۔ دو سودے اکٹھے نہیں ملیں گے۔ ۔ ۔ یا یہ لے لو یا وہ لے لو۔ ۔ ۔ جیسے ایک کمرے میں دو سو کنیں نہیں رہتیں، ایک محبت بھاگ جاتی ہے کہ اگر اس کو رکھنا ہے تو میں نکل جاتی ہوں۔ ۔ ۔ اس طرح دل بھی ایک کمرہ ہے، اس میں بھی اگر دو محبتیں بسانے کی کوشش کرو گے تو ایک محبت بھاگ جائے گی۔ ایک مولیٰ کی محبت اور ایک دنیا کی محبت۔ ۔ ۔ یہ دونوں محبتیں ایک دل میں نہیں رہتیں۔ ہماری پوری زندگی جس ابتلاء کا شکار ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس ناممکن کو ممکن بنانے کے دھندے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم دُھرے اور متضاد قسم کے سوداگر ہیں۔ ہم اعتکاف کے دس دنوں میں چاہتے ہیں کہ اللہ کی محبت دل میں آجائے اور بقیہ 11 ماہ اور 20 دن یہ چاہتے ہیں کہ دنیا کی محبت بھی دل میں خوب جمی رہے حالانکہ دو محبتیں اکٹھی نہیں رہتیں۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ دنیا کو چھوڑ دیا جائے، نہیں، میں دنیا چھوڑ دینے کی بات نہیں کر رہا کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی تعلیمات نہیں ہیں بلکہ میں دل سے حُبِّ دنیا نکالنے کی بات کررہا ہوں۔ ۔ ۔ آپ دنیا میں رہیں مگر دنیا آپ میں نہ رہے۔ ۔ ۔ اگر دنیا کی محبت، چاہت، رغبت، حرص، لالچ، تڑپ دل میں آگئی تو اللہ کی محبت اور اس کا شوق و طلب رخصت ہوجائے گی اور کہے گی کہ اب تو نے اس دل میں دنیا کی دلہن بٹھالی ہے ہم رخصت ہوتے ہیں۔
اسی طرح دو غم ایک دل میں جمع نہیں ہوتے۔
- غمِ مولیٰ
- غمِ دنیا
اولیاء اللہ محبوب کے درجے پر فائز ہوتے ہیں
اللہ نے اپنے اولیاء کی نسبت فرمایا کہ میرے اولیاء کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم ہوگا، اس کا راز یہ ہے کہ اولیاء صرف اللہ کے محب نہیں ہوتے بلکہ وہ اللہ کے محبوب بھی ہوتے ہیں۔ جب کوئی ولی ہوجاتا ہے تو وہ صرف محب نہیں رہتا بلکہ وہ اللہ کا محبوب بھی ہوجاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ کا محبوب پہلے بنتا ہے اور محب بعد میں بنتا ہے۔ ۔ ۔ اللہ جب اپنی محبت کے لئے کسی کو چن لیتا ہے تو وہ ولی بن جاتا ہے۔ ۔ ۔ وہی محب ہوتا ہے، جس شخص کو اللہ اپنی محبت کے لئے چُن لیتا ہے اور جبرئیل امین کو بلا کر رازِ محبت بتادیتا ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے کہ
عن ابی هريرة عن النبي صلی الله عليه آله وسلم قال اذا احب الله العبد نادي جبريل ان الله يحب فلانا فاحببه فيحبه جبريل فينادي جبريل في اهل السماء ان الله يحب فلانا فاحبوه فيحبه اهل السماء ثم يوضع له القبول في الارض.
(بخاری، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکة، 3 / 1175، الرقم : 3037)
اِنِّیْ اُحِبُّ فُلَاناً ’’اے جبرئیل مجھے فلاں بندے سے محبت ہے‘‘ ایک ہم ہیں کہ مارے مارے پھرتے ہیں کہ ہمیں اس سے محبت ہوجائے، کہیں سے اس کی محبت کی چنگاری مل جائے، کسی بہانے اس کی محبت کی چنگاری بھڑک اٹھے اور کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے لئے اللہ جبرئیل کو بلاکر اپنا راز افشاء کرتا ہے۔ ۔ ۔ جبرئیل پوچھتے ہیں کہ میرے لئے کیا حکم ہے، وہ رب دنیا کے محبان کی طرح نہیں ہے۔ ۔ ۔ اس میں رقابت نہیں ہے کہ جس سے میں محبت کروں تو اس سے اور کوئی نہ کرے، نہیں بلکہ اس کی محبت ایسی ہے کہ جس سے میں محبت کروں اس سے ہر کوئی محبت کرے۔ ۔ ۔
محبت الہٰی ہر کسی کے نصیب میں کہاں؟گا کہ مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے تو کیا اس بندے کے لئے وہ یہ کہے گا جو دنیا سے محبت کرتا پھرتا ہے، کیا جو دنیا کی محبت کو دل میں بسائے پھرتا ہے اس کے لئے فرمائے گا کہ مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے؟
ہمارے اس مادی اور پرفتن دور میں تو اللہ کی محبت کا حصول اور بھی مشکل ہوگیا ہے۔ دنیا ہمارے دلوں میں رچی بسی ہے۔ اس کے لئے ہمارے سارے حیلے، ہماری ساری توجہات اور تمام صلاحیتیں اور وقت صرف ہورہا ہے، ہم اللہ تعالیٰ اس کے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور ان کے دین کے لئے کرتے ہی کیا ہیں؟ جو کرتے ہیں اس کا بھی دنیوی اجر طلب کرتے پھرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ سے تعلقِ محبت اور تعلقِ بندگی کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ یہ محض دھوکا اور فریب ہے جس میں ہم مبتلا ہیں۔ اس کے متعلق سوچنا اور غور کرنا چاہئے۔
حدیث پاک میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
عن عبادة الصامت عن النبی صلی الله عليه آله وسلم قال من احب لقاء الله احب الله لقاء ه ومن کره لقاء الله کره الله لقاء ه.
(بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب من احب لقاء الله احب الله لقاء ه، 5 / 2386، الرقم : 6142)
’’جواللہ سے ملاقات چاہتا ہے، اللہ بھی اس سے ملاقات چاہتا ہوں اورجو اللہ سے ملاقات نہیں چاہتا، اللہ بھی اس کی ملاقات نہیں چاہتا‘‘۔
یہ سودا تو دست بدست ہے۔ ۔ ۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ کسی سے محبت کرے اور ایسے سے کرے جو خود دنیا، مال و دولت کو دل میں بساتا پھرے۔ ۔ ۔ دنیا کی غلاظتوں، عہدہ و منصب اور اپنے نفس سے محبت کرتا ہو۔ ۔ ۔ جو جھوٹی محبتوں، نفس اور دنیا کی محبتوں کے بت اپنے دل کے صنم کدے میں سجائے پھرتا ہو۔ ۔ ۔ کیا اس کی محبت اتنی ارزاں اور سستی چیز ہے کہ وہ اس کے حصے میں آئے جو دنیا سے محبت کرتا ہے، نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے۔
چنانچہ حدیث پاک کے مفہوم کے مطابق اللہ جبرئیل کو حکم دیتا ہے کہ تو بھی اس سے محبت کر، پس جبرئیل کو بھی اس محبت میں شریک کرتا ہے۔ گویا محبت کرنا فعل الہٰی ہے اور جب جبرئیل کو بھی اس سے محبت کرنے کا حکم دیا تو اپنے فعل میں جبرئیل کو شریک کیا۔ وہ رب جو ہر ایک کو شرک سے منع کرتا ہے کہ میرا کوئی شریک نہیں، مگر جس سے محبت کرلے اس میں ہر کسی کو شریک بناتا ہے۔ یہ شرک نہیں بلکہ اشتراک ہے، شریک بنانے والوں کو قیامت کے دن دھر لیا جائے گا، وہ رب جو شریک برداشت نہیں کرتا لیکن جس سے محبت کرلے اس میں سارے جہاں کو اپنا شریک بنانا چاہتا ہے وہاں قاعدے بدل جاتے ہیں، وہاں اس کی محبت میں شریک ہونا توحید بن جاتا ہے تاکہ محبت سب کی ایک بن جائے۔
اللہ فرماتا ہے کہ جبرئیل تو بھی اس سے محبت کر، پھر جبرئیل امین عرض کرتے ہیں کہ میں نے بھی محبت کرلی اب کیا حکم ہے؟ اللہ فرماتا ہے کہ جا اور تمام فرشتوں میں یہ نداء کردے اور میرا رازِ محبت آسمانوں میں افشاء کردے اور اُن کو بتادے کہ میں نے فلاں سے محبت کی ہے اے آسمان والوں تم سب بھی اس سے محبت کرو۔
محبتِ اولیاء کو کوئی ختم نہیں کرسکتا
اس حدیث اور اس سے ملتے جلتے فرامین قرآن و حدیث سے یہ بات بھی اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اللہ کے دوستوں، ولیوں اور مقرب بندوں سے محبت کی داستان تو اللہ کی بارگاہ سے شروع ہوتی ہے۔ ۔ ۔ یہ محبت تو زمین سے شروع ہی نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ جو داستان زمین سے شروع ہو تب تو اہل زمین اسے ختم بھی کرسکیں۔ ۔ ۔ اگر کوئی کہانی زمین سے شروع ہوتی تو اہل زمین مل جل کر محنت کرکے اسے ختم بھی کرلیتے۔ ۔ ۔ نادانو! یہ محبت کی کہانی زمین سے تو شروع ہی نہیں ہوئی۔ ۔ ۔ یہ تو عرش الہٰی سے شروع ہوئی ہے۔ ۔ ۔ اس محبت کو اہل زمین کس طرح مٹا سکتے ہیں۔ ۔ ۔ یہ کہانی تو لامکانی ہے۔ ۔ ۔ اس کو یہاں سے ختم کرنے کی کوششوں سے ناکامی و نامرادی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ جبرئیل کی زبانی سن کر تمام آسمان والے اس سے محبت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ۔ ۔ کیا کوئی اپنی محبت میں اتنے شریک گوارہ کرتا ہے۔ ۔ ۔ اس کی محبت نرالی ہے اس لئے کہ وہ خود نرالا ہے، اس جیسا کوئی نہیں ہے۔
محبتِ اولیاء کا مستحق ہر ایک نہیں
بعد ازاں اللہ حکم دیتا ہے کہ فرشتے زمین پر اتر جائیں اور اہل زمین پر میرے اس محبوب بندے کی محبت کو اتاریں۔ ۔ ۔ پھر اس بندے کی محبت اور قبولیت زمین پر اتاری جاتی ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ یہ محبت پھر ہر ایک کو نہیں ملتی۔ ۔ ۔ آسمان میں سب کو ملی چونکہ سب پاک ہیں۔ ۔ ۔ زمین میں اس کے محبوبوں کی محبت ہر ایک کو نہیں ملتی۔ ۔ ۔ ناپاک برتن میں کوئی دودھ اور پانی نہیں ڈالتا۔ ۔ ۔ تو اللہ تعالیٰ اپنی محبت کا نور کیسے ڈال دے۔ لہذا اس مضمون کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ ۔ ۔ اللہ کے حکم کے مطابق ان بندوں کی محبت زمین پر اتاری جاتی ہے یہ نہیں فرمایا کہ زمین میں موجود ہر شخص کے دل میں ڈال دو۔ پھر فرشتوں کو خود علم ہے کہ کون سے دل اس قابل ہیں جو رب کے محبوب سے محبت کرتے ہیں۔ ۔ ۔ اور کون سے دل اس قابل نہیں ہیں کہ جس میں اس کے محبوبوں کی محبت رکھی جائے۔ ۔ ۔ جو اس کے محبوبوں کی محبت کے لائق دل ہوتے ہیں ان دلوں میں وہ محبت ڈال دی جاتی ہے۔ ۔ ۔ جو اس کے محبوبوں کی محبت کے لائق نہیں ہوتے ان کے دلوں میں وہ محبت ڈالی ہی نہیں جاتی۔ لہذا یہ کوئی جھگڑا ہے ہی نہیں۔ ۔ ۔ نہ آپ نے کسی کے دل میں محبت ڈالی نہ میں نے ڈالی بلکہ جس جس دل کو رب نے چنا اس میں اس کے اولیاء کی محبت آگئی۔ ۔ ۔ جن دلوں کو اللہ تعالیٰ نے رد کردیا وہ دل محبتِ اولیاء سے خالی رہ گئے۔
پس اللہ ملائکہ کے ذریعے چن لیتا ہے کہ کن دلوں میں وہ محبت ڈالنی ہے اور کن دلوں میں وہ محبت نہیں ڈالنی۔ ۔ ۔ لہذا نہ آپ غصہ ہوا کریں اور نہ کوئی اور جلال میں آیا کرے، جو محبت نہیں کرتا اس سے جھگڑے کا فائدہ ہی نہیں۔ ۔ ۔ اس لئے کہ اس کے دل کو اللہ نے اس محبت کے لئے چنا ہی نہیں۔ ۔ ۔ ہم کیسے رب بن سکتے ہیں کہ ان کے دلوں میں وہ محبت ڈال سکیں۔ ۔ ۔ جو کام رب کے ہاتھ میں ہے وہ ہم نہیں کرسکتے۔
یہ بات بھی یاد رکھیں کہ یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ جو زیادہ دروسِ قرآن دے اس کا دل بھی متقی ہوگا بلکہ حدیث مبارکہ ہے کہ
يقرء ون القرآن لا يجاوز ترقيهم يمرقون من الدين کما يمرق السهم من الرمية.
(بخاری، الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الاسلام، 3 / 1321، الرقم : 3414)
وہ قرآن بہت زیادہ پڑھیں گے مگر قرآن اُن کے حلق سے نیچے دل میں نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح سے خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے نکلتا ہے۔
پس قرآن پڑھنے اور بیان کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن اس کے دل میں بھی اتر گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے اعراب کو یہ فرمایا تھا کہ تم یہ نہ کہو کہ اٰمَنَّا بلکہ کہو کہ اَسْلَمْنَا یعنی یہ نہ کہو کہ ہم ایمان لے آئے بلکہ کہا کرو کہ ہم اسلام میں آگئے۔ اس لئے کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں نہیں آیا۔ قرآن بہت سارے لوگوں کی زبان پر، حلق پر اور بیان پر تو آتا ہے مگر جنان (دل) میں نہیں آتا۔ ۔ ۔ وہ جن دلوں کو چنتا ہے انہی دلوں میں اپنی اور اپنے محبوبوں کی محبت رکھتا ہے۔ اب جب کہ وہ اپنے محبوب بندوں کی محبت ہر دل میں نہیں رکھتا تو اپنی محبت ہر دل میں کیسے رکھے گا۔
محبت بڑا ہی غیرت مند جذبہ ہے، محبت کی غیرت بڑی شے ہے۔ وہ محبت میں لوگوں کو شریک تو کرتا ہے مگر اہل لوگوں کو کرتا ہے۔ اپنی محبت کبھی ان دلوں میں نہیں رکھتا جن دلوں میں دنیا کی محبت بھی ہو۔ ۔ ۔ نفس کی محبت بھی ہو۔ ۔ ۔ ’’میں‘‘ کی محبت بھی ہو۔ ۔ ۔ جاہ و منصب کی محبت بھی ہو۔ ۔ ۔ مال و دولت کی محبت بھی ہو۔
محبت کے لئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ لقمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِO
(آل عمران، 3 : 14)
’’لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے‘‘۔
جو دل سینکڑوں ناپاک بتوں کی محبت سے بھرے پڑے ہوں، بھلا اس میں وہ اپنی محبت کیسے رکھ سکتا ہے۔ وہ اپنے محبوب بندوں کی محبت کے لئے دل چنتا ہے تو اپنی محبت کے لئے تو اس سے بھی اعلیٰ دلوں کا انتخاب کرتا ہوگا، ان منتخب دلوں میں سے بھی مزید چنیدہ دل دیکھے گا۔ پس دو محبتیں ایک دل میں جمع نہیں ہوتیں۔
غمِ دنیا یا غمِ آخرت؟
اسی طرح دو غم بھی ایک دل میں جمع نہیں ہوتے۔
- غم دنیا
- غم آخرت
غم دنیا اور غم مولیٰ ایک دل میں جمع نہیں ہوگا۔ اسی طرح دو خوف ایک دل میں جمع نہیں ہوتے۔
- خوف دنیا و اہل دنیا
- خوف الہٰی
جو دنیا داروں سے ڈرتا ہے سمجھ لیں کہ وہ اللہ سے نہیں ڈرتا۔ وہ زبان سے جو دعویٰ مرضی کرتا پھرے سب جھوٹ ہوگا اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ دنیا میں کسی سے نہیں ڈرتا۔
لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَO
(يونس، 10 : 162)
میں اسی راز سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔
یہاں اللہ تعالیٰ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ بھی فرماسکتا تھا مگر اس سے مراد یہ ہوجاتا کہ کسی بھی قسم کا خوف اولیاء اللہ کو نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ نہ خوفِ دنیا و اہل دنیا اور نہ خوف آخرت۔ ۔ ۔ مگر فرمایا وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ مراد یہ کہ ایک قسم کا خوف اور غم ان کے شامل حال رہتا ہے، مکمل طور پر خوف و غم سے بے نیاز نہیں ہوتے۔ ۔ ۔ دنیا کا خوف و غم نہیں ہوتا، دنیا کے خوف و غم سے محفوظ کردیا جاتا ہے اور رب کائنات کا خوف و غم ان کے دلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ۔ ۔ دنیا کا غم ان سے چھین لیا جاتا ہے، نقصان بھی ہوجائے پھر بھی بے غم رہتے ہیں۔
محبت سے پہلے آزمائش
ارشاد فرمایا گیا :
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ.
(البقره : 155)
’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے‘‘۔
گویا محبت ڈالنے سے پہلے خوف، بھوک، نفع نقصان سے آزمایا جاتا ہے۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ لوگوں کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ’’جب مال نہ ملا تھا، مال کی کثرت نہ تھی، تنگ دستی تھی، اس وقت ہم صبر میں آزمائے گئے اور کامیاب ہوگئے مگر جب غناء آگیا، مال کی کثرت آگئی، اس وقت آزمائے گئے تو اکثر ناکام ہوگئے‘‘۔
کچھ لوگ تنگ دستی میں ناکام ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ فراخ دستی میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ تنگ دستی کی ناکامی یہ ہے کہ صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ ۔ ۔ اور خوشحالی و فراخ دستی کی ناکامی یہ ہے کہ شکر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ دھیان نہیں رہتا کہ کس نے دیا ہے۔ ۔ ۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ میں نے اپنے ہنر کے ذریعے کمایا ہے۔ آزمائشوں سے اللہ چنتا ہے کہ کیسا بندہ ہے اور اگر اچھا پالے۔ ۔ ۔ ہر امتحان و آزمائش میں وہ پورا اترے اور دل کامیاب ہوجائے۔ ۔ ۔ ثابت قدم رہے۔ ۔ ۔ صحرا میں اڑنے والے پتے کی مانند نہ رہے۔ ۔ ۔ اس دل کی طرح نہ رہے جو حرص و ہوس کی آندھیوں میں کبھی اڑ کر ادھر جاتا ہے اور کبھی اڑ کر اُدھر جاتا ہے۔ ۔ ۔ بلکہ دل اس کی محبت پر جما رہے۔ ۔ ۔ اگر دل اللہ کے خوف، غم، محبت، طلب، تقویٰ، توکل، رضا، تقدیر، عطاء، رحمت، قربت اور اس کی طرف توجہ پر جما رہے۔ ۔ ۔ تو پھر اللہ اپنی محبت سے فرماتا ہے کہ جا اس کے دل پر سوجا۔ ۔ ۔ اس کے دل کی دلہن بن جا۔ ۔ ۔ اس کے دل میں جم جا اس لئے کہ یہ وہ دل ہے کہ اس نے ہر محبت اپنے اندر سے نکال دی ہے۔ ہر غم، طلب، رغبت اور حرص نکال دی ہے۔ ۔ ۔ جب دل کا کمرہ ہر حرص و طلب سے پاک ہوتا ہے تو اس کی محبت دلہن بن کر اس کے دل میں آجاتی ہے بقول میر
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا، اب تو خلوت ہوگئی
پھر وہ فرماتا ہے :
وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَO الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعُونَO
(البقره، 2 : 155، 156)
’’اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں، بیشک ہم بھی اﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں‘‘۔
اس آیت کا راز یہ ہے کہ جب بندہ تمام آزمائشوں میں پورا اترتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ اب انہیں خوشخبری سنادو اس لئے کہ جب مصائب و آلام پریشانیاں آتی ہیں تو یہ تکلیفوں کی طرف دھیان نہیں کرتے بلکہ میری طرف دھیان کرتے ہیں اورکہتے ہیں ’’إِنَّا لِلّهِ‘‘ بے شک ہم اللہ کے لئے ہیں، یہ تکلیف آئی تو کیا ہوا ’’وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ‘‘ ’’ہم اللہ کی طرف جانے والے ہیں‘‘۔
حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ ’’میری ایک عارفہ سے ملاقات ہوئی، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئی ہیں؟۔ ۔ ۔ اس نے جواب دیا : اللہ کی طرف سے۔ ۔ ۔ پوچھا : آپ کدھر جارہی ہیں؟۔ ۔ ۔ جواب دیا : اللہ کی طرف جارہی ہوں‘‘۔
پس اللہ ان دلوں میں محبت رکھتا ہے جن کے سفر کی ابتداء بھی اللہ ہے اور انتہا بھی اللہ ہے۔ ۔ ۔ جو آتے بھی اللہ کی طرف سے ہیں اور جاتے بھی اللہ کی طرف ہیں۔ ۔ ۔ رہتے بھی اللہ کی نگری میں ہیں۔ ۔ ۔ جب دل کی یہ کیفیت ہوجائے تو ان کے لئے خوشخبری ہے۔
أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ.
(البقره، 2 : 157)
’’یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے پے در پے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے‘‘۔
جن دلوں میں اللہ اپنی محبت ڈال دے تو سمجھ لیں کہ اس نے ان دلوں کو چن لیا تھا اور یہ وہی تھے جن کے لئے جبرئیل کو بتا دیا تھا۔ پس یہ لوگ محبوب پہلے ہوتے ہیں اور محب بعد میں ہوتے ہیں۔
اپنے اولیاء کو حبّ دنیا سے بچانے کا خصوصی اہتمام
اب ان لوگوں کو محبت دنیا سے بچانے کے لئے اللہ خود بھی کچھ اہتمام کرتا ہے چونکہ اب یہ لوگ محبوب بھی بن گئے اور محب بھی بن گئے اور اللہ خود بھی ان لوگوں کی حفاظت کرتا ہے تاکہ ان کے دل کسی دوسری محبت میں پھنس نہ جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے :
يَا دُنْيَا مُرِّ عَلٰی اَوْلِيآئِیْ وَلَا تَحْلَوْلِ لَهُمْ.
’’اے دنیا میرے اولیاء کے اوپر کڑوی بن کر رہ اور ان کے لئے بہت میٹھی نہ بن‘‘۔
اگر تو میرے اولیاء کے لئے ہمہ وقت بہت میٹھی بن گئی تو کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ (وَتَفْتَنِیْہِمْ) ان کے دل تیرے فتنے میں مبتلا ہو جائیں اور میں نہیں چاہتا کہ وہ تیرے فتنے میں الجھ جائیں اس لئے کہ مجھے ان سے محبت ہے اور انہیں مجھ سے محبت ہے۔ پس چاہتا ہوں کہ وہ میرے رہیں اور میں ان کا رہوں۔
اللہ والوں کے لئے دنیا کو اللہ کا یہ حکم ہے۔ لہذا ان کی زندگیوں میں زیروبم آتے رہتے ہیں۔ ۔ ۔ آزمائشیں آتی رہتی ہیں۔ ۔ ۔ اگر میٹھا لقمہ دے دیا تو ساتھ کڑوا بھی دے دیا۔ ۔ ۔ عسرت و یسرت (تنگی و آسانی) اللہ ان کے لئے ملا ملا کر چلاتا ہے۔ ۔ ۔ تاکہ ان کے دل دنیا میں الجھ نہ جائیں۔ ۔ ۔ دنیا کے فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ گویا اللہ ان دلوں کو اپنی محبت کے لئے خالص رکھنا چاہتا ہے اس لئے کہ یہی دل حامل محبت ہیں۔ (جاری ہے)