الفقہ : آپ کے دینی مسائل

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

وہ احباب جو کسی بیماری یا بہت زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے نماز کے دوران قیام، رکوع اور سجدہ کرنے سے عاجز ہوتے ہیں مساجد میں ان کے لئے نماز کی ادائیگی کی خاطر کرسیاں رکھی جاتی ہیں۔ ان احباب کے لئے کرسیوں پر بیٹھ کر نماز اداکرنا جائز اور درست ہے مگر بعض لوگ محض اپنے آپ کو نمایاں کرنے، آرام طلبی کے لئے یا کپڑوں میں سلوٹیں پڑنے سے بچنے کے لئے ان کرسیوں پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں، ان احباب کی نماز ہر گز جائز نہیں۔

سوال : کیا معذوروں اور بیماروں کے لئے مسجد میں کرسی رکھنا ناجائز ہے؟ کیا اس طرح نماز نہیں ہوتی؟ کیا معذوروں کے علاوہ تندرست اورصحت مند لوگ کرسی وغیرہ پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں؟ (محمد ایوب، کوٹ خواجہ سعید، شاد باغ، لاہور)

جواب : اسلام دین فطرت ہے۔ کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جسے بجا لانا انسان کے بس میں نہ ہو۔ نماز، روزہ، زکوۃ، حج بلکہ ایمان کا اقرار بھی اگر انسان کے بس میں نہ ہو تو ضروری نہیں۔ ہاں دل سے تصدیق جو اصل ایمان ہے اس میں فرق نہ آئے۔ تمام عبادات و احکام کی فرضیت طاقت و استطاعت سے مشروط ہے۔ جس حکم پر عمل کرنے کی انسان میں استطاعت ہی نہیں وہ فرض ہی نہیں۔ توحید و رسالت کے اظہار و اقرارمیں جان جانے کا خطرہ ہے تو نہ کریں، تصدیق قلبی کافی ہے۔ وضو و غسل یعنی طہارت کے لئے پانی استعمال کرنا ممکن نہیں تو تیمّم کر لیں۔ رکوع و سجود کی طاقت نہیں تو اشارہ سے نماز ادا کریں۔ قیام نہیں کر سکتے تو بیٹھ کر اور بیٹھنا بھی ممکن نہ ہو تو لیٹ کر نماز ادا کریں۔ قبلہ کی سمت معلوم نہیں یا جان کو خطرہ ہے تو جس طرف ممکن ہو نماز ادا کریں۔ بیماری یا کمزوری ہے تو روزہ نہ رکھیں، فدیہ دیں اور اگر فدیہ کی توفیق نہیں تو معاف ہے۔ نصاب بھر مال نہیں یا اس پر سال نہیں گذرا یا حاجات اصلیہ سے زائد نہیں تو زکوۃ فرض نہیں۔ حج کی استطاعت نہیں تو حج فرض نہیں۔ علی ہذا القیاس اسلام کا کوئی حکم یہاں تک کہ نفس ایمان کا اظہار و اقرار بھی استطاعت سے مشروط ہے۔

بیمار کی نماز

بعض لوگوں کی کمر میں سخت درد ہوتا ہے وہ رکوع و سجود کے لئے جھک نہیں سکتے شرعاً وہ سر کے اشارہ سے نماز ادا کر سکتے ہیں۔ کھڑے نہیں ہو سکتے تو بیٹھ کر اور بیٹھ نہیں سکتے تو قبلہ رخ چت لیٹ کر سر کے اشارہ سے رکوع و سجود کریں۔ اس لئے کہ جب کسی حکم پر بعینہ عمل کرنے کی طاقت نہ ہو تو اس کے لئے شرعاً سہولت ہے۔ یہ سہولت خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہے۔ کس کی ہمت ہے جو مسلمانوں کو اس سے محروم کرے۔

کرسی یا تخت یا تکیہ پر سجدہ کرنا

علامہ شمس الدین محمد بن عبداللہ بن احمد الخطیب التمرتاشی (م 1004ھ) اپنی کتاب ’’تنویر الابصار‘‘ میں لکھتے ہیں اور علامہ محمد بن علی علاء الدین الحصفکی (1088ھ) اس کی شرح الدرالمختار میں فرماتے ہیں :

ولا يرفع الی وجهه شيئا يسجد عليه فانه يکره تحريما.

’’نمازی اپنے چہرہ کی طرف کوئی چیز اٹھا کر اس پر سجدہ نہ کرے یہ مکروہ تحریمہ ہے‘‘۔

علامہ محمد امین الشہیر بابن عابدین الشامی (م 1252ھ) اس کی شرح میں لکھتے ہیں :

هذا محمول علی ما اذا کان يحمل الی وجهه شيئا يسجد عليه بخلاف ما اذا کان موضوعا علی الارض.

’’یہ اس صورت میں ہے جب نمازی اپنے چہرہ کی طرف کوئی چیز اٹھا کر اس پر سجدہ کرے، اس کے خلاف جب کوئی چیز زمین پر رکھی ہو اور اس پر عذر کی بنا پر سجدہ کرے تو مکروہ نہیں‘‘۔ پھر فرماتے ہیں :

فان کانت الوسادة موضوعة علی الارض وکان يسجد عليها جازت صلاته. فقد صح ان ام سلمة کانت تسجد علی مرفقة موضوعة بين يديها لعلة کانت بها ولم يمنعها رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم من ذلک فان مفاد هذه المقابلة والاستدلال عدم الکراهة فی الموضوع علی الارض المرتفع، ثم رايت القهستانی صاح بذلک.

اگر تکیہ زمین پر رکھا ہو اور ا س پر سجدہ کرے تو اس کی نماز درست ہے، صحیح حدیث پاک میں ہے سیدہ ام المومنین ام سلمہ سلام اللہ علیہا اپنی بیماری کی وجہ سے اپنے سامنے رکھے ہوئے تکیہ پر سجدہ کرتی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اس سے منع نہیں فرمایا، مقابلہ اور استدلال کا مفاد یہ ہے کہ زمین پر رکھی ہوئی اونچی چیز پر (عذر کی بناء پر سجدہ کرنا) مکروہ و ناجائز نہیں۔ پھر میں نے امام قہستانی کی تصریح بھی دیکھی ہے۔ (شامی ج 2 ص98 طبع کراچی)

تجزیہ

’’حقیقت مفصلہ یہ ہے اگر (کرسی وغیرہ پر بیٹھا ہوا معذور) صرف سر کے اشارہ سے، جھکے دبے بغیر رکوع کرتا ہے اور کمر نہیں جھکاتا تو یہ اشارہ ہوگا رکوع نہیں۔ اس اشارہ کے بعد سجدہ کرنے کا اعتبار نہ ہوگا اور اشارہ کمر جھکا کر کرتا ہے تو یہ رکوع معتبر ہوگا۔ یہاں تک کہ یہ صحیح ہوگا‘‘۔

’’اگر معذور کے آگے رکھی ہوئی چیز ایسی ہے جس پر سجدہ کرنا درست ہے مثلاً پتھر (کرسی) وغیرہ اور ایک دو اینٹوں کی مقدار سے اس کی اونچائی زیادہ نہیں تو یہ حقیقی سجدہ ہوگا۔ اب یہ نمازی اشارہ کر کے نماز ادا کرنے والا نہ ہوا، رکوع و سجود کرنے والا ہوا اور اگر سامنے رکھی ہوئی چیز ایسی نہیں (کہ جس پر سجدہ کرنا ممکن ہو) تو یہ نمازی اشارہ کرنے والا ہوگا، اس کے پیچھے قیام کرنے والے کی اقتداء درست نہ ہوگی۔ (اس کی اپنی نماز درست ہے)۔۔۔۔‘‘

’’بلکہ میرے لئے تو یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ معذور شخص اگر کوئی ایسی چیز زمین پر رکھ سکتا ہے جس پر سجدہ کرنا درست ہے تو اس پر ایسا کرنا لازم ہے کیونکہ وہ حقیقت میں رکوع و سجود پر قادر ہے اور قدرت ہوتے ہوئے ان دونوں میں اشارہ کرنا درست نہیں بلکہ اشارہ کرنے کی تو شرط ہی یہ ہے کہ رکوع و سجود دونوں مشکل ہیں۔ یہی اس مسئلہ کا موضوع ہے‘‘۔ (ردالمختار شامی ج 2، ص 99، طبع کراچی)

علامہ ابن نجیم الحنفی

ولو وضع بين يديه وسائد والصق جبهة عليها ووجد ادنی الانحنا جاز عن الايماء والافلا.

’’اگر (معذور) نمازی کے سامنے تکیہ رکھا گیا اور اس نے اس پر پیشانی جما کر رکھ لی اور کسی قدر جھکاؤ پایا گیا تو اس اشارہ سے نماز درست ہے اور اگر ذرہ بھی جھکاؤ نہ پایا گیا تو نماز جائز نہیں‘‘۔ (البحرالرائق ج 2، ص113، طبع کراچی)

ولورفع المريض شيئا يسجد عليه ولم يقدر علی الارض لم يجز الا ان يخفض براسه لسجوده اکثر من رکوعه ثم يلزقه بجبينه فيجوز لانه لما عجز عن السجود وجب عليه الايماء والسجود علی الشئی المرفوع ليس بالايماء الا اذا حرک راسه فيجوز لوجود الايماء لا لوجود السجود علی ذلک الشئی.

’’اگر بیمار نے سجدہ کرنے کے لئے کوئی چیز اٹھائی جبکہ وہ زمین پر سجدہ نہیں کر سکتا جائز نہیں۔ مگر اس صورت میں کہ سجدہ کے لئے رکوع کی بہ نسبت سر زیادہ جھکائے پھر وہ چیز اپنی پیشانی سے لگائے یہ جائز ہے۔ اس لئے کہ جب سجدہ کرنے سے عاجز آگیا، تو اس پر اشارہ لازم ہوگیا اور سامنے اٹھائی چیز پر اشارہ سے سجدہ نہیں ہوسکتا مگر اس وقت جب سر کو حرکت دے اب نماز درست ہوگئی کہ اشارہ پایا گیا، نہ کہ اس چیز پر سجدہ کی وجہ سے۔

(البحرالرائق ج 2 ص 113 طبع کراچی)

علامہ شامی

منحۃ الخالق علی البحرالرائق میں علامہ شامی فرماتے ہیں :

لو کان ذلک الموضوع يصح السجود عليه کان سجودا والا فايماء.

’’اگر سامنے رکھی ہوئی چیز ایسی ہے جس پر سجدہ درست ہے تو یہ مریض کا سجدہ ہوگا، اگر نہیں تو اشارہ۔ (علی ھامش البحرالرائق ج 2 ص 114 طبع کراچی)

’’لہذا نماز ہر صورت میں درست ہے‘‘۔ (ہدایہ مع فتح القدیر ج 2 ص 458 طبع سکھر)

ہدایہ

قدوری میں ہے : لا يرفع الی وجه شيئا يسجد عليه.

معذور شخص اپنے چہرہ کی طرف کوئی چیز اٹھا کر اس پر سجدہ نہ کرے۔۔۔ فان فعل ذلک وهو يخفض راسه اجزاه لوجود الايماء. اگر کسی چیز کو اٹھا کر اس پر سجدہ کر لیا اور سر جھکا لیا تو نماز درست ہے کہ اشارہ پایا گیا۔ (ہدایہ ج 1 ص 458 مع فتح القدیر)، (شامی، ردالمختار ج 2 ص 98 طبع کراچی)

بدائع الصنائع

’’اگر تکیہ زمین پر رکھا ہے اور نمازی اس پر سجدہ کرتا ہے تو اس کی نماز درست ہے (یونہی کرسی پر)۔ اس روایت کی وجہ سے جو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ آشوب چشم کی وجہ سے اپنے سامنے رکھے ہوئے تکیہ پر سجدہ کرتی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو منع نہیں فرمایا۔ یونہی تندرست آدمی شہر سے باہر ہو اور کسی عذر کی وجہ سے سواری کے جانور سے نیچے نہ اتر سکے مثلاً دشمن یا درندہ کا ڈر یا گارے کیچڑ میں ہے تو وہ جانور کے اوپر بیٹھ کر اشارے سے فرض ادا کرے۔ نہ رکوع کرے اور نہ سجدہ کیونکہ ان اعذار کے وجود سے آدمی قیام، رکوع اور سجدہ جیسے ارکان کے ادا کرنے سے عاجز ہے۔ اب وہ ایسے ہے جیسے بیماری کی وجہ سے عاجز ہوجائے اور سر کے اشارہ سے ان فرائض کو ادا کرے‘‘۔

(ملک العلماء امام علامہ علاء الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی الحنفی م 587ھ، بدائع الصنائع ج 1 ص 108 طبع کراچی)

فتاویٰ عالمگیری

’’جب بیمار کھڑا ہونے سے عاجز ہو، بیٹھ کر رکوع و سجود سے نماز ادا کرے، عاجز ہونے کا مطلب اور صحیح تر تفسیر یہ ہے کہ اسے کھڑا ہونے سے تکلیف ہو، یا بیماری بڑھنے یا صحت میں تاخیر ہو یا سر کو چکر آئے یا اس سے درد ہو، محض تھکاوٹ عذر نہیں۔ اگر کچھ حصہ کھڑا ہوسکتا ہے باقی نہیں تو جتنا ممکن ہے قیام کرے پھر بیٹھ جائے۔

مریض جب بیٹھ کر نماز ادا کرے تو کیسے بیٹھے؟ صحیح تر یہ ہے کہ جیسے آسانی ہو۔ اگر سیدھا نہیں بیٹھ سکتا تو انسان، تکیہ یا دیوار سے ٹیک لگاسکتا ہے اور بیٹھنا واجب ہے۔

اگر قیام، رکوع اور سجود سے عاجز ہے تو بیٹھ کر اشارہ سے ادا کرے، سجدے کا اشارہ رکوع کے اشارہ سے نیچے کرے، دونوں کو برابر نہ رکھے۔

اشارہ سے نماز ادا کرنے والے کو مکروہ ہے کہ اس کے لئے لکڑی یا تکیہ نہ اٹھایا جائے کہ وہ اس پر سجدہ کرے۔ اگر ایسا کیا گیا تو دیکھا جائے گا کہ اگر اس نے رکوع کے لئے سر جھکایا اور رکوع کی نسبت سجدہ کے لئے زیادہ سر جھکایا تو اس کی نماز درست ہے۔

ہاں وہ غلط کار و خطاوار ہے کہ (سجدہ کے لئے وہ چیز اٹھاکر اس کے آگے رکھی گئی) وہ سر نہیں جھکاتا بلکہ لکڑی اس کی پیشانی پر رکھی جاتی ہے تو صحیح تر یہ ہے کہ اس کی نماز جائز نہیں۔

اگر تکیہ زمین پر رکھا ہوا ہے۔ وکان يسجد عليها جازت صلاته اور نمازی اس (تکیہ یا کرسی، میز، تخت وغیرہ) پر سجدہ کرتا ہے تو اس کی نماز جائز ہے‘‘۔

(فتاوی عالمگیری ج 1 ص 136 طبع مکتبہ اسلامیہ دیار بکر ترکی، فتاویٰ قاضی خان علی ہامش عالمگیری ص 171)

علامہ الجزیری

ويکره لمن فرضه الايماء ان يرفع شيئا يسجد عليه فلو فعل وسجد عليه يعتبر موميا فی هذه الحالة فلا يصح ان يقتدی به من هوا قوی حالا منه خلاف الشافعيه.

’’جس آدمی پر معذوری کی بنا پر اشارہ سے نماز ادا کرنا لازم ہے، اس کے لئے یہ مکروہ ہے کہ کوئی چیز اٹھا کر اس پر سجدہ کرے۔ اگر اس نے ایسا کیا اور اس چیز پر سجدہ کیا تو اس حال میں اسے اشارہ سے نماز ادا کرنے والا سمجھا جائے گا، لہذا اس سے زیادہ قوی حالت والے پر اس کی اقتداء درست نہیں۔ اس میں امام شافعی کا اختلاف ہے کہ وہ اس اقتداء کو صحیح مانتے ہیں‘‘۔ (علامہ الجزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ج 1 ص 500 طبع بیروت، لبنان)

بہارِ شریعت

’’اگر کوئی اونچی چیز زمین پر رکھی ہوئی ہے اس پر سجدہ کیا اور رکوع کے لئے صرف اشارہ نہ ہوا بلکہ پیٹھ بھی جھکائی تو صحیح ہے بشرطیکہ سجدہ کی شرائط پائی جائیں مثلاً اس چیز کا سخت ہونا جس پر سجدہ کیا کہ اس قدر پیشانی دب گئی ہو کہ پھر دبانے سے نہ دبے۔ الخ‘‘

(بہار شریعت ج 4 ص 56 طبع شیخ غلام علی لاہور)

خلاصہ کلام

ان تمام دلائل شرعیہ کی رو سے معذور اشخاص جن کی کمر وغیرہ میں تکلیف ہے اور وہ کرسی وغیرہ پر سکون سے بیٹھ سکتے ہیں۔ اگر قیام کر سکتے ہیں تو قیام کریں، رکوع کر سکتے ہیں تو رکوع کریں پتھر، لکڑی یا تکیہ پر سجدہ کر سکتے ہیں تو کریں۔ اگر جھکنے میں تکلیف و درد شدت سے محسوس ہو تو مت جھکیں، رکوع و سجود سر کے اشارہ سے کریں۔ رکوع میں سر کا جھکاؤ کم اور سجدہ کے لئے زیادہ ہو۔ اگر تکیہ یا تختہ جو لکڑی پلاسٹک یا لوہے وغیرہ سے بنا ہوا ہے جس پر سجدہ کے وقت پیشانی اچھی طرح سے جم جاتی ہے تو یہ سجدہ شرعاً درست اور نماز صحیح ہے۔

اگر کسی اور نے یہ چیزیں اٹھا کر نمازی کے آگے کر دیں، زمین پر ٹکی ہوئی نہیں تو ان پر سجدہ مکروہ ہے، مگر پھر رکوع و سجدہ کا اشارہ پایا گیا اور اس صورت میں اشارہ ہی لازم تھا لہذا مکروہ ہونے کے باوجود نماز ہوگئی۔

صورت مذکورہ میں مساجد میں یا دوسرے مقامات پر جو لوگ کمر میں درد یا کسی اور تکلیف کی وجہ سے کرسی وغیرہ پر نماز ادا کرتے ہیں ان کا سجدہ کرسی پر کرنا درست ہے۔ قیام، رکوع اور سجود و قعود سب درست ہیں، لہذا ان کی نماز بلا کراہت درست ہے۔

بالفرض اس رکوع و سجود کا جو کرسی وغیرہ پر معذور لوگ کرتے ہیں اعتبار نہ کیا جائے تو یہ تمام ائمہ، محققین اور تمام کتب معتبرہ کا انکار ہوگا۔ علی سبیل تنزل اگر اس رکوع و سجود کا کوئی اعتبار نہیں کرتا، گو یہ اس ساری تحقیق و تفصیل کا انکار ہوگا، تاہم دوسری صورت میں ان معذورین پر اس سے زیادہ تو کوئی چیز فرض و لازم ہی نہیں تو اشارہ یقینا پایا گیا، لہذا نماز ہر صورت درست ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حوالہ جات کی روشنی میں حقیقت ثابت ہوچکی لہذا کسی عالم دین کو یا کسی اور کو یہ اختیار نہیں کہ معذورین کو مسجد میں باجماعت نماز سے محروم کریں اور مساجد سے کرسی وغیرہ کی سہولت ختم کریں۔

معذور و مریض

جب مریض کھڑا ہونے سے عاجز ہوجائے تو بیٹھ کر نماز ادا کرے، رکوع و سجود کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا :

صل قائما فان لم تستطع فقا عدا ان لم تستطع فعلی الجنب تؤمی ايماء ولان الطاعة بحسب الطاقة.

’’کھڑے ہوکر نماز ادا کرو، طاقت نہیں تو بیٹھ کر، اگر اس کی طاقت نہیں تو لیٹ کر اشارہ سے ادا کرو اور اس لئے کہ عبادت طاقت کے مطابق ہی ادا کی جاسکتی ہے‘‘۔

(ہدایہ ج 1 )

مختصر یہ کہ معذور اشخاص جو رکوع و سجود نہیں کر سکتے اشارۂ سر سے نماز ادا کریں۔ اگر وہ کرسی پر یا کسی اور سخت چیز پر کہ دبائے سے نہ دبے اور اسے خود یا کسی اور کے ذریعے اٹھا کر پیشانی سے نہ لگائیں بلکہ زمین پر رکھ کر اس پر سجدہ کریں ان کی نماز بالا تفاق شرعاً درست ہے۔ اس میں سر کا اشارہ بھی پایا گیا اور سجدہ بھی۔ مگر رکوع و سجدہ کے بارے میں فرق ہو کہ رکوع کے اشارہ میں کم اور سجدہ کے اشارہ میں زیادہ جھکاؤ ہو۔ مذکورہ بالا صورت میں اشارہ سے نہیں حقیقی رکوع و سجود ہی ہوگا۔ ہاں بعض لوگ بلا عذر شرعی محض کپڑوں کی سلوٹیں بچانے یا آرام طلبی یا شوشا کے طور پر کرسیوں پر نماز ادا کرتے ہیں، یہ نماز ہرگز ہرگز جائز نہیں کہ معذورین کا حکم انہی کے لئے ہے، صحت مندوں کے لئے نہیں۔