پاکستان کا وجود محض ایک جغرافیائی خطے کا وجود نہیں بلکہ یہ ملک ایک فکر و نظریے کے تحت زندہ رہنے والی قوم کے احساسات اورجذبات کی آماجگاہ ہے، وہ احساسات و جذبات جوحرم مکہ و مدینہ میں سرورِ انبیاء کے مقدس دور سے لے کرصحابہ و تابعین اور تاریخ اسلام میں ہر اہم شخصیت کی صحبت و قربت میں پرورش پاتے رہے۔ پاک سر زمین ان مسلمانوں کی قربانیوں کا ثمر ہے جنہوں نے برطانوی استعمار اور ہندو سامراج کے ساتھ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعدمسلسل ایک صدی پر محیط جدوجہد بپا کئے رکھی حتی کہ ستائیسویں رمضان المبارک 1947ء میں یہ ملک معرض وجود میں آیا۔ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت بھی اسی خطے کے ان بیچارے بے سروسامان مسلمان عورتوں اور مردوں کے قافلوں کی صورت میں سامنے آئی جو ایک نظریئے کی خاطر تمام رشتے ناطے اورمادی مفادات ترک کر کے اس خطے کی طرف لپکے تھے۔ انہوں نے بھوکے پیاسے سینکڑوں ہزاروں کلومیٹر کا سفر محض ان جذبات کے سہارے طے کیا تھا جو تحریک پاکستان کے رہنماؤں نے ان کے اندر بھردیئے تھے۔ انہوں نے زندہ یا مردہ اسی سرزمین کو اپنی منزل بنایا تھا۔ان میں سے بہت سی مائیں ہیں جو جوانی سے بڑھاپے کی آخری سٹیج پر پہنچ کر بھی آج تک اپنے جگر پاروں کے راستے دیکھ دیکھ کر جی رہی ہیں۔ شریف مسلمان گھرانوں کی بہت سی دو شیزائیں ایسی ہیں جو ان بدقسمت قافلوں سے بچھڑیں یا گھروں سے اٹھالی گئیں اور اس وقت ان کی گود میں سکھ اور ہندو نسلیں پرورش پا رہی ہیں مگر ان کے نہاں خانۂ دل میں اسی پیارے پاکستان کی محبت موجزن ہے۔ الغرض انسانی تاریخ کے ناقابل فراموش مظالم سے بھرپوران قیامت خیز مناظر کی زندہ شہادتیں اب بھی موجود ہیں۔ ہمارا روئے سخن ان مناظر کی منظر کشی نہیں اورنہ ہی ان مظالم کا تذکرہ ہے۔ ہم تو اس جدوجہد آزادی کی اس خاص نوعیت کو ذہنوں میں جاگزیں کر کے قیام پاکستان جیسے عظیم معجزے کواجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ آج ہم اس مقدس اور پاک سرزمین کا فسانۂ غم بیان کرنے جا رہے ہیں جس کی حفاظت اور پرورش کا فریضہ اللہ تعالیٰ نے پاکستانی قوم کو سونپا تھا۔
وہ لوگ جو بچپن یا لڑکپن میں خون کے ان دریاؤں سے گزرے اور آگ کے طوفانوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے انہیں کس قدر تکلیف پہنچتی ہوگی جب ان کی خوابوں کا مرکز یہ وطن آج زخموں سے چور چور نظر آتا ہوگا؟ وہ بوڑھے اپنی ان قربانیوں اور تکلیفوں کو کیا عنوان دیتے ہوں گے جو انہوں نے اسلامی فلاحی مملکت کے حصول کے لئے برداشت کی تھیں؟ یہ فلاحی مملکت جہاں آج ایک کلو سبزی کی قیمت مزدور کی پورے دن کی اجرت سے بڑھ چکی ہے۔ جہاں آٹا نہیں، بجلی نہیں، پانی نہیں، انصاف نہیں، صحت نہیں، تعلیم نہیں حتی کہ انسانیت نہیں۔ اچھے بھلے ملک کا یہ حال خود بخود نہیں ہوا۔ اسے اس بدحالی تک پہنچانے والے اس کے اپنے عوام بھی ہیں اور حکمران بھی۔ اس تباہی کا قصور وار اس کا طبقہ اشرافیہ ہے جس نے دونوں ہاتھوں سے اسے لوٹا اورآج جبکہ یہ زخموں سے نڈھال ہے یہی اشرافیہ اس کے وجود سے رسنے والا خون بھی اس کے دشمنوں کو ڈالروں کے عوض فروخت کر رہا ہے۔
وطن عزیز کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ اسے قائداعظم کی وفات کے بعد کوئی دیانتدار مخلص اوراہل حکمران نصیب نہیں ہوا۔ جو بھی آیاوہ ابن الوقت اور دھوکا باز تھا۔ جمہوریت کے نام پر بھی ڈکٹیٹرشپ قائم رہی اور فوجی حکمرانوں نے بھی جی بھر کر ہوس اقتدار کے جام نوش کئے۔ کسی کے پاس لوٹ مار کی منصوبہ بندیوں کے علاوہ شاید اتناوقت تھا ہی نہیں کہ وہ مستحکم بنیادوں پر حقیقی مسائل کے حل کی طرف توجہ دیتا۔ ترجیحات کا تعین ہوتا، وسائل کا مصرف کسی قومی ضرورت کے لئے کیا جاتا۔ آزاد وطن میں آزادی صرف یہ رہی کہ سیاسی طالع آزماؤں سمیت بیور و کریسی نے سکون سے لوٹ مار اور کرپشن کے ریکارڈ قائم کئے۔ مذہبی طبقات نے اس آزادی سے فائدہ اٹھا کر تعصبات اورنفرتوں کے اتنے انبار لگا دیئے ہیں کہ آج ان کے خاتمے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ فرقے مضبوط ہیں لیکن اسلام کمزور ہے بالکل اسی طرح جیسے 16 کروڑ پاکستانیوں کا ہجوم قومیت اور انسانیت کی راہ دیکھ رہا ہے۔
اس ملک کی دوسری بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اسکو تعمیر کرنے والوں سے زیادہ اسے تباہ کرنے والے بہ کثرت اس کے دامن میں پلتے رہے۔ یہ اسلام کی حکمرانی کا جتنا عظیم مقصد لے کر قائم ہوا تھا اسی قدر اسلام دشمن قوتوں نے اس کی مخالفت میں مکروہ سازشوں کا جال پھیلایا۔ جس دھرتی ماں کے بیٹے اس کی حرمت اورحفاظت کے لئے دل و جان سے تیار نہیں ہوں گے اسکے دشمن وہاں نقب نہیں لگائیں گے تو کیا کریں گے؟پھر یہ مملکت خداداد تو پہلے دن سے ہی دشمنوں کی بری نظروں کا مرکز تھی۔ ہندو، جو مکاری اورعیاری میں اپنی مثال نہیں رکھتا اس کا ایسا پڑوسی ہے جس کی آنکھوں میں ہروقت خون اترا رہتا ہے۔ اس نے پہلے اس کا مشرقی بازو اس سے جدا کر دیا اور اب شمال مغربی سرحدوں پر اس کی فوجیں افغانستان کی سرزمین سے ’’امدادی سرگرمیوں‘‘ کے لئے اندر گھسنے کو تیار کھڑی ہیں۔ اسرائیل سمیت مغربی ممالک کی اکثریت امریکہ کی زیر سرپرستی نیٹو افواج کی شکل میں ہماری قومی سلامتی کے گرد منڈلا رہی ہیں۔ دوسری طرف مقامی مذہبی انتہا پسند عناصرکو پاک افواج کے ساتھ الجھا دیا گیا ہے اور ہر روز بے گناہ معصوم لوگوں کا خون بہہ رہا ہے۔ اس بدترین اور بے مقصد خانہ جنگی کا خاتمہ قریب قریب ہوتانظر نہیں آتا کیونکہ یہ آگ بڑے غور و فکر اور گہرے تدبر کے بعد لگائی گئی ہے۔ ہمارا دشمن اب چاہتاہے کہ اس آگ کے شعلوں میں اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے امن و سکون کو بھی بھسم کر دے۔ اس مقصد کے لئے نوخیز جذباتی نوجوانوں کی ایک کھیپ تیار کر لی گئی ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ’’جنت الفردوس‘‘ کی آغوش میں جانے کے لئے بے تاب رہتے ہیں۔ ہمارے ازلی دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے ان نادان دوستوں کو اتنی خبر بھی نہیں کہ وہ اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو موت کی وادی میں دھکیل کر خود بھی حرام موت مر رہے ہیں۔ لیکن یہ نادانی ایک کار آمد ہتھیار کے طور پر فی الحال ہمارے دشمنوں کے کام آ رہی ہے اور اس وقت تک کام آتی رہے گی جب تک ہمیں دشمنوں اور دوستوں کی شناخت نہیں ہوجاتی۔
قارئین! معروضی حالات بلاشبہ خطرناک مایوس کن اور پریشان کن ہیں۔۔۔ مگر یہ مسائل ابھی بھی حل ہوسکتے ہیں۔ غلط فہمیاں دور کی جاسکتی ہیں۔زخموں پرمرہم رکھا جاسکتا ہے، نفرتیںمحبتوں سے دھل سکتی ہیں لیکن اس کے لئے زیرک اور دیانتدار قیادت درکار ہے۔ مخلص اورجرات مند لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں دیانتدار مخلص اورجرات مند افراد کی کمی نہیں لیکن ہمارانظام اس قدر ناکارہ بانجھ اورفرسودہ ہے کہ ایسے اہل افراد آگے آہی نہیں سکتے۔ ملک کا حقیقی اقتدار بدقسمتی سے ان لوگوں اور اداروں کے ہاتھوں میں ہے جو قوم کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور کرپشن سے لت پت ہیں۔ رشوت ستانی، اقرباء پروری اور کمیشن خوری ان لوگوں کی ایسی عادات ہیں جن کے ساتھ یہ بچپن سے مانوس ہیں۔ جب تک اس ابلیسی نظام سے نجات نہیں ملتی ہمیں نام نہادجمہوریت کے ذریعے بھی پرویزی باقیات سے نجات نہیں مل سکتی۔ اس میں شک نہیں کہ آج ہم بدترین معاشی ابتری، سیاسی عدم استحکام اور توانائی کے خطرناک بحران کا شکار ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ملک ان سے زیادہ خطرناک مسائل اور بدحالی کا شکار تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُس وقت قائد کی موجودگی نے قوم کو سہارا دیئے رکھا۔ قیادت سمجھدار ہو تو قوم اس سے زیادہ خطرناک طوفانوں سے نکل آتی ہے اور اگر قیادت نااہل اوربدکردار ہو تو معمولی جھٹکے بھی جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔ دیر ضرور ہو رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ جس ذات نے یہ ملک ناممکن حالات میں عطا کر دیا وہ ذات اس قوم کو مخلص قیادت بھی عطا فرما دے گی۔ لیکن یہ وقت محض دعاؤں کے سہارے زندہ رہنے کا نہیں بلکہ ان دعاؤں کی قبولیت کے لئے اہلیت ثابت کرنا ہوگی۔ پوری قوم کو نہایت فکر مندی اور ہوش مندی کے ساتھ استعماری سازشوں کو سمجھ کر اتحاد، نظم اورجواں مردی سے ان کا تدارک کرنا ہوگا۔ دوست اور دشمن میں تمیز کرنا ہوگی۔ اسلام کے بیرونی و داخلی دشمنوں کی تخریب کاریوں کے سامنے بند باندھنا ہوگا۔ ملک روز روز نہیں بنتے پاکستان عام ملک نہیں یہ پوری امت کی امیدوں کا مرکز ہے، اس کا شیرازہ منتشر ہوگیا تو دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کو عرب و عجم میں روکنے ٹوکنے والا اور کوئی نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ اس ارض پاک کو دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ بنائے اور ہمیں اس امانت کی حفاظت کا اہل بنائے۔ٍ
ڈاکٹر علی اکبر قادری