تاریخ ہمیں حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کی کسی تصنیف سے متعارف نہیں کراتی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تصنیف کرنے اورمطالعہ میں مگن رہنے کوپسند نہ کرتے۔ ان کے نزدیک تصوف پڑھنے پڑھانے کی نہیں برتنے کی چیز ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاق و تعلیمات قدسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے جو ہر مومن کو اسی سانچے میں ڈھلنے کی ترغیب دیتے تاکہ وہ فناء سے بقاء کی طرف سفر کر سکے۔ آیئے ان کے اخلاق و تعلیمات کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں۔
خاموشی و کم گوئی
آپ کم گوتھے اوراپنے احباب کو بھی کم گوئی اور خاموشی کی تلقین فرمایا کرتے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ جتنی دیرگفتگو میں مصروف رہوگے اتنی دیر ذکر الٰہی سے محروم رہو گے۔
(تذکرہ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ : محمد دین کلیم، ص 58)
کم گوئی اورخاموشی معرفت حق کی علامت ہے۔ یہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ انسان عظیم حقیقتوں سے آگاہ ہے۔ بعض عرفانے کہاہے :
’’من عَرَفَ اللّٰهَ کَلَّ لسانه‘‘.
’’جس نے اپنے رب کی معرفت حاصل کر لی اس کی زبان گویائی سے عاجز ہوجاتی ہے‘‘۔
اللہ تعالٰی کی عظمت اور اس اسرار سے آگاہی کی بنا پروہ حیرت کی کیفیت میں گم رہتا ہے۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اکثر یہ دعافرمایا کرتے :
’’اَللَّهُمّ زدُحيرتی فِيک‘‘
ایک وزیر نے حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضوری کے اوقات خاص ہیں اس خاکسار کو بھی یاد فرما لیں۔ فرمایا : ایسے وقت پر خاک جس میں اللہ تعالٰی کے سوا مجھے کوئی اور یاد آئے۔ (سفینۃ الاولیاء : داراشکوہ قادری، ص 102)
آپ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے :
کسے کو غافل از حق یک زماں است
دراں دم کافر است امّا نہاں است
’’یعنی جوشخص پل بھرکے لئے حق تعالٰی سے غافل ہو جائے اس وقت وہ کفر کی حالت میں ہے اگرچہ یہ کفر ظاہر نہیں بلکہ پوشیدہ ہے۔ ‘‘
آپ ہمیشہ ذکر و فکر میں مصروف رہتے، اکثر استغراقی کیفیت طاری رہتی۔ تنہائی کو پسند فرماتے، ذکر و عبادت کے لیے جنگل اور باغات کی طرف نکل جاتے۔ خاص احباب جو ساتھ ہوتے وہ الگ الگ جگہوں پر ذکر و عبادت میں مصروف رہتے لیکن نماز کے اوقات میں سب ایک جگہ جمع ہو کر باجماعت نماز ادا کرتے۔
(سکینۃ الاولیاء : داراشکوہ قادری، ص 32)
یہ بات مسلّم ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح صوفیائے عظام رحمہم اللہ بھی عمل کے پیکر ہوتے ہیں۔ ان کی ہر ادا ان کی فکر اور تعلیمات کی ترجمان اورمبلغ ہوتی ہے۔ عشاق ان کے اشارۂ اَبرو سے اپنی سمتیں درست اور راہوں کا تعین کرتے ہیں۔ شیخ کامل کی مجلس میں رونماہونے والا ہر واقعہ زندہ احساس رکھنے والے کے لیے تربیت نفس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کم گوئی اورسکوت پسندی کو دیکھ کر کوئی صاحبِ قلم آپ کے ملفوظات کو جمع نہ کر سکا۔ تاہم آپ کی سیرت کامطالعہ کرنے والے کے لیے آپ کی زندگی کے ہر پہلو میں رُشد و ہدایت کی روشنی موجود ہے۔ تصوف، اعمالِ شریعت کواحسن انداز میں سرانجام دینے کا نام ہے، اسی لیے تصوف کو احسان کیا گیا ہے۔ حسنِ عمل کے یہ رویے حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے ایک ایک لمحہ کو محیط تھے۔
خودنمائی اور نام و نمود سے نفرت
حضرت میاں میر قادری رحمۃ اللہ علیہ شہرت اور نام و نمود کو پسند نہ فرماتے۔ فقیرانہ میلے کچیلے ریاکارانہ لباس کی مذمت فرماتے۔ فقیروں کی مخصوص گدڑی نہ خود پہنتے نہ ہی مریدوں کو پہننے کی اجازت دیتے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے کہ جولوگ دنیائے ولایت میں قدم رکھنے کے بعد بھی خرقہ یاگدڑی پہنتے ہیں وہ خودنمائی کرتے ہیں۔ (ایضاً، ص 59) آپ اکثر یہ شعرسنایا کرتے :
کسے کو راست باحق آشنائی
نیا ید ہرگز از وے خود نمائی
’’یعنی جوحق تعالٰی سے دوستی کادم بھرتا ہے، اس سے خودنمائی سرزد نہیں ہو سکتی‘‘۔
٭ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت میاں محمد بنیانی قادری رحمۃ اللہ علیہ فاخرہ لباس استعمال کیا کرتے۔ ان سے جب اس کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا جس وقت وہ عالمِ تجرید میں تھے ان کے تن کی گدڑی پارہ پارہ ہوگئی۔ ایک وفعہ بازار میں سے گزر رہے تھے۔ اس فقیرانہ لباس کو دیکھ کرلوگ ٹوٹ پڑے اوران کے ہاتھ چومنے لگے۔ اتنی دیرمیں حضرت میاں میرقادری رحمۃ اللہ علیہ کا گزر اس طرف سے ہوا۔ ان کی یہ وضع قطع دیکھ کر آپ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور حکم دیا کہ اس لباس کو اتار کر اچھا لباس پہنا کرو۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : آئندہ ایسا لباس پہنو کہ کوئی یہ نہ جان سکے کہ تم کس گروہ کے فرد ہو۔
(اولیائے کرام کا انسائیکلو پیڈیا : امیر علی خاں، ص 531)
آپ کے اس ارشاد کی تائید حضرت سیّد علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ ’’یہ راہ محض گدڑی پہننے سے طے نہیں ہوتی بلکہ یہ منزل ریاضت اورمحنت سے ملتی ہے۔ جوشخص طریقت سے آشنا ہوگیا اس کے لیے امیرانہ لباس بھی فقیرانہ لباس ہے اور جواس سے بیگانہ اور ناآشنا ہے، اس کے لیے فقیرانہ گدڑی بھی نحوست و ادبار کی نشانی اور آخرت میں باعثِ شقاوت ہے‘‘ (کشف المحجوب : حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، ص 92)
حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ ہر اس کام سے پرہیز فرماتے جس میں ریاکاری یاحُبِ جاہ کا شائبہ بھی ہوتا آپ فرمایا کرتے کہ حُبِ جاہ درویش کے لیے تباہی اور بربادی کا موجب ہے۔ فرمایا حب جاہ کودل سے نکالنا بڑا بھاری کام ہے۔ آپ اکثرحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث سنایا کرتے تھے کہ ’’صدیقوں کے سر سے حبِ جاہ سب سے آخر میں نکلتی ہے‘‘۔ چنانچہ اپنے خلفاء کو طلبِ شہرت اور حُبِ جاہ سے بچنے کی سخت تلقین فرماتے۔ (سکینۃ الاولیاء : ص 62)
٭ حضرت خواجہ بہاری رحمۃ اللہ علیہ آپ کے اکابر خلفاء میں سے تھے۔ ایک دن چنداحباب کے ساتھ گھر میں تشریف فرما تھے کہ چھت کی کڑیاں چڑچڑانے لگیں۔ انہوں نے دوستوں کوفوراًمکان سے نکل جانے کے لیے کہہ دیا۔ وہ سب باہرچلے گئے لیکن خواجہ بہاری رحمۃ اللہ علیہ خود وہیں بیٹھے بلندآواز سے کلمۂ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔ اندازے کے مطابق چھت گرپڑی لیکن دوکڑیاں آپس میں جُڑگئیں اوراس تکون کے نیچے خواجہ بہاری رحمۃ اللہ علیہ محفوظ بیٹھے رہے۔
یہ واقعہ جب حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کیا گیا تو فرمایا : ہائے! عزت اور جاہ کی طلب! کہ اس کاخیال مرتے وقت بھی نہیں جاتا۔ کلمۂ طیبہ بلندآوازسے پڑھنے کامطلب یہ ہے کہ لوگ سن لیں کہ بہاری رحمۃ اللہ علیہ موت کے وقت بھی خدا کو یاد کرتا رہا۔ پھر فرمایا : اسے کلمہ طیبہ دل میں پڑھنا چاہیے تھا۔
(تذکرہ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ : ص 63)
اظہار کرامت سے اجتناب
ایک مرتبہ خواجہ بہاری رحمۃ اللہ علیہ کے کوچے میں کئی دن سے چوہا مرا پڑا تھا، جس سے بدبو اٹھ رہی تھی۔ انہوں نے دیکھا تو فرمایا : اور مردار اُٹھ اوریہاں سے چلا جا۔ چوہا فوراً زندہ ہو کر بھاگ گیا۔ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ نے سنا تواظہارِ کرامت پر سخت ناخوش ہوئے۔ (سکینۃ الاولیاء : ص62)
٭ ایک دن شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ احباب کے ساتھ اپنے حجرہ کے باہرذکر اذکار میں مصروف تھے۔ کچھ دیر بعد بادل گھر آئے او بوندا باندی شروع ہوگئی۔ حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کیا ہی اچھا وقت تھا، دل جمی سے بیٹھے تھے، اب تویہاں سے اٹھنا پڑے گا۔ میاں نتھا رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کی۔ ’’اگر آپ اجازت دیں تو مینہ اور ہوا و غیرہ کو اُڑادوں اور مطلع صاف ہو جائے اور آپ کو یہاں سے اٹھنانہ پڑے۔ حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے میاں نتھا رحمۃ اللہ علیہ کو اس اظہارِ کرامت پر سخت سرزنش کی۔ فرمایا اچھا اب تو خود فروشی کرنے لگا ہے۔ بعدازاں بڑی شفقت سے فرمایا کہ اگر ہم یہاں سے اُٹھ کرحجرے میں چلے جائیں تو کیا حرج ہے، تو نے نہیں سنا کہ محمود کا فعل بھی محمود ہوتا ہے‘‘۔ خبردار! آئندہ اس قسم کے افعال کا مرتکب نہ ہونا اور کارخانۂ قدرت میں دخل نہ دینا بلکہ اس کی رضا پر راضی رہنا۔ (لاہور میں اسلام کے سفیر : خواجہ عابد نظامی، ص 145)
حضرت میاں میرقادری رحمۃ اللہ علیہ کا کرامات کے حوالے سے وہی مؤقف تھا جو جلیل القدر صوفیائے متقدمین کا تھا۔ وہ بطورِخاص اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ ان کے مجاز اور خلفاء حضرات کرامت کے اظہارسے اجتناب کریں اور یوں شہرت اور نام و نمود سے بچنے کی کوشش کریں۔ وہ کشف و کرامت کے اظہار کو سالکِراہِ طریقت کے لیے حجاب قرار دیتے تھے اور فرماتے’’کشف بر سر او کفش‘‘یعنی کشف کے سرپرجوتا۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ دیگر سلاسل کے ہاں مراتب سلوک میں کرامت کا درجہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ’’خواجگانِ چشت کے نزدیک سلوک کے پندرہ درجے ہیں، ان میں پانچواں درجہ کشف و کرامت کا ہے۔ جو شخص اپنی ذات کو پانچویں درجہ میں ہویدا کرے گا وہ بقیہ دس درجوں کوحاصل نہ کر سکے گا‘‘۔
(صوفیاء اور ان کا حسن اخلاق : حافظ سعداللہ، ص 123)
شیخ الاسلام حضرت میاں میر قادری رحمۃ اللہ علیہ بھی احوالِ باطنی کو پوشیدہ رکھنے کے قائل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے ہاں اپنے روحانی احوال و مقامات کے بارے کہیں دعویٰ دکھائی نہیں دیتے۔ آپ کرامات کے اظہار میں بھی بے حد احتیاط برتتے۔ اکثر یہ مصرعہ زبان زور ہتا کہ :
کرامتِ اولیاء را اضطراب است
آپ فرمایا کرتے کہ خوارق (کرامات) دو اقسام کی ہیں :
(1) اختیاری کرامات (2) اضطراری کیفیات
اختیاری کرامات ان لوگوں سے ظہور پذیر ہوتی ہیں جوصاحبِ ارشاد اوراہلِ دعوت ہوتے ہیں۔ وہ حصول مراد کے لیے اسمائے الٰہی میں سے کسی اسم کا ورد کرتے ہیں اور وہ مراد اسم شریف کی برکت سے پوری ہو جاتی ہے۔
اضطراری کرامات وہ ہیں جو اختیاری طور پر ظاہر نہ ہوں بلکہ اللہ تعالٰی کی طرف سے اپنے بندے کی شان کے اظہار کے لیے رونما ہوں۔ اس میں بندے کے اختیار کا دخل نہیں ہوتا۔ (گلشن قادری : علامہ محمد اقبال، ص107)
شانِ استغناء
شاہانِ وقت اور امراء بھی آپ سے ارادت رکھتے تھے۔ لیکن آپ ان کے نذرانے قبول نہ فرماتے۔ مخلصین کے رزقِ حلال کانذرانہ قبول فرما لیتے اور تھوڑا سا خرچ کے لیے رکھ کر باقی محتاجوں میں بانٹ دیا کرتے۔
٭ اگر کوئی امیر نذرانہ کے لیے اصرار کرتا تو فرماتے : کیا تم نے مجھے فقیر سمجھ رکھا ہے؟ میں فقیر اور مستحق نہیں ہوں، غنی ہوں کیونکہ جوخدا کاہو جائے وہ فقیر نہیں ہوتا۔ یہ رقم لے جاؤ کسی مستحق کو دے دو۔‘‘
(سکینۃ الاولیاء : ص43، تذکرہ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ، ص 242)
٭ شاہ جہاں جب پہلی مرتبہ حاضر خدمت ہوا تو خطیر رقم بطورنذرانہ پیش کی۔ آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بادشاہ نے آپ کے ایک ہم عصر بزرگ حضرت شاہ بلاول رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر وہی رقم پیش کر دی۔ انہوں نے یہ کہہ کر قبول کر لی کہ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ تومَلکی صفات ہیں (یعنی فرشتہ صفت ہیں) ان کی توجہ کا دنیا کے حکام کی طرف نہیں ہمارے ہاں طلباء، مسافروں اور درویشوں کے لئے لنگر جاری رہتا ہے اس کے لیے رقم کی ضرورت رہتی ہے۔
شاہ جہاں جب دوبارہ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا توحضرت شاہ بلاول رحمۃ اللہ علیہ کے نذرانہ قبول کرنے کا واقعہ بیان کر دیا۔ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
’’شاہ بلاول ولی کامل ہیں وہ دریا کی مانند ہیں، میں ان کے سامنے ایک تالاب ہوں۔ دریا میں اگرکوئی چیز پڑجائے تو پلید نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں تالاب کی کیا حیثیت ہے۔
(تذکرہ اولیائے پاکستان : عالم فقری، ص 242)
یہ واقعہ آپ کے استغنا اور تواضع کی روشن مثال ہے۔
شاہانِ وقت نے بہت کوشش کی کہ آپ کے ساتھ ربط و ضبط رکھا جائے لیکن آپ نے انہیں بہت کم وقت دیا اور ان کی صحبت سے کنارہ کشی کو بہتر جانا۔
ایک مومن کا اپنے مولا کے ساتھ دوستی اور محبت کانمایاں مظہر، توکل ہے۔ اللہ پر توکل اور بھروسہ دراصل تصوف کی روح ہے۔ صوفیائے کرام رحمۃ اللہ علیہ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جن کی نظر اسباب پر نہیں مسبب الاسباب پر ہوتی ہے۔ دنیا کے سہارے ان کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ وہ خود کو مکمل طور پراللہ تعالٰی کی سپردگی میں دے دیتے ہیں۔ چنانچہ رب العزت انہیں دنیا کے سہاروں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
٭ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک مخلص نے بڑاعمدہ، خوبصورت اورمضبوط عصا پیش کیا جسے آپ نے اس کی دلجوئی کی خاطر قبول فرما لیا اور اس کے سہارے دو چار قدم چلے۔ بعد ازاں اسے ایک طرف رکھ دیا اور فرمایا :
’’وہ شخص اس (عصا) کاسہارا کیوں لے، جس نے حق تعالٰی کاسہارا لے رکھاہو۔ ‘‘(گلشن قادری : ص 75)
روایت میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد کبھی کوئی عصاآپ کے ہاتھ میں نہیں دیکھاگیا۔ حق تعالٰی نے آپ کواس سہارے کامحتاج نہیں ہونے دیا۔
شیخ الاسلام حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ اس بات کو بھی توکل علی اللہ کے خلاف سمجھتے تھے کہ رات کے وقت کوزہ میں اگلے دن کے لیے پانی رکھ لیا جائے۔ چنانچہ آپ رات کوسونے سے قبل اپنا کوزہ پانی سے خالی کر دیتے تھے۔
(تحقیقات چشتی : مولانا نور احمد، ص 246)
اسلام سادگی کی تلقین کرتا ہے۔ وہ غیر ضروری بندشوں اور تکلفات کوپسند نہیں کرتا۔ اللہ تعالٰی کی معرفت اوراس کی عظمت کا مشاہدہ مومن کے اندر تواضع پیدا کر دیتا ہے۔ اس سے مزاج میں بھی سادگی آجاتی ہے کیونکہ معرفتِ حق اسی تصنّع سے ہٹا کر فطرت کی طرف لے جاتی ہے اور فطرت میں سادگی ہی سادگی ہے۔
حضرت میاں میرقادری رحمۃ اللہ علیہ نہایت سادہ اور کم قیمت لباس استعمال کرتے، سفید پگڑی کے ساتھ سفید کھدر کی قمیض اور تہبند زیب تن فرماتے۔ لباس اگرچہ کم قیمت ہوتا لیکن ہمیشہ صاف ستھرا رہتا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ دریا راوی پر جا کر اپنے کپڑے خود دھو لیا کرتے۔ کھانے پینے میں کبھی تکلف نہ فرمایا جو میسر ہوتا سب احباب کے ساتھ مل کر تناول فرما لیتے۔ رہائش بھی بالکل سادہ تھی۔ عمر بھر ایک پارینہ بوریہ زیر استعمال رہا۔ (سکینۃ الاولیاء، ص39) دنیاوی آسائشوں سے اس طرح بے نیاز رہے کہ سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد ’’الفقر فخری‘‘ کا کامل نمونہ نظر آتا تھا۔
تربیتِ مریدین
آپ بہت کم لوگوں کوبیعت کرتے لیکن بیعت کرنے کے بعداس کی تربیت پرخصوصی توجہ دیتے۔ اپنے مریدوں کومریدکہہ کریادنہ کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں انہیں’’دوست‘‘ اور ’’یار‘‘ فرمایا کرتے۔ سالک کو کم خوری، کم گوئی اور کم خوابی کی تلقین فرماتے۔ فرمایا کرے کہ حق کی طلب آسان کام نہیں۔ انسان کا دل ایک ہے اس لئے اس میں صرف ایک ہی کو جگہ دینی چاہیے۔ باقی سب کے خیالات دل سے نکال دینے چاہئیں۔
(لاہور میں اسلام کے سفیر : 159)
آپ طالبِ مولا کو دنیاوی علائق اور اندیشوں کو مکمل ترک کرنے کی تلقین فرماتے۔ اس کی ضرورت کی وضاحت اس طرح فرماتے کہ اگر کسی جنبی کے سر کا ایک بال خشک رہے تو ناپاکی برقرار رہتی ہے۔ اس طرح ایک بھی دنیاوی اندیشہ رہے تو باطن پاک نہیں ہوتا۔
حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ اپنے سالک راہ طریقت کو ابتداہی سے اس راہ کی مشکلات سے آگاہ فرما دیا کرتے اور اسے یہ شعر سناتے :
شرط اوّل در طریقِ معرفت دانی کہ چیست؟
ترک کردن ہر دو عالم را و پشت پازدن
’’یعنی معرفت کی راہ کی شرط اوّل کیا تجھے معلوم ہے؟ (میں بتاتا ہوں) اللہ کی خاطر دو عالم کو ترک کرنا شرط اول ہے‘‘۔
مجاہدہ اس جدوجہد اورمحنت کا نام ہے جو رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر کی جاتی ہے۔ صوفیائے کرام رحمہم اللہ کے مجاہدات اور مراقبات کی مثال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی زندگی سے ڈھونڈنے والے اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ وہ نفوس قدسیہ تو مشاہدہ کی دولت سے سرفراز تھے، جمال نبوت کی زیارت ہی ان کی تربیت نفوس کے لیے کافی تھی۔ بدر و حنین کے کربناک لمحے بھی مشاہدے کی لذت میں، احساس کرب سے خالی ہوتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ راہِ حق کے طالب کی زندگی سے سود و زیاں کا تصور خارج ہو جاتا ہے۔ حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بقول :
برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
داراشکوہ لکھتے ہیں :
’’شیخ الاسلام حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ ہفتہ ہفتہ بھر بھوکے رہتے لیکن اپنا حال کسی پرظاہر نہ کرتے۔ آپ فرمایا کرتے کہ تیس سال تک ہمارے گھر کچھ نہ پکا۔ آپ رات دن میں بہت کم غذا کھاتے۔ جو تھوڑا سا کھایا کرتے اس کی بھی کچھ خبر نہ ہوتی کہ کیا کھایا ہے۔ آپ ہمیشہ جمال باکمال ایزدی کے مشاہدہ میں مستغرق رہتے‘‘۔ (سکینۃ الاولیاء، ص 40)
حضر میاں میر رحمۃ اللہ علیہ نے کبھی کسی فرمانروا کے دروازے پردستک دے کرغیرتِ فقر کو مجروح نہیں کیا ایک مرتبہ شہنشاہ جہانگیر کی پراصراردرخواست پر اولی الامر کی اطاعت کے قرآنی حکم کے پیشِ نظر آپ کواس کے پاس جانا پڑا۔ جب کافی دیرگفتگو ہو چکی تواس نے عرض کی کہ میری خواہش ہے کہ آپ مجھے کسی خدمت کا موقع دیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں جوکچھ طلب کروں کیا وہ چیز مجھے دے دو گے؟ بادشاہ کوآپ کی اس بات سے خوشی ہوئی۔ عرض کی آپ اشارہ تو کریں میرے دائرہ اختیار میں ہوگا تو سب کچھ نذر کر دوں گا۔
حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی شان بے نیازی سے فرمایا :
’’پھرمیری یہی خواہش ہے کہ تومجھے رخصت کر دے اور آئندہ مجھے زحمت نہ دے‘‘۔ (ایضاً، ص 47)
ہندوستان کے مطلق العنان بادشاہ جس کے دربار تک رسائی کے لیے بڑے بڑے صاحبان جبہ و دستار بے قرار رہتے تھے، اس مردِ خدا کا جواب سن کر دنگ رہ گیا۔
تخت سکندری پر وہ تھوکتے نہیں
بستر لگا ہوا ہے جن کا تیری گلی میں
حضرت شیخ الاسلام میاں میر قادری رحمۃ اللہ علیہ کے مخلصین بھی توکل و استغنا کی اس صفت میں رنگے ہوئے تھے اور علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس مصرعہ کی پوری پوری تصویر نظر آتے تھے کہ :
حوروں کو شکایت ہے کہ بہت کم آمیز ہے مومن
ظاہری و باطنی علوم میں مہارت
حضرت میاں میر قادری رحمۃ اللہ علیہ ظاہری و باطنی علوم میں یدطولٰی رکھتے تھے۔ قرآن و سنت کے مفاہیم بیان کرتے توعلماء و فضلا انگشت بد نداں رہ جاتے علم فقہ میں بھی کمال دسترس تھی لیکن اس تمام تر علمی تبحر اورثقاہت کے باوجود قیل و قال سے اجتناب فرماتے اور بحث و تمحیص سے گریزاں رہتے مناظرہ کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ ایک دفعہ مناظرہ کیحالات پیدا کر دیئے گئے لیکن آپ کی دانش روحانی کی بناء پر اس کو نوبت نہ آسکی اور مناظرنے راہِ فرار اختیار کر لی۔
واقعہ یوں روایت ہے کہ ملکہ نور جہاں اوراس کے بھائی آصف جاہ کی کوششوں سے سنی علماء کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لیے ایران سے ایک مجتہد کو بلایا گیا۔ ایرانی مجتہد اعظم دہلی سے جانے سے پہلے لاہور پہنچے جہاں حکم شاہی سے ان کی خوب خاطر تواضع کی گئی۔ انہیں ملاقات کے لیے حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں لے جایاگیا۔ حضرت بڑے اخلاق سے ملے۔ گفتگو کے دوران آپ نے سرراہے ایرانی مجتہد ہے پوچھا۔
کیاآپ کبھی کربلائے معلّی بھی حاضرہوئے؟
جی ہاں اللہ کا شکر ہے کئی باریہ سعادت حاصل کر چکا ہوں۔ ایرانی عالم نے بڑی بشاشت سے جواب دیا۔
حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اس مقام کی کچھ فضیلت بیان فرما دیں۔
ایرانی مجتہد کہنے لگے : ’’اس خاک پاک کی ایک ادنیٰ خاصیت یہ ہے کہ اس کے ارد گرد سات کوس تک دفن ہونے والے روزِ محشر بغیرحساب کے بہشت میں داخل ہوں گے۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کیا آپ کے خیال میں ایسی فضیلت انبیاء کرام کے مزارات کو بھی حاصل ہے؟ کیوں نہیں! ایرانی مجتہدنے کہا۔ نبیوں کے مزارات کے ارد گرد دس کوس تک دفن ہونے والے بغیرحساب کتاب جنت میں جائیں گے۔
اب حضرت نے فرمایا اگر نبی علیہ السلام کے مزاراقدس کے چاروں طرف دس کوس تک مدفون لوگ جنتی ہیں تو پھر ان دو بزرگوں کی بھی بخشش یقینی ہے جو سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفن ہیں۔
آپ کی یہ گفتگو سن کر ایرانی مجتہد مبہوت ہوگیا۔ اس سے کوئی جواب نہ بن آیا، اٹھ کرگورنر لاہورکیساتھ چلا گیا۔ اس نے سوچا ہو گا کہ جب لاہور میں اس پایہ کے عالم موجود ہیں تو دارالحکومت دہلی میں کن علماء سے واسطہ پڑے گا۔ چنانچہ وہ لاہور سے ہی واپس ایران چلا گیا۔
(تذکرہ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ : ص 112)
حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کی زبان مبارک میں بہت تاثیر تھی۔ جب ہر لفظ اخلاص اور سوز لیے ہوتو وہ ’’از دل خیز دبر دل ریزد‘‘کے مصداق اس کی اثر آفرینی مسلم ہے۔
آپ اپنے خاص احباب سے (معرفت کی) گفتگو اشاروں میں فرما دیا کرتے لیکن عوام میں احتیاط برتتے۔ فرماتے : اگراس راہ پر چلیں گے توساری پوشیدہ باتیں ظاہر ہو جائیں گی اگر نہ چلیں گے تو ایسی اعلیٰ درجے کی باتیں سمجھنا ان کے لیے دشوار ہے۔ ایسی باتیں آپ تحریر میں لانا بھی پسندنہ کرتے تھے۔۔۔۔۔
شہزادہ داراشکوہ کی روایت کے مطابق جہانگیر بادشاہ نے جب تخلیے میں حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کی کفتگو سنی تو اس کے دل پر بہت اثر ہوا۔ اس کا دل دنیا کی رنگینیوں سے اچاٹ ہوگیا۔
عرض کی : میں ملک اور دنیا چھوڑ کر فقیر بننا چاہتا ہوں میرے دل میں اب سنگ و جواہر یکساں ہیں۔ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اگر ایسا ہے تو صوفی ہے۔ عرض کی اپنا خادم بنا لیں اورخدا کی راہ دکھائیں۔
آپ نے فرمایا : تومخلوقِ خدا کے لیے اچھاحکمران ہے۔ اللہ تعالٰی نے تجھے اس عظیم کام پر مامور کیا ہے۔ کوئی اورشخص جو خلق خدا کا اتنا خیر خواہ ہو، حلیم ہو اور سخی ہو اسے تم مہیا کر کے بادشاہ بنا دو ہم تمہیں فقیر بنا لیں گے۔ (سکینۃ الاولیاء : ص 46)
شہزادہ داراشکوہ راوی ہیں کہ :
’’شاہ جہاں حاضرخدمت ہوا تو اسے نصیحت فرمائی کہ عادل بادشاہ کو اپنی رعایا اور سلطنت کی خبرگیری رکھنی چاہیے اور تمام ہمت اپنی ولایت کو آباد کرنے میں صرف کرنی چاہیے فرمایا اگر رعیت آسودہ حال ہو اور ملک آباد تو سپاہ آسودہ اور خزانہ بھرا ہو گا‘‘۔
(تذکرہ اولیائے پاک و ہند : ڈاکٹر ظہور الحسن شارب، ص 245)
جب دوسری مرتبہ شاہ جہاں حاضر ہوا تو آپ نے بہت عمدہ اور لطیف باتیں فرمائیں۔ بادشاہ نے عرض کی کہ آپ توجہ فرمائیں تاکہ ہمارا دل دنیا کی طرف سے سرد ہو جائے۔ آپ نے فرمایا :
’’جب تم کوئی نیک کام کرو اور مسلمان کا دل خوش ہو جائے تواس وقت اپنے حق میں دعا کیا کرو اور اللہ تعالٰی سے اللہ تعالٰی کے سواکچھ نہ مانگو۔
مخلوق خدا سے شفقت و محبت
اللہ تعالٰی کے بندوں سے پیار اس کی مخلوق پر شفقت و ترحم ان کے دکھوں کامداوراوران کی دلجوئی اہل اللہ کا ہمیشہ سے شیوہ رہا ہے۔ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ خلقِ خدا کو رنج واَلم اور دکھ درد میں دیکھ کر بے چین ہو جاتے وہ اپنے متعلقین کو بھی خلقِ خدا سے پیار اور ان کے دکھ باٹنے کی تلقین فرماتے رہتے۔
٭ آپ کے پاس ایک شخص حاضْر ہوا جس کا بیٹا شدید بیمار تھا اور بچنے کی کوئی امید نہ رہی تھی۔ اس نے شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا : لوگوں کی حالت عجیب ہے چاہتے ہیں کہ درویشوں سے دعا کرا لیں اور سارے مسئلے دعا سے ہی حل ہو جائیں کچھ خرچ نہ کرنا پڑے۔
پھرفرمایا : میں ضمانت دیتاہوں کہ اگر تم بھوکوں کو کھانا کھلا دو اور ننگے بدنوں کو کپڑا پہنا دو تو اس کی برکت سے بھی مشکل حل ہوسکتی ہے۔
وہ شخص یہ باتیں سن کر چلا گیا۔ اگلے دن خوشی خوشی نذرانہ اور شیرینی لے کر حاضر ہوا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بھئی کس بات کی خوشی ہے؟ اس شخص نے کہا کہ حضور! میں کل آپ کی نصیحت سن کر گیا۔ بھوکوں کوکھانا کھلایا اور ننگے بدنوں کو لباس مہیا کیا۔ ابھی گھر نہیں پہنچا تھا کہ ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا میں نے سمجھا گھر سے کوئی بری خبر لایا ہے۔ جب پوچھا تواس نے بتایا کہ بیٹا صحت یاب ہوگیا ہے۔ (سکینۃ الاولیاء : ص 48)
٭ ایک مرتبہ کسی شخص نے چند سکے بطور نذرانہ پیش کیے اس وقت مجلس میں شاہ جہاں کسی علاقے کی فتح کے لیے طلب دعا کی خاطر حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا : میاں! ہمیں ان سکوں کی ضرورت نہیں یہ تمہارے سامنے بادشاہ بیٹھا ہے۔ یہ سکے اسے دے دو کہ انہیں ان سکوں کی زیادہ ضرورت ہے انہیں کی خاطر وہ لشکر کشی کر کے قتل وغارت کا بازار گرم کرتے ہیں۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کومثنوی اسرارخودی میں تفصیل سے بیان کیاہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے :
’’شیخ نے فرمایا : یہ سکے ہمارے بادشاہ کاحق ہے۔ وہ بادشاہ جو شاہی لباس میں دراصل ایک فقیر ہے۔ وہ سورج چاند اور ستاروں پر حکمران ہے لیکن پھر بھی ہمارا حکمران سب سے زیادہ مفلس ہے‘‘۔
’’اس نے اپنی نگاہیں غیروں کے دسترخوانوں پر جما رکھی ہیں۔ اس کے اندر بھوک کی بھڑکنے والی آگ نے ایک دنیا کوجلا کر راکھ کردیا‘‘۔
’’وہ ایسا نادار ہے کہ اس کی چھینا جھپٹی سے دنیا فریاد کناں ہے اس ہاتھ خالی اور کمزور کو دکھ دے کر دولت سمیٹنا چاہتاہے‘‘۔
پھر شیخ الاسلام بادشاہ کی طرف رخ کر کے فرماتے ہیں :
’’فقیر اگر بھوکا ہے تو بھوک کی آگ صرف اس کی جان کو جلاتی ہے لیکن بادشاہ کی بھوک ملک و ملت کو فنا کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔
شیخ الاسلام حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کاایک ایک لمحہ اخلاص وللھیت کے ساتھ خلقِ خدا کو نفس و شیطان کے جال اور فریب کاریوں سے بچانے، ردائل اخلاق سے ان کاتزکیہ کرنے اور اعلیٰ اخلاقی خوبیوں سے آراستہ کرنے میں صرف ہوا۔
اس مختصر مقالہ میں حضرت شیخ الاسلام میاں میرقادری رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاق عالیہ اور تعلیمات کا اجمالی تذکرہ ہوا، ورنہ بقول شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ :
نہ حسنش غایتے داردنہ سعدی را سخن پایاں
بمیرد تشنہ مستسقی و دریا ہمچناں باقی