حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
من اراد ان تستجاب دعوته وان تکشف کربة فليفرج عن معسر.
(مسند احمد، 2 / 23)
’’جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو اور اس کے مصائب و آلام کا خاتمہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ تنگدست اور مصیبت زدہ لوگوں کی تکلیف زائل کرے اور انہیں ذہنی سکون پہنچائے‘‘۔
رہنمائی کا مرکزی نکتہ
یہ دنیا دارالعمل اور دکھوں کا عجیب و غریب گھر ہے، یہاں ہر کوئی کچھ غم جاناں اور کچھ غم دوراں کا شکار اور شاکی ہے (الا ماشاء اللہ)۔ اس لئے ہر کسی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ دکھوں کے اس گھر میں غموں کے آزار سے چُھوٹے اور سکھ کا سانس لے۔
اس حدیث پاک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کے دکھوں کے علاوہ آخرت کی مشکلات اور پریشانیوں سے نجات پانے کے راز سے بھی آگاہ کیا ہے، اور دونوں جہاں کی راحتیں اور نعمتیں حاصل کرنے کا طریقہ بتایا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دعا مومن کا بہت بڑا اور آزمودہ ہتھیار ہے جو اسے ہر قسم کی آفات و بلیات سے بچاتی اور مصائب و آلام سے محفوظ رکھتی ہے اور دلی مرادیں پوری کرتی ہے، بشرطیکہ وہ دعا قبول ہوجائے۔ اس حدیث پاک میں دعا کو قابلِ قبول بنانے ہی کا گر سکھایا گیا ہے تاکہ ایک بندہ دعا کرکے دکھوں سے چھٹکارا حاصل کرسکے۔
منزل مراد تک پہنچنے اور غموں سے چھوٹنے کا دوسرا طریقہ یہ بتایا ہے کہ انسان اپنے بھائیوں کے لئے نفع رساں بن جائے اور کسی کو دکھ درد، مصیبت اور پریشانی میں دیکھ کر خود بے قرار ہوجائے اور اسے اس وقت قرار آئے جب وہ اپنے دینی بھائیوں اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی کی وہ تکلیف رفع کردے۔ وہ آج اپنے بھائی کی ایک تکلیف رفع کرے گا کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے کئی تکالیف سے نجات دے گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ نَفَّسَ عن مُوْمِنٍ کُرْبَةً مِنْ کُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللّٰهُ عَنْهُ کُربَةً مِنْ کُرَبِ يَوْمِ الْقِيامةِ وَمَنْ يَسَّرَ علی مُعْسِرٍ، يَسَّرَ اللّٰهُ عَلَيْهِ فِی الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.
(رياض الصالحين حديث نمبر : 243)
’’جس نے دنیا میں کسی مومن کی پریشانی دور کی، اللہ قیامت کے دن اس کی کئی پریشانیاں دور کرے گا اور جس نے کسی تنگدست کو آسانی بخشی، اللہ تعالیٰ اسے کئی آسانیاں عطا کرے گا‘‘۔
گویا دنیا اور آخرت میں راحتیں حاصل کرنے اور غموں سے چھٹکارا پانے کا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے لئے سایہ رحمت اور ہمدرد و غم گسار بن جائے اور دل و جاں سے ان کے کام آئے، کل یہی نیکی بڑھ چڑھ کر اس کے کام آئے گی۔
اس اجمال و خلاصے کی قدرے تفصیل یہ ہے۔
دنیا ایک کھیتی ہے
دنیا کھیتی باڑی کی جگہ ہے۔ یہاں نیکی بدی، اچھے برے، چھوٹے بڑے اور ہر قسم کے عمل کی کاشت کی جا سکتی ہے۔ انسان ایک حد تک آزاد اور خود مختار ہے، اسے آزادی ہے، چاہے تو نیکی کے پھولوں سے جھولیاں بھر لے اور چاہے تو گناہوں کے کانٹوں کو دامن میں سجالے۔ اسے کسی بھی حرکت سے کوئی روکنے والا نہیں۔ عطا کردہ قوت ہر معاملے میں اس کی اطاعت کرتی ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ یہ دنیا دارالعمل اور امتحان گاہ ہے، انسان یہاں آزمائش کے لئے بھیجا گیا ہے۔ اسے آزادی سے نیکی اور بدی کرنے کی قوت دی گئی ہے جسے بروئے کار لا کر وہ نیکی کی صورت میں اجر و ثواب اور نافرمانی کی صورت میں عذاب و سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
غربت و تنگدستی اور امارت و خوشحالی بھی، اس دنیا کے دارالعمل ہونے کا ایک حصہ ہے۔ یہاں دو قسم کے لوگ بستے ہیں، ایک وہ جو آسودہ حال اور دولت مند ہیں اور ہر قسم کی آسائش و آرام سے بہرہ ور ہیں۔ دوسرے وہ جو غریب و مفلوک الحال ہیں اور زندگی کی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ مصائب و آلام انہیں ڈستے رہتے ہیں اور وہ زندگی یوں گذارتے ہیں جیسے دکھوں کے منوں بوجھ تلے دبے ہوئے ہوں اور اس بوجھ میں تخفیف کے آثار بھی دکھائی نہ دیتے ہوں۔
انسان کسی بھی گروہ سے تعلق رکھتا ہو، اسے دکھوں سے مفر نہیں، یہ الگ بات ہے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دکھوں سے واسطہ پڑتا ہے اور زندگی اسے پہاڑ نظر آنے لگتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مصائب و آلام سے چھٹکارا حاصل کر لے مگر وہ اس طرح گلے کا ہار بن جاتے ہیں کہ روایتی کمبل کی طرح چھوڑنے کا نام نہیں لیتے۔ گلے کا ہار بننے والے ان دکھوں کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا، کسی بھی پہلو سے وہ زندگی کے لئے عذاب بن سکتے ہیں۔ مسلسل ناکامیاں اور حوصلہ شکن محرومیاں انہیں جنم دیتی ہیں اور غم کے اندھیرے غاروں میں جاگراتی ہیں۔ اقتصادی بدحالی، معاشرتی ناہمواری، عدم مساوات، ظلم و ستم، ناانصافی اور ریاستی جبر بھی اس کے اسباب میں سے ہیں، جس سے انسان کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے اور جسمانی قویٰ اس طرح متاثر ہوتے ہیں کہ وہ صدیوں کا بیمار نظر آنے لگتا ہے۔ اس دکھ بھری دنیا کے سمندر میں تنکے کی طرح بہنے کے باوجود انسان ہاتھ پاؤں ضرور مارتا ہے اور یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ دکھوں سے نجات پالے اور غموں کے بھنور سے باہر آ جائے۔
اس حدیث پاک میں انسان کو غموں سے باہر آنے ہی کا گُر سکھایا گیا ہے اور اس راز سے آگاہ کیا گیا ہے جو اس خواہش کی تکمیل میں اس کا مددگار بن سکتا ہے۔
امراء کو نصیحت
جو لوگ صاحب حیثیت اور دولت مند ہیں یا کسی بھی حوالے سے مخلوق خدا کے کام آنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انہیں بتایا گیا ہے کہ معاشرہ کے وہ لوگ جو حالات کے ستائے ہوئے ہیں یا وسائل کی کمی کا شکار ہیں یا مصائب و آلام اور دکھوں نے انہیں اپنے فولادی شکنجے میں کسا ہوا ہے یا وہ حوادث و حالات کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں تو وہ ان کی دستگیری کریں۔ سرپر دست شفقت پھیریں اور اپنے مالی و اخلاقی تعاون کا یقین دلائیں اور دلاسا دیں کہ ناموافق حالات کی ساعات میں وہ خود کو تنہا محسوس نہ کریں، انہیں ہر قسم کا مالی و مادی اور اخلاقی تعاون عطا کیا جائے گا۔
سرکار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے جو شخص کسی کی تکلیف دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف بھی رفع فرما دیتا ہے اور اسے یہ شرف بھی بخشتا ہے کہ جو دعا کرے اسے قبول فرماتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سے پتہ چلتا ہے عوام کی فلاح و بہبود اور ان کے سکھ چین کے لئے انفرادی یا اجتماعی سطح پر کیا گیا کام خواہ وہ کسی درجے میں ہو، ایک پسندیدہ اور مقبول کام ہے۔ انسان بہر حال قرب کی منزلیں طے کرلیتا ہے اور خدمت کرتا کرتا، خود مخلوق کا مخدوم اور اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ راوی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
علی کل مسلم صدقة قال ارايت ان لم يجد قال يعمل بيديه فينفع ويتصدق : قال ارايت ان لم يستطع؟ قال : يعين ذا الحاجة الملهوف قال ارايت ان لم يستطع قال : يامر بالمعروف او الخير قال ارايت ان لم يفعل؟ قال : يمسک عن الشر فانها صدقة. (متفق عليه)
’’ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ صدقہ دے۔ عرض کی : اگر اس کے پاس دینے کے لئے کوئی چیز نہ ہو تو کیا کرے؟ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : محنت مزدوری کرے، خود اپنی ضروریات بھی پوری کرے اور صدقہ بھی دے۔ عرض کی : اگر وہ محنت و مشقت کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی غم زدہ حاجت مند کی امداد کرے۔ عرض کی : اگر اس میں اتنی طاقت نہ ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں کو نیکی بھلائی کی تلقین کرے۔ عرض کی : اگر وہ ایسا نہ کر سکے؟ فرمایا : تو اس صورت میں وہ کسی کو دکھ پہچانے سے رکے اور شر انگیزی سے باز رہے، اس کے لئے یہی چیز صدقہ بن جائے گی‘‘۔
حاجت روانی کی اہمیت
انسان ضرورت مند ہو اور ضرورت پوری ہونے کی کوئی صورت نظرنہ آئے تو اس کے افسردہ دل پر کیا گزرتی ہے اور اس پر کس قسم کی قیامتیں ٹوٹتی ہیں؟ وہ کسی سے مخفی نہیں۔ غم و فکر سے اس کی کمر دوہری ہو جاتی ہے اور راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے، ایسے غم زدہ انسان کی امداد خدمت خلق کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ اس سے نہ صرف غم کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے بلکہ غمگین محتاج کو ایک نئی زندگی بھی مل جاتی ہے۔ کسی اناڑی اور بے ہنر شخص کی امداد بھی کوئی معمولی عمل نہیں ہے بلکہ دوزخ کی آگ سے نجات حاصل کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔
٭ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا :
’’یارسول اللہ! کون سی چیز بندے کو آگ سے بچانے والی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ پر ایمان۔ عرض کیا : ایمان کے ساتھ کوئی عمل بھی بتایئے جو نجات دینے والا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ عمل یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو عطا کیا ہے اس میں سے تو اللہ کی رضا کے لئے بھی کچھ خرچ کرے۔ میں نے عرض کی : اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر وہ شخص تنگ دست اور اس کے پاس خرچ کرنے کے لئے کچھ نہ ہو تو کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے۔ عرض کی : اگر وہ ایسا کرنے کی صلاحیت و سکت نہ رکھتا ہو تو کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی ایسے شخص کی امداد کردے جو نادان و بے ہنر اور اپنے فن میں اناڑی ہو۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر وہ خود بے ہنر ہو اور اس فن میں مہارت نہ رکھتا ہو تو کیا کرے؟ فرمایا : مظلوم کی امداد کر دے۔ عرض کی : اگر وہ شخص خود کمزور ہو اور کسی مظلوم کی امداد کرنے کے قابل نہ ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم چاہتے ہو کہ تیرے ساتھی کی ذات میں خیر کی ایک رتی بھی نہ رہے۔ سنو اسے کہو، کہ لوگوں کو اذیت دینے سے بچے۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے بتایئے اگر اس نے ایسا کیا تو کیا اسے یہ عمل جنت میں لے جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان خصال و اعمال میں سے ایک عمل بھی اگر کسی بندہ مومن کی ذات میں موجود ہوگا تووہ اس کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جائے گا‘‘۔
٭ حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
ایک مرتبہ قبیلہ مضر کے کچھ لوگ وفد کی صورت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ خستہ حالی کی باعث انہوں نے کمبل اوڑھے ہوئے تھے بلکہ ان کے درمیان سوراخ کر کے گلے میں ڈالے ہوئے تھے، معاشی بدحالی اور مالی تنگدستی ان کے چہرے بشرے سے عیاں تھی اور وہ غربت و افلاس کا چلتا پھرتا اشتہار تھے۔ ان کی بدحالی کا یہ عالم دیکھ کر حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور متغیر ہوگیا، اسی وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اذان دے تاکہ لوگ جمع ہوجائیں اور ان کے سامنے ان غرباء کی مالی امداد کی اپیل کی جا سکے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور لوگ جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے سورہ نساء کی پہلی آیت تلاوت کی، جس میں ذکر ہے کہ تمام لوگ ایک انسان کی اولاد ہیں لہذا ان کا حق بنتا ہے کہ ایک دوسرے کی امداد و معاونت کریں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ الحشر کے تیسرے رکوع کی آیت کریمہ تلاوت فرمائی، جس میں انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ آنے والے کل کی فکر کرے اور صدقات و خیرات کر کے اپنا مستقبل سنوارے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو ترغیب دی کہ نقدی، کھانے پینے کی اشیاء، گندم، کھجور اور کپڑوں کی شکل میں اپنے بھائیوں کی امداد کریں۔
ایک شخص اٹھا، اس نے رقم سے بھری ہوئی تھیلی اٹھائی ہوئی تھی جو اس کے قابو میں نہیں آرہی تھی، جب حاضرین نے اس کا یہ جذبہ دیکھا تو ان میں بھی جوش و خروش پیدا ہوگیا اور وہ بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے، دیکھتے ہی دیکھتے وہاں نقد و جنس کے دو بڑے بڑے ڈھیر لگ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے ذوق و شوق اور تعاون کا یہ حال دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور خوشی سے کِھل اٹھا اور ان کے اس طرز عمل اور امداد سے بے حد مسرور ہوئے۔
غرباء کی امداد و اعانت، اسلامی نقطہ نظر سے ایک نفع بخش سودا ہے، بظاہر مال کم ہوتا ہے اور سطح بین انسان مال کے صرف اسی پہلو کو دیکھتا ہے لیکن درحقیقت اس امداد سے اس کے باقی مال میں اتنی برکت پیدا ہوجاتی جو اسے نشوونما عطا کرتی ہے اور آفات سے بچاتی ہے اور یہ بڑی خوش قسمتی ہے کہ انسان امن و امان سے رہے اور اس کی زندگی میں کوئی خطرہ نہ ہو، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو حکم دیا کہ اپنی صبح اور دن کا آغاز ہی صدقہ سے کرو تاکہ وہ دن آفات و خطرات سے محفوظ ہوجائے اور اسی طرح ہر دن امن و سلامتی کا پیغام لے کر طلوع ہو۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
بَاکِرُوْا بِالصَّدَقَةِ فَاِنَّ الْبَلَاء لَا يَتَخَصّٰی الصَّدَقَةَ.
’’صبح کا آغاز صدقات کے ساتھ کیا کرو کیونکہ صدقات میں یہ قوت و تاثیر ہے کہ کوئی بلاء ان کے ہوتے ہوئے آگے نہیں بڑھتی، پیچھے ہی رہتی ہے‘‘۔
خلاصہ یہ کہ دکھوں اور غموں سے چھٹکارا اور نجات حاصل کرنے کے لئے نبوی رہنمائی یہ ملی کہ انسان حاجت مندوں کے دکھ بانٹے اور ان کے لئے زندگی کی آسانیاں اور سہولتیں مہیا کرے۔ وہ مخلوق کا بھلا کرے گا، کل اللہ پاک اس کے لئے آسانیاں پیدا کر دے گا اور اسے مصائب و مشکلات سے نجات عطا کرے گا۔
کرو مہربانی تم اہل زمین پر
خدا مہرباں ہوگا، عرشِ بریں پر