یہ ایک حقیقت ہے کہ محض قانون کے متعارف کروانے سے کبھی کسی قوم کی اصلاح نہیں ہوسکتی جب تک اس کے ساتھ خوف خدا اور اخلاقی تربیت نہ ہو۔ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار انحطاط کا شکار ہیں۔ سکولز وکالجز میں نصابی کتب اور معلومات کے حصول پر تو تاکید کی جاتی ہے مگر طلبہ اور نوجوان نسل کی اخلاقی آبیاری کا سامان موجود نہیں۔ اخلاقی اقدار کے متعلق تعلیم تو دی جاتی ہے مگر اسے انسانی شخصیت کا جزو بنانے کے لئے کسی قسم کا کوئی بھی اہتمام نہیں کیا جاتا۔ اگر ہم اسلام کی روشن تاریخ پر ایک نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ جملہ علوم کے ائمہ نے بالعموم اور ائمہ اخلاق نے بالخصوص بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کو اپنی کتب کا موضوع بنایا۔ صوفیاء و علماء کی مجالس میں ان اخلاقی اقدار کو انسانی شخصیت کا حصہ بنانے کے لئے باقاعدہ تربیت کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔
حصولِ اخلاق کے متعلق ائمہ کرام نے کچھ ایسے عملی پیکجز پیش کئے ہیں جن کا آج ہمارے معاشرے میں فقدان ہے۔ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار کا فقدان کی وجہ یہ ہے کہ ہر طبقہ نے اپنے ذمہ واجب الادا اخلاقی فرائض کو کماحقہ پورا نہیں کیا۔ مادیت کے غلبہ کے باعث انسان کا اخلاقیات و روحانیت سے تعلق ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ائمہ اخلاق کی تعلیمات کی روشنی میں انفرادی و معاشرتی سطح پر اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے اور بداخلاقی کے سدباب کے لئے باقاعدہ اہتمام کیا جائے۔ زیر نظر تحریر میں اخلاق کو سنوارنے کے لئے ائمہ اخلاق کی بیان کردہ چند اُن چیزوں کو بیان کیا جاریا ہے، جنہیں بہر صورت ہمیں اپنے اور اپنے بچوں کی سیرت و کردار میں پیدا کرنا ضروری ہے۔
اخلاق کیا ہے؟
’’اخلاق‘‘ تعلیمات اسلام کا ایک اہم عنصر ہے۔ اسلام کی بنیاد اخلاق حسنہ پر ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے قرآن مجید نے فرمایا:
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْم.
(القلم، 4: 86)
’’بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظیم الشان اخلاق کریمہ کے حامل ہیں‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:
انما بعثت لاتمم حسن الاخلاق.
(مالک، الموطا، کتاب حسن اخلاق، باب ماجاء فی حسن الخلق، ج2، ص409)
’’میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘۔
حسن اخلاق کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث پاک سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت ابولدرداء سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ما من شئ اثقل فی ميزان المومن يوم القيامه من حسن الخلق.
(جامع ترمذي، کتاب ابرالصله، باب ماجاء في حسن الخلق، 2:۱2، رقم2002)
’’کوئی چیز جو قیامت والے دن مومن کے حساب کے ترازو میں رکھی جائے گی، حسن اخلاق سے زیادہ بھاری نہیں ہوگی‘‘۔
امام غزالی اخلاق کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فالخلق عبارة عن هيئة في النفس راسخة عنها تصدرالا فعال بسهولة ويسر من غير حاجة الي فکر وروية فان کانت الهئية بحيث تصدر عنها الافعال الجميلة المحمودة عقلا و شرعا سميت تلک الهئية خلقا حسنا وان کان الصادر عنها الافعال القبيحة سميت الهئية التي هي المصدر خلقا سئيا.
’’خلق نفس کی اس ہیئت راسخہ کا نام ہے جس سے تمام افعال بلاتکلیف صادر ہوں گے اگر یہ افعال عقلاً یا شرعاً عمدہ اور قابل تعریف ہوں تو اس ہیت کو خلق نیک اور اگر برے اور قابل مذمت ہوں تو اس ہیت کو خلق بد کہتے ہیں‘‘۔
(الغزالی، احياء العلوم الدين، 3:۵2)
طبائع کی اقسام
انسان کی طبائع مختلف ہوتی ہیں بعض قدرتی خوش خلق پیدا ہوتے ہیں جنہیں کسی قسم کی ریاضت و مشقت برداشت نہیں کرنی پڑتی اور بعض لوگ تعلیم و تربیت سے اپنے اندر اچھے اخلاق پیدا کرلیتے ہیں۔ ائمہ اخلاق میں سے سر فہرست نام امام ابن مسکویہ کا ہے۔ آپ اپنی کتاب تہذیب الاخلاق میں لکھتے ہیں کہ انسان کی فطرت اور اخلاق میں جو اختلافات پیدا ہوتے ہیں ان کے اسباب بیان درج ذیل ہیں:
- اختلاف کا ایک سبب مزاج کا اختلاف ہے مثلاً گرم مزاج لوگ زیادہ تر بہادر اور فیاض ہوتے ہیں۔ مزاجوں کا اختلاف بھی اخلاق پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔
- دوسرا سبب سرزمین اور آب و ہوا کا اختلاف ہے کیونکہ ان کا اثر انسان کے اخلاق پر ہوتا ہے جس سے اخلاق متاثر ہوتے ہیں مثلاً انسان جس آب و ہوا میں رہنے کا عادی ہو اور کچھ عرصے کے لئے کہیں اور رہنا پڑ جائے تو مختلف سرزمین کے رہنے والے لوگ اپنے اخلاق سے پہچانے جاسکتے ہیں۔
- تیسری چیز جو اخلاق پر اثر انداز ہوتی ہے وہ انسان کا آبائی مذہب اور صحبت ہے جس میں انسان دن رات گزارتا ہے۔ مثلاً بہادروں میں رہنے والا بچہ بھی بہادر ہوجاتا ہے اور جن بچوں کی تربیت عورتوں اور مخنثوں کے ساتھ ہوتی ہے، ان میں زنانہ پن پیدا ہوجاتا ہے۔ اور جو لوگ بزرگ لوگوں کی مجالس اختیار کرتے ہیں، ان پر ان کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔
گویا اخلاقی فطری بھی ہوتا ہے اور تعلیم و تربیت سے بھی پروان چڑھتا ہے۔ تعلیم و تربیت سے پروان چڑھنے والے اخلاق کی وضاحت کرتے ہوئے ابن مسکویہ تہذیب الاخلاق میں کہتے ہیں کہ
’’انسان عادتاً بار بار اس کی مشق کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے اور بعض اوقات اس کا مبداء (بنیاد) روایت و فکر بھی ہوتی ہے‘‘۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اخلاق دو طرح کے ہیں ایک طرف وہ انسان ہیں جو فطری طور پر اچھے اخلاق کے مالک ہوتے ہیں ان کی عادت میں شروع سے ہی اچھے اخلاق شامل ہوتے ہیں اور دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہیں غورو فکر، ریاضت و مجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ صرف وعدہ، وعید، مدح و ذم اور ترغیب و ترہیب سے اس کام کو کرسکتا ہے۔ ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے جن کو اخلاق حسنہ کا خوگر بنانا مقصود ہو ان کے لئے ائمہ نے باقاعدہ اخلاق کے اصول مرتب کئے۔
اخلاق کے اصول
علامہ مسکویہ نے تہذیب الاخلاق اور امام غزالی نے احیاء العلوم اور اپنی دیگر کتب میں بچوں کی روح کی پاکیزگی اور تربیت کے کچھ اصول مرتب کئے ہیں جو درج ذیل ہیں:
اچھے کاموں پر تعریف
بچوں کے لئے یہ امر ضروری ہے کہ اگر اُن سے اچھا اور بہتر کام سرزد ہو تو اس عمدہ کام پر ان کی تعریف کریں اور اس کام کی بھی تعریف کریں جو انہوں نے کیا تاکہ وہ آئندہ بھی اس اچھے اور خیر پر مبنی کام کو کرنے کی طرف مائل رہیں۔
حوصلہ افزائی
بچوں کی حوصلہ افزائی اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے کرنی چاہئے۔یہ نہیں کہ کھانے، پینے اور نئے کپڑوں کی خواہش پر انہیں اچھا قرار دیا جائے۔بچے کو سزا سے ڈرانا چاہئے اور ہر قسم کی برائی سے خوف دلانا چاہئے جو بھی ان سے ظاہر ہوں۔ یعنی برے افعال پر انہیں ڈرایا جائے تاکہ بچہ وہ عمل کرنے سے بعض آجائے۔
کھانے پینے کے آداب
ٍ بچے کو کھانے پینے کے بنیادی اصول سکھانے چاہئیں کیونکہ یہ اس کی جسمانی صحت کے لئے ضروری ہے۔ امام ابن مسکویہ کے نزدیک خوراک بدن کے لئے دوا کی مانند ہے جو بیماریوں سے حفاظت اور بھوک سے نجات کا ذریعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خوراک لذت کے لئے نہیں بلکہ جسم کو طاقت پہنچانے کے لئے ہونی چاہئے۔نیز بچوں کے اندر سے حرص اور خاص کر کھانے کی لالچ کو روکنے کے لئے تربیتی انداز اپنائیں۔
لباس کے آداب
بچے کی پرورش اس طریقے پر ہونی چاہئے کہ وہ لوگوں میں قابل عزت اور معزز ہو اور ایسے لباس کو اختیار کرے جس میں شرم و حیا کا عنصر بھی موجود ہو اور وقار بھی قائم رہے۔
جسمانی ورزش اور کھیل کے اصول
مخصوص اوقات میں بچوں کے لئے آزادی سے کھیلنا از حد ضروری ہے۔ ایسے کھیلوں کی طرف اْسے راغب کیا جائے جس سے سستی و کاہلی ختم ہو۔ نیز زیادہ سونے سے منع کریں کیونکہ زیادہ سونا قبیح ہے اور یہ ذہن کو کند بنادیتا ہے۔
مجلس کے آداب
بچوں کو اچھے اخلاق سکھانے کے لئے مجالس کے آداب کا سکھانا ضروری ہے۔ اُنہیں اٹھنے بیٹھنے کے طریقوں سے واقف ہونا چاہئے کہ بزرگوں، خواتین اور اپنے سے بڑوں یا چھوٹوں میں کس انداز سے بیٹھنا ہے اور کس طرح ان کا ادب بجا لانا ہے۔
زیادہ گفتگو سے پرہیز
بچوں کو اس بات کا عادی بنائیں کہ زیادہ کلام کرنے سے پرہیز کریں بلکہ عمل کی جانب راغب رہیں، ان کے اندر کسی بھی چیز میں غوروفکر کرنے کی عادت کو آہستہ آہستہ پختہ کریں۔
دینی تعلیم
بچے کو شریعت کی تعلیم دلوائی جائے تاکہ وہ اپنے فرائض سے آگاہی حاصل کرے اور پھر اسے دوسری تعلیم دلوائی جائے۔ نیز ایسے اصول بچے کو سکھائے جائیں جن سے وہ اچھے امور کی طرف راغب ہو۔ حق اور باطل میں واضح امتیاز کرسکے۔
بچہ ایک امانت ہے
امام غزالی احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ کسی بھی انسان میں محاسن اخلاق پیدا کرنے اورانہیں پختہ کرنے کے لئے اس کی بہترین عمر اس کے بچپن کا زمانہ ہے۔ اس لئے کہ بچہ ایک سادہ و نفیس جو ہر قلب رکھتا ہے اور اسے آسانی سے اچھے اخلاق کا عادی بنایا جاسکتا ہے۔ بچہ ماں باپ کے پاس ایک امانت ہے اسے جس طرف کو مائل کرو، اسی طرف میلان کے قابل ہوتا ہے۔ لہذا اس امانت کا حق صحیح طور پر اس کی تربیت کی صورت میں ادا کرنا چاہئے۔
دیندار عورت کا دودھ پلانا
بچے کو کسی عورت نیک بخت، دیندار، حلال خور کا دودھ پلانا چاہئے کیونکہ حرام کے دودھ میں برکت نہیں ہوتی۔ جب بچپن میں حرام کا دودھ پیتا ہے تو اس کے دل میں رچ جاتا ہے اور وہ بڑا ہوکر خبث کی رغبت کرتا ہے۔
بچے کی نگرانی
ابتداء ہی سے بچے کی خبر گیری رکھنا ضروری ہے اور اس کی نگرانی کی جائے کیونکہ اگر خبر گیری نہیں ہوگی تو اس میں بری عادات پیدا ہوسکتی ہیں مثلاً جھوٹ، حسد، چوری، جھگڑا کرنا، چغل خوری، بے ہودگی، بے فائدہ ہنسنا، مکاری اور بے پروائی۔ ان برائیوں سے بچنا حسن تادیب ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب والدین بچے کی نگرانی کریں، اسے آزاد نہ چھوڑ دیں۔
صبر و تحمل
بچے کو صبر کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے کہ جب استاد کسی بات پر جھڑکے یا سزا دے تو آگے سے شور نہ کرے اور نہ ہی کسی کی سفارش کروائے بلکہ صبر سے کام لے۔
غذا کے متعلق عمدہ تخیل
غذا کے متعلق بچے کو عمدہ تخیل دیناچاہئے کہ طعام بمنزلہ دوا کے ہے۔ ان سے یہ غرض ہے کہ اللہ کی عبادت کے لئے طاقت پیدا ہو۔ کیونکہ کمزور جسم سے انسان اللہ کی ٹھیک طرح عبادت نہ کرسکے گا اور احکام بجا نہ لاسکے گا اس لئے غذا کو بطور اللہ کی فرمانبرداری کے استعمال کرنا سکھانا چاہئے اور اسے بسیار خوری کے فوائد اور پیٹ بھر کر کھانے کے نقصانات بتانے چاہئیں۔
دنیا کی بے ثباتی
بچے کو بتانا چاہئے کہ دنیا ایک ناپائیدار شے ہے۔ موت اس کی نعمتوں کا خاتمہ کردیتی ہے اس لئے اس کی کوئی وقعت نہیں۔ یہ صرف ایک گزرگاہ ہے۔ سکون و قرار کا مقام نہیں لیکن عالم آخرت حقیقی سکون و اطمینان کی جگہ ہے اور موت ہر گھڑی سر پر کھڑی ہے۔
بچے کو یہ بات سکھانی چاہئے اور سمجھانی چاہئے کہ انسان اس دنیا سے آخرت کا سامان کرے یعنی زاد راہ اور نیکیوں کا سرمایہ اکٹھا کرے تاکہ اللہ کے ہاں آخرت میں اسے اونچا درجہ نصیب ہو اور جنت کی وسیع نعمتیں ملیں۔
بچے کی غلط ذہنی نشوونما کا سدِّ باب
اگر بچے کی ابتدائی ذہنی نشوونما غلط طریقہ پر کی جائے یا اس پر توجہ نہ دی جائے تو اس میں طرح طرح کی برائیاں پیدا ہوجائیں گی اور عادت جب پختہ ہوجائے تو آسانی سے بدلنا محال ہے۔ اس لئے اوائل عمر میں اس حوالے سے خیال رکھنا بہت ضروری امر ہے تاکہ اس میں بے حیائی، جھوٹ، فحش گوئی، طمع، آرائش، نزاکت، تکبر و غرور جیسی خصلتیں پیدا نہ ہوں۔ اگر اس میں یہ خصلتیں پیدا ہوچکی ہوں گی تو اس کا دل اس حقیقت کو قبول کرنے سے اسی طرح انکار کردے گا جس طرح خشک دیوار سوکھی مٹی کو قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ غرض یہی ابتدائی امور ہیں جن کا پوری طرح خیال رکھنا ضروری ہے۔
متفرق اخلاقی اقدار
امام ابن مسکویہ نے تہذیب الاخلاق اور امام غزالی نے احیاء العلوم میں درج ذیل مزید اخلاقی اقدار کو بھی بیان کیا ہے جن کی تعلیم دینا اور ان کے مطابق بچوں کی تربیت کرنا از بس ضروری ہے۔ بصورت دیگر ان بچوں کے حوالے سے والدین و اساتذہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام متصور ہوں گے۔
- قناعت و ایثار کی تلقین
- قسم کھانے سے پرہیز
- فضولیات سے پرہیز
- حکم ماننا اور عزت کرنا
- شکوہ نہ کرنا
- سادگی کی عادت ڈالنا
- شرم و حیاء کا پیکر بنانا
- فخرو غرور سے اجتناب
- تواضع سے پیش آئے
- خود داری سکھانا
- ہاتھ پھیلانے کی ممانعت
- بزرگوں کی تعظیم کے آداب
- سبق آموز کہانیاں سنانا
حصول اخلاق کے طریقے
انسان کی شخصیت کا نکھار اچھے اخلاق میں مضمر ہے۔ اچھے اخلاق کی بدولت انسان نہ صرف اس دنیا بلکہ مرنے کے بعد بھی اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی سعادت سے بہرہ مند ہوگا۔ ابن مسکویہ نے اچھے اخلاق کو اپنانے کی نہ صرف تلقین کی ہے بلکہ نفس کی تہذیب و تربیت کے لئے کچھ ایسے نکات پیش کئے ہیں جن پر عمل کرکے انسان اپنے اخلاق سنوار سکے۔ یہ طریقے اور نکات درج ذیل ہیں:
- تمام افعال و اعمال میں خیر کو شر پر، عقائد میں حق کو باطل پر اور اقوال میں صدق کو کذب پر ہمیشہ فوقیت دینی چاہئے۔
- دائمی جہاد بالنفس کرتے رہنا یعنی انسان نفس کی خواہشات کے خلاف ہمیشہ برسرپیکار رہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کو مقدم و فائق رکھے۔
- التمسک بالشريعة، ولذوم وظائفها: شریعت پر عمل کرنا اور ان تمام اعمال کو لازم پکڑنا جو کہ شریعت کے وظائف میں شامل ہیں یعنی جن باتوں کا حکم دیا ہے ان کو کرنا اور جن سے منع فرمایا ہے ان سے رک جانا۔
- تمام جرائم کی وعیدوں کو یاد رکھنا اور تمام گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے نیز بندہ اور اللہ کے درمیان جو تعلق ہے وہ ہمیشہ ذہن نشین رہے۔
- لوگوں سے امیدیں نہ لگانا اور ان سے تکثیر اختلاط سے بچے۔ یعنی لوگوں کے ساتھ بے تکلف ہونے سے احتراز کرنا تاکہ ان پر اعتماد کرنے کی نوبت نہ آئے۔
- الصمت فی اوقات حرکات النفس للکلام، حتی يستشار فيه العقل: جب نفس کثرت کلام کی طرف مائل ہو تو نفس کو کثرت کلام سے روکنا اور عقل سے بھی مشورہ کرنا۔
- اپنے حال کی حفاظت کرنا نیز لوگوں سے اختلاط کی حالت و کیفیت میں فساد اور گناہوں میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔
- الاقدام علی کل ماکان صوابا: ہر نیک کام کی پیش قدمی کرنی چاہئے۔یعنی اچھے اور پسندیدہ کاموں میں دلچسپی لینا اور ان کے لئے اقدام کرنا۔
- صرف ان چیزوں کا شوق ہونا چاہئے جو کہ آخرت کے اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں اور ان چیزوں سے اجتناب کرنا چاہئے جو کہ لا یعنی اور فضول ہیں۔ یعنی ادنی مشاغل کے مقابلے میں اعلیٰ ذہنی اور اخلاقی مشاغل میں اپنے آپ کو مشغول رکھنا۔
- موت کا ڈر دل سے نکال دینا اور فقر کے خوف کو بھی دل میں جگہ نہ دینا اور جتنا کام انسان کرسکے اتنا کرتا رہے اور کثرت کلام چھوڑ دینا۔
- غناء اور فقر دونوں صورتوں میں اللہ پر بھروسہ رکھنا۔ نیک بختی اور بدبختی، شائستگی اور حقارت دونوں قسم کے سلوک کا اپنے آپ کو خوگر بنانا۔
- مرض کو صحت کے وقت یاد کرنا اور غم کو خوشی کے اوقات میں، رضا کو غضب کے وقت یاد کرنا چاہئے تاکہ طغی اور بغاوت کم ہو۔ اللہ رب العزت کی رضا پر راضی رہنا چاہئے اور اس سے امید رکھنی چاہئے۔ یعنی صحت کی حالت میں بیماری کے ایام، غصے میں خوشی و مسرت کے لمحات کو یاد کرنا تاکہ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے کی نوبت نہ آئے۔
- اللہ رب العزت پر توکل اور تمام معاملات اس ذات کی طرف لوٹانا۔ یعنی خدا پر بھروسہ رکھنا اور امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔
(مير ولي الدين، تاريخ فلاسفة الاسلام، ص304)
اگر امام ابن مسکویہ کے ان تربیتی نکات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات بہت واضح ہوجائے گی کہ انہوں نے اس میں دین کی تعلیمات کو سمونے کی بھرپور کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی رہے۔ عملی طور پر انسان کو اخلاقیات کے حوالے سے جن چیزوں کو سنوارنے کی ضرورت ہوتی ہے امام ابن مسکویہ نے انہیں بیان کیا۔
خلاصہ کلام
انسان کے اخلاق سے ہی اس کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔ اس کا اٹھنا، بیٹھنا، بول چال، پہننا اوڑھنا ، کھانا پینا اس کے اخلاق و تہذیب کی ترجمانی کرتا ہے اور معاشرے میں وہ ایک کامیاب انسان کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اس کا رہن سہن، میل ملاپ ایک اچھے انسان ہونے کی غمازی کرتا ہے اور معاشرہ اس پر گواہ بن جاتا ہے۔ اپنے اچھے اخلاق کی بنا پر وہ نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کی ضمانت حاصل کرلیتا ہے۔
آج ہم اپنے بچوں کی کماحقہ تربیت کے تقاضوں سے ناآشنا ہیں۔ ہمارے علم میں یہ بھی نہیں کہ ہم اخلاق کو کس طرح اپنی فطرت ثانیہ بنائیں۔بلاشبہ انسانی طبیعت و مزاج میں فرق ہوتا ہے مگر ہر طبیعت و مزاج کے مطابق اس کا اخلاقی علاج بھی باقاعدہ ائمہ کرام نے تجویز کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان اخلاقی تعلیمات کو مادیت پر غالب رکھیں اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر انسانیت و اسلام کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ایک اچھے ، باعمل، تربیت یافتہ اور بااخلاق انسان اور مسلمان کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں۔
اچھے اخلاق جہاں قدرتی طور پر انسان میں موجود ہوتے ہیں وہیں مشقت و ریاضت سے بھی ان کا حصول ممکن ہے چونکہ اخلاق سے ہی انسانوں کی پہچان ممکن ہے اور ایک انسان میں بنیادی قدر اچھے اخلاق کا پایا جانا ہے جس سے اس کی اپنی ذات، ملک و قوم کی شناخت ہوتی ہے۔اس کا آغاز بچپن سے ہوتا ہے۔ اس لئے کہ انسانی شعور کے ابتدائی مراحل کی بہت زیادہ اہمیت ہے کیونکہ یہ وہ دور ہے جب بچے میں سیکھنے کی استعداد زیادہ ہوتی ہے اور چھوٹی عمر میں وہ جو سیکھے گا اس کی ذات اور عادت کا حصہ بن جائے گا۔ اس لئے ابتدائی سال بچے کی زندگی کے بہت اہم تصور کئے جاتے ہیں۔ اگر ان کی پرورش صحیح اصولوں پر کی جائے تو ان میں محاسن اخلاق پیدا کرنا مشکل امر نہیں۔انسانی شخصیت کو نکھارنے اور سود مند بنانے کے لئے ان ائمہ کی تعلیمات پر کاربندہونا ضروری ہے تاکہ انسان اپنے اور دوسروں کے لئے مفید ثابت ہو۔